دارالعلوم دیوبند:

ملکی اور غیرملکی مہمانوں کی نظر میں

 

 

دارالعلوم دیوبند نے آئندہ نسلوں کے لئے نوادرات اورمخطوطات کا بیش قیمت اثاثہ محفوظ کررکھاہے۔ یہ ادارہ دیکھنے کی چیز ہے اور اس کا کتب خانہ اس میں سب سے زیادہ قیمتی شعبہ ہے۔ اس میں اسلامی اور ہندودھرم کی مذہبی کتابیں اور دیگر مذاہب کی کتابیں ایک جگہ رکھی ہوئی ہیں، ان کو دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ اس طرح کا مذہبی کتابوں کا اجتماع میں نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ دارالعلوم بلاشبہ معاشرہ سماج اور قوم کی رہنمایانہ خدمت انجام دے رہا ہے۔

یہ ہیں وہ خیالات جو ایس ایس پی سہارنپور جناب امیتابھ یش نے ۲۴/جون ۲۰۰۶/ کو دارالعلوم کا دورہ کرنے کے بعد تحریری طور پر واضح کئے۔

دارالعلوم دیوبند کی خدمات اور قومی تعلیمی پالیسی سے اس کی مطابقت اور ہم آہنگی نہ صرف ابنائے وطن کو بلکہ پوری دنیا سے یہاں آنے والے مہمانوں کو متاثر کرتی ہے طلبہ کا نظم و نسق، ان کی تعلیم سے وابستگی، حصول تعلیم کے بعد ملک و قوم کی خدمات اور امن پسندانہ روش سبھی انسان دوست عوام کو متاثر کرتی ہے۔

اسی جون کے مہینے میں جمہوریہٴ انڈونیشیا سے سات افراد پر مشتمل ایک وفد ہندوستان میں قرآن کریم کی تعلیم اور اس کی اشاعت کے حوالے سے دارالعلوم دیوبند کی خدمات اور اس کے اساتذہ اور مفسرین کا اہم کردار جانچنے اور پرکھنے کے لئے ۲۲/جون کو یہ وفد دارالعلوم میں آیا، یہاں اس وفد کے ارکان نے مہمان خانہ میں درالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب سے عربی زبان میں بات چیت کی۔ آپ کے ساتھ رابطہ مدراس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند کے ناظم عمومی مولانا شوکت علی صاحب اور عربی کے استاذ مولانا محمد ساجد صاحب بھی شریک رہے۔

ارکان وفد کے نام یہ ہیں:

فضل اے آر بہ فضل ایم سی                                   ڈاکٹر ایچ احسن ساکھو محمد ایم اے

پروفیسر ڈاکٹر ایچ سلمان ہارون                               ڈاکٹر حاجی نائزہ علی سیوبرد مالیسی

محترمہ ایچ محمد شعیب ایم اے                                ڈاکٹر ایچ ایم سیابتی اے ایچ

مسٹر رضا علی ڈبلیو اندرکیوما (وزیر قونصلر)

قاری محمد عثمان صاحب نے تفصیل کے ساتھ ہندوستان میں شائع ہونے والی قرآن کریم کی تفاسیر اور اس کے مختلف ایڈیشنوں کے حوالے سے مکمل معلومات مہمانوں کو عربی زبان میں دی جن سے وہ بے حد متاثر ہوئے اور بار بار شکریہ ادا کرتے رہے۔ ان لوگوں نے دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں جاکر مخطوطات اور قرآن کریم کی مختلف تفاسیر کے حوالہ جات تحریر کئے چونکہ یہ حضرات انڈونیشیا کے محکمہ تحقیق و ترقی سے وابستہ ہیں اور سرکاری سطح پر وہاں قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات کی اشاعت سے دلچسپی رکھتے ہیں لہٰذا ان کو یہ تمام معلومات بہت مفید اور بیش قیمت معلوم ہوئیں۔

دوپہر کو مہمان خانے میں کھانا تناول فرمانے کے بعد کچھ دیر استراحت فرمائی بعد نماز ظہر دارالعلوم کی مسجد رشید اور احاطہ دارالعلوم کی سیر کی اور مختلف موضوعات پر تبادلہٴ خیال کیا مثلاً نصاب تعلیم، عرصہٴ تعلیم، مصروفیات بعد از تعلیم، خدمات دارالعلوم وغیرہ وغیرہ۔

شام کے وقت حضرت مہتمم مولانا مرغوب الرحمن صاحب سے ان کے دفتر میں ملاقات فرمائی، مہتمم صاحب نے مشورہ دیا کہ انڈونیشیا میں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں ہے۔ اس لیے اسے عالمی سطح پر مسلمانوں کی رہنمائی کرنی چاہئے اور مسلمانوں کے مسائل کو وسیع تناظر میں سمجھنے اور ان کے حل کے لئے کوشش کرنی چاہئے، حضرت مہتمم صاحب کے مشورہ اور آپ سے تبادلہٴ خیال کے بعد وہ بے حد متاثر تھے، آپ نے حضرت والا کا مہمان نوازی کیلئے شکریہ ادا کیا اور اپنے تاثرات معاینہ بک میں تحریر کیے۔

اسی مہینے میں دارالعلوم دیوبند میں ایک اور غیرملکی مہمان برطانیہ سے آئے۔ آپ کا اسم گرامی تھامس ریلی ہے، آپ کے ہمراہ برطانوی ہائی کمیشن نئی دہلی میں اطلاعات و نشریات کے شعبہ کے انچارج جناب اسد رضا اور سیکنڈ سکریٹری مسٹر جیسن ٹائرنی بھی تھے۔ یہ حضرات دارالعلوم دیوبند دیکھ کر متاثر ہوئے۔ مسٹر تھامس ریلی نے اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا آپسی روابط بڑھانے کی سخت ضرورت ہے، آپس میں ایک دوسرے سے معلومات نہ ہونے سے دوریاں بڑھ رہی ہیں، ملاقاتوں کا سلسلہ مستقل بنیادوں پر جاری رہنا چاہئے۔ یہ برطانیہ سے آئے تھے، آپ ۲۰/جون کو دارالعلوم دیوبند میں آئے تھے اور دارالعلوم دیوبند کے حوالہ سے بہت سی معلومات حاصل کیں، طلبہ کا مشن ان کاذوق و شوق اور مصروفیات پر آپ کی خاص توجہ رہی۔

مختصراً یہ کہ دارالعلوم دیوبند کی خدمات اور اس کی نصابِ تعلیم کی مقبولیت اب عالمی سطح پر جس طرح بڑھتی جارہی ہے،اس کا اندازہ ملکی اور غیرملکی مہمانوں کی آئے دن آمد سے ہوجاتا ہے۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7، جلد: 90 ‏،جمادی الثانی 1427 ہجری مطابق جولائی2006ء