قسط ۲

اسلاف کے صبر کے تابندہ نقوش

از:مولانا محمد اسجد قاسمی ندوی

 

(۲)بھوک اور پیاس کی مشقت :

خردونوش انسانی زندگی کے بقاء و قیام کا اہم ترین ذریعہ ہے، اگر آدمی خوردونوش سے محروم رہے تواس میں ضعف آجاتا ہے اور وہ موت کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے، اسی لئے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ دعا بھی ملتی ہے ﴿ اللّٰہم انی أعوذبک من الجوع فانہ بئس الضجیع﴾ خدایا میں بھوک سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں کیونکہ وہ بدترین ساتھی ہے۔(۱)

انبیاء و رسل اور صلحاء و اتقیاء کی تاریخ بتاتی ہے کہ انھوں نے بھوک پیاس کی مشقت پر صبر کیا، قناعت، رضا بالقضا اور صبر نے ان کی زندگیوں کو آراستہ کردیاتھا، غزوئہ خندق کے موقعے پر سخت بھوک اور فاقہ مستی کا عالم تھا، ہر صحابی مضطرب تھا، ایک صحابی بے قرار ہوکر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں سخت بھوکا ہوں، اور اپنے پیٹ پر بندھا ہوا پتھر دکھادیا، حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنا شکم مبارک کھولا تو اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے تاکہ بھوک کی شدت کو محسوس نہ ہونے دیں۔

ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم خلافِ معمول بیٹھ کر نماز اداکررہے ہیں، نماز سے فارغ ہونے کے بعد عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ بیمار ہیں؟ فرمایا نہیں: بھوک کی شدت ہے جس کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوا جارہا ہے، اس لئے بیٹھ کر نماز ادا کررہا ہوں۔

مکی زندگی میں جب اہل کفر نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا اور قبیلہ بنو ہاشم کا مقاطعہ کیا اور آپ کو شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا، تین سالہ مقاطعہ کی اس طویل مدت میں آپ کو اور تمام لوگوں کو بھوک اور پیاس کی مشقت پر سیکڑوں بار صبر کرنا پڑا، درخت کے پتوں پر گذارا کرنا پڑا، یہاں تک کہ منھ زخمی ہوگئے، آپ کی سیرت طیبہ میں ایسے واقعات بے شمار ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری رات بھوک کے عالم میں گذاری، بھوک مٹانے کے لئے کچھ نہ تھا، صبح کو گھر میں آتے اور کھانے کے لئے کچھ نہ ہوتا تو روزے کی نیت فرمالیتے تھے۔

صحابہٴ کرام کی زندگیاں بھی اسی رنگ میں رنگی ہوئی تھیں، انھوں نے پورے صبر اور عزیمت و حوصلہ مندی کے ساتھ بھوک و پیاس کی مشقت کا مقابلہ کیا، کبھی بھوک کی شدت ان کو بے چین بناتی تھی، کبھی پیاس کی شدت بے ہوش کردیتی تھی، اہل صفہ اس صبر کے لحاظ سے سب میں ممتاز ہیں، جس کا اندازہ صرف اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سات سات آدمی ایک ہی کھجور کو باری باری چوستے تھے تاکہ بھوک کی شدت میں کمی آئے، اس کے سوا کھانے کے لئے کچھ نہ ہوتا تھا۔

شیخ عبدالقادر جیلانی کی فاقہ کشی

شیخ عبدالقادر جیلانی نے فرمایا: میں نہر کے کنارے سے خرنوب اشوک،گری پڑی سبزی اور خس کے پتے لے کر آتا اور ان کو کھاکر گذارہ کرتا، بغداد میں اس قدر ہوش ربا گرانی تھی کہ مجھے کئی دن بغیر کھائے ہوجاتے تھے، اور میں اس تلاش میں رہتا تھا کہ کہیں کوئی پھینکی ہوئی چیز مل جائے تو اسے اٹھاکر بھوک مٹالوں، ایک روز، بھوک کی شدت میں اس امید پر دریا کے کنارے چلاگیا کہ شاید مجھے خس یا سبزی وغیرہ کے پتے پڑے ہوئے مل جائیں گے، تو اسے کھالوں گا، مگر میں جہاں بھی پہنچا معلوم ہوا، مجھ سے پہلے کوئی دوسرا اٹھاکر لے گیا، کہیں کچھ ملا بھی تو وہاں دوسرے غریبوں اور ضرورت مندوں کو اس پر چھینا جھپٹی کرتے ہوئے دیکھا، اور میں ان کی محبت میں اسے چھوڑ کر چلاآیا۔

میں وہاں سے چلتا ہوا اندرونِ شہر آیا، خیال تھا کہ کوئی پھینکی ہوئی چیز مل جائے گی لیکن یہاں بھی اندازہ ہوا کہ کوئی مجھ سے پہلے اٹھاکر لے گیا ․․․․ میں بغداد کے ”عطر بازار“ میں واقع مسجد یاسین کے پاس پہنچا تو بہت ہی نڈھال ہوچکا تھا اور قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی، میں مسجد میں داخل ہوگیا، اور ایک کونے میں بیٹھ کر موت کا انتظار کرنے لگا۔

کھانا لیے ایک عجمی نوجوان کی آمد

اتنے ہی میں ایک عجمی نوجوان صاف ستھری روٹیاں اور بھنا ہوا گوشت لے کر آیا اور بیٹھ کر انہیں کھانا شروع کردیا وہ جب لقمہ لیکر ہاتھ اوپر کرتا تو بھوک کی شدت کی وجہ سے بے اختیار میرا منھ کھل جاتا، کچھ دیر کے بعد میں نے اپنے آپ کو ملامت کی، اور دل میں کہا: یہ کیاحرکت ہے؟ یا تو خدا کھانے پینے کا کوئی انتظام کرے گا،اوراگرموت کا فیصلہ لکھ چکا ہے تو پھر وہ پورا ہوکر رہے گا!!

کھانے کے لئے اصرار

اچانک عجمی کی نظر میرے اوپر پڑی، اوراس نے مجھے دیکھ کر کہا: بھائی، آؤ کھانا کھالو، میں نے منع کردیا، اس نے قسم دی تو میرے نفس نے لپک کر کہا کہ اس کی بات مان لو، لیکن میں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے پھر انکار کردیا، اس نے پھر قسم دی، اور آخر میں راضی ہوگیا اور رُک رُک کر تھوڑا تھوڑا کھانے لگا، وہ مجھ سے پوچھنے لگا، تم کیا کرتے ہو؟ کہاں کے ہو؟ اور کیا نام ہے؟ میں نے کہا: میں جیلان سے پڑھنے کے لئے آیا ہوں، اس نے کہا: ”میں بھی جیلان کا ہوں“ کیا تم ابوعبداللہ صومعی درویش کے نواسے، عبدالقادر نامی، جیلانی نوجوان کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: میں وہی تو ہوں!۔(۲)

محمد بن نصر مَرْوزی کا پیاس کے مارے بُرا حال

حافظِ حدیث، خطیب بغدادی، تاریخ بغداد میں اور حافظ ذہبی ”تذکرة الحفاظ“ میں امام محمد بن نصر مروزی (پیدائش ۲۰۲ھ وفات ۲۹۴ھ) کا تذکرہ کرتے ہوئے ابوعمرو عثمان بن جعفر بن لبان کی روایت سے محمد بن نصرمروزی کا یہ بیان نقل کرتے ہیں کہ:

”میں مصر سے اپنی ایک باندی کو لے کر چلا، اور مکہ مکرمہ جانے کے لئے ایک جہاز پر سوار ہوا، اچانک راستہ میں اُسے حادثہ پیش آیا اور ڈوب گیا، اور اسی کے ساتھ میری دو ہزار کتابیں بھی بہہ گئیں، کسی طرح میں اور میری باندی ایک جزیرے میں پہنچ گئے،دیکھا تو وہاں دور دور تک کوئی نظر نہ آتا تھا مجھے سخت پیاس لگ رہی تھی، مگر پانی کا کہیں نام و نشان نہ تھا، جب میں نڈھال ہوگیا تو باندی کی ران پر سررکھ کر لیٹ گیا اور موت کے آگے ہتھیار ڈال دئیے۔

غیبی امداد

ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک شخص ایک کوزہ میں پانی لے کر آیا، اوراس نے کہا پیو! میں نے لے کر خود پیا اور باندی کو پلایا، اس کے بعد وہ چلاگیا، مجھے پتہ نہیں کہ وہ کہاں سے آیا اور کہاں کو گیا۔(۳)

مجبوری سب کچھ کراتی ہے

بکربن حمدان مروزی کی روایت ہے کہ انھوں نے ابنِ خروش کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”مجھے طلب حدیث میں پانچ مرتبہ اپنا پیشاب پینے کی نوبت آئی ہے۔“

اسکی وجہ دراصل یہ تھی کہ وہ حدیث حاصل کرنے کے شوق میں بیابانوں اور بے آب و گیاہ میدانوں میں رات دن پیدل چلا کرتے تھے اور راستے میں سخت پیاس کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔(۴)

(۳) بیماری اور مرض کی مشقت

مرض اور بیماری کی آزمائشوں سے عام طور پر کوئی محفوظ نہیں رہتا، اسلام نے حالت مرض میں صبر کو بڑی اہمیت دی ہے، قرآن میں حضرت ایوب کا صبر نمونہ کے طور پر بیان ہوا ہے، ان کے اندر حالت مرض میں صبر کی بے پناہ طاقت اللہ نے بھردی تھی، اسی لئے صبر ایوب ضرب المثل بن گیا، بقول شاعر۔

                               و فی  أ یو ب قُد و تنا

                         اذا ما استفحل الکرب

                                                      لنا فی صبر ہ و ز ر

                                                      یزول بنورہ الخطب

حضرت ایوب کاصبر پریشانی زیادہ ہونے کے وقت ہمارے لئے نمونہ ہے، جس میں ہمارے لئے پناہ گاہ ہے، جس کے نور سے پریشانی ختم ہوجاتی ہے۔

حضرت ایوب کے علاوہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے لخت جگر حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق پر بیحد صدمہ پہنچا جس سے ان کی صحت متاثر ہوئی اور روتے روتے بینائی ختم ہوگئی، مگر انھوں نے صبر سے کام لیا، حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے لقمہ بنایا، پھر ایک کنارے پر اگل دیا، اس وقت وہ بیحد کمزور اور نحیف و ناتواں ہوگئے تھے، مگر وہ صبر سے کام لیتے رہے، یہاں تک کہ اللہ نے ان کی طاقت انہیں لوٹادی۔

خود حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمام لوگوں کیلئے صبر کے میدان میں بھی بہت اعلیٰ اور عمدہ نمونہ اور مشعل راہ ہے، آپ نے خود اپنے بارے میں فرمایا ﴿انی أوعک کما یوعک رجلان منکم﴾(۵) مجھے اتنا بخار آتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کوآتا ہے، بارہا ایسا ہوا کہ آپ مبتلائے بخار ہوئے، شدت بخار کی وجہ سے آپ تڑپتے اور کروٹیں بدلتے رہے مگر آپ مرضی بقضا رہے اور کلمہٴ خیر کے سوا زبان سے کچھ نہ نکلا، حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے کہ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ بخار میں تھے اور چادر اوڑھے ہوئے تھے، میں نے چادر کے اوپر ہاتھ رکھا اور کہا ﴿ما أشد حماک یا رسول اللّٰہ؟﴾ اے اللہ کے رسول ! آپ کو کتنا سخت بخار ہے؟ آپ نے فرمایا ﴿انا کذلک یشدد علینا البلاء، ویضاعف لنا الأجر﴾ ہم پر اسی طرح سخت آزمائش آتی ہے اور دوہرا اجر ملتا ہے، حضرت ابو سعید نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! ﴿من أشد الناس بلاءً؟﴾سب سے سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ فرمایا: ﴿الأنبیاء﴾ انبیاء کی، پوچھا پھر کس کی؟ فرمایا ﴿العلماء﴾ اہل علم کی، پوچھا پھر کس کی؟ فرمایا ﴿الصالحون﴾ نیک بندوں کی، پھر فرمایا کہ ﴿وکان أحدہم یُبتلیٰ بالقمل حتی یقتلہ﴾ پچھلے لوگوں میں کسی پر جویں مسلط کردی جاتی تھیں جو اسے مار ڈالتی تھیں، یہ آزمائش ہوتی تھی، ﴿وکان أحدہم یُبتلی بالفقر حتی ما یجد الا العباء ة یلبسہا﴾ اور کسی کو فقر میں مبتلا کیاجاتا تھا یہاں تک کہ اسے ایک عبا کے سوا کوئی لباس نہ میسر آتا تھا ﴿ولأحدہم کان أشد فرحاً بالبلاء من أحدکم بالعطاء﴾ ان کو آزمائش پر اتنی زیادہ مسرت ہوتی تھی جتنی تم کو نعمتوں اور عطیات پر ہوتی ہے۔(۶)

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک بار رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم میں کہیں درد ہونے لگا، آپ بے چین ہوگئے، کروٹ بدلنے لگے، حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! اگر ہم میں سے کوئی ایسا کرتا تو آپ اس پر ناراض ہوجاتے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿ان الموٴمنین لیشدد علیہم، وانہ لیس من موٴمن تصیبہ نکبة شوکة ولا وجع الا کفر اللّٰہ عنہ بہا خطیئة ورفع لہ بہا درجة﴾بلا شبہ اہل ایمان پر سختی کی جاتی ہے، اور جس مسلمان کو کوئی چوٹ لگتی ہے، کانٹا چبھتا ہے، درد ہوتا ہے اور وہ صبر کرتا ہے ، تواللہ اسے اس کی خطاؤں کاکفارہ بنادیتا ہے اور اس کے درجے بلند کردیتا ہے۔(۷)

حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کو حالت مرض میں صبر کی تاکید فرماتے تھے اور بیماری کو گناہوں سے پاکی کا ذریعہ اور ترقیٴ درجات کا زینہ بتاتے تھے، روایات میں آتا ہے کہ ایک کالی عورت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور میرا بدن کھل جاتا ہے، آپ میرے لئے اللہ سے دعا کردیجئے، آپ نے فرمایا ﴿ان شئت صبرت ولک الجنة، وان شئت دعوت اللّٰہ أن یعافیک﴾اگر تم چاہو تو صبر کرو اور تم کو جنت ملے، اور چاہو تو میں اللہ سے دعا کردوں کہ تم کو عافیت عطا فرمائے، اس عورت نے کہا کہ میں صبر کروں گی، مگر آپ اتنی دعا کردیجئے کہ میرا بدن نہ کھلے، تو آپ نے دعا فرمادی۔(۸)

حضرت زید بن ارقم بیمار ہوئے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے آئے، فرمایا کہ یہ مرض تو ٹھیک ہوجائے گا مگر میری وفات کے بعد جب تم اندھے ہوجاؤگے اور لمبی عمر پاؤگے تو کیا کروگے؟ حضرت زید نے جواب دیا ﴿اذاً اصبر و احتسب﴾ تب تو میں بہ نیت ثواب صبر کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿اذاً تدخل الجنة بغیر حساب﴾ تب تم جنت میں بے حساب داخل ہوگے، چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت زید کی بینائی ختم ہوگئی، مگر وہ تازندگی صابر رہے۔(۹)

حضرت ابوبکرصدیق کے مرض الوفات میں لوگ ان کی عیادت کیلئے آئے، اور طبیب بلانے کا مشورہ دیا، اس پر انھوں نے فرمایا کہ طبیب مجھے دیکھ چکا ہے اوراس کا کہنا ہے ﴿انی فعال لما أرید﴾میں وہی کرتاہوں جو چاہتا ہوں۔(۱۰)

حضرت ابوالدرداء بیمار ہوئے، ان کے ساتھیوں نے کہا کہ اے ابوالدرداء! تمہیں کیا تکلیف ہے؟ فرمایا: گناہوں کی تکلیف ہے، پوچھا گیا کہ کیا خواہش ہے؟ فرمایا: جنت کی خواہش ہے، عرض کیاگیا کہ کیاکسی طبیب کو بلایا جائے؟ فرمایا کہ طبیب (اللہ) ہی نے تو مجھے لٹایا (اور بیمار کیا) ہے۔(۱۱)

حضرت ابوعبیدہ بن جراح مرض طاعون میں مبتلا ہوگئے مگر اس پر صابر رہے اور فرمایا کہ اس مرض کے بدلے سرخ اونٹ مجھے پسند نہیں ہیں۔(۱۲)

حضرت عروہ بن زبیر کے پیر کا کچھ حصہ سڑگیا جس کا نکالناضروری ہوگیا، ڈاکٹر نے پیر کاٹنے سے پہلے بے ہوش کرنا چاہا، مگر حضرت عروہ اس پر آمادہ نہ ہوئے، کچھ لوگ ان کو پکڑنے اورتھامنے آئے تاکہ آپریشن کے وقت وہ حرکت نہ کریں مگر آپ نے منع کردیا، اور ہوش و حواس کے عالم میں پیر کٹوادیا، ان کی زبان پر تسبیح و ذکر کا ورد جاری تھا، آپریشن ختم ہونے کے بعد حضرت عروہ نے فرمایا ﴿لقد لقینا من سفرنا ہذا نصباً﴾ اس سفر میں بڑی مشقت اور تعب کا سامنا کرنا پڑا، پھر کٹا ہوا پیر اپنے ہاتھ میں لے کر اسے مخاطب کیا کہ ”اللہ خوب جانتا ہے کہ میں تمہارے ذریعہ کسی حرام کی طرف کبھی نہیں چلا“(۱۳) اسی طرح کے واقعات امام احمد بن حنبل اور دیگر اکابر کے بھی ہیں۔

ام ابراہیم نامی خاتون بڑی نیک، عبادت گذار اور خداترس تھیں، ایک بار اونٹ نے ان کو پٹخ دیا جس کی وجہ سے ان کا پیر ٹوٹ گیا، کچھ لوگ عیادت کیلئے آئے تو انھوں نے فرمایا ﴿لولا مصائب الدنیا وردنا الآخرة مفالیس﴾ اگر دنیا کے مصائب نہ ہوتے تو ہم آخرت میں خالی ہاتھ اور مفلس آتے۔(۱۴)

(۴) موت کی مشقت پر صبر:

انسان کو لاحق ہونے والے مصائب میں سب سے سخت اور دردناک مصیبت موت ہے، خود قرآن میں موت کو مصیبت کہا گیا ہے (سورئہ مائدہَ۱۰۶) اور یہ واضح کیاگیا ہے کہ ہر متنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے(۱۵) اوریہ موت و حیات کی تخلیق انسان کے حسن عمل کی آزمائش کیلئے ہے ﴿الذی خلق الموت والحیاة لیبلوکم أیکم أحسن عملاً﴾ (الملکَ۲) جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں کس کا عمل اچھا ہے، جو اس زندگی کو غنیمت سمجھ کر طاعات کا خوگر بن جاتا ہے وہ کامیاب و بامراد ہے، اور جو اسے غنیمت نہیں سمجھتا اور نیکی نہیں کرتا وہ خائب و خاسر ہے۔

قرآن میں صراحت آئی ہے کہ موت سے کسی کو مفر نہیں، وہ اپنے وقت مقرر پر آکر رہتی ہے، اس میں تقدیم و تاخیر ناممکن ہے، وہ ہر جگہ آسکتی ہے، کوئی اسے روک نہیں سکتا، قرآن کہتا ہے ﴿ان الموت الذی تفرون منہ فانہ ملاقیکم﴾ (الجمعةَ۸) جس موت سے تم فرار اختیار کررہے ہو وہ تم کو پیش آکر رہے گی، عرب شاعر ابوالعتاہیہ کہتا ہے۔

لا تأمن الموت فی طرفٍ ولا نفس ولو تستّرتَ بالابواب والحرس

واعلم بأن سہام الموت قاصدَة                لکل مدرعٍ منّا مترسٍ(۱۶)

تم ایک لمحے کے لئے بھی موت سے بے خوف نہ رہو، تم چاہے جتنا چھپ جاؤ، حفاظتی انتظام کرلو، پہرے کا بندوبست کرو، بچاؤ کا سامان کرو موت کا تیر تم تک پہنچ کررہے گا۔

اسی لئے قرآن میں حکم ہے ﴿ولتنظر نفس ما قدّمت لغد﴾ (الحشرَ۱۸) جب موت آنی ہے تو ہر شخص کو یہ فکر ہونی چاہئے کہ اس نے کل کے لئے کیا آگے بھیج رکھا ہے، حدیث نبوی ہے ﴿الکیّس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت، والعاجز من أتبع نفسہ ہواہا وتمنّٰی علی اللّٰہ الأمانی﴾(۱۷) عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کی زندگی کے لئے کام کرے،اور عاجز و بے بس وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنی خواہش کے تابع کردے اور اللہ سے امیدیں باندھے رکھے، ایک حدیث میں وارد ہوا ہے ﴿اغتنم خمسا قبل خمس: حیاتَک قبل موتک ، وصحتک قبل سقمک، وفراغک قبل شغلک، وشبابک قبل ہرمک، وغناک قبل فقرک﴾(۱۸) تم پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو، زندگی کو موت سے پہلے، صحت کو مرض سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے اور مالداری کو فقر سے پہلے غنیمت سمجھو۔

حضرت عمر فاروق کا فرمان ہے ﴿حاسبوا أنفسکم قبل أن تحاسبوا، وزِنوا أعمالکم قبل أن توزن علیکم، فالیوم عملٌ ولا حساب، وغدًا حساب ولا عمل﴾(۱۹) اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے، اپنے اعمال تولو قبل اس کے کہ (قیامت میں) ان کاوزن کیا جائے، کیونکہ آج (دنیا) عمل کا وقت ہے نہ کہ حساب کا،اور کل (قیامت کا دن) حساب کا وقت ہے نہ کہ عمل کا۔

اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ موت کے وقت آدمی صبر اور رضا بالقضا اور اللہ کے سامنے خود سپردگی کا مظاہرہ کرے، یہی ایمان صادق کی دلیل اور اخروی کامیابیوں کے حصول کا ذریعہ ہے، حدیث قدسی ہے، اللہ فرماتا ہے ﴿ما لعبدي الموٴمن عندی جزاء اذا قبضت صفیہ من أہل الدنیا ثم احتسبہ الا الجنة﴾ جس بندئہ مومن کے کسی عزیز کی میں روح قبض کرلوں اور وہ اس پر بہ نیت ثواب صبر کرے تواس کے لئے میرے پاس جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں ہے۔

انبیاء کرام خصوصاً اشرف الانبیاء محمدعربی  صلی اللہ علیہ وسلم کو مصیبتِ موت کا بارہا سامنا ہوا، ولادت سے قبل ہی باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا، چھ سال کی عمر میں ماں کا وصال ہوگیا، آٹھ سال کی عمر میں شفیق دادا داغِ مفارقت دے گئے، پھر نبوت کے بعد مہربان چچا ابوطالب اور مخلص بیوی حضرت خدیجہ بھی چل بسے، اور وہ سال آپ کے لئے غم و اندوہ کا سال ہوگیا، اولاد کی وفات کا صدمہ بھی آپ نے سہا، حضرت فاطمہ کی وفات آپ کی وفات کے چھ ماہ بعد ہوئی مگر ان کے سوا تمام صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی وفات آپ کے سامنے ہوئی، حضرت زینب کے صاحبزادے اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کی وفات آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوئی، شفیق چچا حضرت حمزہ آپ کے سامنے غزوئہ احد میں بے دردی سے شہید اور ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے، احد کے بعد مدینہ کی عورتیں اپنے مقتول و شہید اعزہ کا ماتم کررہی تھیں مگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں ﴿لکن حمزة لابواکی لہ﴾حمزہ پر رونے والیاں نہیں تھیں، آپ کے سامنے آپ کے بہت سے جاں نثار اصحاب نے وفات پائی، حضرت مصعب بن عمیر نے جام شہادت نوش کیا، حضرت زیاد بن سکن نے احد کی لڑائی میں اپنا رخسار آپ کے قدموں پر رکھ کر آخری ہچکی لی۔

معرکہٴ احد کے شہداء میں حضرت انس بن نضر، سعد بن ربیع اور عمرو بن جموح رضی اللہ عنہم سرفہرست رہے، غزوئہ موتہ کے وفاشعار قائدین حضرت زید بن حارثہ، حضرت عبداللہ بن رواحہ اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہم بھی نعمت شہادت سے سرفراز ہوئے، مگر موت و شہادت کے ان اور ان جیسے بے شمار حوادث کے موقعوں پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے تربیت و فیض یافتہ صحابہ نے صبر و تحمل اور استقامت و ثبات کا بے نظیر ریکارڈ قائم کیا، اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے سامنے نمونہٴ عمل رکھ دیا۔

اولاد کی موت پر صبر

حضرت موسیٰ اشعری سے مروی ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ﴿اذا مات ولد العبد قال اللّٰہ تعالیٰ لملائکتہ : قبضتم ولد عبدی، فیقولون : نعم، فیقول: قبضتم ثمرة فوٴداہ؟ فیقولون: نعم، فیقول: فماذا قال عبدی: فیقولون : حمدک واسترجع فیقول اللّٰہ تعالیٰ : ابنوا لعبدی بیتًا فی الجنة وسموہ بیت الحمد﴾جب کسی کا بچہ وفات پاجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ کیا تم نے میرے بندے کے بچہ کی روح قبض کرلی؟ فرشتے کہتے ہیں: ہاں، اللہ فرماتا ہے کہ کیا تم نے اس کے دل کے ٹکڑے کو چھین لیا؟ فرشتے کہتے ہیں: ہاں، اللہ پوچھتا ہے کہ میرے بندے نے اس پر کیا کہا؟ فرشتے کہتے ہیں کہ اس نے آپ کی حمد بیان کی اور انا للّٰہ وانا الیہ راجعون کہا، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے کیلئے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد (تعریف کا گھر) رکھو۔ (ترمذی)

حضرت عتبہ بن عبداللہ، اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ﴿ما من مسلم یموت لہ ثلاثة من الولد لم یبلغوا الحنث الا تلقّوہ من أبواب الجنة الثمانیة من أیہا شاء دخل﴾(مسند احمد وابن ماجہ) جس مسلمان کے تین نابالغ بچے وفات پاجاتے ہیں (اور وہ صبر کرتا ہے) تو یہ بچے اسے جنت کے آٹھوں دروازوں پر ملیں گے، وہ جس دروازے سے چاہے گا داخل ہوجائیگا۔

حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿ما منکنّ امرأة تقدّم بین یدیہا ثلاثةً من ولدہا الا کانوا لہا حجاباً من النار، قالت امرأة: واثنین؟ قال: واثنین﴾(مسند احمد) جس عورت کے تین بچے وفات پاجائیں وہ اس کے لئے جہنم سے آڑ اور پردہ بن جائیں گے، ایک عورت نے پوچھا کہ اگر دو بچے وفات پاجائیں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر دو بچے وفات پاجائیں تو بھی یہی بات ہے کہ وہ جہنم سے رکاوٹ بن جائیں گے۔

کسی صحابی کے کم سن بچے کے انتقال کے موقعے پر حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن صحابی سے فرمایا ﴿ألا یسرّک أن لا تأتی بابا من أبواب الجنة الا وجدتہ عندہ یسعیٰ یفتح لک﴾ (مسند احمد ونسائی) کیا یہ تمہارے لئے مسرت کی بات نہیں ہے کہ تم جنت کے جس دروازے پر بھی جاؤ اس بچے کو وہاں دوڑتے ہوئے اور اپنے لئے جنت کے دروازے کھلواتے ہوئے پاؤ۔

حضرت خنساء مشہور شاعر ہیں، جنگ قادسیہ میں ان کے چاروں بیٹوں نے جامِ شہادت نوش کیا، جب یہ خبر ان کو ملی تو انھوں نے کہا کہ یہ میرے لئے شرف کی بات ہے، اور مجھے اللہ سے خیر کی امید ہے۔

شوہر کی موت پر صبر

حضرت ابوسلمہ کے وصال پر ان کی وفاشعار بیوی حضرت ام سلمہ کو بے پناہ غم لاحق ہوا، انھوں نے صبر سے کام لیا اور حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی یہ دعا پڑھی کہ ﴿اللہم آجرنی فی مصیبتی وأخلف لی خیرا منہا﴾اے اللہ مجھے اس مصیبت پر اجر دے اور مجھے اس سے اچھا بدل عطا فرما، چنانچہ پھر انہیں اللہ نے ابوسلمہ سے اچھا بدل عطا فرمایا اور وہ خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آگئیں۔

بیوی کی موت پر صبر

اس کاسب سے عمدہ نمونہ خود حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیوی حضرت خدیجہ کی وفات پر صبر ہے، حضرت خدیجہ خواتین میں سب سے پہلے مشرف باسلام ہوئیں، اور ہر طرح سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلمکا تعاون کیا، اور تسلی دیتی رہیں، ان کی وفات سے آپ کو بے حد غم ہوا مگر آپ نے صبر سے کام لیا، دیگر ازواج مطہرات کے سامنے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بار بار حضرت خدیجہ کا ذکر خیر فرماتے تھے اور ان کی خوبیوں کو بیان کرتے تھے۔

ابراہیم بن ادہم کا صبر

ایک بار سلطان ابراہیم با ادہم حج کے لئے آئے ہوئے تھے، قربانی کے دن حجامت بنوانے کی ضرورت ہوئی، اور ایک حجام سے بات ہوئی، لیکن جس وقت اس نے بال کاٹنے شروع کئے اسی وقت ایک مالدار آدمی جو اس کو ایک دینار اجرت دینے پر تیار تھا آگیا اوراس نے اس سے کہا کہ میری حجامت بنادو، پیسہ کی لالچ میں وہ ابراہیم ابن ادہم کو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوگیا اورجب اس سے فارغ ہوا تو پھر ان کی طرف آیا، ابھی تھوڑے ہی بال کاٹے تھے کہ ایک اور صاحب دینار آگیا اور وہ حجام ان کو چھوڑ کر پھر اس کے بال کاٹنے میں مشغول ہوگیا، غرض پانچ یاچھ مرتبہ یہ قصہ پیش آیا، آخر کسی نہ کسی طرح جب سلطان ابراہیم بن ادہم کے بال کاٹ کرفارغ ہوا تو انھوں نے مزدوری دوگنی دی، وہ یہ دیکھ کر بہت شرمندہ اور حیران ہوا کہ میں نے تو ان کو اتنا پریشان اور ذلیل کیا اور یہ الٹی مجھے دوگنی مزدوری دے رہے ہیں، اس نے پوچھا اے درویش ! آپ مجھے دو چند اُجرت کیوں دے رہے ہیں؟ میں نے طمعِ دنیاوی اور اہل دنیا کے خوف سے آپ کی حق تلفی کی تھی، مجھے تو آپ سے کچھ بھی ملنے کی امید نہ تھی، اگر دینا ہی ہے تو جتنا سب دیتے ہیں وہ آپ بھی دے دیں، دو چند دینے کی کیا وجہ ہے؟ حضرت ابراہیم بن ادہم نے جواب دیا، اُجرت تو حق محنت کی ہے اور زیادتی اس بات کی کہ جب تم مجھے چھوڑ کر کسی مالدار کی حجامت بنانے کے لئے جاتے تھے تو میرے نفس میں شدید غصہ اوراشتعال پیدا ہوتا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ تم کو کچھ کہہ دیں، لیکن میں نے اپنے نفس کو شکست دینے کے لئے صبر سے کام لیا اور صابرین کا درجہ بہت بڑا ہے اور یہ سب مجھے تمہاری بدولت حاصل ہوا، اس لئے درحقیقت تم میرے دوست ہو،اور اجرت میں اضافہ کی یہی وجہ ہے۔(۲۰)

اسلاف کے صبر و تحمل اور استقامت کے یہ چند نمونے ہیں جو ہر مدعیٴ اسلام کی رہنمائی کا سامان ہیں۔

$$$

حواشی

(۱)     کنز العمال : ۲/۳۶۸۹۔

(۲)    صبر و استقامت ، ص:۱۰۷، ترجمہ : عبدالستار قاسمی۔

(۳)    تاریخ بغداد: ج:۳، ص: ۳۱۷، تذکرة الحفاظ، ج:۲، ص: ۶۵۲۔

(۴)    العبر فی خبر من غبر، ج:۲، ص: ۷۰، میزان الاعتدال، ج:۲، ص: ۶۰۰۔

(۵)    بشر الصابرین : ۵۹۔

(۶)    وبشر الصابرین بحوالہ ابن ماجہ : ۵۹۔

(۷)    ایضاً بحوالہ بیہقی۔

(۸)    ایضاً بحوالہ مسند احمد : ۶۱۔

(۹)    ایضاً بحوالہ مسند ابی یعلیٰ : ۶۱۔

(۱۰)   وبشر الصابرین بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ، ص: ۶۱۔

(۱۱)    ایضاً بحوالہ طبقات ابن سعد: ۶۲۔

(۱۲)   ایضاً بحوالہ کنز العمال ۔

(۱۳)   ایضاً

(۱۴)   صفوة الصفوة : ۴/۳۸۔

(۱۵)   آل عمران : ۱۸۵، الانبیاء: ۳۵، العنکبوت : ۵۷۔

(۱۶)   وبشر الصابرین: ۶۶۔

(۱۷)  ایضاً بحوالہ ترمذی و مسند احمد و ابن ماجہ۔

(۱۸)   ایضاً بحوالہ بیہقی۔

(۱۹)   مختصر منہاج القاصدین : ۳۷۲۔

(۲۰)  اخلاق سلف سوم، ص: ۲۰۰، مرتبہ حضرت مولانا محمد قمرالزماں صاحب مدظلہ۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 89 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاول1426ہجری مطابق جون 2005ء