ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے تفسیری کیسٹوں میں

لفظ جہاد کا بے محل استعمال

از:مولانا اخلاق حسین قاسمی دہلوی

 

پاکستان کے مشہور مترجم قرآن ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اپنے تفسیری کیسٹوں میں اپنے ذاتی تحقیقی اجتہادات اور خودساختہ فلسفیانہ عقلی نکتوں سے کام لے کر تفسیر قرآن کو جمہور اہل تفسیر کے مفہوم و مطلب کے دائرہ سے دور لے جانے کی جو کوشش کرتے ہیں اور اس عقلی جدت کو موصوف قرآن کریم کی تفسیر کا اونچا فہم و فکر قرار دیتے ہیں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب تاریخ نبوت اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک کے مکی دور (تیرہ سالہ عہد) کے بارے میں یہ فرماتے ہیں اور اپنی کتابوں میں یہ تحریر کرتے ہیں کہ تیرہ سالہ مکی دور جہاد کا دور ہے اور مدنی دور جو غزوہ بدر سے شروع ہوتا ہے وہ دور قتال ہے، یعنی غزوات رسول کا دور قتل و قتال کا دور ہے۔

ڈاکٹر صاحب اپنی اس خودساختہ تشریح میں جہاد کے لفظ کو اس کے لغوی مفہوم (جدوجہد) میں لیتے ہیں اور اپنی تشریح کو اعتراض سے بچانے کے لیے یہ تاویل کرتے ہیں کہ جہاد کا لفظ اپنے شرعی اصطلاحی مفہوم میں نہیں ہے بلکہ لغوی مفہوم میں ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو اس بات پر اصرار کیوں ہے کہ وہ تیرہ سالہ مکی دور کے لیے دور جہاد کی تعبیر اختیار کریں، جبکہ قرآن کریم اس دور کے لیے جو الفاظ استعمال کرتا ہے وہ حسب ذیل ہیں :

انذار ، تنذیر،تبلیغ و دعوت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، شہادة علی الناس، اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی انہی الفاظ کی صفات اختیار کرتا ہے۔

قرآن کریم نے مدنی دور کے لیے مدنی سورتوں میں جہاد کا استعمال شروع کیا ہے، اب اس کی تفصیل ملاحظہ ہو:

انذار و تنذیر!

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ دین کا پہلا حکم دیاگیا اور سورہ مدثر نازل ہوئی: یا ایہا المدثر قم فانذر (مدثر)

اے چادر پوش! کھڑے ہوجاؤ اور لوگوں کو خبردار کرو، ڈراؤ، اور اپنے پروردگار کی بڑائی اور عظمت کا اظہار و اعلان کرو۔

اس کے بعد خاص طور پر اپنے خاندان قریش کو توحید کا پیغام پہنچانے کا حکم دیاگیااور یہی لفظ انذار استعمال کیاگیا۔

وانذر عشیرتک الاقربین (شعراء:۲۱۴)

اے رسول ! تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کرو اور ڈراؤ۔

سورہ احقاف (۳۱) میں بھی اسی صفت کے ساتھ حضور کی اتباع کرنے کا حکم دیاگیا، کہا گیا:

 اجیبوا داعی اللہ لوگو! خدا کی طرف بلانے والے کی پکار کو سنو اور اسے قبول کرو۔

امر بالمعروف !

قرآن کریم میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اصطلاحیں کثرت کے ساتھ استعمال کی گئیں۔

کسی جگہ امت توحید کو مخاطب کیاگیا اور کہیں حضور علیہ السلام کو مخاطب کیاگیا اور کسی جگہ امر بالمعروف کو اس امت کی صفت کے طورپر بیان کیاگیا۔

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف و ینہون عن المنکر (آل عمران:۱۹۴)

مسلمانو! تم میں ایک جماعت اس فرض دعوت کی ادائیگی کے لیے مخصوص رہنی چاہیے جو امربالمعروف کرے اور نہی عن المنکر کرے۔

اس جگہ دعوت الی الخیر کی تشریح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دونوں باتوں سے کی گئی اور یہ بتایا گیا کہ دعوت الی الخیر میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ان دونوں باتوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ان کے اثر کو کمزور کرنا ہے۔ جیسا کہ

سورہ توبہ میں بطور صفت کہاگیا:

الآمرون بالمعروف والتابعون عن المنکر (توبہ:۱۱۲)

یہ بندگان خاص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے ہیں اور حدود شریعت کی پاسبانی کرنے والے ہیں۔

حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی اس میں بھی امر بالمعروف کی تعبیر اختیار کی گئی۔ (لقمان:۱۷)

دو مقام پر جہاد کا لفظ ہے:

مکی سورتوں میں دو جگہ قرآن نے جہاد کا لفظ لغوی مفہوم (جدوجہد) میں استعمال کیا ہے اور دونوں جگہ امام المفسرین شاہ عبدالقادر صاحب اور ان کے بھائی شاہ رفیع الدین صاحب نے جہاد کے لفظ کا لغوی ترجمہ کیا ہے۔

پہلی آیت سورہ فرقان کی ہے، سورہ فرقان مکی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صفاء پہاڑی پر کھڑے ہوکر عرب کے قدیم طریقہ کے مطابق اعلان کیا:

انا النذیر العریان

لوگو! میں کھلا خبردار کرنے والا ہوں، میری بات سنو!

کسی بڑے خطرہ سے ہوشیار کرنے کے لیے اپنے جسم سے کپڑے اتار کر اعلان کرنے والا اعلان کرتاتھا اور لوگ اس غیر معمولی حالت کو دیکھ کر اس کے اعلان پر توجہ دیتے تھے، یہ طریقہ کسی دشمن کے حملہ کے خطرہ سے آگاہ کرتا تھا۔

تبلیغ عام کا حکم:

اس خاص دعوت کے بعد پھر دعوت عام کا حکم نازل ہوا اور کہا گیا:

یا ایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک (مائدہ:۶۷)

اے رسول ! جو پیغام (توحید و نبوة) تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کیاگیا ہے اسے عام لوگوں تک پہنچاؤ۔

دعوت الی اللہ کا حکم:

سورہ نحل مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، اس سورہ میں دعوت الی اللہ کا لفظ استعمال کرکے دعوت الی اللہ کے آداب واضح کئے گئے اور فرمایا:

ادع الی سبیل ربک بالحکمت والموعظة الحسنة وجادلہم بالتی ہی احسن (نحل:۱۲۵)

اے رسول ! تم اپنے پروردگار کی راہ حق کی طرف لوگوں کو بلاؤ اور اس میں حکمت و دانش اور بااثر وعظ و نصیحت اور نہایت سنجیدہ بحث و مباحثہ کی پابندی کرو۔

سورہ احزاب (۴۶) میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت کی صفت سے موصوف کرکے داعی الی اللہ کے خطاب سے نوازا گیا۔

انا ارسلناک شاہدا و مبشرا و نذیرا و داعیا الی اللّٰہ و سراجا منیرا

ہم نے اے رسول محترم! تم کو دین حق کی گواہی (قولی اور عملی) دینے والا، خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا اور دعوت حق دینے والا بناکر بھیجا ہے اور آپ ایک روشن چراغ ہیں ان تمام صفات کے اندر۔

وجاہدہم بہ جہادا کبیرا(۵۲)

اور مقابلہ کر ان کا اس (قرآن) کے ساتھ بڑے زور سے۔

شاہ صاحب (شاہ عبدالقادر) بلاغت کی ایک قسم یعنی تنوع معانی اور مفہوم میں رنگا رنگی پیدا کرنے کے امام ہیں چنانچہ آپ نے پہلے لفظ جہاد کا ترجمہ مقابلہ کر تحریر کیا اور وہی لفظ مفعول مطلق کی صورت میں آیا تو اس کا ترجمہ زور (طاقت) سے کیا۔

سورہ عنکبوت مکی ہے ، اس میں کہا گیا:

والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا (۶۰)

جن لوگوں نے خدا کی راہ میں محنت کی ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیں گے۔

جہاد کے لفظ کا لغوی مفہوم مقابلہ کرنا اور زور کے ساتھ کرنا اور محنت کرنا دونوں ترجمہ بہت اچھے ہیں۔

عنکبوت کی آیت میں بڑے شاہ صاحب شاہ ولی اللہ نے جہاد کے لفظ کا ترجمہ جہاد ہی کے لفظ سے کیا ہے، مگر شاہ رفیع الدین صاحب نے اپنے والد کی پیروی نہیں کی کیونکہ مکی دور میں جہاد (اپنے مشہور معنی میں) موجود نہیں تھا ، اور آیت مذکورہ میں وہ مشہور معنی مراد نہیں ہیں۔

اسلام دین دعوت ہے:

اسلام کے پہلے بنیادی دور (دور مکہ تیرہ سال) کو قرآن کریم نے دور دعوت کے طور پر متعارف کیا ہے ، دور اسلام کو ایک علمی مذہب قرار دے کر اسے حیات انسانی کا فطری دین قرار دیاہے۔

قرآن کریم نے اسی بنیاد پر اسلام کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ مذہب فطرت عقل سلیم کو مطمئن کردیتا ہے اوراس کے پھیلانے کے لیے زور و زبردستی کی اجازت نہیں ہے۔ زور زبردستی غیر فطری اور اوہام زدہ مذاہب کے لیے کی جاتی ہے۔

مرزا غالب نے تقریر دل پذیر کی تعریف میں کہا ہے:

دیکھنا  تقریر  کی  لذت  کو  جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ یہ بھی میرے دل میں تھا

تقریر کی لذت سے آپ دین حق اسلام کی صحیح تبلیغ مراد لیجئے۔

رسول پاک کا مشن:

موقعہ بے موقعہ اسلام کے تعارف و تاریخ میں لفظ جہاد کو استعمال کرنے والے اس حقیقت سے بے خبر معلوم ہوتے ہیں کہ قرآن کریم نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن یہ قرار دیا ہے کہ آپ محبت اور دل سوزی سے دین توحید کی اشاعت فرمائیں۔ سورہ فصلت(۳۴) میں کہا گیا: لا تستوی الحسنة ولا السیئة ادفع بالتی ہی احسن فاذالذی بینک وبینہم عداوة کانہ ولی حمیم (فصلت)

اے رسول محترم! برائی اور بھلائی دونوں یکساں نہیں، تم برائی کے جواب میں اس سے زیادہ بھلائی کیا کرو، اس کا نتیجہ تمہارے حق میں یہ ہوگا کہ تمہارے دشمن دوست بن جائیں گے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی اس ہدایت پر عمل کیا اور پھر خدا کا وعدہ اپنی صداقت کے ساتھ ظاہر ہوا کہ آپ کے دشمن آہستہ آہستہ آپ کے دوست اور مومن صادق بن گئے۔

وہ مٹھی بھر دشمن جو اپنی فطرت کی سلامتی کو اپنی ہٹ دھرمی سے برباد کرچکے تھے وہ میدان جہاد (عذاب) میں ہلاک کردئیے گئے۔

رسول آخرالزماں سے پہلے یہ ہوا کہ حضرات انبیاء کرام نے دعوت و توحید شروع کی اور ان کی قوموں نے ظلم و ستم برپا کیا اور چند نفوس کے علاوہ ان کی قومیں اپنی مسلسل سرکشی کے سبب مختلف قسم کے عذابوں میں ہلاک کردی گئیں۔

رسول پاک کو جو مشن دیاگیا وہ محبت سے دین کو غالب کرنے کا تھا، وہ مشن آپ نے پورا کیا۔

میدان جہاد میں ہلاک ہونے والے چند بدقسمت افراد تھے۔

ڈاکٹر اسرار صاحب کا اپنے تفسیری بیانات میں مستقل طور پر یہ نظریہ نشر ہوتا ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے یوم الفرقان میں فتح مند ہوئے، لیکن قرآن کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن (محبت و دعوت) کی راہ پر ہر قدم پر فتح حاصل ہوئی، کیونکہ خدا کا وعدہ آپ سے (آیت فصلت میں) یہی تھا۔

بدر و احد کی سیاسی اور فوجی فتوحات کا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء کی جماعت کی سیاسی فتح مندی اور سیاسی غلبہ سے تھا، اسی لیے شاہ عبدالقادر صاحب نے یوم الفرقان کا ترجمہ فیصلہ کا دن تحریر کیا، جبکہ دوسرے مترجم حضرات نے امتیاز اور فتح کے الفاظ تحریر کیے ہیں۔

فرقان دفاعی فیصلہ:

ڈاکٹر اسرار احمد صاحب یوم الفرقان کو حضور علیہ السلام کی مطلق فتح مندی کا دن کہتے ہیں یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے غیر فاتح (ناکام) رہے ۔

لیکن حضرت شاہ ولی اللہ نے علوم نبوت کے مباحث میں یہ تحریر کیا ہے کہ اسلام پہلے دن سے مذہب فاتح تھا اوراس کی بنیاد دو علمی معجزے تھے: ایک قرآن کریم، جس کے علمی چیلنج کا مخالفین کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

قرآن نے چیلنج کیا:

فاتوا بسورة من مثلہ (بقرہ)

اے قریش ! تم قرآن کریم کی ایک سورة جیسی سورہ بنالاؤ، مگر قریش اس تحدی کے جواب سے عاجز رہے۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوة صادقہ بھی ایک علمی معجزہ تھا، ایک امی لقب شخص نے چیلنج کیا۔

فقد لبثت فیکم عمرًا من قبلی افلا تعقلون (یونس)

اے قریش میں نے تم میں اپنی عمر کا بڑا حصہ گذارا ہے، تو کیا ایک امی کا علوم نبوة کے اتنے عظیم و بے مثال ذخیرہ کا حامل ہونا، علمی معجزہ نہیں؟ میرا امی ہونا تم پر عیاق ہے اور پھر میری علمی عظمت بھی تم پر عیاں ہورہی ہے۔

پس اسلام پہلے دن سے فاتح تھا، البتہ وہ فتح اقدامی تھی اور بدر کے میدان جہاد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دفاعی فتح حاصل ہوئی ، جسے سیاسی فتح بھی کہا جاسکتا ہے۔

چنانچہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضور کا داخلہ ایک فاتح کا داخلہ تھا اور آپ نے ایک فاتح کی حیثیت سے مدینہ منورہ کی امارت کا منصب سنبھالا۔

حضور کی امارت متفقہ تھی، مسلم اکثریت اور یہودی اقلیت دونوں کے آپ متفقہ امیر تھے۔

بدر کا غزوہ مدینہ میں داخلہ کے ڈیرھ سال کے بعد ہوا۔

اسلام کے دو علمی معجزے:

استاذ المکرم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ نے ایک روز بخاری شریف کے درس میں امام شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے حوالہ سے اسلام کے ان دو علمی معجزوں پر بڑی مدلل تقریر فرمائی اور یہ ثابت کیا کہ اسلام علم و عقل اور سائنس کے موجودہ دور میں ایک زندہ اور کامیاب مذہب کے طور پر اپنی افادیت کو دنیا کے انصاف پسند دانش وروں سے تسلیم کراچکا ہے۔

مولانا مدنی علیہ الرحمہ نے مختلف مغربی مفکرین اور ہندوستانی دانش وروں کے حوالہ دئیے، اس ناچیز نے حضرت مدنی کے وہ افادات اپنے ادارہ (رحمت عالم) کی طرف سے ایک کتابچہ کی صورت میں شائع کئے ہیں۔

مغربی مفکرین میں امریکہ کے جدید مفکر مسٹرمائیکل ہارٹ کی مشہور کتاب دنیا کے سوبڑے (دی ہینڈرڈ) مولانا مدنی کے بعد منظر عام پرآئی، جس میں بڑے کھلے انداز میں مائیکل نے دنیا کے سو بڑے سماجی، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں میں رسول پاک کو اولیت کا شرف تسلیم کیا۔

یہاں تک کہ اپنے رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اس مقابلہ میں شامل کیا اور صاف صاف کہا کہ میری مسیحی قوم اس مقابلہ میں مجھ سے ضرور ناراض ہوگی، مگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو تسلیم کرنا ایک مورخ کا اخلاقی فرض ہے۔

ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اپنی تقریروں اور تحریروں میں مغربی دانش وروں کے بڑے حوالہ دیتے ہیں مگر وہ اس پر غور نہیں کرتے کہ یہ دانش ور حضور علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کا تعلق آپ کے دینی، روحانی، معاشرتی اور سماجی انقلاب سے قائم کرتے ہیں۔ جو انقلاب آپ کی دعوتی اور تبلیغی، تعلیمی اور روحانی (باطنی، قلبی) اصلاح کے ذریعہ برپا ہوا۔

ڈاکٹر صاحب کے مذکورہ نظریہ سے حضور علیہ السلام کی اس عظیم انقلابی کامیابی کا غزوات اور تلوار سے تعلق قائم نظرآتا ہے۔

غزوات رسول کی عظمت اپنی جگہ ہے، اس سے انکار کون کرسکتا ہے؟ مگر ان کا تعلق دعوت حق سے قائم کرنا درست نہیں ہے۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد: 89 ‏، ربیع الاول ‏، ربیع الثانی1426ہجری مطابق مئی 2005ء