حرفِ آغاز

عورتوں کا مساجد میں نماز ادا کرنا

حبیب الرحمن اعظمی

 

یہ انسانی دنیا جب سے وجود میں آئی ہے اس میں کوئی خطہ، کوئی قوم اور کوئی مذہب ایسا نہیں ملتا جس میں فواحش و بدکاری، زنا اورحرام کاری کو مستحسن، اچھا یا مباح و جائز سمجھا گیا ہو بلکہ ساری دنیا اور اس کے مذاہب زنا کی مذمت اور برائی میں متفق و ہم رائے رہے ہیں کیونکہ یہ مذموم جرم نہ صرف یہ کہ فطرتِ انسانی کے خلاف ہے، بلکہ اس درجہ فساد افزا اور ہلاکت خیز ہے جس کے تباہ کن اثرات صرف اشخاص و افراد ہی کو نہیں بلکہ بسا اوقات سارے خاندان اور پورے شہر و قصبہ کو برباد کردیتے ہیں۔ اس وقت فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری کے جتنے واقعات سامنے آرہے ہیں ان کی صحیح تحقیق کی جائے تو اکثر واقعات کے پس منظر میں شہوانی جذبات اور ناجائز جنسی تعلقات کا عمل دخل ملے گا۔

البتہ بہت سی قوموں اوراکثر مذاہب میں زنا اور فواحش کی ممانعت کے باوجود اس کے مقدمات اوراسباب و ذرائع کو معیوب و ممنوع نہیں سمجھا جاتا اور نہ ان پر خاص قد غن اور بندش لگائی جاتی ہے۔

مذہب اسلام چونکہ ایک کامل و مکمل نظامِ حیات اور فطرت کے مطابق قانون الٰہی ہے اس لئے اسلام میں جرائم و معاصی کی حرمت کے ساتھ جرائم و معاصی کے ان اسباب و ذرائع کو بھی حرام و ممنوع قرار دے دیاگیا جو بالعموم بطور عادت جاریہ کے ان جرائم تک پہنچانے والے ہیں۔ مثلاً شراب پینے کو حرام کہا گیا تو شراب کے بنانے، بیچنے، خریدنے اورکسی کو دینے کو بھی حرام کردیاگیا۔ سود کو حرام کیاگیا تو سود سے ملتے جلتے سارے معاملات کو بھی ناجائز اورممنوع کردیاگیا۔ شرک و بت پرستی کو گناہ عظیم اور ناقابل معافی جرم ٹھہرایا گیا تواس کے اسباب و ذرائع، مجسمہ سازی و بت تراشی اور صورت گری کو بھی حرام اور ان کے استعمال کو ناجائز کردیاگیا۔

اسی طرح جب شریعت اسلامی میں زنا کو حرام کردیا گیا تواس کے تمام قریبی اسباب و ذرائع اورمقدمات پر بھی سخت پابندی لگادی گئی چنانچہ اجنبی عورت پر شہوت سے نظر ڈالنے کو آنکھوں کا زنا، اس کی باتوں کے سننے کو کانوں کا زنا، اس کے چھونے کو ہاتھوں کا زنا، اس کے پاس جانے کو پیروں کا زنا ٹھہرایا گیا۔جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں وارد ہے:

العینان زنا ہما النظر، والاذنان زنا ہما الاستماع، واللسان زنا الکلام، والید زناہا البطش، والرجل زناہا الخطی“ (مشکوٰة، ص:۲۰ باب الایمان بالقدر)

آنکھوں کا زنا (اجنبی عورت کی جانب شہوت سے) دیکھنا ہے، کانوں کا زنا (شہوت سے اجنبی عورت کی) باتوں کی طرف کان لگانا ہے، زبان کا زنا اس سے گفتگو کرنا ہے، ہاتھ کا زنا اس کو چھونا و پکڑنا ہے، پیروں کا زنا اس کی طرف (غلط ارادہ سے) جانا ہے۔

برے ارادے سے کسی اجنبی عورت کی جانب دیکھنا اس کی باتوں کی جانب متوجہ ہونا، اس سے بات چیت کرنا، اس کو چھونا و پکڑنا اس کے پاس جانا یہ سارے کام حقیقتاً زنا نہیں بلکہ زنا کے اسباب و مقدمات میں سے ہیں مگر انھیں بھی حدیث میں زنا سے تعبیر کیاگیا ہے تاکہ امت سمجھ جائے کہ زنا کی طرح اس کے مقدمات و اسباب بھی شریعت میں حرام و ممنوع ہیں۔ انھیں شہوانی جرائم سے بچانے کے لئے عورتوں کے واسطے پردہ کے احکام نازل و نافذ کئے گئے۔

اس موقع پر یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ شریعت اسلامی کا مزاج تنگی و دشواری کے بجائے سہولت و آسانی کی جانب مائل ہے اس سلسلے میں کتاب الٰہی کا واضح اعلان ہے ”مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَج“ دین میں تمہارے اوپر کوئی تنگی نہیں ڈالی گئی ہے اس لئے اسباب و ذرائع کے بارے میں فطرت سے ہم آہنگ یہ حکمت آمیز فیصلہ کیاگیا کہ جو امور کسی معصیت کاایسا سبب قریب ہوں کہ عام عادت کے اعتبار سے ان کاکرنے والا اس معصیت میں ضرور مبتلا ہوجاتا ہے، ایسے قریبی اسباب کو شریعت اسلام نے اصل معصیت کے حکم میں رکھ کر انھیں بھی ممنوع و حرام کردیا۔اور جن اسباب کا تعلق معصیت اور گناہ سے دور کا ہے کہ ان کے اختیار کرنے اور عمل میں لانے سے گناہ میں مبتلا ہونا عادةً لازم و ضروری تو نہیں مگر ان کا کچھ نہ کچھ دخل گناہ میں ضرور ہے ایسے اسباب و ذرائع کو مکروہ قرار دیا اور جواسباب ایسے ہیں کہ معصیت میں ان کا دخل شاذ و نادر کے درجہ میں ہے ان کو مباحات میں داخل کردیا۔

اس سلسلے کی یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ شریعت اسلام نے جن کاموں کو گناہ کا سبب قریب قرار دے کر حرام کردیا ہے وہ تمام مسلمانوں کے لئے حرام ہیں خواہ وہ کام کسی کے لئے گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب بنے یا نہ بنے اب وہ خود ایک حکم شرعی ہے جس پر عمل سب کے لئے لازم اور اس کی مخالفت حرام ہے۔

اس کے بعد سمجھئے کہ عورتوں کاپردہ بھی شرعاً اسی سدذرائع کے اصول پر مبنی ہے کہ ترکِ پردہ گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب ہے۔ اس میں بھی اسباب کی مذکورہ قسموں یعنی سبب قریب، سبب بعید اور سبب بعید تر کے احکام جاری ہوں گے، مثلاً جوان مرد کے سامنے جوان عورت کا بدن کھولنا گناہ میں مبتلا ہونے کا قریبی سبب ہے کہ عادتاً آدمی ایسی صورت حال میں بالعموم گناہ میں لازمی طور پرمبتلا ہوجاتاہے اس لئے یہ صورت شریعت کی نظر میں زنا کی طرح حرام ہے، کیونکہ شریعت میں اس عمل کو فاحشہ کا حکم دیاگیا ہے لہٰذا یہ سب کے حق میں حرام ہوگا۔ البتہ مواقع ضرورت علاج وغیرہ کا مستثنیٰ ہونا ایک الگ حکم شرعی ہے اس استثنائی حکم سے اصل حرمت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ پھر یہ مسئلہ اور حکم اوقات و حالات سے بھی متاثر نہیں ہوتا اسلام کے عہد زریں اور خیر و صلاح میں بھی اس کا حکم وہی تھا جوآج کے دورِ ظلمت اور شر و فساد کے زمانہ میں ہے۔

دوسرا درجہ ترک پردہ کا یہ ہے کہ گھر کی چہاردیواری سے باہر برقع یا دراز چادر سے پورا بدن چھپاکر نکلے۔ یہ فتنہ کا سبب بعید ہے۔ اس صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر ایساکرنا فتنہ کا سبب ہوتو ناجائزہے اور جہاں فتنہ کااندیشہ نہ ہو وہاں جائز ہوگا۔ اسی لئے اس صورت کا حکم زمانے اورحالات کے بدلنے سے بدل سکتا ہے۔ آنحضرت … کے عہد خیر مہد میں اس طرح سے عورتوں کاگھر سے باہر نکلنا فتنہ کا سبب نہیں تھا اسلئے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورتوں کو برقع وغیرہ میں سارا بدن چھپا کر چند شرائط کے ساتھ مسجدوں میں آنے کی اجازت دی تھی اور ان کومسجد میںآ نے سے روکنے کو منع فرمایا تھا اگرچہ اس وقت بھی عورتوں کو ترغیب اسی کی دی جاتی تھی کہ وہ گھروں میں ہی نمازادا کریں کیونکہ ان کے لئے مسجد کے مقابلہ میں گھر کے اندر نماز پڑھنا زیادہ باعث ثواب اور افضل ہے۔ چنانچہ حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں: ”ولم یختلفوا ان صلاة المرأة فی بیتہا افضل من صلاتہا فی المسجد“ (التمہید ج۱۱، ص۱۹۶) اس بارے میں کسی کااختلاف نہیں ہے کہ عورت کی گھر میں نماز مسجد میں نماز سے افضل و بہتر ہے۔

آپ کی وفات کے بعد وہ حالات باقی نہیں رہے۔ بلکہ طبیعتوں میں تغیر اور قلبی اطمینان میں فتور پیداہوگیا چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے ”ما نفضنا ایدینا عن قبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی انکرنا قلوبنا“ (التمہید للحافظ ابن عبدالبر ج۳ ص ۳۹۴ مطبوعہ ۱۴۱۰، ورواہ الترمذی فی الشمائل ص ۲۷ عن انس رضی اللہ عنہ) ہم نے ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کرکے ہاتھوں سے مٹی بھی نہیں جھاڑی تھی کہ اپنے دلوں کی بدلتی ہوئی کیفیت کو محسوس کیا، علاوہ ازیں جن شرائط کے ساتھ مسجد میں حاضری کی اجازت دی گئی تھی ان کی پابندی میں دن بدن کوتاہی بڑھتی رہی اسی تغیر حالات کی جانب مزاج شناسِ نبوت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرماتے ہوئے امت کو متنبہ فرمایا ہے کہ آج کے حالات اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تو عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتے اس لئے عام صحابہٴ کرام نے یہی فیصلہ کیا کہ حالات کی اس تبدیلی کی بناء پر اب عورتوں کا مسجد میںآ نا فتنہ سے خالی نہیں رہا اس لئے ان حضرات (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے روک دیا۔

اس دور فتنہ و فساد میں جب کہ جنسی انارکی اور شہوانی بے راہ روی کی قدم قدم پر نہ صرف افزائش بلکہ ہمت افزائی ہورہی ہے، دین و مذہب اور حیا و مروت کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ہیں کوچہ و بازار کا کیا ذکر شرور و فتن کی خود سر موجیں گھروں کی چہار دیواری سے ٹکرانے لگی ہیں، کیا ایسے فساد انگیز حالات میں بھی خواتین اسلام اور عفت مآب ماؤں بہنوں اور بہو بیٹیوں کو گھروں کی چہار دیواری سے باہر نکل کرجمعہ و جماعت میں مردوں کے دوش بدوش شریک ہونے کی اجازت مقاصد شریعت سے ہم آہنگ اوراصول سدّ ذرائع کے مطابق ہے؟

حالاتِ زمانہ اور گردوپیش کے واقعات سے آنکھیں بند کرکے جو لوگ عورتوں کو مسجد میں آکر نماز اداکرنے کی دعوت دے رہے ہیں ان کا یہ رویہ مزاج دین سے کتنا ہم آہنگ اور خود یہ لوگ اسلامی معاشرے کے بارے میں کتنے مخلص ہیں؟

فقہائے اسلام بیک زبان یہ کہتے ہیں کہ ایسے فساد آمیز حالات میں عورتوں کے لئے گھر سے باہر آکر مسجدوں میں حاضر ہونا مقاصد شریعت اور اصول سد ذرائع کے خلاف ہے اس لئے ان حالات میں شرعاً اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ11، جلد: 90 ‏،شوال المکرم1427 ہجری مطابق نومبر2006ء