رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک

از: مولانا مفتی عمر فاروق لوہاروی

شیخ الحدیث دارالعلوم لندن

 

 

(آج کل بعض اشخاص کا کہنا ہے، کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے بطورِ تبرک جو موئے مبارک ان کے پاس ہیں، وہ بڑھتے اور زیادہ ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں زیر نظر مضمون تحریر کیاگیاہے)

رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر یوم النحر میں منیٰ میں تشریف لاکر جمرہٴ عقبہ کی رمی کے بعد اونٹوں کی قربانی کی، اس کے بعد مشہور اور صحیح قول کے مطابق معمربن عبداللہ العدوی رضی اللہ عنہ سے اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا، پھر موئے مبارک تقسیم فرمائے، ’’صحیح مسلم‘‘ وغیرہ میں ہے:

عن ابن مالک؛ أن رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أَتٰی مِنٰی . فأتٰی الجمرةَ فرماھا ثم أتٰی منزلَہ بِمنٰی ونَحَرَ. ثم قال للحلّاق: خذ وأشارَ الی جانِبہ الأیمنِ. ثم الأیسرِ. ثم جَعَلَ یُعطِیْہِ الناسَ. (صحیح مسلم بشرح النووي، ص:۴۵، ج:۹ کتاب الحج، باب بیان أن السنة یوم النحر أن یرمي الخ)

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے منیٰ آمد کے بعد جمرہ کے پاس تشریف لاکر، اس کی رمی کی، پھر منیٰ میں اپنی اقامت گاہ تشریف لائے اور قربانی کی۔ پھر حلاق سے فرمایا: لو، اور اپنے سرمبارک کی دائیں جانب اشارہ فرمایا۔ پھر (اسی طرح) بائیں جانب۔ پھر وہ موئے مبارک (حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے) لوگوں کو دینے لگے۔‘‘

عن انس بن مالک؛ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمٰی جمرةَ العقبةِ. ثم انصرفَ الٰی البُدن فَنَحَرَھا والحجامُ جالسٌ، وقال بیدہ عن رأسِہ، فحَلَقَ شِقَّہ الأیمنَ. فقَسَّمہ فِیْمَنْ یَلیہِ. ثم قال: أحلِقْ الشِّقَّ الاٰخَرَ. فقال: أینَ أبوطلحةَ؟ فأعطاہُ ایَّاہُ. (صحیح مسلم بشرح النووي، ص:۴۶، ج:۹ کتاب الحج، باب بیان أن السنة یوم النحر أن یرمي الخ)

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے جمرئہ عقبہ کی رمی کی، پھر اونٹوں کی طرف تشریف لے گئے اور ان کا نحرکیا، حجام صحابی بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے اپنے دستِ مبارک سے سر (کی دائیں جانب حلق) کے لیے اشارہ فرمایا، تو انھوں نے آپ کے سرِمبارک کی دائیں جانب حلق کیا، آپ نے ان بالوں کو اپنے قریب لوگوں میں (حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے) تقسیم فرمایا، پھر حجام صحابی سے فرمایا: دوسری جانب حلق کرو۔ (انھوں نے بائیں جانب حلق کیا) پھر آپ نے دریافت فرمایا: ابوطلحہ کہاں ہیں؟ (حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے) پس آپ نے وہ موئے مبارک ان کو دئیے۔‘‘

صحیح بخاری میں ہے:

عن انسٍ رضى الله عنه؛ أن رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما حَلَقَ رأسَہ کان ابوطلحةَ اوّلُ من اَخَذَ من شعرِہ. (صحیح بخاری، ص:۲۹، ج:۱ کتاب الوضوء، باب الماء الذي یغسل بہ شعر الانسان)

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے جب اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا، تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے موئے مبارک لینے والوں میں اوّل تھے۔‘‘

اس امر میں روایات مختلف ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے سرِمبارک کی دائیں جانب کے موئے مبارک دئیے تھے یا بائیں جانب کے؟ شیخ ابن القیم رحمة اللہ علیہ نے ’’زاد المعاد‘‘ (ص:۲۵۳،۲۵۴ دارالکتب العلمیہ۔ سن طباعت: ۲۰۰۷ء) میں اس پر قدرے تفصیل کے ساتھ کلام کیاہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ عینی رحمہما اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے دونوں جانبوں کے بال حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو دئیے تھے، پھر دائیں جانب کے بال حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے حکم سے لوگوں میں تقسیم کردئیے تھے اور بائیں جانب کے بال آپ ہی کے حکم سے اپنی اہلیہ حضرت ام سُلیم رضی اللہ عنہا کو دے دئیے تھے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ‘‘الاصابة’’ میں ‘‘حضرت جُعشم الخیر رضی اللہ عنہ’’ کے تعارف میں فرماتے ہیں:

وجُعشم الخیر (رضی اللہ عنہ) بایع تحت الشجرة، وکساہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قمیصَہ ونعلَیہِ، وأعطاہُ مِن شعرہ (صلی اللہ علیہ وسلم). (الاصابة في تمییز الصحابة، ص:۲۳۶، ج:۱)

’’حضرت جُعشم الخیر رضی اللہ عنہ نے (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے (رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے دست مبارک پر) بیعت کی، اور نبی صلى الله علیہ وسلم نے ان کو اپنا کرتا مبارک، نعلینِ مبارک اور اپنے کچھ موئے مبارک عنایت فرمائے تھے۔‘‘

رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کا موئے مبارک تقسیم فرمانے کا راز

رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے اپنے موئے مبارک حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم میں کیوں تقسیم فرمائے تھے؟اس سلسلہ میں علامہ زرقانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وَاِنّما قسَّم شعرَہ في اصحابہ لِیکونَ برکةً باقیةً بینَھم وتذکرةً لھم، وکأنَّہ أشارَ بذلک الٰی اقترابِ الأجل. (شرح العلامة الزرقاني علی المواھب اللدنیة، ص:۱۹۶، ج:۸، دارالمعرفة، بیروت)

’’رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے اپنے موئے مبارک اپنے اصحاب میں اس لیے تقسیم فرمائے، تاکہ وہ ان میں بطور برکت اور یادگار رہیں اور اسی سے گویا آپ صلى الله علیہ وسلم نے قربِ وصال کی طرف اشارہ فرمادیا۔‘‘

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں:

حضور صلى الله علیہ وسلم کا اپنا بالِ مبارک تقسیم کرنا، اپنی تعظیم وعبادت کے لیے نہ تھا؛ بلکہ صحابہ كرام رضوان الله تعالى علیہم اجمعين کی محبت پر نظر کرتے ہوئے ان کے نزاع وقتال کے رفع دفع کرنے کے لیے تھا، اگر آپ صلى الله علیہ وسلم اپنے بالوں کو دفن کراتے، تو یقینا صحابہ رضوان الله تعالى علیہم اجمعين زمین سے ان کو نکالنے کی کوشش کرتے،اور عجب نہیں کہ قتال کی نوبت آجاتی۔ (ملفوظات حکیم الامت، ص:۱۷۱، ج:۲۳، ملفوظ:۵۰۱)

موئے مبارک کے ساتھ صحابہٴ کرام رضوان الله تعالى علیہم اجمعين کا معاملہ

حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو حجة الوداع یا کسی عمرہ میں حلق کے موقع پر یا عام حالات میں بال تراشنے کے موقع پر رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک حاصل ہوئے، تو انھوں نے ان کو بحفاظت رکھا، اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے۔

حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے عمرہ کے موقع پر رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے حاصل ہونے والے موئے مبارک اپنی ٹوپی میں سی کر رکھ دئیے تھے، ان کی برکت سے جنگ میں کامیابی ان کے قدم چومتی تھی، علامہ عینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

قد ذَکَرَ غیرُ واحدٍ أن خالدَ بنَ الولیدِ رضی اللہ عنہ کانَ في قلنسوتہ شعراتٌ من شعرہ صلی اللہ علیہ وسلم فلذلک کان لا یقدم علٰی وجہ الّا فتح لہ. (عمدة القاري، ص:۶۳، ج:۱۰)

’’کئی حضرات نے ذکر کیا ہے کہ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے، اسی وجہ سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ جس جانب پیش قدمی فرماتے تھے، اُنھیں کامیابی حاصل ہوتی تھی۔‘‘

’’مجمع الزوائد‘‘ میں ہے:

عن جعفر بن عبد اللہ بن الحکم؛ أن خالدَ بنَ الولیدِ فَقَدَ قلنسوةً لہ یومَ الیرموکِ. فقال: اُطْلُبوھا، فلم یَجِدُوھا. فقال: اُطْلُبوھا، فوَجَدُوھا، فاذا ھي قلنسوةٌ خَلِقَةً، فقال خالد: اعتمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فحَلَقَ رأسَہ، فابتدَرَ الناسُ جوانبَ شعرہ، فسبقتُم الٰی ناصِیَتہ، فجعلتُھا في ھذہ القلنسوةِ، فلم أشْھَدْ قتالا وھي معي الاّ رُزقتُ النصرةَ.

قال الحافظ الھیثميُّ: رواہ الطبراني وأبو یعلٰی بنحوہ، ورجالُھما رجالُ الصحیح، وجعفر سَمِعَ من جماعةٍ من الصحابةِ، فلا أدري سمع من خالدٍ أم لا. (مجمع الزوائد، ص:۴۳۰، ۴۳۱، ج:۹، حدیث: ۱۵۸۸۲)

’’جعفر بن عبداللہ بن الحکم سے مروی ہے، کہ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی جنگِ یرموک کے موقع پر گم ہوگئی، اُنھوں نے لوگوں سے فرمایا: اسے تلاش کرو! لوگوں نے تلاش کرنے پرنہیں پائی۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دوبارہ تلاش کرنے کا حکم فرمایا، اب کی بار لوگوں نے پالی، لوگوں نے دیکھا کہ وہ ایک بوسیدہ ٹوپی ہے۔ (اس کے باوجود جس اہتمام سے اسے تلاش کیا، کروایا، اس پر لوگوں کو تعجب ہوا، تو ان کے تعجب وحیرت کو ختم کرنے کے لیے) حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے عمرہ ادا فرمایا، اس کے بعد اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا، تو لوگ آپ کے سرمبارک کی مختلف جانبوں کے موئے مبارک کی طرف سبقت کی غرض سے بڑھے، پس میں نے آپ کے سرمبارک کے سامنے کی جانب کے بالوں کے لیے ان سب سے سبقت حاصل کرلی۔ پھر میں نے وہ موئے مبارک اس ٹوپی میں رکھ دیے، اس ٹوپی کے ساتھ جس جنگ میں شریک ہوا، اس میں مجھے کامیابی ہی ملی۔‘‘

قاضی عیاض رحمة اللہ علیہ، الشفاء میں فرماتے ہیں:

کانتْ في قلنسوةِ خالد بنِ الولیدِ شعراتٌ من شعرہ صلی اللہ علیہ وسلم، فسقطَتْ قلنسوتُہ فی بعض حروبہ، فشدَّ علیھا شدةً انکر علیہ أصحابُ النبي صلی اللہ علیہ وسلم لکثرةٍ من قتلٍ فیھا، فقال: لم اَفْعَلْھا بسببِ القلنسوة بل لما تضمنتہ من شعرہ صلی اللہ علیہ وسلم، لئلا اسلب (وفی نسخة: تسلب) برکتَھا وتقع في أیدی المشرکین. (الشفاء مع شرحہ نسیم الریاض، ص:۴۳۴، ج:۳)

’’حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے۔ ایک جنگ میں آ پ کی ٹوپی گرگئی، تو اس کے لیے انھوں نے سخت حملہ کیا، (جو) نبی صلى الله علیہ وسلم کے اصحاب (کو غیرمعمولی معلوم ہوا، اس لیے انھوں) نے ان پر نکیر کی؛ کیوں کہ اس حملہ میں بہت آدمی قتل ہوئے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کہ میں نے یہ حملہ ٹوپی کی وجہ سے نہیں کیا؛ بلکہ اس میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک تھے، ان کی وجہ سے کیاتھا، کہ مبادا کہیں میں ان کی برکت سے محروم نہ ہوجاؤں اور یہ مبارک بال مشرکین کے ہاتھ میں پہنچ جائیں۔‘‘

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے، کہ آپ نے مرضِ وفات میں اپنے بیٹے یزید کو بلایا اور فرمایا:

یا بنیّ؛ انی صَحِبْتُ رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فخَرَجَ لحاجةٍ، فاتَّبعتُہ باداوة، فکساني أحدَ ثوبیہ الذی کان علی جلدہ، فخبأتہ لھذا الیوم، وأخذَ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اظفارہ وشعرہ ذاتَ یوم فأخذتُہ وخبأتہ لھذا الیومِ، فاذا أنامتُّ فاجعل ذلک القمیصَ دونَ کفنی ممّا یلی جلدی، وحُذْ ذلک الشعرَ والأظفارَ فاجعلَہُ في فمي وعلٰی عیني ومواضع السجود مني. (الاستیعاب، ص:۴۷۳، ج:۳)

’’اے بیٹے! میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے ہم راہ تھا، آپ حاجت کے لیے نکلے، میں چھاگل لے کر آپ کے پیچھے گیا، (اور وضو کرایا) تو آپ نے زیب تن کیے ہوئے دو کپڑوں میں سے ایک کپڑا مجھے عنایت فرمایا، وہ میں نے اس دن کے لیے چھپا رکھا تھا۔ (اسی طرح) رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے ایک دن اپنے ناخن اور بال مبارک کاٹے، تو میں نے انھیں لے لیا تھا اور اس دن کے لیے حفاظت سے رکھ لیا تھا، تو تم اس قمیص کو میرے کفن کے نیچے میرے بدن سے متصل رکھ دینا۔ اور وہ بال اور ناخنِ مبارک لے کر میرے منھ میں اور میری آنکھوں اور سجدہ کی جگہوں پر رکھ دینا۔‘‘

حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی جانب سے موئے مبارک حاصل ہوئے تھے، انھوں نے بھی ان کو بحفاظت رکھا تھا، چناں چہ ’’مسند احمد‘‘ میں ہے:

عن محمدِ بنِ عبد اللہ بن زیدٍ أن اباہُ حدثہ أنہ شھد النبيَّ صلی اللہ علیہ وسلم عندَ المنحر ھو ورجل من قریشٍ وھو یقسم الأضاحي، فلم یصبہ شیءٌ ولا صاحِبَہ، فحَلَقَ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رأسَہ في ثوبہ فأعطاہ فقسّم منہ علٰی رجالٍ، وقَلَمَ اظفارَہ فأعطاہ صاحِبَہ. قال: فانَّہ عندنا مخضوبٌ بالحناء، والکتمِ یعني شعرَہ. (مسند أحمد، ص:۴۲، ج:۴)

’’محمد بن عبد اللہ بن زید سے مروی ہے کہ ان کے والد عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا، کہ وہ اور ایک قریشی آدمی منحرکے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب موجود تھے، دراں حالیکہ آپ قربانی کے جانور تقسیم فرمارہے تھے، ان کو اور ان کے ساتھی کو کوئی جانور نہیں ملا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سرِمبارک کا حلق اس طرح کرایا، کہ موئے مبارک آپ کے کپڑے میں گریں، آپ نے انھیں موئے مبارک عنایت فرمائے اور کچھ موئے مبارک دوسرے لوگوں میں تقسیم فرمائے۔ آپ نے اپنے ناخن مبارک تراشے، وہ ان کے ساتھی کو دیے۔ راوی فرماتے ہیں: وہ یعنی موئے مبارک ہمارے پاس ہیں، جو حناء اور ایک خاص قسم کے پودے کے رنگ سے رنگین ہیں۔‘‘

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک محفوظ تھے، کسی کو نظر بدلگتی، یاکوئی بیمار ہوتا، تو پانی بھیجتے، موئے مبارک اس میں ڈال دئیے جاتے، لوگ وہ پانی استعمال کرتے،تو ان کی برکت سے شفاء مل جاتی؛ چنانچہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے:

حدَّثَنا مالکُ بنُ اسماعیلَ قال: حدثَّنا اسرائیلُ، عن عثمانَ بنِ عبد اللہ بن موھب قال: ارسلَني أھلي الی أم سلمةَ بقدحٍ من ماء - وقَبَضَ اسرائیلُ ثلاثَ أصابعَ - من قصة (او فضة)، فیہ (او فیھا) شعرٌ من شعرِ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکان اذا أصاب الانسانَ عینٌ أو شیءٌ بَعَثَ الیھا مخضبہ، فأطلعتُ في الجلجل، فرأیتُ شعراتٍ حُمْرًا. (صحیح بخاری، ص:۸۷۵، ج:۲ کتاب اللباس، باب ما یذکر في الشیب).

ترجمہ: (۱) ’’امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، کہ ہم سے مالک بن اسماعیل نے، ان سے اسرائیل نے روایت بیان کی، وہ عثمان بن عبداللہ بن موہب سے نقل کرتے ہیں، کہ میرے گھروالوں نے مجھے پانی کا پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا (اور اسرائیل نے تین انگلیاں سکیڑیں) بالوں کے گچھے کی وجہ سے چاندی کے اس پیالہ کی وجہ سے، جس میں نبی صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک تھے ۔ جب کسی انسان کو نظرِ بدلگتی، یا کوئی اور عارض وبیماری پیش آتی، تو ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس اپنے ٹب کو بھیجتا، عثمان بن عبداللہ فرماتے ہیں: میں نے ڈبیہ میں جھانکا، تو میں نے سرخ موئے مبارک دیکھے۔‘‘

رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے بعد والوں کو حاصل ہوئے۔ چناں چہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے:

عَنِ ابنِ سیرینَ قال: قلت لعَبِیدةَ: عندنا من شعرِ النبي صلی اللہ علیہ وسلم اَصبناہ مِن قبلِ انس او من قبل أھل أنس. فقال: لأن تکون عندی شعرة منہ أحب اليّ مِنَ الدنیا وما فیھا. (صحیح بخاري، ص:۲۹، ج:۱، کتاب الوضوء، باب الماء الذي یغسل بہ شعرُ الانسان)

’’حضرت محمد ابن سیرین رحمة اللہ علیہ سے مروی ہے، کہ میں نے عبیدہ (سلمانی) سے کہا: ہمارے پاس بنی صلى الله علیہ وسلم کے چند موئے مبارک ہیں، جو ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، یا کہاکہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ کے خاندان کی جانب سے حاصل ہوئے ہیں۔ عبیدہ سلمانی نے کہا: میرے پاس آپ صلى الله علیہ وسلم کا ایک موئے مبارک ہونا مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ پسند ہوتا۔‘‘

حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے ’’خلق قرآن‘‘ کے مسئلہ میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کی آزمائش کا ذکر کرتے ہوئے نقل فرمایا ہے، کہ معتصم کی خلقِ قرآن کی بات نہ ماننے پر اس نے کہا:

خُذُوہُ واخلعوہ واسحبوہ . قال أحمد: فأخذتُ وسحبتُ وخلعتُ وجیء بالعقابین والسیاط وأنا انظر، وکان معي من شعراتِ النبی صلی اللہ علیہ وسلم مصرورة في ثوبي، فجردوني منہ وصرت بین العقابین. (البدایة والنہایة ص:۳۶۸، ج:۱۰)

’’ان کو پکڑو اور کھینچو اور ان کے ہاتھ اکھیڑدو، امام احمد رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ مجھے پکڑکر کھینچا گیا اور میرے ہاتھ اکھیڑے گئے۔ اور میری نظروں کے سامنے تازیانے لگانے کے لیے دو لکڑیاں اور کوڑے لائے گئے۔ میرے ساتھ نبیٴ اکرم صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک میں سے چند موئے مبارک تھے، جو میرے کپڑے میں بندھے (رکھے) ہوئے تھے، انھوں نے وہ کپڑا میرے بدن سے اتارلیا اور میں دو لکڑیوں کے درمیان (معلق)ہوگیا۔‘‘

حافظ شمس الدین ذہبی رحمة اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں:

قال: وقد کانَ صار اليّ شعرٌ من شعرِ النبي صلی اللہ علیہ وسلم في کُمّ قمیصي، فوجَّہ اليّ اسحاقُ بنُ ابراھیمَ، یقول: ما ھذا المصرور؟ قلت شعرٌ من شعر رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسعی بعضھم لیخرق القمیص عنّي، فقال المعتصم لاتخرقوہ، فنزع، فظننت أنہ انما دُرِیٴَ عن القمیصِ الخرقُ بالشعر. (سیر أعلام النبلاء، ص:۴۸۱، ج:۹)

’’امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ نبی صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک میں سے چند موئے مبارک مجھے حاصل ہوئے تھے، جو میرے کُرتے کی آستین میں تھے، اسحاق بن ابراہیم میرے پاس آکر کہنے لگا: یہ بندھی (رکھی) ہوئی چیز کیا ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے چند موئے مبارک ہیں، خلیفہ کے آدمیوں میں سے ایک میرا کُرتا پھاڑنے کے لیے لپکا، تو معتصم نے کہا: اس کو مت پھاڑو، پس کرتا اتارلیاگیا، میرے گمان میں موئے مبارک کی برکت کی وجہ سے کرتا پھاڑے جانے سے محفوظ رہا۔‘‘

موجودہ زمانے میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک کا وجود

مذکورہ بالا روایات وعباراتِ کتب سے معلوم ہوا، کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے اپنے موئے مبارک تقسیم فرمائے تھے، حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے انھیں بحفاظت رکھا اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے، پھر انھیں سے وہ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوئے، ممکن ہے کہ اسی طرح قرناً بعد قرنٍ اورنسلاً بعد نسلٍ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوتے ہوئے آج کے زمانے میں کسی کے پاس پہنچے ہوں، اور وہ اس کے پاس موجود ہوں۔

ترکی میں استنبول کے مشہور عجائب گھر توپ کاپے سرایے میں موجودتبرکات بشمول موئے مبارک کے متعلق شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم اپنے مشہور سفرنامہ ’’جہانِ دیدہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’یوں تو دنیا کے مختلف حصوں میں آں حضرت صلى الله علیہ وسلم کی طرف منسوب تبرکات پائے جاتے ہیں، لیکن مشہور یہ ہے، کہ استنبول میں محفوظ یہ تبرکات زیادہ مستند ہیں، ان میں سرورِ دوعالم صلى الله علیہ وسلم کا جبہٴ مبارک، آپ کی دوتلواریں، آپ کا وہ جھنڈا جس کے بارے میں مشہور یہ ہے، کہ وہ غزوئہ بدر میں استعمال کیاگیا تھا، موئے مبارک، دندانِ مبارک، مقوقش شاہِ مصر کے نام آپ کا مکتوبِ گرامی اور آپ کی مہرِ مبارک شامل ہیں۔‘‘ (جہانِ دیدہ، ص:۳۳۸)

حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

’’طوب قابی (توپ کاپے) کے میوزیم میں کئی ہال ہیں، ایک ہال میں حضور صلى الله علیہ وسلم کی دو تلواریں چاندی کے ایک صندوق میں رکھی ہوئی ہیں، یہیں سونے کے دو صندوق ہیں، ایک میں حضور صلى الله علیہ وسلم کا موئے مبارک اور مہر ہے، جو عقیق کو تراش کر بنائی گئی ہے، مہر گلابی رنگ کے عقیق کی ہے اور بیضوی شکل کی ہے....‘‘ (مقالاتِ حکیم الاسلام، ص:۳۸۷)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ:

حجة الوداع میں حضور صلى الله علیہ وسلم نے اپنے سر کے موئے مبارک اتار کر تقسیم فرمائے ہیں، ظاہر ہے، کہ بال سرپر ہزاروں ہوتے ہیں، وہ کتنوں کے پاس پہنچے ہوں گے،اور اس میں ایک ایک بال کے کتنے حصے کرکے ایک ایک نے آپس میں تقسیم کیے ہوں گے، اور کتنے حفاظت سے رکھے ہوں گے، اس لیے اگر کسی جگہ موئے مبارک کا پتہ چلے، تواس کی جلدی تکذیب نہ کرنا چاہیے۔ (ملفوظات حکیم الامت، ص:۱۳۹، ۱۴۰، ج:۱۱)

’’فتاویٰ رحیمیہ‘‘ میں ہے:

سوال: یہ مشہور ہے، کہ اکثر بڑے شہروں میں اور دیہات میں حضور پُرنور صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک ہیں، کیا یہ درست ہے؟اور کیا اس کی تعظیم کی جائے؟

الجواب: حدیث شریف سے ثابت ہے، کہ نبیٴ کریم علیہ الصلاة والسلام نے اپنے موئے مبارک صحابہٴ کرام کو تقسیم فرمائے تھے۔ ’’فتاویٰ ابن تیمیہ‘‘ میں ہے: فان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حَلَقَ رأسَہ، واعطیٰ نصفَہ لأبی طلحةَ ونصفَہ قَسَّمَہ بینَ الناسِ. (ص:۴۳، ج:۱) تو اگر کسی کے پاس ہو، تو تعجب کی بات نہیں۔ اگر اس کی صحیح اور قابل اعتماد سند ہو، تو اس کی تعظیم کی جائے، اگر سند نہ ہو اور مصنوعی ہونے کا بھی یقین نہیں، تو خاموشی اختیار کی جائے، نہ اس کی تصدیق کرے اور نہ جھٹلائے، نہ تعظیم کرے اورنہ اہانت کرے۔ فقط (فتاویٰ رحیمیہ، ص:۲۷۷، ج:۲، مکتبہ رحیمیہ ،انڈیا)

موئے مبارک کی زیارت

موئے مبارک اگر اصلی ہوں، تو دیگر تبرکاتِ نبویہ علی صاحبہا الف الف صلاة وتحیة کی طرح اس کی زیارت باعثِ خیر وبرکت ہے؛ لیکن شرط یہ ہے، کہ اس میں افراط وتفریط نہ ہو، کوئی اعتقادی یا عملی خرابی نہ ہو، رسومِ بدعت اور بے پردگی نہ ہو، زیارت میں کوئی تاریخ ودن معین اور ضروری نہ سمجھا جائے۔

موئے مبارک کا بڑھنا

آج کل بعض اشخاص کا کہنا ہے، کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک جن حضرات کے پاس ہیں، ان سے تصدیق حاصل کی ہوئی ہے، کہ موئے مبارک سے دوسرے موئے مبارک پیدا ہوتے ہیں، مثلاً ایک تھا، تو دو تین ہوگئے، کسی کے پاس تو ایک ہی تھا، مگر ایک میں سے پیدا ہوتے ہوتے ایک سو بیس تک پہنچ گئے، اس نے کئی آدمیوں کو دیے۔

مذکورہ بعض اشخاص کی رائے کے تجزیے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے، کہ اوّلاً سائنٹفک طریقے سے کٹا، یا اکھڑا ہوا بال بڑھ سکتا ہے یا نہیں، ان کو زیر بحث لایا جائے۔

سائنس کہتی ہے، کہ بال اگنے کا عمل غدود (FOLLICLE) میں ہوتا ہے، اور یہ غدود ہماری چمڑی میں ہوتا ہے۔ پھر بال مردہ قراتین خلیے (CELLS KERATIN, PROTEIN)سے بنتا ہے، اوراس کے بڑھنے کے لیے غدود میں خون کا سیلان وجریان ضروری ہے۔

اس اعتبار سے ظاہر ہے، کہ جب بال کٹا یا اکھڑا ہوا ہو، تو وہ از خود بڑھ ہی نہیں سکتا؛ کیوں کہ اس کے بڑھنے کے لیے بنیادی چیزیں چمڑی اور غدود ہی ندارد ہے۔

اس سے معلوم ہوا، کہ جن لوگوں کے پاس واقعتا رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک ہیں، ان کا سائنٹفک طریقے سے بڑھنا توناممکن ہے۔

جہاں تک معاملہ ہے خرقِ عادت کے طور پر بڑھنے کا، جسے یا تو معجزہ کا نام دیا جائے یا کرامت کا؛ چناں چہ علامہ شہاب خفاجی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، کہ خرقِ عادت سے مقصود محض تشریف وتکریم ہو، تو وہ کرامت ہے، خواہ نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو یا ولی کے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ کی عبارت سے یہی مفہوم ہوتا ہے۔ (نسیم الریاض شرح الشفاء للقاضی عیاض: ۴۴۰، ج:۲، الباب الرابع) تو اس کے لیے بنیادی بات یہ معلوم کرنی ہے، کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد خوارق کا ظہور ہوسکتا ہے یا نہیں؟

بعد از وفات خوارق کے ظہور کے سلسلے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ نے ”کراماتِ امدادیہ“ میں تحریر فرمایا ہے:

’’جاننا چاہیے، کہ بعض اولیاء اللہ سے بعد انتقال کے بھی تصرفات وخوارق سرزد ہوتے ہیں اور یہ امر معناً حدِّ تواتر تک پہنچ گیا ہے۔‘‘ (ملفوظات حکیم الامت، ص:۱۰۴، ج:۲۹ بحوالہ کرامات امدادیہ)

جب ولی سے انتقال کے بعد خوارق کا صدور ہوسکتا ہے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے، کہ نبی سے بطریقِ اولیٰ صدور ہوسکتا ہے؛ چناں چہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ نے ”دربارِ نبوت کی حاضری کا ایک عجیب واقعہ“ (نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کا معجزہ بعد الوفات) کے زیر عنوان ’’فیض الجود‘‘ کے حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے:

’’سرورِ عالم صلى الله علیہ وسلم کے معجزاتِ باہرہ کے سامنے یہ کوئی بڑی چیز نہیں؛ لیکن اس سے یہ امر اور ثابت ہوا، کہ رسالت مآب صلى الله علیہ وسلم جس طرح روضہٴ اقدس میں زندہ تشریف فرما ہیں، اسی طرح آپ کے معجزات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس قسم کے واقعات ایک دو نہیں، سیکڑوں کی تعداد میں امت کے ہر طبقے کو پیش آتے رہتے ہیں۔‘‘ (کشکول، ص:۱۴۹)

اس سے معلوم ہوا، کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی خوارق کا ظہور ہوسکتا ہے، لہٰذا آپ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک کے بڑھنے کا معجزہ یا کرامت مستبعد نہیں؛ بلکہ آپ کے خوارقِ عظیمہ شہیرہ کے سامنے یہ تو ادنیٰ بات ہے؛ مگر آج تک بندہ کی نظر سے کسی معتبر کتاب میں موئے مبارک بڑھنے کا یہ معجزہ یاکرامت نہیں گزری،اور نہ ہی کسی معتبر وثقہ آدمی سے سنی۔

آج جو بعض لوگ کہہ رہے ہیں، کہ ایک موئے مبارک سے دوسرے موئے مبارک پیدا ہورہے ہیں، تو تعجب وحیرت اس بات پر ہے، کہ اس خارقِ عادت امر کا ایسا معنی خیز اخفاء کیوں ہے؟ اوراس کواس طرح صیغہٴ راز میں کیوں رکھا جارہا ہے؟ ایسا کیوں نہیں کیا جاتا، کہ صاحبِ بصیرت وبصارت، معتبر وثقہ اور عادل اشخاص کو موئے مبارک بڑھنے کے اس عمل کا مشاہدہ کرایا جائے؛ تاکہ وہ اس کا حتمی فیصلہ کرسکیں، کہ یہ کسی خداع وتزویر، حیلہ وتدبیر، مسمریزم وقوتِ متخیلہ میں تصرف اور شعبدہ بازی ونظربندی کی کرشمہ سازی ہے، یا صرف اور صرف کائن من الغیب ہے۔

***

-----------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3 ، جلد: 95 ‏، ربیع الثانی 1432 ہجری مطابق مارچ 2011ء