بم پگڑی میں یا ہیٹ Hat میں

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

ڈنمارک کے اخبار نے جوناپاک پروپیگنڈہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرکے کرنا چاہا ہے وہ نیا نہیں ہے۔ صلیبی جنگوں کے وارثین سینکڑوں سالوں سے نت نئی مکاریوں، سازشوں اور حملوں سے اس مکروہ اور بے اصل پروپیگنڈہ کو ہوا دیتے آرہے ہیں تاکہ دنیا خود ان مکاروں اور سامراجیوں کی لوٹ کھسوٹ اور ہوسِ ملک گیری کو نہ دیکھ سکے۔ ماضی قریب میں کیا کوئی مثال ایسی ملتی ہے کہ کسی مسلمان ملک نے صرف ہوس ملک گیری کے لئے یا لوٹ کھسوٹ کے لئے دوسرے ملک پر حملہ کیا ہو؟ پچھلے ۲۰۰ سالوں میں مختلف یوروپی طاقتوں نے دنیا بھر کے ممالک کو غلام بنایا۔ ہالینڈ، اٹلی، فرانس، برطانیہ، وغیرہ نے مل کر دنیا کے بڑے حصہ کو اپنی ہوس ملک گیری کا شکار بنایا۔ انڈونیشیا، الجزائر، ہندوستان، لیبیا، افریقہ وغیرہ دنیا کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جہاں اِن لالچی طاقتوں نے حملہ نہ کئے ہوں۔ ملکوں کو غلام نہ بنایا ہو، کھیتوں کو برباد نہ کیا ہو، صنعتوں کو برباد نہ کیا ہو اور آبادی کو ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ یہ سب تاریخی حقائق ہیں۔ پگڑی میں بم دکھانے والوں نے شاید اس مشہور کہاوت کو نہیں سنا کہ شیشہ کے گھروں میں رہنے والے دوسروں پر پتھر نہیں پھینکا کرتے۔

”بم“ کی بات آگئی ہے تو کچھ تاریخی حقائق اور موجودہ شواہد پر ایک سرسری نظر ڈال لیں تاکہ یہ قطعی طور پر طے ہوجائے کہ ”بم“ کی تہذیب کی آبیاری کس نے کی؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مدنی زندگی کے دس سالوں میں ایک ملین میل علاقہ پر اسلامی حکومت چھوڑی جس کے قیام میں دونوں جانب کے جانی نقصان کو چند ہزار نفوس پر مشتمل مانا جاتا ہے۔ اس کے برعکس صرف چھوٹے چھوٹے ممالک لیبیا، الجزائر، فلسطین وغیرہ میں آزادی کی جنگ میں بیس بیس لاکھ لوگ انہیں ظالموں کے ذریعہ شہید کئے گئے۔ ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں لاکھوں لوگ شہید ہوئے۔ صرف ۱۸۵۷/ کے غدر میں ہی ہلاکت لاکھوں میں پہنچتی ہے۔ پہلی دوسری جنگ عظیم جوکہ عیسائی ممالک کے درمیان ہی بنیادی طور پر لڑی گئی اس میں ہلاکت کروڑوں میں ہوئی۔ دنیا میں پہلی بار نیوکلیائی اسلحہ بھی اسی 'Hat' ہیٹ والی تہذیب نے کیا؟ اسی Hat والی تہذیب نے ۶۱/ سال پہلے یہودیوں کا قتل عام کرایا جس میں لاکھوں لوگوں کو گیس چیمبر میں ڈال کر بھون دیا گیا اور اس کی تلافی یہودیوں کو عرب ممالک میں خنجر کی طرح پیوست کرکے کی گئی۔ ویتنام کے لاکھوں بے گناہوں کے قتل اور اپاہج بنادینے اور تاپام بموں اور کلسٹر بموں کی مار سہنے پر مجبور کرنے کا سہرا بھی اسی Hat والی تہذیب کو ہے؟ دنیا میں کیمیاوی اسلحہ جہاں بھی استعمال ہوا ہے اُس کی موجد یہی Hat والی تہذیب ہے؟ چاہے وہ ویت نام کے مظلوم عوام ہوں یا عراق میں کرد گاؤں حلابجہ کے یا سوویت یونین کے ذریعہ گرائے گئے Toybomb ہوں جو افغانستان میں گرائے گئے یہ سارے کیمیاوی اسلحہ کس تہذیب کی دین تھا؟

بم کس تہذیب کی تجارت ہے؟

مسلمان یا پگڑی والی تہذیب پچھلے کئی سو سالوں سے سائنس اور ٹکنالوجی میں اتنی پچھڑگئی ہے کہ وہ ہر چیز صرف خرید رہی ہے۔ اور صرف قدرتی دولت ہی برآمد کررہی ہے۔ مگر اس جدید تہذیب نے پچھلے ۲ سو سالوں میں انسانوں کی بربادی کی صنعت پر بلا شرکت غیرے قبضہ کررکھا ہے۔ سارے جدید ہتھیار برطانیہ، فرانس، امریکہ، اٹلی،روس کی Hat والی تہذیب نے ایجاد کئے ہیں اور وہی اس کو استعمال کررہی ہے وہی اس کی تجارت کررہی ہے اور نفع کمارہی ہے۔ یعنی انسانیت کی بربادی کے ذریعہ نفع کمانے کا کاروبار یہی Hat والی تہذیب نے کیا اور ہنوز جاری ہے۔ اس میں قابل افسوس بات اور سنگدلی ومکاری کی انتہا یہ ہے کہ اسلحہ کے دھندہ کو مندہ ہوتے دیکھ کر یہ کہیں بھی آگ بھڑکا دیتے ہیں یا لگادیتے ہیں۔ امریکی برطانوی حکومت کے ہم نوا اخبار ”دی اکنامسٹ“ نے ۲۹-۲۲/ستمبر کے اپنے مضمون میں اعتراف کیا ”جنگ اپنے میں کوئی بری بات نہیں ہے۔ ”جنگ کا انعام“ کے تحت عنوان میں لکھا کہ سرکاری خرچ میں اچھال آتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم نے عالمی منڈی کے اثرات کو ختم کردیا تھا۔ کوریائی اور ویتنامی جنگ نے بھی بازار میں اچھال پیداکیاتھا۔ امیرکی سرکار نے دنیا بھر کی کٹوتیوں اور گھاٹوں کے دوران ابھی تک کا سب سے بڑا ملٹری آرڈر لاک ہیڈ مارٹن کو ۳۰۰ /ارب ڈالر کا دیا۔ ان کی سپلائی ۲۰۰۶/ میں شروع ہوگی۔ اس لئے یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس وقت امریکی شیئر بازار میں سب سے اچھا بازار ملٹری انڈسٹری میں ہورہا ہے۔ (اقتصادی بحران جنگ اور انقلاب ،ص:۲۰)

اس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں ۲۰۰۰/ میں ۴۰/ارب ڈالر کا ہتھیار فروخت ہوا۔ صرف امریکہ کا حصہ 18.6 بلین ڈالر تھا۔ باقی فرانس، برطانیہ، روس، اسرائیل وغیرہ کا تھا۔ ۱۹۹۸/ کے بعد یہ خرچہ ۶٪ بڑھ گیا تھا۔ گذشتہ سال کے اعداد و شمار اس طرح ہیں:

۲۰۰۴/ میں سب سے زیادہ اسلحہ کی فروخت ہوئی جو ۳۷- ارب ڈالر تھی۔ جس میں اکیلے امریکہ کا حصہ 12.4 ارب ڈالر تھا۔ اس کے علاوہ روس، فرانس، برطانیہ، اسرائیل کا حصہ ہے۔ ہتھیار خریدنے والوں میں 10.5 ارب ڈالر کے ساتھ چین پہلے نمبر پر رہا۔ بھارت 8 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے اور سعودی عرب تیسرے نمبر پر ہے۔(ٹائمز آف انڈیا۳۱/۸/۲۰۰۵/)

سارے اعداد و شمار آپ کے سامنے ہیں کوئی اندھا بھی فیصلہ کرسکتا ہے کہ بم پگڑی میں ہے یا ”ہیٹ“ میں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ دہشت گرد کہلائے جانے والے سارے گروہ انہیں ممالک سے ہتھیار خریدتے ہیں۔ RDX بھی وہیں بنتا ہے اور کلاشنکوف بھی وہیں بنتی ہے۔ پچھلے چار سو سال میں جنگوں کا ریکارڈ مغرب کے ہی ماہر نفسیات ایرک فرام نے اپنی کتاب The Anatomy of Destructiveness میں پچھلے ساڑھے چار سو سال میں یوروپ کے ذریعہ آپس میں لڑی گئی جنگوں کی تفصیل اس طرح دی ہے:

۱۴۹۹-۱۴۸۰                                   ۹              جنگیں                                      ۱۵۹۹-۱۵۰۰                           ۸۷          جنگیں

۱۶۹۹-۱۶۰۰                                     ۲۳۹        جنگیں                                      ۱۷۹۹-۱۷۰۰                          ۷۸۱        جنگیں

۱۸۹۹-۱۸۰۰                                    ۶۵۱         جنگیں                                      ۱۹۴۰-۱۹۰۰                          ۸۹۲        جنگیں

یہ کل ۲۶۵۹ جنگیں ہیں جویوروپ نے آپس میں لڑی ہیں۔ اس کے علاوہ باہر والوں سے جو خونریزی کی ہے اس کی طرف اشارہ شروع میں کرچکا ہوں۔ آج بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں جنگ ہورہی ہو ہتھیار اسی Hat والی تہذیب کا استعمال ہوتا ہے۔

جہاں تک حق یا آزادی اظہار کا معاملہ سبھی جانتے ہیں کہ ان تمام ممالک نے دہشت گردی سے لڑنے کے نام پر اپنے ممالک میں جو قوانین بنائے ہیں وہ ہرطرح کی آزادی کو ختم کررہے ہیں۔ پریس بھی ”ملکی مفاد“ کے نام پر خاموش کردیا جاتا ہے۔ جنگ کے دنوں میں CNN اور ABC و NYT ، FOX کس طرح سرکاری بھونپو بن گئے تھے سب کو معلوم ہے۔ فرانس میں سیکولرزم کے نام پر طالبات کو سرپر اسکارف باندھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ کوفی عنان کہتے ہیں مسلمانوں کو صبر اور برداشت سے کام لینا چاہئے، مگر موصوف UNO کی ذمہ داری بھول جاتے ہیں کہ اسے ”انصاف“ دلانا چاہئے۔ مجرمین محض دلآزاری کے لئے یکے بعد دیگرے کیوں وہی کام کررہے ہیں؟ مسلمان عالمی برادری اوراس کے اداروں کی کارگزاری بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ”انصاف“ کا معاملہ کیسے کرتی ہے؟

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد: 90 ‏،ربیع الاول1427 ہجری مطابق اپریل2006ء