قسط ۲

حاملین علم کا مقام اور ذمہ داریاں

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

از:(مفتی) حارث عبدالرحیم فاروقی‏، استاذِ اَدب، نورالعلوم بہرائچ

 

عالم کے عوام سے روابط

عالم دین کو اپنا علمی وقار ہر حال میں محفوظ رکھنا چاہئے، کوئی ایسی حرکت جس سے اس کے علم پر داغ آئے یا اس کے علمی وقار کے خلاف ہو، اس کیلئے مناسب نہیں عوام الناس سے بے مقصد کے روابط رکھنا ٹھیک نہیں ہے اور عالم کے پیش نظر ہمیشہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان رہنا چاہئے ”نِعْمَ الرجُلُ الفَقِیْہُ فِی الدِّین اِنْ احتیجَ الیہ نَفَعَ وان استُغْنِیَ عَنْہُ اَغْنٰی نَفْسَہُ“ (۲۹) کیا ہی بہتر ہے دین میں بصیرت رکھنے والا وہ شخص کہ جس کے پاس اگر کوئی ضرورت لائی جائے تواس کو پورا کرتا ہے اوراگراس سے بے پرواہی برتی جائے تو وہ بے نیاز ہوجاتا ہے۔اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ اولاً تو عالم کا عوام الناس سے بے سود میل ملاپ رکھنا ٹھیک نہیں ہے اور ان کے ساتھ ہمہ وقت لگے رہنا فضول ہے البتہ اگر کوئی اپنی کسی دینی ضرورت سے اس کے پاس آئے تو اس کے پورا کرنے میں دریغ نہ کرنا چاہئے اور حتی المقدور اس کی رہنمائی کرنی چاہئے، اسی کے ساتھ اس کی بھی تاکید کرو کہ اگر دنیا والے عالم سے کنارہ کشی اختیار کریں تو محض ان کے مال و جاہ سے متأثر ہوکر ان کے پاس حاضری نہ دے، بلکہ ان سے کنارہ کش ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت نیز درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں اپنا بیشتر وقت گزارے۔

عالم کی دنیا والوں کے دربار میں آمد ورفت

عالم کو کسب معاش تو کرنا چاہئے لیکن جس طرح ایک دنیادار اپنے اوپر دنیا کو طاری کرلیتا ہے اور ہمہ وقت دنیا داری میں مصروف رہتا ہے اور ہر کام میں اس کے پیش نظر یہ بات رہتی ہے کہ جس میں چار پیسہ کا نفع ہو وہ کام کرو۔ اگر عالم بھی اسی دنیا کے پیچھے بھاگے تو یہ چیز اس کے منصب جلیل سے میل نہیں کھاتی ہے، اپنی دنیا بنانے اور دنیوی اشیاء کے حصول کیلئے مالداروں کی طرف رخ کرنا یہ اپنی مٹی خود پلید کرنا ہے اور آج جو علماء کی ذلت و رسوائی کی بنیادی وجوہات ہیں ان میں ایک بہت بڑی وجہ علماء کا مالداروں سے دنیاوی اغراض کی بناء پر رابطہ رکھنا بھی ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پہلے فرمایا تھا علماء اگر علم کی حفاظت کرتے اور جو شخص اس کا اہل ہوتا اس کو علم سکھاتے تو وہ علم کی وجہ سے اپنے زمانہ کے سردار بنے رہتے، لیکن انھوں نے جب علم کو اہل دنیاء پر صرف کیا اور مقصد یہ بنایا کہ انکی دنیا میں سے کچھ حاصل کرلیں تو وہ دنیا والوں کی نظر میں بے وقعت ہوگئے آگے آپ نے فرمایا: ”مَنْ جَعَلَ الہُمُوْمَ ہَمًّا واحِدًا ہَمَّ آخِرَتِہ کفاہُ اللّٰہُ ہَمَّ دُنیَاہُ وَمَنْ تَشَبَّعَتْ بہ الہُمومُ اَحْوَالَ الدنْیَا لم یُبَالِ اللّٰہُ فیْ اَیْ اَودِیتِہَا“(۳۰) جس شخص نے تمام فکروں کو چھوڑ کر آخرت کی فکر کی تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیاوی تمام فکروں کیلئے کافی ہوجاتا ہے اور جو شخص دنیاوی حالات کی فکر میں گھرا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ وہ دنیا کے کسی بھی جنگل میں ہلاک ہوجائے۔ معلوم ہوا کہ جو عالم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق زندگی گزارے گا وہ سرداروں کی طرح دنیا میں رہے گا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ سے انحراف کرکے زندگی گزارے گا تو وہ ذلیل ہوجائے گا۔ ایسے عالم کی نہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو ذرّہ برابر اس کی فکر ہے۔ آج بھی اگر صاحبان علم دنیاداروں کے چکر لگانا بند کرکے صرف اللہ سے لو لگالیں اور فقط فکر آخرت ان کے پیش نظر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ آج بھی ان کی ساری پریشانیوں کیلئے کافی ہوجائیں گے اور یہ حضرات سراٹھاکر جینے والے بن جائیں گے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو علماء میں شمار ہوتے ہیں، لیکن وہ دنیاداروں کے ساتھ کثرت سے اختلاط رکھتے ہیں جسکے نتیجہ میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ دنیا ان پر حاوی ہوجاتی ہے اور ان کا علم غیرمحسوس طریقہ سے رخصت ہوجاتا ہے اور وہ یہی سمجھا کرتے ہیں کہ دنیا والوں کے پاس ہمارے آنے جانے سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے وجود کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے کتنے ہی لوگ دین میں سمجھ حاصل کریں گے وہ قرآن پڑھنے کے ساتھ دنیا داروں کے پاس آمد و رفت بھی رکھیں گے، اور لوگوں سے یہ کہیں گے ان حکمرانوں اور مالداروں کے پاس جانے کی وجہ سے ہمارے علم میں کوئی کمی نہیں آتی ہے اور نہ ہمارے دین پر کوئی آنچ آتی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔ دنیا داروں کا اثر ان پر ضرور پڑیگا۔ پھر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کَمَا لاَ یُجْتنٰی مَنِ القَتَاد الاَّ الشّوکُ کذالِک لا یُجتنٰی مِنْ قُربِہِمْ“ (۳۱) جیسا کہ خاردار درخت سے کانٹے کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا، اسی طرح دنیاداروں کے قرب سے بھی سوائے گناہوں کے کچھ نہیں حاصل ہوگا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہوں کی صراحت نہیں فرمائی ہے، لیکن محدثین نے اس کی تعیین فرمائی ہے لہٰذا عالم کو اپنے مرتبہ کے بقاء اور اپنے دین کی حفاظت کی خاطر مالداروں کے چکر نہ کاٹنا چاہئے۔

حسن اخلاق عالم کا شیوہ ہے

عالم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھے اخلاق کا حامل ہو درشت اور کھردری طبیعت کا عالم بے فیض ہوکر رہ جاتا ہے، بے نیازی الگ چیز ہے، حسن اخلاق و نرم خوئی دوسری چیز ہے، دونوں میں کوئی تضاد نہیں، لہٰذا دونوں خصلتوں کا کسی میں ہونا ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا: ”فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہم ولو کُنْتَ فضًّا غَلِیْظَ القَلْبِ لانْفَضّوا مِنْ حَوْلِک“(۳۲) اس آیت سے ضمناً یہ بات معلوم ہوئی کہ عالم دین اگر اخلاقِ حسنہ سے متصف نہیں ہے تو لوگ اسکی سخت مزاجی اور خشونت سے تنگ آکر اس کے پاس آمد و رفت بند کردیں گے اور اس سے لوگوں کا فائدہ پہنچنے کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا ”خصْلَتَانِ لا تَجْتمِعَانِ فِی مُنَافِقٍ حُسْنُ سَمْتٍ ولا فِقْہٌ فِی الدِّینِ“(۳۳) منافق میں دو خصلتیں جمع نہیں ہوتیں: (۱) اچھے اخلاق، (۲) دین میں سمجھ۔ منافق میں یہ دونوں خوبیاں ساتھ میں جمع نہیں ہوتیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کیلئے عموماً ان دونوں خصلتوں کا اپنے اندر جمع کرنا ضروری ہے اور عالم دین جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک صفت تفقہ فی الدین عطا فرمادی ہے اس کیلئے تو خاص طور پر ضروری ہے کہ وہ دوسری صفت، یعنی اخلاق حسنہ کو بھی اپنے اندر جمع کرے تاکہ وہ سچا پکا مسلمان بن جائے اور منافق ہونے کے امکان سے نکل جائے۔

تقویٰ عالم کیلئے لازم ہے

عالم دین کی ذرا ذرا سی عبادت کی اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت قدر ہے؛ لہٰذا عالم کو عبادت سے غفلت نہ برتنا چاہئے؛ بلکہ جو بھی فرائض وواجبات ہیں ان کی ادائیگی میں رتّی برابر کوتاہی اپنے لئے حرام سمجھنا چاہئے۔ ہر وقت یہ خیال رہے کہ اس کا عمل خلاف تقوی نہ ہونے پائے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فَضْلٌ فِی علْمٍ خیر مِنْ فَضْلٍ فِی عبادةٍ وملاک الدِّین الورع“ (۳۴) علم میں زیادتی عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے اور دین کی جڑ پرہیز گاری اختیار کرنا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ عالم کو علوم دینیہ کی تحصیل اوراس کے نشرواشاعت میں زیادہ وقت صرف کرنا چاہئے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے ”تقویٰ اختیار کرنا دین کی جڑ ہے“ اگرجڑ میں کسی قسم کی خرابی آئی تو درخت سوکھ جاتا ہے اسی طرح عالم اگر تقویٰ کے مطابق زندگی نہیں گزارتا ہے تواس کے تمام اعمال بے جان نظر آتے ہیں جو عالم اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا ہے اس کیلئے بہت سخت وعیدیں آئی ہیں۔ ایک موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان من شر الناسِ عند اللّٰہِ منزلَہً یَوْمَ القیامة عالِمٌ لا یَنتفعُ بعلْمہ “(۳۵) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین شخص وہ عالم ہے جس نے اپنے علم سے فائدہ حاصل نہیں کیا۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے علم حاصل کیا لیکن اس کے مطابق عمل نہیں کیا تو ایسا عالم اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت برا ہے اور یہ عالم جاہل سے بھی بدتر ہے اس کو جاہل سے زیادہ سخت عذاب کا سامنا ہوگا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جاہل کے لئے ایک مرتبہ ”ویل ہے“ اور عالم کیلئے ۷ مرتبہ ”ویل ہے“(۳۶) ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان شرَّ الشرِّ شرار العلماء وان خیر الخیر خیار العلماء“(۳۷) بروں میں سب سے برے علماء ہیں اور بھلوں میں سب سے بھلے علماء ہیں۔ جس طرح اچھے علماء کی وجہ سے دوسرے بہت سے لوگ سدھرتے ہیں اسی طرح برے علماء کی وجہ سے بہت سے بگڑتے ہیں ۔ لہٰذا جو علماء لوگوں کے خراب ہونے کا سبب بنیں گے وہ مبغوض ترین لوگ ہوں گے۔ اسی وجہ سے ہر صاحب علم کو اپنے علم پر عمل کرنے میں ذرّہ برابر غفلت نہ برتنا چاہئے۔ اور ہر کام تقوی کے مطابق کرنا چاہئے۔

وعظ و نصیحت علماء کا فریضہ ہے

علماء کرام کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ مناسب اوقات میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہا کریں لوگوں کو دینی باتیں بتائیں برائیوں سے اجتناب کرنے کا داعیہ پیدا کریں اور وعظ و نصیحت کرنے میں سامعین کی رعایت رکھیں، طویل ترین اور بے مصرف کی موشگافیوں سے اجتناب کریں، وعظ و نصیحت کا مقصد امت کو مستفید کرنا ہو اپنی لچھے دار تقریر کے ذریعہ لوگوں پر اپنے فضل و کمال کی دھاگ بٹھاکر دادِ تحسین حاصل کرنا مقصود نہ ہو، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بہت بڑے فقیہ صحابی ”عبداللہ ابن مسعود“ ہر ہفتہ وعظ و نصیحت فرماتے تھے، ایک شخص نے ان سے درخواست کی کہ آپ ہر روز ہم کو نصیحت فرمایا کریں تو صحابی رسول ”عبداللہ ابن مسعود“ نے جواب دیا ”امَّا اَنَّہُ یمنَعْنِیْ مِن ذلک انی اکرہُ ان اُمِلَّکُمْ وانی اَتَخوَّلَکم بالموعِظَةِ کما کانَ رسولُ اللّہِ صلی اللّہ علیہ وسلَّمَ یَتخولنا بِہَا مُخافةَ السآمةَ عَلَیْنَا“(۳۸) تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس سلسلہ میں جو چیزیں میرے لئے مانع ہیں وہ یہ ہیں کہ ہر روز کے بیان سے تم لوگوں کو تنگی اور اکتاہٹ میں ڈالنا مجھے پسند نہیں ہے، میں نصیحت کے ذریعہ تمہاری اس طرح حفاظت کرتا ہوں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنگی و اکتاہٹ کے خدشہ کا خیال رکھتے ہوئے ہماری حفاظت فرماتے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ”عبداللہ ابن مسعود“ سے روزانہ تقریر کیلئے کہاگیا لیکن انھوں نے منع فرمادیا اور یہ بتادیا کہ حضرات صحابہ میں حضور کی بات سننے کا بہت شوق و جذبہ تھا، لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم و تذکیر، وعظ و نصیحت میں حضرات صحابہ کے نشاط و فراغت کا پورا خیال رکھا، حضرت عبداللہ ابن مسعود کے معمول اور ان کی نصیحت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علماء کیلئے وعظ و نصیحت کرنا اوراس کو ایک دائرہ میں رکھنا لازمی و لابدی شے ہے۔ وعظ کرنے والوں کو حضرت عبداللہ ابن عباس کی ان نصیحتوں کو بھی ذہن میں تازہ رکھنا چاہئے جو انھوں نے ایک موقعہ پر واعظین کو کی ہیں: ایک نصیحت تو یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک یا دو اور زیادہ سے زیادہ تین بار تقریر کرنا چاہئے اس سے زیادہ مرتبہ تقریر کرنا سامعین کو اکتانے والا فعل ثابت ہوگا، دوسری نصیحت یہ ہے کہ جب لوگ اپنی بات ختم کرچکیں، تو تقریر شروع کرنا چاہئے لوگوں کے گفتگو کے دوران تقریر کرنا اپنی بات کو بے اثر بنانا اور سامعین کو اذیت پہنچانا ہے۔ تیسری نصیحت یہ ہے کہ دعاء میں قافیہ بند الفاظ کا بہ تکلف استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہے اس سے گریز کرنا چاہئے۔(۳۹)

علمی مجالس کا اہتمام

علماء کا ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ وقتاً فوقتاً علمی واصلاحی مجالس کا انعقاد کریں اس میں لوگ اپنے پیش آمدہ مسائل پر علماء سے تبادلہٴ خیال کریں، ایسی مجلسیں بہت خیر کی ہوتی ہیں اوران مجلسوں میں شرکت بہت سعادت کی چیز ہے۔ ایک دن آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں دو مجلسوں پر گزرے، تو فرمایا کہ یہ دونوں مجلسیں بھلائی پر ہیں، لیکن ان میں سے ایک مجلس نیکی و سعادت میں دوسری مجلس سے افضل ہے، ان میں سے ایک مجلس کے لوگ دعا و عبادت میں لگے ہوئے تھے اور دوسری مجلس کے لوگ علمی باتوں میں مشغول تھے، ایک دوسرے سے دینی باتیں دریافت کرکے سیکھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوسری مجلس کو افضل قرار دیا، اور اس مجلس کے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ”امَّا ہٰوٴلاءِ فیتعَلَّمونَ الفقہَ اوالعلْمَ ویعلِّمونَ الجاہِلَ فہُمْ اَفْضَلُ وانَّمَا بعِثْتُ معلِّمًا ثُمَّ جَلَسَ فیہِمْ“(۴۰) اس مجلس کے لوگ فقہ سیکھ رہے ہیں یا یہ فرمایا کہ علم سیکھ رہے ہیں اورجاہلوں کو تعلیم دے رہے ہیں پس یہ لوگ ان لوگوں سے افضل ہیں اور یہ سچائی ہے کہ میں معلّم ہی بناکر بھیجا گیاہوں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انھیں لوگوں کی مجلس میں بیٹھ گئے، تعلیمی مجلس کی فضیلت کیلئے اس سے بڑی اور کون سی بات ہوگی کہ اس مجلس میں خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس شریک ہوئے ہیں؛ لہٰذا علماء کرام کو اس ترک شدہ سنت کو زندہ کرنے کی فکر کرنا چاہئے اور ایسی مجلسوں کے قیام کیلئے فضا سازگار بنانا چاہئے۔

فتویٰ میں احتیاط

فتویٰ دینا بھی علماء ہی کی ذمہ داری ہے؛ لیکن فتویٰ دینے میں عجلت سے کام نہ لینا چاہئے، جلدبازی میں فتویٰ دینے کی وجہ سے فتویٰ میں غلطی کا امکان قوی ہے، اگر کسی سے فتویٰ میں غلطی واقع ہوئی، تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَنْ أُفْتِیَ بغیر علْمٍ کانَ اثمہُ عَلیٰ مَنْ اَفْتَاہُ (۴۰) جس شخص کو غلط فتویٰ دیاگیا ہوگا تو اس کا گناہ غلط فتویٰ دینے والے کو ملے گا، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا حاصل یہ ہے کہ علماء کو فتویٰ دیتے وقت اپنی پوری محنت صرف کرکے پوچھے گئے مسئلہ کا شرعی حل بتانا چاہئے، اگر اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد کوئی غلطی ہوئی تو اس پر مواخذہ نہیں ہوگا۔

مصادر و مراجع میں احتیاط

علماء و طلباء کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ جن کتابوں اور مصادر و مراجع سے علم حاصل کررہے ہیں ان کے معتبر ہونے کی تحقیق ضرور کرلیں، اس طرح جن اساتذہ سے علم حاصل کرنا ہے حصول علم سے پہلے مثبت انداز میں ان اساتذہ کے اخلاق و کردار سے متعلق معلومات حاصل کرلینا بہت بہترہے، اگر کسی کی سرکشی اور دین بے زاری معروف و مشہور ہے، تواس سے قطعی علم حاصل نہ کرنا چاہئے، حضرت ابن سیرین کا قول ہے: ”انّ ہذا العلم دِینٌ فانظُرْوا عمّنْ تاخذونَ دینکُمْ“(۴۱) یقینا یہ علم دین ہے، لہٰذا جس سے حاصل کررہے ہو اس کو خوب دیکھ بھال لو۔

عدم علم کا اظہار باعث شرم نہیں ہے

کسی عالم سے کوئی بات دریافت کی گئی اوراس کو وہ بات معلوم نہیں ہے تو غلط سلط جواب دینے کے بجائے ”اللہ اعلم“ اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جاننے والا ہے، کہنا چاہئے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”مَنْ عَلِمَ شَیئًا فَلْیَقُلْ بِہ ومن لَمْ یعلم فَلْیقُلْ“، ”اللہ اَعْلَمُ“ فَاِن الْعِلمَ ان تَقُولَ لِما لاَ تَعْلَمُ اللّٰہُ اعْلَمُ“(۴۲) جو شخص کسی چیز کے بارے میں جانتا ہے تو اس کو بیان کرنا چاہئے اور جس چیز کا اس کو علم نہیں ہے تو اس کے متعلق کہنا چاہئے کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتے ہیں کیونکہ جس کے بارے میں علم نہ ہو اس کے متعلق یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والا ہے یہ بھی علم کی ایک قسم ہے، کیونکہ جب انسان اللہ اعلم کہیں گے تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی ہے کہ اس کے اندر معلوم اور غیر معلوم کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت ہے اور یہ صلاحیت بھی علم کی ایک قسم ہے۔

نسیان سے علم کی حفاظت

گذشتہ اوراق میں غیر مرتب انداز میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جو چند فرامین نقل کئے گئے ہیں ان پر عمل کرنے سے علم نافع حاصل ہوجائے گا، لیکن حصول علم کے ساتھ اس کی حفاظت بھی عالم ہی کی ذمہ داری ہے عالم کیلئے ضروری ہے کہ علم کی نگہداشت رکھے تاکہ نسیان کی مصیبت سے محفوظ رہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”آفَةُ العلم النسیانُ“(۴۳) علم کی آفت نسیان ہے یعنی حصول علم کے بعد اس کا بھولنا آفت ہے۔ حصول علم سے پہلے تو بے شمار آفات علم کی راہ میں حائل رہتی ہیں اسی وجہ سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لِکل شیٴ آفة وللعلم آفات“ ہر چیز کیلئے ایک آفت ہے اور علم کے لئے بہت سی آفتیں ہیں، لیکن یہ سب آفتیں حصول علم سے پہلے کی ہیں حصول علم کے بعد صرف ایک آفت نسیان ہے اس سے عالم کو بہت محتاط رہنا چاہئے۔ ”ابن حجر“ اس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ انسان کو نسیان کے اسباب سے اجتناب کرنا چاہئے اور یہی وہ بات ہے جس کو امام شافعی نے شعر میں یوں بیان کیا ہے۔

شکوتُ الی وکیع سوء حفظی                   فاوصانی الی ترک المعاصی

فان العلم نور من اِلٰہِ                              ونور اللّٰہِ لا یعطیٰ لعاصِی

میں نے اپنے استاذ وکیع سے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی تو انھوں نے مجھے ترک معاصی کی نصیحت کی ”فرمایا“ علم درحقیقت اللہ کا نور ہے اور یہ نور کسی گنہ گار کو عطا نہیں ہوتا۔ امام بخاری سے جب مرض نسیان کا علاج دریافت کیاگیا تو آپ نے دریافت فرمایا جب کتب بینی زیادہ ہوگی مطالعہ کا کثرت سے اہتمام ہوگا تو نسیان کا مرض طاری نہیں ہوگا اور قوت حافظہ میں نمایاں اضافہ ہوگا۔

حضرت حذیفہ کی نصیحت

حضرت حذیفہ نے ان صحابہ کو جو اسلام کے آغاز میں مشرف باسلام ہوگئے تھے، نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: استقیموا فَقَدْ سبقتم سَبْقًا بعیدًا وان اخذتم یمینا و شمَالاً لقد ضَلَلْتم ضلالاً بعیدًا“(۴۴) تم لوگ استقامت اختیار کرو درحقیقت تم نے سبقت حاصل کرلی بہت دور کی سبقت اگر تم دائیں بائیں لڑوگے تو بہت دور کی گمراہی میں جاپڑوگے۔ حضرت حذیفہ نے یہ وصیت ان صحابہ کو کی تھی جن کے پاس شروع دور میں ایمان لانے کا اعزاز تھا، لیکن یہ نصیحت انھیں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص کیلئے ہے جس کو کوئی بھی دینی اعزاز میسر آگیا ہو اس دور میں سب سے بڑا اعزاز اللہ تعالیٰ کی جانب سے دین کی فہم عطا ہونا ہے۔ لہٰذا ہر دین کے طالب علم اور دین سے وابستہ انسان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کو ایک بہت بڑا اعزاز مل گیا ہے اس کی حفاظت کی صورت یہی ہے کہ استقامت اختیار کرلی جائے۔

تتمہ کلام

آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جو چند فرامین پیش کئے گئے ہیں ان سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علم بہت اہم اور عالی چیز ہے اور یہ حقیقت ہے کہ علم، دین کا ہی علم ہے، جو لوگ علم دین میں لگتے ہیں اس کو حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں اس کی نشرواشاعت میں محنت و مشقت برداشت کرتے ہیں ان کیلئے دنیا میں سربلندی و سرداری ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی بہت معزز اور اعلیٰ مقام ہے لیکن ان کی عزت و تکریم اور ان کا مقام و مرتبہ جب ہی ہے جب وہ علم کے ساتھ علم کے تقاضوں کو بھی پورا کریں۔

اب جس کے جی میں آئے وہ پائے روشنی

ہم  نے  تو  دل  جلا  کے سرِ عا م رکھ دیا

$ $ $

حوالہ جات

(۱)         ترمذی ، ج:۲، ص:۹۸۔                                                             (۲)                  مرقات، ج:۱، ص: ۲۸۵۔

(۳)        ترمذی، ج:۲، ص: ۹۴۔                                                            (۴)                 بخاری شریف، ج:۱، ص: ۱۶۔

(۵)        عمدة القاری حدیث: ۷۱، ذیل میں ج:۱                                        (۶)                  مسلم شریف، ج:۲، ص: ۳۰۷۔

(۷)        بخاری شریف، ج:۲، ص: ۱۷۔                                                  (۸)                 بخاری شریف، ج:۲، ص: ۲۰۔

(۹)         ابن ماجہ، ص:۲۰۔                                                                     (۱۰)                ترمذی، ج:۲، ص: ۹۸۔

(۱۱)        ترمذی، ج:۲، ص: ۹۷۔                                                            (۱۲)                ترمذی، ج:۲، ص: ۹۸۔

(۱۳)      مرقات، ج:۱، ص: ۲۸۱۔                                                         (۱۴)                بذل المجہود، ج:۴، ص: ۳۲۳۔

(۱۵)      مشکوة شریف                                                                            (۱۶)                ابوداؤد، ج:۲، ص: ۱۵۷۔

(۱۷)      مسلم، ج:۲، ص: ۱۴۰۔                                                            (۱۸)                ترمذی، ج:۲، ص: ۶۵

(۱۹)       نووی علی مسلم، ج:۲، ص: ۱۴۰۔                                               (۲۰)               ابوداؤد شریف، ج:۲، ص:۱۵۹۔

(۲۱)       ترمذی، ج:۲، ص: ۹۸۔                                                            (۲۲)               مشکوة شریف، ص: ۳۴۔

(۲۳)     ترمذی، ج:۲، ص: ۹۴۔                                                            (۲۴)               ابن ماجہ، ص: ۳۰۔

(۲۵)     ترمذی، ج:۲، ص: ۹۵۔                                                            (۲۶)               مشکوة ، ص: ۳۶۔

(۲۷)     مشکوة ، ص: ۳۵۔                                                                     (۲۸)               مشکوة ، ص: ۳۵۔

(۲۹)      مشکوة ، ص: ۳۶۔                                                                      (۳۰)               ابن ماجہ ، ص: ۲۳۔

(۳۱)      ابن ماجہ، ص: ۲۳۔                                                                   (۳۲)               القرآن۔

(۳۳)     ترمذی، ج:۲، ص: ۹۸۔                                                            (۳۴)              مشکوة، ص:۳۶۔

(۳۵)     دارمی، ص:۹۴۰۹۳ مقدمہ                                                        (۳۶)               مرقات، ج:۲، ص: ۳۱۲۔

(۳۷)     مشکوٰة ،ص:۳۵۔                                                                       (۳۸)              مسلم شریف، ج:۲، ص: ۳۷۷۔

(۳۹)      بخاری شریف، ج:۲، ص: ۹۳۸                                                 (۴۰)               ابوداؤد، ج:۲، ص: ۱۵۹۔

(۴۱)      مسلم شریف، ج:۱، ص: ۱۱ مقدمہ                                              (۴۲)               بخاری شریف، ج:۲، ص: ۷۱۰۔

(۴۳)     ج:۱، ص: ۱۵۸ مقدمہ                                                              (۴۴)              بخاری شریف، ج:۲، ص: ۱۰۸۱۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد: 89 ‏، ربیع الاول ‏، ربیع الثانی1426ہجری مطابق مئی 2005ء