حرفِ آغاز

حرمت مصاہرت

(۳)

حبیب الرحمن اعظمی

 

الحرام لا یحرم الحلال پر ایک نظر:

زیر بحث مسئلہ میں جمہور کے موقف ”وطی الحرام یحرّم الحلال“ یعنی حرام وطی (بھی) حلال کو حرام بنادیتی ہے کے معارضہ میں عام طور پر حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی سند سے مروی روایت ”الحرام لا یحرّم الحلال“ یعنی حرام حلال کو حرام نہیں بناتا، پیش کی جاتی ہے۔ بلکہ بعض معاصر نے (جو صحیحین کی احادیث کے بجائے کسی اور صحیح حدیث سے استدلال پر چیں بجبیں ہوجاتے ہیں) اپنی ایک اخباری تحریر میں اسے اسلام کا ایک ایسا اصول بتایا ہے جسے کسی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے مناسب ہے کہ اس بحث و تحقیق کے آخر میں اس روایت پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔

امام ابن الجوزی اپنی مشہور محققانہ تصنیف ”تحقیق احادیث التعلیق“ میں لکھتے ہیں:

احتج الخصم بحدیثین :

(الف) الحدیث الاول: قال الدار قطنی: حدثنا عثمان بن احمد الدقاق، ثنا جعفر بن محمد بن الحسن الرازی ثنا الہیثم بن الیمان(۱)، ثنا عثمان بن عبدالرحمن، عن الزہری، عن عروة عن عائشة قالت: قال رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ”لایفسد الحلال بالحرام“(۲)

ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول خدا  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال فاسد نہیں ہوتا حرام سے۔

(ب) طریق آخر: قال الدار قطنی: وثنا (ابوبکر یوسف بن یعقوب بن اسحاق ابن بھلول، نا جدی، ثنا عبداللہ بن نافع مولی بنی مخزوم عن المغیرة بن اسماعیل (بن ایوب بن سلمة) عن عثمان بن عبدالرحمن عن ابن شہاب عن عروة عن عائشة ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سُئل عن الرجل یتبع المرأة حرامًا، ثم ینکح ابنتہا، او یتبع الابنة ثم ینکح امہا، قال: ”لا یحرم الحرام الحلال“ (ج۳، ص: ۱۸۰، ۱۸۱)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوٰة والسلام سے پوچھا گیا کہ ایک شخص ایک عورت سے حرام کاری کے لیے اس کے پیچھے لگا رہا تو اس کے بعد اس عورت کی بیٹی سے وہ نکاح کرسکتا ہے یا ایک مرد ایک لڑکی کے پیچھے لگا رہا تو کیا اس کے بعد وہ اس لڑکی کی ماں سے نکاح کرسکتا ہے؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ حرام کام حلال کو حرام نہیں کرے گا۔

(ج) الحدیث الثانی : قال الدارقطنی: وحدثنا الحسین بن اسماعیل، ثنا علی بن احمد الجواربی، ثنا اسحاق بن محمد الفروی، ثنا عبداللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ”لا یحرم الحرام الحلال“

ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”حرام نہیں بناتا ہے حلال کو حرام“۔

حضرت عائشہ صدیقہ و ابن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ان دونوں روایتوں کو نقل کرنے کے بعد امام ابن الجوزی لکھتے ہیں (فریق مخالف کی جانب سے بطور دلیل پیش کردہ ان دونوں روایتوں کا) جواب یہ ہے کہ

پہلی حدیث جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دو سندوں سے روایت کی گئی ہے اس کی دونوں سندوں میں ایک راوی عثمان بن عبدالرحمن و قّاصی ہیں جن کے بارے میں ”قال یحیی بن معین لیس بشیء، کان یکذب“ وضعفہ ابن المدینی جدًّا، وقال البخاری و النسائی والرازی وابوداوٴد، لیس بشیء، وقال الدار قطنی متروک، وقال ابن حِبّان: کان یروی عن الثقات الموضوعات لا یجوز الاحتجاج بہ

ترجمہ: امام جرح و تعدیل یحییٰ بن معین نے کہا وہ بالکل لائق توجہ نہیں وہ جھوٹ کہتا تھا، امام بخاری کے استاد علی ابن المدینی نے اس کی بہت زیادہ تضعیف کی ہے، اور امام بخاری، امام نسائی، امام ابوحاتم رازی اور امام ابوداؤد ان سب نے کہا وہ قطعاً لائق توجہ نہیں۔ (انتہی)

علاوہ ازیں امام ذہبی میزان الاعتدال، ج:۳، ص: ۴۳ اور الکاشف ،ج:۲، ص: ۱۰ میں لکھتے ہیں ”قال البخاری ترکوہ“ امام بخاری نے فرمایا کہ محدثین نے اس سے روایت لینی ترک کردی تھی۔ امام بخاری نے خود یہ تصریح کی ہے کہ جس کے متعلق میں یہ لفظ استعمال کروں اس سے روایت کرنی جائز نہیں، نیز حافظ ابن حجر تقریب، ص:۳۸۵ رقم الترجمہ ۴۴۹۳ میں لکھتے ہیں: ”متروک و کذّبہ ابن معین“ یہ متروک ہے اور ابن معین نے اس کو جھوٹا بتایا ہے۔

پھر اس حدیث کے مرکزی راوی امام ابن شہاب زہری نے صاف لفظوں میں اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ اس حدیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں چنانچہ امام عبدالرزاق نے مصنّف میں اپنے شیخ معمر بن راشد کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ قلت لابن شہاب اَتأثرہ (ای لا یحرم الحرام الحلال) عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ فانکر ان یکون حدثہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولکن سمعہ من اناس من الناس“(ج:۷، ص: ۱۹۹)

ترجمہ: معمر بن راشد کا بیان ہے کہ میں نے ابن شہاب زہری سے دریافت کیا کہ کیا آپ یہ حدیث رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں تو انھوں نے اس کو نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم سے روایت کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ اس بات کو لوگوں سے کہتے ہوئے سنا ہے۔

علاوہ ازیں امام بیہقی نے اپنی سند سے یونس بن یزید کا ایک قول ذکر کیا ہے جس سے معمر بن راشد کے بیان کی تائید و موافقت ہوتی ہے، بیہقی کے الفاظ یہ ہیں:

عن یونس بن یزید عن ابن شہاب انہ سئل عن الرجل یفجر بالمرأة ایتزوج ابنتہا؟ قال: قد قال بعض العلماء ”لایفسد اللّٰہ حلالا بحرام“ (سنن الکبری، ج:۷، ص: ۱۶۹)

ترجمہ: یونس بن یزید کا بیان ہے کہ ابن شہاب زہری سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے کسی عورت سے حرام کاری کی تو کیا وہ اس عورت کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے؟ تو انھوں نے فرمایا بعض علماء کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ حرام سے حلال کو فاسد و حرام نہیں کرتے۔

اس حدیث کی سند کے ایک راوی عثمان بن عبدالرحمن وقّاصی پر ائمہ جرح و تعدیل کی اس شدید جرح اور سند کے مرکزی راوی امام زہری کی اس وضاحت کے بعد کہ وہ اس حدیث کو مرفوعاً روایت نہیں کرتے، مسئلہ زیربحث میں اس سے استدلال درست نہیں چہ جائیکہ اسے اسلام کے اصول کلی کے طور پر پیش کیا جائے۔

دوسری حدیث (جو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی جاتی ہے) پر بحث کرتے ہوئے امام ابن الجوزی حنبلی لکھتے ہیں:

وفی الحدیث الثانی: عبد اللّٰہ بن عمر (بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب العمری) وہو اخو عبید اللّٰہ، قال ابن حبان: فحش خطوہ فاستحق الترک، وفیہ اسحاق الفروی، قال یحییٰ: لیس بشیء، کذاب، وقال البخاری ترکوہ“ (تنقیح تحقیق احادیث التعلیق)

ترجمہ: دوسری حدیث کی سند میں عبداللہ بن عمر (العمری) ہیں جو عبید اللہ بن عمر العمری کے بھائی ہیں، ابن حبان نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ کثرت سے غلطی کرتے تھے اس لیے مستحق ترک ہوگئے، نیز اس کی سند میں اسحاق (ابن محمد) الفروی ہیں (جو عبداللہ بن عمر العمری سے روایت کرتے ہیں) ان کے بارے میں (امام جرح و تعدیل) یحییٰ بن معین نے فرمایا یہ لائق توجہ نہیں، کذاب ہے، اورامام بخاری نے فرمایا کہ محدثین نے ان سے روایت ترک کردی ہے۔

(ضروری تنبیہ) حافظ ابوالفرج ابن الجوزی نے اس حدیث کی سند میں واقع راوی ”اسحاق بن محمد الفروی“ پرجو جرحیں نقل کی ہیں اس نقل میں ان سے چوک ہوگئی ہے، امام جرح و تعدیل یحییٰ بن معین اور امام بخاری نے یہ جرحیں ”اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ“ پر کی ہیں جو زیر نظر راوی اسحاق بن محمد بن اسماعیل بن عبداللہ بن ابی فروہ کے دادا اسماعیل بن عبداللہ کے بھائی ہیں، غالبا دونوں کے ناموں میں یکسانیت کی بناء پر ان سے یہ غلطی ہوگئی، حافظ ابن الجوزی پر اعتماد کرتے ہوئے قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری، ج:۲، ص: ۵۵ میں یہی جرحیں اسحاق بن محمد الفروی کے متعلق درج کردی ہیں۔ امام بخاری نے خود صحیح بخاری میں اسحاق بن محمدالفروی سے روایت کی ہے تو پھر ان کے بارے میں ”ترکوہ“ لوگوں نے انھیں ترک کردیا ہے کی جرح کیسے کریں گے۔ (دونوں سے متعلق تفصیلات کے لیے دیکھئے تہذیب الکمال، ج:۱، ص: ۱۹۲، رقم الترجمہ ۳۶۱ و ص:۱۹۷،الرقم ۳۷۴، و تہذیب التہذیب، ج:۱، ص: ۲۱۸، الرقم ۴۰۲ و ص: ۲۲۵، الرقم ۴۱۶)

اسحاق بن محمدالفروی پر ائمہ جرح و تعدیل کی جرحیں ذیل میں ملاحظہ کیجئے:

حافظ ذہبی المغنی فی الضعفاء میں ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

قال النسائی: لیس بثقة، وقال ابوداوٴد: واہ، وقال ابوحاتم وغیرہ صدوق، قلت (القائل وہو الذہبی) روی عنہ البخاری فی صحیحہ، وقال الدار قطنی: ضعیف تکلموا فیہ (ج:۱، ص: ۱۱۱، الرقم ۵۷۹)

ترجمہ: امام نسائی نے کہا وہ ثقہ نہیں ہیں، امام ابوداؤد نے کہا کمزور ہیں، ابوحاتم الرازی وغیرہ نے کہا صدوق ہیں، خود امام ذہبی نے کہا امام بخاری نے ان سے صحیح بخاری میں روایت کی ہے، اور امام دارقطنی نے کہا ضعیف ہیں محدثین نے ان پرکلام کیا ہے۔

اورحافظ ابن حجر لکھتے ہیں:

قال ابوحاتم : کان صدوقا ولکن ذہب بصرہ فربّما لُقن وکتبہ صحیحة، وقال مرة: یضطرب، وذکرہ ابن حِبّان فی کتاب الثقات قلت: (القائل الحافظ) قال الآجرّی سألت ابا داوٴد عنہ فوہاہ جدا، ․․․ وقال النسائی: متروک، وقال الدار قطنی: ضعیف وقد روی عنہ البخاری و یُوبّخونہ فی ہذا، وقال الدار قطنی ایضا: لا یترک، وقال الساجی: فیہ لین، ․․․ وقال الحاکم عُیّب علی محمد اخراج حدیثہ وقد غمزوہ (تہذیب التہذیب، ج:۱، ص: ۲۲۵)

ترجمہ: ابوحاتم رازی نے کہا وہ صدوق تھے، لیکن نابینا ہوگئے تھے تو بسا اوقات ان کی غیرمروی روایت کے بارے میں کہا جاتاکہ یہ آپ کی مروی روایت ہے تو اسے مان لیتے تھے (محدثین کی اصطلاح میں اسی کو تلقین سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ راوی میں بڑا عیب شمار کیا جاتا ہے جس کی بناء پر وہ لائق احتجاج نہیں رہ جاتا) اور امام ابوحاتم نے ایک بار کہا کہ وہ مضطرب الحدیث ہیں، اور ابن حبان نے ان کا ذکر اپنی کتاب الثقات میں کیا ہے، حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ امام ابوداؤد کے شاگرد ابو عبید آجرّی کا بیان ہے کہ میں نے ان کے متعلق ابوداؤد سے سوال کیا تو انھوں نے ان کو بہت کمزور بتایا، اور امام نسائی نے کہا وہ متروک ہیں، اور دارقطنی نے کہا ضعیف ہیں اور بخاری نے ان کے واسطہ سے روایت کی ہے اور محدثین نے اس پر امام بخاری کی توبیخ کی ہے، اور دارقطنی نے یہ بھی کہا کہ یہ متروک نہیں ہیں، اور ساجی نے کہا ان میں کمزوری ہے اور امام حاکم نے کہا محدثین نے بخاری کے ان سے روایت کرنے پراعتراض کیا ہے۔ انتہیٰ

ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فی الجملہ صدوق ہیں (اور امام ابوحاتم رازی کی تصریح کے مطابق صدوق کی روایت بغرض بحث و نظر لکھی جائے گی دیکھئے کتاب الجرح والتعدیل، ج:۲، ص: ۳۷) اور ان کی کتاب صحیح تھی،اور نابینا ہوجانے کے بعد ان کا حافظہ لائق اعتبار نہیں رہ گیا تھا انھیں وجوہ سے ان کی سند سے روایت کی تخریج پر محدثین نے امام بخاری پر اعتراض کیا ہے۔ جس کا جواب حافظ ابن حجر نے ہدیة الساری مقدمہ فتح الباری میں ان الفاظ سے دیا ہے ”کأنہا مما اخذ عنہ من کتابہ قبل ذہاب بصرہ“ (ص:۵۵۰) امام بخاری کی ان سے مروی یہ روایت ممکن ہے ان روایتوں میں سے ہو جو ان کے نابینا ہونے سے پہلے ان کی کتاب سے لی گئی ہو۔ جس کاحاصل یہی ہے کہ حافظ ابن حجر ان کے ضعف کو بالخصوص نابینا ہوجانے کے بعد تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ ان کی سند سے امام بخاری کی تخریج کردہ روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اس حدیث میں دو راوی مسلسل یعنی اسحاق بن محمد الفروی،اور عبداللہ بن عمر العمری ضعیف ہیں۔ اگرچہ دونوں کا ضعف شدید نہیں ہے لہٰذا اگر سند میں ان میں سے صرف ایک ہوتا تو ایک حد تک یہ قابل قبول ہوسکتی تھی، لیکن اس اجتماع کی صورت میں یہ لائق احتجاج نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ان دونوں روایتوں سے مسئلہ زیر بحث پر استدلال صحیح نہیں ہے چہ جائیکہ انھیں قواعد الاصول کے طور پر پیش کیا جائے۔

یہ روایت اپنے عموم پر نہیں ہے:

اس موقع پر یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ اس روایت کا عام معنی مراد لینا صحیح نہیں ہے کیونکہ باتفاق فقہاء و محدثین بہت سے حرام امور ایسے ہیں جو حلال کو حرام کردیتے ہیں، ایسے چند امور بطور مثال ملاحظہ کیجئے:

(الف) ماہ رمضان کے دن میں بیوی یا باندی سے ہم بستری باتفاق اہل اسلام حرام ہے، جبکہ اس وطی حرام سے باتفاق حرمت مصاہرت کا ثبوت ہوجاتا ہے۔

(ب) بحالت حیض (ماہواری کی حالت میں) بیوی یا باندی سے جنسی عمل باتفاقِ مسلمین حرام ہے، اس وطی حرام سے سب کے نزدیک حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے۔

(ج) اپنی بیوی سے ظہار(۱) بلا اختلاف حرام و ناجائز ہے، جبکہ اس فعل حرام سے بیوی سے باتفاق ہم بستری حرام ہوجاتی ہے۔

(د) ردّت (یعنی اسلام سے پھرجانا نعوذ باللہ منہا) قطعی طور پر حرام ہے، اور اس فعل حرام سے باتفاق زوجہٴ مسلمہ حرام ہوجاتی ہے۔

(ھ) وطی بالشبہ (یعنی اندھیرے وغیرہ کی بناء پر غلطی سے بیوی کی ماں یا بیوی کی بیٹی سے ہمبستری) حرام و ناجائز ہے، اس وطی حرام سے بھی سب کے نزدیک حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے۔

(و) وطی بنکاح فاسد (یعنی وہ نکاح جسے شریعت نے صحیح قرار نہیں دیا ہے) بھی حرام و ناجائز ہے جبکہ سب کے نزدیک بلا اختلاف اس سے حرمت مصاہرت کا ثبوت ہوجاتا ہے۔

غرضیکہ باتفاق علماء اسلام حرام سے حلال کے حرام ہوجانے کی بیشمار صورتیں ہیں اس لئے ”الحرام لایحرّم الحلال“ کا یہ معنی کہ ”کوئی حرام، حلال کو حرام نہیں کرتا“ کسی کے نزدیک صحیح نہیں ہے، بلکہ سب کے نزدیک اس کا درست اور واقع کے مطابق یہ معنی ہے کہ بعض حرام، حلال کو حرام نہیں کرتے،اور اس متفقہ معنی کی صورت میں اس روایت سے زنا سے حرمت مصاہرت کے ثابت نہ ہونے پر استدلال کے لیے ضروری ہوگا کہ پہلے کسی دلیل شرعی سے یہ ثابت کیا جائے کہ ”زنا“ بھی بعض ان حرام کاموں میں سے ہے جو حلال کو حرام نہیں بناتے ہیں۔ یہ دلیل پیش کئے بغیر اس روایت سے استدلال از روئے اصول صحیح نہیں ہے۔

اس بحث و نظر سے یہ بات منقح ہوکر سامنے آگئی کہ زنا سے حرمت مصاہرت کے ثابت نہ ہونے پر یہ روایت سند اور معنی دونوں لحاظ سے دلیل بنانے کے لائق نہیں چہ جائیکہ اسے فقہ اسلامی کے قواعد اصول کے طور پر پیش کیا جائے۔

اوپر مذکور تفصیلات سے یہ بات روشن ہوگئی کہ مسئلہ زیر بحث کا تعلق فقہائے اسلام کی عقل رائے سے نہیں بلکہ براہ راست قرآن و حدیث، آثار صحابہ اور تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تصریحات سے ہے، اور اس میں کس صاحب ایمان کو کلام ہوسکتا ہے کہ سلف صالحین کی یہ جماعت قرآن وحدیث کے علم و فہم، اسلامی احکام کے عِلَل وحِکَم کے ادراک، نیز صدق و دیانت اور اسلام و مسلمانوں کی خیرخواہی میں جس بلند و بالا مرتبہ پرفائز تھی، بعد کی نسلیں بغیرکسی استثناء کے اس درجہ تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اس لیے فقہ اسلامی کی تاسیس اور تدوین و ترتیب میں ان کے آثار و اقوال سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ پھر فقہاء مجتہدین میں اس مذہب کے اختیار میں امام اعظم ابوحنیفہ اوران کے تلامذہ ہی نہیں بلکہ امیرالمومنین فی الحدیث اورامام مجتہد سفیان ثوری، امام اوزاعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ اوپر سطور میں ہم بتا چکے ہیں کہ امام سفیان ثوری اور امام اوزاعی رحمہما اللہ ان فقہائے مجتہدین اور ائمہ حدیث میں سے ہیں جن کے مذہب پر ایک زمانہ تک عمل کیا جاتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں امام دارالہجرة مالک بن انس رحمہ اللہ کے مذہب کے سب سے بڑے اور معتبر ترجمان ابن القاسم کی روایت کے مطابق امام مالک بھی مذکورہ ائمہ مجتہدین کے ہم نوا ہیں، اگرچہ جمہور مالکیہ امام مالک کے دوسرے قول پر عمل پیرا ہیں جو موٴطاء مالک میں مذکور ہے۔ پھر حافظ ابن حجر فتح الباری، ج:۱۲، ص: ۴۳ میں لکھتے ہیں ”ہو قول الجمہور“ یہی جمہور کا قول ہے اور شرح ابوداؤد المنہل کے تکملہ ”فتح الملک المعبود“ ج:۴، ص: ۴۸۱ میں علامہ امین محمود استاذ جامع ازہر مصر نے صراحت کی ہے کہ یہی جمہور صحابہ اور تابعین کا مذہب ہے، تو اس جمہور صحابہ، تابعین، ائمہ مجتہدین اور فقہائے محدثین کے اس مذہب منصور پر حالیہ دنوں کا یہ شور و غوغا آخر چہ معنی دارد؟

ہو ا ؤ ں  کا  ر خ  بتا ر ہا  ہے ضر و ر طوفان آرہا ہے

نگاہ رکھنا سفینہ والو! اٹھی ہیں موجیں کدھر سے پہلے

بجا شکایت:

یورپ کی فکری و تہذیبی غلامی میں گرفتار میڈیا جس نے ایک عرصہ سے اسلامی تہذیب وثقافت کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے، اس سے مسئلہ زیر بحث میں کسی سنجیدگی کی توقع کیونکر کی جاسکتی تھی، چنانچہ اپنی قدیم روایت کے مطابق اس نے اپنے آقاؤں کا حق ادا کرنے میں بڑی تندہی کا ثبوت دیا، اسی طرح جماعتِ اہل حدیث (غیرمقلدین) جس کے ایک طبقہ کو فقہ اسلامی کے متفقہ عظیم مجتہد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ایک صحیح العقیدہ معمولی درجہ کا مسلمان ماننا بھی گوارا نہیں، اس نے بھی اسلامی فقہ کو غبار آلود بنانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کردیں اور علمی و دینی مسائل میں بحث و نظر کے مسلمہ آداب کو بالائے طاق رکھ کر طعن و تشنیع کے جس قدر تیر ان کے ترکش میں تھے انھیں آزمانے میں پوری چابکدستی کا مظاہرہ کیا، اور اس کی قطعی پرواہ نہیں کی کہ ان کے اس رویہ سے غیروں میں اسلام کی کیا تصویر ابھرے گی۔

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

کشتی کسی  کی  پار  ہو یا درمیاں  ر ہے

اس موقع پر ہمارے بعض اصلاح پسند دانشوروں نے خاموشی کو اپنی دانشوری کی توہین سمجھا لہٰذا وہ بھی اس دنگل میں کود پڑے اور آج کے مغرب گزیدہ معاشرہ (جس میں بیٹی باپ سے محفوظ نہیں، بہن بھائی سے خائف ہے اور بھتیجی و بھانجی، چچا و ماموں سے ترساں ہے) کی اصلاح و درستگی کی دانشمندانہ فکر کرتے الٹے فقہ اسلامی کی اصلاح و تجدید کے درپئے ہوگئے، اور اپنی دانشوری کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ آوازہ بلند کیا کہ فقہ اسلامی کا یہ قدیم مجموعہ آج کے معاشرہ کی رہنمائی نہیں بلکہ ہم رکابی سے قاصر ہے اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ نئے اجتہاد کے ذریعہ اسے تازہ دم اوراس قابل بنادیا جائے کہ مغربی تہذیب سے ہم آغوش معاشرہ کا ساتھ دے سکے۔ اور حد تو یہ ہے کہ بعض وہ سیاسی دانشور جو انگریزی ترجمہ کی مدد کے بغیر قرآن و حدیث کی ایک سطر کا معنی سمجھ نہیں پاتے، شریعت اسلامی میں اجتہاد کے لیے پر تول رہے ہیں اور اپنے طور پر اس کا ایک مجتہدانہ خاکہ بھی پیش کردیا ہے ان کے تخیل کی اس بلندپروازی پر اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ

اپنی حدوں میں رہئے کہ رہ جائے آبرو

او پر کو  د یکھنا  ہے  تو پگڑی سنبھالئے

لہٰذا پہلے اپنے انداز اجتہاد کی مطلوبہ صلاحیتیں پیدا کیجئے پھر شوق سے اجتہاد کیجئے سنا اور مانا جائے گا۔

بعض اشکالات و مطالبات پر ایک نظر

(الف) زیر گفتگو مسئلہ میں احناف و حنابلہ بلکہ جمہور کے موقف کے معارضہ میں بڑی شد و مد کے ساتھ یہ بات کہی جارہی ہے کہ ”یہ ایسا اندھا فتویٰ ہے جو مجرم و غیرمجرم میں فرق کئے بغیر دونوں کو مورد سزا قرار دیتا ہے اس لئے از روئے عقل و انصاف یہ لائق تسلیم نہیں ہے۔“

بہ نظر ظاہر یہ ایک مضبوط اعتراض معلوم ہورہا ہے اسی لئے فقہ اسلامی کی دشمنی یا سادہ لوحی میں اسے خوب اچھالا جارہا ہے جبکہ یہ ایک نرا مغالطہ ہے، کسے معلوم نہیں کہ آج کی مہذب دنیا میں بعض جرائم کی سزا میں مجرم کو تختہٴ دار پر چڑھا دیا یا قتل کردیا جاتا ہے، کیونکہ قانون و انصاف کا فیصلہ یہی تھا لیکن قانون کے اس فیصلہ سے مجرم کی بے گناہ بیوی بیوہ اور اس کے معصوم بچے یتیم ہوگئے آخر اس بیچاری عورت نے کیا قصور کیا تھا جس کی پاداش میں اسے بیوگی کی صبر آزما اور کسمپرسی کی زندگی پر مجبور اور اس کے نادار و ناتواں بچوں کو بے سہارا بنادیاگیا؟ ان غرض پسند فرزانوں کو کون سمجھائے کہ یہ قانون کا اندھا پن نہیں بلکہ اس کا دور رس لازمی اثر ہے جس سے سزایافتہ مجرم کے بعض متعلقین متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ ایک ایسی مشاہد حقیقت ہے جس کے شعور کے لئے کسی غور و فکر کی بھی ضرورت نہیں لیکن یہ پرستان عقل و دانش فقہ اور علمائے فقہ کی دشمنی میں اس قدر مدہوش ہیں کہ انھیں یہ بھی پتہ نہیں کہ ان کے سر سے کیا نکل رہا ہے۔

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا

کچھ  نہ  سمجھے  خد ا  کرے کوئی

(ب) ”بعض حلقوں کی جانب سے بڑے پرجوش انداز میں یہ اصرار کیا جارہا ہے کہ اس مسئلہ پر صریح آیت قرآنی یا صریح حدیث سے دلیل پیش کی جائے بغیراس کے یہ فتویٰ نہ شرعی ہوگا اور نہ اس لائق کہ اسے قبول کیا جائے۔“

ہر پڑھا لکھا مسلمان جانتا ہے کہ سارے اہل سنت والجماعت کے نزدیک اصول فقہ بالفاظ دیگر شریعت کے دلائل چار ہیں: (۱) قرآ ن حکیم، (۲) حدیث رسول (فقہائے احناف اور بہت سارے دیگر فقہاء و محدثین کے یہاں بعض قیدوں کے ساتھ حضرات صحابہ بالخصوص خلفاء اربعہ رضوان اللہ علیہم کے فتویٰ اوراقوال بھی حدیث ہی کے حکم میں ہیں) (۳) اجماع، (۴) قیاس۔

لہٰذا ان چاروں اصولوں میں سے جس اصل سے بھی کوئی حکم ثابت ہوجائے وہ فرق مراتب کے ساتھ شریعت ہی کا حکم ہوگا، اور اس کی اس شرعی حیثیت کو تسلیم کرنالازم ہے، اس لیے یہ مطالبہ کہ فلاں اصول و دلیل مسئلہ کے ثبوت میں پیش کی جائے اصولی طور پر غلط ہے۔ بلاشبہ کسی دعویٰ پر مدعی سے دلیل اور گواہ کا مطالبہ شرع، قانون اور عقل ہر اعتبار سے درست ہے اور فریق مخالف کو اس مطالبہ کا مکمل حق ہے نیز مدعی کے پیش کردہ دلیل و گواہ پر معارضہ اور جرح کا بھی اسے حق حاصل ہے، لیکن مدعی سے کسی خاص و متعین دلیل و گواہ کا مطالبہ کسی لحاظ سے بھی درست نہیں۔ دنیا کے کسی بھی مذہب یا قانون میں اس مطالبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے یہ مطالبہ انتہائی بیخبری، یا ضد و عناد پر مبنی ہے، جو اس کا مستحق ہے کہ باہر گلی میں پھینک دیا جائے۔

نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

ا ٹھا کر  پھینک  د و  با  ہر گلی  میں

(ج) کچھ پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ اس مسئلہ کو عقلی دلیلوں سے مدلل کیا جانا چاہئے تھا تاکہ سب کے لئے قابل قبول ہوجاتا۔

ان ناصحین سے عرض ہے کہ جن باتوں کا تعلق نقل وسماع (زبانی یا تحریری بیان اور سننے) سے ہوتا ہے اس پر صحیح دلیل قائم نہیں کی جاسکتی، ان میں نقل و بیان پر اعتماد کیا جاتا ہے، مثلاً ہر شخص کو اپنے والد کے بارے میں بغیر ادنیٰ تردد و شک کے یقین کامل ہوتا ہے کہ یہی میرے والد اور باپ ہیں کیونکہ آدمی جب سے ہوش سنبھالتا ہے ہر قریب بعید، آشنا، غیر آشنا، اپنے اور پرائے سب سے یہی سنتا رہتا ہے کہ ”یہ فلاں کے والد“ ہیں، تو کیا کوئی شخص اپنے والد کے والد ہونے پر کوئی عقلی دلیل قائم کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں کیونکہ نقلی و سماعی باتیں دائرئہ عقل میں آتی ہی نہیں، ہم تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے رہتے ہیں کہ ”جہانگیر“ ہندوستان کا ایک عادل و منصف بادشاہ تھا، تاریخ کے اس بیان پر اعتماد کی بناء پر ہمیں جہانگیر کی بادشاہت پر پورا وثوق اور یقین ہے، اب اگر کوئی فریب خوردہ عقل ہم سے مطالبہ کربیٹھے کہ جہانگیر ہندوستان کا حکمراں تھا اس پر عقلی دلیل پیش کرو ورنہ پھر اپنے اس یقین سے دست بردار ہوجاؤ تو کیا اس تاریخی و نقلی خبر پر دلیل عقلی نہ ہونے کی بناء پر ہم اپنے یقین سابق سے منحرف ہوجائیں گے؟ ہرگز نہیں، لہٰذا شرع سے منقول اس حکم پر دلیل عقلی کامطالبہ بجائے خود بے عقلی ہے۔

اپنی کمزوری بیان کرتا ہے ہر دانش فروش

حضرت  ناصح نہیں سمجھے تو  سمجھا نے لگے

(د) ایک صاحب قلم عالم نے مسئلہ زیر نظر سے متعلق اپنی تحریروں میں بار بار یہ بات لکھی ہے کہ اسلامی شریعت میں مصلحت کا بطور خاص لحاظ رکھاگیا ہے مگراس فتویٰ کے جاری کرنے میں مصلحت کو نظر انداز کردیاگیا۔

اس سلسلے میں آں محترم سے عرض ہے کہ علمائے اسلام نے مصلحت کی دو قسمیں بیان کی ہیں ایک مصلحت دینی اور دوسری مصلحت دنیوی اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ پہلی یعنی مصلحت دینی کے ثبوت و اعتبار کے واسطے ضروری ہے کہ شارع کی جانب سے اس کے مصلحت ہونے پر نص ہو کیونکہ شرعی مصلحت وہی ہوسکتی ہے جسے خود شریعت مصلحت قرار دے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ مصلحت تو شریعت کی ہو اور اس کی تعیین و تشخیص کوئی اور کرے ۔

اور دوسری یعنی مصلحت دنیوی کے معتبر ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ مصلحت کسی حکم شرعی سے متعارض نہ ہو، کیونکہ شارع کے حکم اور مصلحت میں تعارض و ٹکراؤ کی صورت میں لازم آئے گا کہ (حاشا وکلا) شارع کو اس مصلحت کا علم نہیں تھا اسی لئے تو اس کے معارض و مخالف حکم دیدیا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ لازم قطعی طور پر غلط ہے لہٰذا اس مصلحت کا مصلحت ہونا بھی کسی حال میں صحیح نہیں ہوسکتا کیونکہ جس چیز کی بنیاد غیر درست ہوتی ہے وہ بجائے خود غیر درست ہی ہوا کرتی ہے۔

خشت اول چوں نہد معمار کج

تا  ثر یا  می  ر و د  د یو ا ر  کج

جبکہ آں محترم نے اپنی تحریر میں یہ واضح نہیں کیا ہے کہ اس فتویٰ میں جس مصلحت کو نظر انداز کردیاگیا ہے وہ کونسی مصلحت ہے دینی یا دنیوی نیز اس کی عرفی حیثیت بھی بیان نہیں کی ہے کہ وہ شرائط کے مطابق معتبر ہے یا نہیں، آخر اس مجمل و مبہم مصلحت کے ذکر سے ان کی غرض کیاہے؟ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیائے علم و فن میں اس طرح کی مجمل و مبہم باتیں نہ صرف یہ کہ پایہٴ اعتبار سے محروم ہوتی ہیں بلکہ جن چیزوں میں ان کا عمل دخل ہوتا ہے انھیں بھی بے اعتبار بنادیتی ہیں۔

یہ تحریر اندازہ سے زیادہ طویل ہوگئی اس لئے سلسلہ گفتگو انھیں گذارشات پر ختم کیا جاتا ہے۔ موضوع سے متعلق اس بحث و نظر میں خدا جانتا ہے کہ کسی کی تردید یا تنقیص قطعی مقصود نہیں بلکہ دلائل کی تحقیق و تنقیح سے متعلق یہ ایک طالب علمانہ کوشش ہے اور بس۔

وما توفیقی الا باللّٰہ وعلیہ توکلت والیہ انیب، وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین

والصلوٰة والسلام علی سیدالانبیاء والمرسلین وعلی آلہ اصحابہ اتباعہ اجمعین

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد: 89 ‏،    رجب‏، شعبان  1426ہجری مطابق ستمبر 2005ء