قرآن کریم غیرمسلموں کی نظر میں!

از: سعید الظفر ٹانڈوی، شریک عربی ہفتم دارالعلوم دیوبند

 

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری نازل کردہ کتاب ہے، جو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی، آپ امی تھے پڑھے لکھے نہیں تھے، چونکہ یہ الہامی کتاب ہے اس لیے اس میں خدائی اعجاز اس کے ایک ایک نقطہ سے نمایاں ہے۔ مضامین، اسلوب بیان اور طرز اداپر ہر زبان کا جاننے والا فدا ہے، خواہ وہ اسلام کا حلقہ بگوش ہو یا نہ ہو، قرآنی اعجاز ہر ایک سے اپنی معجزیاتی تسلیم کرالیتا ہے، پھر اس کا یہ تاریخی اعجاز دنیا کے سامنے ہے کہ اس کے الفاظ اورحرکات و سکنات ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا تر ہیں، جبکہ دیگر آسمانی کتابیں خود انہیں کے ماننے والوں کی نظرمیں مشکوک الصحت ہیں۔ یہ تاریخی اعجاز ہم نے اس لیے کہا ہے کہ جب کتابوں کے محفوظ رکھنے کے طریقے وجود پذیر نہیں ہوئے تھے، کبھی چمڑے پر کتابت کرلی گئی، کبھی پتھر کے صاف ٹکڑوں پر اور کبھی درخت کی چھالوں پر اور اب تواس کتاب میں ردوبدل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ معمولی سے معمولی تحریر کے محفوظ رکھنے کے وہ طریقے وجود میںآ چکے ہیں جو انسانی دست برد سے محفوظ رہیں گے۔

اور یوں کہنا چاہئے کہ یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں کا مجموعہ ہے۔ چنانچہ اس کتاب میں زبور کا مجموعہ مناجات بھی ہے اور انجیل کا ذخیرئہ امثال بھی، توریت کا گنجینہٴ شریعت بھی ہے اورکتب دانیال اور یسعیاہ کے مواعظ بھی ہیں اور حضرت ارمیاہ کی تاثیر بھی ہے۔ ان حقائق کے باوجود اس کتاب کے ساتھ جو زیادتی کی گئی یعنی اس میں تحریف کی جو بدترین سازشیں کی گئیں وہ ناگفتنی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ سازشیں ہی دنیا سے حرف غلط کی طرح مٹ گئیں۔

قرآن کا اعجاز

قرآن کریم نے فصاحت و بلاغت، تفسیر، نحو و صرف، ہرمیدان میں مخالفین کو للکارا، یہی نہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پراعلان کردیا کہ انسانوں کے ساتھ جنات بھی جمع ہوجائیں، مگر میدان میں کسی ہاتھ تھامنے والے کی آواز تک سنائی نہیں دی اور یہ للکار قرآن کے لیے اعجاز ثابت ہوئی۔

اس کتاب نے ملکوں اور قوموں کو جہالت سے نکالنے اور علوم سے بہرہ ور کرنے، تمدن کو بلند کرنے اور امن عامہ کو مضبوط بنانے میں جو مضامین بیان کیے ہیں وہ ایسے بے نظیر اور لاثانی ہیں کہ جن کا بدل پیش نہیں کیا جاسکتا۔

شہادت اغیار

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ روئے زمین کبھی اہل علم اور اہل فہم سے خالی نہیں رہی ، جن کا تعلق دنیا کے ہر مذہب سے ہوسکتا ہے۔ ایسے لوگوں نے قرآن کریم کا گہرائی، یکسوئی اور غیرجانبدارانہ مطالعہ کیا اور اپنے نظریات کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے پر آپ کو ایسے سینکڑوں افراد مل جائیں گے جنھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کی بھٹی میں جل کر اپنا وجود مٹادیا، مگر وہ بھی قرآن کی حقانیت کو چھپا نہ سکے، چنانچہ دیکھئے مشہور متعصب پادری ”ریورینڈر جی ایم ایڈویل“ لکھتا ہے:

”قرآن کریم کی تعلیم نے بت پرستی مٹائی، جنات اور مادیت کا شرک مٹایا، اللہ کی عبادت قائم کی، بچوں کے قتل کی رسم نیست و نابود کی، ام الخبائث شراب کو حرام مطلق ٹھہرایا، چوری، جوا، زنا کاری اور قتل وغیرہ کی ایسی سخت سزائیں مقرر کیں کہ کوئی شخص ارتکاب جرم کی جرأت ہی نہ کرسکے۔“

اس کتاب نے دنیا کو ایسے قوانین دئیے جس میں ہرمذہب و ملت کے ماننے والے کے لیے انصاف ہی انصاف ہے اور ایسے اصول عطا کئے جس میں صرف نسل انسانی کی فلاح ہی فلاح ہے۔ اسی نظریہ کو ملاحظہ فرمائیے نپولین بونا پارٹ کی زبان میں:

”میرا یقین ہے کہ قرآن پاک کے قوانین ہی انسانیت کے لیے سچے اصول ہیں اور نسل انسانی کی فلاح قرآن پاک کے نظام حیات میں ہے۔“

قرآن مذہبی اصول اور احکام کے علاوہ ملکی اور تمدنی نظام بھی رکھتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ”کلاضل“ نامور فرانسیسی فاضل کے الفاظ میں:

”قرآن مذہبی قواعد اور احکام ہی کا مجموعہ نہیں ہے؛ بلکہ اس میں اجتماعی اور سوشل احکام بھی ہیں، جو انسانی زندگی کے لیے ہرحالت میں مفید ہیں۔“

قرآن کریم امن و امان کا ضامن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب روئے زمین پر قوانین قرآن لاگو ہوئے تو ہر طرف عدل و انصاف، امن و امان، فسادات و بھائی چارگی کے سوا کچھ نہ رہا۔

جب کسی قوم نے اس کو چھوڑا تو ہر طرف بدامنی نظر آنے لگی۔ وہ قوم بام عروج سے پستی میں جاگری۔ پیش خدمت ہے ”موسیو کاسٹن کار“ کا اخبار ”شگارو“ میں لکھا ہوا ایک فقرہ :

”زمین سے اگرحکومت قرآن جاتی رہے تو دنیا کا امن و امان کبھی قائم نہ رہے۔“

قرآن کریم لاثانی کتاب ہے،اس نے امن و امان سے لے کر اخلاقیات تک سب کچھ عطا کیا، اس کی وجہ سے قوموں کے مزاج بدل گئے، انسانی اخلاق کی کایا پلٹ گئی، عرب کے تندخو، گنوار، حلم و اخلاق اور علم وحکمت کے استاد بن گئے۔ ”پروفیسر کارلائل“ اسی کی شہادت دیتے ہیں:

”میرے نزدیک قرآن کریم میں خلوص و سچائی کا وصف ہر پہلو سے موجود ہے اور یہ بالکل سچ اور کھلی حقیقت ہے کہ اگر خوبی پیدا ہوسکتی ہے تو اسی سے ہوسکتی ہے۔“

قرآن جہاں امن وامان کا ضامن، ملکی اور تمدنی نظام سرخیل، حکمت و دانائی سے پر ہے، وہی محافظ صحت بھی ہے۔ اسی کتاب نے شراب،جوا کو حرام کیا جو صحت و مال کو ضائع کرنے والے ہیں اور قرآن مجید نے نماز، روزہ، زکوٰة، حج، طہارت وغیرہ کو ضروری قرار دیا جو حفظان صحت کے اصول ہیں۔ دیکھئے کتنا اچھا لگتا ہے جب اسی بات کا اقرار ”ایکمکی بولف“ نامور جرمن فاضل نے اپنی زبان سے کیا:

”قرآن نے صفائی، طہارت اور پاکبازی کی ایسی تعلیم دی ہے کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو جراثیم امراض سب کے سب ہلاک ہوجائیں۔“

تاریخ بتاتی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جہاں سینکڑوں برائیاں تھیں، وہیں بڑی برائی یہ بھی تھی کہ حقوق کا کوئی پاس ولحاظ نہ تھا۔ حاکم رعایا کے حقوق ادا کررہا ہے نہ ہی رعایا حاکم کے حقوق ادا کررہی ہے۔ باپ اولاد سے اور اولاد باپ سے متنفر ہے؛ لیکن قرآن حکیم نے ان کو جہاں متمدن اور مہذب زندگی عطا کی وہی حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا اورجب اس کا نفاذ ہوا تو امن وامان اور خوشحالی نظر آنے لگی۔ پیش خدمت ہے نو مسلم ”مسٹرمارماڈیوک پکھتال“ کا فقرہ:

”قرآن ہی کے قوانین نے حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے طور پر بتائے ہیں اوراس کو یہود اور عیسائیوں نے بھی مان لیا ہے۔“

اس کتاب عظیم میں اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کے لیے اتنا کچھ بیان کردیا جو زندگی گزارنے کے لیے کافی ہوسکتا ہے اور انسان اس کو سمجھ کر زندگی کی راہیں، اچھے برے کی تمیز بخوبی کرسکتا ہے۔ دیکھئے یہی بات کہتے ہیں ”لیوٹالسٹائی“:

”قرآن کریم عالم انسانی کے لیے ایک بہترین رہبر ہے۔ اگر صرف یہ کتاب دنیا کے سامنے ہوتی اورکوئی ریفارمر پیدا نہ ہوا ہوتا تو بھی یہ انسان کی رہنمائی کے لیے کافی تھی۔“

اس بات کو ہندوستان کی مشہور خاتون ”سروجنی نائیڈو“ ان الفاظ میں کہہ رہی ہیں:

”جب میں قرآن پڑھتی ہوں تو مجھے زندگی کے برپا کرنے والے اصول نظر آتے ہیں، جو ساری دنیا کے لیے زندگی کی کامیابی و کامرانی کے رہنما اصول ہیں۔“

قرآن کریم دنیا کی لاثانی اور بے نظیر کتاب ہے، فصاحت و بلاغت، ترکیب و بندش کے لحاظ سے بھی اور اصول و قواعد اور تعلیمات نیز ہراعتبار سے بھی۔ قرآن کریم نے اسلامی تعلیمات کو جس طرح کھول کر بیان کیا اور مسئلہ توحید کو جس سہل انداز میں سمجھایا ہے، ایسی بات اس سے پہلے کسی بھی آسمانی کتاب میں نہیں ملتی ہے۔ معمولی عقل و فہم کے لوگ بھی قرآن مجید کے بنیادی مضامین آسانی سے سمجھ سکتے ہیں، جیسے توحید رسالت اور معاد وغیرہ۔ دیکھئے نامور موٴرخ ”ڈاکٹر گبن“ کیا لکھتے ہیں:

”قرآن وحدانیت کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ ایک موٴحد فلسفی اگرکوئی مذہب قبول کرسکتا ہے تو وہ اسلام ہے ۔ غرض سارے جہاں میں قرآن کی نظیر نہیں مل سکتی ہے۔

اس مضمون کو ،،ہرش فیلڈ؟؟ نے کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے:

”قرآن کریم اثر ڈالنے، یقین دلانے کی طاقت، فصاحت و بلاغت، ترکیب و بندش کے الفاظ میں بے نظیر اور دنیائے سائنس کے شعبوں کی حیرت انگیز ترقی کا باعث ہے۔“

”گارڈن جائیلڈن“ اسی مضمون کو واضح اور مضبوط انداز میں بیان کرتے ہیں:

”قرآن نفسیات کی پہلی کتاب بھی ہے اور روحانیت کی آخری کتاب بھی۔ وہ دنیا اور آخرت کا ایسا امتزاج ہے، جو درحقیقت دنیا کے تمام مذاہب سے بے نیاز کردیتا ہے، قرآن کریم کو دوسری کتابوں پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس میں سیاست اور اصول حکمرانی کا مفصل تذکرہ ہے۔“

ہم نے واضح کیا ہے کہ اسلام تمام مذاہب سے بہتر اور بالکل سچا مذہب ہے۔ رہی بات کہ اسلام عیسائیت پر کیوں فوقیت رکھتاہے، تو سنئے ”ریورنڈ میکسوئیل کنگ“ کی زبانی:

”قرآن الہامات کا مجموعہ ہے، اس میں اسلام کے قوانین، اصول اوراخلاق کی تعلیم اور روز مرہ کے کاروبار کی نسبت صاف ہدایات ہیں۔ اس لحاظ سے اسلام کو عیسائیت پر فوقیت ہے کہ اس کی مذہبی تعلیم اور قانون علیحدہ چیز نہیں ہیں۔“

اور ”ڈین شیلی“ نے تو کھلے الفاظ میں اقرار کیا ہے کہ:

”قرآن پاک کا قانون بلاشبہ بائبل کے قانون سے زیادہ موٴثر ہے۔“

ہم نے کہا تھا کہ قرآن کریم کے ساتھ ناقابل برداشت سازشیں کی گئیں اوراس کی مخالفت میں ہرممکن کوششیں کی گئیں، مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سازشیں حرف غلط کی طرح مٹ گئیں۔ اس کے برعکس تعصب کی چھاؤں سے دور قلب و عقل نے کیا سوچا اورکیا فیصلہ لیا سنئے۔ آریہ سماج کے مشہور و معروف اپدیشک پنڈت لکشمن جی نے لکھا ہے کہ:

”سوامی درجانند نے دیانند سرسوتی کو اس کا بھی حکم دیاتھا کہ وہ ان کتابوں کو جو قرآن کے خلاف ہوں، جمنا میں پھینک دیں۔“

اس سے پنڈت لکشمن جی یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سوامی درجانند قرآن کی مخالف چیزوں کی بیخ کنی کو ضروری خیال کرتے تھے۔

مذکورہ باتیں قرآن کریم میں موجود ہیں، ان تمام کو دیکھ کر عقل انسانی حیرت زدہ ہے اوراس حیرت سے ”کونٹ نہری دی کاسٹری“ بھی نہیں بچ سکا اور وہ اپنی کتاب ”الاسلام“ میں اقرار کرتا ہے:

”قرآن دیکھ کر عقل حیرت میں آتی ہے کہ اس کا بے عیب و لاثانی کلام اس شخص کی زبان سے کیوں کر ادا ہوا جو امی محض تھا۔“

ان کے علاوہ اور بہت سے بڑے بڑے فلاسفروں اور داناؤں سے قرآن مجید کی صداقت کو تسلیم کرالیا ہے۔ ”ایکس لیورزون “ فرانسیسی فلاسفر کا قول ملاحظہ فرمائیے:

”قرآن ایک روشن اور پرحکمت کتاب ہے، اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ ایسے شخص پرنازل ہوئی جو سچا نبی تھا اور خدا نے اس کو بھیجا تھا۔“

ان مذکورہ چند حوالہ جات نے یہ حقیقت واضح کردی کہ اغیار بھی جو اسلام کو ناپسند کرتے ہیں وہ بھی قرآن مجید کی صداقت اوراس کے الہامی ہونے کو تسلیم کرنے پرمجبور ہیں۔ حقیقت وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ حقیقت خود کو تسلیم کرالیتی ہے، منوائی نہیں جاتی، پھر بھی یہ دولت اسلام سے محروم کیوں رہے؟ یہ الگ موضوع ہے لیکن اتنا اشارہ کافی ہے کہ جن اہل علم نے اظہار خیال کیا ہے ان کا زاویہ نگاہ صرف علمی جائزہ ہے، ہدایت مطلوب نہیں۔ یہ بھی قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ اس کتاب مبین کو جو جس زاویہ فکر سے دیکھتا اور پڑھتا ہے، اس کو اپنا مطمح نظر مل جاتا ہے۔ کاش یہ اہل علم کتاب مبین کا مطالعہ ہدایت یافتہ ہونے کے لیے کرتے تو ان شواہد کے ساتھ ان کو ہدایت بھی مل جاتی۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد: 89 ‏،    رجب‏، شعبان  1426ہجری مطابق ستمبر 2005ء