کوفی عنان ! کیا آپ سن رہے ہیں؟

از:ڈاکٹر ایم اجمل، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

۲۷/ جنوری ۱۹۴۵/ کو جنوبی پولینڈ میں واقع اوشوٹز کی اذیت گاہوں کو روسی افواج نے آزاد کرایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس اذیت گاہ میں جرمنوں نے (جو مذہباً عیسائی تھے) ۶۰/ لاکھ یہودیوں، یول، سلاؤ، روسی لوگوں کو اذیت دے کر قتل کیا تھا۔ ۶۰/ سال بعد اقوام متحدہ نے اس قتل عام کی پہلی برسی منائی۔ ۲۵/جنوری کو اقوام متحدہ کے خصوصی اجلاس میں ”ایسا پھر کہیں نہیں“ کا نعرہ دیاگیا۔ موجودہ حالات اور ماضی قریب کی تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ”ایسا پھر کہیں نہیں“ کا مطلب ”یہودیوں کے لئے ایسا پھر کہیں نہیں“ ہوگا۔ اقوام متحدہ کے ۱۹۰/ ممالک میں سے ۱۵۰/ نے اس خصوصی اجلاس کی حمایت کی جن میں عرب اور مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ ماضی میں اس طرح کی ہر کوشش ناکام ہوتی رہی۔ مگر سازش کے تحت ۱۱/۹ کا واقعہ انجام دلانے کے بعد کے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیز عالمی بینک، عالمی مالیاتی ادارہ، عالمی تجارتی ادارہ، یونیکو وغیرہ کے سرگرم تعاون ڈراوے اور لالچ سے دنیا کے اکثر ممالک کو اس خصوصی اجلاس کے لئے رضامند کرلیاگیا۔ اس اجلاس کے انعقاد کرانے کے لئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کوفی عنان نے جس دلچسپی کا مظاہرہ کیا اس کا سیدھا تعلق ان کے دوبارہ اس عہدہ پر منتخب ہونے کے لئے امریکی ناراضگی کی رکاوٹ دور کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال اس خصوصی مہم کے روحِ رواں جو لوگ بھی ہوں انہیں اِن سوالات کے جواب دینے ہوں گے تاکہ شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔

اقوام متحدہ ان کروڑوں جاپانیوں کی ہلاکت اور بیماری واذیت کی یاد کیوں نہیں کرتی جو کہ امریکی ایٹمی حملہ کی نذر ہوئے؟ اقوام متحدہ بوسنیا میں قتل کئے گئے لاکھوں مسلمانوں اور ۵۰ ہزار بوسنیائی مسلم خواتین کی یاد کیوں نہیں مناتی جن کے ساتھ عیسائی افواج نے زنا کیا اور اقوام عالم و اقوام متحدہ تماشہ دیکھتے رہے؟ اقوامِ متحدہ روس کے افغان قبضہ کے نتیجہ میں ایک پوری نسل ہلاک کردئیے جانے اور لاکھوں افغانوں کے معذور و بیوہ و یتیم ہوجانے پر خصوصی اجلاس کیوں نہیں بلاتی؟ ویتنام میں امریکی ظلم و بمباری کے نتیجہ میں تاریخ انسانی کی بے مثال تباہی کے خلاف اقوام متحدہ کا اجلاس کیوں نہیں بلایا جاتا؟ انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ اگر یہودیوں پر مظالم جرمن عیسائیوں نے کئے تھے، سزا کے طور پر اسرائیل نام کی یہودی ریاست جرمنی کے اندر تشکیل دی جانی چاہئے تھی، مگر تمام ظالموں (اقوام متحدہ، فرانس، برطانیہ ، امریکہ) نے مل کر عربوں کے دل پہ یہودی ریاست کا خنجر پیوست کردیا۔ اگریہودیوں پر یوروپ میں ظلم ہوا تھا تواس کی سزا عربوں کو کیوں دی گئی؟ جرمنوں کودنیا کے مکاّر انصاف پسندوں نے کیا سزا دی؟

آج مسلمانوں پر مذہبی عدم رواداری کا الزام لگایا جارہا ہے اور قرآن پاک کی آیتیں نصاب سے نکال دی گئی ہیں۔ اور تجویز یہ بھی ہے کہ آئندہ صہیونیت پر تنقید کرنا اس کی حقیقت ظاہر کرنا جرم مانا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہودیوں پر عیسائیوں نے یوروپ میں جو مظالم کئے اس کا انتقام لینے کے لئے یہودیوں کو ظلم کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے وہ بھی بیچارے مسلمانوں کے خلاف۔ اگر یہودی اتنے ہی بیچارے تھے جتنا بتایا جارہا ہے تو سارے یوروپ میں ان کی دشمنی کیوں تھی؟ مرچنٹ آف وینس، میں شائیلاک کا کردار کس ذہن کی غمازی کرتا ہے۔ پھر سب سے زیادہ یوروپی یہودی اسرائیل کیوں گئے؟ آج بھی یوروپ میں یہوددشمنی ختم نہیں ہوئی جس کی وجوہات مذہبی اور تاریخی ہیں۔ اس کی سزا مسلمانوں کو دی جارہی ہے۔ اسرائیل نے طاقت اور ظلم کے ذریعہ ۴۰ سال سے فلسطین کی زمین اور قبلہٴ اول کو قبضہ میں لے رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرار داد میں ۴۰ سال سے ردّی کی ٹوکری میں پڑی ہیں۔ یہودی دن رات فلسطینیوں کو قتل کررہے ہیں ان کی زمینوں اور گھروں پر بلڈوزر چلارہے ہیں، ان کو بستیوں میں قید کررہے ہیں، لاکھوں فلسطینی وطن کی آزادی کی جنگ کے جرم میں یہودیوں کی قید میں سخت ترین مظالم بھگت رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے کوفی عنان بتائیں گے کہ انہیں کے ادارہ اقوام متحدہ کی قرار داد کے تحت اسرائیل سے فلسطینی مقبوضہ علاقہ خالی کرانے کے لئے انہوں نے کیا کیا؟

جس طرح دنیا بھر کے لڑاکوؤں کو اکٹھا کرکے کویت خالی کرایاگیا، افغانستان پر حملہ کیاگیا، عراق میں بارود برسایاگیا۔ اسی طرح اسرائیل سے فلسطینی علاقہ اور قبلہ اوّل کیوں نہیں آزاد کرایاگیا۔ کیوفی عنان اور ان کے پیشرؤں اور تمام دنیا پر سوال قائم ہے کہ فلسطینیوں کے وطن پر یہودی ریاست اسرائیل نے جون ۱۹۶۷/ میں جو جبراً قبضہ کیا تھا وہ اب تک کیوں برقرار ہے۔ اس میں بات چیت کی گنجائش کیا ہے؟ اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ نے امریکہ نے یا دنیا کے کسی بھی نام نہاد مہذب جمہوری ملک نے کیا پابندی لگائی؟ الٹا اب تو اس جارح اور ظالم ملک سے تعلقات بڑھانے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ حال ہی میں ہیگ کی بین الاقوامی عدالت نے فیصلہ دیا کہ مقبوضہ علاقہ میں اسرائیل کے ذریعہ تعمیر کی جارہی دیوار غیر قانونی ہے، مگر یہ فیصلہ بھی سیکورٹی کونسل کی قرار داد کی طرح ردّی کی ٹوکری میں پڑا ہے اور عمل درآمد کرانے والا کوئی نہیں۔ اس کے برعکس کوفی عنان کو سوڈان کے جنوبی علاقہ کے عیسائیوں کی بہت فکر ہے۔ سوڈان پر دن رات دباؤ بنایا جارہا ہے۔ ایک معاہدہ کے تحت ۶ سال بعد وہاں ریفرینڈم کراکر اسے آزاد ریاست بنادیا جائیگا۔ ایسا ہی حل چیچنیا اور فلپائن وغیرہ میں مسلمانوں کے لئے کیوں نہیں کوفی عنان نکلوادیتے، جس سختی اور تیزی کے ساتھ کویت، افغانستان، عراق اور سوڈان میں اقوام متحدہ اوراس کو آلہ کار بنانے والے لوگ کارروائی کرتے ہیں وہ تیزی اور سختی چیچنیا، فلسطین، فلپائن اور تھائی لینڈ کے مسلمان مظلوموں کو انصاف دلانے کے وقت کیوں غائب ہوجاتی ہے؟ ان تمام حقائق پر نظر رکھتے ہوئے بجا طور پر صدر جمہوریہٴ ہند کے اس مطالبہ میں حقیقت پسندی جھلکتی ہے جس میں انھوں نے اقوام متحدہ کو دوبارہ منظم کرنے اور ویٹو پاور ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کو اوراس کے سکریٹری جنرل کوفی عنان کو اگر اس عالمی ادارہ کی ساکھ کو بچانا ہے اور دنیا میں امن و انصاف کا ماحول بنانا ہے تو اس ادارہ کو ظالموں اور پردہ کے پیچھے سے کنٹرول کرنے والوں کے چنگل سے بچانا ہوگا۔ اور تفریقی ہمدردی و انصاف Selective justice and sympathy کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ یا اس کو ریموٹ کنٹرول کرنے والوں کو دنیا کے سامنے اپنے دوہرے منافقانہ طرز عمل کا جواب دینا لازم ہے۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد: 89 ‏، ربیع الاول ‏، ربیع الثانی1426ہجری مطابق مئی 2005ء