حرفِ آغاز

ہندو فسطائیت اور مسلمان

حبیب الرحمن اعظمی

 

سلطنت مغلیہ جو اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ہندوستان کی سیاسی وحدت کی ضامن تھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے اپنے وجود کو محفوظ نہ رکھ سکی جس کے نتیجہ میں اس کے ملبہ پر جدید حکومت کا قصر امارت تعمیر ہوگیا۔اقتدار کی اس منتقلی کو چشم ظاہر بیں نے اگرچہ ایک سیاسی کھیل کی حیثیت سے دیکھاجو سیاسی بازیگر زندگی کی فیلڈ میں کھیلتے رہتے ہیں۔

لیکن ارباب بصیرت اور سیاسی عروج و زوال کے وسیع تر اثرات سے واقفیت رکھنے والے اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ یہ محض سیاسی انقلاب اوراقتدار کا تبادلہ نہیں ہے بلکہ اس کے عوامل نہایت عمیق اوراس کے اثرات بہت دور رس ہیں، یہ انقلاب زندگی کے محور کو بدل کر رکھ دے گا اس کی خودسر موجیں معیشت ومعاشرت، تہذیب وثقافت، افکار و نظریات اور اعمال و اخلاق کی قدیم موروثی قدروں کو بہالے جائیں گی۔ سیاسی انقلاب کی اس شکست و ریخت کو قرآنِ حکیم نے اپنے بلیغ اور معجزانہ اسلوب میں ملکہٴ سبا کی زبانی یوں بیان کیا ہے:

قَالَتْ اِنَّ المُلوکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَةً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْا اَعِزّةَ اَہْلِہَا اَذلَّةً

ملکہ نے کہا بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تواسے خراب کردیتے ہیں اور بنادیتے ہیں اس کے سرداروں کو ذلیل۔

اس انقلاب کے بعد مسلم مفکرین کے سامنے دو راستے تھے ایک یہ کہ وہ حالات کے آگے سپرانداز ہوکر اس سے سمجھوتہ کرلیں اوراسی ڈگر پر چل پڑیں جس پر اس وقت کے حالات انہیں لے جانا چاہتے ہیں چنانچہ ایک مصلحت پسند حالات سے متاثر مفکر قوم کو اسی کی تلقین کرتا ہے:

سدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی                 $           چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

دوسرا راستہ یہ تھا کہ ”زمانہ باتونہ سازد باز مانہ ستیز“ کے جرأت مندانہ فیصلہ پر عمل کرتے ہوئے حالات کا رخ بدلنے کے لیے جہدوعمل کے میدان میں کود پڑیں۔ تاریخ بتارہی ہے کہ ہمارے اسلاف نے اسی دوسرے راستہ کا انتخاب فرمایا۔ سراج الہند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا فتویٰ ”اکنون ہندوستان دارالحرب گشت“ پیش آمدہ حالات سے مقابلہ کا ایک اعلان عام ہی تو تھا، ”دارالحرب تو بظاہر چند لفظوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن جو لوگ اس کی اصطلاحی حقیقت اوراسی کے ساتھ ہندوستان کی علمی، دینی، سماجی اور سیاسی بساط پر خاندان ولی اللّٰہی کے اثرات سے واقف ہیں وہ اس فقرہ کی معنوی وسعت اور گہرائی وگیرائی کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں مجاہد کبیر سید احمد شہید بریلوی کی تحریک دعوت و عزیمت کی بنیاد درحقیقت حضرت شاہ عبدالعزیز قدس سرہ کا یہی فتویٰ تھا۔ شاہ احمد اللہ مدراسی اوران کے رفقاء کے جوشِ جہاد کے پیچھے یہی فتویٰ کام کررہا تھا۔ سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور ان کے اصحاب حجة الاسلام مولانا نانوتوی اور قطب ارشاد مولانا گنگوہی وغیرہ کو اسی فتویٰ نے آمادہ کیا تھا کہ وہ شمشیر بکف شاملی کے میدان میں نکل پڑیں۔ یہی وہ فتویٰ ہے جس کے تقاضوں کوبروئے کار لانے کے لیے دیوبند میں ایک مرکز قائم کیاگیا، جیسے آج دنیا ”دارالعلوم دیوبند“ کے نام سے جانتی پہچانتی ہے۔ یہی وہ فتویٰ ہے جس کے زیراثر حضرت شیخ الہند نے ”ریشمی رومال تحریک“ کی تشکیل و تنظیم فرمائی اور ضعف پیری وکثرت امراض کے باجود اسارتِ مالٹا کی جاں گسل اذیتوں کو مردانہ وار جھیل گئے۔ اسی فتویٰ کی کارفرمائی تھی کہ حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی قدس سرہ نے مدرسہ وخانقاہ کے گوشہائے عافیت سے نکل کر خارزار جنگ حریت کی بادیہ پیمائی کو زندگی کا محبوب مشغلہ بنالیا۔

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں           $           جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

سامراجی طاقت جو ملک عزیز پر اپنا جابرانہ تسلط قائم کرلینے کے بعد یہ منصوبہ بنارہی تھی کہ یہاں کے باشندوں کے دین ومذہب اور تہذیب وکلچر کو بدل کر سب کو اپنے مزاج و مذاق کے سانچے میں ڈھال لے چنانچہ لارڈ میکالے نے ۷/مارچ ۱۸۳۵/ کو تعلیمی کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں وہ صاف لفظوں میں لکھتا ہے:

”ہمیں ایک ایسی جماعت چاہئے جوہم میں اورہماری کروڑوں رعایا کے درمیان ترجمانی کا کام کرے اوریہ ایسی جماعت ہونی چاہئے جو خون و رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی ہو مگر مذاق، رائے، الفاظ اور فکر کے اعتبار سے انگریز ہو“ (علماء حق، ج:۱، ص:۳۹)

زمانہ گواہ اور تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ ہمارے اسلاف اور بزرگوں نے (اللہ کی ان پر ہزار رحمتیں ہوں) اپنی پامردی صبر واستقامت جوش عمل اور جہد مسلسل سے نہ صرف یہ کہ حکومتِ وقت کے منصوبوں کے سارے تار و پود بکھیر کر رکھ دئیے بلکہ چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ ہندوستانیوں کے دین ومذہب کے مٹادینے کا خواب دیکھنے والی ظالم و جارح حکومت اپنی تمام تر طاقت و قوت کے باوجود سرزمین ہند سے حرف غلط کی طرح مٹ گئی۔ اسی طرح اسلاف کے پیہم قربانیوں کی بدولت اس عظیم فتنہ سے جس میں ملت اسلامیہ ہند گھرگئی تھی اور یہ اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ وہ اس فتنہٴ بیکراں سے اپنے دینی ومذہبی امتیازات وتشخصات کو محفوظ نہ رکھ پائے گی نجات ملی (شکر اللّٰہ سعیہم وجزاہم عن المسلمین وعن الاسلام جزاءً حسنا)

آج کل کے حالات بھی کچھ اسی طرح کے ہیں بھارتیہ جنتا پارٹی جس کی بنیاد ہی ہندو احیاء پرستی اور اسلام دشمنی ومسلم بیزاری پر قائم ہے جس کی تمام جہدوسعی اور دوڑ دھوپ ”ہندی، ہندو، ہندوستان“ کے بنیادی فکر وفلسفہ کے گرد گھوم رہی ہے۔ بدقسمتی سے چند سالوں کے لئے ملک کے اقتدار پر قابض ہوگئی تھی۔ اس نے تعلیم کے عنوان سے ایک ایسے انقلاب کی راہ ہموار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا جو مسلمانوں کے نظریات و عقائد کے لیے انتہائی خطرناک و مہلک اور ان کی نوجوان نسل کے ذہنی ارتداد وگمراہی کا باعث ہوسکتا ہے۔

پرائمری اسکولوں میں جن میں مسلمان بچوں کی کثیر تعداد زیر تعلیم رہتی ہے سرکاری طورپر جو ٹائم ٹیبل بھیجا جارہا ہے اس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ بچے تعلیم شروع کرنے سے پہلے ”بھارت ماتا“ کی تصویر پر پھول چڑھائیں گے اور ”وندے ماترم“ کا گیت گائیں گے اسی کے ساتھ رامائین، مہابھارت اور اپنشد کی تعلیم دی جائے گی۔ اب موجودہ حکومت کی وزارت تعلیم بھی قریب قریب اسی راستے کو اپنانے جارہی ہے اگرچہ اس نے چند وجوہ سے اس گیت گانے کو اختیاری قرار دیا ہے لیکن سیکولرنظام کے حامل اس ملک میں اس طرح کے مذہبی گیت کے اجراء میں دراصل وہی برہمنی تہذیب کارفرما ہے جو اپنے علاوہ کسی کو برداشت نہیں کرتی۔

بھارت ماتا یعنی ہندوستان کی جو فرضی تصویر بنائی گئی ہے وہ دراصل ہندو مذہب ”درگا دیوی، کی تصویر ہے اس طرح سرزمین ہند کو درگا دیوی تصور کرکے اس کی عظمت و تعریف کے آگے اسکول کے سارے بچوں کو جھکنے اور اظہار عقیدت ومحبت کے طورپر پھول چڑھانے کا حکم دیا جارہا ہے، جو مسلمانوں کے عقیدہ توحیدکے لحاظ سے کھلا ہوا شرک ہے۔

اسی طرح وندے ماترم کا گیت بھی اسلامی عقائد کے لحاظ سے خالص مشرکانہ گیت ہے اس کے چند بندوں کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔ ہندوستان کو مخاطب کرکے کہاجارہا ہے:

”وندے ماترم“ میں تری وندنا کرتاہوں اے میری ماں یہ اس گیت کا مرکزی مصرعہ ہے اس کے چوتھے بند میں کہاگیا ہے: توہی مرا علم ہے، تو ہی مرا دھرم ہے، توہی میرا باطن ہے، تو ہی میرا مقصد ہے، توہی جسم کے اندر کی جان ہے، توہی بازوؤں کی قوت ہے، دلوں کے اندر تیری ہی حقیقت ہے ایک ایک مندر میں تیری ہی محبوب مورتی ہے، تو ہی درگا دس مسلح ہاتھوں والی، توہی کملا ہے کنول کے پھولوں کی بہار، توہی پانی ہے علم سے بہرہ ور کرنے والی، میں تیرا غلام ہوں، غلام کا غلام ہوں، غلام کے غلام کا غلام ہوں، اچھے پانی، اچھے پھلوں والی میری ماں میں تیرا بندہ ہوں۔“

چھٹے بند میں یہ کہاگیا ہے:

”لہلہاتے کھیتوں والی مقدس موہنی آراستہ پیراستہ، قدرت والی قائم و دائم ماں میں تیرا بندہ ہوں۔ اپنے وطن سے ہزار محبت کے باوجود ایک سچا پکا مسلمان اسے معبود اور خدا مان کر اس کی بندگی اور پوجا کبھی نہیں کرسکتا، لیکن موجودہ حکومت کا وزارت تعلیم ہند واحیاء پرستی کے نشہ میں اس قدر سرمست ہے کہ اسے نہ دستور ہند کا پاس ولحاظ ہے، نہ قانون وانصاف کی پرواہ اور نہ ہی ملک کے سیکولر روایات کا خیال وہ تو بس اس دھن میں ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو ہندویت میں جذب کرلے۔

ان حالات میں ہمارے سامنے بھی وہی دوراستے ہیں ایک یہ کہ ہم حالات کے سامنے سرتسلیم خم کردیں اورحکومت وقت جس سمت ہمیں لے جانا چاہتی ہے بغیر کسی مزاحمت کے ہم اسی رخ پر چل پڑیں بالفاظ دیگر اپنے دین و عقیدہ ، تہذیب و کلچر کو ترک کرکے ہندویت میں جذب ہوجائیں۔ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان اپنا سب کچھ قربان کرسکتا ہے۔ لیکن اپنے دین ومذہب کو قربان کردے یہ نہ کبھی ہوا ہے، اورنہ آج ہوسکتا ہے۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ اپنے دین، اپنی تہذیب اوراپنی ملی ایک ایک روایات کی حفاظت و بقاء کے لیے اپنے اکابر واسلاف کے اسوہ کے مطابق استقامت و پامردی اور ہمت و جرأت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں۔

بطور خاص حضرات علماء اور ملک کے دانشوروں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ملت کی کشتی کس سمت لے جائیں گے۔ کیونکہ خودرائی وخودپسندی کے اس دور میں بھی ملت کی زمام قیادت انھیں کے ہاتھوں میں ہے اور انھیں کے سامنے حضرات اکابر کے جہدوعمل کی مکمل تاریخ ہے اس لیے شدید ضرورت ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور وقت کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایثار و قربانی کی تاریخ کو پھر سے زندہ کریں۔

یہ مصرع کاش نقشِ ہر درو دیوار ہوجائے جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہوجائے۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد: 90 ‏،ذیقعدہ 1427 ہجری مطابق دسمبر2006ء