حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب دار فانی سے دار بقا كو رحلت كرگئے:

یادگار رونقِ محفل تھی پروانے کی خاک

از: محمد ساجدقاسمی کھجناروی

 استاذ جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ

 

 

یکم محرم الحرام ۱۴۳۲ھ مطابق ۸/دسمبر۲۰۱۰ء بروز بدھ کو یہ کاتب الحروف اپنے متعلقہ اسباق پڑھانے کے بعد ماہنامہ ’’صدائے حق‘‘ کے دفتر میں بیٹھا ہوا تازہ شمارہ کی ایڈیٹنگ میں مشغول تھا کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی فون ریسیوکیا تو دیوبند سے برادرم مولوی شاہنواز بدر نے مغموم لہجہ میں یہ دلخراش خبر سنائی کہ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند اپنے آبائی وطن بجنور میں اس جہاں فانی سے رحلت فرماگئے، راقم آثم نے استرجاعی کلمات پڑھنے کے ساتھ ہی آناً فاناً دفتر اہتمام میں میرکارواں حضرت مولانا مفتی خالد سیف اللہ صاحب مدظلہم کو یہ اندوہناک اطلاع دی تو آپ نے بے ساختہ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور فرمایا کہ دارالعلوم دیوبند کے ایک روشن اور تاریخ ساز عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ اللہ پاک حضرت رحمة اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے اور مادر علمی دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ، حضرت مفتی صاحب مدظلہ کے متذکرہ بالا فکر مندانہ کلمات سے اس احساس کی بھی تائید ہوتی ہے کہ حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کا وجود اس دور قحط الرجال میں بسا غنیمت تھا، لہٰذا ان کا سانحہٴ رحلت دارالعلوم دیوبند سمیت پوری ملت کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے، جس کی بھرپائی بسہولت ممکن نہیں، شاعر نے غالباً آپ ہی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ع

ڈھونڈھوگے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

موت ایک اٹل حقیقت ہے، گردش شام وسحر کے باوجود اس کا رقص ہر سمت جاری ہے، کیا چھوٹے کیا بڑے کیا بوڑھے کیا جوان کیا شہرت پذیر کیا بے نام ونشان ہر ایک اس کی آغوش میں سمارہے ہیں، ہر روز بیشمار انسان منوں مٹی کے نیچے اس طرح جابستے ہیں کہ کانوں کان خبر نہیں ہوتی، مگر بعض ہستیاں اور خاصانِ خدا کے کوچ کرنے پر صدیاں اور زمانے اشک بار ہوتے ہیں۔

حضرت مولانا مرغوب الرحمن علیہ الرحمہ بھی انہی چنیدہ شخصیات کبار میں سے تھے، جن کے تقویٰ وطہارت، تدبر وحکمت، متانت وسخاوت اور زندہ دلی وشفقت کی بے شمار داستانیں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں، قاسمی برادری ہی نہیں پوری ملت اسلامیہ انہیں عقیدت والفت کے پھول نچھاور کررہی ہے، اسی لئے ان گنہگار آنکھوں نے بھی وہ ایمان افروز منظر دیکھا، جب ربع صدی سے زیادہ زمانی رقبہ پر محیط دارالعلوم کی بے لوث خدمت کرنے والی آخری سفر کے راہی کو دارالعلوم کے نودرہ سے مزار قاسمی کندھوں پر لیجایا جارہا تھا، ہر شخص مجسم حسرت بنا ہوا نم آنکھوں سے انہیں الوداع کہہ رہا تھا اور احقر کو نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ کی وہ حدیث یاد آرہی تھی جو الترغیب والترہیب صفحہ نمبر ۲۵۴/ جلد نمبر ۴/ جبکہ اتحاف السادة المتقین صفحہ نمبر ۳۳۸/ جلد نمبر ۷/ پر موجود ہے: قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم خیرالناس من طال عمرہ وحسن عملہ آپ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں سب سے بہترشخص وہ ہے جس کی عمرلمبی ہو اور عمل اچھا ہو، حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کی زندگی اس حدیث کی مصداق نظر آتی ہے، رب رحیم وکریم کی ذات سے قوی امید ہے کہ وہ دارآخرت میں عنایات الٰہی سے بہرہ ور ہورہے ہوں گے۔

حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ نے شہر بجنور میں ۱۹۱۴ء میں رئیس بجنور مولانا مشیت اللہ کے یہاں آنکھیں کھولیں، ان کے والد گرامی امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ کے دوستوں میں سے تھے، آپ کے گھرانے میں علم وادب کے چرچے اور دین ودانش کے غلغلے تھے، اصحابِ فضل وکمال کا یہاں ورودِ مسعود ہوتا رہتا تھا، مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ نے اسی خوش گوار علمی فضا میں تربیت پائی، درس نظامی کی ابتدائی تعلیم مقامی مدرسہ جامعہ رحیمیہ میں حاصل کی، ۱۹۲۹ء میں علوم اسلامی کی شہرہٴ آفاق مرکزی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور یہاں باضابطہ داخلہ لے کر تعلیم کے تمام مراحل بحسن وخوبی طے کئے، دریں اثنا چند سال انقطاع کے بعد دارالعلوم ہی سے افتاء کی بھی تکمیل کی اور اس وقت کے باکمال مفتی حضرت مولانا سہول بھاگلپوری رحمة اللہ علیہ کی نگرانی میں مشق ومزاولت کی، فراغت کے بعد بھی دارالعلوم کے بزرگوں سے برابر تعلق رہا، بچپن ہی سے اللہ نے آپ کو اوصاف وکمالات سے آراستہ کیا تھا، مزاج میں سلامتی وخودداری اور صالح جذبات کے غیرمعمولی عناصر نے آپ کی شخصیت میں مقناطیسیت کے جواہر ٹانک دئیے تھے، اس لئے ذمہ دارانِ دارالعلوم نے ۱۹۶۲ء میں آپ کو اراکین شوریٰ میں جگہ دی، جہاں آپ کی اصابت فکر کے چراغ روشن ہوئے، آپ نے ہمیشہ دارالعلوم کے مفاد میں گراں قدر تجاویز پیش کیں جس سے آپ کی نیک نامی میں اضافہ ہوا، پھر جب حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کو ایک معاون مہتمم کی ضرورت پڑی تو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ نے آپ کا نام پیش کیا، جس کی تائید جملہ اراکین شوریٰ نے کی، بالآخر جب ۱۹۸۲ء میں تقسیم دارالعلوم کا قضیہ نامرضیہ پیش آیا تو اراکین شوریٰ نے باضابطہ منصب اہتمام آپ کے حوالہ کردیا، اس میں شک نہیں کہ دارالعلوم کی باگ ڈور آپ نے ایسے وقت میں سنبھالی تھی کہ جب نفرتوں کی چنگاریاں بھڑک رہی تھیں، دارالعلوم ناگفتہ بہ بحران سے دوچار تھا لیکن حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ نے نہایت تدبر فہم وفراست، سلیقہ مندی، حوصلگی اورجرأت وحکمت کے ساتھ دارالعلوم کے قافلہ کو آگے بڑھایا اور تادم آخر وہ اس کے میر کارواں رہے، یہاں یہ اعتراف بیجا نہ ہوگا کہ اگر دارالعلوم کو حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ نے اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا تو حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ نے اسے دوام واستحکام بخشا، اس کی شہرتوں میں چار چاند لگائے، ملت کے قیمتی اثاثے دارالعلوم کی آپ نے حفاظت فرمائی، آپ کے زمانہ اہتمام میں دارالعلوم نے تعلیمی وتعمیری اعتبار سے بہت سی بلندیوں کو چھوا، تخصصات کے شعبے قائم ہوئے، روایتی شعبوں کو متحرک وفعال بنایا، اسلامی طرز تعمیر کا جدید شاہکار جامع رشید بھی آپ کے اہتمام کی پیشانی کاجھومر کہا جاسکتا ہے، الغرض تعلیم وتربیت، تعمیر وترقیات کے باب میں خوش گوار اضافے اور کامیابی حضرت مرحوم کی رہین منت ہیں جو نقش دوام کی حیثیت رکھتی ہیں۔

حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ دارالعلوم کے بے لوث خدمت گذار تھے، وہ ناز ونخرے اور رئیسانہ ماحول کے پروردہ تھے لیکن سادگی قناعت پسندی، کفایت شعاری، خلوص وللہیت، تواضع وانکساری، معاملہ فہمی،راست گوئی، فرض شناسی، دیانت داری، شرافت وہمدردی ان کی ذات کا ناقابل انفکاک حصہ تھی، بندہ نے دارالعلوم میں اپنے دس سالہ ایام طالب علمی میں ان کے الطاف وعنایات کا مشاہدہ کیا اور ان کے خوانِ نعمت سے مستفید بھی ہوا، وہ طلبہ پر بے حد شفیق تھے، آپ طلبہ کی تربیت کے بارے میں متفکر نظر آتے تھے، ان کا خیال تھا کہ        ع

کورس تو الفاظ ہی سکھاتے ہیں              لیکن آدمی آدمی بناتے ہیں

ایک مرتبہ بعض شہریوں سے طلبہ کی جھڑپ ہوگئی اور طلبہ نے انتظام کو متحرک نہ دیکھ کر صدائے احتجاج بلند کردی، بالآخر انتظامیہ حرکت میں آگئی اور مسجد رشید میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کرلیاگیا، حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ بذات خود تشریف لائے، طلبہ نے اپنے مطالبات آپ کے سامنے رکھے، حضرت نے تربیتی پہلو اختیار فرمایااور کہا کہ طلبہ اپنی جائزمشکلات کے مداوے کیلئے درخواست کریں، مطالبہ یا ایجی ٹیشن کرنا کالج اسکول اور سیاسی پارٹیوں کا طریقہ ہے جو دینی مدارس کے طلبہ کی شان نہیں ہے۔

آپ کے منصب اہتمام پر متمکن رہتے ہوئے اندرون وبیرون ملک بہت سے موڑ آئے، عالمی منظرنامے پر شہ اور اور مات کے کھیل دیکھنے کو ملے، عالم اسلام نے موافق ومخالف دونوں ہواؤں کا سامنا کیا، افغانستان میں طالبان حکومت کا عروج وزوال، نائن الیون کا حادثہ، اسلام کے خلاف فرعونی لشکروں کی ناکہ بندی، ہندوپاک کے مابین تعلقات کے نشیب وفراز، غرض ہر موقع پر مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ نے دارالعلوم کے اسٹیج سے ہندی مسلمانوں کے صحیح احساسات وجذبات کی ترجمانی کا فریضہ ادا کیا اور مادرعلمی کے سائبان کو ہر قسم کی تپش سے محفوظ رکھا یقینا اس میں ان کی مومنانہ فراست اور تقرب الٰہی کا خاص دخل تھا، حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کی کن کن خوبیوں کا تذکرہ کریں، حق جل مجدہ نے انہیں بے شمار خصوصیات سے مالامال کیا تھا، دفاع عن الدین کے بارے میں وہ ہمیشہ مستعد نظر آتے تھے، باطل فرقوں کے مسموم اثرات سے مسلمان بچوں کی حفاظت، اسلام اورمسلمانوں کے تئیں مغربی میڈیا کے منفی کردار کی تغلیط ومذمت، اپنے مسلک پر آنچ آئے بغیر دوسروں کے ساتھ ملی امور پر تبادلہٴ خیال اور مشارکت، نیز امت کی شیرازہ بندی ان کی دینی تڑپ وملی شعور کا ایسا صاف وشفاف آئینہ ہے جس سے ان کی ہشت پہل شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے، آج اگرچہ وہ اجنبی شہر کے باسی ہیں لیکن آپ کی ناقابل فراموش خدمات کے سہارے ان کی یادوں کے روشن چراغ یونہی ضیاء پاشی کرتے رہیں گے۔

موت اس کی ہے کرے جس پر زمانہ افسوس

یوں تو سب آئے ہیں اس دنیا میں مرنے کیلئے

 

٭٭٭

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1-2 ‏، جلد: 95 ‏، صفر‏، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری‏، فروری 2011ء