عیسائیت میں توحید و تثلیث کی کشمکش

 

از: ڈاکٹر عبدالخالق

ریڈر، شعبہ دینیات سنی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

 

صحف سماوی اور انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کی زندگیوں کے سراسر مطالعہ سے ہی یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ تمام انبیاء اور رسل نے اپنی اپنی امتوں کو ایک ہی معبود، اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف بلایا ہے۔ حضرت آدم سے لے کرخاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ آواز لگتی چلی آرہی ہے کہ یٰقوم اعبدوا اللّٰہ مالکم من الٰہٍ غیرہ (الاعراف، ہود، المومنون ۵۹،۶۵،۷۲) اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہی حکم ہر ایک رسول کے پاس بھیجا ہے کہ میرے علاوہ کوئی اورمعبود نہیں ہے پس میری ہی عبادت کرو ”وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الٰہ الا انا فاعبدون“ (الانبیاء ۲۵)، پس ہر ایک نبی یا رسول اپنی پوری زندگی توحید کی وکالت کرتا رہا اور اپنے آپ کو خدا کا نمائندہ بتا کر اپنی اتباع کی دعوت دیتا رہا، یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کی طرف اپنی اپنی قوموں کو بلاتا رہا اور عبادت کو اس طریقے کے مطابق کرنے کی دعوت دیتا رہا جس طریقے کو اللہ تعالیٰ نے وقت کی نبی کو سمجھایا تھا جیسا کہ حضرت نوح نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا نذیر مبین ہوں تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اسی سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ”قال یٰقوم انی لکم نذیر مبین ان اعبدوا اللہ واتقوہ واطیعون․․ (نوح ۲،۳)، اسی طرح سے سب سے آخر میں اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی ارسال فرمائی کہ اگر تم اے انسانوں اللہ سے محبت رکھتے ہو اور محبت یا عقیدت کے نتیجہ میں میری ہی عبادت کرتے ہو تو میری عبادت کو میرے رسول کے طریقے پر کرو اور یہ کہ میرے رسول کی اطاعت حقیقت میں میری ہی اطاعت ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ ویغفرلکم ذنوبکم واللّٰہ غفور رحیم قل اطیعوا اللّٰہ والرسول فان تولوا فان اللّٰہ لایحب الکافرین (آل عمران ۳۱،۳۲)، اور اللہ کا ہی یہ بھی فرمان ہے ”من یطع الرسول فقد اطاع اللہ“ (النساء ۸۰) اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کی عبادت اور اطاعت کرنے والوں پر خاص طور پر آخرت میں کوئی رنج و غم نہ ہوگا اور جو اس کی عبادت اور اطاعت نہیں کرے گا اس کو خاص طور پر آخرت میں بڑی بھاری سزا بھگتنی پڑے گی یعنی ایسے لوگوں کو جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رشد و ہدایت کے واسطے وقتاً فوقتاً اپنے منتخب بندوں کو بھیجتا رہا ہے اور مندرجہ بالا حکم یعنی توحید کا پیغام ان تک پہنچاتا رہا ہے بعض کے متبعین دنیا سے معدوم ہوچکے ہیں اور بعض کے کسی نہ کسی شکل میں آج بھی دنیا میں موجود ہیں اس وقت پورے عالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور اپنے آپ کو توحید پرست بھی کہتے ہیں؛ لیکن تینوں کا توحید کا نعرہ یا کلمہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متبعین جو اپنے آپ کو بنی اسرائیل سے متعلق سمجھتے ہیں اور دنیا ان کو یہودی (Jews) کہتی ہے۔ اپنے توحید کے کلمے کو اس طرح ادا کرتے ہیں ”اے بنی اسرائیل سنو! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے تو سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ“۔ لیکن قرآن کریم جو کتب سماوی میں سب سے آخری کتاب ہے وہ اس امر کا دعویٰ کرتا ہے کہ یہود نے حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا بنالیا تھا اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”وقالت الیہود عزیر ابن اللّٰہ“ (التوبہ: ۳۰) اور اسی طرح نصاریٰ بھی توحید کا تو دم بھرتے ہیں لیکن خداوند قدوس کا اظہار تین شکلوں میں مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کو ایسا کہنے سے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”ولا تقولوا ثلٰثة انتہوا خیراً لکم انما اللّٰہ الٰہٌ واحد“ (النساء: ۱۷۱)، نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کو ایک ماننے کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کا بیٹا بھی مانا ہے اور بعض خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کو خدا کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے نصاری کو ایسا کہنے سے منع کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”یا اہل الکتاب لاتغلوا فی دینکم ولا تقولوا علی اللّٰہ الا الحق ․․․․ سبحانہ ان یکون لہ ولد“ جس طرح سے یہود نے حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا قرار دیا اور ان کو اللہ تعالیٰ نے ایسا کہنے سے منع کیا اسی طرح سے نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا کہنے سے منع کیا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ”وقالت الیہود ․․․․ وقالت النصاریٰ المسیح ابن اللّٰہ ․․․ قاتلہم اللّٰہ انی یوفکون ․․․․ وما امروا الالیعبدوا الٰہا واحدًا لا الہ الا ہو سبحانہ عما یشرکون“ (التوبہ: ۳۰،۳۱) یہاں ہم اسلام اور یہودی مذہب میں توحید وغیرہ کے عقیدے کو زیر بحث نہیں لارہے ہیں بلکہ عیسائی مذہب میں ان کے زعم کے مطابق ان کا عقیدئہ توحید جس کا اظہار وہ تثلیث کی شکل میں کرتے ہیں اس کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عیسائیت کا خدا تعالیٰ کے متعلق خود عیسائی مذہب کی امہات الکتب کی روشنی میں عقیدئہ توحید ہی تھا اور یہ کہ عقیدئہ تثلیث محض انسانی عقل و دماغ کی تخلیق ہے جو نصاریٰ کے لاکھ دعوے کے باوجود کہ وہ توحید کی طرف مرکوز ہے اور ایک ہی خدا کی عبادت کی تعلیم دیتی ہے غلط ہے۔ بلکہ ان کی توحید کی تثلیث نما شکل یہ اظہار توحید کے بجائے شرک کی دعوت دیتی ہے جیسا کہ عملاً ہوبھی رہا ہے۔ مندرجہ ذیل بیان سے انشاء اللہ ثابت ہوجائے گا کہ عیسائیت میں توحید و تثلیث کی کشمکش کی تاریخ کتنے خونی مراحل سے گذری ہے اور کس طرح اہل تثلیث اہل توحید پر غالب آگئے اور یہ کہ موجودہ زمانے میں یہ کشمکش کس منزل سے گذررہی ہے۔ پس بیان شروع کرنے سے قبل یہ بتانا زیادہ مناسب ہے کہ نصاریٰ کے مطابق آخر تثلیث ہے کیا۔

تثلیث Trinity :

خدا بیک وقت ایک اکائی جوہر بھی ہے اور اسی آن اپنی ذات یا وجود میں تین مختلف اقانیم بھی رکھتا ہے، بہت سادہ الفاظ میں یہ ایک تین میں اورتین ایک میں کاعقیدہ ہے۔

One in three and three in one

روایتاً نصاری کے عقیدے کے مطابق ایک تین اقانیم مندرجہ ذیل ہے:

خدا - باپ                          خدا - بیٹا                    خدا - روح القدس

نصاریٰ کے عقیدہ کے مطابق جو خدا اپنے آپ کو صرف توحید کی شکل میں ظاہر کرتا رہا (کائنات کی ابتداء سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا میں پیدا ہونے سے قبل تک) اسی خدا نے اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام کے پیدائش کے بعد تین شکلوں (باپ، بیٹا، روح القدس) میں ظاہر کیا۔نصاریٰ کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ یہ تینوں اقانیم الٰہی عنصر سے بھرپور ہیں (All three are Divene) اور یہ کہ تینوں کا جوہر ایک ہے (All three are of the same substnse) اوراس کے باوجود کہ یہ تینوں برابری کے ساتھ عبادت کے مستحق ہیں (Three worship equally) تینوں الگ الگ خدا، یا دیوتا نہیں بلکہ ایک ہی ہیں۔

اب ہم سب سے پہلے یہودیت اور عیسائیت یعنی اہل کتاب کے یہاں متفق علیہ مقدس کتاب (اہل اسلام کے نزدیک محرف) بائبل میں ہی سب سے پہلے اس عقیدے کو تلاش کرنا چاہتے ہیں بائبل کے بڑے اور پہلے حصہ یعنی عہدنامہ قدیم میں کتاب تخلیق (Genesis) سے لے کر کتاب ملاکی (Malachi) تک ایک جگہ بھی عقیدہ تثلیث کا کوئی نام ونشان تک نہیں ملتا اور ویسے بھی یہود اپنے آپ کو ہمیشہ سے توحید کا علم بردار کہتے چلے آئے ہیں اور کیونکہ نصاریٰ یا کم سے کم عیسائیت کے اول دور کے نصاریٰ اور حواریین نسلاً یہود سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے یہ بات عقلاً اور قیاساً بھی صحیح معلوم ہوتی ہے کہ وہ لوگ بھی توحید ہی کے پرستار رہے ہونگے، اناجیل اربعہ کے مطالعے سے یہ حقیقت اور بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے رفع الی السماء سے قبل کسی بھی ایک مقام پر توحید کے بجائے تثلیث کا اظہار کرتے ہوئے نظر نہیں آتے؛ بلکہ ہمیشہ توحید ہی کا اظہار کرتے ہیں اور اسی کی طرف بنی اسرائیل کو بلاتے ہیں۔ مثلاً انجیل متیّٰ باب ۱۲ آیت ۲۹-۳۰ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ اس طرح محفوظ ہیں:

”خدا تعالیٰ کے احکام میں سب سے پہلا حکم یہ ہے کہ اے بنی اسرائیل سنو! خدا وند ہمارا خدا صرف ایک ہی خدا ہے اور تم اپنے خداوند سے اپنے پورے دل اور اپنی پوری روح اور اپنی پوری جان اور دماغ سے پیار کرنا۔“ اسی طرح انجیل یوحنا باب ۱۴ آیت ۴۴ میں عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ اس طرح محفوظ ہیں: ”عیسیٰ علیہ السلام نے زور سے چلاکر کہا کہ وہ شخص جو مجھ میں یقین رکھتا ہے وہ مجھ میں یقین نہیں رکھتا؛ بلکہ اس ذات میں یقین رکھتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے․․․․ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں بولتا ہوں بلکہ اپنے آسمانی باپ (یعنی خدا کی طرف سے) بولتا ہوں جس نے مجھے بھیجا ہے۔“ اسی انجیل یوحنا کے باب ۱۴ آیت ۲۹ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: ”باپ (خدا) میرے مقابلے میں بڑا ہے۔ (Father is greater then I)

موجودہ عیسائیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سب سے مشہور و معروف شخصیت سینٹ پال کی ہے (St. Paul) سینٹ پال جس کو نصاریٰ اپنے عقیدے تثلیث کا موجد یا علمبردار اول کہتے ہیں وہ بھی اپنے خطوط میں کہیں پر بھی واضح طور پر تثلیث کی دعوت نہیں دیتا؛ بلکہ کورنتھو ں کے نام اپنے پہلے مکتوب میں یہ لکھتا ہے کہ (Three is name of three God but one) یعنی کوئی دوسرا خدا نہیں بلکہ صرف ایک ہی خدا ہے اور یہ کہ دوسروں کے لیے بہت سے آقا اور دیوی دیوتا ہوسکتے ہیں؛ لیکن ہمارے لئے صرف ایک خدا ہے (جو ہمارے لئے باپ کا درجہ رکھتا ہے) ساری مخلوق کا اسی سے صدور ہوتا ہے اور اسی کی طرف ہم سب کو جانا ہے“ (سینٹ پال کا یہ آخری جملہ اس اسلامی عقیدے سے بہت کچھ مطابقت رکھتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور اسی کے پاس ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے، یعنی انا للّٰہ و انّا الیہ راجعون) (البقرہ: ۱۵۶)

افیسیوں کے نام خط میں سینٹ پال لکھتا ہے: One God and father of all who is over all and throuh all and in all. یعنی ایک خدا جو سب کا باپ ہے وہی سب کے اوپر ہے اور سب میں وہی دائر وسائر ہے۔ افیسیوں کے نام خط باب ۴ آیت۶۔ اسی طرح ٹائم وتھی کے نام اپنے پہلے خط میں سینٹ پال لکھتا ہے: ”کیونکہ خدا صرف ایک ہی ہے اور انسان اور خدا کے درمیان واسطہ بھی صرف ایک ہی ہے یعنی یہی مسیح جو بذات خود انسان ہے ۔ باب۲ آیت ۴-۵۔

مندرجہ بالا اقوالِ پال سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خدا کے علاوہ بھی اور خدا ہے یا عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں یا روح القدس بذات خود خدا ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان جملوں میں وہ صرف خدا اور بندوں کے درمیان ایک واسطہ قرار دیتا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کو ایک انسان یا بندہ مانتا ہے پس یہ ہے موقف توحید کے سلسلہ میں عیسائیت کے مسیح ثانی کا کہ صرف توحید ہی توحید کا وہ نام لیتا ہے تثلیث کا ذکر تک اس کی زبان پر نہیں آرہا ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کے بعد روح القدس کے نزول کے وقت (Perntecost)یعنی عید خمیس کے موقع پر سینٹ پیٹر نے مختلف مقامات سے آئے ہوئے بیت المقدس میں مجتمع یہودی زائرین کے سامنے جو تقریر کی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بظاہر تم لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دیدی؛ لیکن خدا تعالیٰ نے اس کو دوبارہ زندہ کردیا اور موت کے دکھ درد سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد کردیا۔ اور جو شخص بھی خدا کا نام لے گا وہ نجات پائے گا۔

سینٹ پیٹر کے الفاظ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ تو خدا تصور کئے گئے ہیں، نہ ہی خدا کا بیٹا اور نہ ہی روح القدس ؛ بلکہ خدا کی ایک مخلوق یا بندہ جسے یہود نے قتل کردیا تھا اور خدا تعالیٰ نے اسے دوبارہ زندہ کردیا۔ اسی طرح یہودی کونسل کے سامنے تقریر کرتے ہوئے سینٹ پیٹر نے فرمایا کہ ہمیں انسانوں کے بجائے خدا کی بات ماننی چاہئے، جو ہمارے باپ داداؤں کا خدا ہے اور جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ زندہ کردیا، یعنی وہ مسیح جس کو تم نے اپنے زعم و ظن کے مطابق قتل کردیاتھا۔ (رسولوں کے اعمال باب ۲ آیت ۱۳-۳۹)

یہاں پر بھی سینٹ پیٹر حضرت مسیح کو خدا کی خدائی میں شریک کرنے کے بجائے خدا کی ایک مخلوق اور ایک مظلوم انسان قرار دیتا ہے جسے خدا نے اپنے مخصوص معجزہ سے دوبارہ زندہ کردیا۔

”موجودہ دور کے عیسائی اناجیل اربعہ میں سے انجیل متی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان الفاظ کو تثلیث کی بنیاد قرار دیتے ہیں جو الفاظ بقول متی کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے مصلوب ہونے کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر اپنے رفع الیٰ السماء سے قبل بطور نصیحت کے اپنے حواریین سے کہے وہ الفاظ اس طرح سے ہیں: زمین و آسمان کا مکمل اختیار مجھے دیدیاگیا ہے اس لئے تم جاؤاور تمام اقوام کو میرے شاگرد بناؤ اور ہر مقام پر لوگوں کو باپ بیٹے اور روح القدس (Father's and holy Spirit) کے نام پر بپتسمہ (Baptism) دلاؤ اور ان کو سکھلاؤ وہ سب کچھ جس کا حکم میں تم کو دے چکا ہوں اور تم مطمئن رہواور بھروسہ رکھو میں ہمیشہ زمانے کے آخر تک تمہارے ساتھ رہوں گا۔“ (انجیل متی باب ۲۸ آیت ۱۸-۱۹-۲۰)

سینٹ پال کے عہدنامہ جدید میں شامل چودہ خطوط میں سے ایک خط یعنی کورنتھوں کی نام دوسرے خط میں سینٹ پال کے مندرجہ ذیل الفاظ کو بھی نصاریٰ تثلیث کی بنیاد قرار دیتے ہیں اس خط کے باب ۱۳ آیت ۱۴ میں سینٹ پال کہتا ہے کہ ”ہمارے آقا عیسیٰ مسیح کا فضل اور خدا کا پیار اور روح القدس کی صحبت تم سب کے ساتھ ہمیشہ رہے۔“

نصاریٰ کی یہ دونوں کتابیں یعنی انجیل متی اور سینٹ پال کا کورنتھوں کے نام خط امہات الکتب میں شامل ہیں جن کی تقدیس ان کے یہاں مسلم ہے۔ اگر انجیل متی میں مذکور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اور کورنتھوکے نام منسوب سینٹ پال کے خط کے الفاظ کو صحیح بھی مان لیا جائے تو ان دونوں حضرات کے دوسرے اقوال اور ان اقوال میں واضح تضاد نظر آتا ہے اور کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انجیل متی میں مذکور الفاظ مصلوب ہونے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کے وقت ہیں لہٰذا ان کی وہ حیثیت نہیں ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان الفاظ کی ہے جو آپ اپنی اصلی دنیاوی زندگی میں اہل اسلام کے مطابق رفع الی السماء سے قبل اور نصاریٰ کے مطابق مصلوب ہونے سے قبل فرمایا ہے۔ جہاں تک سینٹ پال کے دعائیہ الفاظ کا تعلق ہے وہ بھی دعائیہ الفاظ ہی ہیں دعوے کی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ سینٹ پال کے ہی دوسرے الفاظ یہودی کونسل اور رومی حکام کے سامنے توحید سے بھرپور ہیں۔

عقیدئہ تثلیث کے رائج ہونے (وجود میں آنے) کی اصل وجہ یا وجوہات مندرجہ ذیل ہیں: (۱) نصاریٰ یا حواریین کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر جانے کے بعد جلد ہی واپس آئیں گے جیسا کہ اناجیل اور رسولوں کے اعمال (باب۱ آیت ۱۱) میں مذکور عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی کے عقیدے سے ظاہر ہے اور انجیل متی کے باب ۲۸ کی آیت ۲۰ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میں زمانہ کے اخیر تک تمہارے ساتھ رہوں گا اس لئے انھوں نے یا بعد میں آنے والے لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام بھی خدا کے نام کے ساتھ جوڑلیا کہ جیسے خدا تعالیٰ ہمیشہ انسانوں کے ساتھ رہتا ہے ایسے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ان کے ساتھ (نصاریٰ) کے ساتھ ہمیشہ رہیں گے۔

I am aluayswitl will you up to the end of time.

رسولوں کے اعمال نامی کتاب کے پہلے باب میں اور دوسرے باب میں مذکور روح القدس کے نزول کے بعد عیسائی امت یا عیسائی کلیسا کا وجود ہوا (باب۱) میں مذکور روح القدس کے بیان سے یہ واضح ہے کہ روح القدس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریین سے بات کرنے کے لئے بطور واسطے کے استعمال کیا ہے کیونکہ پہلے ہی مذکور متی کے بیان کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمیشہ نصاریٰ کے ساتھ رہیں گے۔ تو جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمیشہ رہیں گے تو عیسائی امت کا رہبری کا ذریعہ بھی یعنی عیسیٰ علیہ السلام اور عیسائی امت کے درمیان واسطہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ لہٰذا روح القدس کو بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ساتھ خدا کے نام کے ساتھ شامل کرلیاگیا۔ یعنی نصاریٰ کی مدد یا رہبری ان کے زعم کے مطابق خدا۔ خدا، عیسیٰ علیہ السلام اور روح القدس کے ذریعہ ہوگی۔ اس لئے اقنوم ثلثہ بعد میں چل کر عقیدہ کی شکل اختیار کرگئے۔ حقیقت حال خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ (اسلامی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنا مصلوب یا قتل ہوئے آسمان پر اٹھالئے گئے تھے اور اب بھی آسمان میں زندہ ہیں اور قربِ قیامت میں تشریف لائیں گے اور روح القدس عام اسلامی عقیدے کے مطابق کوئی اور نہیں بلکہ حضرت جبرئیل علیہ الصلوٰة والسلام ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہمیشہ من جانب اللہ مدد کرتے رہے، اورآج بھی خدا کے حکم سے کسی کی بھی مدد کرسکتے ہیں)

ایک دوسری وجہ عقیدہ تثلیث کے وجود میں آنے کی یہ بھی رہی ہے کہ سینٹ پال نے جب فلسطین کے باہر رومی سلطنت کے دل و جگر دین مسیحی کو مروج کرنا چاہا تو اس نے دیکھا کہ وہاں پر یونانی فلسفہ یعنی افلاطونیت غالب تھی اور دور دراز علاقے میں پھیلی رومی شہنشاہیت میں بہت سے علاقوں اور ملکوں میں سورج کے دیوتاؤں کا داور ان کی پرستش کا عام رواج تھا وہ دیوتا ایک کنواری کے بطن سے پیدا ہوئے تصور کئے جاتے تھے ان کا ایک باپ بھی تصور کیاجاتا تھا۔ رومی شہنشاہیت میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان تک اور مصر میں بھی تین خداؤں، باپ، ماں اور بیٹا وغیرہ کا عقیدہ بہت عام تھا مثلاً ہندوستان میں برہمہ، بشنو، شیو کا عقیدہ تھا۔ برہمہ کو خالق کائنات، وشنو کو مربی کائنات اور شیو کو مہلک کائنات تصور کیاجاتا تھا۔ مصر میں Horas, Isis, Osiris (باپ، ماں، بیٹا) کا عقیدہ مروج تھا۔

Altis نامی سورج دیوتا Nana نامی کنواری کے بطن سے پیدا ہوا تھا اور اس کا اکلوتا بیٹا اور نجات دہندہ تصور کیا جاتا تھا، چوبیس مارچ اس کی موت کا دن تصور کیاجاتا تھا اور مرنے کے بعد اس کا دوبارہ زندہ ہونا بھی تصور کیاجاتا تھا جس طرح نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ واضح Dionysius کا عقیدہ ہے وہ جو پیٹر کا اکلوتا بیٹا کہلاتا ہے اس کے حکم سے ڈائنس کی پیدائش Demeter نامی کنواری کے بطن سے پچیس دسمبر کو ہونا بتاتی ہے اور جسے الفا اور ومیگا کہا جاتا ہے اس کے متعلق تمام تہواروں میں شراب ایک اہم مشروب مانی جاتی ہے اس کا قتل انسانوں کی نجات کے لئے تصور کیا جاتا ہے۔ اور قتل کے بعد اس کا دوزخ جانا اور پھر دوبارہ زندہ ہونا بھی یقین کیا جاتا ہے یعنی اس کے متعلق تثلیث یہ ہے: (۱) جوپیٹر Jupiter (۲) Demeter (۳) Dionysius یعنی باپ، ماں اور بیٹا۔

اس طرح یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہے کہ مسیحیت مغربی ایشیا کوچک کے ساتھ ساتھ جنوبی یوروپ اور شمالی افریقہ کی قبل از تاریخ مذہبی اور سماجی زندگی سے متاثر ہوئی ہے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام توحید خالص کے علمبردار کی حیثیت سے اور قاطع بدعات کی شکل میں نمودار ہوئے اس لیے نصاریٰ کے شعوری اور غیر شعوری طور پر شرک و بدعات سے متاثر ہونے کے باوجود ایک طبقہ خوف و ہراس، طمع ولالچ سے بے نیاز ہوکر کسی نہ کسی شکل میں توحید کو زندہ رکھے ہوا ہے اور آج تک یوروپ اور امریکہ میں کم تعداد میں ہی سہی لیکن موجود ہے، حتیٰ کہ اس فرقے سے تعلق رکھنے والے (Unitarian) تقریباً پانچ صدور امریکہ اب تک ہوچکے ہیں مسیحیت میں اہل توحید اور اہل تثلیث کی کشمکش کئی سو سالوں تک چلتی رہی جیسا کہ مندرجہ ذیل تاریخی اور بائبلی حقائق سے ثابت ہے۔

(۱) ۳۲/ میں اس وقت کی اناجیل میں عیسیٰ کا یہ بیان ہے ”میں اپنے باپ اور تمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کی طرف صعود کررہا ہوں۔

(۲) ۵۷/ میں St. Poul نے اپنے خط میں لکھا تھا ، ایک کے علاوہ کوئی اور خدا نہیں ہے ہمارے لئے صرف ایک خدا ہے جو باپ بھی ہے اور بیٹا بھی ہے اور وہ عیسیٰ مسیح ہے“

(۳) ۹۴/ میں St. Dalimoof نے اس وقت لکھا تھا ”مسیح خدا کی طرف سے مبعوث ہوا تھا اور حواریین مسیح کی طرف سے مبعوث ہوئے۔“

(۴) ۱۲۰/ میں اس زمانے کی کلیسا نے حواریین کا کلمہ ایمان یہ بیان کیا تھا میں خدا پر یقین کرتا ہوں جو سب سے بلند مرتبہ باپ ہے۔“

(۵) ۱۵۰/ میں جسٹس مارٹن نے یونانی فلسفے کو سیدھی سادھی عیسائیت میں داخل کرنا شروع کیا۔

(۶) ۱۷۰/ اس زمانے میں سب سے پہلے مسیحی ادب میں Trias کا لفظ داخل ہوا۔

(۷) ۲۰۰/ میں ٹرتولین نے Triritas کا لفظ استعمال کیا۔

(۸) ۲۳۰/ میں St. Origan نے خدا کے بجائے حضرت عیسیٰ سے دعائیں مانگنے کے خلاف لکھا۔

(۹) ۲۶۰/ میں St. Tsigaru نے لکھا تھا کہ باپ بیٹا اور روح القدس ایک ہی خدا کے تین نام ہیں۔

(۱۰) ۳۰۰/ اس زمانہ تک کلیسا میں تثلیث کی شکل میں کوئی دعا نہیں مانگی جاتی تھی اور نہ ہی کوئی عبادت تثلیث کے نام پرکی جاتی تھی۔

(۱۱) ۳۲۰/ اس زمانہ میں Uesebius لکھتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنے باپ کے سچے خدا ہونے کی تعلیم دیتے ہیں اور صرف اسی کی عبادت کے لئے اصرار کرتے ہیں۔

(۱۲) ۳۲۵/ اس زمانہ میں Niscan کی کونسل نے عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا خدا (God of God Veyry God of very God) (اسی خدا کا وہی خدا) پکارنے پر اتفاق کیا۔

(۱۳) ۳۵۰/ اس زمانہ میں عقیدئہ تثلیث کے سلسلہ میں کلیسا میں بہت فساد ہوا۔

(۱۴) ۳۷۰/ اس زمانہ میں یہ بات لکھی گئی کہ حمدوجلال باپ کے لئے، بیٹے کے لئے، اور روح القدس کے لئے زیبا ہے اوراس فرمان پر بدعت کا الزام بھی لگایاگیا۔

(۱۵) ۳۸۱/ قسطنطنیہ کی کونسل نے اس زمانہ میں ایک خدا میں تین اقانیم کا عقیدہ وضع کیا۔

(۱۶) ۳۸۳/ اس زمانہ میں تھیوڈوسیس Theodosius نامی قیصر روم نے ان تمام لوگوں کو جو تثلیث میں نہ تو یقین رکھتے تھے اور نہ ہی اس کی عبادت کرتے تھے سزا دینے کی دھمکی دی۔

تثلیث کی مذکورہ بالا تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحیت کے اوائل زمانہ میں توحید ہی کا بول بالا تھا۔ تثلیث تو کہیں کونے میں کھڑی ہوئی تھی جب یہود کے مقابلہ میں غیریہودیوں کی تعداد مسیحیت میں بڑھ گئی تو عقیدئہ توحید آہستہ آہستہ معدوم ہوکر تثلیث کی شکل میں ظاہر ہونے لگا حتیٰ کہ تقریباً پونے چار سوسال کے بعد رومی حکومت کے شہنشاہ اعظم نے بزور شمشیر توحید کو کالعدم قرار دلوادیا اور عقیدئہ تثلیث کو شاہی عقیدہ قرار دلواکر اسی کی عبادت رائج کرادی، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ واپس آنے پر انشاء اللہ خود نصاریٰ میں اہل توحید غالب ہوجائیں گے۔ اور حقیقی اسلام کی طرف رجوع کریں گے اور تثلیث جو شرک کی ایک شکل ہے شاید صرف تاریخ کے اوراق میں ہی سمٹ جائے۔

ان اللّٰہ علی کل شيء قدیر (البقرہ ۲۰۵)

قل یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم الا نعبد الا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّٰہ (آل عمران ۶۴)

کتابیات References

(۱)         معارف القرآن: حضرت مولانا محمد شفیع، مکتبہ مصطفائیہ دیوبند۔

(۲)        تاریخ اسلام: مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی۔

(۳)        تفسیر ابن کثیر: ابن کثیر۔

(۴)        The Glorious Quran : Abdul Majid Daryabadi

(۵)        The Holy Bible / English, Bible Cumbridge University Press. Oxford University Press- 1970.

(۶)        Commentry of the Holy Bible Lions Hand Book (U.S.A)

(۷)        Helley's Hand Book of the Bible. [Meaning & Commentry] (Protestantent)

(۸)        Ethical. Thesues in Six Religions Tradilions, Edited by P. Morgon & C. Lawton (N) Edin

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7، جلد: 89 ‏،  جمادی الاول‏، جماد ی الثانی 1426ہجری مطابق جولائی 2005ء