حرفِ آغاز

علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار

حبیب الرحمن اعظمی

 

کتنے ستم تمہارے ہیں کتنا ہے میرا صبر

آ ج   آ  ؤ  ہما  ر ا  تمہا ر ا  حسا ب  ہو

اس بات سے کون واقف نہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے معمار و بانی سرسید احمد خاں مرحوم ہیں، اس تعلیمی ادارہ کو انھوں نے مسلمانوں میں عصری جدید علوم کی ترویج کے لئے قائم کیا تھا جس میں اسلامی علوم و فنون کی بھی ایک مناسب حد تک تعلیم شامل تھی۔ ان کے خطبات و مقالات کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں جس میں اپنے تعلیمی نظریہ اور کالج کے مقصد کو موصوف نے بغیر کسی ابہام کے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کالج اور آج کی یونیورسٹی مسلمانوں کی تعلیمی ضرورت کی تکمیل کے لئے وجود میں آئی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا زبان سے تو انکار کیا جاسکتا ہے، مگر دل اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اب اگر کوئی اپنے فکر و نظر کی تنگی کے زیر اثر اس حقیقت کو بدلنا چاہے تو وہ فریب عقل میں مبتلا ہے۔ کیونکہ حقائق انمٹ ہوتے ہیں اور کسی ادنیٰ تغیر و تبدیلی کو قبول نہیں کرتے۔ اس لیے مسلم یونیورسٹی سے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر جو پست ذہن عناصر خوشیاں منارہے ہیں وہ یقین کرلیں کہ انھیں اس بیجا اظہار خوشی پر انجام کار ندامت و رسوائی کا غم برداشت کرنا پڑے گا۔

یہ ہمارے ملک کی ایک ٹریجڈی ہے کہ مسلمان جس نے جنگ آزادی میں برادران وطن کے شانہ بشانہ ہر طرح کی قربانیاں دیں اور صحیح معنوں میں ان کے سچے حلیف رہے، آزادی حاصل ہوجانے کے بعد انھیں حریف سمجھا جانے لگا، اسی فکری انحراف کا نتیجہ ہے کہ ملک کے جمہوری اور نظام حکومت کے سیکولر ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ مسلم کمیونٹی آزادی کے فوائد سے محروم ہے بلکہ نصف صدی سے بھی زائد عرصہ سے فرقہ پرست سیاست کے تشدد اور دہشت گردی کا ہدف بنی ہوئی ہے۔ معاشی حیثیت سے اسے مفلوج بنادینے کی غرض سے سرکاری و نیم سرکاری ملازمتوں کے دروازے بڑی حد تک اس پر بند کردئیے گئے، ملک کی سیاست سے بھی ملک کی اس دوسری اکثریت کو بیدخل کردینے کا سلسلہ جاری ہے، پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کا ذکر چھوڑئیے گرام پنچایتوں تک میں ان کے عمل دخل کو محدود سے محدود تر بنادینے کی شاطرانہ کوششیں جاری ہیں۔ اپنے آپ کو مسلمانوں کا مسیحا کہلوانے والی ملائم سنگھ حکومت نے اترپردیش میں گرام پنچایتوں کے حالیہ الیکشن میں اس بارے میں بڑی کامیاب کوشش کی ہے اور اپنی چابکدستیوں سے مسلم برادری کو گاؤں کی سیاست سے تقریباً کنارے لگادیا ہے۔ اسی پر دوسری ریاستوں کے طرز عمل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

صنعت و تجارت کے شعبہ میں بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، بنارس، مبارکپور، مئو، مالیگاؤں، بھیونڈی، کانپور، مدراس وغیرہا شہروں میں مسلم صنعت کاروں کو اپنی اپنی صنعتوں کو بحال رکھنے میں آئے دن طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت اور اس کے اہل کار مختلف تدبیروں سے ان کے راستے میں ایسی اڑچنیں کھڑی کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا کاروبار آگے نہیں بڑھ پاتا۔

تعصب زدہ سیاست کی ان کرم فرمائیوں کو انگیز کرتے ہوئے قوم مسلم زندگی کی راہ میں قدم آگے بڑھاتی ہے تو آگ اور خون کے طوفانوں سے اسے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے اس سیکولر ملک میں مذہب کی بنیاد پر ہزاروں مسلم کش فساد ہوچکے ہیں جن میں لاکھوں سے زائد مسلمان شہید کئے گئے اور کروڑوں و اربوں کی ان کی جائیداد لوٹ لی گئی یا نذر آتش کردی گئی ہے۔ تا دم تحریر یوپی کا مشہور صنعتی ضلع مئو فسادیوں کے نرغے میں ہے۔ دو تین دنوں سے بلوائی مکانات کو جلااور دکانوں کو لوٹ رہے ہیں اور ریاستی حکومت کے اہل کار اپنی بے عملی کے ذریعہ ان کا تعاون کررہے ہیں۔ دیکھئے مسلمانوں کی ہمدرد سیکولر ریاستی سرکار اس مسلم صنعتی قصبہ کو بلوائیوں کے رحم و کرم پر کب تک چھوڑے رکھتی ہے۔ اور فرقہ پرستوں کی تشنگی کتنوں کے لہو پی کر دور ہوگی۔

ہمارے ملک کی مذہبی فسادوں کی تاریخ بڑی ہولناک اور دہشت خیز ہے ملک کے سیکڑوں شہروں اور قصبات میں یک طرفہ مسلمانوں کو قتل کیاگیا ہے، جس میں نہ بچوں کی کم سنی کا لحاظ کیا گیا نہ بوڑھوں کی ضعیفی کا اور نہ ہی عورتوں کی طبعی کمزوری کا، فسادوں کا یہ سلسلہ آزادی کے وقت سے جاری ہے۔ یہ فسادات عام طور پر اگرچہ مذہب کے نام سے کئے جاتے ہیں لیکن صحیح معنوں میں اس کے پیچھے تعصب زدہ سیاست ہی کی کارفرمائی ہوتی ہے۔

یہ ہے ملک کا سیاسی و سماجی ماحول جس میں آج ہم سانس لے رہے ہیں اس لئے اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ موجودہ حالات سے متاثر ہے تو کیا اس دعویٰ کو بے بنیاد کہا جاسکتا ہے؟ بہرحال یہ فیصلہ مستحق نظر ثانی ہے۔ اور ہمیں یقین ہے مرکزی حکومت اس پر مناسب کارروائی کرے گی، کیونکہ قانون میں قانون کی اصل روح اور اس کے مقصد کو ترجیح ہونی چاہئے نہ کی قانونی موشگافیوں اور تکنیکی کمزوریوں کی کیونکہ انسان کے وضع کردہ قوانین اس قسم کی کمزوریوں سے کم ہی بری ہوتے ہیں۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 89 ‏،    رمضان‏، شوال 1426ہجری مطابق اکتوبر‏، نومبر 2005ء