عبادات مقاصد ہیں - یا ذرائع؟

از:محمد جسیم الدین قاسمی، سیتامڑھی

 

تمہید:

آج مسلمانوں کی اکثریت جہاں زندگی کے دیگر معاملات میں افراط و تفریط کا شکار ہیں وہیں عبادات کے سلسلے میں بھی وہ اعتدال و توازن سے دور ہیں، ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ عبادات ہی کامل دین ہیں، جس نے نماز ادا کرلی، روزہ رکھ لیا اور مال دارہونے کی صورت میں زکوٰة ادا کردی اور حج کیا اس نے گویا مکمل دین پر عمل کرلیا؛ حالانکہ قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادات مقاصد بھی ہیں اور ذرائع بھی، کسی ایک چیز کے مقصداور ذریعہ ہونے کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے،بعض حیثیتوں سے ایک چیز مقصود ہوسکتی ہے اور وہی چیز بعض دوسری حیثیتوں سے ذریعہ بن سکتی ہے۔

عبادت کی تعریف:

عبادت کے لغوی معنی کسی کی تعظیم کی غرض سے تواضع و انکساری اختیار کرنا ہے اور یہ صرف اللہ کے لیے ہے، کبھی عبادت کو طاعت و فرماں برداری کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔(۱)

اصطلاحی معنی کئی ایک ہیں: (۱) خضوع کے آخری درجہ کو اللہ کے لیے اختیار کرنا، (۲) رب کی تعظیم کے لیے اپنے نفس کے خلاف کام کرنا، (۳) ایسا فعل جس سے صرف اللہ کی تعظیم ہوتی ہو، ہر اس امر کو بجالانا جس سے اللہ راضی ہوتا ہو۔(۲)

عبادت کا مفہوم:

عبادت کا لفظ تین معانی پر مشتمل ہے: (۱) پرستش، (۲) غلامی، (۳) اطاعت، خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکرگزار ہو، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے عقیدت و محبت سے سر جھکائے، یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے۔ انسان خدا کا بندہ و غلام بن کر رہے، اس کے مقابلے میں خود مختارانہ رویہ نہ اختیار کرے اوراس کے سوا کسی اور کی غلامی قبول نہ کرے یہ عبادت کا دوسرا مفہوم ہے، انسان خدا کے حکم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپنا حکمراں بنے اوراس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے۔(۳)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

”یٰأیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمُ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ“(۴)

اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کروجس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (م: ۷۲۸ھ) سے ایک فعہ کسی شخص نے پوچھا کہ : ”یایہا الناس اعبدوا ربکم“ میں جس عبادت کا حکم دیاگیا ہے، اس کا کیا مفہوم ہے؟ آپ نے اس مسئلہ پر مفصل تقریر فرمائی جو رسالہ ”العبودیہ“ کی شکل میں موجود ہے، یہ رسالہ عبادات کی حقیقت و مقاصد پر روشنی ڈالتا ہے، اس کی ابتدا میں ابن تیمیہ نے لکھا ہے:

”عبادت ایک ایسا جامع لفظ ہے اس کے اندر وہ تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال داخل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور اس کی خوشنودی کا باعث ہیں مثلاً: نماز، روزہ، زکوٰة، حج، راست گوئی، امانت داری، اطاعت والدین،ایفائے عہد، امربالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد فی سبیل اللہ، پڑوسیوں، مسکینوں اور ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک، جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ، دعاء، ذکر الٰہی، تلاوت قرآن اوراس قسم کے تمام اعمال صالحہ عبادات کے اجزاء ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی محبت، رحمت خداوندی کی امیدوار اور عذاب الٰہی کا خوف، خشیت، انابت، اخلاص، صبر و شکر، توکل اور تسلیم و رضا وغیرہ ساری اچھی صفات عبادات میں شامل ہیں۔“(۵)

دین میں عبادات کا مقام:

دین میں عبادات کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہیں، عبادات کے بغیر دین کو صحیح صورت پہ باقی رکھنا ممکن نہیں، اگرچہ دین کے تمام احکام کی تعمیل لوجہ اللہ عبادت ہے مگر عام طور پر مشہور عبادتیں: نماز، روزہ، زکوٰة اور حج کے اندر جو ملأ اعلیٰ سے ربط اور مناسبت پیدا کرنے کی تاثیر اور انسان کے روحانی اور ملکوتی پہلو کی ترقی اور تکمیل کی خاصیت ہے وہ کسی دوسرے عمل میں نہیں، ان کو عبادات میں وہی مقام حاصل ہے جو اعضاء جسم میں قلب و دماغ کو ہے اسی بنا پر ان کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور ان پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”بني الاسلام علی خمس شہادة أن لا الٰہ الا للّٰہ وان محمدًا عبدہ ورسولہ واقام الصلاة، وایتاء الزکاة والحج والصوم“(۶)

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰة اداکرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ یہ بنیادی عبادات ہیں؛ لیکن ان کا دائرہ محدود نہیں ہے؛ بلکہ بے حد وسیع ہے، انسان کے لیے ضروری ہے کہ اہم عبادات کے ذریعے اپنی ساری زندگی کو کامیاب بنائے اور پھر اصل مقصود جو رضاء الٰہی ہے وہ حاصل کرے، بقول آزاد قرآن کہتا ہے: ”اصل دین خدا پرستی اور نیک عمل ہے۔“(۷)

اسلام میں عبادات کا ایک رخ داخلی و قلبی ہے اور دوسرا خارجی و جسمانی و مجلسی۔ ان دونوں رخوں کے بارے میں قرآن وحدیث اور کتب فقہ میں مفصل احکام موجود ہیں۔ اسلام میں عبادات صرف وہی نہیں جو خدا سے مناجات و مکالمے کا روپ دھارتی ہے؛ بلکہ وہ بھی ہے جو اندر کی طہارت کے ذریعے خارجی اجتماعی افعال واعمال انسانی کے بارے میں بھی صدق و اخلاص، حسن نیت اورحسن عمل کے اوصاف پیدا کرتی ہے، داخلی عبادات کے بغیر عبادت کے ظاہری رخ ناقص رہتے ہیں۔ شریعت کے ظاہری اعمال بھی اسی لیے ہیں کہ یہ مقصد حاصل ہو۔ پس ہمیں پوری زندگی کو عبادت کے سانچے میں ڈالنا چاہیے، جس کی صورت یہ ہے کہ ہم اپنے تمام ظاہری اور باطنی اعمال و اقوال جو اللہ کو پسند ہیں، اس کی خوشنودی کا ذریعہ ہیں انھیں پورے خلوص و دیانت داری کے ساتھ اداکریں۔

عبادت کا ناقص تصور:

آج ہمارے یہاں عبادت کا حلیہ بگڑا ہواہے،اس کا سب سے زیادہ نمایاں مظہر یہ ہے کہ ہم نے عبادات کو صرف چند اعمال اور مراسم عبودیت کے ساتھ خاص کرلیا ہے اور یہ سمجھ لیا کہ بس ان کی ادائیگی پر عبادت منحصر ہے، بقیہ زندگی اس سے بالکل خالی ہے، نماز کو ہم عبادت سمجھتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں، روزہ عبادت ہے، زکوة عبادت ہے، حج عبادت ہے۔ بلا شبہ یہ سب عبادات ہیں، لیکن جب دین کو ان میں منحصر کرلیا جائے اور یہ تصور قائم کرلیا جائے کہ بس ان کو بجالانے سے ہم حق عبودیت سے عہدہ برآ ہوگئے یہ بالکل غلط تصور ہوگا، چونکہ بقول ڈاکٹر اسرار احمد ”اگر ان عبادات کے متعلق یہ سمجھ لیا جائے کہ بس ان کو ادا کرنے سے عبادت کا حق ادا ہوگیا، تو تصور دین محدود ہی نہیں؛ بلکہ مسخ ہوجائے گا“(۸)

عبادت پوری زندگی میں خدا کے سامنے بچھ جانے کانام ہے؛ زندگی کے ہر معاملے اورہر گوشے کو اللہ کے حکم کا مطیع بنادینا اور اپنی آزادی، اپنی خود مختاری، اپنی پسند اور ناپسند کو اللہ کی مرضی کے تابع بنادینا اسی رویہ اور طرز عمل پر کاربند ہونا، زندگی کے تمام افعال و اعمال میں سر تسلیم خم کرنا ہی عبادت ہے۔

عبادات مقصود بالذات ہیں:

ارکان اربعہ: نماز، روزہ، زکوٰة و حج کے فرض اور مقصود بالذات ہونے کے دلائل اتنے واضح اور قطعی ہیں کہ تمام علمائے امت اس بات پر متفق ہیں، مفسرین و محدثین، ائمہ فقہ اور دیگر معتمد علیہ علمائے دین میں سے کسی نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔ علمائے امت کا یہ اجماع عبادات کے مقصود بالذات ہونے کی ایک بڑی دلیل ہے۔ اس سلسلے میں سطور ذیل میں قرآن کریم اور احادیث رسول سے چند نصوص کو پیش کیا جارہا ہے۔

جن و انس کی تخلیق کا مقصد:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ والانسَ الاَّ لِیَعْبُدُوْن“(۹)

جب خالق نے خود ہی بتادیا کہ مقصد تخلیق صرف اس کی عبادت ہے، تو عبادات کے مقصود بالذات ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا، آیت مذکورہ میں لفظ عبادت اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے، یعنی رب کی بندگی اوراس کی اطاعت و فرماں برداری؛ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پرستش لفظ عبادت کا اولین اوراس کے معانی میں سب سے نمایاں معنی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ فقہی اصطلاح میں جن چیزوں کو عبادات کہا جاتاہے انھیں ادا کرنا مقصد تخلیق کی تکمیل کا اولین مرحلہ ہے انھیں ادا کیئے بغیر مقصد زندگی کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، انسان اللہ کے سوا کسی اور کے احکام کی اطاعت و فرماں برداری کے لیے نہیں پیدا کیاگیا،اس کا کام کسی اور کے آگے جھکنا، اس کے احکام بجالانا، کسی اور کے بنائے ہوئے دین کی پیروی کرنا، کسی دوسرے کو اپنی قسمت کا بنانے والا یا بگاڑنے والا سمجھنا، اسی طرح دوسروں سے مرادیں طلب کرنا نہیں ہے۔

وہ صرف اللہ کی پرستش کرے، صرف اسی کی اطاعت و فرماں برداری کرے اس کے بھیجے ہوئے دین کی پیروی کرے، یہی اس کے تخلیق کا مقصد ہے۔

اسی طرح ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

”وَمَا جَعَلْنَا عَلَی الأرضِ زِیْنَةً لَّہَا لِنَبْلُوَکُمْ أیُّکُمْ أحْسنُ عملاً“(۱۰)

ایک دوسری آیت میں ہے:

”اَلَّذي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أیُّکُمْ أحْسَنُ عَمَلاً“(۱۱)

ان دونوں آیتوں میں زمین کی نعمتوں اور موت و حیات کی تخلیق کا مقصد یہ بتایاگیا ہے کہ انسانوں کی آزمائش کی جائے، حسن عمل یا عمل صالح مقصد تخلیق کی دوسری تعبیر ہے جو ”عبادت“ سے مختلف اور متضاد نہیں، اب یہاں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اچھے اعمال کے وہ ستون کیا ہیں جس کے بغیر کسی کے اسلام کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اچھے اعمال کی بنیادیں کیا ہیں جن سے تمام دوسرے اعمال کی شاخیں پھوٹتی ہیں، کتاب و سنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے اعمال کے ستون نماز، روزہ، زکوٰة اور حج ہیں۔ انھیں چاروں پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہوئی ہے مقصد تخلیق کی اس تعبیر سے بھی معلوم ہوا کہ عبادات مقصود بالذات ہیں؛ کیوں کہ ان کے بغیر کوئی بھی شخص امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

بعض روایات میں ہے کہ : ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! اچھے اعمال والے لوگ کون ہیں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”أحسنکم عقلاً، وأورعکم عن محارم اللّٰہ وأسرعکم في طاعتہ“(۱۲) جس کی سمجھ سب سے اچھی ہو، جو حرام سے سب سے زیادہ پرہیز کرے اور خدا کی فرماں برداری کی طرف لپکنے میں سب سے زیادہ جلدی دکھائے۔

قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں اقامت صلاة اور ایتاء زکاة یا انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کیاگیا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اوراس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:

”ایمان محض کسی تصور کانام نہیں ہے؛ بلکہ اس کی اصل حقیقت وہ تصدیق ہے جو دل کی گہرائیوں میں اترتی ہوئی ہوتی ہے اور جو آدمی کے ارادے کوحرکت میں لاتی ہے یہ ارادہ آدمی کو بہت سے کاموں کے کرنے اور بہت سی چیزوں کے چھوڑنے پر آمادہ کرتا ہے یہاں کرنے کے کاموں میں سے صرف دو ہی کا ذکر کیاگیا ہے، ایک نماز قائم کرنے کا دوسرے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا،اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں کام تمام نیکیوں کی جڑ اور تمام بھلائیوں کی بنیادہیں۔“(۱۳)

صرف نماز کے تدبر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کی بنیادی نیکیوں کی حیثیت نماز اور زکوٰة کو حاصل ہے، دوسری نیکیاں انھی دو بڑی نیکیوں کے تحت ہیں؛ بلکہ انھیں سے پیدا ہوتی ہیں؛ چنانچہ قرآن کے بے شمار مقامات میں ان دونوں کا ذکر اس طرح آیا ہے کہ ان کا ذکر آگیا تو گویا سب کاذکر آگیا مثلاً : ”فانْ تَابُوْا واقامُوا الصَّلاةَ وآتوا الزکوٰة فاخْوَانُکُمْ فِي الدِّدیْنِ“(۱۴)

(اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں تو تمہارے دینی بھائی بن گئے)

حضرت اسماعیل کی تعریف میں فرمایا گیا: ”کانَ یَأْمُرُ أہْلہ بِالصَّلاَةِ والزَّکاَةِ وکانَ أمرُہ عِنْدَ رَبِّہ مَرْضِیًا“(۱۵) (اور وہ اپنے کنبہ کو نماز اور زکوٰة کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھا)۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی منقول ہے: ”وَاَوْصِیْنِيْ بِالصَّلاَةِ والزَّکاَةِ مَادُمْتُ حیًا“(۱۶) (اور اسی نے مجھے نماز اور زکوة کی ہدایت کی جب تک میں زندہ رہوں) (۱۷)

مذکورہ بالا آیات میں اگرچہ نماز اور زکوة کا ذکر ہے؛ لیکن ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ صرف یہی دو چیزیں مراد نہیں ہیں؛ بلکہ دوسری نیکیاں بھی مراد ہیں؛ لیکن ان ساری نیکیوں کی جڑیں دونوں چیزیں ہیں تو جب ان کا ذکر آگیا تو شاخوں کاذکر خود بخود ہوگیا، ان دونوں چیزوں کی حقیقت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ فی الواقع دین میں ان کی حیثیت بھی یہی ہونی چاہئے، ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ کا ٹھیک بندہ بننے کے لیے آخر کس چیز کی ضرورت ہے اسی کی کہ ایک طرف وہ اپنے رب سے ٹھیک ٹھیک جڑجائے اور دوسری طرف خلق سے اس کا تعلق صحیح طور پر ہوجائے نماز انسان کو خدا سے صحیح طور پر جوڑدیتی ہے اور زکاة سے انسان کے ساتھ اس کا تعلق صحیح بنیاد پر قائم ہوجاتا ہے، ایک شخص اگر اپنے رب کے حقوق کو ادا کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کی مخلوق کے حقوق کو بھی بجالاتا ہے تو وہ تمام نیکیوں کی کلید پاگیا۔ انہی دو کی مدد سے وہ دوسری نیکیوں کے دروازے بھی کھول لے گا۔

ظاہر ہے کہ جن چیزوں پر پورے دین و شریعت کا دارومدار ہو، ان کا مقصود بالذات ہونا ایک ایسی بات ہے جس میں شک و ریب کی یکسر گنجائش نہیں۔

سورہ توبہ کی آیت نمبر ۵ میں بیان کیاگیا ہے: ”فان تَابُوْا وأقَامُوْا الصَّلوٰةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ“ (پھر اگر وہ توبہ کریں اور قائم رکھیں نماز اور دیا کریں زکوٰة تو انھیں چھوڑ دو) (شیخ الہند)

اس آیت کے تحت مولانا مودودی نے لکھا ہے:

”یعنی کفر و شرک سے محض توبہ کرلینے پر معاملہ ختم نہ ہوگا؛ بلکہ انھیں عملاً نماز قائم کرنی اور زکوٰة دینی ہوگی،اس کے بغیر یہ نہیں مانا جائیگا کہ انھوں نے کفر چھوڑ کر اسلام اختیار کرلیا ہے، اسی آیت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فتنہٴ ارتداد کے زمانے میں استدلال کیا، نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے فتنہ برپا کیا تھا انہی میں سے ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم منکرین اسلام نہیں ہیں، نماز پڑھنے کے لیے تیار ہیں؛ مگر زکوٰة نہیں دیں گے، صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بالعموم پریشانی لاحق تھی کہ آخر ایسے لوگوں کے خلاف تلوار کیسے اٹھائی جائے؛ مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کا حوالہ دے کر ان سے جہاد کیا۔“(۱۸)

اسی سورہ کی آیت نمبر ۱۱ میں پھر فرمایا: ”فانْ تَابُوْا وأقَامُو الصَّلوٰة وآتوا الزکوٰة فاخوانُکُمْ في الدین“

(ترجمہ: سو اگر وہ توبہ کرلیں اور قائم رکھیں نماز اور دیتے رہیں زکوٰة تو تمہارے بھائی ہیں حکم شریعت میں) (شیخ الہند)

ظاہر ہے کہ جن چیزوں کو دین میں یہ مقام حاصل ہو وہ خود مقصود نہ ہوں؛ بلکہ محض ذریعہ ہوں یہ کیسے ممکن ہے ۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اس کی رضا کا حصول مومن کا آخری مقصود ہے یہ گوہر مقصود نماز میں مل جاتا ہے، قرآن میں ہے: ”وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ“(۱۹) (اور سجدہ کرو اور نزدیک ہو) یعنی جہاں چاہو شوق سے عبادت کرو اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر بیش از بیش قربت حاصل کرو، حدیث میں آیا ہے کہ ”بندہ سب حالتوں سے زیادہ سجدہ میں اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتا ہے۔ (مسلم)

اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز اور سجدئہ نماز بذات خود قرب الٰہی ہے، نماز میں کھڑے ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں پہنچ گئے اس کے آگے سجدہ ریز ہوئے اور اس سے قریب تر ہوگئے نماز کے مقصود بالذات ہونے کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوگی؟ نماز ایمان سے اس قدر قریب ہے اور اس کی اتنی بڑی علامت ہے کہ سورة البقرة آیت ۱۴۳ میں نماز کے لیے ایمان کا لفظ استعمال کیاگیا ہے: ”مَاکَانَ اللّٰہُ لیُضِیْعَ اِیمانکم“(۲۰) (اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کرے تمہارا ایمان) یہاں ایمان سے مراد وہ نمازیں ہیں جو تحویل قبلہ سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی تھیں، بعض مسلمانوں کو شبہ ہوا کہ بیت المقدس جب قبلہٴ اصلی نہ تھا تو جو مسلمان اسی حالت میں مرگئے ان کے ثواب میں نقصان رہا، باقی زندہ رہنے والے تو آئندہ کو مکافات اوراس کا تدارک کرلیں گے اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی کہ جب تم نے بیت المقدس کی طرف نماز مقتضاء ایمانی اور اطاعتِ حکم خداوندی کے سبب پڑھی تو تمہارے اجر و ثواب میں کسی طرح کا نقصان نہ ڈالا جائے گا۔(۲۱)

عبادات ذرائع بھی ہیں:

عبادات مقصود بالذات ہونے کے ساتھ اصلاح و تربیت کے بہترین ذرائع بھی ہیں۔ قرآن کریم میں عبادات کے جو اغراض ومقاصد بیان کیے گئے ہیں اور ان کے بارے میں بعض دوسرے جو احکام دئیے گئے ہیں وہ اس بات کے واضح دلائل ہیں۔

نماز اور صبر مدد کاذریعہ :

سورة البقرة میں دو بار نماز اور صبر کے ذریعہ مدد چاہنے کا حکم دیاگیا ہے ۔ ایک بار بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاگیا: ”وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰةِ“(۲۲) (صبر اور نماز کے ذریعہ مدد لو)

دوسری بار مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ”یٰأیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰةِ“(۲۳) (اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)

کسی چیز سے مدد کسی خاص مقصد کے لیے حاصل کی جاتی ہے اسی طرح جس چیز سے مدد لی جاتی ہے وہ خاص مقصد کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے، وہ خاص مقصد کیا ہے جس کے لیے صبر اور نماز سے مدد لینے کا حکم دیاگیا ہے؟

 علامہ شبیر احمدعثمانی فرماتے ہیں:

”علمائے اہل کتاب جو وضوح حق کے بعد بھی آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان نہ لائے تھے اس کی بڑی وجہ حب جاہ اور حب مال تھی اللہ تعالیٰ نے دونوں کا علاج بتادیا، صبر سے مال کی محبت اور طلب جائے گی اور نماز سے عبودیت اور تذلل آئے گا“(۲۴)

مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی آیت نمبر ۴۵ اور آیت ۵۳ کی بہت مفصل اور ایمان افروز تشریح کی ہے، پہلے اجمالاً انھوں نے یہ لکھا ہے:

”اوپر عہد الٰہی کو استوار کرنے کے لیے بنی اسرائیل کو جن باتوں کا حکم دیا ہے جن جن چیزوں سے روکا ہے ان کا اختیار کرنا یا ان سے بچنا نفس کیلئے نہایت شاق ہے اس وجہ سے وہ نسخہ بھی بتادیا جو اس مشکل کو آسان بناسکتا ہے۔ یہ نسخہ صبر اور نماز دو چیزوں پر مشتمل ہے ان دو چیزوں کے اختیار کرنے سے نفس کے لئے یہ چڑھائی آسان ہوجاتی ہے صبر کا تعلق اخلاق و کردار سے ہے اور نماز کا تعلق عبادات سے، انسان اگر مشکلات و موانع کے علی الرغم کسی صحیح موقف پر ڈٹے رہنے کی خصلت انسان میں آسانی سے پیدا نہیں ہوتی؛ بلکہ ریاضت سے پیدا ہوتی ہے جس کا طریقہ نماز ہے آدمی اگر صحیح راہ پر چلنے کا عزم کرلے اور اس پر چل کھڑا ہو اور ساتھ ہی برابر اپنے رب کو یاد رکھے اوراس سے مدد مانگتا رہے (جس کی بہترین شکل نماز ہے) تو اس کے عزم کی قوت ہزار گنی بڑھ جاتی ہے کوئی مشکل سے مشکل حالت بھی اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا ہونے نہیں دیتی،اگرحالات کی نزاکت سے آدمی کے پاؤں لڑکھڑانے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اس کا وہ تعلق جو نماز سے پیدا ہوتا ہے اس کو گرنے سے بچالیتا ہے۔“(۲۵)

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہاں صبر کا جوحکم دیا ہے وہ اس لیے دیا ہے کہ اس وصف کو پیدا کیئے بغیر کوئی قوم اللہ کے عہد پر قائم نہیں رہ سکتی اور نماز کا حکم اس لیے دیا ہے کہ یہی چیز صبر کے پیدا کرنے اس کو ترقی دینے اور اس کو درجہٴ کمال تک پہنچانے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے۔

سورة البقرة آیت ۱۵۳ کے تحت لکھتے ہیں:

”مشکلات و مصائب میں جس نماز کا سہارا حاصل کرنے کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد ان پانچ وقتوں کی نمازیں ہی نہیں؛ بلکہ تہجد اور نفل نمازیں بھی ہیں؛ اس لیے کہ یہی نمازیں مومن کے اندر وہ روح اور زندگی پیدا کرتی ہیں جو راہِ حق میں پیش آنے والی مشکلات پر فتح یاب ہوتی ہیں، انہی کی مدد سے وہ مضبوط تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے جو کسی سخت آزمائش میں بھی شکست نہیں کھاتا اور انہی سے وہ مقام قرب حاصل ہوتا ہے جو خدا کی معیت کا ضامن ہے جس کا اس آیت میں صابرین کے لیے وعدہ فرمایاگیا ہے۔(۲۶)

          نماز سے استعانت دراصل اللہ سے استعانت ہے وہ پوری کائنات اور تمام ہنگامہٴ ہست و بود کا معبود و مقصود بھی ہے اور تمام ذرائع و وسائل کا سرچشمہ بھی اس کی مدد کامیابیوں اور کامرانیوں کے حصول کا اصل ذریعہ اور وسیلہ ہے، اس کی مدد کے بغیر اس کے حضور ایک سجدہ بھی ادا نہیں کیاجاسکتا۔ ”ایَّاکَ نَعْبُدُ وایَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“(۲۷) (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) آیت کریمہ اس حقیقت کی گواہ ہے۔

نماز یادِ الٰہی کا ذریعہ:

عبادتِ رب اور اطاعتِ خالق میں سب سے بڑی رکاوٹ جوانسان کی راہ میں پیش آتی ہے وہ ہے غفلت اس سے نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نماز پنجگانہ فرض کیا تاکہ وہ ہروقت اللہ کے حضور میں کھڑے ہوکر اپنے عہد و میثاق کی تجدید کرتا رہے، نماز ہی کے بارے میں سورہ طہٰ آیت ۱۴ میں فرمایا گیا: ”وأقِمِ الصَّلوٰةَ لِذِکْرِيْ“(۲۸) (اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر) اس آیت سے معلوم ہوا اللہ کی یاد کا بہترین ذریعہ نماز ہے، قرآن کریم میں ان کے علاوہ اور آیتیں بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو راہِ حق پر قائم رکھنے اور اس کی زندگی کو سدھارنے اور سنوارنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔

روزہ حصولِ تقویٰ کا ذریعہ:

تقویٰ اللہ کے خاص بندوں کی ایک عظیم صفت ہے جو اللہ کو بہت ہی محبوب ہے پسندیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کی اہمیت کو بتلایا ہے اوراس کو اختیار کرنے کا حکم دیاہے، تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ دراصل نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خداترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہرپہلو میں ظہور کرتی ہے حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو عبدیت کا شعور ہو، وہ انسانی زندگی میں بھی صریح ممنوعات تو درکنار مشتبہ امور سے بھی اپنے آپ کو بچائے رکھے۔

ظاہر ہے کہ اتنی پسندیدہ چیز بغیر نفس کشی اور مجاہدہ کے حاصل نہیں ہوسکتی؛ اس لیے اللہ تعالیٰ نے بندوں پر رمضان کا روزہ فرض کیا؛ تاکہ وہ نفس کو رذائل سے پاک کرکے تقویٰ سے متصف ہوجائے اور اپنی آئندہ کی زندگی کو اسی روشنی میں گزارے۔ قرآن کریم میں روزہ کی فرضیت کا حکم دینے کے بعداس کی حکمت بھی واضح کی گئی ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ“ (تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حصولِ تقویٰ کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد ترجمان القرآن میں رقم طراز ہیں:

”روزے کے حکم سے یہ مقصود نہیں ہے کہ انسان کا فاقہ کرنا اور اپنے جسم کو تکلیف اور مشقت میں ڈالنا کوئی ایسی بات ہے جس میں پاکی و نیکی ہے؛ بلکہ تمام تر مقصود نفس انسانی کی اصلاح و تہذیب ہے ۔ روزہ رکھنے سے تم میں پرہیزگاری کی قوت پیدا ہوگی اور نفسانی خواہشوں کو قابو میں رکھنے کا سبق سیکھ لوگے۔“(۲۹)

زکوٰة ذریعہٴ تزکیہ:

اللہ کی یاد اور اس کے احکام کی اطاعت میں جو سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی راہ میں پیش آتی ہے وہ مال کی محبت ہے یہ چیز انسان کے پیر کی بیڑی بن جاتی ہے، حبِّ دنیا کا سب سے بڑا مظہر مال ہے؛ اس لیے کہ مال ہی کے ذریعے انسان ظاہری شہرت حاصل کرتا ہے اور نفس جو بے راہ روی کی طرف لپکنے والا ہے مال ہی کے افراط سے بے اعتدالی کا شکار ہوتا ہے، اس کو حد اعتدال میں رہنے کے لیے اورمال کی محبت کو دل سے کھرچنے اور پاکیزہ بننے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰة فرض کیا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ”خُذْ مِنْ أمْوَالِہِمْ صَدَقَةً تُطَہِّرُہُمْ وتُزَکِّیْہِمْ بِہَا“(۳۰) (تم ان کے مالوں کا صدقہ قبول کرو اس سے تم ان کو پاکیزہ بناؤگے اور ان کا تزکیہ کیا کروگے)

حج ذکر و شکر اور تقویٰ کا ذریعہ:

حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، اس کی ادائیگی میں مالی صرفہ بھی ہے اور جانی مشقت بھی، اس میں نفس کے تقاضوں کو ضبط میں رکھنے کی بھی مشقتیں ہیں؛ چنانچہ حج انتہائی جامع عبادت ہے اور اس میں تمام طاعات شامل ہوتی ہیں، سورة البقرة آیت ۱۹۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی طرح حج بھی تقویٰ کے حصول، اللہ تعالیٰ کی شکرگذاری اوراس کے ذکر کی مشق کا ذریعہ ہے، حالتِ احرام میں خصوصیت کے ساتھ ہر قسم کی شہوانی گفتگو ہر طرح کی بدکاری و بے راہ روی اور ہر قسم کے جھگڑے لڑائی کی ممانعت، نیز تقویٰ کو بہترین زادِ راہ قرار دینے اور آیت ”فَاتَّقُوْنِ یٰاُولي الألْبَابِ“(۳۱) (اے ہوشمندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو) پر ختم کرنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ فریضہٴ حج میں حصولِ تقویٰ کا پہلو غالب ہے، اسی طرح حج میں شعائر اللہ کی تعظیم کے احکام دئیے گئے ہیں اوراس کی تعظیم و احترام کو تقویٰ القلوب (دلوں کا تقویٰ) قرار دیاگیا ہے، قربانی کا حکم دیاگیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا کہ اللہ تک گوشت اور خون نہیں پہنچتا؛ بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ حج مجموعی حیثیت سے تقویٰ اور ذکر الٰہی کاذریعہ ہے۔

ارکان اربعہ کے بعد یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں باریابی و تقرب کے لیے عبادات و طاعات، اذکار و ادعیہ اور تمام نیکیوں کو وسیلہ قرار دیا ہے۔ سورة المائدة آیت ۳۵ میں بیان فرمایا ہے:

”یٰأیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَابْتَغُوا الَیْہِ الْوَسِیْلَةَ وَجَاہِدُوْا فِي سَبِیْلِہ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ“(۳۲) (اے ایمان والو! ڈرتے رہو اللہ سے اور ڈھونڈو اس تک وسیلہ اور جہاد کرواس کی راہ میں تاکہ تمہارا بھلا ہو) (ترجمہ شیخ الہند)

وسیلہ کی تفسیر ابن عباس، مجاہد، ابووائل، حسن وغیرہم اکابر سلف نے قربت سے کی ہے تو وسیلہ ڈھونڈنے کے یہ معنی ہوں گے کہ اس کا قرب ووصول تلاش کرو، قتادہ نے کہا: ”اَيْ تقرّبُوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ“ خدا کی نزدیکی حاصل کرو اس کی فرماں برداری اور پسندیدہ عمل کے ذریعہ سے۔(۳۳)

اس سے معلوم ہوا کہ تمام عبادتیں، طاعتیں، نیکیاں، اذکار و دعائیں رضائے الٰہی کے حصول اور اس کی بارگاہ میں تقرب کے ذرائع ہیں، عبادات کا بذاتِ خود مقصود ہونا اور ساتھ ہی کسی دوسری چیز کے لیے ان کا ذریعہ ہونا باہم اسی طرح پیوستہ ہے کہ ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیاجاسکتا ہے۔

اسلامی عبادات، انفرادی اصلاح و تربیت کے ذرائع بھی ہیں اور ان سے اجتماعی تربیت بھی حاصل ہوتی ہے، ان عبادات کو ادا کرنے میں شریعت نے اجتماعیت پیدا کرکے ان کو ہمہ جہتی ذریعہٴ اصلاح بنادیا ہے اب ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ عبادات سے جو مقاصد ہیں وہ ہمیں حاصل ہورہے ہیں یا نہیں مثلاً نماز کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے: ”انَّ الصَّلوٰةَ تَنْہیٰ عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالمُنْکَرِ“(۳۴) (بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بری بات سے) (ترجمہ شیخ الہند)

اس آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ: ”نماز کا برائیوں سے روکنا دو معنی میں ہوسکتا ہے، ایک بطریق تسبب (ذریعہ) یعنی نماز میں اللہ تعالیٰ نے وہ خاصیت و تاثیر رکھی ہے جو نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے۔ جیسے دوا کا استعمال کرنا بخار وغیرہ امراض کو دور کرتا ہے، اس صورت میں یاد رکھنا چاہیے کہ دوا کے لیے ضروری نہیں کہ اس کی ایک ہی خوراک بیماری کو روکنے کے لیے کافی ہوجائے، بعض دوائیں خاص مقدار میں مدت تک التزام کے ساتھ کھائی جاتی ہیں اس وقت اس کا نمایاں اثر ظاہر ہوتا ہے بشرطیکہ مریض کسی ایسی چیز کا استعمال نہ کرے جو اس دواء کی خاصیت کے منافی ہو پس نماز بھی بلاشبہ بڑی قوی التاثیر دوا ہے جو روحانی بیماریوں کو روکنے میں اکسیر کا حکم رکھتی ہے“(۳۵)

نماز کے علاوہ بھی جو دیگر عبادات ہیں اور ان کے جو مقاصد اوپر بیان کیے گئے ان کے بارے میں ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ان کے جو مقاصد ہیں وہ ہمیں حاصل ہورہے ہیں - یا نہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔

                                                                                                                                          $$$

ماخذ و حوالہ جات

(۱)     الموسوعة الفقہیہ: وزارة الاوقاف والشئون الاسلامیہ ، الکویت، ص․ ب․ ۱۳، ص:۲۵۶، ج:۲۹۔

(۲)    حوالہ بالا، ص: ۲۵۷۔

(۳)    مودودی: سید ابوالاعلیٰ، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی، بارسوم: ۲۶۴/۲۔

(۴)    سورة البقرة: ۲۱۔

(۵)    ابن تیمیہ (م: ۷۲۸ھ) العبودیة، المطبعة الحسینیہ المصریة ۲۳۳۲ھ۔

(۶)    بخاری و مسلم: کتاب الایمان حدیث نمبر :

(۷)    آزاد: ابوالکلام ، ترجمان القرآن: ساہتیہ اکادمی ۱۳۳/۲۔

(۸)    ڈاکٹر اسرار احمد : مطالبات دین، مکتبہ تنظیم اسلامی ۳۶/ کے ماڈل ٹاؤن لاہور، ص: ۲۹۔

(۹)    ذاریات : ۵۶۔

(۱۰)   الکہف : ۷۔

(۱۱)    الملک : ۳۔

(۱۲)   قرطبی: الجامع لاحکام القرآن: الہیئة المصریة العامة للکتاب: ۲۰۷/۱۸۔

(۱۳)   اصلاحی: امین احسن ، تدبر قرآن، لاہور : ۵۰/۱۔

(۱۴)   توبہ: ۱۱۔

(۱۵)   مریم : ۵۵۔

(۱۶)   مریم : ۳۱۔

(۱۷)  شیخ الہند

(۱۸)   مودودی: سید ابوالاعلیٰ ، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی: ۱۷۷/ ۱ ملخصاً۔

(۱۹)   العلق : ۱۹۔

(۲۰)  البقرة : ۱۴۳۔

(۲۱)   عثمانی: علامہ شبیر احمد : ترجمہ شیخ الہند، ص: ۲۸۔

(۲۲)  بقرة : ۴۵ ۔

(۲۳)  بقرة : ۱۵۳۔

(۲۴)  عثمانی : علامہ شبیر احمد ۔ ترجمہ شیخ الہند، ص: ۱۰۔

(۲۵)  اصلاحی : امین احسن ، تدبر قرآن، لاہور: ۱۴۵/۱۔

(۲۶)  بحوالہ بالا: ۳۳۵/۱۔

(۲۷)  فاتحہ : ۵۔

(۲۸)  طہٰ : ۱۴

(۲۹)  آزاد،ابوالکلام، ترجمان القرآن: ساہتیہ اکاڈمی : ۱۳۹/۲۔

(۳۰)  توبہ: ۱۰۳۔

(۳۱)   حج : ۱۹۷۔

(۳۲)  مائدة : ۳۵۔

(۳۳)  عثمانی: شبیر احمد ، شیخ الہند، قرطبی: الجامع للاحکام القرآن: ۱۵۹/۶۔

(۳۴)  عنکبوت : ۴۵۔

(۳۵)  عثمانی: شبیر احمد، شیخ الہند، آیت: ۴۵ کے تحت۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 89 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاول1426ہجری مطابق جون 2005ء