اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت

(بائبل کی روشنی میں)

از:ڈاکٹر عبدالخالق‏، ریڈر سُنّی دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

 

الحمد للّٰہ رب العالمین والصلوٰة والسّلام علیٰ سیّد المرسلین، وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین الیٰ یوم الدّین، فقال اللّٰہ تبارک و تعالیٰ فی القرآن المجید والفرقان الحمید ”وَالسّٰبِقُونَ الاوّلُونَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالاَنْصَار وَالَّذِیْنَ اتّبعُوہُمْ بِاِحسَانٍ لا رّضیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عنہُ وَاَعدّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبدًا ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (سورئہ توبہ آیت:۱۰۰)

قرآن کریم و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ پاک نفوس ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت کے لئے منتخب فرماکر پورے عالم مشرق و مغرب شمال و جنوب میں دین اسلام کی اشاعت کیلئے قبول فرمایا۔ تاریخ عالم اس حقیقت کی شاہد ہے کہ جہاں تک ان پاک نفوس کی معلومات کے مطابق انسانی دُنیا آباد تھی اِن پاک نفوس نے دین اسلام کی روشنی وہاں تک پہنچانے میں جان و مال وقت عزّت ووقار ہر قسم کی قربانی دینے میں نہ تو ذرا بھی تاخیر کی ہے اور نہ ہی تقصیر کی ہے، مجھے بذاتِ خود اور نہ جانے میرے بزرگوں کو کتنا رنج وغم ہوتا ہوگا جب کوئی شخص یا گروہ یا جماعت اِن حضرات کی شان میں نازیبا الفاظ کہنے کی جرأت کرتی ہے یا ان کی شان کو گھٹانے میں اپنی زبان کھولتی ہے۔

میں اپنے اس مقالہ میں اِن حضرات کی علوئے شان اُلوالعزمی اور اقوام عالم میں ان کی اہمیت تاریخ عالم خصوصاً اہل کتاب کی مقدس کتاب بائبل کی روشنی میں نقلاً عقلاً بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ پھر بھی مجھے خوف ہے کہ اپنے بے بضاعتی کے سبب شاید اِن پاک نفوس یعنی اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شایانِ شان مقالہ کا حق ادا نہ کرسکوں۔

بہرحال ”انَّما الاعمالُ بِالنّیات“ پر عمل کرتے ہوئے جرأت کررہا ہوں کہ اِن پاک حضرات کی اہمیت عوام و خواص کے سامنے قرآن کریم، حدیث شریف اور بائبل کی کتب کے مطابق مستند تواریخ کی روشنی میں رکھ سکوں۔

تاریخ اسلام کا ہر ایک طالب علم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ روزِ اوّل سے ہی اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ مشرکین اور اہل کتاب سے حریفانہ تعلق چلا آرہا ہے۔ اِن طبقات کا ہر پڑھا لکھا انسان جس کو مذہبی نقطئہ نظر سے پڑھا لکھا کہا جاسکتا ہے بخوبی جانتا ہے کہ حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی بھی نبی کے اصحاب یا حواریین اتنے وفادار ثابت نہیں ہوئے جتنے کہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔

اللہ جل شانہ کو ان حضرات کی قربانی اپنے نبی کے ساتھ وفاداری - اِتنی زیادہ پسند آئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان پاک نفوس کو ہی پوری دُنیا کے لئے میدانِ عمل ہی نہیں بلکہ میدانِ ایمان میں بھی نمونہ قرار دیدیا ہے:

قرآن کی سورہ توبہ کی مذکورہ بالا آیت نمبر ۱۰۰ سے ثابت ہوتا ہے کہ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار کو بطور نمونہ کے اس طرح سے پیش کیا ہے جو شخص بھی قیامت تک ان حضرات کی اتباع کرے گا اللہ جل شانہ کا منظور نظر ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائیں گے اور اس فانی دنیا کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کی ہر قسم کی آرام و راحت سے پُرجنت میں داخل فرمائیں گے۔ اور سورئہ بقرہ کی آیت ۱۳۷ میں اللہ جل شانہ نے انسانوں کی ہدایت کا پیمانہ اس طرح سے مقرر کیا ہے کہ اہل دنیا اگر اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز پر ایمان لائیں تو وہ ہدایت یافتہ ہوسکتے ہیں ورنہ نہیں۔ آیت قرآنی یعنی فرمانِ الٰہی اس طرح سے ہے: ”فَاِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَآ آمَنْتُمْ بِہ فَقَدِاہْتَدوْا ج وَاِنْ تَوَلَّوْ اَفَاِنَّما ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ ج فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ ج وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمْo ط

قرآن کریم نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی صفات و خصوصیات توریت و انجیل کی روشنی میں اس طرح بیان کی ہے۔ مُحَمَّدٌ رّشسُولُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓ اَشِدّآءُ عَلَی الکفّارِ رُحَمَاءُ بَیْنہُمْ تَرٰہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہ وَرِضْوَانًا ز سِیْماہُمْ فِی وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثرِ السُّجُودِط ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّورٰة ج وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِوقف کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہ فَآزَرہ فَاسْتَغْلَظَ فاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفّارط وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَغْفِرَةً وّ اَجْرًا عَظِیْمًا (سورئہ فتح آیت:۲۹)

معزز قارئین کرام! اَب آپ حضرات کے سامنے اصحابِ موسیٰ، اصحابِ عیسیٰ اور اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفاداری یا بے وفائی کے واقعات پیش کئے جارہے ہیں جن کو پڑھ کر ایک سرسری نظر میں ہی مقامِ صحابہ کی اہمیت اوراُن کی پوری دنیا میں امتیازی شان واضح ہوجائے گی۔

اصحابِ موسیٰ علیہ السلام:

حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کو منجانب اللہ حکم صادر ہوا کہ اپنی قوم میں سے کچھ لوگوں کو ارضِ موعود کنعان بھیجو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بموجبِ حکمِ الٰہی مندرجہ ذیل اصحاب کو کنعان بھیجا: (۱) شموبن ذکور (۲) شفاعت بن ہوری (۳) کالیب بن یفنی (۴) اِگاربن یوسف (۵) ہوشی بن نون (یوشع بن نون) (۶) پالتی بن رفو (۷) جدیل بن سُودی (۸) جدّی بن سُوسِیْ (۹) اَمّیْل بن جمالی (۱۰) سَشُوربن میکائیل (۱۱) نہبی بن وُفسی (۱۲) غیوئیل بن مَاشی۔

یہ بارہ حضرات چالیس روز تک کنعان میں جاسوسی کرتے رہے۔ اور لوٹ کر ۱۲ میں سے دس نے اخبارِ کنعان کواس طرح سے پیش کیا کہ معدودِ چند کے علاوہ (موسیٰ، ہارون، مریم ۔ اخت موسیٰ و ہارون․․․ کالیب بن یفنی اور یوشع بن نون) پوری قوم جہاد کرنے سے انکار کربیٹھی۔ قرآن کریم کی زبان میں یہاں تک کہہ دیا: قَالُوا یٰمُوْسٰیٓ اِنّا لَنْ نَدْخُلَہَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْہَا فَاْذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلآ اِنَّا ہٰہُنَا قَاعِدُونَ

انگریزی بائبل کی کتاب عدد باب ۱۳ کی آیت ۳۰ تا ۳۳ اور باب ۱۴ آیت ۱ تا ۴ میں نافرمان قوم کی نافرمانی کا ذکر یوں کیاگیا ہے۔ نہیں! نہیں! ہم ، ہم اہل کنعان پر حملہ نہیں کرسکتے ہیں وہ ہمارے مقابلہ میں بہت زیادہ طاقتور ہیں، ان کی رپورٹ بنی اسرائیل کے لئے بہت زیادہ مایوس کن تھی۔ انھوں نے کہا کہ جس ملک یعنی کنعان کی ہم نے جاسوسی کی ہے وہ اتنا خطرناک ہے کہ جو شخص بھی وہاں جاکر رہنے کی جرأت کرے گا وہاں کے باشندے اس کو کھالیں گے۔ ہم نے وہاں جتنے بھی لوگوں کو دیکھا ہے وہ بہت ہی بڑے ڈیل ڈول کے قد آور ہیں۔ جب ہم نے عنق کے بیٹوں کو دیکھا (نیفلیم بن عنق) تو ہم نے اس کے مقابلہ میں اپنے آپ کو گھاس کے ٹڈے سے زیادہ بڑا نہیں پایا․․․․ (Grasshoppers) اس رپورٹ کے بعد بنی اسرائیل کی پوری قوم خوف و ہراس سے چلانے لگی وہ پوری رات روتے رہے۔ پوری قوم نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہم الصلوٰة والسلام کے خلاف شکایات کرنا شروع کردی۔ قوم نے کہا۔ کاش! ہم مصر میں ہی مرگئے ہوتے یا صحرائے سینا میں ہی ختم ہوگئے ہوتے۔ کنعانیوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بجائے مصر یا صحرائے سینا میں مرجانا ہمارے لئے زیادہ بہتر ہوتا۔

اللہ تعالیٰ کو ہمیں اس ارضِ موعود میں لاکر جنگ میں مروانے اور ہماری بیبیوں اور دیگر متعلقین کو دشمن کے لئے مالِ غنیمت بنوانے سے کیا فائدہ؟ اس کے مقابلہ میں مصر واپس چلاجانا زیادہ بہتر ہوگا۔

انھوں نے واپسی کی رہبری کے لئے کسی مناسب شخص کو ڈھونڈنے کی باتیں کرنا شروع کردیں۔ تب موسیٰ اور ہارون علیہم السلام زمین پر گرپڑے اور پوری قوم علاوہ یوشع بن نون اور کالیب بن یَفُنِّی ان کو دیکھتی رہی، یوشع اور کالیب نے اپنے کپڑے پھاڑلئے اور پوری قوم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”وہ ملک جس میں ہم داخل ہوئے اورجس کی جاسوسی ہم نے کی ہے وہ واقعتا بہت اچھی سرزمین ہے اگر اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہے تو ضرور ہم کو اس ملک میں داخل کردیگا اور دودھ اور شہد سے مالامال یہ ملک ہم کو عطا فرمادے گا۔ تم کو وہاں کے لوگوں سے ڈرنے یا خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہم وہاں پر اپنے لئے رزق پائیں گے۔ وہ اپنی ماقبل کی حفاظت سے محروم ہوچکے ہیں؛ (لیکن تمہیں اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوت نہیں کرنی چاہئے) تمہیں ان سے بالکل بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن نافرمان اور بدیقین قوم نے الفاظ کے بجائے ان دونوں حضرات کو پتھروں سے مارمار کر ہلاک کرنے کی دھمکی دی اس صورت حال میں ایک دم، یکایک خدا کا جلال ظاہر ہوا، اور موسیٰ پر وحی نازل ہوئی۔ ”یہ قوم مجھ سے اور کتنی زیادہ نفرت کرے گی، یہ قوم کتنی زیادہ نافرمانی کا برتاؤ میرے ساتھ کرے گی وہ کتنی بار میری تمامتر نشانیوں کے باوجود جو انھوں نے دیکھی ہیں میری ذات میں یقین کرنے سے انکار کرتی رہے گی۔ میں انھیں وَبا میں مبتلا کروں گا، مال و دولت اور وراثت سے محروم کروں گا، اور تمہیں تمہارے نسلوں کو ان نافرمانوں کے مقابلہ میں زیادہ عظیم قوم (نسلاً ومالاً) بناؤں گا۔“

حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے نافرمان قومِ موسی کو معاف تو کردیا لیکن اپنی حیات کی قسم اور اپنی جلال کی قسم کھاکر فرمایا کہ ”وہ تمام لوگ جنھوں نے باوجود میرے جلال کے دیکھنے کے اور باوجود ان معجزوں کو جو میں نے مصر میں اور اس بیابان میں دکھائے، پھر بھی مجھے دس بار آزمایا اور میری بات نہیں مانی اس لئے وہ ملک کو جس کے دینے کی قسم میں نے ان کے باپ دادا سے کھائی تھی دیکھنے بھی نہ پائیں گے۔اور جنھوں نے میری توہین کی ہے ان میں سے کوئی بھی اسے دیکھ نہیں پائے گا․․․․․ تمہاری لاشیں اسی بیابان میں پڑی رہیں گی اور تمہاری ساری تعداد میں سے یعنی بیس برس سے لے کر اس سے اُوپر اُوپر کی عمر کے تم سب جتنے گنے گئے اور مجھ پر شکایت کرتے رہے اُن میں سے کوئی اُس ملک میں جس کی بابت میں نے قسم کھائی تھی کہ تم کو وہاں بساؤں گا، جانے نہ پائے گا، سوائے کالیب کے بیٹے یوفنا اور نون کے بیٹے یشوع اور تمہارے بال بچے جن کے بابت تم نے یہ کہا کہ وہ تو لوٹ کا مال ٹھہریں گے ان کو میں وہاں پہنچاؤں گا اور جس ملک کو تم نے حقیر جانا وہ اس کی حقیقت پہچانیں گے اور تمہارا یہ حال ہوگا کہ تمہاری لاشیں اسی بیابان میں پڑی رہیں گی اور تمہارے لڑکے بالے چالیس برس تک بیابان میں آوارہ پھرتے اور تمہاری زِناکاریوں کا پھل پاتے رہیں گے جب تک کہ تمہاری لاشیں بیابان میں گل نہ جائیں، اُن چالیس دنوں کے حساب سے جن میں تم اس ملک کا حال دریافت کرتے رہے تھے اَب ایک دن پیچھے ایک ایک برس یعنی چالیس برس تک تم اپنے گناہوں کا پھل پاتے رہوگے تب تم میرے مخالف ہوجانے کو سمجھوگے، میں خداوند یہ کہہ چکا ہوں کہ میں اس پوری خبیث گروہ سے جو میری مخالفت پر متفق ہے قطعی ایسا ہی کروں گا۔ ان کا خاتمہ اسی بیابان میں ہوگا اور وہ یہیں مریں گے۔اور جن آدمیوں کو موسیٰ نے ملک کا حال دریافت کرنے کیلئے بھیجا تھا جنھوں نے لوٹ کر اس ملک کی ایسی بُری خبر سنائی تھی جس سے ساری جماعت موسی پر کُڑکُڑانے لگی تھی سو وہ آدمی جنھوں نے ملک کی بُری خبر دی تھی خداوند کے سامنے وَبا سے مرگئے، پر جو آدمی اس ملک کا حال دریافت کرنے کیلئے گئے تھے ان میں سے یوشع بن نون اور کالیب بن یوفنّی دونوں جیتے بچے رہے، اور موسی نے یہ باتیں جب بنی اسرائیل سے کہی تو وہ لوگ زار زار روئے، اور وہ دوسرے دن صبح سویرے اُٹھ کر یہ کہتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنے لگے کہ ہم حاضر ہیں اور جس جگہ کا وعدہ خداوند نے کیا ہے وہاں جائیں گے کیوں کہ ہم سے خطا ہوئی۔ حضرت موسی نے کہا تم کیوں اَب خداوند کی حکم عدولی کرتے ہو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اُوپر مت چڑھو، کیوں کہ خداوند تمہارے درمیان نہیں ہے، ایسا نہ ہو کہ اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں شکست کھاجاؤ، کیوں کہ وہاں تم سے آگے عمالقی اور کنعانی لوگ ہیں سو تم تلوار سے مارے جاؤگے، کیوں کہ خداوند سے تم برگشتہ ہوگئے ہو، اس لئے خداوند تمہارے ساتھ نہیں رہے گا۔“ لیکن وہ شوخی کرکے پہاڑ کی چوٹی تک چڑھے چلے گئے، پر خداوند کے عہد کا صندوق اور موسی لشکرگاہ سے باہر نہ نکلے، تب عمالقی اور کنعانی جو اس پہاڑ پر رہتے تھے اُن پر آپڑے اور اُن کو قتل کیا اور حُرمہ تک ان کو مارتے چلے گئے۔ پس یہ ہے حال اصحابِ موسی کی فرمانبرداری اور نافرمانی کا۔ (کتابِ گنتی باب ۱۳، باب ۱۴، آیات ۱ تا ۴۵)

اَب اصحابِ موسی کے بعد اصحابِ عیسیٰ کی حضرت عیسیٰ کے ساتھ وفاداری کا حال بھی سن لیجئے:

حضرت عیسی کے مشہور و معروف اصحاب یا حواریین کی تعداد بارہ تھی۔ جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

(۱) شمعون (پطرس) (۲) اِندریاس (پطرس کا بھائی) (۳) زبدی کابیٹایعقوب (۴) یوحنّا (یعقوب کا بھائی) (۵) فِلپْس (۶) بَرتَلْ مائی (۷) تُوما (۸) مَتّٰی (محصول لینے والا) (۹) حَلْفیْ کا بیٹایعقوب (۱۰) تَدِّیْ (۱۱) شمعون قَنانی (۱۲) یہوداہ اِسکریوتی (انجیل متّی باب ۱۰، آیات ۱ تا ۵)

جب حضرت عیسیٰ اپنے حواریین کے ساتھ بیتِ عَنیاہ میں شمعون کوڑھی کے گھر میں تھے تو اس وقت ان بارہ حواریین میں سے ایک نے جس کا نام یہوداہ اِسکریُوتی تھا سردار کاہنوں کے پاس جاکر کہا کہ ”اگر میں اُسے تمہارے حوالے کرادوں تو مجھے کیا دوگے؟ (یہود کا سردار کاہن اور قوم کے بزرگ حضرت عیسی کو فریب سے پکڑکر قتل کرنا چاہ رہے تھے) انھوں نے اسے تیس روپئے تول کر دیدئے۔اور وہ اس وقت سے اس کے پکڑوانے کا موقع ڈھونڈنے لگا، اور عید فطیر کے پہلے دن شاگردوں نے حضرت عیسی کے پاس آکر کہا کہ تو کہاں چاہتا ہے کہ ہم تیرے لئے فسح کھانے کی تیاری کریں، اس نے کہا شہر میں فلاں شخص کے پاس جاکر اس سے کہنا، استاذ فرماتا ہے کہ میرا وقت نزدیک ہے میں اپنے شاگردوں کے ساتھ تیرے یہاں عید فسح کروں گا اور جیسا حضرت عیسی نے شاگردوں کو حکم دیا تھا انھوں نے ویسا ہی کیا اور فسح تیار کیا، جب شام ہوئی تو وہ بارے شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تھا اور جب وہ کھارہے تھے تو اس نے کہا میں تم سے سچ کہتاہوں کہ تم میں سے ایک مجھ کو پکڑوادے گا وہ بہت ہی دِل گیر ہوئے اور ہر ایک اُس سے کہنے لگا، اے خدا وند! کیاوہ میں ہوں؟ اس نے جواب میں کہا، جس نے میرے ساتھ طباق میں ہاتھ ڈالا ہے وہی مجھے پکڑوائے گا۔ اور ابن آدم تو جیسا اس کے حق میں لکھاہے جاتا ہی ہے لیکن اس آدمی پر افسوس جس کے وسیلہ سے ابن آدم پکڑوایا جاتاہے اگر وہ آدمی پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا ہوتا، اس کے پکڑوانے والے یہودا نے جواب میں کہا۔ اے ربی! کیا میں ہوں؟اس نے اس سے کہا تونے خود کہہ دیا۔ جب وہ کھانا کھارہے تھے تو عیسیٰ نے روٹی لی اور برکت دے کر توڑی،اور شاگردوں کو دے کر کہا۔ لو کھاؤ؟ یہ میرا بدن ہے۔ پھر پیالہ لے کر شکر کیا۔ اور ان کو دیکر کہا تم سب اس میں سے پیو! کیوں کہ یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروں کیلئے گناہوں کی معافی کے واسطے بہا جاتا ہے۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کا یہ شیرا پھر کبھی نہ پیوں گا۔ اس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہی میں نیا نہ پیوں۔ پھر وہ گیت گاکر باہر زیتون کے پہاڑ پر گئے،اس وقت حضرت عیسی نے اُن سے کہا ”تم سب اِسی رات میری بابت ٹھوکر کھاؤگے، کیوں کہ لکھا ہے کہ میں چرواہے کو ماروں گا اور گلے کی بھیڑیں پراگندہ ہوجائیں گی۔ لیکن میں اپنے جی اٹھنے کے بعد تم سے پہلے گلیل کو جاؤں گا۔“ پطرس نے جواب میں اس سے کہا گو سب تیری بابت ٹھوکر کھائیں لیکن میں کبھی ٹھوکر نہ کھاؤں گا۔ حضرت عیسی نے اس سے کہا میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ اسی رات مرغ کے بانگ دینے سے پہلے تو تین بار میرا انکار کرے گا۔ پطرس نے اس سے کہا اگر تیرے ساتھ مجھے مرنا بھی پڑے تو بھی تیرا انکار ہرگز نہ کروں گا۔ اور سب شاگردوں نے بھی اسی طرح کہا۔

اس وقت عیسی ان کے ساتھ گت سمنی (Gethsemane) نامی ایک جگہ میں آئے اور اپنے شاگردوں سے کہا یہیں بیٹھے رہنا جب تک کہ میں وہاں جاکر دُعاء کروں اور پطرس اور زَبدی کے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر غمگین اور بے قرار ہونے لگا، اس وقت اس نے (عیسی) ان سے کہا: ”میری جان نہایت غمگین ہے یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو۔ پھر ذرا آگے بڑھا اور منھ کے بل گرکر یوں دعا کی۔

”کہ اے میرے باپ! اگر ہوسکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے تو بھی نہ جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔“ پھر شاگردوں کے پاس آکر ان کو سوتے پایا اور پطرس سے کہا ”کیا تم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے، جاگو اور دعاء کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو! روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے۔ پھر دوبارہ اس نے جاکر یوں دعاء کی کہ اے میرے باپ! اگر یہ میرے پئے بغیر نہیں ٹل سکتا تو تیری مرضی پوری ہو، اور آکر اُنھیں پھرسوتا پایا۔ کیونکہ ان کی آنکھیں نیند سے بھری تھیں اور ان کو چھوڑ کر پھر چلاگیا اور پھر وہی بات کہہ کر تیسری بار دعاء کی۔ تب شاگردوں کے پاس آکر اُن سے کہا کہ اَب سوتے رہو اور آرام کرو، دیکھو وقت آپہنچا ہے، اور ابن آدم گنہ گاروں کے حوالے کیا جاتا ہے، اٹھو چلیں! دیکھو میرا پکڑنے والا نزدیک آپہنچا ہے“ وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ یہودا اسکریوتی جو ان بارہ میں سے ایک تھا۔ آیا اوراس کے ساتھ ایک بڑی بھیڑ تلواریں اور لاٹھیاں لئے سردار کاہنوں اور یہودی قوم کے بزرگوں کی طرف سے آپہنچی، اور اس کو پکڑوانے والے نے ان کو یہ نشان دیاتھا کہ جس کا میں بوسہ لوں وہی ہے اُسے پکڑلینا اور فوراً اس نے یسوع کے پاس آکر کہا۔ اے ربیّ! سلام! اوراس کے بوسے لئے۔ عیسی نے اس سے کہا۔ میاں جس کام کو آیا ہے وہ کرلے۔ اِس پر انھوں نے پاس آکر عیسی پر ہاتھ ڈالا اور اُسے پکڑ لیا۔اور دیکھو عیسی کے ساتھیوں میں سے ایک نے ہاتھ بڑھاکر اپنی تلوار کھینچی اور سردار کاہن کے نوکر پر چلاکر اس کا کان اُڑادیا۔ حضرت عیسی نے اس سے کہا کہ ”اپنی تلوار کو میان میں کرلے، کیوں کہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔ کیاتو نہیں سمجھتا کہ میں اپنے باپ سے منت کرسکتا ہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ تومن سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کردیگا۔ (Legions) ۔

مگر وہ نوشتہ کے یوں ہی ہونا ضرور ہے، کیوں کر پورے ہوں“، اسی وقت حضرت عیسی نے بھیڑ سے کہا کیاتم تلواریں اور لاٹھی لیکر مجھے ڈاکو کی طرح پکڑنے نکلے ہو۔ ہر روز ہیکل میں بیٹھ کر میں تعلیم دیتاتھا، اور تم نے مجھے نہیں پکڑا۔ مگر یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ نبیوں کے نوشتے پورے ہوں،اس پر سب شاگرد اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ Then the disciples all deserted him and ran away.

جب صبح ہوئی تو سب سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں نے عیسی کے خلاف مشورہ کیا کہ اُسے مارڈالیں، اور اُسے باندھ کر لے گئے اور پیلاطوس حاکم کے حوالہ کیا، جب اس کے پکڑوانے والے یہوداہ نے یہ دیکھا کہ وہ مجرم ٹھہرایا گیا تو پچھتایا اور وہ تیس روپئے سردار کاہنوں اور بزرگوں کے پاس واپس لاکر کہا، میں نے گناہ کیا کہ بے قصور کو قتل کیلئے پکڑوایا انھوں نے کہا ہمیں کیا تو جان! اور وہ روپیوں کو مقدس میں پھینک کرچلاگیا اور جاکر اپنے آپ کو پھانسی دی۔

پس یہ ہے حال اصحاب عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی اپنے نبی برحق کے ساتھ وفاداری کا !!! کیا ایسے اصحاب پر فخر کیاجاسکتا ہے؟ (انجیل متی باب ۲۶، ۲۷،آیات ۱ تا ۶)

اصحاب نبی آخر الزّماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

اب آپ حضرات قارئین کرام کے سامنے اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری، جاں نثاری ، ایثار و ہمدردی، جان ومال وقت اور جذبات کی اعلیٰ درجہ کی قربانی کا حال بھی ملاحظہ فرمائیے!

غزوئہ بدر کے موقعہ پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی کہ قریش کا ایک زبردست لشکر مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کیلئے روانہ ہوچکا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحابِ کرام سے مشورہ فرمایا؛ لیکن اس وقت آپ کا روئے سخن انصار کی طرف تھا، اس لئے کہ انھوں نے آپ سے اسی بات پر بیعت کی تھی کہ وہ مدینہ میں آپ کی پوری حفاظت اور مدد کریں گے۔ جب آپ نے مدینہ سے روانگی کا قصد فرمایا تو آپ نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ اس وقت انصار کیا سوچ رہے ہیں سب سے پہلے مہاجرین نے اپنی بات کہی اور بہت ہی اچھی طرح آپ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ آپ نے دوبارہ مشورہ کیا، مہاجرین نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کی، پھر تیسری بار جب آپ نے دریافت فرمایا تو انصار کو احساس ہوا کہ آپ کا روئے سخن ہم لوگوں کی طرف ہے۔ اس لئے سعد بن معاذ نے فوراً اس کا جواب دیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! شاید آپ کا روئے سخن ہم لوگوں کی طرف ہے اور آپ ہماری بات سننا چاہتے ہیں۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! شاید آپ کو یہ خیال ہورہا ہے کہ انصار نے صرف اپنے وطن اور اپنی سرزمین میں آپ کی نصرت کا ذمہ لیا ہے۔ میں انصار کی طرف سے عرض کرتا ہوں اور ان کی جانب سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں چاہیں روانہ ہوں جسے چاہیں تعلق فرمائیں اور جس سے چاہیں ختم فرمائیں۔ ہمارے مال و دولت میں سے جتنا چاہیں لیں اور ہم کو جتنا آپ کو پسند ہو عطا فرمائیں۔ اس لئے کہ آپ جو کچھ لیں گے وہ ہم کو اس سے کہیں زیادہ محبوب ہوگا جو آپ چھوڑیں گے آپ کوئی حکم دیں گے تو ہماری رائے آپ کے تابع فرمان ہوگی۔ خدا کی قسم اگر آپ چلنا شروع کریں یہاں تک کہ ”برک غمدان“ تک پہنچ جائیں تب بھی ہم آپ کے ساتھ چلتے رہیں گے اور خدا کی قسم اگر آپ سمندر میں داخل ہوجائیں گے تو ہم بھی اس میں آپ کے ساتھ کود جائیں گے۔ حضرت مقداد نے کہا ہم آپ سے ایسا نہ کہیں گے جیسا حضرت موسی کی قوم نے موسی سے کہا تھا ”اذہبْ اَنْتَ وربک فقاتلا اِنّا ہٰہُنا قاعدون“ (جاؤ تم اور تمہارا رب دونوں مل کرجنگ کرو ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے) ہم تو آپ کے دائیں لڑیں گے اور بائیں لڑیں گے اور آپ کے سامنے آکر لڑیں گے اور آپ کے پیچھے لڑیں گے۔

مِنَ الْموٴمنین رِجَالٌ صَدَقُوآ مَا عٰہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْةِ ج فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہ ومِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ز وَمَا بَدّلُوْا تَبْدِیْلاً

(بعض روایت میں آیا ہے کہ غزوئہ اُحد میں انصارِ صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے عہد کو پورا کردیا، شہداء اُحد میں ستر میں سے تقریباً (۶۴) چونسٹھ حضرات انصارِ مدینہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک انصاری صحابی نے مدینہ سے زور سے آواز لگائی اور حضرت عباس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : اَے عباس! آج دیکھ لیجئے کہ آپ کے بھتیجے کے ساتھ انصار نے جو وعدہ کیاتھا کیا وہ پورا نہیں کردیا․․․)

یہ ہے ادنیٰ سا ایک منظر حضراتِ صحابہ کرام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کا ثبوت۔ اَیسے ایک نہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں واقعات ہیں جن سے حضراتِ صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صدقِ عہد، صدق دلی، سچی وفاداری اور جاں نثاری کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔

حضرت زید بن دثنیٰ کی وفاداری

سفیان بن خالد نے جب دھوکہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خبیب، حضرت زید بن دثنیٰ اور حضرت عاصم رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ اسلام کی تعلیم کے لئے آمادہ فرمایا تو اِن حضرات کے ساتھ اس نے دھوکہ کیا اور ان تینوں حضرات کو شہید کردیاگیا۔ حضرت زید بن دثنیٰ رضی اللہ عنہ کو صفوان بن اُمیہ نے پچاس اونٹ کے بدلہ میں خریدا تاکہ اپنے باپ اُمیّہ کے بدلہ میں قتل کرے جب حضرت زید بن دثنیٰ کو حرم کے باہر شہید کیا جانے والا تھا تو اس وقت حضرت زید کا تماشہ دیکھنے کے واسطے بہت سے لوگ جمع ہوئے ان میں سے ابوسفیان بھی ایک تھا۔ اس نے حضرت زید سے شہادت کے وقت پوچھا کہ اے زید! تجھ کو خداکی قسم سچ کہنا کیا تجھ کو یہ پسند ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن تیرے بدلہ میں ماردی جائے اور تجھ کو چھوڑ دیا جائے کہ اپنے اہل و عیال میں خوش و خرّم رہے۔ حضرت زید نے فرمایا خدا کی قسم! مجھے یہ بھی گوارہ نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جہاں پر ہیں وہاں اُن کے ایک کانٹا بھی چبھے اور ہم اپنے گھر آرام سے رہیں۔ یہ جواب سن کر قریش حیران رہ گئے۔ ”ابوسفیان نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو جتنی ان سے محبت دیکھی اس کی نظیر کہیں نہیں دیکھی۔“

صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب حضرت عروہ بن مسعود ثقفی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرات صحابہ کرام کی موجودگی میں بات چیت کرکے واپس قریش کے پاس گیا تو قریش مکہ کو خبردی یا معشر قریش! میں نے ہراقلہٴ روم اور اکاسرئہ ایران کے دربار دیکھے ہیں، میں نے کسی بادشاہ کو اپنے ہمراہیوں میں اس قدر محبوب اور مکرم نہیں پایا جس قدر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب میں محبوب اور باعزت ہیں۔

اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی زمین پر نہیں گرنے دیتے جب وہ کلام کرتے ہیں تو سب خاموشی سے سنتے ہیں اور تعظیم کی راہ سے ان کی طرف نگاہ بھر کر نہیں دیکھتے۔ یہ لوگ کسی بھی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔

اسی موقعہ پر حضرت ابوبکر صدیق نے عروہ بن مسعود کے یہ کہنے پر کہ اے محمد! میں تمہارے ساتھ اشراف کی جماعت نہیں دیکھ رہاہوں یہ اطراف کے ذلیل لوگ تمہارے ساتھ ہیں مصیبت پڑنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ بھاگیں گے۔ تو حضرت ابوبکر صدیق غصہ میں بھرگئے اور عروہ کو گالی دے کر یہ فرمایا تو اپنے معبود لات کی شرمگاہ کو چاٹ کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (یا آپ کے دین کو) مصیبت پڑنے پر چھوڑ دیں گے۔

اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت صحابہ کرام کو اتنا رنج و غم اور صدمہ تھا کہ اکثر و بیشتر اپنے ہوش میں ہی نہیں تھے۔ ایک ابوبکر صدیق کا ہی دم تھا کہ ثابت قدم رہے۔ یہاں تک کہ اعلان کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر کوئی شخص زکوٰة میں اونٹ کی ایک رسّی بھی دیتا تھا اور اب وہ دینے سے انکار کرتا ہے تو وہ اس ایک رسی کو بھی حاصل کرنے کے لئے اس کے خلاف جہاد کریں گے اور اہل علم حضرات یہ بھی جانتے ہیں کہ جب مکہ معظمہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف ۳۹ تھی تو حضرت ابوبکر صدیق نے ہی اسلام کا سب سے پہلا خطبہ حرم شریف کے اندر دیا جس کے نتیجہ میں آپ کو دشمنوں نے اتنا مارا کہ پورے دن موت کے منھ میں رہے اور جب ہوش آیا تو سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی خیریت پوچھی۔

اس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے ساتھ پوری پوری محبت اور وفاداری کا ثبوت آپ نے پیش کردیا اور اپنے اس قول کو صادق کردیا کہ دین اسلام مٹ جائے یا اس میں نقص آجائے اور ابوبکر زندہ رہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ساری دنیاجانتی ہے کہ ابوبکر کے مال نے مجھے جتنا نفع دیا اُتنا کسی کے مال نے نفع نہیں دیا۔ اور یہ کہ میں سب کا بدلہ دے چکا ہوں مگر ابوبکر صدیق کا بدلہ نہیں دے سکا۔ اللہ تعالیٰ ہی ابوبکر صدیق کا بدلہ چکائیں گے۔“

بھلا حضرت عیسی کا ممتاز شاگرد سینٹ پطرس ابوبکر صدیق کا کیا مقابلہ کرسکتا ہے۔ حضرت عیسی نے سینٹ پطرس سے کہا تھا کہ تو آج ہی رات مرغ کے بانگ دینے سے پہلے تین بار میرا انکار کرے گا۔

اس نے اس کے جواب میں بڑا زور دے کر یہ کہاتھا کہ اگر تیرے ساتھ مجھے مرنا بھی پڑے تو بھی تیرا انکار ہرگز نہ کروں لیکن انجیل متّٰی کے مطابق جب دشمنوں نے عیسی کو پکڑلیا جبکہ پطرس باہر صحن میں بیٹھا تھا کہ ایک لونڈی نے اس کے پاس آکر کہاتو بھی یسوع گلیلی کے ساتھ تھا۔ اس نے سب کے سامنے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں نہیں جانتا تو کیا کہتی ہو۔ اسی طرح قسم کھاکر دوسری بار اور پھر تیسری بار عیسی کا انکار کیا اور فی الفور مرغ نے بانگ دی۔

ان دو واقعات سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ حضرت عیسی کے ممتاز شاگرد اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ممتاز شاگرد میں کتنا فرق ہے۔

کیا ساری دنیا حضرت بلال حبشی کی احد احد کی آواز کو نہیں جانتی، کیا حضرت ابوذر غفاری کے حرم میں دشمنوں کے بیچ اذان دینے کو نہیں جانتی، اور حضرت سمیہ کی شہادت، خباب بن اَرت، عمار بن یاسر کی اسلام کے لئے قربانیوں سے واقف نہیں، کیا حضرت خنسا کی چار بیٹوں کی شہادت پر خوشی کے اظہار اور سعد بن ربیع کے احد میں مسلمانوں کے نام پیام (اگر تم میں سے ایک آنکھ بھی چمکتی رہی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچ جائے تو تمہارا نہ کوئی فرض قبول اور نہ نفل قبول)

          اہل علم و دانش مذکورہ بالا احوالِ اصحابِ موسی،اصحاب عیسی اور احوالِ اصحابِ محمد… سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ان تینوں گروہوں کی اپنے اپنے آقا و رہبر و پیغمبر کے ساتھ وفاداری کا کیا لیبل تھا۔ اسی سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ اگر اصحاب موسی قدم قدم پر بیوفائی اور ضعف ایمان کا اظہار کرتے رہے تو اصحابِ عیسی بھی خوف و ہراس اور غیر متوکلین اور وقت کے تقاضے پر لبیک کہتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ اس کے برعکس اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قدم قدم پر ایمان و یقین و توکل، صبر وقناعت، زہد ومجاہدہ جیسی اعلیٰ صفات سے لبریز نظر آتے ہیں۔

ان تینوں گروہوں کے ضعفِ ایمان اور قوتِ ایمان اور جذبہ جہاد و شہادت کا واضح اثر تینوں مذاہب کے عقائد واخلاق، شرعی قوانین، معیشت ومعاشرت وغیرہ پر بہت زیادہ پڑا ہے۔

جہاں تک اصحابِ موسی کا تعلق ہے تو ان لوگوں کے ضعفِ ایمانی بطور خاص ایمان بالآخرة کے ضعف کی وجہ سے آج موجودہ تورات یعنی صحیفہٴ تخلیق، صحیفہٴ خروج، صحیفہٴ اَحْبار، صحیفہٴ عدد اور صحیفہٴ استثناء (Deuteronomy) کلیتہً عقیدئہ آخرت سے خالی نظر آتے ہیں، ان کے ضعفِ ایمان اور دنیا طلبی، آخرت سے بیزاری کا اثر یہ پڑا ہے کہ ہر وقت موت کے خوف سے پریشان ہزاروں سال زندہ رہنے کی تمنا اور قوانین تورات میں مَن مانی، لفظی و معنوی تحریف کرڈالی۔ ان کے ضعفِ ایمان کا اثر یہیں تک محدود نہ رہا بلکہ محرف تورات بھی اُنھیں کے ضعفِ ایمان کا نشانہ بن کر اُن کی نسلوں کے زمانہ میں بخت نصر اور ٹائٹس کے ہاتھوں (۵۸۶ ق م اور ۷۰ ب م)نذر آتش کردی گئی۔

خود حضرت موسی کے وقت میں ہی آپ کے کوہِ طور کے قیام کے وقت انھوں نے سونے کابچھڑا بناکر اس کی پوجا کرنا شروع کردی۔ اور ارضِ موعود یعنی بیت المقدس اور یروشلم کو فتح بالجہاد سے انکار کربیٹھنے سے خدائی عذاب کے مستحق بن بیٹھے، اور فوری طور پر قومِ عمالقہ کے ہاتھوں قتل بھی ہوئے اور چالیس سال تک وادیٴ تیہ میں اپنے بداعمال اور الٰہی بیوفائیوں کی سزا بھگتتے رہے، اپنی دنیا طلبی اور ضعفِ ایمان کی وجہ سے حضرت موسی اور ہارون کو پوری زندگی پریشان کرتے رہے اور ان کی نسلوں نے لاتعداد انبیاء اولیاء کو شہید کرڈالا جس کے نتیجہ میں ہمیشہ ہمیشہ کی لعنت اور دشمنوں کے غلبہ جیسی بشارتیں سن کر آج تک اپنی تمام تر مکاریوں اورکارستانیوں اور مال و دولت کے باوجود بے اطمینانی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ یورپ کا کون سا ملک ایسا ہے جہاں سے ان کو نہ نکالا گیا ہو اگر کہیں پناہ ملی تو وہ مسلمانوں کی اسپین میں اور مسلمانوں کی ہی دولت عثمانیہ میں ہی ملی۔ لیکن سانپ اور بچھو اپنے مالک سے دودھ پینے کے باوجود اس کو ڈنک مارنے اور کاٹ کھانے سے نہیں چوکتے۔ یہی سب کچھ اصحابِ موسی کی نسلوں نے مسلمانوں کی دولت عثمانیہ کے ساتھ کیا۔ جس کانتیجہ یہ نکلا کہ آج پوری مغربی ایشیاء ہی نہیں، سات سمندر پار امریکہ جیسی سپرپاور بھی اُن کی کارستانیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے (اگر مسئلہ فلسطین پیدا نہ ہوتا یا اس کا مناسب حل نکال لیاگیا ہوتا تو شاید امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ پیش نہ آتا اور نہ ہی قومِ افغان اور قومِ عراق کا خون بہایاجاتا)

اَب اصحابِ عیسی کی ضعفِ ایمانی اور جذبہ جہاد و شہادت کے ضعف کا اثر ملاحظہ فرمائیے: انجیل متی کے مطابق حضرت عیسی کے بار بار اصرار کے باوجود ایک رات بھی نہ جاگ سکے۔ جب کہ دشمن ان کے آقاء ومولیٰ حضرت عیسی کو پکڑنے کی پوری کوشش کررہاتھا اور حضرت عیسی کے پکڑے یا گرفتار ہونے کی صورت میں آپ کو چھڑانے کی کوشش تو درکنار آپ سے ہر قسم کے تعلقات کا انکار کربیٹھے اس انکار میں کوئی عام آدمی ہی نہیں، عام شاگرد بھی نہیں پطرس جیسا ممتاز شاگرد بھی شامل تھا (انجیل متی ب۲۶-۲۷) اورجب بائبل کے بموجب آپ کو نعوذ باللہ مصلوب کیا جارہا تھا تو دنیا کا کوئی عیسائی نہ کوئی عام آدمی نہ ہی کوئی شاگردِ رشید موجود تھا!!

اصحابِ عیسی یاحواریین عیسی کے ضعفِ ایمانی اور آپ کی تعلیمات میں رسوخ نہ ہونے کا اثر یہ پڑا کہ سینٹ پول جیسا زندگی بھر کا دشمن عیسی اپنے محض ایک خواب کی بنیاد پر صحابیٴ عیسی بن بیٹھا (کتاب اعمال، ب۹) اور دین عیسوی اور شریعت عیسوی کو دیمک کی طرح سے کھانا شروع کردیا حتیٰ کہ دین توحید کو دین شرک اور تثلیث بناڈالا۔ حواریین عیسی نے اوّلاً تو کچھ مزاحمت کی جیسا کہ طعام کی حلت و حرمت اور ختنہ کے واجب اور غیر واجب ہونے کے مسائل میں پیدا ہوئے تنازع سے ثابت ہے (کتاب اعمال ب۱۱- باب ۱۵) لیکن سینٹ پول اپنی علمی اور فکری برتری (وہ رومی شہری بھی تھا عبرانی یونانی اور رُومی زبان سے بھی واقف تھا) کے باعث حواریین کے دَبانے میں کامیاب ہوگیا کیوں کہ حواریین نہ تو مالی طور پر اور نہ افرادی قوت کے مالک تھے ان کے پاس حضرت عیسی سے عقیدت اور کچھ تعلیمی اور شرعی یا اخلاقی اَوامر تھے جن کو سینٹ پول اوراس کے ہمراہیوں نے آسانی سے مغلوب کرلیا۔ حواریین عیسی سیاسی قوت کے مالک نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عیسی کی تعلیمات کو نافذ بھی نہیں کرپائے حتیٰ کہ انجیل مقدس بھی اختلافات کی شکار ہوگئی اور ایک نہیں سینکڑوں اناجیل منظر عام پر آگئیں۔ اگر حواریین یا اصحابِ عیسی مضبوط لوگ ہوتے تو سینٹ پول اوراس جیسے دین عیسوی کو بگاڑنے والے لوگ کامیاب نہ ہوپاتے۔ حواریین کی کمزوری کا حال یہ تھا کہ سینٹ پول جیسے شدت پسند یہودی بعدہ مبلغ اعظم محرّف دین مسیح کے چودہ خطوط اناجیل اربعہ سے قبل منظر عام پر آگئے۔ اگر حواریین مضبوط لوگ ہوتے تو انجیل میں تحریفات نہ ہونے دیتے، سینٹ پول جیسے لوگوں کو حلّت و حرمت کا شارعِ اعظم نہ بننے دیتے، جس نے حلال و حرام کی تمام حدود و قیود کو مٹاکر رکھ دیا۔ حضرت عیسی بذاتِ خود مختون تھے لیکن اس نے ختنہ کی سنت ابراہیمی کو ختم کرڈالا، خنزیر جیسی چیز جس کو حضرت عیسی نے چھوا تک نہیں کیوں کہ اس کی حرمت تورات میں بھی مذکور ہے۔ (کتاب احبار، باب ۱۱ آیات ۱ تا ۵) اس کے گوشت کو بھی پول نے عیسائیوں کے لئے حلال کردیا۔ تورات جیسی مقدس کتاب جس کی تکمیل کا دعویٰ حضرت عیسی نے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں کیاتھا اس کی تعلیم کو ختم کرکے محض تلاوت تک اس کو محدود کردیا۔ (انجیل متی باب ۵، ۶، ۷، بطورخاص باب ۵ آیت ۱۷-۱۸-۱۹)

اسی شخص کی وجہ سے اور اصحابِ عیسی کی کمزوری کے باعث عیسائیت میں بنیادی گناہ اور عقیدئہ کفارئہ ذنوب (Atonement) اور سب سے خطرناک عقیدئہ تثلیث اِلٰہ منظر عام پر آگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دین مسیح Christianity ہونے کے بجائے Paulinity کہلانے کا زیادہ مستحق ہوگیا کیونکہ شریعت مسیحی موجودہ زمانہ میں بلکہ سینٹ پول کے بعد سے ہی اناجیل اربعہ کے مقابلہ مکتوباتِ پول پر زیادہ انحصار کرتی ہے۔ حضرت عیسی کے حواریین میں سب سے زیادہ مضبوط شخص علماً وعملاً سینٹ برناباس تھا۔ دشمنانِ دین مسیح کی وجہ سے اس کا نام تک فہرستِ حواریینِ مسیح سے خارج کردیاگیا۔ تقریباً اٹھارہ سو سال کے بعد انجیل برناباس سامنے آئی ہے۔ روایتی اناجیل اربعہ (متی، مرقس، لوقا، یوحنا) کااس انجیل برناباس سے مقابلہ ومقارنہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ حواریین کی کمزوری کے سبب دشمنانِ دین مسیح نے تعلیماتِ مسیح اور اصلی انجیل مسیح میں کیاکچھ تحریفات کرڈالی ہیں۔ خاص طور پر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے سلسلہ میں، اگر حواریین عیسی علماً عملاً اور ایماناً کمزور نہ ہوتے تو آج جو دین مسیح محرّف شکل میں دنیا کے سامنے موجود ہے وہ اپنی اصل شکل میں موجود ہوتا اور نہ جانے دنیا کتنے مسلم، عیسائی، جنگوں سے دوچار نہ ہوتی۔!!

اب آپ حضرات اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماناً، عملاً مضبوط ہونے اور جذبہٴ جہاد و شہادت سے لبریز ہونے کے نتائج ملاحظہ فرمائیں!

قارئین کرام ! اولاً تو اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و امانت، ایمان و تقویٰ وتوکل، ایفائے عہد وغیرہ کے متعلق ”والسّٰبقون الاوّلُون“ ․․․․ رِجالٌ صَدقُوا مَاعٰہَدُوا اللّٰہَ عَلیہِ ․․․․ لَقَدْ رَضَی اللّٰہُ عَنِ الموٴمنینَ ․․․ مُحمَّد رَّسُولُ اللّٰہ ط وَالَّذِیْنَ مَعہ ․․․․ اور فَاِن آمنُوا بمثلِ آمَنْتُم بہ ․․․ جیسی قرآنی آیات آپ کے ذہنوں میں ہوں گی ہی۔ اِن آیات کے ساتھ ساتھ اگر خود احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ کے ذہنوں میں ہوں تو آپ حضرات کو حضراتِ صحابہ کرام کی اہمیت، اقوالِ موسی (اصحابِ موسی کے سلسلہ میں) اور اقوالِ عیسی (حواریین کے سلسلہ میں) کی روشنی میں واضح نظر آئے گی۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ تمام مخلوق میں سے میرے صحابہ کو چھانٹا ہے اور ان میں سے چار کو ممتاز کیاہے (ابوبکر، عمر، عثمان، علی) ان کو میرے سب صحابہ سے افضل قرار دیاہے۔“

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے: کہ اللہ سے میرے صحابہ کے بارے میں ڈرو، ان کو ملامت کا نشانہ نہ بناؤ، جو شخص ان سے محبت رکھتا ہے میری محبت کیوجہ سے ان سے محبت رکھتا ہے اور جوان سے بغض رکھتا ہے وہ میری بغض کی وجہ سے بغض رکھتا ہے، جس شخص نے ان کو اذیت دے اس نے مجھ کو اذیت دی اورجس نے مجھ کو اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی، اورجو شخص اللہ کو اذیت دیتا ہے قریب ہے کہ پکڑ میں آجائے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ میرے صحابہ کو گالیاں مت دو، اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد کے پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ ثواب کے اعتبار سے صحابہ کے ایک مُد یا آدھے مُد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ میرے صحابہ کی مثال کھانے میں نمک کی سی ہے، کہ کھانا بغیر نمک کے اچھا نہیں ہوسکتا۔

حضراتِ صحابہ کرام کی دین متین سے حقیقی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت و فرمانبرداری ووفاداری کے نتیجہ میں ہی آج دین اسلام پوری دنیا میں کتابی شکل میں بھی اور عملی شکل میں موجود ہے۔ اگر یہ حضرات بھی ایماناً عملاً حواریین عیسی اوراصحابِ موسی کی طرح سے کمزور ہوتے تو سینٹ پول کی طرح اور سامری کی طرح، عبداللہ بن سبا بھی دین متین کو یہودیت اور عیسائیت کی طرح بگاڑنے میں کامیاب ہوگیا ہوتا۔ عالم اسلام میں رُونما ہونے والے فتنوں سے دین متین مغلوب ہوگیا ہوتا۔ بھول چوک بدگمانی اور دشمنانِ دین کی شازشوں سے بھلے ہی دھوکہ کھاکر حضرات صحابہ کرام جنگ جمل اور صفین میں ایک دوسرے کی شہادت کے ذمہ دار ہوئے ہوں لیکن کبھی بھی دین متین کو نہ تو شیعانِ علی نے اور نہ ہی محبین معاویہ نے آنچ آنے دی ہے۔ قیصرِ روم کے ناپاک ارادوں سے (حضرت علی پر قیصر کا حملہ کرنے کا ارادہ) باخبر ہوکر حضرت معاویہ نے قیصر کو متنبہ کیا تھا کہ تیرے مقابلہ میں علی کی حمایت میں سب سے پہلا سپاہی میں ہوں گا۔

دین اسلام کو اپنی اصلی شکل میں قائم رکھنے کیلئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کے مطابق اولاً تو حضرات صحابہ کرام کی بڑی تعداد نے قرآنِ کریم کو حفظ کرلیاتھا اور ثانیاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث (اقوال وافعال و تقاریر) وغیرہ کو بھی زبانی بھی یاد کرلیا تھا اور قلم بند بھی کرلیا تھا۔ اُمم سابقہ میں (یہود و نصاریٰ) اپنی مقدس کتب کو حفظ رکھنے کی کوئی قوی شہادت موجود نہیں اور نہ ہی کوئی مثال دستیاب ہے جس کے نتیجہ میں اصل کتاب کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے فِتّیْن کو فتنہ برپا کرنے اور کتب مقدسہ میں تحریف و تبدیل کرنے کا موقع ملا۔

الحمدللہ! حضرات صحابہ کرام نے کلامِ الٰہی اور کلامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کو حفظاً وعملاً قائم رکھا جس کے نتیجہ میں دشمنانِ دین کو کتابِ الٰہی میں کسی بھی قسم کی تحریف کرنے کا موقع نہ ملا۔ اور فتنہٴ وضع حدیث کو بھی مخلصین علماء کرام نے بآسانی دفع کردیا۔ دین متین کے ایک ایک رکن اور جز کو صحابہ کرام نے جس طرح سنبھالا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدکچھ نئے مسلمانوں نے زکوٰة نہ دینے پر اصرار کیاتو حضرت صدیق اکبر نے اعلان کیا کہ اگرکسی شخص پر ایک رسّی بھی زکوٰة میں واجب ہے تواس کو بھی اس سے حاصل کیا جائے گا، چاہے اس کے لئے جہاد ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

          اسی طرح سے حضرت عمر نے حج کا انکار کرنے والوں سے بھی جہاد کرنے کا اعلان کیا اور وہ شخص جو رمضان میں کھلم کھلا کھائے پئے اس کی گردن زدنی کا بھی حکم حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے باب العلم نے صادر کیا اور نماز تو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ تو تمام حضرات کے مطابق حق و باطل اسلام اور کفر کے درمیان حدّ فاصل ہے۔ اس کو قائم کرنے والا دین کو قائم کرنے والااور اس کو منہدم کرنے والا دین کو منہدم کردینے والا مانا جاتا ہے۔اس کے بالمقابل مریم جمیلہ (ایک عیسائی عالم جس کی مشہور کتاب اسلام بمقابلہ اہل کتاب ہے) کے مطابق دین موسوی میں اصلاً رکوع بھی تھا اور سجدہ بھی تھا۔ دونوں ارکانِ نماز کو دین مسیح اور دین اسلام کی مخالفت میں ختم کردیاگیا لیکن آج بھی یہود کے سامری طبقے میں یہ ارکان کسی حد تک موجود ہیں۔

حضراتِ صحابہ کرام کی دین سے محبت اور پختگی ہی کی وجہ سے حضرت حذیفہ بن الیمان کی آذر بائیجان اورآرمینیہ کے میدانِ جہاد سے واپسی پر اہل عراق اور اہل شام کے درمیان قرآنی لہجوں یا تلاوت میں نزاع کی خبر سنتے ہی حضرت عثمان غنی نے مجلس شوریٰ کے ذریعہ حضرت زید بن ثابت کی صدارت میں قرآن شریف کو از سر نو جمع فرمایا اور ساتوں حروفِ نزول قرآن کو مدنظر رکھتے ہوئے لغتِ قریش کے مطابق قرآن شریف کی خدمت انجام دی۔ آج یہی مصحف عثمانی پورے عالم اسلام میں موجود ہے یہاں تک کہ بدنامِ زمانہ حجاج بن یوسف نے بھی قرآن کریم کو تلاوت کی آسانی کے مدنظر قرآن کریم پر اعراب لگواکر دین متین کو قوت پہنچائی۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ حضراتِ صحابہ کرام یہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ دین متین کو ذرا بھی نقصان پہنچے اور ہم میں کوئی آنکھ چمکتی رہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی حکم یا منشاء یا اشارہ ظاہر کریں اور ہم اس پر عمل کرنے کیلئے نہ دوڑیں۔ اصل میں یہ وہ پاک نفوس ہیں جنھوں نے جان ومال وقت جذبات اثر و رسوخ آل و اولاد سب کی قربانی دے کر دین اسلام کو اپنی اصل حالت پر رکھا۔ چاروں سمتوں میں اس کو پہنچانے کی کوشش بھی کی اور آئندہ نسلوں کے لئے مثالیں بھی چھوڑ گئے۔ تاکہ آئندہ نسلیں دین کی خدمت نشرواشاعت اور حفاظت کے میدان میں قرآن کریم کی اس آیت پر عمل کرسکیں۔ وَفیْ ذٰلکَ فَلْیَتَنافَسِ الْمُتَنافِسُون (سورہ تطفیف آیت ۶۶)

اخیر میں علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کے ان اشعار پر اس مضمون کو ختم کرتاہوں:

کبھی اَے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے

وہ کیا گردوں تھاجس کا ایک تو ٹوٹاہوا تارہ

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سردارا

غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیاتھے

جہاں گیرد جہاں دارد جہاں بانو جہاں آرا

--------------------

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریّا سے زمیں پر آسمان نے ہم کو دے مارا

اور اخیر میں: اللّٰہم لکَ الحمدُ کُلّہ وَلَکَ الشُّکْرُ کُلّہ وَلَکَ الخَلْقُ کُلّہ وَلَکَ الْمُلْکُ کُلّہ واِلَیْکَ یَرْجعُ الاَمْرُ کُلّہ۔ اَللّٰہُمَّ اِنّی اَسْئَلُکَ مِنَ الخَیْرِ کُلِّہ عاجلہ وآجلہ واعُوذبک من الشّرِّ کُلِّہ عاجلہ وآجلِہ

”وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہِ رب العالمین“

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 90 ‏،جمادی الاول1427 ہجری مطابق جون2006ء