عالم اسلام کا ایجنڈہ

تعلیم و تکنالوجی یا عریانی و عیاشی

از:ڈاکٹر ایم اجمل

 

امپیریلزم یا سامراجیت کا ایک مخصوص مقصد ہوتا ہے یہ کہ اپنے مفاد کے لئے ہر طرح کی کارروائی کرو شرط صرف یہ ہے کہ اس کے لئے نام اچھے سے اچھے تلاش کرکے رکھو مثلاً یہ کہ جس کسی بھی طاقت نے دوسرے کو غلام بنایا تو یہی کہا کہ ہم تو انھیں تمیز اور تہذیب سکھانے آئے ہیں جیساکہ ہندوستان پر قبضہ کے دوران انگریزی سامراج نے بارہا یہی راگ الاپا تھا اس خوبصورت مقصد کے پیچھے خالص مفاد پرستانہ بلکہ ہوس پرستانہ مقاصد کارفرما ہوتے تھے اور آج بھی ہیں۔ ہندوستان کے مسلم دانشوروں میں آج کل عموماً یہ موضوع زیر بحث رہتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا بالخصوص اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا بالعموم سب سے اہم مسئلہ کیا ہے؟ غالب اکثریت یہ کہتی ہے کہ جہالت، تعلیم کی کمی اور مدرسوں کی زیادتی ہمارا مسئلہ ہے کیونکہ گذشتہ دو صدیوں میں مسلمان بالعموم مولویوں کے زیر اثر رہے ہیں اس لئے انھوں نے ترقی نہیں کی۔ اور مسلمانوں کو ترقی کرنے کیلئے ملا مولویوں سے پیچھا چھڑانا ہوگا۔ ان میں سے اکثریت یہ بھی کہتی ہے کہ مغربی تہذیب کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کو اپنانے میں ہی امت مسلمہ کی بھلائی ہے جیسا کہ دوسری قومیں کررہی ہیں۔ کیا واقعی مسلمانوں کی پسماندگی کے ذمہ دار علماء کرام ہی ہیں؟ کیا گذشتہ دو صدیوں میں اور آج بھی مغربی سامراج نے مسلمانوں کی ترقی کے لئے ان کے ممالک پر قبضہ بالواسطہ یا بلا واسطہ جما رکھا ہے؟

تاریخ پر نظر ڈالیں اور حالات حاضرہ کو دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ مغربی سامراج نے دراصل صرف اپنی حرص کو پورا کرنے اور اپنی غلامی کے لئے موزوں نسل پیدا کرنے کیلئے ہی مسلم ترقی پذیر ممالک پر قبضہ کیا تھا۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ صدیوں یا دہائیوں پر محیط مغربی استعماری غلبہ کے باوجود اکثر و بیشتر مسلم ممالک پسماندہ کیوں رہے؟ وہاں ان کے عقائد کی رعایت رکھے بغیر مشینری اسکول کھولے گئے، تفریحی کلب عیاشی کے لئے کھولے گئے، شراب اور زنا کی تہذیب کو عام کیاگیا۔ مغربی تہذیب کے ظاہری مظاہر کو پھیلایاگیا۔ کھانا، خوراک، لباس، نشست و برخاست کی طرف تو بہت توجہ کی گئی مگر تعلیمی ادارے نہیں کھولے گئے اور کھولے بھی گئے تو عقائد کو ضرب پہنچانے والی تعلیم دی گئی جس کا رد عمل ہونا ہی تھا۔ مگر ہمارے دانشوروں کو تجربہ کی روشنی میں حقیقت کو جھٹلانے کا رویہ نہیں اپنانا چاہئے اور حقیقت یہ ہے کہ دو سو سال پہلے بھی اور آج بھی مغربی سامراجی طاقتیں صرف اور صرف اپنی لوٹ کو قائم رکھنے کیلئے معدنیات وسائل اور منڈی کی تلاش میں اور عیسائیت کے فروغ کیلئے ہی کمزور ممالک کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتی رہی ہیں اور بقدر ضرورت وہاں بھی کچھ تعلیم و ٹکنالوجی کی خیرات بھی بانٹ دیتے ہیں تاکہ مقامی طور پر ان کیلئے ایک غلام طبقہ وجود میں آسکے۔ حال ہی کی دو مثالیں اس مکار کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔

افغانستان پر امریکی قبضہ کے بعد وہاں سب سے پہلے پہنچنے والی چیزیں شراب، فلمیں اور سامان تعیش تھا۔ بیوٹی پارلر اور فلم ہال سب سے پہلے کھلے۔ ۲۸/ فروری کے ہندوستان ٹائمس میں یشونت راج نے لکھا ہے کہ اب یہاں موبائل فون ہے، تھائی فوڈ ہے، شراب ہے اور لڑکیاں بھی ہیں قوت باہ بڑھانے کی دواؤں کی سب سے بڑی کھپت یہیں ہے۔ میں نے انگریزی پڑھانے والے استاذ قدرت اللہ سے پوچھا کہ کیا ان کی خاتون دوست ہیں تو انھوں نے فوراً موبائل سے فون کرکے خاتون دوست سے میری بات کرائی۔ ایک نیا افغانستان بن رہا ہے جوکہ دولت، عورت اور خوابوں کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔

یہی حال عراق کا ہے امریکی قبضہ کے پہلے دن ہی C.N.N نے ایک عراقی سے پوچھا کہ اب کیا ہوگا؟ اس نے کہا اب سیکس، شراب اور دولت حاصل کرنے کی آزادی ہوگی۔

دبئی اس وقت مسلم دنیا کا سب سے مثالی ملک مغربی پیمانہ سے مانا جاتا ہے۔ دبئی میں کیا بڑی صنعتیں ہیں؟ بڑے اسکول اور تعلیمی ادارے اور تحقیقی مراکز ہیں؟ ٹکنالوجی کی ترقی ہے؟ بڑے معیاری علاج معالجہ کے مراکز ہیں؟ نہیں سب کا جواب نفی میں ہے۔ وہاں کیا ہے؟ ۱۳/ جنوری کے ٹائمس آف انڈیا کی خبر دوبیرونی صحافیوں کی ارسال کردہ شائع ہوئی جس کے مطابق اب دبئی میں باہر سے آئے کام کرنے والوں نے جب تفریح گاہوں کو آباد کیا تو وہاں کے حکمرانوں کو محسوس ہوا کہ اس کے ذریعہ کمائی بھی کی جاسکتی ہے آج وہاں تیس ہزار ہوٹل کے کمرے ہیں، وہاں ۲۷۰ ہوٹل ہیں اور ۱۲۰ ہوٹل نما مکان ہیں جو ۸۰ تا ۹۰ فیصد بک رہتے ہیں۔ دبئی میں دنیا کی سب سے بڑی آدمی کی بنائی ساحل پٹی سمندر کے اندر پانچ کلومیٹر تک بنائی جارہی ہے اس جزیرے میں دوہزار وِلا، ڈیڑھ ہزار اپارٹمنٹ اور چالیس لگژری ہوٹل ہوں گے۔ دنیا کے نقشہ کے طرز پر ایک جزائر سے گھرا ہوا علاقہ بنایا جارہا ہے جس میں دو سو پچاس ذاتی ملکیت والے جزیرے ہوں گے جرمنی کے ذریعہ وہاں دنیا کا پہلا پانی کی تہہ میں زمین سے تین سو میٹر دور ہوٹل بنایاجارہا ہے۔ وہاں گولف کلب بھی ہیں، اس کے علاوہ تمام مسلم ممالک کے احوال دیکھ لیجئے سب جگہ صرف ہم صارف یا ٹریڈیا کمیشن ایجنٹ بنے ہوئے ہیں صنعت کار وسروس دینے والے و معیاری کھیتی کرنے والے نہیں ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ہمارے ترقی پسند و مذہب بیزار و جدید تعلیم یافتہ حکمرانوں کو کس نے روکا کہ وہ جدید تعلیمی ادارے و تحقیقی مراکز و صنعتی ترقیاتی مراکز واعلیٰ ٹکنالوجی کے مراکز کھولتے؟

مگر وہ کھول رہے ہیں شاپنگ ہال، ٹیکس فری ٹریڈزون، ہوٹل جواگھر، شراب گھر، گولف کے میدان، کرکٹ کے میدان، فٹ بال کے میدان وہ اپنے یہاں تعلیمی و صنعتی و تحقیقی سیمینار نمائش فیسٹیول نہیں کرتے، وہاں ہوتے ہیں فلمی اداکاروں کے تقسیم انعامات کے شو، دوسرے ممالک کے کرکٹ کے ٹورنامنٹ، مغربی رقاصاؤں، ہالی ووڈ، بالی ووڈ، اور لالی ووڈ کے نائٹ شو اور ایسے ہی لغویات۔

کیا دبئی اور دیگر ممالک کے حکمراں مدرسوں کے فارغین ہیں؟ کیا انھیں معلوم نہیں کہ سیاحت سب سے غیرمحفوظ اور خطرناک صنعت ہے۔ کیا تعلیم، تحقیق، تجارت اور سروس سیکٹر کی افادیت ان کو معلوم نہیں ہے؟ کیا زراعت ان کے یہاں سب سے بڑا شعبہ نہیں ہے؟ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ وہاں سے آنے والے ہندوستانی پاکستانی اور بنگلہ دیشی مسلمان بھی اسی ذہنیت کا شکار ہوکر آتے ہیں وہ اپنی دولت کا مصرف کسی پیداواری مد میں صرف کرنے کے بجائے اکثر معاملوں میں صرف سامان عیش و آرام میں خرچ کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت بھی نہیں کرپاتے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت کے قائدین، عوام و خواص سب اپنی ترجیحات قرآن و سنت کے مطابق طے کریں جس پر عمل کرکے اس امت نے دنیا میں ہر شعبہ میں امامت کا رول ادا کیا تھا آج بھی اس رہنمائی میں ہم دوبارہ انسانیت میں پچھلگوں کے گھٹیا مقام سے امامت کے باعزت مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 90 ‏،جمادی الاول1427 ہجری مطابق جون2006ء