نئی نسل کی تربیت، تعلیم و تزکیہ

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، دہرہ دون

 

تمام مخلوقات میں انسان کی تربیت سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ انسان ہی روئے زمین کا واحد فرد ہے جس پر زمین کی صلاح و فساد کا انحصار ہے۔ اس انسان کو اللہ نے ارادہ واختیار کا مالک بناکر دیگر تمام مخلوقات سے ممتاز بنایا۔ اور اُس کو خیر و شر، نیکی و بھلائی کی راہ دکھانے کے لئے کتاب بھی دی اور انبیاء کرام کا سلسلہ بھی جاری کیا۔ جو آدم سے شروع ہوکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا۔ انسان کی نسلوں کو اسی اعتبار سے تربیت کے لمبے عرصہ اورمرحلوں سے گذارنے کی تلقین اور تعلیم تمام ادیان میں اور تہذیبوں میں ملتی ہے۔ کیونکہ اس انسان کے اعمال پر اس دنیا میں امن یا فساد، نیکی یابرائی، محبت یا نفرت کا دارومدار ہے۔ انسانوں کے لئے اللہ کی طرف سے ازلی ابدی سلسلہ ہدایت کی آخری کڑی قرآن پاک اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس عظیم ذمہ داری کی اہمیت اور اس کے طریقہٴ کار کے لئے رہنمائی فرمائی کہ انسان کس طرح اپنی آنے والی نسلوں کو خود ان کیلئے اور تمام انسانیت کے لئے مفید اور باعث خیر بنائے۔ اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات پر ایک سرسری نظربھی ڈالیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ نئی نسل کی پرورش اور تربیت و تعلیم کے لئے ربّ کائنات نے اپنے بندوں کو کتنا آمادہ کیا ہے۔ بعض علماء نے اس لطیف نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآنی تعلیمات کی رو سے تو بچہ کے عالم وجود میں آنے سے پہلے ہی اللہ نے اس عظیم الشان فریضہ کی ادائیگی کے اہتمام کی تلقین فرمائی ہے۔ حضرت ایوب، حضرت یحییٰ ، حضرت یعقوب، حضرت ابراہیم جیسے جلیل القدر انبیاء سے اس سلسلہ میں جو دعائیں منقول ہیں اس میں یہ تلقین کی گئی کہ صرف اولاد کی دعاء نہ مانگیں بلکہ نیک، قلب سلیم، عظیم حلیم کی دعاء مانگیں۔ عام مومنین کو دعاء کی تلقین کی گئی کہ یہ دعاء مانگیں: ”اے اللہ ہمیں اپنی بیویوں اور اولادوں سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا اور ہم کو پرہیزگاروں کاامام بنا“ الفرقان آیت ۷۴، اس سلسلہ میں اگر ہم مزید غور کریں تو ہمیں متعدد ایسی تعلیمات اور ترغیبات ملتی ہیں جن میں ایسے ذرائع اختیار کرنے کو کہا گیا ہے جن کے نتیجہ میں ایک نیک اور خدا شناس و خدا پرست نسل وجود میں آئے۔ نکاح سے قبل ہی اس بات کی ترغیب دی گئی کہ مال و جمال کے بجائے کمال کی بناء پر شریک حیات کا انتخاب کیا جائے۔ پھر نکاح کے موقع پر مبارکباد کے طور پر دی جانے والی دعا میں بھی یہی روح کار فرما ہے فرمایا گیا کہ دعاء کے طور پر ان الفاظ کو ادا کرو ”اللہ تعالیٰ تم دونوں میں برکت عطا فرمائے اور تمہیں خیر پر جمع کرے“ اور آگے بڑھیں تو بتایا گیا کہ ہمبستری سے قبل دعاء پڑھیں ”اے اللہ ہم دونوں کو شیطان کی شرارتوں سے محفوظ فرما اور اسے بھی جو اس عمل کے نتیجہ میں وجود میں آئے“ (حدیث بخاری ومسلم) پھر لقمہ حلال کی تلقین فرمائی گئی اور حرام خون سے پرورش پانے والی اولاد سے کسی خیر و بھلائی کی توقع نہ رکھنے کی بھی وعید سنائی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں مرحلہ وار نئی نسل کی تعلیم و تربیت سے متعلق فرمایاگیا کہ:

۱-     اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔

۲-    بچوں سے جدا نہ رہو انہیں اچھے آداب سکھاؤ۔ حدیث نبوی

۳-    کسی بھی بیٹے کو اپنے والد سے حسن ادب سے بہتر کوئی وراثت نہیں ملتی۔ حدیث نبوی۔

۴-    اپنے بچوں کو ادب سکھاؤ پھرانہیں تعلیم دو۔ حضرت عمر۔

۵-    ادب آبا واجداد کی طرف سے حاصل ہوتا ہے اور نیکی اللہ کی طرف سے۔

۶-     اپنے بچوں کو معزز بناؤ اورانہیں عمدہ آداب کی تعلیم دو۔ امام محمد بن سیرین۔

۷-    جو شخص بچپن میں اپنے بچوں کو ادب سکھاتا ہے وہ بچہ بڑا ہوکر اس کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے۔

۸-    بچپن میں ادب سکھانے کا فائدہ ہے بڑی عمر میں ادب سکھانا ایسا ہے جیسے سوکھی لکڑی کو سیدھا کرنا۔ وہ ٹوٹ جائے گی مگر سیدھی نہیں ہوگی۔

۹-     جسے والدین ادب نہ سکھائیں اسے زمانہ ادب سکھادیتا ہے۔

۱۰-   اپنے بچوں کی تین باتوں پر تربیت کرو۔

          (۱) آنحضرت کی محبت پر (۲) اہل بیت کی محبت پر (۳) قرآن کی تلاوت پر

۱۱-    اپنے بچوں کو تیراکی اور گھوڑ سواری سکھاؤ۔ حدیث نبوی

۱۲-   علامہ ابن خلدون اس بابت فرماتے ہیں کہ ”بچوں کو قرآن کی تعلیم شعائر اسلام میں سے ہے۔ پھر امت نے ہر دور میں اس پر عمل کیا ہے۔ (اولاد کی تربیت - قرآن وحدیث کی روشنی میں، از احمد خلیل جمعہ)

تربیت اور تعلیم کا سلسلہ جو ماں کی گود سے شروع ہوتا ہے اگلا مرحلہ گھر اور مکتب اور پھر معاشرہ کا ماحول ہوتا ہے۔ اگر ہم اس تعلق سے شریعت کی رہنمائی پر غور کریں کہ کس طرح وہ آداب اور اخلاق سے پر اور بداخلاقی، فحش و منکرات سے پاک معاشرہ کی تعمیر پر زور دیتا ہے بلکہ ایسے معاشرہ کی تعمیر کا قیام امت مسلمہ کے اجتماعی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اور فریضہ قرار دیاگیا۔ پھر یہ کام محض ایک ثواب کاکام نہیں بلکہ ضروری امر قرار دیاگیا۔ یہ اہمیت بالکل فطری ہے کیوں کہ تمام مخلوقات میں انسان ہی ایسی مخلوق ہے جن کی پیدائش، ذہنی جسمانی نشوونما کا اتنا لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اور اس عرصہ کے ہر مرحلہ میں الگ الگ عوامل نئی نسل کی تربیت و تعلیم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بچپن میں ماں پھر گھر کا ماحول پھراسکول مکتب اور معاشرہ اور ذرائع ابلاغ۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کو اس آیت کی روشنی میں سمجھتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے۔( التحریم) تو ہمیں اپنے رویہ کا بے لاگ، منصفانہ جائزہ لینا ہوگا۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم اور اسماعیل کی دعاء کا ذکرہے کہ ”اے ہمارے رب ان لوگوں میں خود انہیں کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے“ (البقرہ : ۳۴) اس دعا کی قبولیت پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ”درحقیقت اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا ہے جواس کی آیات انہیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب و دانائی کی تعلیم دیتا ہے“ (آل عمران:۱۶۴) یہی مضمون سورہ الجمعہ آیت ۲ میں بھی وارد ہوا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آج ہم نے اپنی نئی نسل کی تربیت و تعلیم کا کام کسے سونپ رکھاہے؟ ماؤں کے معمولات و مشغولیات کیا ہیں؟ خود انہیں دین اور اپنی ذمہ داری کا کتنا شعور ہے؟ گھروں میں T.V اور Cable کی بدولت کیا ماحول ہے؟ اسکولوں میں استانیوں کے حالات اور نصاب کیسے ہیں اور سب سے بڑھ کر معاشرہ میں شیطانی طاقتوں، بے حیائی، بدتمیزی، بے ادبی (آزادی) اور بے انصافی کا کیا ماحول ہے؟ اب ایسے میں بویا پیڑ ببول کا تو آم کہاں سے پائے؟ کے علاوہ ہم کس نتیجہ کے مستحق ہیں۔ کل ملاکر مادّہ پرستی اور آخرت فراموشی و خدابیزاری کا جو ماحول ہے وہ ہم پہلے دن سے ہی بچہ کے شعور و لاشعور میں بٹھاتے ہیں اور صرف بڑا آدمی ”ڈاکٹر“ ”انجینئر“ ”کامیاب“ آدمی بننے کی منزل اور مراد اس کے سامنے رکھتے ہیں حالانکہ اس میں تھوڑی سی تبدیلی ہم اگر اپنی فکر میں کرکے اسے قرآنی بنالیں اور ”نیک بڑا آدمی“ ”نیک ڈاکٹر“ ”نیک کامیاب آدمی“ کی خواہش خود بھی کریں اور نئی نسل کے سامنے بھی اسی کو حاصل کرنے کی منزل بنائیں تو ہمارا رویہ بھی بدلے گا اور اولاد کا بھی اور پورے معاشرہ میں تبدیلی بھی آئے گی۔اور آج Generation gap نسلوں کے درمیان فاصلہ کا جو مسئلہ ہے وہ بھی بخوبی حل ہوسکے گا۔ یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اس کے تقاضے بھی اتنے ہی سنگین ہیں اور ہماری اوّلین ترجیح میں شامل ہونے ضروری ہیں۔ دنیا بھر میں آج کل جو فکری، اخلاقی، اعمالی گمراہی عام ہے اُس کے باعث کام دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اور طرہ یہ کہ آج کی غالب تہذیب آزادی اور ”کامیابی“ کے نام پر جو بے لگامی اور بدتمیزی اور اخلاق و اصول کی پامالی کا سبق دن رات پڑھا رہی ہے اسکے خطرناک، تکلیف دہ نتائج بھی ہم کو ہی بھگتنے ہوتے ہیں۔

نئی نسل کی ذہن سازی اور کردار سازی پیدائش کے وقت سے ہی نومولود کے ایک کان میں تکبیر اور دوسرے میں اقامت کے ذریعہ شروع ہوجاتی ہے۔ اُس کے کوئی بھی لمحہ سیکھنے کے عمل سے چاہے وہ شعوری ہویالاشعوری خالی نہیں رہتا۔ اس لئے ہر وقت اور ہر لمحہ میں چوکنا رہنا ضروری ہے۔ سردست توجہ طلب یہ ہے کہ یہ موسم گرما کی تعطیلات کا زمانہ ہے۔ اس فرصت کا بہترین استعمال دینی دنیاوی کامیابی کے لئے کیسے ہوسکتا ہے اس پر غور کرنا اور عمل کرنا بہت مفید رہے گا۔ ہندوستان کے طول و عرض میں اس طرح کا تجربہ عرصہ سے جاری ہے اور مغربی ممالک میں تو نئی نسل میں دین کی منتقلی کا کام اسی نظام کا مرہون منت ہے۔ جس کے تحت وہ شبینہ کلاسیز یا ”تعطیلاتی کورسز“ کا اہتمام کرتے ہیں۔ درج ذیل میں اس کا ایک بنیادی خاکہ پیش خدمت ہے اپنے تجربات اور ضروریات کی روشنی میں اس میں حذف و اضافہ کیا جاسکتا ہے:

(۱)    دینیات: قرآن ناظرہ کی ابتداء یا اسکی تصحیح، کم سے کم پارہ عم کی آخری ۲۰ سورتوں کا ترجمہ و تفسیر۔

(۲)   ایمانیات: ایمان مجمل،مفصل، مسائل طہارت و وضو، روز مرّہ کے حرام و حلال کے مسائل۔

(۳)   نماز: مسائل واذکار نماز۔

(۴)   تاریخ اسلام: اشاعت اسلام اور اسلامی تہذیب و علوم فنون کی تاریخ مختصر، نیز اسلام پر اعتراضات کے جوابات۔

(۵)   اردو۔       (۶)          اسلامی آداب۔(۷)  معلومات عامہ / اسلامی معلومات عامہ۔

اس کے علاوہ انگلش بول چال، حساب، فزکس، کیمسٹری اور کامرس جیسے مضامین میں کمزور طلباء کے لئے ایک پیریڈ مختص کیا جاسکتا ہے۔ کبھی کبھار (مہینہ میں ایک یا دو لیکچر) شخصیت کے ارتقاء Personality devlopment اور تعلیمی وپیشہ ورانہ رہنمائی Educational & Career guidance کے لئے مختص کرنا بھی بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ مختلف موضوعات پر شرکاء کی فی البدیہ تقاریر سے بہت دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ ان تمام موضوعات پرمفید اورمختصر کتابیں موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تاکیدی حدیث پر بات ختم کرتا ہوں کہ ”تم میں ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا“ اس سوال کے جواب کی تیاری کا زمانہ ابھی ہی ہے۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7، جلد: 90 ‏،جمادی الثانی 1427 ہجری مطابق جولائی2006ء