ہندوستان کے سیکولر، جمہوری ہونے کا مطلب

از: پروفیسر ظفر احمد نظامی

 

کینیٹ مشن پلان کی تجاویز کے مطابق جولائی ۱۹۴۶/ میں حصول آزادی سے پیشتر ہی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات عمل میںآ گئے۔ ان میں ۲۱۰ عام انتخابی حلقوں میں سے ۱۹۹ نشستیں کانگریس کو حاصل ہوئیں اور ۷۳ پرمسلم لیگ قابض ہوئی، لیکن جب آئین سازی کے لئے ۹/دسمبر ۱۹۴۶/ کو آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس دہلی میں منعقد ہوا تو مسلم لیگ نے اس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنے لئے ایک دوسری آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ کیا۔ تاہم اسمبلی نے آئین سازی کا کام جاری رکھا اور ۱۱/دسمبر کو ڈاکٹر راجندر پرساد کو اپنا مستقل صدر منتخب کرلیا اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی سربراہی میں آئین کو تحریری شکل دینے کی غرض سے ایک مسودہ کمیٹی یاڈرافٹنگ کمیٹی بھی کرالی۔ ۱۱/دسمبر ہی کو اسمبلی کے اجلاس میں پنڈت جواہر لال نہرو نے آئین کے اغراض و مقاصد کی قرار داد پیش کی جو ۲۲/جنوری ۱۹۴۷/ کو منظور کرلی گئی۔ یہ مقاصد آئین کے بنیادی نکات تھے جن پر آئین کی بنیاد رکھی جانی تھی۔

      ۱۴، اور ۱۵/اگست ۱۹۴۷/ کی درمیانی شب میںآ ئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا گورنر جنرل منتخب کرلیاگیا اوراس حیثیت سے انھوں نے جواہر لال نہرو کو ہندوستان کے اولین وزیر اعظم کا حلف دلایا۔ ان کی مجلس وزرا کے دوسرے اراکین کو بھی حلف دلایا گیا۔ اس کے بعد اسمبلی کا کام باقاعدگی سے شروع ہوا جو ۲ سال ۱۱ مہینے اور ۱۸ دن کی مسلسل محنت کے بعد ۲۶/نومبر ۱۹۴۹/ کو اختتام پذیر ہوا۔ آئین ساز اسمبلی میں دوسرے اراکین کے ساتھ آئین سازی کے عمل میں مسلمان اراکین نے بھی حصہ لیا۔ ان میں مولانا ابوالکلام آزاد، بیرسٹر آصف علی، خان عبدالغفار خاں، محمد سعداللہ، عبدالرحیم چودھری، بیگم اعزاز رسول اور مولانا حسرت موہانی شامل تھے۔ اس دستاویز پر مولانا حسرت موہانی کے علاوہ سبھی اراکین اسمبلی نے دستخط کیے۔ اسمبلی کا آخری اجلاس ۲۴/دسمبر ۱۹۴۹/ کو منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر راجندر پرساد کو اتفاق رائے سے ہندوستان کا اولین صدر جمہوریہ منتخب کرلیاگیا اور آئین کو ۲۶/جنوری ۱۹۵۰/ کو نافذ کردیاگیا کیونکہ ۲۰ سال پہلے اس روز ہندوستان کے عوام نے مہاتما گاندھی کی قیادت میں اپنے آپ کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کا عہد کیاتھا۔ ۲۶/جنوری ۱۹۵۰/ کو اسی عہد کی تجدید کرتے ہوئے ہندوستان کو ایک ”مقتدر اعلیٰ جمہوری جمہوریہ“ میں منتقل کردیاگیا۔

      آزاد ہندوستان کا یہ آئین دنیا کے تمام دساتیر میں سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ اس میں دنیا کے بہت سے دساتیر کے بہترین نکات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں مرکزی حکومت کے ساتھ ہی ریاستی حکومتوں سے متعلق تفصیلات بھی واضح کردی گئی ہیں۔ اس میں بنیادی حقوق، بنیادی فرائض، ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصول، مرکز اور ریاستی حکومتوں کے مابین تعلق، صدر جمہوریہ کے ہنگامی اختیارات، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ پبلک سروس کمیشن، الیکشن کمیشن، فنائنس کمیشن جیسے اہم اداروں کی تفصیلات کی بھی وضاحت کردی گئی ہے۔ جب آئین نافذ ہوا تھا تب اس میں ۳۹۵ دفعات اور ۸ شیڈول تھے، لیکن وقتاً فوقتاً اس میں ترمیمیں ہونے کے نتیجے میں اب یہ آئین ۴۰۴ دفعات اور ۹ شیڈول پرمشتمل ہے۔

      یہ آئین ملک میں ایک سیکولر اور سوشلسٹ ریاست کا قیام عمل میں لایا ہے۔ آئین کے اصل مسودے میں پہلے یہ دونوں اصطلاحات شامل نہیں تھیں، لیکن ۱۹۷۶/ میں بیالیسویں ترمیم کے تحت مسز اندرا گاندھی کے دور حکومت میں انہیں آئین کا حصہ بنادیا۔ اصل مسودے میں ہندوستان میں ”مقتدر اعلیٰ جمہوری جمہوریہ“ کا قیام عمل میں لایا گیاتھا۔ بیالیسویں ترمیم کے بعد اس نے ملک کو مقتدر، سوشلسٹ، سیکولر، جمہوری جمہوریہ میں منتقل کردیا۔ لیکن ہندوستانی سیکولرزم مغربی ملکوں کے سیکولرزم کے نظریے سے میل نہیں کھاتا، جہاں اسے مذہب مخالف سمجھاجاتا ہے۔ ہندوستان میں سیکولرزم کے معنی یہ ہیں کہ ریاست کا اپناکوئی مذہب نہیں ہے۔ یہ تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا اور ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اسی طرح ”سوشلسٹ“ کی اصطلاح پیداوار کے وسائل پر سماج کی نگرانی کے معنی میں استعمال کی گئی ہے۔

      آئین میں ہندوستان کو ”ریاستوں کی یونین“ کے نام سے موسوم کیاگیا ہے جس کا مطلب وفاقی طرز حکومت ہے۔ اس نظام حکومت میں ایک تحریری آئین کا ہونا لازمی ہے جس کے ذریعہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم عمل میںآ ئی ہے اور عدلیہ آزاد ہوتا ہے۔ ہندوستان ان شرائط پر پورا اترتا ہے۔ یہاں آئین نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے اختیارات کی وضاحت کردی ہے اور عدلیہ کو پوری آزادی عطا کی ہے۔ ویسے عام دنوں میں یہ وفاقی نظام حکومت کی حیثیت کا حامل ہے لیکن ہنگامی صورت حال میں یہ وحدانی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اسی لئے کچھ ماہرین اسے نیم وفاقی کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔

      آئین ہند ملک میں پارلیمانی طرز حکومت قائم کرتا ہے۔ اس کے مطابق عاملہ، مقننہ کے تئیں ذمہ دار ہے۔ مقننہ عاملہ پر نگرانی رکھتی ہے لیکن جب مقننہ عاملہ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاس کردیتی ہے تو عاملہ کو مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ صدر جمہوریہ سربراہِ ریاست ہے جب کہ وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہے۔ صدر جمہوریہ حکومت کے سربراہ یعنی وزیر اعظم کے مشورے پر عمل کرتا ہے۔ دراصل برطانوی سامراجیت کے دور میں ہندوستانی رہنما برطانوی پارلیمانی طرز حکومت سے متاثر تھے۔ تحریک آزادی کے زمانے میں انھوں نے برطانوی حکومت سے ہندوستان میں بھی اسی طرز حکومت کو رائج کرنے کے مطالبات کیے تھے۔ اسی لئے حصول آزادی کے بعد آئین سازوں نے ہندوستان میں پارلیمانی نظام حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ آئین نے ہندوستان میں موروثی حکومت کی جگہ عوامی جمہوریہ قائم کیا ہے۔اس کے نتیجہ میں برطانیہ میں مروجہ موروثی طرز حکومت کا خاتمہ ہوگیا اوراب ہندوستان کا صدر عوام کے ذریعہ منتخب شخص ہوتا ہے جس کی مدت کار ۵ سال ہے۔ اسی طرح آئین نے وفاقی طرز حکومت کی تیسری شرط پوری کرتے ہوئے عدلیہ کو مکمل طور سے آزادی عطا کی ہے اوراسے آئین کا محافظ قرار دیا ہے اور بنیادی حقوق کی نگہبانی کے فرائض انجام دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کو عدالتی نظر ثانی کا اختیار حاصل ہے۔

      آئین کے دو بنیادی مقاصد ہوتے ہیں: اوّل یہ کہ کسی ملک کا طرز حکومت کیا ہے اور دوئم یہ کہ حکومت اور شہریوں کے مابین تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ یعنی انہیں کون کون سے حقوق حاصل ہیں۔ دراصل ہرآئین اپنے ملک کے شہریوں کو کچھ حقوق عطا کرتا ہے۔ امریکہ، فرانس اور روس کے دساتیر نے ان حقوق کو درج کیا ہے، اسی لئے ہندوستان کے آئین سازوں نے بھی اپنے آئین میں ۶ بنیادی حقوق عطا کیے جو (۱) برابری کا حق (۲) آزادی کا حق (۳) استحصال کے خلاف حق (۴) مذہبی آزادی کا حق (۵) تعلیمی و ثقافتی حق اور (۶) آئینی چارہ جوئی کا حق کہلاتے ہیں۔ اصل مسودے میں ان حقوق کی تعداد ۷ تھی لیکن ۱۹۷۸/ میں جنتا پارٹی حکومت نے جائیداد کے حق کو ختم کرکے اسے عام حقوق میں شامل کردیا۔ ان تمام حقوق کی محافظت کی ذمہ داری عدلیہ کے سپرد ہے۔

      بیشتر سوشلسٹ ملکوں میں وہاں کے شہریوں کے لئے آئین میں بنیادی حقوق کے ساتھ ہی بنیادی فرائض بھی درج کیے گئے ہیں۔ لیکن ہندوستان کے آئین میں ان فرائض کا کوئی ذکر نہیں تھا، تاہم ۱۹۷۶/ میںآ ئین کی چالیسویں ترمیم کے تحت ہندوستان کے آئین میں بھی شہریوں پر بھی یہ بنیادی فرائض عائد کردئیے گئے۔ آئین کی دفعہ 51(A) کے تحت ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ (۱) آئین کے مطابق عمل کرے۔ اس کے آدیشوں، اداروں، قومی پرچم اور قومی ترانہ کا احترام کرے (۲) ان آدرشوں کی مطابقت کرے جنھوں نے ہماری تحریک آزادی کو متاثر کیا (۳) ہندوستان کے اقتدار اعلیٰ، اتحاد اور اس کی سالمیت کا تحفظ کرے (۴) ملک کا دفاع کرے اور وقت ضرورت اس کے تئیں قومی خدمت سر انجام دے (۵) عوام کے سبھی طبقوں میں اتحاد و اخوت کے جذبات کو فروغ دے اور خواتین کے تئیں تحقیر آمیز سلوک کو روانہ رکھے (۶) مخلوط ثقافت کی وراثت کی قدر کرے اور اس کا تحفظ کرے (۷) قومی ماحولیات کا تحفظ کرے اور اسے بہتر بنائے (۸) سائنسی خراج، انسانیت چھان بین اور اصلاح کے جذبہ کو فروغ دے (۹) عوامی املاک کی حفاظت کرے اور تشدد کو ترک کرے (۱۰) افراد اور اجتماعی سرگرمی کے سبھی میدانوں میں برتری حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ مستقل طور سے حصولیابی کی بلندیوں کو چھوتی رہے۔

      ان کے علاوہ آئین میں ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں کے تحت ملک کو ایک فلاحی ریاست سے ہمکنارکیاگیا ہے۔ شہریوں کو بالغ رائے دہندگی کا حق دیاگیا ہے۔ صدر جمہوریہ کوہنگامی صورت حال سے مقابل ہونے کے لئے اختیارات دئیے گئے ہیں اور ترمیم و تنسیخ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اب تک آئین میں ۹۰ سے زائد ترمیمات ہوچکی ہیں۔ یہی وہ تمام خصوصیات ہیں جوہمارے آئین کو دوسرے ملکوں کے دساتیر میں ممتاز مقام کی اہل بناتی ہیں۔

$$$

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد: 89 ‏،    ذیقعدہ 1426ہجری مطابق دسمبر 2005ء