پوپ صاحب !

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی‏، ۱۵/ گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

اتنی نہ بڑھا پائی داماں کی حکایت

دامن  کو  ذرا  دیکھ بندِ  قبا دیکھ

موجودہ پوپ بینڈکٹ XVI کے حالیہ بیان کو جس میں موصوف نے 600 سال پہلے کے بازنطینی بادشاہ کے حوالہ سے پیغمبر انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا ہے اُس کے مکمل تناظر میں دیکھا جانا اہم اور ضروری ہے۔ پوپ کا اسلام پر حملہ نیا نہیں ہے۔ مگر یہ جس وقت اور حالات میں کیاگیا ہے وہ قابل غور ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت مسلمانوں اور اسلام کو نشانہ بناکر شروع کی گئی مہم کے دوران عیسائی اتحاد کے لئے بلائی گئی کانفرنس میں پوپ کا اسلام دشمنی اقتباس کا دہرایا جانا کسی خطرناک مہم کا حصہ ہے جس طرح ۱۱/۹ کے فوراً بعد صلیبی جنگوں کی شروعات کی عیسائی امریکی صدر بش کی دھمکی تھی۔ ایسے میں ضروری ہے کہ علمی اور تاریخی حقائق کا جائزہ لیکر پوری شدومد کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھے جائیں کہ انسانیت کو اسلام نے کیا دیا اور عیسائیت کے نام پر پائی جانے والی (St. Paul) سے منسوب پالویت نے کیا دیا؟

۱-     عقیدہ کو طاقت کی بنا پر بدلنے کا الزام اسلام پر آتا ہے یا نہیں؟

۲-    عیسائیوں نے طاقت کے بل پر عقیدہ بدلنے کا کیا کام کیا؟

۳-    قرآن اور بائبل میں جبر واکراہ کے ساتھ عقائد کو بدلنے پر کیا تعلیمات دی گئی ہیں؟

۴-    انسانیت کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور جدید مغرب اور پولویت نے کیا دیا؟

شروع میں مختصراً دیکھ لیں کہ عقیدہ کی تبدیلی کے بارے میں اسلام کی تعلیمات رسول کے اقوال اوراسلامی تاریخ کیا رہی ہے؟ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں یہ شامل ہے کہ دین میں زبردستی نہیں ہے(2/256) تمہارے لئے تمہارا مذہب ہے میرے لئے میرا دین ہے (109-6) اگر تیرا رب چاہتا تو زمین پر پائے جانے والے ہر انسان کو ایمان والا بنادیتا۔ کیا تم لوگوں کو مجبور کروگے کہ وہ ایمان لے آئیں۔ (سورہ یونس) جنگ کے معاملہ میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی قید لگی ہے۔ ذاتی اور شخصی اقتدار کے لیے جنگ کو جہاد نہیں کیا جائے گا۔ اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے باہر نہ نکلو۔ اللہ حد سے گذرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (2/190) جہاں قتل اور جہاد کرنے کے لئے کہا گیا ہے وہ ان سے کہا گیا ہے جو اللہ کی راہ میں روڑا اٹکاتے ہیں یا اسلام کے خلاف اعلان جنگ کرچکے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس انجیل میں کہا گیا (لوقس 19/27) مسیح نے کہا مگر میرے دشمن ان کو یہاں لاکر قتل کرو جو میرا انکار کریں (پینٹ پال 15/25) نے کہا اسے طاقتور رہنا چاہئے یہاں تک کہ وہ سارے دشمنوں کو پیروں تلے کچل دے۔ ایک اور جگہ مسیح کہتے ہیں (میتھیو 10/34) میں دنیا میں امن دے کر نہیں بھیجا گیا ہوں۔ میں تلوار دے کر بھیجا گیا ہوں۔ ایک اور جگہ مارک 12/1 (لوقس 20/9-16) میں لمبی مثال دی ہے ”ایک آدمی انگوروں کا باغ لگایا۔ اس کے کنارے باڑھ لگائی۔ نگرانی کے لئے ٹاور بنایا، اور ایک رکھوالے کو وہاں رکھ کر وہاں سے دور ملک چلا گیا۔ فصل کے وقت وہ ایک نوکر بھیجتا ہے فصل لانے کے لئے وہ اسے مار کر بھگا دیتا ہے۔ اگلے سال پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ تیسرے سال انھوں نے مالک کے نوکر کو سرمیں زخمی کرکے واپس بھیج دیا۔ چوتھے سال انھوں نے نوکر کو قتل کردیا۔اس کے بعد بہت سے نوکروں کو یا تو قتل کیا یا زخمی کردیا۔ یہاں تک کہ مالک نے اپنے پیارے بیٹے کو فصل کے لئے بھیجا۔ اس کا خیال تھا کہ نوکر اس کی تو عزت کریں گے مگر باغ کے رکھوالوں نے مشورہ کیا کہ یہ تو وارث جائداد ہے اسکو ہی قتل کردیں تو پھرتو باغ کے مالک ہم ہی ہوں گے۔ انھوں نے بیٹے کو مار باغ کے باہر پھینک دیا۔ تب باغ کا مالک کیا کرے گا؟ وہ آکر رکھوالوں کو قتل ہی کرے گا اور باغ دوسروں کے حوالہ کرے گا۔ (اسلام اور عیسائیت از ڈاکٹر حمید اللہ،ص:۲۰-۲۱)

جس نبی رحمت پر الزام لگایا گیاہے کہ انھوں نے دنیا کو جبریہ تبدیلیٴ مذہب اور تشدد کے کچھ نہیں دیا۔ ان کی تعلیمات کا ذکر تو آگیا مگر تعلیم پر خود انھوں نے عمل بھی کیا یا نہیں یہ دیکھنا ضروری ہے کیونکہ دوسروں کو اچھے اپدیش دینا تو آسان ہے مگر عمل کرنا مشکل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آنے کے بعد سے وفات تک 82 مسلح کارروائیوں کی کمانڈ خود کی ان کے مامورین نے انجام دی۔ ان دس سالوں میں ہوئی اکثر جنگوں اور مڈبھیڑوں میں آپ کبھی حملہ آور نہیں تھے بلکہ آپ پر یا تو حملہ کیاگیا تھا یا حملہ کرنے کی سازش تھی اسی طرح آپ کی معرکہ آرائیاں یاتو مدافعتی Defensive تھیں یا حفظ ماتقدم Prcemptive تھیں۔ پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان بیاسی معرکوں میں طرفین کا کل جانی مالی نقصان کتنا تھا؟ کل دو سو مسلمان شہید ہوئے۔ ۱۲۷ زخمی ہوئے۔ ایک قید ہوا۔ مخالف ۱۰۱۸ قتل ہوئے، زخمی ۱۲۷ ہوئے، ۶۵۶۵ قید ہوئے پورے دس سال کے نام نہاد کشت وخون کا یہ تھا کل جانی مالی نقصان اور اس کے نتیجہ میں عرب کا دس لاکھ مربع میل علاقہ امن، سکون اورلاء اینڈ آرڈر کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوا۔ (قاضی سلمان منصور پوری بحوالہ مقالات سیرت از ڈاکٹر ایم آصف قدوائی، ص:۱۹۷-۱۹۸)

جنگی قوانین کا موازنہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں، عورتوں، بچوں اور راہبوں کو قتل کرنے سے منع کیا۔ پیڑوں کو کاٹنے، فصلوں کو اجاڑنے سے منع فرمایا۔ قیدیوں کے ساتھ بہتر سلوک کی تلقین کی۔ اور اس پر عمل کرکے دکھایا۔ اس کے برعکس اہل مغرب اورپوپ کے ماننے والوں نے اصول ایجاد کیا کہ ”پیار اور جنگ میں سب جائز ہے“۔ یا یہ کہ ”مقصد ہی طریقہ کار کو طے کرتا ہے“ مقصد حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرو سب جائز ہے۔ خواجہ کمال الدین نے ”آئیڈئیل پرافٹ“ Ideal Prophet میں لکھا ہے کہ ”مذاہب اورممالک کی تواریخ سے یکساں طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تلوار کو کبھی بالائے طاق نہیں رکھا گیا۔ ہندو اوتاروں اور اسرائیلی سرداروں نے اسے بے نیام کیا۔ کیونکہ نہ تو اسرائیلی قانون اورنہ ہندو دھرم کسی معنوں میں اہنسا ”عدم تشدد“ کا پرچار کرتا ہے۔ امن کے شاہزادہ (حضرت مسیح) کا بھی یہی اعلان تھا کہ وہ دنیا کو امن نہیں بلکہ تلوار دینے آیا تھا۔ وہ قانون اور پیغمبروں کے کاموں کو پورا کرنے آیا ہے۔ اس کے مذہب کے اصول تلوار کے استعمال کی اجازت دیتے تھے۔ اوراس کے پیغمبروں نے جنگیں لڑی تھیں درحقیقت وہ تلوار ضرور اٹھاتا اگر موافق اور مناسب موقع پیش آتا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ آج Christendom کے مادی اور ذہنی وسائل کا بہت بڑا حصہ ان ذرائع کی ایجاد میں صرف ہورہا ہے جو ساری دنیا کو بہترین طور پر آگ اور تلوار کے حوالہ کرسکیں۔ (خواجہ کمال الدین ”آئیڈیل پرافٹ)

خلیفہٴ اول حضرت ابوبکر نے جب شام کی جانب فوج روانہ کی تو اس کے نام یہ تاریخی اعلان جاری کیا کہ ”دشمنوں سے تمہارے معاہدوں میں جھوٹ یا فریب نہیں ہونا چاہئے۔ ہر معاملہ میں ایماندار ہونا کہ تمہاری صداقت اور اعلیٰ ظرفی ثابت ہوجائے۔ اپنے وعدوں اور اپنی باتوں کی سختی سے پابندی کرو، راہبوں اور سنیاسیوں کے سکون میں خلل نہ ڈالو، اور ان کے مسکنوں کومسمار نہ ہونے دو۔ (مقالات سیرت بحوالہ طبری جلد۲)

اسی شام کی وہ مثال تاریخ میں محفوظ ہے جب مسلم حکمرانوں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی غیرمسلم رعایا کو بیرونی حملہ سے محفوظ نہیں رکھ سکتے توانھوں نے ان سے لی گئی جزیہ کی رقم واپس کردی جس کا ان کے اوپر بیحد اخلاقی اثر ہوا اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اسی طرح جب ایک گورنرنے خلیفہ کو اطلاع دی کہ لوگ جزیہ سے بچنے کے لئے مسلمان ہورہے ہیں ایسا ہی رہا تو ہمارے خزانہ خالی ہوجائیں گے خلیفہ اسلام نے تاریخی جواب دیا ہم ٹیکس اکٹھا کرنے والے بناکر نہیں بھیجے گئے ہیں ہمارا کام لوگوں کو ہدایت کا پیغام پہنچانا ہے۔ مشہور مورخ Delaay Oleay نے بجا طور پر لکھا ہے کہ ”یہ کہنا کہ کچھ جنونی مسلمانوں نے دنیا میں پھیل کر تلوار کے ذریعہ ہاری قوم کو مسلمان بنایا۔ تاریخیں وضاحت کرتی ہیں کہ یہ کوری بکواس ہے اوران خیالی کہانیوں میں سے ہے جسے تاریخ دانوں نے کبھی دوہرایا ہے۔ (Islam at Cross road p.8)

مسلمانوں نے اسپین پر 800 سال حکومت کی اور ایک آدمی کو بھی اسلام قبول کرنے پرمجبور نہیں کیا بعد میں عیسائی صلیبیوں نے اسپین کو فتح کیا تو ایک بھی مسلمان نہیں چھوڑا جو اذان دے سکے۔ بھارت میں مسلمانوں نے 1000 سال حکومت کی اور وہ آج بھی کل آبادی کا محض 15% ہیں۔ انڈونیشیا میں مسلمان حکمراں نہیں گئے وہ سب سے بڑا اسلامی ملک ہے اور عیسائی آبادی وہاں اچھی طرح رہ رہی ہے بلکہ بعض معاملات خصوصاً فوج میں وہ مسلمانوں پر بھی بھاری ہیں۔ (غلط فہمیوں کا علاج از ڈاکٹر ڈاکرنائک،ص:۲۴-۲۵)

آج کے جدید زمانہ میں جو سائنس اور تہذیب کا زمانہ سمجھا جاتا ہے جس میں اقوام متحدہ اور حقوق نسواں کے بڑے بڑے عالمی ادارے کام کررہے ہیں غیرمسلم ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے۔ حبشہ میں مسلمان اگرچہ اکثریت میں ہیں مگر پریشان کئے جارہے ۔ روس، یوگوسلاویہ اور چین میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے، بوزنیا ہرزگوینا کے خلاف جو سازشیں چل رہی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ کمیونسٹ ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ تاریخ میں محفوظ ہے، کمیونسٹوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے تشدد اور ظلم کا سبق قرون وسطیٰ کے عیسائی عدالتوں کے مظالم سے پڑھا ہے۔ ہٹلر اور ٹرائسکی نے بھی انہیں عیسائی عدالتوں سے ظلم کے سبق سیکھے تھے۔ اسپین میں جب ابن رشد کا خلیفہ مسلمانوں اور یہودیوں میں کھیلنے لگا تو اسپینی چرچ کا قہر مسلمانوں اور یہودیوں پر ایک ساتھ ٹوٹا۔ انھوں نے یہودیوں کو اسپین سے اس حالت میں نکلنے کو کہا کہ وہ استعمال کی معمولی چیزیں ساتھ لے جاسکتے ہیں مگر سونا چاندی یا نقدی نہیں لے جاسکتے۔ یہودی بھاگے اور راستہ میں ہی ہزاروں بھوک، پیاس سے مرگئے۔ اسی طرح ۱۵۰۲ / میں اشبیلیہ کے چرچ نے مسلمانوں کو اس حکم کے ساتھ دیش سے نکال دیا کہ وہ ان راستوں پر جائیں جو مسلم ملکوں کی طرف نہیں جاتے ہوں۔ اسلئے جان بچانا چاہتے ہو تو عیسائیت قبول کرلو۔ جن لوگوں نے عیسائی تاریخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ ۱۳۲۵/ میں نیکیا کے مشہور کونسل میں مصری عیسائی عالم آربوس کے بارے میں فیصلہ دیا کہ اسے پھانسی دی جائے اس کی کتابیں جلادی جائیں اور اس کی کتابیں پڑھنا اور لکھنا جرم قرار دیا جائے۔ اس کے حمایتیوں کو نوکریوں سے نکال دیا جائے اورانہیں پھانسی دے دی جائے۔ کیونکہ آربوس حضرت عیسیٰ کو خدا ماننے کا قائل نہیں تھے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے جب یوروپ میں پروٹسٹنٹ Protestant کی بنیاد رکھی تو پوپ کے کلیسا نے پوری طاقت سے اس کی مخالفت کی ۲۴/ اگست ۱۵۷۲/ کو پیرس میں دونوں فرقوں کی میٹنگ میں پروٹسٹنٹ کو بلاکر رات کے اندھیرے میں ان کا قتل عام کرادیاگیا۔ چارلس نہم کو اس کارنامہ پر خود پوپ نے بڑی مبارک باد دی۔ پھر جب پروٹسٹنٹ حاوی ہوئے تو انھوں نے بھی ایسے ہی بدلہ لیا۔ لوتھر کنگ نے صاف طور پر کہا تم سے جتنا ہوسکے کھلے عام یا پردہ میں کیتھولک عیسائیوں کو قتل کریں۔ خود جرمنی میں ان آپسی جنگوں کے نتیجہ میں جرمن قوم کی زیادہ آبادی مارڈالی گئی اور بڑے بڑے بارونق شہر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ رہی وہ صلیبی جنگیں Cruscdes جس میں خود عیسائیوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا ان کے سامنے نازی واد اور کمیونسٹ مظالم بھی ہیچ ہیں۔ عیسائیوں نے یوروپ میں ایک دوسرے کی لاشوں پر ہل چلاکر اسے کھاد کی طرح استعمال کیا۔ بدنام زمانہ مذہبی تفتیشی عدالتوں نے پڑھے لکھے عیسائیوں کو ۱۴۸۱ - ۱۸۰۸/ کے درمیان ۳ لاکھ چالیس ہزار کی تعداد میں قتل کرایاگیا۔ جن میں ۲ لاکھ زندہ جلائے گئے۔ بریفالٹ نے اپنی کتاب ”اسلام و عیسائیت - سائنس اور تہذیب کے ساتھ“ میں لکھا ہے کہ عیسائیوں نے اپنی اشاعتی مہم کے دوران صرف یوروپ میں ستر لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ تک انسانوں کو قتل کیا۔ انگلینڈ کی مہارانی ”میری“ نے ایک بار اعلان کیا ”چونکہ کافروں کی روحیں جہنم میں ہمیشہ جلیں گی اس لئے خدائی غضب کی تقلید کرتے ہوئے انہیں زمین پر بھی زندہ جلاڈالنے سے اچھا کام نہیں ہوسکتا۔

امریکہ برطانیہ، فرانس (ہالینڈ) ترقی اور آزادی کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ آزادی کے ان علمبرداروں نے ٹیونشیا سے الجیریا اور مراکش تک اور بھارت و کینیا سے لے کر ویتنام تک ہر جگہ پر آزادی کے متوالوں پر جو ظلم ڈھائے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ شاید ان کے نزدیک ”آزاد دنیا“ کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے آزادی اور عزت کے قتل عام کی انہیںآ زادی حاصل رہے۔ ایسی آزاد (عیسائی) دنیا نے قوموں کو اپنے آبائی وطن سے اجاڑ دیا جس طرح فلسطین میں کیاگیا پھر ان کے لئے ریگستان میں خیمے بھی گاڑے گئے۔ کیونکہ آزاد دنیا کا یہی اصول ہے۔ (علامہ یوسف القرضاوی۔ اسلام مسلمان اور غیرمسلم، ص:۱۲۶ تا اختتام)

مغربی دنیا (عیسائی دنیا) نے دوسروں کو غلام بناکر جو ظلم، لوٹ، عصمت دری کی تاریخ رقم کی ہے اس میں عیسائی مبلغین نے ہمیشہ ہراول دستہ کا کام کیا ہے۔ جب انھوں نے محسوس کیا کہ صرف ملٹری کے زور پر قوموں پر غلامی برقرار نہیں رکھی جاسکتی تو انھوں نے خدمت گاروں کے نام پر تعلیم، صحت، اور کمزوروں کی مدد کے نام پر دنیا بھر میں جال پھیلادیا۔ جہاں وہ خدمت کے ساتھ لوگوں کے ایمان بھی خریدتے ہیں۔ تمام عرب ممالک ، ایشیا کے غریب ممالک، افریقی ممالک کوئی اس سے اچھوتا نہیں بچا۔ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی یہ ڈرامہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے وقت سے آج تک جاری ہے۔ اسی لئے ۲۱ ویں صدی کو عیسائیت کی صدی کے طور پر منانے کے ایجنڈہ پر کام جاری ہے۔ پوپ صاحب اورانکی پروپیگنڈہ مشینری کیلئے ایرک فرام کی کتاب The anatomy of human Destractiveness کے ان اعداد و شمار کا کوئی جواب نہیں ہوگا جو خود عیسائی یوروپ کے آپسی تشدد کو پیش کرتا ہے جسکے مطابق یوروپ نے ۱۴۸۰-۱۹۴۰ کے عرصہ میں ساڑھے چار سو سال میں ۲۶۵۹ جنگیں لڑی ہیں۔ جن میں ۸۹۲ جنگیں صرف ۱۹۰۰- ۱۹۴۰ چالیس سال کے عرصہ میں لڑی گئیں۔ (The anatomy of human Destructiveness Ehni Frohm, p.245)

عیسائی ریاستوں نے ۱۱ویں صدی سے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز کیا۔ ان کے پیچھے پوپ ارین II کا حکم تھا ۱۵۹۵/ میں کاؤنسل آف کلیرماؤنٹ سے دیاگیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں یروشلم کو ۱۵۹۹/ میں فتح کرلیاگیا۔ شبیر احمد (The roots of Nationalism in muslim world, Page 14)

مسلمانوں کے خلاف برٹش، فرانس اور امریکی ایجنٹوں نے مندرجہ ذیل ”مقاصد“ کے ساتھ کام شروع کیا:

۱- مسلمانوں میں عقیدہ کے تعلق سے شک و شبہ پیداکرنے کی منظم کوشش۔

۲- ترک، فارسی اور عربی النسل مسلمانوں میں اختلاف و دشمنی کو پھیلانا۔ جس کے لئے وطن پرستی Nationalism کا سہارا لیاگیا۔

۱۶ ویں صدی کے آخر میں مالٹا میں بہت بڑا مشنری مرکز بنایا گیا۔ یہاں سے اسلامی دنیا کے خلاف مہم چلائی گئیں ۱۶۲۵/ میں الشام میں انھوں نے ایک اور مرکز قائم کیا۔مگر ۱۹ویں صدی کے آغاز میں مشنریوں کو کامیابی ملنی شروع ہوئی۔ اس کے لئے جو ہتھکنڈے اپنائے گئے ان کا تفصیلی مطالعہ آج بہت ضروری ہے۔ عثمانی خلافت کو کمزور اور ختم کرنے کے لئے ۱۸۵۷/ سے پہلے اور بعد مندرجہ ذیل کام کیے گئے:

۱۸۵۷/ سے پہلے

۱۶۲۵/             الشام میں مرکز کے قیام کی کوشش۔

۱۷۷۳/            پوپ نے سرگرمیاں معطل کرکے مالٹا واپس آنے کو کہا۔

۱۸۲۰/             بیروت میں مرکز قائم کیا۔

۱۸۲۷/            علی اسمتھ امریکی ایجنٹ بیروت آیا۔

۱۸۲۸/            علی اسمتھ مالٹا واپس گیا۔

۱۸۳۴/            علی اسمتھ اوراس کی بیوی نے سارے علاقہ پر گھس پیٹھ کرلی۔

۱۸۳۹/             برٹش اور امریکی مشنریوں نے سیرین پروٹسٹنٹ چرچ قائم کیا۔

۱۸۴۱/             مشنریز نے لبنان میں بدامنی پیدا کی۔

۱۸۴۲/            سائنسی ریسرچ کمیٹی کا قیام۔

۱۸۴۷/            ”ایسوشی ایشن آف ارٹس اینڈ سائنس“ کا قیام۔

۱۸۵۷/            مارونی عیسائیوں نے مشنریز کے بھڑکانے پر عثمانی خلافت کے خلاف مسلح جنگ چھیڑ دی۔

۱۸۵۷/ کے بعد

۱۸۵۷/            سیرین سائنٹفک ایسوشی ایشن کا قیام

۱۸۶۰/             دمشق میں مشنریوں کے احتجاج کے نتیجہ میں عیسائیوں کا قتل عام۔ فرانس نے اپنی افواج بھیجیں۔

۱۸۶۶/             امریکن یونیورسٹی آف بیروت کا قیام۔

۱۸۷۴/            یونیورسٹی آف سینٹ جوزف کا قیام۔

۱۸۷۵/            ”خفیہ ایسوشی ایشن“ کا قیام۔

۱۸۸۰/            ”اورینٹل ایسوشی ایشن“ کا قیام۔

مذہب اور سائنس کے نام پر مشنریوں کی سرگرمیاں صرف امریکی اور برٹش دلچسپیوں کا مرکز نہیں تھیں بلکہ زار روس کے روس اور جرمنی سے بھی مشنریز عرب ممالک میں آرہے تھے۔ جن کے بین الاقوامی مفادات الگ تھے مگر عیسائیت کی تبلیغ اور مغرب کی تہذیب کی تبلیغ مشترکہ مقاصد میں سے تھے۔ (شبیر احمد Tte root of mationalism in muslim world, page 24-30)

تعلیم، صحت، ریلیف کے نام پرآج بھی یہ مکروہ سلسلہ جاری ہے جس کی تازہ ترین مثال عراق میں امریکی جنگ ہے ”عیسائی مبلغین کو عراق میں تبلیغ کی تیاری کے لئے مہم چلائی گئی ہے۔ کمانڈرس کے لئے فوجی مذہبی لیکچرس کا انتظام کرایاگیا ہے۔ عام فوجیوں کو تورات کی پیشین گوئیوں پر یقین اور اس جنگ میں حصہ لینے والوں کو جنت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ ہر فوجی کو مذہبی لٹریچر مہیا کرایاگیا ہے ․․․ دوسری طرف عراق سے جو خبریں آرہی ہیں ان میں بتایاگیا ہے امریکی برطانوی فوجیوں کے پیچھے مسیحی مبلغین مذہبی لٹریچر، غذائی و طبی ساز و سامان لے کر چل رہے ہیں۔ انجیل کی کاپیاں تقسیم کی جارہی ہیں جو بہت خوبصورت چھاپی گئی ہیں۔ فرانسیسی اخبار ”لامونڈ“ میں مسیحی مبلغ ہنری ٹنک نے لکھا ہے کہ مسیحی مبلغین امریکی و برطانوی فوجیوں کے ساتھ چل رہے ہیں۔ جو ڈاکٹر اور نرس نہی ہوتی ہیں۔ ایک تعداد تو فوج کے ساتھ ہی داخل ہوتی اور دوسری تعداد پیچھے چل رہی ہے۔ مقالہ نگار کے بقول یہ مسیحی مبلغین مسلمانوں کے خلاف شدید ترین نفرت کے جذبات رکھتے ہیں۔ صدربش کی وہ تقریر ہر مبلغ اورامریکی فوجی کے پاس ہے جس میں انھوں نے ۱۱/ستمبر کے بعد صلیبی جنگوں کے آغاز کی بات کہی تھی“۔ (تعمیر حیات ۲۵/ اپریل ۲۰۰۳/)

یہاں یہ بات دنیا کو یاد کرانی اور بتانی ضروری ہے کہ آج دنیا میں ہتھیاروں کی سب سے بڑی انڈسٹری دنیا کے جن ملکوں میں ہے وہ اس کے اجارہ داری پر قابض ہیں اور سب کے سب پوپ صاحب کے ہی ہم مذہب ہیں۔ کوئی بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار نہیں ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گراکر لاکھوں لوگوں کو خاک وخوں و آگ سے ہلاک کرنے والے بھی پوپ صاحب کے پیروکار تھے۔ اور پہلی و دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں انسانی جانوں کے ضیاع اورمال و اثاثہ کی بربادی میں بھی یہی گورے لوگ تھے۔ ویتنام میں لاکھوں انسانوں کی تباہی کے ذمہ دار کون لوگ ہیں؟آج سالانہ ۸۰۰ کروڑ ڈالر اسلحہ کی تجارت بھی یہی کررہے ہیں۔

اسلام کی قوت کااصلی سرچشمہ

پروفیسر میکس ملر کے بقول اسلام دراصل ایک تبلیغی مذہب ہے۔ جس نے اپنے آپ کو تبلیغی بنیادوں پر قائم کیا۔ اسلام اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ صرف دعوت حق ہے۔ جب تک مسلمانوں میں قرآن حکیم اور اسوئہ رسول کی تبلیغی تعلیمات کا اثر مسلمانوں پر رہا ہر مسلمان کی زندگی ایک مبلغ اور داعی کی زندگی رہی۔ انھوں نے صنعت و تجارت، زراعت و حکومت اور دنیاکے سارے کام کئے مگر دل میں یہی لگن رہی کہ اسلام کی جو نعمت اللہ نے انہیں عطاء کی ہے اس سے تمام بنی نوع انسانی کو بہرہ مند کرنے کی کوشش کریں---- اسلام کے دشمن کہتے ہیں کہ اس کی اشاعت صرف تلوار کی رہین منت ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ وہ صرف تبلیغ کی منت پذیر ہے۔ اگر اس کی زندگی تلوار پر منحصر ہوتی تو تلوار سے ہی فنا ہوجاتی۔ آج اسلام کی وہ فتوحات جنھیں شمشیری فتوحات کہاجاسکتا ہے دنیا سے مٹ چکی ہیں۔ اسپین فنا ہوچکا، صقلیہ مٹ گیا، یونان چھن گیا مگر وسط افریقہ، جاوا، سماٹرا، چین، جزائر ملایا جنھیں اس نے تبلیغ کے ہتھیار سے فتح کیا وہ بدستور موجود ہیں۔ اور اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کی زندگی تبلیغ اور صرف تبلیغ پر منحصر ہے۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی - اسلام کیسے پھیلا، ص:۸)

۱۹۳۴ سے ۱۹۸۴/ تک مذاہب عالم کی توسیع واشاعت

ان پچاس سالوں میں عالمی مذاہب کے فروغ و اشاعت کا جائزہ ریڈرس ڈائجسٹ کی سالانہ اشاعت ۱۹۸۶/ میں شائع ہوا تھا۔ جسکے مطابق اسلام کی توسیع و اشاعت کا فیصد 235% تھا۔ اور عیسائیت کا صرف 47% ۔ اور یہ تب ہورہا ہے جب دنیا میں ہر طرف مسلمان مغلوب اور محکوم ہیں۔ اس عرصہ میں مسلمانوں نے کون سا ملک فتح کیا؟ کس غیرمسلم ملک پر حملہ کیا؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اسکے باوجود آج برطانیہ، یوروپ اورامریکہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہی ہے؟ کیوں؟ یوروپ اور امریکہ میں آج جیسے مسلم دشمن حالات ہیں وہ سب جانتے ہیں۔

جہاں تک سوال یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مغرب کی عیسائیت نے دنیا کو کیا دیا۔ اس کے لئے بڑی بڑی کتابیں بھی ناکافی ہیں صرف اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ سب سے بڑی دین انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں لائے۔ تمام انسانیت کو آدم کی اولاد بتایا۔ آج جس گلوبلائزیشن کا بہت چرچا ہے وہ وحدت آدم کی شکل اور ایک قبلہ کی طرف دنیا بھر میں پانچ بار نماز پڑھاکر پہلے ہی سے اسلام میں موجود ہے۔ جس میں انصاف اور امن کی وہ مثالیں پیش کی گئیں کہ پورے خطے مسلمانہوگئے۔ مذہبی رواداری کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ مسلمان ۱۴۰۰ سالوں سے عرب پر حکومت کررہے ہیں مگر وہاں آج بھی ایک کروڑ چالیس لاکھ عرب نسل کے عیسائی آباد ہیں۔ اگر مسلمان جہاد کے اوپر مذہب تبدیل کرادیتے ہیں تو عرب ممالک میں یہ ڈیڑھ کروڑ عیسائی کیسے باقی رہ گئے ہیں؟ سائنس، آرٹ، انجینئرنگ، زراعت، ادب کس باب میں مسلمانوں کا مقابلہ یوروپ کرسکتا ہے؟ سب سے بڑی دین یہ ہے کہ مسلمانوں نے دوسروں کو غلام بناکر اُن کی جان، مال، ایمان کو ہڑپا نہیں؟ انہیں ایٹم بم، تایام بم، کلسٹربم، ڈیزی کٹرس اور کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیار کی سوغات نہیں دیں۔ ایڈس اور کوکاکولا جیسے تحفے نہیں دئیے۔ زنا اور سود پر مبنی تہذیب نہیں دی۔

آخر میں مسلمان دانشوروں سے عرض کرنا ہے کہ وہ پوپ کے بیان کو صرف زبان کا پھسلنا Slip of Tongve نہ سمجھیں اور تہذیبوں کے ٹکراؤ کو جنونی، جذباتی مسلمانوں کی ہڑ نہ سمجھیں۔ ایسی شترمرغی دانشوری سے ذلت اور ہلاکت طے ہے۔ کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ یوروپ اورامریکہ کا مذہبی روحانی پیشوا وہی زبان بول رہا ہے جو وہاں کے حکمراں بول رہے ہیں۔ یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اسکے پیچھے اس لعنت زدہ اور مغضوب گروہ کا ہاتھ ہے یا نہیں جو دنیا بھر میں مکروفریب سے مختلف بڑی اقوام کے ٹکراؤ کے ذریعہ آخر میں اپنا جھنڈہ نیل سے فرات تک گاڑنا چاہتا ہے۔ ۱۱/ستمبر ہو یا ۷/جولائی یا مالیگاؤں ہو یا پوپ کے بیان کیا یہ سب ایک جگہ سے کنٹرول ہورہے ہیں؟ ورنہ اشوک سنگھل جو کہ اسی نسل پرست فلسفہ کے پرچارک ہیں اتنی جلدی اسلام۔ عیسائیت کے معرکہ پر خوش نہ ہوتے؟ انہیں شاید یقین ہے کہ ان کے ہم فکر نسل پرست کامیاب ہورہے ہیں۔ اسلئے جوش، ہوش، جذبات، عقل سب کے حکیمانہ امتزاج سے اپنا لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔ جس کی پہلی کڑی یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں دونوں کے سامنے پروپیگنڈہ کے ذریعہ پھیلائے گئے جھوٹ کا پردہ فاش کرنا ہوگا۔ انسانیت کو بتانا ہوگا کہ ماضی میں بھی انسانیت کیلئے کون سی تہذیب مفید رہی اور آئندہ بھی ہوسکتی ہے۔ تاریخ، تجربہ اور دلیل حق کے ساتھ ہے۔ حق ہی غالب رہے گا۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ11، جلد: 90 ‏،شوال المکرم1427 ہجری مطابق نومبر2006ء