حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ

ایک عبقری شخصیت

از: مولانا جمیل احمد ‏، استاذ دارالعلوم دیوبند

 

 

حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند ان عبقری اورنابغہٴ روزگار شخصیتوں میں سے تھے جنہیں حق تعالیٰ شانہ حالات و ماحول کے مطابق دنیا میں بھیجتے ہیں، جو اپنی عبقریت اور خداداد صلاحیتوں کی بنا پر وقت کے تقاضوں اور سماج کے چیلنجوں سے نبردآزما ہوکر برق وباد کی مخالفتوں اور طوفان بلاخیز کی موجوں کا رخ اپنی حکمت عملی، فراست ایمانی، اور حزم ومصلحت اندیشی سے موڑ دیتے ہیں۔

آپ کا تیس سالہ دور اہتمام اس کی زندہ مثال ہے،جس زیرکی ودانائی، خلوص ومحبت، اتحادِ عمل اور حسن تدبیر سے ادارہ کی خدمات کا دائرہ وسیع کیا ہے اور اس شجر ثمر آور کے سائے میں تشنگانِ علم ومعرفت کو سکینت وسیرابی حاصل ہوئی ہے وہ آپ کی پیہم کاوشوں و مخلصانہ دعاؤں کا نتیجہ ہے۔

حضرت مولانا دنیا سے تشریف لے گئے۔ یہ تو مشیت ایزدی ہے۔ ایک دن تو ایسا ہونا ہی تھا، ان اجل اللہ اذا جاء لا یوٴخر، افراد آتے ہیں، چلے جاتے ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے یہ سلسلہ چل رہا ہے اور تا قیامت چلتا رہے گا، لیکن کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے بہت سی یادگاریں چھوڑ جاتے ہیں۔ دنیا جن پر آنسو بہاتی ہے۔ انھیں اپنی عقیدت ومحبت کا خراج پیش کرتی ہے، ان کی یادیں و باتیں سینے میں بساتی ہے۔ ان کے تذکروں سے سکون ملتا ہے، اور آنے والوں کیلئے اس میں درسِ عبرت پنہاں ہوتا ہے۔

حضرت مولانا کی شخصیت یقینا انھیں افراد میں سے ہے۔ جنھیں برسوں یاد کیا جائے گا۔ ان کی یادیں و باتیں ملت کے افراد کو تڑپاتی رہیں گی، آپ کے انتقال سے ایسا خلا محسوس ہوتا ہے جسے پر کرنا بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔

حضرت مولانا کو حق تعالیٰ شانہ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ ازہر الہند دارالعلوم دیوبند کے پہلے رکن شوریٰ اور پھرمہتمم رہے ان پر پوری ملت کی ذمہ داری تھی۔ اس ادارے کو بارگاہِ ایزدی سے یہ شان عطا ہوئی ہے کہ یہاں کے عمل وردِ عمل اور یہاں کی خوبی و ناخوبی کا اثر پوری امت پر پڑتا ہے۔

ملت کے بہت سے قلوب اس سے وابستہ ہیں۔ اس کا فیض دنیا کے بے شمار مقامات پر پھیلا ہوا ہے اس لئے اس کے دھڑکنے سے وہ قلوب دھڑکتے ہیں یہاں کی خوشی سے وہ جھومتے ہیں اور یہاں کے اضطراب سے ان میں بے کلی پیداہوتی ہے۔ حضرت مولانا کی بصیرت، معاملہ فہمی اور حسن انتظام وانصرام نے ملت کے دردمند وغیور دلوں میں اتحاد باہمی کی فضا پیداکرنے میں موٴثر کردار ادا کیا، آپ نے اہتمام کے منصب جلیل پر فائز ہونے کے بعد امت کے اعتماد و وقار کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیا، تعلیمی و تعمیری اعتبار سے دارالعلوم نے نمایاں ترقی کی۔ طلبہ میں بھی اطمینان کی فضا رہی۔ اساتذہ وملازمین کا بھی آپ پر بھرپور اعتماد رہا، اندرونی حالات پر بھی آپ کا کنٹرول رہا، اور باہر سے اٹھنے والے فتنوں کا آپ نے بہت صبر وتحمل، محتاط لب ولہجہ اور متانت وفکری بلندی سے جواب دیا۔ اسلام کے خلاف اٹھنے والے مسلسل حملوں نے دارالعلوم کو اپنا ہدفِ تنقید بنایا اور خاص طور پر یہاں سے اٹھنے والی تحریکوں اور یہاں کے فارغین کو اپنا مرکزی نقطئہ نگاہ بناکر انھیں دہشت گرد، رجعت پسند قرار دیا جانے لگا۔ آپ کے دور اقتدار میں نہ یہ کہ اس کا جواب دیا گیا بلکہ آپ نے اقدامی حملہ کرکے خود سامراجی دنیا کو ملزمین کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کردیا۔ اور دارالعلوم کی خدمات اور اس کے وقار و احترام کو اور بلند کیا۔ یہ بھی آپ کی بصیرت و دور اندیشی ہے کہ آپ نے دارالعلوم کو کسی خاص سیاسی نظریہ کا جامہ نہ پہننے دیا۔ اسے پولیٹیکل سے دور رکھا اور اخلاقی سطح پر اس کے معیار کو بلند کیا۔ دارالعلوم کو آپ نے بہت وقت دیا، آپ کی یہ ہی سوچ رہتی کہ اس کی ترقی کیونکر ممکن ہے، اس آخری دورِ علالت میں بھی آپ نے اسے ہی اوڑھنا بچھونا بنایا۔ اور یہ خدمات فی سبیل اللہ انجام دیں، کبھی کوئی مشاہرہ نہیں لیا، بلکہ بہت سے طلبہ کو آپ اپنی طرف سے وظائف دیتے، بہت سے غریبوں، بیواؤں، مسکینوں اور مفلوک الحال لوگوں کی خبرگیری کرتے اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کی دولت بھی عطا فرمائی تھی۔

حضرت مولانا کی شخصیت شرافت طبعی، حسن اخلاق، مروت وحمیت، علم وعمل، فضل وکمال،اور پاکیزہ زندگی کا مجموعہ تھی۔ آپ خلیق، حلیم الطبع، منکسرالمزاج،متواضع، شگفتہ رو اور کشادہ فطرت تھے۔ اپنے بیگانے اور وہ افراد بھی جنہیں آپ سے معاصرانہ چشمک تھی آپ کی عالی ظرفی، خوش اخلاقی، نرم روی، بلندحوصلگی اور فطری شرافت کے قائل تھے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمة اللہ علیہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کی باوقار مجلس میں بہت سے حضرات تشریف فرما تھے خادم بھی مجلس میں حاضر تھا۔ ایک صاحب نے دوران گفتگو عرض کیا کہ یہ حضرت۔ دارالعلوم کے باوقار منصب اہتمام پر مولانا مرغوب الرحمن صاحب کو فائز کردیا۔ اس پر حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا۔ وہ بڑے رکھ رکاؤ کے آدمی ہیں۔ سادہ مزاج، شریف الطبع اور خلیق ہیں۔ پھر ان آنکھوں نے ان کا دورِ اہتمام بھی دیکھا ہے کہ کس طرح آپ نے اپنے ماتحتوں و رفقاء کے ساتھ خوش خلقی وعالی ظرفی کا مظاہرہ کیا سب کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی عزتِ نفس کا برابر خیال رکھا ملازمین ومدرسین سبھی آپ سے مطمئن تھے۔ اور احترام وعقیدت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ آپ اپنوں وبیگانوں کے ساتھ کمال شفقت سے پیش آتے۔ پورے اعتدال وتوازن وجامعیت کے ساتھ ادارہ کی ترجمانی فرماتے اوراس اسلامی قلعہ کی جڑوں کو مضبوط سے مضبوط کرنے میں مصروف رہتے۔

لکھنے والے حضرات، حضرت مولانا کی گوناگوں صفات اوران کے متنوع کمالات کا بھرپور تذکرہ کریں گے، تذکرہ نگار اور قلمکار ان کے تذکرے وسوانحی خاکے لکھیں گے جن سے دلوں کو تسلی بھی ملے گی اور بعد میں کام کرنے والوں کیلئے ایک راہ بھی متعین ہوگی۔ ان کے نقوش زندگی سے افسردہ طبیعتوں کو ہمت وحوصلہ ملے گا آپ کی زندگی کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جنہیں یقینا قدرت نے آپ کی فطرت میں ودیعت فرمائے تھے اسی لئے حق تعالیٰ شانہ نے بہت نازک حالات میں دارالعلوم کی قیادت آپ کو عطاء فرمائی تھی۔ آپ نے ان حالات کا بڑی خوش اسلوبی، معاملہ فہمی اور درک وبصیرت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ اور دلوں کو مجروح کئے بغیرحوصلہ واستقامت کے ساتھ ایسے فیصلے کئے جو دارالعلوم کی تاریخ کو نیا موڑ عطا کرتے ہیں اور اسے بام عروج پر پہنچانے میں آپ کی حکمت وفراست، بصیرت و تحمل اور چابک دستی کو کلیدی کردار حاصل رہا ہے۔ آپ کی ذاتی زندگی بھی دیانت وامانت، اخلاق و کردار اور شرافت ومروت کا مجسمہ تھی۔ رہن سہن، رفتار وگفتار، وضع، قطع حد درجہ شریفانہ تھا۔ جذب وسوز، اخلاص وایقان اور تعلق مع اللہ کی کیفیات سے بھی سرشار تھے۔ یہ دین متین ظاہر و باطن کے حسن کا جامع ہے اوریہ جامعیت حضرت مولانا کی زندگی کا جزلاینفک تھی آپ کے تذکرہ نگار یقینا ان تمام گوشوں کو اجاگر کریں گے یہ بے بضاعت اور قلم وقرطاس سے بے بہرہ کیا لکھ سکتا ہے؟

اس خاکسار کی تقرری میں جس حسن اخلاق، دلچسپی بلکہ عالی ظرفی اور انبساط وسرور کا مظاہرہ کیا یہ ان کے بڑکپن اور خردنواری کی دلیل ہے آپ نے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ گزرے ہوئے واقعات بھی نہاں خانہٴ دل میں محفوظ ہوسکتے ہیں۔ ملاقات پر محبت وخلوص اور اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ فرماتے بار بار پوچھتے کہ آپ سے متعلق کون سے اسباق ہیں ہر ملاقات پر ان کی کرم فرمائی اور اپنی نیازمندی میں اضافہ ہی ہوتا گیا انتقال پر ملال سے ہفتہ عشرہ قبل جب ان کے وطن بجنور عیادت کیلئے حاضری ہوئی اس وقت بھی کمالِ شفقت کا مظاہرہ کیا اپنے صاحبزادے مولانا انورالرحمن صاحب سے فرمایاکہ بھائی مولانا جمیل صاحب کو ناشتہ بھی کرایا ہے بار بار دعاء دیتے رہے ان کی آواز گلوگیر ہوگئی۔ چہرے بشرے سے گرچہ معلوم ہورہا تھا کہ مدت کا تھکا ہارا دنیا کا یہ مسافراپنی اصلی آرام گاہ کی طرف جانے کی تیاری میں مصروف ہے ہم نے واپسی کی اجازت لی اور دیوبند واپس آگئے، پھر جس کااندیشہ تھا جلد ہی حقیقت بن کر سامنے آگیا ۔ انا للہ وانّا الیہ راجعون o اِنّ لِلہ ما اخذ ولہ ما اعطی. وکل شیء عندہ باجل مسمّٰی. موت سے کس کو مفر ہے۔ آج وہ کل ہماری باری ہے۔ فوز وفلاح صرف اس کے لئے ہے جس نے دنیا کو صرف گزرگاہ بنایا اور یہاں رہ کر آخرت کیلئے زاد راہ تیار کیا ہمیں یقین ہے کہ مالک کائنات کی رحمت کا شامیانہ ضرور حضرت مولانا کی قبر پر سایہ فگن رہے گا صحیح بات یہ ہے کہ ہم کس کو تعزیت کا پرسا دیں ہم خود تعزیت کے مستحق ہیں، صدمہ شدید ہے لیکن صبر عزیز ہے اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو معطر فرمائے اور قیامت میں ان کا حشر صالحین کے ساتھ فرمائے، آمین۔

 

٭٭٭

---------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1-2 ‏، جلد: 95 ‏، صفر‏، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری‏، فروری 2011ء