پہلی قسط

مرتد کی سزا

قرآن، سنت، اجماع اور عقل کی روشنی میں

از: مولانا سعید احمد جلال پوری

 

خیرالقرون یعنی اسلام کے صدراوّل میں جہاں دوسرے اسلامی قوانین کی بالادستی تھی، وہاں سزائے ارتداد کا قانون بھی نافذ رہا۔ اس کے بعد بھی جب تک دنیا میں اسلامی آئین و دستور کی بالادستی رہی، تمام اسلامی حکومتوں میں یہ قانون نافذ العمل رہا۔ اسی کی برکت تھی کہ کوئی طالع آزما،مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے، دین و مذہب کو بازیچہٴ اطفال بنانے،آئے دن مذاہب بدلنے اوراسلام سے بغاوت کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔

بلکہ اگر کسی شقی ازلی نے اس قسم کی جرأت کی تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اسود عنسی، مسیلمہ کذاب، وغیرہ جیسے بدقماشوں کا انجام اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ملی غیرت کے کارناموں سے اسلامی تاریخ مزین ہے۔

لیکن جوں جوں اس معمورہٴ ارضی پر اسلامی اقتدار، خلافت اسلامیہ اورمسلمانوں کی گرفت ڈھیلی ہوتی گئی، لادین حکمرانوں کا تسلط بڑھتا گیااور جبر و استبداد کے پنجے مضبوط اور گہرے ہوتے گئے، تو اس کی نحوست سے جہاں دوسرے اسلامی اصول و قوانین پامال کئے جانے لگے، وہاں سزائے ارتداد کے بے مثال قانون کو بھی حرفِ غلط کی طرح مٹادیاگیا۔

یہ اسی کی ”سبزقدمی“ تھی کہ انگریزی اقتدار کے دور میں، ہندوستان میں جہاں دوسرے بے شمار فتنوں نے سراٹھایا، وہاں اسلام اور پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی غلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت کرکے نہ صرف ارتداد کا ارتکاب کیا؛ بلکہ اس نے بھولے بھالے مسلمانوں کو مرتد بنانے کی باقاعدہ تحریک شروع کردی۔

چونکہ اس وقت ہندوستان میں انگریزی اقتدار تھا اور غلام احمد قادیانی انگریزی اقتدار کی چھتری کے نیچے یہ سب کچھ کررہا تھا،اس لئے مسلمان اُسے ارتداد کی سزا کا مزہ نہ چکھاسکے، لیکن جوں ہی مسلمانانِ ہندوستان کی قربانیوں اور مطالبہ پر مملکتِ خداداد پاکستان وجود میں آئی تو مسلمانوں کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ اسلام کے نام پر وجود میںآ نے والی اس مملکت میں اسلامی آئین و قوانین نافذ کئے جائیں۔

شومیٴ قسمت کہ مسلمانوں کے اس مطالبہ پر توجہ نہیں دی گئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان میں بھی اسلام دشمنوں اور خصوصاً قادیانیوں کا اثر و نفوذ بڑھنے لگا، تب مسلمانوں نے اربابِ اقتدار سے مطالبہ کیا کہ کم از کم ان کو ملت اسلامیہ سے الگ کاسٹ تصور کیاجائے، چنانچہ قریب قریب نوے سال کی محنت و جدوجہد کے بعد مسلمانوں کی یہ کوشش بارآور ہوئی اور اسلام سے برگشتہ ہوجانے والے قادیانیوں کو آئینی طورپر غیرمسلم اقلیت قرار دے دیاگیا۔

مگر بایں ہمہ پھر بھی قادیانی ارتداد کا منہ زور گھوڑا سرپٹ دوڑتا رہا، اورقادیانی اپنی ارتدادی سرگرمیوں سے باز نہ آئے، تواس کے سدّباب کیلئے ایک بار پھر تحریک چلی اور ۱۹۸۴/ میں امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس جاری ہو۔

لیکن قادیانی اپنے بیرونی آقاؤں کی شہ پر ارتدادی سرگرمیوں سے باز نہ آئے، مسلمانوں نے استدعا کی کہ پاکستان میں ارتداد کی شرعی سزا کا قانون نافذ کیا جائے۔

بلاشبہ اگر روزِ اوّل سے یہ قانون نافذ کردیا جاتاتو اسلام دشمن قوتوں کو مسلمانوں کے دین وایمان سے کھیلنے کی قطعاً جرأت نہ ہوتی اور نہ ہی مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہوتی۔

گویا مسلمانوں کا روزِ اوّل سے یہ مطالبہ رہا کہ پاکستان جب اسلام کے نام پرحاصل کیا گیا ہے، اور یہ اسلامی جمہوریہ کہلاتاہے تواس میں قانون بھی قرآن وسنت کا ہی ہونا چاہئے، لیکن چونکہ اس قانون کے نفاذ سے اسلام دشمنوں کی تمام تر سازشیں دم توڑ جاتیں، اور ان کے منصوبوں پر اوس پڑجاتی، اس لئے انھوں نے اپنے اثر و نفوذ سے اس کی راہ میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کیں اورایسے روڑے اٹکائے کہ مسلمان حکمران اس کے نفاذ کی جرأت ہی نہ کرسکے۔

یوں تو مسلمانوں کا یہ قدیم ترین مطالبہ تھا اور ہے، مگر گزشتہ دنوں افغانستان میں مرتد ہوکر عیسائیت قبول کرنے والے عبدالرحمن کے معاملہ نے مرتد کی سزا کے اس قانون کی اہمیت و ضرورت کو مزید دو چند کردیا ہے، کیونکہ بین الاقوامی سازش کے تحت اس معمولی واقعہ کو اخبارات اور میڈیا پرلاکر جہاں مسلمانوں کو تنگ نظر، تشدد پسند کہہ کر اسلامی آئین، خصوصاً سزائے ارتداد کے قانون کو بری طرح نشانہ بنایا گیا، اوراس کو ظالمانہ قانون کے رنگ میں پیش کیاگیا، ضرورت تھی کہ اس سلسلہ کی غلط فہمیوں کے ازالہ کیلئے قارئین کی خدمت میں کچھ حقائق پیش کردئیے جائیں۔

افغانستان اور افغان قوم کا شروع سے ہی اسلام سے گہرا رشتہ رہا ہے، اورافغانستان نے کبھی بھی کسی جبر و تشدد اور بیرونی دباؤ کو قبول نہیں کیا، اسی طرح افغانستان میں کبھی کسی اسلام دشمن تحریک یا نظریہ کو پنپنے کا موقع نہیں مل سکا، حتی کہ امیر حبیب اللہ کے دور میں جب غلام احمد قادیانی نے افغانستان میں اپنے دو نمائندے بھیجے تو امیر مرحوم نے بالفعل ان پر سزائے ارتداد جاری فرماکر ارتدادی تحریک کاراستہ روک دیا۔

لیکن افغانستان میں جوں جوں دین و مذہب سے دوری ہوتی گئی، سازشی قوتوں اوراربابِ کفر نے اپنے آلہ کاروں کے ذریعہ افغانستان کو اندرونی سازشوں اور طوائف الملوکی سے دوچار کیا، تو سب سے پہلے روس نے اس کو ہڑپ کرنے کی خواہش و کوشش کی، مگر اسے منہ کی کھانا پڑی، جب روس جیسی سپر طاقت شکست و ریخت سے دوچار ہوگئی، توامریکا بہادر کے منہ میں پانی آگیا اوراس نے افغانستان پر قبضہ کرکے اس پر عیسائیت کا جھنڈا لہرانے کا منصوبہ بنالیا۔

افغانستان میں امریکی تسلط کے بعد بے شمار عیسائی این جی اوز متحرک ہوگئیں، افغانستان بلاشبہ بدترین مالی بدحالی کا شکار تھا اور ہے، مگر بایں ہمہ امریکااوراس کی عیسائی این جی اوز اپنے مذموم مقاصد میں خاطر خواہ کامیاب نہ ہوسکیں، کیونکہ مسلمانانِ افغانستان جانتے تھے کہ ارتداد کی سزا موت ہے اور مرتد ہونا موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے۔ اس لئے آج سے پندرہ سال پہلے مرتد ہوکر جرمنی چلے جانے والے عبدالرحمن کو دوبارہ افغانستان لاکر اس سے مرتد ہونے اور عیسائیت قبول کرنے کا اعلان کرایا گیا، جس کے پس پردہ درج ذیل مقاصد کار فرما تھے، مثلاً:

(الف) یہ باور کرایاجائے افغانستان میں عیسائی این جی اوز کی تحریک اور کوششوں کے خاطر خواہ نتائج نکل رہے ہیں۔

(ب) مسلمانوں کو ذہنی اور اعصابی تناؤ میں مبتلا کرکے عیسائیت کی بالادستی کا احساس اجاگر کیا جائے۔

(ج) اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت کو ترجیح دینے اور مسلمانوں میں قبولِ عیسائیت کے رجحان کا تصور پیش کیاجائے۔

(د)    قانونِ ارتداد اور مرتد کی اسلامی سزا کے نفاذ کو اپنے اثر و نفوذ اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعہ معطل کرایا جائے۔

(ھ) مرتد کو تحفظ دے کر دوسرے بے دینوں کو ذہناً اس پر آمادہ کیاجائے کہ تبدیلیٴ مذہب کی صورت میں ان کو بے یارومددگار نہیں چھوڑا جائے گا، بلکہ امریکا، برطانیہ، روس، جرمنی، فرانس، اٹلی، ڈنمارک، ہالینڈ وغیرہ پوری عیسائی دنیا تمہاری پشت پر ہے اور تبدیلیٴ مذہب کی صورت میں تمہیں نہ صرف تحفظ فراہم کیا جائے گا، بلکہ ہر طرح کے ساز و سامان کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سے اعلیٰ ملک کی شہریت بھی دی جائے گی۔

(و) یہ باور کرایاجائے کہ افغانستان میں بالفعل امریکااور عیسائیت کی بالادستی اورحکمرانی قائم ہے، جس کی علامت یہ ہے کہ مسلمان ملک کا مسلمان حکمراں اوراس کی مسلمان عدلیہ بھی ایک اسلامی سزا کے نفاذ میں بے بس ہے، چنانچہ مرتد عبدالرحمن کے اس اعتراف کے باوجود کہ: ”میں نے عیسائیت قبول کرلی ہے اور میں اس کیلئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہوں“ افغان عدالت کے جج انصار اللہ مولوی زادہ کا یہ کہنا کہ : ”ناکافی ثبوت کی بناپر اسے رہا کیا جاتا ہے۔“ افغان عدالت اور افغان حکومت کی بے بسی کی واضح دلیل ہے۔

(ز) سزائے ارتداد کے اسلامی قانون اور فطرت پر مبنی دستور کو متنازعہ بنایاجائے، دنیائے عیسائیت، انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس کے خلاف بولنے کا موقع دے کر غیرمتعصب دنیاکے علاوہ خود مسلمانوں کے دلوں میں بھی اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیداکئے جائیں، اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اوراس کے نفاذ کو انسانیت کی توہین باور کرایاجائے۔

چنانچہ اس واقعہ کے اخبارات میں شائع ہونے پر جہاں ملحدین و بے دینوں کو اس کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت ہوئی، وہاں نام نہاد مسلمان اسکالروں کو بھی اس قانون میں کیڑے نکالنے کا موقع میسر آگیا۔

اس لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ قرآن و سنت، اجماع امت، قیاس، فقہ وفتویٰ اور عقل و شعور کی روشنی میں اس سلسلہ کی تصریحات نقل کردی جائیں۔

مگر سب سے پہلے اس کی وضاحت ہونی چاہئے کہ مرتد کس کو کہتے ہیں؟ اور سزائے ارتداد کی کیا کیا شرائط ہیں؟

بلاشبہ دنیامیں بسنے والے انسان دین و مذہب کے اعتبار سے دو قسم ہیں: ایک مسلمان اور دوسرے غیرمسلم۔

مسلم: وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ، اس کے ملائکہ، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، آخرت، بعث بعد الموت اوراس بات پر ایمان رکھتے ہوں کہ اچھی اور بری تقدیر اللہ ہی کی جانب سے ہے اور وہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا سچا اور آخری نبی اور آپ کے لائے ہوئے دین و شریعت کو حضرات صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اسلافِ امت کی تشریحات کی روشنی میں مانتے ہوں۔

غیرمسلم: وہ ہیں جو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، دین و شریعت، مذکورہ بالا تمام عقائد یا ان میں سے کسی ایک کے منکر ہوں، یا ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا انکار کرتے ہوں، خواہ وہ اپنے آپ کو ہندو، سکھ، پارسی، زرتشتی، یہودی، عیسائی، بدھ، قادیانی، مرزائی (جو اپنے آپ کو احمدی بھی کہتے ہیں)، ذکری اورآغاخانی کہتے ہوں، یا اس کے علاوہ اپنے آپ کو کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہوں، وہ سب کے سب غیرمسلم ہیں۔

پھر غیرمسلموں کی متعدد اقسام ہیں، چونکہ غیرمسلم اپنے بعض مخصوص عقائد و نظریات اور رہائش و سکونت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اوران میں سے ہر ایک کے احکام بھی جدا جدا ہیں، اس لئے ان کی اقسام، تعریف اور حکم بھی معلوم ہونا چاہئے۔

اوّل: غیرمسلم باعتبار عقائد و نظریات کے سات قسم ہیں:

(۱) کھلا کافر، (۲) مشرک، (۳) دہریہ، (۴) معطل، (۵) منافق، (۶) زندیق، جو ملحد اور باطنی بھی کہلاتے ہیں، (۷) مرتد۔

دوم: پھر ان سب کا باعتبار جنگ وامن اور رہائش و سکونت کے جدا جدا حکم ہے، اس لئے غیرمسلموں کی اقسام، تعریف اورحکم ملاحظہ ہو:

کھلا کافر: جسے کافر مطلق بھی کہاجاتاہے، وہ ہے جو علی الاعلان اسلامی اعتقادات کا منکر ہواوراپنے آپ کو مسلمان برادری سے الگ تصور کرتا ہو، جیسے ہندو، سکھ، یہودی اور عیسائی وغیرہ۔

مشرک: مشرک وہ ہے، جو چند معبودوں کا قائل ہو، یا اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی حجر و شجر یا مورتی وغیرہ کو بھی نفع و نقصان کا مالک سمجھتا ہو۔

دہریہ: دہریہ وہ ہے جو حوادثِ عالم کو زمانہ کی طرف منسوب کرتا ہو اور زمانہ کو قدیم مانتاہو، یعنی زمانہ کو ہی خالق عالم اورازلی و ابدی مانتاہو۔

معطل: معطل وہ ہے جو خالقِ عالم کا سرے سے منکر ہو۔

منافق: منافق وہ ہے جو ظاہراً، زبانی کلامی اورجھوٹ موٹ اپنے آپ کومسلمان باور کرائے، مگر اندر سے کافر ہو۔

زندیق: زندیق وہ ہے جو اپنے کفریہ عقائد پر اسلام کا ملمع کرے اور اپنے فاسد و کفریہ عقائد کو ایسی صورت میں پیش کرے کہ سرسری نظر میں وہ صحیح معلوم ہوتے ہوں، ایسے شخص کو عربی میں ملحد اور باطنی بھی کہتے ہیں۔

مرتد: مرتد وہ ہے جو اسلام کو چھوڑ کر کسی بھی دوسرے دین کو اختیار کرلے۔

ان تفصیلات کے بعد مذکورہ بالا غیرمسلموں میں سے ہر ایک کا حکم ملاحظہ ہو:

کھلا کافر: اگرایسا شخص کسی غیرمسلم ملک میں رہتا ہو، اور وہ ملک اسلامی مملکت سے برسرپیکار ہو، تو یہ شخص حربی کافر کہلائے گا اور مسلمانوں پر ایسے شخص کی جان ومال، عزت وآبرو کی کسی قسم کی حفاظت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن اگرایسا شخص (کھلا کافر) کسی ایسے غیرمسلم ملک میں رہتا ہو، جس کا اسلامی مملکت سے دوستی کا معاہدہ ہوتو یہ شخص مسلمانوں کا حلیف کہلائے گا، اگر یہ شخص کسی دوسری مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو تو مسلمان اس کی جان ومال سے تعرض نہیں کریں گے، چنانچہ ایسا شخص اگر مسلمان ملک میں ویزہ لے کر آئے تو یہ مستأمن کہلائے گا، اورمسلمانوں پر اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ لازم ہوگا۔

اسی طرح اگرایسا کھلا کافر کسی مسلمان ملک کا پرامن شہری ہو اور شہری واجبات یعنی جزیہ وغیرہ ادا کرتا ہو اور کسی ملک وملت دشمنی کا مرتکب نہ ہو، تو یہ ذمی کہلائے گا اوراس کی جان ومال اور عزت و آبرو کی حفاظت و صیانت اسلامی مملکت اورمسلمانوں پر واجب ہوگی۔

مشرک: مشرک کا حکم بھی کھلے کافر کی طرح ہے۔

اس کے علاوہ دہریہ، معطل، منافق، زندیق اور مرتد بھی اگر کسی ایسی غیرمسلم مملکت میں رہتے ہوں جن سے مسلمانوں کا کسی دوستی کا کوئی معاہدہ نہ ہو، تو وہ بھی کھلے کافر کی طرح ہیں اوران پر کسی قسم کے کوئی احکام جاری نہیں ہوں گے، لیکن اگر کسی علاقہ اور قبیلہ کے لوگ اجتماعی طورپر مرتد ہوکر قوت پکڑنے لگیں تو مسلمان حکمران کو حربی کافروں سے بھی پہلے ان کے خلاف کارروائی کرکے ان کا قلع قمع کرنا ہوگا۔

منافق: اگر کوئی منافق، مسلمان ملک میں رہتا ہو اور کسی قسم کی ملک و ملت دشمنی میں ملوث نہ ہو تو مسلمان اس سے بھی تعرض نہیں کریں گے، لیکن اگرکوئی زندیق، دہریہ، معطل اورمرتد اسلامی مملکت میں رہتے ہوئے اس جرم کا ارتکاب کرے، تو چاہے وہ بظاہر کتنا ہی امن پسند کیوں نہ ہو، مسلمان حکمران، اسلامی قانون کی روشنی میں اس کو، اس کے اس بدترین کردار اور گھناؤنے جرم کی سزا دے گا، کیونکہ کسی مملکت کے سربراہ پر اپنے شہریوں کے دین وایمان کی حفاظت لازم ہے، اورجو لوگ مسلمانوں کے دین و ایمان سے کھیلنا چاہیں، ان کا مواخذہ کرنا مسلمان حکمرانکا فرض اور بنیادی حق ہے، اس لئے کہ ارشاد نبوی: ”کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ“ (مشکوٰة ص:۳۲۰) (تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہرایک سے اس کی رعیت کے بارہ میں پوچھا جائے گا) کے مصداق مسلمان حکمران کو اپنے شہریوں کی اصلاح کا مکمل اختیار ہے، لہٰذا مسلمان حکمران کو چاہئے کہ وہ ایسے لادین افراد کی ملت دشمن سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھے اور ان کی خفیہ شرارتوں، سازشوں اور شر و فساد سے اپنی رعایا کے دین و ایمان کی حفاظت کرے۔

زندیق: چنانچہ اگر اسلامی مملکت کا کوئی شہری زندقہ اختیار کرلے اور گرفتاری سے قبل از خود اس جرم سے توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی، لیکن اگر گرفتاری کے بعد توبہ کا اظہار کرے تو اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی، چنانچہ حضرت امام مالک وغیرہ ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں کرتے، حضرت امام ابوحنیفہ کا بھی یہی مسلک ہے، علامہ شامی نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔

مرتد: اگراسلامی مملکت کاکوئی شہری خدانخواستہ مرتد ہوجائے تو اس کے احکام ان سب سے جدا ہیں، مثلاً:

اگر مرتد ہونے والی خاتون ہو تو اس کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جائے، اگراس کے کوئی شبہات ہوں تو دور کئے جائیں، اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے،اگر توبہ کرلے تو فبہا، ورنہ اسے زندگی بھر کیلئے جیل میں قید رکھا جائے تا آنکہ وہ مرجائے یا توبہ کرلے۔

اگر کوئی نابالغ بچہ مرتد ہوجائے تو یہ دیکھا جائیگا کہ اگر وہ دین و مذہب کو سمجھتا ہے اور عقل و شعور کے سن کو پہنچ چکا ہے تو اس کا حکم بھی مرتد ہونے والے مرد کا ہے، اوراگر بالکل چھوٹا اور ناسمجھ ہے تو اس پر ارتداد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔ اسی طرح اگر کوئی مجنون یا پاگل ارتداد کا ارتکاب کرے تواس پر بھی ارتداد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔

اگر کوئی عاقل، بالغ مرد، ارتداد کاارتکاب کرے تو اس کو گرفتار کرکے تین دن تک اس کو مہلت دی جائے گی، اس کے شبہات دور کئے جائیں گے، اگر مسلمان ہوجائے تو فبہا، ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔

قرآن و سنت، اجماع امت اور فقہائے امت کا یہی فیصلہ ہے اور عقل و دیانت کا بھی یہی تقاضا ہے۔

جیساکہ قرآن کریم میں ہے:

”انماجزاء الذین یحاربون اللّٰہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادًا ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیہم وارجلہم من خلاف او ینفوا من الارض ذلک لہم خزی فی الدنیا ولہم فی الآخرة عذاب عظیم، الا الذین تابو من قبل ان تقدروا علیہم فاعلموا ان اللّٰہ غفور رحیم“ (المائدہ: ۳۳-۳۴)

ترجمہ: ”یہی سزا ہے ان کی جو لڑائی کرتے ہیں اللہ سے اوراس کے رسول سے اور دوڑتے ہیں ملک میں فساد کرنے کو، کہ ان کو قتل کیا جائے یاسولی چڑھائے جائیں یا کاٹے جائیں ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے یا دور کردئیے جائیں اس جگہ سے، یہ ان کی رسوائی ہے دنیا میں اوران کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے، مگر جنھوں نے توبہ کی تمہارے قابو پانے سے پہلے تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“

اس آیت کے ذیل میں تمام مفسرین و محدثین نے عکل وعرینہ کے ان لوگوں کا واقعہ لکھاہے جو اسلام لائے تھے،مگر مدینہ منورہ کی آب و ہوا ان کو راس نہ آئی تو ان کی شکایت پر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صدقہ کے اونٹوں کے ساتھ بھیج دیا، جہاں وہ انکا دودھ وغیرہ پیتے رہے، جب وہ ٹھیک ہوگئے تو مرتد ہوگئے اوراونٹوں کے چرواہے کو قتل کرکے صدقہ کے اونٹ بھگالے گئے، جب مسلمانوں نے ان کو گرفتار کرلیا اورآنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سیدھے ہاتھ اوراُلٹے پاؤں کاٹ دئیے اور وہ حرہ میں ڈال دئیے گئے، پانی مانگتے رہے، مگر ان کو پانی تک نہ دیا، یہاں تک کہ وہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔

اسی لئے امام بخاری نے اس آیت کے تحت عنوان بھی اسی انداز کا قائم فرمایاہے، جس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ لوگ چونکہ مرتد اور محارب تھے،اس لئے ان کو قتل کیاگیا، چنانچہ امام بخاری کے الفاظ ہیں:

”باب لم یسبق المرتدون المحاربون حتی ماتوا۔“ (ص:۱۰۰۵، ج:۲)

اگرچہ امام بخاری کے علاوہ دوسرے ائمہ کرام اس کے قائل ہیں کہ محارب جیسے کفار ہوسکتے ہیں، ویسے مسلمان بھی ہوسکتے ہیں، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ اس آیت کی روشنی میں ایسے لوگ جو مرتد ہوجائیں، اوراللہ و رسول سے محاربہ کریں، وہ واجب القتل ہیں۔

سزائے مرتد کے سلسلہ میں صحاح ستہ اورحدیث کی دوسری کتب میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات اور حضرات صحابہ کرام کا عمل بھی منقول ہے، ذیل میں اس سلسلہ کی چند تصریحات ملاحظہ ہوں:

۱- ”عن عکرمة قال: اتی علی رضی اللّٰہ عنہ بزنادقة فاحرقہم، فبلغ ذلک ابن عباس، فقال: لوکنت انا لم احرقہم لنہی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا تعذبوا بعذاب اللّٰہ، ولقتلتہم لقول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من بدّل دینہ فاقتلوہ۔“ (بخاری، ص: ۱۰۲۳، ج۲، ص: ۴۲۳،ج:۱، ابوداؤد ص: ۲۴۲، ج:۲، نسائی ص:۱۶۹، ج:۲، ترمذی ص:۱۷۶، ج:۱، مسند احمد ص: ۲۱۷، ج:۱، ص:۲۸۲، ج:۱، سنن کبریٰ بیہقی ص: ۱۹۵، ج:۸، مستدرک حاکم ص: ۵۳۸ ج:۳، مشکوٰة ص: ۳۰۷)

ترجمہ: ”حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت علی کے پاس چند زندیق لائے گئے توانھوں نے ان کو آگ میں جلادیا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو جب یہ قصہ معلوم ہوا تو فرمایا: میں ہوتا توانکو نہ جلاتا، اس لئے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایسا عذاب نہ دو جو اللہ تعالیٰ (جہنم میں) دیں گے، میں ان کو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ”جو شخص دین تبدیل کرے، اس کو قتل کردو“ کے تحت قتل کردیتا ۔“

۲- ”عن عکرمة قال قال ابن عباس قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من بدّل دینہ فاقتلوہ۔“ (نسائی ص:۱۴۹، ج:۲، سنن ابن ماجہ ص: ۱۸۲)

ترجمہ: ”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دین تبدیل کرکے مرتد ہوجائے، اس کو قتل کردو۔“

۳- ”عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال: کان عبداللّٰہ بن سعد بن ابی سرح یکتب لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فازلہ الشیطن فلحق بالکفار فامر بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یقتل یوم الفتح، فاستجار لہ عثمان بن عفان فاجارہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ․․․ (ابواداؤد ص ۲۵۱، ج:۲، نسائی ۱۶۹، ج:۲)

ترجمہ: ”حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ عبداللہ بن ابی سرح، حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی تھا، اسے شیطان نے بہکایا تو وہ مرتد ہوکر کفار سے مل گیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کے قتل کا حکم فرمایا، (جس سے معلوم ہوا کہ مرتد کی سزا قتل ہے، ناقل) مگر حضرت عثمان نے اس کیلئے پناہ طلب کی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پناہ دے دی (چنانچہ وہ بعد میں دوبارہ مسلمان ہوگیا)“                                                                                                                                       (باقی آئندہ)

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ11، جلد: 90 ‏،شوال المکرم1427 ہجری مطابق نومبر2006ء