دوسری قسط

اردو زبان وادب کے فروغ میں

علمائے دیوبند کا کردار

بہ قلم عبدالرحمن پٹنوی‏، متعلّم تکمیل افتاء دارالعلوم دیوبند

 

حاجی امداد اللہ صاحب شیخ طریقت اور صاحب طرز ادیب

انیسویں صدی کی عہد آفریں شخصیت، حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے پیر طریقت، حکیم الامت حضرت تھانوی کے مرشد ہدایت، سلوک و بیعت میں عرب و عجم کے استاذ، دارالعلوم دیوبندکے مخلص و محافظ، ملک وملت کی نابغہٴ روزگار ہستیوں کے مرجع ومرکز، اخلاص وللہیت کے پیکر، درویش و فاقہ کش، زمزمہ سنج وبادہ کش، شیخ المشائخ، سیدالطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ (متوفی ۱۳۱۷ھ - ۱۸۹۹/) کی ذاتِ گرامی نے جہاں علم وعرفان، رشد وہدایت، سلوک وبیعت، شریعت و طریقت اور مے خانہٴ تصوف سے ہزاروں رندوں کو سیراب کیا وہیں شعر و شاعری کی بزم بھی سجائی ہے اور اپنی عمل پذیرشاعری کے ذریعہ شعراء و ادباء کی مجلس میں ایک امتیازی شان اور الگ پہچان بنائی ہے۔

حاجی صاحب کے سراولیت کا تاج

اردو شعراء کے مشہور تذکرہ نویس ”محمد حسین آزاد“ نے ”ولی دکنی“ کو شعراء کا ”باوا آدم“ کہا ہے، اور سب سے پہلے صاحب دیوان ہونے کے باعث ان کے سر اولیت کا تاج رکھاہے، اسی طرح علمائے دیوبند میں شعر و شاعری کے میدان میں پہل کرنے، اردو کی تعمیر و ترقی میں پیش پیش رہنے؛ بلکہ دیوبندی حلقے میں زبان و ادب کی داغ بیل ڈالنے کا سہرا اگر حاجی صاحب کے سرباندھا جائے تو بالکل برمحل اور ”انگوٹھی میں نگینہ“ کے مرادف ہوگا۔ اس بات کو حقیقت سے منطبق کرنے کیلئے آئیے ”حیات امداد“ کا ایک پیراگراف پڑھتے ہیں، پروفیسر انوارالحسن انور شیرکوٹی لکھتے ہیں:

”حاجی امداد اللہ صاحب شعراء وعلمائے دارالعلوم دیوبند کے ”ولی“ یا ”باوا آدم“ تھے، ان کو اردو اور فارسی دونوں زبانوں کی شاعری سے شوق و دلچسپی اور ذوق تھا“۔(۱)

کچھ ان ہی ملے جلے الفاظ میں عبداللہ قاسمی صاحب اس مضمون کو یوں بیان کرتے ہیں:

”جس طرح ولی دکنی کو شعراء کا باوا آدم کہا جاتا ہے اور سنجیدہ تعبیر میں جس طرح ولی دکنی کو اولیت کا تاج پہنایا جاتا ہے، اسی طرح حضرت حاجی صاحب علمائے دیوبند کے قافلے میں ولی دکنی ہیں جو نظم و نثر، فارسی، اردو میں مقام اولیت رکھتے ہیں“(۲)

پروفیسر صاحب اور عبداللہ قاسمی صاحب کی اس عبارت سے بہ خوبی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شعر و شاعری کے حوالے سے علمائے دیوبند میں اگر کوئی اس رتبہٴ بلند کا مستحق اور تمغہٴ اولیت حاصل کرنے کے قابل ہے تو بلاشبہ وہ حضرت حاجی صاحب کی ذات گرامی ہے اور بہ جا طور پر آپ ہی کو یہ شرف وامتیاز حاصل ہے۔

یہ  رتبہٴ  بلند  ملا  جسے   مل  گیا

ہر اک کا نصیب یہ بخت رساں کہاں

اس گفتگو کے بعد راقم سب سے پہلے آپ کی نثر نگاری پر روشنی ڈالتا ہے کہ آیا آپ نے اپنے قلم کا رخ صرف شعر و شاعری کی طرف کیاہے یا نثر نگاری کی طرف بھی توجہ دی ہے اوراہل ذوق کی تسکین کے لیے کچھ نثری سرمایہ چھوڑا ہے۔

آپ کی نثر نگاری

عربی، فارسی، اردو تینوں زبانوں میں آپ کو مکمل دسترس وقدرت حاصل تھی، آپ نے نثر ونظم دونوں پہلوؤں پر خامہ فرسائی کرکے اہل ذوق کے واسطے ادبی غذا فراہم کی ہے، آپ کی تحریر انتہائی سلیس و سادہ اور تصنع سے بالکل پاک و صاف ہوتی، جملے اس قدر شستہ اوررواں کہ․․․ ”پڑھئے اور سردھنئے“ متانت بیان، سنجیدگی کلام، جدت وندرت، سادگی وپرکاری آپ کی تحریر کی خاص خوبی ہے۔

راقم کایہ دعویٰ کہاں تک صحیح ہے؟ اس کے اس نظرئیے میں کتنی سچائی ہے؟ اس کا صحیح اندازہ آپ کی تحریریں پڑھنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے؛ اس لیے دعویٰ کی دلیل اور عندئیے کی تائید و توثیق کے لیے ذیل میں آپ کے نثری نمونے سپرد قرطاس کیے جاتے ہیں جس سے قارئین از خود فیصلہ کرلیں گے کہ نثر نگاری میں آپ کا مرتبہ اور درجہ کیاہے؟

یوں تو نثر نگاری کی بیشتر صنفیں ہیں: داستان، ناول، افسانہ، ڈرامہ، سفرنامہ اورانشائیہ وغیرہ وغیرہ، مگر ان میں بعض قسمیں وہ ہیں جو ایک حقیقت پسند کی شایان شان نہیں، بنا بریں حاجی صاحب سمیت قابل ذکر علمائے دیوبند میں سے کسی نے بھی ان صنفوں کو ہاتھ ․․․ لگایا ہے اور نہ ہی ان کے ادبی ذخیروں میں اس کے نمونے ملتے ہیں؛ البتہ سوانح عمری، سفرنامہ اور انشائیہ وغیرہ کو ان حضرات نے اپنی تحریروں میں جگہ دی ہے، جن کے نمونے بہ کثرت موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اردو، فارسی، عربی تینوں زبانوں میں مکتوبات کا ایک لامتناہی سلسلہ ملتا ہے؛ اس لیے نمونے کے ذکر میں سب سے پہلے آپ کے مکتوب کے چند ادبی شہ پارے ہوں گے پھر اردو اور فارسی کے نثری نمونے، بعدازاں آپ کا شاعرانہ مقام، شعر و سخن سے دلچسپی، آپ کی شاعری کا رنگ و آہنگ جیسے کلیدی عناوین پر روشنی ڈالی جائے گی۔ پیش ہے مکتوب کے چند ادبی شہ پارے:

مکتوب کے چند ادبی شہ پارے

خطوط نویسی اردو نثر کا بہترین سرمایہ اور اہل قلم کی ادبی تخلیقات کا اصلی نمونہ ہے؛ کیونکہ جب کوئی اپنے عزیز کے نام خط لکھنے بیٹھتا ہے تو اپنے خیالات کو انتہائی سادے اور سلجھے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے، اپنی ہر بات عام فہم اور سلیس زبان میں پیش کرتا ہے کہ جو دل میں آیا لکھ دیا، جو نوکِ قلم پر آیا اسے قید تحریر میں لے آیا، بروقت جوالفاظ آئے انھیں جوڑ دیا، عبارت آرائی سے بالکل کام نہیں لیتا، عامیانہ اسلوب میں اپنے مافی الضمیر کی ترجمانی کرتا چلا جاتا ہے۔

اس کے برعکس جب کوئی مضمون نگار یا مقالہ نویس لکھنے بیٹھتا ہے تو اسے پورا احساس ہوتا ہے کہ اسے بہتیرے لوگ پڑھیں گے، بعض اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور بعض تنقیدی نظر سے، اہل فن بھی اس کا مطالعہ کریں گے اور غیر اہل فن بھی، دوست و احباب بھی دیکھیں گے اور ناقدین وحاسدین بھی؛ اس لیے مضمون نگار اپنی تحریر کو ”خوب سے خوب تر“ بنانے کی پوری کوشش کرتا ہے، جس کی وجہ سے تحریر میں کچھ نہ کچھ تکلف و تصنع کی بوآہی جاتی ہے؛ جبکہ خط لکھنے والا ان تمام پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے، اس کے سامنے کسی قسم کے احتیاط کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔

گذشتہ تحریر کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ خط میں ہوتا ہے وہی زبان و ادب کا صحیح مرقع اور اصلی نمونہ ہوتا ہے، اس تمہید کے بعد ذرا حاجی صاحب کا مکتوب پرھئے اور آپ کی تحریری مہارت و خوبی کی داد دیجئے، حضرت مولانارشید احمد گنگوہی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

”فقیر خیریت سے ہے اور آپ کی خیریت خدا تعالیٰ کی جانب سے مطلوب ہے، قبل ازیں آپ کی خدمت میں اپنی خیریت و کیفیت تحریر ہوچکی، انشاء اللہ خط پہونچا ہوگا، روز بہ روز ضعف زیادہ ہوتا جاتا ہے،اور دل بہت گھبراتا رہتا ہے، آپ دعائے حسنِ خاتمہ فرمائیں۔“(۳)

حضرت گنگوہی قدس سرہ کے نام ہی ایک دوسرے خط میں اپنی بیماری و کمزوری اوراحوال سے باخبر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”فقیر کو ضعف و نقاہت بہت ہے، نگاہ بھی بہت کم ہوگئی ہے، خط لکھنے پڑھنے سے معذور ہے چارپائی پر نماز پڑھتا ہے، پیروں سے کھڑا ہوا نہیں جاتا، غرض پابہ رکاب ہے، سب وجہ سے دعا کا محتاج ہے کہ خدا تعالیٰ خاتمہ بالخیر کرے“۔ آمین(۴)

مذکورہ بالا تحریروں میں سلاست و روانی اور سادگی کے ساتھ زبان وادب کی جس قدر حلاوت و چاشنی ہے اسے اہل فن خوب سمجھتے ہیں، خاص طور سے مکتوب کے یہ جملے : ”چارپائی پر نماز پڑھتا ہے، پیروں سے کھڑا ہوا نہیں جاتا، غرض پا بہ رکاب ہے، سب وجہ سے دعا کا محتاج ہے“۔ الفاظ کا برمحل استعمال، اسلوب بیان کے اچھوتے پن، چست ترکیب، جملوں میں باہمی ربط و ترتیب، فکر کی پاکیزگی اور عبارت کی رعنائی وبرنائی کے سبب اپنے اندر وہ لطافت و کشش رکھتے ہیں کہ اہل فن ”آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری“ کا کلمہ پڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

کچھ نمونے تصنیفی عبارت کے

نثر نگاری میں آپ کا کیا مقام ہے؟ خط کی تحریروں سے یہ بات بالکل آشکارا ہوجاتی ہے لیکن چونکہ مستقل تصنیف اور خطوط کی عبارت میں نمایاں فرق ہوتا ہے (جس کی قدرے تفصیل ماقبل میں گذری) اس لیے آپ کی تصنیف سے اردو فارسی کے نمونے نقل کیے جاتے ہیں پہلے اردو نمونہ ملاحظہ فرمائیں، ”ارشاد مرشد“ میں مراقبہ کا طریقہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”مراقبہ کا طریقہ یہ ہے کہ دوزانو نمازی کی طرح سرجھکاکے بیٹھے اور دل غیراللہ سے خالی کرکے حق سبحانہ کی حضوری میں حاضر رکھے، اول اعوذ باللہ اور بسم اللہ پرھ کے تین بار اللہ حاضری، اللہ ناظری، اللہ معی یعنی زبان سے تکرار کرکے پھر مراقب ہوکر ان کے معنوں کا دل سے ملاحظہ کرے اور تصور کرے یعنی جانے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ حاضر و ناظر میرے پاس ہے،اس جاننے میں اس قدر خوض کرے اورمستغرق ہوکہ شعور، غیرحق کا نہ رہے یہاں تک کہ اپنی بھی خبر نہ رہے۔ اگر ایک آن بھی اس سے غافل ہوا مراقبہ نہ ہوا“۔(۵)

فارسی نمونہ

جس طرح اردو زبان میں حاجی صاحب کامل دست گاہ رکھتے تھے اسی طرح فارسی زبان پر بھی آپ کو پوری گرفت حاصل تھی، ویسے تو آپ کی نظموں کا زیادہ تر ذخیرہ اردو میں ہے؛ لیکن نثر کا بیشتر حصہ فارسی میں ہے، اس لیے آپ کی تحریر کا فارسی نمونہ بھی ذکر کرتے چلتے ہیں، تلاوت قرآن کے آداب، فضائل اور اس کے فوائد ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”بداں کہ تلاوت قرآن افضل عبادت است، وکدام طریق برائے تقرب الی اللہ سوائے فرائض بہتر از تلاوت قرآن نیست پس آداب و استحباب او آں است باخلاص تمام باطہارت کامل رو بہ قبلہ باترتیل وخشوع و تحزن بعداز اعوذ باللہ و بسم اللہ بملاحظہ آنکہ کلام باخدا می کنید و گویا اورا می بیند واگر نتواند بداندکہ او مرا بیند، وباوامر ونواہی مراحکم می فرماید، وبرآیت بشارت فرحاں وبرآیت وعید ترساں وگریاں باشد وبہ جہر والحان وخوش کہ موجب جمعیت خاطر ورفع غفلت است، بخواند وایں عام است وطریق خاص آنکہ ․․․“(۶)

(سمجھو کہ قرآن کریم کی تلاوت عبادتوں میں افضل ہے اور تقرب خداوندی کے واسطے، فرائض کے سوا قرآن کی تلاوت سے بہتر اور کوئی نہیں، اس لیے اسکے آداب و مستحبات یہ ہیں کہ پورے اخلاص اور پوری طہارت کے ساتھ قبلہ رو ہوکر، ٹھہر ٹھہر کر عاجزی کے ساتھ اعوذ باللہ اور بسم اللہ کے بعد اس خیال سے پڑھے کہ خدا کے سامنے باتیں کررہا ہے گویا اس کو دیکھ رہا ہے اوراگریہ کیفیت نہ پیدا ہو تو کم از کم یہ ضرور سمجھے کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اور امر و نواہی کا حکم دے رہا ہے، اور خوش خبری کی آیت پر خوش اور سزا کی آیت پر خوفزدہ اور روتا ہوا ہونا چاہئے اور جہر خوش الحانی سے جس سے دل کو اطمینان اور غفلت دور ہو، اس طرح قرآن کریم پڑھے، تلاوت قرآن کا یہ عام طریقہ ہے لیکن خاص طریقہ یہ ہے کہ ․․․ اس کے بعد آپ نے تفصیل سے خاص طریقے کو بیان فرمایا ہے۔)

ان تحریروں کے پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ زبان چاہے کوئی بھی ہو فارسی ہو یا اردو تمام میں متانت و سنجیدگی اور لطافت و سادگی کے ساتھ زبان وادب کی پوری پوری چاشنی ہے، چنانچہ دقیق علمی باتوں کے لیے آسان اور دلکش پیرایہ بیان، تفصیل طلب مضمون کے واسطے مختصر اور سہل اسلوب وانداز، پر مغز وپر معانی الفاظ، غرضیکہ زبان و ادب کی شریعت میں واجب ہونے والی تمام چیزوں کی رعایت آپ کی تحریر میں موجود ہے۔

حاجی صاحب اور شعر و شاعری

کتابوں کی ورق گردانی اورآپ کی سوانح حیات پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا قلم زیادہ تر شعر و سخن کی طرف رواں ہوا ہے، آپ کی بیشتر توانائی ادب کی اسی دوسری قسم پر صرف ہوئی ہے: بنا بریں آپ کے شرعی مجموعے توبہ کثرت ملتے ہیں؛ لیکن نثری ذخیرہ کا دامن تنگ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ”ارشاد ومرشد“، ”فیصلہ ہفت مسئلہ“، ”ضیاء القلوب“، ”وحدة الوجود“، عزیزوں کے نام چند خطوط، بس یہی آپ کی نثر نگاری کا سارا ذخیرہ ہے، تاہم جو کچھ بھی ہے، جتنا بھی ہے، جس قدر بھی ہے، ادبی شہ پارہ کی حیثیت رکھتا ہے، زبان وادب کے مسافروں کیلئے نشان راہ بننے کے قابل ہے۔

شعروسخن سے دلچسپی

شروع ہی سے شعر وشاعری آپ کی دلچسپی کا فن رہا ہے،اس کے باوجود کبھی بھی آپ نے شاعری کو نام نہاد اور مال و دولت کے پجاری شعراء کی طرح اپنا مقصد حیات اور ذریعہ معاش نہیں بنایا، عربی فارسی، اردو تینوں زبانوں میں آپ بلاتکلف اشعار کہتے، آپ کے اشعار انتہائی معنی خیز، سادگی کے باوجود، تصوف کا رنگ لیے ہوئے، تمثیلات و تخیلات سے پر ہوتے، تشبیہات وکنایات کی فراوانی ہوتی، شعراء کے یہاں آپ کی شاعری کو جو پذیرائی حاصل ہے اس کی روشنی میں بلا مبالغہ کہاجاسکتا ہے کہ شعر و شاعری میں آپ کو ”غالب“ و”مومن“ اور ”اقبال“ کا درجہ حاصل تھا۔ ”گلزار معرفت“، ”مثنوی مولانا روم“، ”غذائے روح“، ”جہاد اکبر“، ”دردنامہٴ غم“، ”مرقومات امدادیہ“ وغیرہ شعری مجموعے آپ کی ادبی وشعری ذوق کا بہترین شاہ کار اورآئینہ دار ہے۔

آپ کا تخلص کیا تھا؟

آپ کا تخلص امداد ہے، یہ تخلص آپ کے نام کا جز بھی ہے، گرچہ تاریخ میں آپ کا نام خدابخش بھی ملتا ہے؛ لیکن آپ اس نام سے مشہور نہ ہوئے؛ بلکہ امداد اللہ کے نام سے جانے گئے اور آج بھی علمی حلقے میں اسی نام سے متعارف ہیں۔ ”گلزار معرفت“ جو آپ کی غزلیات کا ایک مختصر اور نادرنمونہ ہے،اس میں بعض اشعار ایسے ہیں جن سے آپ کا تاریخی نام اور تخلص دونوں کا پتہ چلتاہے، ایک غزل میں آپ لکھتے ہیں:

ہم نہ شاعر ہیں، نہ ملاہیں، نہ عالم ہیں ولے                 رکھتے ہیں ہر باب میں اللہ سے امداد ہم

اے خدابخش اس زمین میں لکھ غزل اک اور تو                        تاکہ جانیں شعرگوئی میں تجھے استاذ ہم(۷)

اسی قافیے اور ردیف میں ایک دوسری غزل لکھتے ہیں اس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ آپ کا تخلص امداد تھا، غزل کے اشعار ملاحظہ ہوں:

ہے نہ یہ شعر وغزل ہے اپنی مجذوبانہ بڑ                                   بڑ نہیں یہ مشق کو کرتے ہیں کچھ ارشاد ہم

ڈرہے کیا فوج گنہ سے، ہے خدابخش اپنا نام                              اورتجھ پر رکھتے ہیں اللہ کی امداد ہم(۸)

پہلی غزل کا دوسرا مصرعہ ”رکھتے ہیں ہر باب میں اللہ سے امداد ہم“ اسی طرح دوسری غزل کا چوتھا مصرعہ ”اور تجھ پر رکھتے ہیں اللہ کی امداد ہم“ ان دونوں مصرعوں سے نمایاں طورپر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا تخلص امداد تھا۔

آپ کی شاعری کا رنگ وآہنگ

رہ گئی بات یہ کہ آپ نے شاعری کس سے سیکھی؟ اس فن میں آپ کا استاذ کون ہے؟ آپ نے کس کی پیروی کی ہے؟ ان سب جملوں کا صحیح جواب یہ ہے کہ اس فن میں آپ نے کسی کی پیروی کی ہے نہ کسی کو اپنا استاذ بنایاہے؛ بلکہ آپ کااپنا ایک فطری مذاق تھا، ایک دھن اور جوش وجذبہ تھا جس کی بنیاد پر آپ شعر کہتے اور دل میں پیدا ہونے والے خیالات کی ترجمانی منظوم کلام کے ذریعہ کرتے۔ آپ کی شاعری میں کسی کی جھلک آجائے، کسی کا لب و لہجہ چھلک پڑے، کسی کے کلام سے یکسانیت پیدا ہوجائے تواس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ نے ان کی پیروی کی ہے یا ان کو اپنا استاذ مانا ہے؛ بلکہ اسے ایک امر اتفاقی کہا جائے گا اور بس، سچی بات بھی یہی ہے کہ اصول شاعری میں آپ کاکوئی استاذ نہیں جن کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہ کیا ہو، پروفیسر انوارالحسن انور لکھتے ہیں:

”راقم الحروف پوری تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ آپ کا شاعری میں کوئی استاذ نہ تھا، طبیعت میں شاعری کا چشمہ ابلا اور بہہ پڑا، جس طرف کو بہا اسی رخ بہنے دیا اور جس طرح بہا اس کو اسی طرح چلنے دیا، کسی سے اصلاح لینے کی اپنے خیال میں ضرورت نہ سمجھی، کیونکہ کچھ کہنے سے ان کا مدعا شاعری نہ تھی بلکہ دل کے جذبات کی کیف ما اتفق ترجمانی تھی البتہ ”جائے استاذ خالیست“ کا نظریہ اگر درست ہے اور یقینا درست ہے تو استاذ کی رہبری سے شاعری کے خط و خال سنور جاتے ہیں بشرطیکہ کسی کا مدعا اس کے چہرے کو نکھارتا ہو، بسا اوقات فطری طور پر ایسے شاعر بھی گذرے ہیں کہ جنھوں نے زندگی بھر کسی کو استاذ نہیں بنایا؛ لیکن وہ اسے زندگی کا مشغلہ بنائے رہے اس لیے وہ بہ ہمہ وجود آسمان شعر و سخن کے آفات بن کر چمکے۔ آخر غالب کا بھی تو کوئی استاذ نہ تھا جس سے شعر و سخن میں انھوں نے اصلاح لی ہو لیکن اس کا مقام اتنی بلندی پر پہنچا کہ اس فن کا امام بن گیا“۔(۹)

ضابطہ مسلم ہے کہ کسی بھی فن میں کمال استاذ کی رہنمائی کے بعد ہی پیداہوتا ہے؛ لیکن بعض مقامات پر اس ضابطے سے استثنائی صورت بھی نکالنی پڑتی ہے؛ کیونکہ انسان اگر جوہر شاعری اور فطری ذوق کے ساتھ قدیم شعراء کے کلام پر گہری نگاہ، ترکیب پر مکمل گرفت اور کامیابی کے ساتھ جوش و تخیل کی گھاٹیوں کو عبور کرنے کی صلاحیت ولیاقت رکھتا ہے تو پھر استاذ کے بغیر بھی ”خدائے سخن“ اور ”پیغمبر فن“ بن جاتا ہے اور بڑی تیزگامی کے ساتھ اس میدان میں سفر کرنے لگتا ہے حتی کہ عزت وعظمت اور قدر ومنزلت کی تمام تر بلندیاں اس کے حصے میں آجاتی ہیں، جیساکہ غالب کے یہاں ہوا، حاجی صاحب میں جو کمال وخوبی ہے، شعر و شاعری کے حوالے سے آپ کا جو مقام و مرتبہ ہے اس میں کسی کاکچھ عمل دخل نہیں؛ بلکہ یہ محض آپ کا فطری ذوق اور شوق و دلچسپی کا نتیجہ ہے۔

اصنافِ سخن

آپ نے اصناف سخن کے اکثر صنف پر طبع آزمائی کی ہے، نعت ہو یاغزل، تاریخی مادے ہوں یا قصائد ومراثی، ہر صنف کو ہاتھ لگایا ہے اور شاعری کی ہے، کبھی آپ نے مالک رب دوجہاں کی حمد و تعریف اور اس کی عظمت و کبریائی بیان کی ہے توکبھی خواجہٴ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانہ پہ حاضرہوکر صلاة وسلام اور عقیدت و محبت کے گلدستے پیش کیے ہیں، کبھی تاریخی حقائق کی پردہ کشائی کی ہے تو کبھی اکابر واسلاف کے کارناموں کو خراجِ تحسین پیش کیاہے، مختصر یہ کہ ہر موضوع کو اپنایا ہے، ہر صنف کی طرف توجہ دی ہے، ہر بحر میں شاعری کی ہے، بہ طور نمونہ ہر صنف کے چند اشعار نقل کیے جاتے ہیں۔

حمد باری

مالک کن فکاں کی ذات ہی سارے جہاں کا پالنہار ہے، چرند وپرند، انس وجن، شاہ وگدا، صاحب دولت وثروت، ارباب سلطنت وحکومت، مفلس و فاقہ کش ہر ایک کا حاکم ومالک خدا ہی ہے، بے کسوں کا سہارا، کمزوروں کا ناصر وحامی، لاچاروں کی دستگیری و رہنمائی، محتاجوں کی حاجت روائی ومطلب برآری وہی قادر مطلق کرسکتا ہے۔ حاجی صاحب اسی مفہوم کو اپنے شاعرانہ اسلوب میں یوں بیان کرتے ہیں:

اے میرے معبود، اے میرے الہ                                        ہے تو ہی مقصود دل بے اشتباہ

اے میرے محبوب، اے میرے حبیب                                 ہوں غم دوری سے مرنے کے قریب

ہجر سے زیادہ مصیبت کچھ نہیں                                               اس سے بہتر ہے کہ مرجاؤں کہیں

یا الٰہی تو ہے خلاق دوجہاں                                                      مالک دارین وشاہ انس وجاں

گرچہ دو عالم سے تو ہے بے نیاز                                                لیک بے چاروں کا تو ہے چارہ ساز

دستگیر بے کساں ہے تیری ذات

مستغیث عاجزاں ہے تیری ذات(۱۰)

محبت وفداکاری کے چند منظوم نقوش

مولائے کل، دانائے سبل، فخرالرسل محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا دم بھرنے والے، سرکار بطحا کی ذات سے وارفتگی وشیفتگی کا دعوی کرنے والے، بارگاہ رسالت میں عقیدتوں کا گلدستہ سجانے والے تو بہت ہیں،لیکن اپنے پہلو میں واقعی عشق کی کسک، محبت کا درد اور سوز دروں محسوس کرنے والے خال خال ملیں گے، مگر ذرا حاجی صاحب کا انداز دیکھئے، کس سوز وگداز، فکر وتڑپ، تواضع وکم مائیگی، بے بضاعتی و بے سوادی اورجذبہٴ فداکاری و جانثاری کے ساتھ، محبت میں ڈوب کر اپنے جذبات وخیالات کی ترجمانی کرتے ہیں:

کرکے نثار آپ پر گھر بار یارسول                                            اب آپڑا ہوں آپ کے دربار یا رسول

ذات آپ کی تو رحمت و شفقت ہے سربسر                               میں گرچہ ہوں تمام خطاوار یا رسول

ہو آستانہ آپ کا امداد کی جبیں                                                اوراس سے زیادہ کچھ نہیں درکار یا رسول (۱۱)

حضور پرنور کی سچی اور کامل محبت سے دامن دل بھرکر بارگاہ رب العزت میں اس طرح مناجات کرتے ہیں:

مجھے اپنی الفت کے قابل بنا                                                    سوا اپنے ہر شی کو دل سے بھلا

میں دنیا میں آیا تو گریاں ہی تھا                                                                سوا میرے ہر ایک خنداں ہی تھا

جو دنیا سے جاؤں خوشیاں کرو                                                  سبھی ہو ویں گریاں اور میں خنداں رہوں

ملائک میرے پاس رحمت کے ہوں                                        یہ سامان یارب عنایت کے ہوں

تیرا بندہ ہوکہ میں جاؤں کہاں                                               کروں دل کی حالت میں کس سے بیاں(۱۲)

حاجی صاحب اور غزل گوئی

صنف شعر میں غزل ایک اہم صنف ہے،کسی شاعر کا اس وادی سے کامیاب ہوکر نکل آنا اس کے شاعرانہ کمال کی دلیل ہے ورنہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شعراء جب اس وادی میں قدم رکھتے ہیں تو ناکام ہوکر نکلتے ہیں، اپنے ممدوح کے حسن کا اس قدر اسیر ہوتے ہیں کہ ساری خوبیوں کا مرکز، تمام کمالات کا منبع اور حسن وجمال کی انتہا اسی کو سمجھ بیٹھتے ہیں، پھر اس کی تعریف و توصیف میں اس درجہ رطب اللسان ہوتے ہیں کہ ان کے نزدیک اس کے سوا دوسرے کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہ جاتی حتی کہ محبوب حقیقی کو بھی بھول جاتے ہیں۔

مگر حاجی صاحب کا کمال دیکھئے کہ جب وہ غزل سرائی پر آتے ہیں تو رسمی غزل گوکے برخلاف، پیشہ ور شاعروں کے برعکس اپنا مخاطب ذات باری کو بناتے ہیں، عقیدت و محبت کا اظہار محبوب حقیقی سے کرتے ہیں، ساری امیدوں کا مرکز خداوند عالم کو ٹھہراتے ہیں، ساری خوشیوں کی انتہا اپنے پروردگار کی خوشنودی میں تصور کرتے ہیں، اسی سے لولگاتے ہیں،اسی کے آستانے پر جبیں سائی کرتے ہیں، اسی سے فریاد رسی کرتے ہیں، ایک حمدیہ غزل میں لکھتے ہیں:

الٰہی یہ عالم ہے گل زار تیرا                                                    عجب نقش قدرت نمودار تیرا

خوشی غم میں رکھی ہے اور غم خوشی میں                                   عجب تیری قدرت عجب کار تیرا

الٰہی عطا ذرئہ درد دل ہو                                                         کہ مرتا ہے بے درد بیمار تیرا

کوئی تجھ سے کچھ کوئی کچھ چاہتاہے                                           میں تجھ سے ہوں یارب طلب گار تیرا(۱۳)

غزل گوئی میں حاجی صاحب کو خصوصی ملکہ اور کمال حاصل تھا، آپ کے کمال کا اندازہ ذیل کی غزل سے ہوتا ہے:

عرش بریں پہ آپ ہیں زیر زمیں ہوں میں                               ملنا کہاں سے ہوکہ کہیں تم کہیں ہوں میں

گرتخت حسن ناز پہ آپ ہیں جلوہ گر                                         اقلیم عشق میں شہ مسند نشیں ہوں میں

مثل نظر ہے آپ کا آنکھوں میں میری گھر                              باوصف ایسے قرب کہ بس دور میں ہوں میں(۱۴)

یہ غزل فن شاعری کے معیار پر حاجی صاحب کی بہترین غزل قرار دی جاسکتی ہے، جس میں درد، سوز، چستی، برجستگی، تخیل سب ہی کچھ موجود ہے۔ ایک اور غزل ملاحظہ ہو:

نہ دیکھا داغ دل گلزار کو دیکھاتو کیا دیکھا                                   نہ دیکھا خار میں گل، خارکو دیکھا تو کیا دیکھا

تماشائے دوعالم ہے میرے دل دار کا کوچہ                                جہاں کے گلشن وبازار کو دیکھا تو کیا دیکھا

نہ دیکھا برش تیغ نگاہ یار کو تم نے                                              اگر شمشیرکی اک دھار کو دیکھا تو کیا دیکھا

نہ دیکھا ایک بھی تم نے اگر داغ جدائی کو                                 فلک سے گرچہ لاکھ آزاد کو دیکھا تو کیا دیکھا

نظر جب کھل گئی اپنی جسے دیکھااسے دیکھا                              نہ دیکھا آپ میں دلدار کو دیکھا تو کیا دیکھا(۱۵)

حاجی صاحب کی مذکورہ غزلوں کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ میں شاعرانہ استعداد کتنی پختہ اور رواں ہے، اور یہ غزلیں زبان کی صفائی، بندش کی چستی، خیال کی بلندی اور جذبات کی پاکیزگی کے کیا ہی بہترین نمونہ ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ حاجی صاحب اپنے اشعار پر خود بھی ناز کرتے نظر آتے ہیں، چنانچہ آخر الذکر غزل کا مقطع ملاحظہ ہو لکھتے ہیں:

ہمارے شعر امداد الٰہی سے ہیں ٹک دیکھو                                 گرچہ دفتر اشعار کو دیکھا تو کیا دیکھا

تھا اس میں جو گئی ․․․ (نمونہٴ مثنوی)

اصناف سخن میں مثنوی،مثلث، رباعی اورمخمس بھی ہے، حاجی صاحب نے ان صنفوں میں بھی شاعری کی ہے، ذیل میں اس کے نمونے بھی نقل کیے جاتے ہیں۔ حضرت سری سقطی آپ کا شمار اولیائے کرام میں ہے، ایک مرتبہ ایک بیمار خانے میں تشریف لے گئے جہاں مختلف قسم کے امراض میں مبتلا لوگ پڑے تھے، آپ ان مریضوں کو دیکھ رہے تھے، دریں اثنا آپ کی نظر حضرت تحفہ پر پڑی جو عشق حقیقی کی بھٹی میں جل کر کندن ہورہی تھیں اس حیرت انگیز واقعہ سے سری سقطی نے جواثر لیا اس کا نقشہ اور سراپا حاجی صاحب اس طرح کھینچتے ہیں:

تھا اس میں جو گئی اک سو نظر                                 دیکھتا کیا ہوں کہ ایک رشک قمر

تازہ و پاکیزہ رو صاحب تمیز                                     بالباس خوب و زیبا اک کنیز

چہرہ اس کا گویا ہے شمع حرم                                    قامت اس کا گلبن باغ ارم

زلف اس کی دام راہ سالکان                                   لعل لب ․․ اس کا ہے جان تشنگان

چشم اس کی چشمہ ہے فتنے کا باز                                                خال اس کا تخم شوق پاک باز

اک طرف بیٹھی ہے جیسے شیر مست                       دیکھ کر اس کو ہوے غم میرے پست(۱۶)

حاجی صاحب نے ان اشعار میں جو گلکاریاں کی ہیں وہ یقینا قابل ستائش ہے، کیونکہ ان میں روحانی اسرار بھی ہیں اور فلسفیانہ وحکیمانہ حقائق بھی، دلکش تعبیرات ․․․ ہیں اور خوبصورت تلمیحات بھی، جوش وولولہ ہے اور دعوتِ فکر وعمل بھی، وعظ ونصیحت ہے اور درس عبرت بھی۔

تو اگر چاہے قبولیت دعا کے واسطے (نمونہٴ مثلث)

حاجی صاحب نے سلسلہٴ چشتیہ کا شجرہ اپنے مثلث اشعار میں بیان کیا ہے، جس کا آغاز یوں کرتے ہیں:

تو اگر چاہے قبولیت دعا کے واسطے                            عرض کرنا شاہ یوں اول خدا کے واسطے

حمد ہے سب تیری ذات کبریا کے واسطے                   ہے درود و نعت ختم انبیا کے واسطے

اور سب اصحاب آل مصطفی کے واسطے                    فضل کر ہم پر الٰہی مجتبیٰ کے واسطے (۱۷)

ہے برا اچھا جو سمجھے آپ کو (نمونہ رباعیات)

رباعی شعر کی مشہور صنف رباعی بھی ہے جس میں طویل مضمون کو چار مصرعوں میں ”دریا بکوزہ“ کی طرح سمو دیا جاتا ہے، حاجی صاحب کے اشعار میں رباعیات بھی ہیں ایک موقع پر لکھتے ہیں:

ہے برا اچھا جو سمجھے آپ کو                                    اور بالا سب سے یہ کھینچے آپ کو

مردم دیدہ سے سیکھ امداد تو                                    سب کو دیکھے اور نہ دیکھے آپ کو

بلاشبہ یہ رباعی شیخ عبداللہ انصاری درویش کامل کی حسب ذیل رباعی کا کامیاب ترجمہ ہے رباعی ملاحظہ ہو:

عیب است بزرگ برکشیدن خود را                          وزجملہ برگزیدن خود را

از مردمک دیدہ بباید آموخت                               دیدن ہمہ کس را وندیدن خود را (۱۸)

تم ہو اے نور محمد خاص محبوب خدا (نمونہ مخمس)

میاں جی نور محمد صاحب جھنجھانوی کی شان میں لکھتے ہیں:

تم ہو اے نور محمد خاص محبوب خدا                          ہند میں ہو نائب حضرت محمد مصطفی ․․․

تم مددگار مدد امداد کو پھر خوف کیا                          عشق کی پر سن کے باتیں کانپتے ہیں دست وپا

اے شہ نور محمد وقت سے امداد کا(۱۹)                    کرسکے گا کیا کوئی وحدت ․․․ (نمونہ تضمین)

حاجی صاحب نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مناجات کو اپنے کلام میں ملاکر بڑی آسانی کے ساتھ مخمس بنادیا ہے، نمونہ ملاحظہ ہو:

کرسکے گا کیا کوئی وحدت میں تیری قیل وقال                          عقل بحث، علت ومعلول ہیں راز وعلیل

أنت کافي في مُہِمَّاتٍ وفي رزقٍ کفیل          خُذْ بِلُطْفِکَ یا الٰہی مَن لَہ زادٌ قلیل

مُفْلِسٌ بالصدْق یأتي عند بأبک یا جلیل            

خود بہ خود ہوجائیں گے یہ درد سارے دل سے دور                            جتنے مقصد ہی برآئیں گے الٰہی بالضرور ․․․

یہ تڑپ، یہ بیقراری فکر بے جا ہے قصور                                   أنت شافي أنت کافي فی مہمات الأمور

أنت حَسْبی، أنت ربّي لی نعم الوکیل(۲۰)

مذکورہ بالا تضمین سے حاجی صاحب کی قوتِ شعری اور قدرتِ سخن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دوسروں کے اشعار اور مطالب کے ساتھ جوڑ لگانا کتنا دشوار گذار عمل ہوتا ہے، پہلی رباعی کا دوسرا مصرعہ عربی میں ہے جس سے عربی زبان میں بھی آپ کی مہارت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

آپ کے اشعار کی کل تعداد

مختلف نمونے ذکر کرنے کے بعد اب آپ کے اشعار کی کل تعداد کتنی ہے اس پر بھی کچھ روشنی ڈالی جاتی ہے، اس سلسلے میں اتنی بات ضرور ہے کہ بہ کثرت آپ کے اشعار ملتے ہیں اور آپ کے کلام کا ایک طویل ذخیرہ ہے اور بہ قول مرتب ”گلزار معرفت“: ”حضرت پیر و مرشد کا کلام منظوم اس کثرت سے ہے کہ اس کا احصا اور ضبط دشوار ہے، اس لئے آپ کے اشعار کی کوئی حتمی تعداد بیان کرنا ہمہ شما کے بس سے باہر ہے، بنابریں جو تعداد بھی ذکر کی جائے گی وہ محض ایک تخمینہ ہوگا جس میں کمی زیادتی کا پورا امکان ہے تاہم محققین نے اس سلسلے میں جو تحقیق پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اردو اشعار کی کل تعداد ۵۹۹۵، فارسی اشعار ۹۳ اور مجموعی تعداد ۶۰۸۸ ہے۔

حاجی صاحب اپنی تصنیفات وکلیات کے آئینے میں

نثر و نظم دونوں کے نمونے اور اشعار کی مجموعی تعداد کے ذکرکے بعد اب حاجی صاحب کا تعارف ان کی تصنیفات و کلیات کے آئینہ میں کرایا جاتا ہے اور آپ کے گہربار قلم سے نکلے ہوئے شعری اور نثری مجموعے کا جائزہ لیا جاتا ہے پھر ان پر مختصراً تبصرہ بھی قلم بند کیا جاتاہے۔

مثنوی مولانا روم

حضرت حاجی صاحب کو مثنوی مولانا روم سے والہانہ لگاؤ تھا، اکثر اوقات اس کو زیر مطالعہ رکھتے اور درس دیا کرتے، بعدمیں اس کی آپ نے شرح کی اور فارسی زبان میں اس پر حاشیہ چڑھایا۔

غذائے روح

اس کتاب میں حکایات وواقعات کے ذریعہ اصلاح امت پر زور دیاگیا ہے، نفسانی خواہشات کی پیروی، شیطانی وساوس اور جہالت و ناخواندگی کے نتائج بیان کیے گئے ہیں، ابتدا میں حمد باری،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت و ثنا خوانی اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب ہیں پھر اپنے مرشد کا ذکر ہے، اس کے بعد کتاب کے نام کے مطابق روح کی غذا پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس سے متعلقہ تمام موضوعات پر سیر حاصل مواد فراہم کیاگیا ہے، پوری کتاب اردو نظم میں ہے، ۸۶ صفحات پر مشتمل ۱۶۰۰ اشعار ہیں۔

جہاد اکبر

یہ ایک منظوم کتاب ہے اور کسی دوسرے شخص کی فارسی نظم کاترجمہ ہے۔ اس کتاب میں اصلاح نفس سے متعلق مضامین بیان کیے گئے ہیں اور مثالوں سے اس کی وضاحت کی گئی ہے اس میں کل اشعار ۶۷۹ اور صفحات ۲۳ ہیں۔

مثنوی تحفة العشاق

یہ بھی اردو نظم کی کتاب ہے، جس میں صفحات ۳۲ اور اشعار ۱۳۲۴ ہیں اس میں تعلق مع اللہ، معرفت الٰہی اور تقرب خدا وندی کا طریقہ بیان کیاگیا ہے۔

دردنامہٴ غم ناک

یہ بھی ۱۷۵ اشعار پر مشتمل ۸ صفحے کی کتاب ہے، جس میں عشق حقیقی اور جذبہٴ بے خودی کی ترجمانی کی گئی ہے، کتاب اتنی موٴثر اور دردناک ہے پڑھ کر دل چوٹ کھاتا ہے اور بے تاب ہوجاتاہے۔ حضرت تھانوی کی روایت کے مطابق ایک شخص یہ ”دردنامہ غم ناک“ پڑھ رہا تھا، حاجی صاحب کاگذر اس کے پاس سے ہوا تو پوچھا کیا پڑھ رہے ہو، وہ بے رخی سے پیش آیا، بعد میں جب معلوم ہوا کہ اس کتاب کو اشعار میں ڈھالنے والے یہی ہیں تو بے حد نادم و شرمسار ہوا اور عزت واحترام کا بازو آپ کے سامنے پھیلادیا۔

ارشاد مرشد

۱۶ صفحات پرمشتمل یہ ایک مختصر اور جامع رسالہ ہے جس میں نمازوں کے بعد کے اوراد ووظائف،اثبات طریق، اثبات مجرد، طریق اسم ذات، طریق ذکر پاس انفاس، ذکر اسم ذات ربانی اور لطائف ستہ کا ذکر ہے، اخیر میں چاروں سلسلوں (سلسلہ چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ، سہروردیہ) کا شجرہ تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔

ضیاء القلوب

یہ کتاب سلوک و تصوف کا جوہر اور خلاصہ ہے، اپنے عنوان پرنہایت عمدہ اور جامع کتاب ہے، نماز اور تلاوت قرآن کے متعلق بیش بہا معارف بیان کیے گئے ہیں، یہ کتاب حضرت حافظ ضامن شہید کے صاحبزادہ محترم حافظ محمد یوسف کی فرمائش پر مکہ مکرمہ میں ۱۲۸۲ھ میں بزبان فارسی تحریر کی گئی اوراس کا نام مصنف نے ”مرغوب دل“ رکھا۔

وحدة الوجود

۷ صفحات پر مشتمل فارسی زبان میں ایک طویل مکتوب ہے،جس میں وحدة الوجود کے مسئلے پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

فیصلہ ہفت مسئلہ

حاجی صاحب کے متوسلین ومریدین کے درمیان جماعت ثانیہ، امکان نظر، امکان کذب، ندائے غیر اللہ وغیرہ عرس اور سماع وغیرہ جیسے مسائل کے درمیان نزاع ہورہا تھا تو آپ نے یہ رسالہ تحریر فرمایا اور مذکورہ مسائل پر شرع و بسط کے ساتھ گفتگو کی۔

گلزار معرفت

یہ بھی آپ کے اردو اور فارسی کلام کا مجموعہ ہے جس کو آپ کے ایک مرید وفاکیش ”میاں نیاز احمد“ نے مرتب کیاہے جس میں ۳۱۹ اشعار اردو میں ۹۳ اشعار فارسی میں ہیں، ان اشعار میں حمد، نعت، عشق حقیقی کے متعلق غزلیات اور مدینہ منورہ میں قیام پذیری کے شوق و جذبات وغیرہ جیسے مضامین بیان کیے گئے ہیں۔

مرقومات امدادیہ

یہ آپ کے مکتوبات کا مجموعہ ہے، جن کو آپ نے حضرت گنگوہی، حضرت نانوتوی،مولانا محمد یعقوب صاحب،مولانا حکیم ضیاء الدین اور حاجی عابد حسین صاحبان جیسی ممتاز ترین ہستیوں اور بزرگوں کے نام تحریر فرمایا ہے۔ اس میں کل ایک سو گیارہ خطوط ہیں جس کومولانا وحیدالدین رام پوری نے مرتب کیا ہے، یہ سارے خطوط فارسی میں تھے ترجمہ کاکام جامعہ عثمانی حیدر آباد دکن کے سابق پروفیسر مولاناعبدالحئی صاحب نے انجام دیا ہے۔

مکتوبات امدادیہ

یہ بھی آپ کے خطوط کا مجموعہ ہے جن میں حضرت تھانوی کے نام ۵۰ خطوط ہیں، ان خطوط کو آپ نے مکہ مکرمہ میں تحریر فرمایاہے، سارے خطوط اردو میں ہیں اور بالکل آخری دور کے ہیں۔ آخری خط ۲۰/ربیع الاول ۱۳۱۷ھ کا تحریر کردہ ہے،اس کے دوماہ بعد آپ کا وصال ہوگیا۔

آخری بات

یہ تھی اردو زبان وادب کے فروغ کے سلسلے میں حضرت حاجی صاحب کی خدمات کی معمولی سی جھلک، اگر اہل ذوق کو آپ کے ادبی مقام پرمزید بصیرت حاصل کرنے کاشوق ہے تو انھیں آپ کی تصنیفات وکلیات کاادب کا چشمہ لگاکر بار بار مطالعہ کرنا چاہئے، مطالعے میں جس قدر گہرائی، ژرف نگاہی اور وسعت ظرفی ہوگی اسی قدر آپ کا ادبی مقام نکھر کر سامنے آئے گا، اس پر بھی اگر تسکین خاطر نہ ہو تو ملک وملت کی مایہ ناز ہستیوں، انشا پردازوں اور صاحب لوح وقلم کی تصنیف کردہ یاترتیب دادہ درج ذیل کتابوں اور رسالوں کو زیر مطالعہ رکھنا چاہئے: علمائے ہند کا شاندار ماضی، کرامات امدادیہ، حکایات اولیا، حکایات اکابراسلاف، شمائم امدادیہ، علمائے حق، سوانح علمائے دیوبند، حیات امداد وغیرہ یہ اور ان جیسی دیگر کتابیں، شائقین زبان وادب کے واسطے حضرت حاجی صاحب کی ادبی خدمات جاننے کے لیے سنگ میل ثابت ہوں گی۔(جاری)

ماخذ ومراجع

(۱)         حیات امداد، ص:۱۸۸، از پروفیسر محمد انوار الحسن انور۔

(۲)        اردو ادب اور علمائے دیوبند، ص: ۱۳، از عبداللہ قاسمی حیدر آبادی۔

(۳)        حیات امداد، ص:۲۱۲ ، از پروفیسر محمد انوارالحسن انور۔

(۴)        ایضاً، ص: ۲۱۳۔

(۵)        ارشاد مرشد، ص:۷، از حاجی امداد اللہ مہاجر مکی۔

(۶)        سوانح علمائے دیوبند، ج:۱، ص: ۳۷۲، از ڈاکٹر نواز دیوبندی۔

(۷)        حیات امداد، ص: ۷۴، از پروفیسر نوالحسن انور۔

(۸)        ایضاً، ص:۷۴۔

(۹)         ایضا، ص: ۱۸۸-۱۸۹

(۱۰)       ایضاً، ص:۷۱

(۱۱)        ندائے شاہی کا خصوصی شمارہ، نعت النبی نمبر، ص:۱۸۹۔

(۱۲)       ندائے شاہی نعت النبی نمبر ۱۸۹۔

(۱۳)      حیات امداد، ص:۲۱۰۔

(۱۴)      ایضاً، ص:۲۰۸۔

(۱۵)      ایضاً، ص: ۲۱۰،سوانح علمائے دیوبند، ج:۱، ص: ۳۷۴۔

(۱۶)       ایضاً، ص: ۲۰۴۔

(۱۷)      حیات امداد، ص: ۲۸۰، از پروفیسر انوارالحسن انور۔

(۱۸)      ایضاً، ص:۲۰۶۔

(۱۹)       ایضاً، ص: ۱۹۲۔

(۲۰)      ایضاً، ص: ۲۰۷۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8، جلد: 90 ‏،رجب 1427 ہجری مطابق اگست2006ء