عہد مغلیہ میں مسلم خواتین کے دینی و علمی کارناموں کا ایک تاریخی جائزہ

از: شائستہ سنبھلی

ریسرچ اسکالر شعبہٴ سنی دینیات، اے، ایم، یو علی گڑھ

 

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں جزیرہ نمائے عرب میں جو دینی مذہبی و سیاسی انقلاب برپا ہوا اس کے اثرات باہر کے ان تمام ممالک پر پڑے جہاں اسلام کی کرنیں پہنچ چکی تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی دینی تعلیم و تربیت، سماجی و سیاسی بیداری میں ان کے کردار اور اصلاح معاشرہ اور تعمیر ملک و ملت کے تئیں ان کے فرائض کے بارے میں جو رہنما خطوط متعین کیے ان کے زیر اثر پوری اسلامی تاریخ میں خواتین کا کردار ہر پہلو سے بڑا تابناک رہا۔ ہندوستان میں مغلیہ دور کے حکمرانوں نے اس ملک کی تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں جو لازوال نقوش مرتب کئے اس میں مسلم خواتین کی حصہ داری بڑی نمایاں ہے مغل بیگمات اور شہزادیوں نے اعلیٰ تعلیم و تربیت سے مسلح ہوکر انتظام حکومت، تدبیر مملکت اور سیاسی و جنگی خدمات کے میدانوں میں بے بہا خدمات انجام دیں۔ تاریخ کی یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ شاہی محلات کی کنیزیں بھی علوم و فنون، ادب و شاعری کے میدان میں نمایاں طور پر حصہ لیتی نظرآتی ہیں۔

گلبدن بیگم(۱) بنت ظہیرالدین بابر ۱۵۲۲/ کو کابل میں پیدا ہوئیں یہ وہ عظیم الشان خاتون ہیں جنھوں نے فارسی زبان میں ہمایوں نامہ تصنیف کیا۔ یہ کتاب ہمایوں بادشاہ کی تخت نشینی سے لے کر مرزا کامران کے اندھا کئے جانے تک کے واقعات پر مبنی ہے۔ کتاب کا آغاز بابر بادشاہ کے ذکر سے ہوتا ہے اس میں بابر کے بارے میں جو اطلاعات دی گئی ہیں ان کو بیان کرنے کے لئے گلبدن بیگم کو بابر کی ”تزک بابری“ سے مدد لینی پڑی کیونکہ بابر کے انتقال کے وقت وہ صرف آٹھ سال کی تھیں اس لئے اس زمانے کے واقعات محفوظ نہ کرسکیں۔

ابتداء میں بابر بادشاہ کے بارے میں لکھتی ہیں کہ امیر تیمور کے زمانے سے لے کر میرے باپ کے زمانے تک کسی بادشاہ نے اپنی حکومت میں اتنی مشقت اور خطرات کا سامنا نہیں کیا جتنے میرے والد نے۔ میدان جنگ اور دیگر خطرات میں تحمل اور مردانگی کا جیسا مظاہرہ آپ نے کیا کسی بادشاہ نے نہیں کیا۔ علاوہ بریں بابر بادشاہ کی اپنے دشمنوں کے ساتھ کشمکش، بے سروسامانی اور مفلسی کی حالت میں کابل کی جانب رخ، کابل پر فتح، ہندستان میں بابر بادشاہ کی فوج کشی، فتح ہندوستان، ابراہیم لودھی اور رانا سانگا کی شکست کا مفصل ذکر ”ہمایوں نامہ“ میں موجود ہے اس کے علاوہ بابر بادشاہ کی بیماری اور ہمایوں کے لئے وصیتیں وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔

بابر کی وفات کے بعد جلوس ہمایوں کی تنظیم، گجرات بنگال وغیرہ پر ہمایوں کی فتوحات، شیرشاہ سوری کے ہاتھوں اسکی شکست، بکھّر اور ملتان کی طرف فرار، حمیدہ بانو سے اسکی شادی، اکبر کی پیدائش، شاہ ایران کے ہاتھوں پذیرائی، تسخیر قندھار، کابل پر حملہ، فتح بدخشاں، کامران کی شکست اور فرار، مرزا ہندال کا قتل، مرزا کامران کی آنکھوں میں سلائی پھروادینے کا ذکر، ہمایوں نامہ میں موجود ہے۔

اس کے ساتھ ہی اس زمانے کے تمدنی، معاشرتی اور خانگی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے مثلاً اس زمانے کی عورتوں کے بارے میں گلبدن بیگم لکھتی ہیں کہ عورتیں لکھنے پڑھنے کے علاوہ سپہ گری سے بھی خوب واقف تھیں شہسواری، تیر اندازی جیسے فنون کا شوق رکھتی تھیں۔ اپنی تصنیف میں مختلف موقعوں پر فارسی اشعار درج کرتی ہیں۔ مرزا ہندال کی شہادت کے موقع پر یہ شعر کہا:

ای دریغا ای دریغا ای دریغ                    آفتابم شد نہان در زیر میغ

قدیم تصنیفات میں روزمرہ استعمال ہونے والے محاورے بہت کم نظر آتے ہیں؛ لیکن گلبدن بیگم نے محاورات کا کثرت سے استعمال کیا ہے مثلاً:

ایستادہ دریافتم                     کھڑے کھڑے ملا،                     جان درازی                               طول عمر

خفتن شد                            سونے کا وقت آیا،                      نماز دیگرے بود                         عصر کی نماز کا وقت تھا

مراد بہ شمشیر گرفتند             تلوارلیکر مجھ پر آپڑے،             سرحضرت شوم                          آپ پر قربان ہوں

ہمایوں نامہ کی نثر سادہ اور سلیس ہونے کے ساتھ تکلف اور تصنع سے پاک ہے ۔ انشاء پردازی کے اعتبار سے یہ ایک شاہکار ادب ہے۔ شبلی نعمانی کے بقول:

”تیموری سلطنت کے ابتدائی زمانہ میں بیگمات ایسی تصنیفیں کرتی تھیں جو آج مردوں سے بن نہیں آسکتیں، فارسی زبان میں سادہ اور صاف واقعہ نگاری کا عمدہ سے عمدہ نمونہ تزک جہانگیری اور رقعاتِ عالمگیری ہیں اوراس میں شبہ نہیں کہ یہ کتابیں سادگی اور لطافت کے لحاظ سے اس قابل ہیں کہ ہزاروں ظہوری اور وقائع نعمت خاں ان پر نثار کردی جائیں لیکن انصاف یہ ہے کہ ہمایوں نامہ کچھ ان سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے اس کے چھوٹے چھوٹے فقرے، سادہ اور بے تکلف الفاظ، روززرہ عام بول چال، طرز ادا کی بے ساختگی دل کو بے اختیار کردیتی مثلاً:

بابر نے ایک چھوٹے بچے کو ایک اشرفی بھیجی تھی کہ سوراخ کرکے اس کے گلے میں پہنا دینا لیکن پہلے اس کی آنکھیں بند کردینا کہ دیکھنے نہ پائے بچہ نے نہیں دیکھا لیکن اشرفی کو ہاتھ سے ٹٹولتا ہے اور خوش ہوہوکر اچھلتا ہے، ساتھ ہی دونوں ہاتھوں سے اشرفی کو مٹھی میں دبائے ہوئے ہے کہ کوئی چھین نہ لے اس واقعہ کو یوں ادا کرتی ہیں:

”حکم بود کہ اشرفی را سوراخ کردہ چشمش را بستہ در گرد نش انداختہ، درونِ حرم فرستید، بمجردے کہ اشرفی سوراخ کردہ درگردنش انداختند، از گرانی، طرفہ بے طاقتی و اضطراب و خوشحالی میکردد بہ دودست اشرفی را گرفتہ طرفگیہا میکرد کہ کسی اشرفی مرا نگیرد“(۲)

ہمایوں نامہ زبان و بیان کی امتیازی خصوصیت کے ساتھ ایک اور تاریخی خصوصیت رکھتا ہے انھوں نے واقعات لکھتے وقت ضرورت کے مطابق تفصیل اوراختصار سے کام لیا ہے۔ انھوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ کس واقعہ کو تفصیل سے لکھا جائے اورکس واقعہ پر مختصراً بحث ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں یہ کتاب بابر و ہمایوں کے سیاسی واجتماعی حالات کی آئینہ دار ہے۔ مصنفہ نے جو دیکھا اور سنا اس کو بڑی سادگی سے تحریر کیا ہے اسی مشاہدہ کی وجہ سے اس کتاب کی اہمیت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ گلبدن بیگم نے اپنی کتاب میں ہندوستان اوراس کے باشندوں کا کوئی خاص ذکر نہیں کیا ہے تاہم اس بناء پر ہم یہ فرض نہیں کرسکتے کہ گلبدن بیگم کو ہندوستان سے کوئی دلچسپی یا لگاؤ نہ تھا بلکہ ”ہمایوں نامہ“ ایک خاص مقصد کے تحت لکھا گیا تھا جس کا دائرہ بابر و ہمایوں بادشاہ اور ان کے متعلقین رفقاء تک محدود ہے۔

جہاں آرا(۳) بنت شاہجہاں ۲۳/مارچ ۱۶۱۴/ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا شمار ان مغل شہزادیوں میں ہوتا ہے جنہیں صاحب تصنیف کہا جاسکتا ہے۔ جہاں آرا بیگم کو تصوف سے بہت شغف تھا اسی لگاؤ اور میلان کے باعث جہاں آرا نے اپنی تصنیف میں اولیائے کرام کے حالات قلمبند کئے ہیں۔ جہاں آرا نے تصوف پر فارسی زبان میں کئی کتابیں تصنیف کیں جن میں سب سے مشہور تصنیف ”مونس الارواح“ ہے اس میں آپ نے حضرت خواجہ معین الدین اجمیری اور ان کے نامور خلفاء کے حالات و واقعات قلمبند کئے ہیں۔ کتاب کا انداز بیان سادہ اور سلیس ہے منطقیانہ اصطلاحات سے خالی ہے۔ مذہبی رنگ نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔ جگہ جگہ قرآن مجید کی آیات بھی درج کی گئی ہیں۔ خط نستعلیق ہے مثلاً ،ص:۱۱ پر یہ آیت درج ہے:

کہ حضرت الشان بسم اللہ الرحمن الرحیم قلنا یا نار کونی برداً و سلاماً علی ابراہیم وارادو بہ کیدا فجعلناھم الاخسرین۔(۴)

مونس الارواح کے ابتدائی الفاظ حمدو سپاس افزوں از عدد و شمار مرصانع اور آخری الفاظ درحقیقت الحقائق ہت کہ ہستی موہومی رفتہ و بہستی آن نیست بی زوال ماندہ ہیں۔

یہ کتاب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے والہانہ عقیدت رکھنے کی بناء پر تالیف کی گئی ہے کیونکہ بیگم نے بذات خود بعض مشائخ کے رسائل سے فیض حاصل کیا۔ لہٰذا بیگم نے خواجہ اجمیری کے دیگر عقیدت مندوں کے لئے یہ رسالہ ترتیب دیا تاکہ یہی رسالہ آپ کی بخشش کا ذریعہ بن جائے اسی عقیدت کے باعث خواجہ معین الدین چشتی کے رسالے انیس الارواح(۵) کے نام پر اپنی کتاب کا نام ”مونس الارواح“ رکھا۔

مونس الارواح کا آغاز اپنے پیر دستگیر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی ارادت میں اپنی وابستگی سے ہے علاوہ ازیں اجمیر میں آپ کی آمد، زہد و قناعت، اقوال و کرامات، رحلت و مزار شریف اور رسالہ انیس الارواح کے حوالے سے اپنے پیر کے حالات کا بیان، آپ کے مرید حضرت قطب الدین بختیار اویسی کاکی، شیخ حمیدالدین ناگوری، شیخ نظام الدین محمد بدایونی، شیخ نصیرالدین محمود لودھی کے ذکر اور آخر میں بیگم صاحبہ نے اپنا اجمیر کا سفر اور خواجہ صاحب کے روضہ تک پہنچنے اور اپنی کیفیت و جذبات کو کتاب میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے:

”ماہ رمضان کی چودہویں تاریخ کو جمعرات کے دن مجھے حضرت پیر دستگیرکے مرقد منور کی زیارت نصیب ہوئی دن کا ایک پہر رہ گیا تھا کہ میں روضہ مقدس میں گئی اور اپنے زرد چہرے کو اس آستان کی خاک پر ملتی رہی اور دروازے سے گنبد مبارک تک ننگے پیر زمین کو بوسے دیتی ہوئی چلی اور گنبد میں جاداخل ہوئی۔ اس وقت میری عجیب حالت تھی اور ایسا سکون دل میں ہوا کہ معرض تحریر میں نہیں آسکتا انتہائی شوق کے عالم میں ، میں پاگل ہوگئی اور نہیں جانتی تھی کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں، روضہٴ اقدس کی زیارت کے بعد انتہائی رنج و غم اور بے قراری کے ساتھ اپنے والد بزرگوار کے ہمراہ اکبر آباد آئی۔“

بیگم کی دوسری تصنیف ”صاحبیہ“ ہے اس میں انیس اوراق ہیں پہلے صفحہ پر سر تحریر کے طور پر ھوالفرد لکھا ہے اس رسالہ میں جہاں آرا بیگم نے اپنے پیر و مرشد ملا شاہ بدخشی کے حالات، ان کے اوصاف و کمالات، پوشاک و خوراک اور اپنے مرید ہونے کا واقعہ تفصیل سے تحریر کیا ہے۔ رسالہ کے شروع میں یہ الفاظ ہیں:

حمدوسپاس نامحدود مرخدائے را کہ بذات خویش احد و مطلق است اور آخر میں ملا شاہ کی تعریف میں کچھ اشعار ہیں اس دعا پر رسالہ کا اختتام ہوتا ہے کہ بیگم کے استغراق اور وجد میں اضافہ ہوتا رہے۔

رسالہ کی ابتداء میں بیگم صاحبہ نے اس کو تصنیف کرنے کی وجہ بیان کی ہے کہ اگرچہ مولانا شاہ کے اوصاف و محاسن ان گنت ہیں لیکن صرف عقیدت مندی اور سعادت کے حصول کی غرض سے یہ رسالہ لکھ رہی ہوں اس کے بعد مولانا شاہ کی پیدائش، علم کا حصول، میاں میر کے حلقہ ارادت کا ذکر، مولانا شاہ کے معمولات و عبادات، آپ کے لباس و خوراک، سیر و تفریح، کرامات اور آپ کے مریدوں کا تفصیلی ذکر ہے۔ علاوہ بریں بیگم نے اپنے حالات صرف یوں قلمبند کئے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ پیر و مرشد کے بعدآپ کا نام لکھنے پر آپ کو بخش دے اور مولانا شاہ کے عقیدت مندوں میں بیگم کو شامل کرلے۔ تحریر کرتی ہیں:

”بیس سال کی عمر سے ہی مجھے اولیائے کرام سے عقیدت تھی والد بزرگوار کے ہمراہ جب کشمیر تشریف لے گئی تو حضرت ملا شاہ کی تعریف سن کر میں ان کی دل و جان سے معتقد ہوگئی اور اپنے بھائی کی وساطت سے ان کومرشد حقیقی بنالیا۔“

آخر میں کچھ اشعار ملا شاہ کی تعریف میں لکھے ہیں:

اینہا ہمہ را ظہور حق مے بینم                                  ذا تست یکے جملہ صفت (کذا) می بینم

نقش است فنا بقاست بے رنگیٴ یار                           بیرنگ بشو و رنگہا را مشمار

یار آمد در بغل بے محنت شبہائے ہجر                       عاشق و دیوانہ بودم اشتیاقم داد اجر

شوق تو مرا در بر مے گیرد و مے مالد                          ہر لحظہ و ہر لمحہ ایں ذوق تو مے مالد

پیر من و خدائے من دین من و پناہ من                 نیست کسے بغیر تو شاہ من و اِلٰہ من

امروز ندیدیم کسے ثانیٴ تو                                        مائیم بروز عید قربانیٴ تو

اے شاہ زیک نظر بکردی کارم                              شاباش بتوجہ خوش نمودی یارم

خوشا ہجرے کہ باشد آخرش وصل                         خوشا فرعے کہ گردد عین آن اصل

تاثیر زبان خاصہٴ شاہِ من است                              تقریر عیان خاصہٴ ماہِ من است

درباب رہے کوچہ آن ملا شاہ                                  کوہست خزینہ دار توحید اِلٰہ(۶)

آگرہ کی جامع مسجد جس سے ملحق ایک مدرسہ بھی تھا جہاں آراہی کی تعمیرکردہ ہے۔ فتح پور سیکری میں اکبر کی بنائی ہوئی مسجد کے بعد مغلوں کے عہد کی یہ سب سے پہلی وسیع اور فراخ مسجد ہے۔(۷) یہ پانچ سال میں تعمیر ہوئی اوراس میں پانچ لاکھ روپئے صرف ہوئے ۔ اس مسجد کے تین دروازے تھے لیکن اب شمال اور جنوب میں دو دروازے رہ گئے ہیں، جنوبی دروازے کے سامنے خدام کے لئے گھر بنے ہوئے تھے جو اب نہیں ہیں۔ مسجد کے گوشوں پر سرخ پتھر کے دوبرج بنے ہوئے ہیں، اوراس کے دونوں طرف چھوٹی چھوٹی برجیوں کی قطار چلی گئی ہے، مسجد کے اندر دائیں بائیں اکہرے بلند محراب دار سنگین دالانوں کی قطار ہے، جہاں طلبہ تعلیم پایا کرتے تھے۔ وسط صحن میں بڑا حوض ہے جس میں فوارہ لگا ہوا ہے۔ مسجد میں گیارہ در ہیں، درمیانی در زیادہ بلند ہے، دائیں بائیں، پانچ پانچ در محراب دار بنے ہوئے ہیں، درمیانی در کی چوڑائی چالیس فٹ ہے، صحن سے مسجد کا چبوترہ گیارہ فٹ اونچا ہے، درمیانی در کے درمیان سنگین چودار ہے، جس پر سے اذان دی جاتی ہے سامنے کے دروں پر آیات قرآنی کندہ ہیں، مسجد کے اندر جانمازیں بنی ہوئیں ہیں، دائیں بائیں جالیوں کے پردہ میں عورتوں کی جانمازیں ہیں جن کے ساتھ بڑے بڑے حجرے بھی ہیں، مسجد کا منبر سنگ مرمر کا ہے، محراب میں قرآن شریف کی آیتیں کندہ ہیں، چھت لداد ہے، اب بھی جھاڑ فانوس لگے ہوئے ہیں، چھت کے اوپر تین ہشت پہل سرخ گنبد ہیں، ان پر سنگ مرمر کی خوبصورت تحریریں ہیں۔ سامنے چھوٹی چھوٹی خوشنما برجیاں ہیں، پوری مسجد سنگ سرخ سے بنی ہوئی ہے جس پر خوبصورت سنگ مرمر کی تحریریں جڑی ہوئی ہیں۔(۸)

اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار کے پاس بیگمی دالان بھی اسی کا بنوایا ہوا ہے۔ اس کی تعمیر ۱۰۵۳ میں ہوئی اس کا فرش سنگ افشاں بری کا ہے، جس پر زریں کا کام ہے، اس میں بہت خوبصورت سنگ مرمر کے ستون ہیں، دیواروں پر نہایت خوبصورت نقش و نگار ہیں، چھت میں تمامی کی چھت گیر ہے وسط میں سنگ مرمر کی محراب ہے، جس میں جواہرات کی پچی کاری ہے، اس میں جواہرات جڑے ہوئے ہیں، سائبان کے آگے دور تک سنگ مرمر کا فرش ہے اوراس کے اردگرد سنگین کٹہرہ ہے۔ اس میں قوالی ہواکرتی ہے۔(۹)

دہلی کی ایک کارواں سرائے بھی جہاں آرا کی بنوائی ہوئی ہے، اس میں ۹۰ حجرے تھے ہر حجرے کے آگے ایک چبوترہ تھا جس کا عرض پانچ گز تھا، اس میں دو بڑے بڑے کنویں اور ایک مسجد تھی۔(۱۰)

زیب النساء بیگم بنت شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر ۱۰/شوال ۱۰۴۷ھ میں دولت آباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ ملا سعید اشرف سے درسی کتب کے علاوہ فقہ،اصول فقہ اور علم حدیث کی تعلیم حاصل کی، بیگم کی سرپرستی میں امام فخرالدین رازی کی تفسیر کبیر کا فارسی ترجمہ ملا صفی الدین نے زیب التفاسیر کے نام سے کیا ہے۔(۱۱) زیب المنشات خود شہزادی نے مرتب کی تھی جو شہزادی کے خطوط اور رقعات کا مجموعہ تھی۔(۱۲) آپ نے ۱۱۱۳ھ میں وفات پائی۔

زینت النساء بنت شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر ۱۰۵۳ھ اورنگ آباد میں پیدا ہوئیں، بیگم کا زیادہ تر وقت کلام پاک، احادیث کے مطالعہ اور عبادت میں بسر ہوتا تھا، شہر شاہجہاں آباد میں ۱۱۲۲ھ میں زینت النساء کی بنائی ہوئی مسجد ان کی سب سے بڑی یادگار ہے، جو زینت المساجد کے نام سے مشہور ہے یہ مسجد سرسے پاؤں تک سنگ سرخ کی بنی ہوئی ہے اور تینوں برج سنگ مرمر کے ہیں اوراس میں سنگ موسی کی دھاریاں بنائی ہیں، دو مینارے اس مسجد کے بہت بلند ہیں دور سے دکھائی دیتے ہیں اس مسجد کے سات در ہیں ایک بڑا در باقی چھوٹے اس کے صحن میں ایک حوض ہے جس میں کنویں سے پانی آتا تھا، اب وہ کنواں بند ہوگیا ہے، شمال کی جانب اس مسجد کے ایک محجر ہے سنگ مرمر کا اور دوسرا محجر سنگ ماسی کا ہے اندر کے محجر میں زینت النساء بیگم کی قبر ہے اوراس کے سرہانے پتھر پر کتبہ لگا ہوا ہے۔(۱۳) آپ نے ۱۱۲۲ھ میں وفات پائی۔

شہنشاہ جہانگیر کی محبوب ملکہ نورجہاں بیگم ۱۵۷۷/ میں قندھار میں پیدا ہوئیں فارسی ادبیات پر عبور تھا شعر و سخن کا خاص ذوق رکھتی تھیں۔ بدیہہ گوئی شاعری میں اپنے عہد کی خود مثال تھیں ایک دن جہانگیر نے لباس تبدیل کیا جس کا تکمہ ”لعل بے بہا“ کاتھا نورجہاں کی جیسے ہی نظر پڑی فوراً مندرجہ ذیل شعر پڑھا۔

تر ا نہ  تکمہ  لعل  ا ست  بر قبا ئے  حر یر

شدہ است قطرئہ خون منت گریباں گیر(۱۴)

آرائش و زیبائش اور فنون حسن افزائی و سلیقہ مندی میں بے مثال تھیں، آپ نے عطر جہانگیری ایجاد کیاجو ایک خاص قسم کا عطر گلاب تھا، کوئی خوشبو اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ آپ کے وضع کردہ جبے، برقعے، کمخواب، بادلہ اور فرش چاندنی ہندوستان کے کونے کونے میں مشہور ہوگئے۔(۱۵)

ماہم آنگہ اکبر کی رضاعی ماں تھیں ۹۶۹ھ میں پرانے قلعہ کے پاس خیرالمنازل کے نام سے مسجد اور مدرسہ بنوایا، یہ عمارت بالکل چونے اور پتھر کی ہے اور اب بالکل شکستہ ہوگئی ہے۔ مسجد کی پیشانی پر کتبہ لگا ہوا ہے۔(۱۶)

اعزاز النساء بیگم زوجہ شاہجہاں جو اکبر آبادی کے خطاب سے مشہور ہوئیں۔ رحمدل اور مذہبی خیالات کی مالک تھیں۔ ۱۰۶۰ھ شہر شاہجہاں آباد کے فیض بازار میں ایک مسجد بنوائی جو اکبر آبادی مسجد کے نام سے مشہور تھی اس مسجد کے تین برج اور سات در ہیں مسجد کی عمارت تریسٹھ گز لمبی اور سترہ گز چوڑی نری سنگ سرخ کی ہے اس کا پیش طاق پورا سنگ مرمر کا ہے اس کے آگے ایک چبوترہ ہے سنگ سرخ کا کٹہرے دار تریسٹھ گز کا لمبا اور ستاون گز کا چوڑا اور ساڑھے تین گز کا اونچا۔ اس کے آگے سنگ سرخ کا ایک حوض ہے مسجد کا صحن ایک سو چوّن گز لمبا اور ایک سو چار گز چوڑا ہے اوراس کے گرد طالب علموں کے رہنے کے لئے حجرے بنے ہوئے ہیں مسجد کے دروازے پر کتبہ سنگ موسی کی پچی کاری سے کھدا ہوا ہے۔(۱۷)

فتح پوری بیگم زوجہ شاہجہاں نے ۱۰۶۰ھ میں ایک مسجد تعمیر کرائی ، شہر شاہجہاں آباد میں اردو بازار اور چاندنی چوک سے آگے بڑھ کر یہ مسجد ہے اس مسجد کا طول پینتالیس گز کا ہے اور عرض بائیس گز کا، سر سے پاؤں تک سنگ سرخ کی ہے۔ گنبد کے دونوں طرف تین تین در کے ایوان در ایوان ہیں، فرش سنگ مرمر کا ہے دونوں کونوں پر دو مینار ہیں جو پینتیس پینتیس گز اونچے ہیں، مگر اب ان کی برجیاں ٹوٹ گئی ہیں اس کے آگے ایک چبوترہ سنگ سرخ کا ہے، پینتالیس گز کا لمبا اور پینتیس گز کا چوڑا ہے اس چبوترے کے آگے سنگ سرخ کا حوض ہے سولہ گز سے چودہ گز کا اس کے آگے سو گز سے سوگز کا صحن ہے ، صحن کے گرد اونہتر حجرے طالب علموں کے رہنے کے لئے بنے ہوئے ہیں۔(۱۸)

سرہندی بیگم زوجہ شاہجہاں نے ۱۰۶۰ھ میں لاہوری دروازے کے باہر ایک مسجد تعمیر کرائی مسجد کے صحن کا حصہ خندق کے دمدمے میں آگیا ہے، لیکن مسجد کا دالان بدستور موجود ہے، یہ مسجد سرسے پاؤں تک سنگ سرخ کی بنی ہے۔(۱۹)

اورنگ آبادی محل زوجہ اورنگ زیب نے ۱۱۱۴ھ دہلی میں پنجابی کے کٹرہ میں ایک مسجد تعمیر کرائی جس میں طلبہ کے لئے حجرے بھی بنے ہوئے ہیں۔(۲۰)

فخرالنساء خانم زوجہ نواب شجاعت خاں نے ۱۱۴۲ھ میں شہر شاہجہاں آباد کے اندر کشمیری دروازے کے پاس ایک مسجد تعمیرکرائی، اگرچہ یہ مسجد بہت بڑی نہیں ہے، لیکن بہت ہی خوش قطع بنی ہوئی ہے، گنبد اس مسجد کے بہت خوبصورت ہیں اور خوش وضعی میں نامور ہے ، مسجد کے اندر اجارے تک سنگ مرمر بہت نفیس لگایا ہے، برج پورے سنگ مرمر کے ہیں اور اس میں سنگ موسی کی دھاریاں ہیں، کلس بالکل سنہری ہے، مسجد کے اندر سنگ مرمر کا فرش ہے اور باہر سنگ سرخ کا ہے ضلع شمالی میں دورخہ دالان ہے اور اس کے آگے بہت ہی خوبصورت دالان ہے۔(۲۱)

$ $$

حواشی

(۱)         گلبدن بیگم بنت ظہیرالدین بابر اپنے زمانے کی خواتین میں سب سے زیادہ ذہانت اور علمیت رکھتی تھیں، اپنی اعلیٰ تعلیم و تربیت کی بدولت ترکی و فارسی زبان کی انشاء پرداز اور شاعر ہوئیں۔ گلبدن کا زیادہ تر وقت کابل میں گزرا جہاں کی زبان فارسی تھی اس لئے گلبدن نے ”ہمایوں نامہ“ فارسی زبان میں لکھا۔ گلبدن بیگم شریعت کی پابند تھیں غریبوں اور محتاجوں کا بہت خیال رکھتی تھیں بے سہارا لڑکیوں کی پرورش اور شادی بیاہ کے انتظام میں بھرپور حصہ لیتی تھیں۔ ۱۷/مئی ۱۶۰۳/ کواس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔

(۲)        مقالات شبلی، مولانا سید سلیمان ندوی، ج:۴، اعظم گڑھ، ۱۹۵۶/، ص:۵۶۔

(۳)        جہاں آرا بیگم بنت شاہجہاں نے علمی فضا میں پرورش پائی، تعلیم کیلئے ستی النساء کو مقرر کیاگیا جو قرآن حافظ، علم طب، ادب شناسی، قراء ت و تجوید میں امتیازی حیثیت رکھتی تھیں، جہاں آرا بیگم تعلیم حاصل کرکے بہترین مصنفہ اور شاعرہ بنیں اپنے والد کے عہد حکومت میں بڑی باثر تھیں انہیں چھ لاکھ روپے (سالانہ) کاگراں قدر وظیفہ ملتا تھا۔ عالمگیر شاہجہاں اور دیگر بھائیوں سے صلح کرانے میں جہاں آرا نے کوئی کسر باقی نہ رکھی، اگر جہاں آرا نہ ہوتی تو باپ اور بیٹے میں شاید ہی صلح ہوپاتی۔

(۴)        مونس الارواح، تذکرہ فارسی ضمیمہ۱۸، مخطوطات، ص:۱۱۔

(۵)        ”انیس الارواح“ میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے پنے پیر کا احوال اور اپنے مرید ہونے کا حال لکھا ہے۔

(۶)        اورینٹل کالج میگزین، لاہور، ج:۱۳، ۱۹۳۷/

(۷)        اردو دائرة المعارف اسلامیہ، پنجاب لاہور،ج:۷

(۸)        سید صباح الدین عبدالرحمن ایم۔ اے، ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے، اعظم گڑھ، ۱۸/اگست ۱۹۶۳/، ص: ۲۱۲۔

(۹)         ایضاً

(۱۰)       ایضاً

(۱۱)        مآثر عالمگیری، مستعد خاں،کراچی، ۱۹۶۲/، ص: ۴۷۹

(۱۲)       اردو دائرة معارف اسلامیہ۔        

(۱۳)      ڈاکٹر سرسید احمد خاں، آثار الصنادید،اردو بازار جامع مسجد دہلی، ۱۹۶۵/، ص: ۳۰۰

(۱۴)      ہاشم علی خاں مترجم محمود احمد فاروقی، منتخب اللباب، کراچی، ۱۹۶۳/، ص: ۲۷۷

(۱۵)      ایضاً ، ص:۲۷۶

(۱۶)       ڈاکٹر سرسید احمد خاں، آثار الصنادید، اردو بازار جامع مسجد دہلی، ۱۹۶۵/، ص: ۲۴۸

(۱۷)      ایضاً ،ص: ۲۸۴

(۱۸)      ایضاً، ص: ۲۸۴

(۱۹)       ڈاکٹر سرسید احمد خاں، آثار الصنادید،اردو بازار جامع مسجد دہلی، ۱۹۶۵/، ص: ۲۸۶

(۲۰)      حوالہ مذکورہ، ص: ۲۲۹

(۲۱)       حوالہ مذکورہ، ص: ۳۲۲

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 89 ‏،    رمضان‏، شوال 1426ہجری مطابق اکتوبر‏، نومبر 2005ء