اندھا یورپ

از: جناب عبداللہ التل

ترجمانی: مولانا سیدسلمان حسینی ندوی

 

عالمی یہودیت اوراس کی خفیہ حکومت نے اپنے خوفناک ہتھیاروں، ماسونیت، بنائی- برت، صہونیت اور سامی مخالف جیسی سازشی تنظیموں اور سونے کے ان ذخائر کے ذریعہ جن پر انیسویں صدی کے اواسط سے ان کا قبضہ ہوگیا تھا، یوروپ اور امریکا میں زبردست کامیابی حاصل کی، اور برطانیہ فرانس امریکہ اور سوویت یونین پراپنی خفیہ حکومت کا سکہ جاری کردیا۔

انیسویں صدی گذرتے گذرے یہودیوں نے امریکا اور یوروپ کے اکثر ممالک پر اپنا شکنجہ کس لیاتھا۔

۱- روٹشیلڈ کمپنی اور اپنے کروڑپتی ساہوکاروں، مائڈسن، باروخ، فرانکفورٹ، لازارد مرگنٹو، سلیگمان، چڑاوس اور کفلر کے ذریعہ یہودیوں نے دنیا کے اکثر سونے کے ذخائر پر قبضہ کیا۔

۲- امریکااور یوروپ میں اپنے سنٹرل بنکوں کے ذریعہ سکے جاری کئے۔

۳- امریکا اور اکثر یوروپین ممالک میں زبردست انوسٹمنٹ کے ذریعہ ریلوے نظام قائم کیا

۴- دنیا بھر کی الماس، چاندی، پیتل، اور نیکل کی کانوں پر قبضہ کیا۔

۵- ساسن کمپنی کے ذریعہ دنیا میں افیم کی تجارت اپنے ہاتھ میں لی۔

۶- مخرب اخلاق فلموں کو تیار کرنے اور انہیں پھیلانے کیلئے فلم انڈسٹری کے عالمی سطح پر مالکانہ اختیارات حاصل کئے۔

۷- مختلف حکومتوں کے درمیان تجارتی تبادلوں اور منافع اور کمیشن طے کرنے کے عالمی اختیارات کا حصول۔

۸- ازدواجی زندگی، اور گھروں کے ماحول کو تباہ کرنے کیلئے فیشن شوز اور عریانیت کافروغ

۹- دنیا کے دو اہم ترین بحری راستوں ”سویز کنال “ اور ”پناما کنال“ پر ان کی کمپنیوں کے اکثرشیئرز خرید کر قبضہ۔ ۱۸۷۹/ میں روٹشیلڈ اوراس کے ساتھی سلیگمان نے پناما کمپنی کی شیئرز کی خریداری کیلئے ۱۵۰ ملین ڈالر دئیے تھے۔

۱۰- فرانس، برطانیہ، امریکا اور کناڈا میں اناج اور دیگر غذائی سامان کی فراہمی پر کنٹرول۔

۱۱- امریکا، برطانیہ، فرانس اوراکثر یوروپی ممالک کے بنکوں پر قبضہ، امریکا میں ۱۹۲۶/ میں ان کی دولت کااندازہ ۵۰۰ ہزار ملین ڈالر سے لگایا گیاتھا، جس میں ۳۰۰ ہزار ملین ڈالر کی ملکیت صرف روٹشیلڈ کی تھی، جب کہ امریکا کے دیگر دولتمندوں کی ثروت کا اندازہ ۲۵ہزار ملین ڈالر لگایا گیا تھا۔

۱۲- روس، اسپین، فرانس، جرمنی اوراٹلی میں ہونے والی جنگوں اور انقلابات کی انھوں نے بھرپور مالی مدد کی، اور دونوں عالمی جنگوں کے اخراجات میں بڑا حصہ لے کر انھوں نے اپنے نفع اور مفاد کا زیادہ سے زیادہ انتظام کیا۔

۱۳-لیگ آف نیشنز اور پھر اقوام متحدہ کا اپنے مقاصد و مفادات کے لئے قیام کیا۔

۱۴- انھوں نے ہلیشیا، سموئیل اور ساسن خاندانوں کے توسط سے برطانیہ میں، مارگانٹو، برکنز، فرانکفورٹر اور باروخ کے خاندانوں کے ذریعہ امریکا میں، اور بلوم مانڈل زیس، ڈنینز، زیروسکی خاندانوں کے ذریعہ، فرانس میں، وابشٹائن اور ہائی مین کے ذریعہ بلجیکا میں، زامورا، ازاناس اور روزنبرگ کے ذریعہ اسپین میں،اور کاجونوفٹش، لیٹ فینوف، کاراگنز اور روٹسکی کے ذریعہ روس میں، تمام پارٹیوں اور حکومتوں پر اپنا قبضہ قائم رکھا، چاہے وہ کمیونسٹ ہوں یا سوشلسٹ یا ڈیماکریٹک ۔

۱۵- انھوں نے صحافت، ذرائع ابلاغ، ریڈیو، سنیما گھر، ٹیلی ویژن، اشاعتی اداروں، پبلک لائبریریز، پریس اور ایڈورٹائزمنٹ کمپنیوں پر مضبوط گرفت قائم کی، اپریل ۱۸۴۶/ میں یعنی آج سے ۱۱۸ سال پہلے یہودیوں کے درمیان مسیحیت کے فروغ کی سوسائٹی نے اپنے ایک ماہانہ نشریہ میں لکھاتھا:

”یوروپ کی ڈیلی سیاسی صحافت بڑی حد تک یہودیوں کے قبضہ میں ہے، اگر کوئی ادیب یا قلمکار سیاسی طاقتوں پر اثر انداز ہونے کیلئے یہودیوں کے راستہ میں آتا ہے تو یوروپ کے اہم ترین اخبارات اس کا سخت تعاقب کرتے ہیں۔“

بتاریخ ۲۶/جولائی ۱۸۷۹/ لندن کے اخبار (Graphic) نے لکھا تھا:

”یوروپ کے براعظم کی صحافت بڑی حد تک یہودیوں کے قبضہ میں ہے۔“

-----------------------------------------

تو آئیے اس کا جائزہ لیں کہ کیسے یہودیوں نے ان ممالک اور ان کی حکومتوں پر اس درجہ اثر ڈالا،اور معاشی، سیاسی، عسکری اور ابلاغی ذرائع و وسائل پر وہ کیسے اس درجہ قابض ہوتے چلے گئے، کہ حکومتوں کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آگئی، اور انھوں نے یوروپ کو نہ صرف اندھا غلام بنالیا، بلکہ ذلت کے ساتھ اپنے مقاصد ومفادات کیلئے اس کی ناک میں نکیل ڈال کر اس حد تک استعمال کیا کہ یوروپ نے انہیں سرزمین فلسطین اپنی عالمی حکومت کے دارالخلافت کے قیام کے لئے سونپ دی۔

۱- برطانیہ: یہودیوں کو برطانیہ سے بادشاہ ایڈورڈ اول کے دور ۱۲۹۰/ میں جلاوطن کردیاگیا تھا، لیکن وہ پھر ظالم و جابر حاکم ”کرومویل“ کے دور میں ۱۶۵۶/ میں برطانیہ میں دوبارہ آباد ہونے میں کامیاب ہوگئے، یہ کامیابی انہیں اس لئے ملی تھی کہ انھوں نے کرومویل کی بغاوت میں بھرپور مالی امداد کی تھی،اس مالی امداد میں سب سے بڑا حصہ ”منسہ بن اسرائیل“ اور ”موزش کاروگل“ کا تھا، اس مرحلہ پر برطانیہ کے لئے یہودیوں کی تھیلیاں کھل گئی تھیں، اور انھوں نے اس مرتبہ پچھلے حالات سے سبق لیتے ہوئے اپنے استحکام کے انتظامات پر پوری توجہ مبذول کی۔

یہودیوں نے اپنے اثرات قائم کرنے کے لئے مال کا بے دریغ استعمال کیا اور روٹشیلڈ کا خاندان برطانیہ کے تمام معاملات میں دخیل ہونے کے منصوبہ بند طریقوں کے لئے زبردست مالی امداد فراہم کرتا رہا، یہ وہی خطرناک صہیونی ہے جس نے جرمنی، فرانس، برطانیہ اورامریکا میں اپنا مستحکم جال پھیلانے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔

کرومویل نے جو رواداری کی پالیسی اختیار کی تھی،اس کا یہودیوں نے معاشی، سیاسی اور ثقافتی میدانوں میں بھرپور فائدہ اٹھایا، یہاں تک کہ انہیں اس درجہ نفوذ حاصل ہوگیا کہ ملکہ وکٹوریہ کے زمانہ میں ایک یہودی وزیراعظم بنا، یہ ہی لارڈ بیکونس فیلڈ ہے جس نے ۱۹۷۵/ میں سویز کنال کے مصری شیئرز چراکر برطانیہ میں ضم کرلئے تھے۔

بیسویں صدی شروع ہوتے ہوتے یہودی برطانیہ میں ایک زبردست طاقت بن چکے تھے، انھوں نے روٹشیلڈ اور ساسن کمپنیوں کے ذریعہ برطانیہ کی اقتصادیات، بنک، تجارتی اور صنعتی کمپنیوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ برطانیہ کے حدود میں سونے، الماس،اور پیتل وغیرہ کی کانوں پر بھی وہ قابض ہوگئے، انگلینڈ کے سنٹرل بنک کے - جو کاغذی نوٹ جاری کرتا ہے - اکثر شیئرز انھوں نے خرید لئے، اسی طرح ایران، عراق اور کویت میں برطانیہ کی پیٹرول کمپنیوں کو بھی خرید لیا۔

میدان سیاست میں انھوں نے اس درجہ نفوذ حاصل کیا، کہ لارڈ ریڈنگ حاکم ہندوستان، اور لارڈ ماونٹ بیٹن یہودی تھے، برطانیہ کے شاہی نظام کے ممبران میں مندرجہ ذیل یہودی لیڈران داخل تھے۔

(۱) فیکانیٹ سموئیل (۲) لارڈ ناتھن (۳) لارڈ سلکن (۴) سرہنری سلسیر (۵) سرپیرس ہارس (۶) سرسڈنی ابرافرے (۷) سرلونیل کوھن (۸) سرفیلکس کاسل (۹) ہاربلیچ (۱۰) امانمول سثویل (۱۱) چڑاؤس۔

ان کے علاوہ ایک لمبی تعداد ان سیاست کاروں اور ممبران کی ہے جو نیم یہودی تھے، ان میں اکثر کو وزارتی مناصب اور عہدے حاصل ہوتے رہے، وزارتی مناصب سے کم دیگر مناصب پر تو بے شمار یہودی فائز ہوئے۔

یہودیوں کے برطانیہ پر اثرات نے برطانوی قوم کو مسخ کرکے رکھ دیا، لندن کی میونسپلٹی کے صرف ایک الیکشن میں ۲۷/ یہودی کامیاب ہوئے، تمام برطانوی پارٹیوں پر بھی یہودیوں نے قبضہ کررکھاہے، کنزرویٹو ہو، یا لیبر، کمیونسٹ ہو یا لبرلسٹ ہر پارٹی ان کو راضی کرنے اوران سے مالی امداد کی بھیک مانگنے میں لگی رہتی ہے، برطانیہ کا کوئی بھی حکمراں یا ذمہ دار شخص یہودی شکنجہ سے باہر نہیں ہے، یہودیوں نے انہیں اپنی مضبوط گرفت میں لے رکھا ہے۔

برطانیہ میں یہودی صحافت

اٹھارہویں صدی کے اواخر سے یہودیوں نے برطانوی صحافت پر بھی اپنے پنجے گاڑدئیے ۱۷۸۸/ میں جب ”ڈیلی ٹائمز“ نکلا تو یہودیوں نے اسے خرید لیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، اس اخبار کا چیف ایڈیٹر یا خارجی، داخلی مالی یا سیاسی مسائل کا ایڈیٹر ہمیشہ یہودی رہا، ۱۹۰۸/ میں جب اس کی ملکیت ایک کمپنی کے ہاتھ میںآ ئی تو اس کے بنیادی ممبران یہودی تھے۔

۱۸۵۵/ میں یہودیوں نے ڈیلی ٹیلی گراف خرید لیا، اور پھر دھیرے دھیرے تمام اہم اخبارات ان کی ملکیت میں آگئے، صحافت اور وسائل ابلاغ کے ذریعہ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بھی ان کی بڑی تعداد پہنچ گئی، انگریز بتدریج یہودیوں کی غلامی میں جکڑ لئے گئے، وانسٹن چرچل جو بڑا باجبروت اور ذہین لیڈر تھا عالمی یہودیت کا ایک ادنیٰ خادم بنا ہوا تھا، اور اس پر فخر کرتا تھا کہ وہ ”اصلی صہیونی“ ہے چرچل کے نقش قدم پر تمام سیاسی زعماء اور عسکری حکام بھی چلتے رہے، اپنی قوم کے مفادات کے خلاف یہودیوں کی عالمی مخفی حکومت کی خدمت کو انھوں نے اپنا شیوہ بنالیا تھا۔

جہاں تک ماسونی (Freemason) تحریک کاتعلق ہے، اس نے شروع ہی سے برطانیہ کو حریت، برادری، اورمساوات کے خوش کن نعروں سے مسحور کرکے اپنا مرکز بنالیا تھا، ماسونی لاج برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ میں پہلے قائم ہوئے، پھر دیگر ممالک میں انکا جال پھیلتا چلاگیا، ماسونیت نے اپنی تخریب کاریوں کے ذریعہ انگریز کی شخصیت تحلیل کرکے اور اس کی عیسائیت کو بالکل بے حس، نیم مردہ یا مردہ کرنے کے بعد یہودیت کا ضمیمہ اور ایک ادنیٰ خادم بنادیا۔

۲- فرانس : ۱۷۸۹/ کے انقلاب فرانس کے بعد فرانس میں یہودیوں کا اثر ونفوذ بڑھنا شروع ہوا، انقلاب فرانس کے برپا کرنے اور اس کو مشتعل رکھنے میں یہودیوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ لندن سے ”بنیامن گولڈ اسمتھ اوراس کا بھائی ابرام اور موسیٰ موکاٹ“ اوراس کا داماد ”موسیٰ مونیٹوری“ اس کو ایندھن فراہم کرتے رہے، اور برلین سے ”دانیال اٹزک“ اور ”ڈیوڈ فرائڈ لانڈر“ اور ”ہرزشربیر“ انقلاب فرانس کی مدد کرتے رہے، انقلاب فرانس کانتیجہ کیا نکلا؟

فرانسیسی قوم یہودیوں کے طے کردہ راستہ پرسفر کرنے لگی، معاشرتی اور تمدنی زندگی بے حیائی اور انارکی کے سیلاب میں بہنے لگی، نصف صدی میں یہودیوں نے فرانس کو بدکاری کا ایک اڈہ بنادیا۔

یہودیوں نے فرانس میں بھی اپنی وہی پالیسی اختیار کی جو برطانیہ میں کامیاب ہوچکی تھی، فرانس کی سیاست، معاشیات اور ذرائع ابلاغ پر وہ قابض ہوگئے، دو عالمی جنگوں کے نتیجہ میں فرانس میں یہودیوں کے اثر و نفوذ کا یہ عالم ہوا کہ فرانس یہودیوں کی ایک کالونی بن کر رہ گیا، فرانس کے سیاسی معاشی اور عسکری ڈھانچہ میں کیا زبردست تبدیلی رونما ہوئی اسے آپ اس سے سمجھ سکتے ہیں کہ بیسویں صدی کے نصف اول کی تمام فرانسیسی نمایاں شخصیات یہودی تھیں۔

لیون بلوم                            وزیر اعظم

فنسان اور یول                     صدر جمہوریہ

ربینہ مائیر                            صدرجمہوریہ              کئی مرتبہ وزیر ہوئے

جول موخ                           صدرجمہوریہ

دانیال مائیر                          صدرجمہوریہ

ماریس شومان                       صدرجمہوریہ

فروسر                                صدرجمہوریہ

موریس بٹٹش                     صدرجمہوریہ

ہیروی الونڈ                        اٹلانٹک کونسل میں فرانس کے دائمی نمائندہ

م بوریز                               صدر کمیونسٹ پارٹی

منڈس فرانس                     وزیر اعظم

جاک چڑن                          کئی مرتبہ وزیرہوئے

ہنری الور                           کئی مرتبہ وزیرہوئے

گاسٹن بالوسکی                     محکمہ ایٹمی طاقت کے ذمہ دار

د-مارگولین                        یوروپین کوآپریٹومعاشی فاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری

اے – مانٹو                         جنرل ڈی گول کے سکریٹری

جے گرنفال                        سفیر- اور حاکم مراکش

سوسٹیل                             سفیر، اور حاکم الجزائراڈ

جرفور                                 وزیر اعظم               

جارج لوری                         صدور مملکت کے دائمی مشیر اور ایڈیٹر اخبار

اندریہ یٹلم                          تأسیسی کونسل کے نائب صدر

ریمون آرون                      سوربون یونیورسٹی کے پروفیسر

لوئی جوکسی                          ماسکو میں فرانس کے سفیر

دانیال لیوی                         ہندوستان، جاپان اور چیکوسلواکیہ میں سفیر فرانس

لیون میس                          فرانس کے چیف جسٹس

جولین کین                         صدر نیشنل لائبریری

رابرٹ ہرشی                      ڈائرکٹر مخابرات (محکمہ جاسوسی)

و-بوم جارٹز                        فرانسیسی بنک کے آڈیٹر جنرل

ہندٹوریز                             امریکا میں فرانسیسی صحافت کے نمائندہ

لیوکوورسکی                          ڈائرکٹر اٹامک لیبارٹری

جنرل گوینگ                       جرمنی کے مقبوضہ علاقہ میں فرانسیسی فوج کے کمانڈر، اور وزیر دفاع

جنرل زنوئی بیسکوف             جاپان میں فرانسیسی افواج کے کمانڈر ان چیف

اڈمیرل لوئی کان                  صدر N.A.T.O. اور ایک مرتبہ فرانس کی مسلح افواج کے جنرل سکریٹری رہے

جنرل بیبلو                          وزیر دفاع

جنرل بیربرساک                 یوروپ کی متحدہ افواج کی ہائی کمان کے کمانڈر انچیف

رابرٹ والکو                        نورمبرگ مقدمہ میں فرانس کے نمائندہ

ھ – الفانڈ                           ماسکومیں بعض علاقوں کے بارے میں گفت و شنید کیلئے

ر- کاچ                               فرانس کے نمائندہ

یہ نام اختصار کے ساتھ دئیے گئے ہیں، اگر ان لوگوں کے ناموں کا استقصاء کیا جائے جو فرانس کے مختلف شعبہ ہائے حیات میں اہم ترین اور حساس مقامات اور مناصب تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، تو صرف فہرست کے لئے کئی جلد درکار ہوں گی۔

جہاں تک فرانس کے ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے، تو برطانیہ کی طرح یہودی فرانس کے ذرائع ابلاغ پر بھی پوری طرح قابض ہوگئے، انھوں نے نہ صرف یہ کہ فرانسیسی پرچوں اور رسالوں کو خرید لیا، بلکہ اپنے میگزین اور اخبارات جاری کئے، خالصة یہودی جرائد کی تعداد ۳۶ تھی، بعض پرچے ”یدیش“ (یوروپ کے یہودیوں کی زبان) میں اور متعدد پرچے فرانسیسی زبان میں جاری کئے، ذرائع ابلاغ کے استعمال کے نتیجہ میں انھوں نے فرانسیسیوں کے ذہن و دماغ کو اس درجہ متاثر کردیا کہ اب وہ ”کوہین“ اور ”حائیم“ کے عینک سے ہی حقائق کو دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں، کمال یہ ہے کہ یہودیوں نے فرانسیسی ہیرو ”بیٹن“ کو خائن اور مجرم قرار دیا، اور ”بلوم“، ”مندیس“، ”سوسٹیل“ وغیرہ مجرمین اور خائنین کو وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچادیا۔

۳- روس میں : زار روس کی حکومت سے یہودیوں نے زبردست انتقام لیا، جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ عیسائیت کے استحکام و فروغ کیلئے مستحکم ستون کی حیثیت رکھتی تھی، اوراس نے یہودیت اور صہیونیت پر روک لگا رکھی تھی،اورجب بھی یہودیوں کی ریشہ دوانیوں سے کسی روسی شہر کی معاشیات متاثرہوئی تو زار روس کی حکومت نے یہودیوں کے خلاف سخت ترین کارروائیوں سے گریز نہ کیا، یہودیوں کی مخفی حکومت نے روس سے عیسائیت کی جڑیں اکھاڑنے اور روسی قوم سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا، اس پس منظر میں ۱۹۱۷/ کے بالشویک انقلاب کو دیکھنا چاہئے،اس انقلاب کی زبانی، عملی، مالی، اور منصوبہ بندی کی کوششوں کے پیچھے مندرجہ ذیل شخصیات نمایاں تھیں۔

 

۱

ٹروٹسکی

TROTSKY

۲

سوردلو

SVERDLOY

۳

کامنیف

KAMENEV

۴

سوکول نکو

SOKOLNIKOFF

۵

ارٹسکی

URITSKY

۶

لتونوف

LITVINUFF

۷

زینونوف

ZINOVINV

۸

راڈرک

RADERK

۹

کاجانووچ

KAGANOVITCH

۱۰

اسٹالین

STALIN

 

یہ سب سخت متشدد یہودی تھے،اسٹالین کی بیوی یہودی تھی۔

بالشویک انقلاب کی مالی امداد میں پیش پیش مندرجہ ذیل یہودی تھے۔

۱- ماکس وار برگ Warburg

۲- اس کابھائی پال Paul یہ دونوں نیویارک کی Kuhnloeb & Co یہودی کمپنی سے متعلق تھے۔

۳- کراسن Krassin

۴- فرسٹنبرگ Furstenberg

انقلاب کے ابتدائی ایام ہی میں یہودی اقتدار پر قابض ہوچکے تھے، انھوں نے انقلاب کے دوران اوراس کے بعد کروڑوں انسانوں کو قتل کرکے روسی قوم سے تاریخ کا بدترین انتقام لیا، انقلاب کے بعد سیاسی انتظامات میں جو چہرے سامنے آئے، ان میں یہودیوں کی نمائندگی حسب ذیل تھی:

۱

لینن

مبہم

۲

اسٹالین

اس کی بیوی یہودی تھی

 

۳

ٹروٹسکی

یہودی

 

۴

کامینیف

یہودی

 

۵

سوکول نکو

یہودی

 

۶

زینوف

یہودی

 

۷

یبتوف

روسی

 

 

انقلاب کے ذمہ داروں اور جنگی انتظامات کے جنرلوں میں یہودیوں کا تناسب مندرجہ ذیل تھا:

۱

ٹروٹسکی

Trotsky

یہودی

۲

جوف

Joffe

      یہودی

۳

بوکیج

Bokij

قفقازی

۴

پوڈووسکی

Podwoiski

روسی

۵

مولوٹوف

Molotov

اس کی بیوی یہودی تھی

۶

نیوسکی

Newski

روسی

۷

انشلخت

Unhschlicht

یہودی

۸

یورٹسکی

Uritski

یہودی

۹

سویرڈلوف

Swerdlov

یہودی

۱۰

انتونوف

Antonov

روسی

۱۱

میکونوسنین

Mechondscnin

روسی

۱۲

گوسیف

Gussev

یہودی

۱۳

ارمجیف

Ermenjev

روسی

۱۴

جرجنسکی

Djerjinski

پولینڈ کا

۱۵

دبنکو

Dybenko

یوکرین کا

۱۶

راسکول نکو

Raskolnikov

روسی

 

بالشویک انقلاب کے ایک سال بعد روسی حکومت کے محکموں میں کس قدر یہودی اثر و نفوذ قائم ہوچکا تھا، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے لگائیے:

 

نام ادارہ

مجموعی ملازمین

 

یہودیوں کی تعداد

 

انقلاب کے بعد حکومت کے وزراء

۲۲

۱۷

جنگی منتظم

۴۳

۳۴

کمیٹی امور داخلہ

۶۴

۴۵

کمیٹی امور خارجہ

۱۷

۱۳

مالی امور

۳۰

۲۶

عدالتی امور

۱۹

۱۸

محکمہ صحت

۵

۴

امور تعلیم

۵۳

۴۴

محکمہ تعمیرات

۲

۲

روسی ریڈ کراس

۸

۸

صوبائی ڈائرکٹریٹ

۲۳

۲۱

صحافت

۴۲

۴۱

ملازمین کی جائزہ کمیٹی

۷

۵

زار روس اوراس کے خاندان کے قتل عام کی تحقیقات کمیٹی

۱۰

۷

اعلی معاشی کمیٹی

۵۶

۴۵

موسکو میں ملازمین اور فوج کا دفتر

۲۳

۱۹

چوتھی سویت کانفرنس کی مرکزی کمیٹی

۳۴

۳۳

پانچویں سویت کانفرنس کی مرکزی کمیٹی

۶۲

۳۴

کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی

۱۳

۹

ٹوٹل

۵۳۲

۴۲۵

               

ظاہر ہے کہ ان تمام محکموں میں یہودیوں کااوسط تناسب ۸۰٪ فیصد تھا، اسٹالین کے زمانے میں سویت یونین میں یہودیوں کا اثر و نفوذ زبردست رہا وہی سیاست کی ہائی کمان کے ذمہ دار تھے، خرد شچوف کی حکومت کے دور سے یہودیوں کی گرفت کمزور پڑنا شروع ہوئی، یہودیوں کی مخفی حکومت نے جب یہ اندازہ کرلیا کہ خروشچوف صہیونی گرفت سے باہر ہے،اور وہ یہودیوں کے فلسطین منتقل ہونے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہے، تو عالمی یہودی حکومت نے سوویت یونین کے خلاف زبردست مہم شروع کی اوراس پر یہ الزام لگایا، کہ یہ ”سامی دشمن“ حکومت ہے،آج یہ پروپیگنڈہ زور و شور سے چل رہا ہے کہ سوویت یونین میں یہودیوں پر ظلم ہورہا ہے، (خیال رہے کہ یہ بات ۱۹۶۴/ کی ہے) میں نے ماسکو ریڈیو کی نشریات میں یہودی پروپیگنڈہ کی تردید کے سلسلہ میں یہ بیان پڑھا تھا۔

”سوویت یونین کی آبادی ۲۲۵ ملین ہے، ان میں دو ملین (۲۰/لاکھ) یہودی سوویت یونین میں شہریت کے تمام حقوق سے مستفید ہورہے ہیں، جس کی دلیل یہ ہے:

۷۷ /ہزار یہودی طلباء یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں۔

۴۲۷/ ہزار معاشی ماہرین یہودی ہیں۔

۳۶/ ہزار سائنسداں یہودی ہیں۔

تردیدی بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا، کہ یہودی 1,5% فیصد ہیں، ان کی نمائندگی کی فیصد مندرجہ ذیل ہے:

۷،۱۴٪              ڈاکٹر ہیں۔

۴،۱٪                 وکلاء ہیں۔

۱۴٪                  رائٹرز ہیں۔

۶۳٪                  فنکار ہیں۔

۲۳٪                 موسیقار اور میوزک کے موضوع کے قلم کار ہیں۔

اور یہ کہ ۷۶۴۷ یہودی، حکومت کے اہم مناصب اور عہدوں پر فائز ہیں، یہ عہدے سوویت اعلیٰ کونسل کی ممبر شپ سے لے کر میونسپلٹی کی ذمہ داریوں پر محیط ہیں، ایک تعداد فوجی جنرلوں کی یہودی ہے۔

ان کے متعدد روزنامے ہیں، اور سوویت یونین کے اکثر پرچوں اور روزناموں میں وہ کسی نہ کسی حیثیت سے شریک ہیں۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد: 90 ‏،ربیع الثانی1427 ہجری مطابق مئی2006ء