قرآن کریم کی روشنی میں افراد سازی (۱)

از:         اخترامام عادل قاسمی                              

مہتمم جامعہ ربانی منورواشریف، سمستی پور، بہار       

 

 

قرآن دینِ کامل کی ایک نمائندہ کتاب ہے، یہ ایسی کتابِ ہدایت ہے، جو انسانیت کو سب سے سیدھی اور معتبر راہ دکھاتی ہے، انّ ھذا القرآنَ یھدي لِلَّتِي ھِيَ أقوَمُ (الاسراء:۹)

ترجمہ: بیشک یہ قرآن سب سے سیدھے اور مضبوط راستے کی رہنمائی کرتا ہے۔

یہ روشنی کا پیغامبر ہے، یہ ایک مینارئہ نور ہے، جس سے سارا عالم رہتی دنیا تک تاریکی سے نجات پاتا رہے گا۔

قَدْ انزلَ اللہُ الیکم ذکرًا، رسولاً یتلوا علیکم آیٰتِ اللہِ مُبَیِّناتٍ لِیُخرِجَ الذینَ آمَنوا وعَمِلوا الصٰلحٰتِ من الظلمٰتِ الی النور (الطلاق:۱۰-۱۱)

ترجمہ: اللہ نے تمہارے لیے قرآن نازل کیا، رسول تم پر اللہ کی واضح آیات پڑھ کر سناتے ہیں؛ تاکہ ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں۔

یہ ایک نسخہٴ کیمیا ہے جو خاک کو کیمیا اور ذرہ کوجوہر بناتا ہے،اس میں بیماروں کے لیے شفا اور صحتمندوں کے لیے سامانِ سکون ہے، یہ خدا کا ایسا قیمتی اور عظیم الشان عطیہ ہے کہ اگر مضبوط اور بلند وبالا پہاڑوں پر اتارا جاتا تو وہ اس کا وزن برداشت نہ کرپاتے اور ہیبت سے ریزہ ریزہ ہوجاتے:

لَو انزلنا ھٰذا القرآنَ علٰی جبلٍ لَرَأیتہُ خاشعاً متصدعاً مِنْ خَشیةِ اللہ  (الحشر:۲۱)

ترجمہ: ’’اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتاردیتے تو تم دیکھتے کہ وہ لرزہ براندام ہے اور ہیبتِ الٰہی سے ریزہ ریزہ ہوچکا ہے۔‘‘

قرآن آج بھی تمام طاقتوں کا سرچشمہ اور ساری مشکلات کا حل ہے، جس طرح قرآن نے صدیوں پیشتر ایک حد سے زیادہ گری ہوئی قوم کو بلندیوں کے آسمان پر پہنچادیا تھا اور اسی کتابِ ہدایت کی بدولت ایک انتہائی پچھڑا ہوا معاشرہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ اور مہذب معاشرہ میں تبدیل ہوگیا، جن لوگوں کو کسی مہذب اور شریف آدمی کی نقل اتارنے کاسلیقہ نہیں تھا، وہ ساری مذہب اور تعلیم یافتہ دنیا کے لیے آئیڈیل بن گئے، جن کو اپنا چھوٹا سا گاؤں چلانے کی لیاقت نہیں تھی، ان میں پوری روئے زمین پر حکمرانی کی اہلیت پیداہوگئی، جن کو ایک چھوٹی سی سوسائٹی پر کنٹرول نہیں تھا اور جو ساری دنیا میں اپنی خانہ جنگی اور سر پھٹول کے لیے بدنام تھے، ان کو ایسا قانون مل گیا جس نے ساری انسانیت کو ایک لڑی میں پرودیا،․․․ یہ سب اسی کتابِ مقدس کا اعجاز تھا․․․ اس کی معجزانہ قوتیں آج بھی زندہ ہیں، ان کو برتنے اور استعمال میں لانے کی ضرورت ہے، آج اس کتابِ ہدایت کو ہم نے سردخانے میں ڈال دیا ہے اوراس ہدایت وانقلاب والی کتاب کو صرف ایک برکت والی کتاب میں تبدیل کردیا ہے۔

ضرورت ہے کہ جائزہ لیا جائے کہ وہ کیا چیزیں تھیں، جن کو برت کر ایک گئی گذری قوم اتنی آگے بڑھ گئی اور وہ کیا باتیں تھیں، جن کو چھوڑ کر آسمان کی بلندیوں سے باتیں کرنے والی قوم پستی کی گہرائیوں میں چلی گئی، بقول ڈاکٹر اقبال رحمه الله :

وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہوکر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر

قرآن آج بھی قوموں اور افراد کو بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، شخصیتوں کی تعمیر کا نسخہ آج بھی پوری طرح کارگر ہے، قرآن کا دامن اس قسم کے شہ پاروں سے بھرا پڑا ہے، ہم ان میں سے بطورِ نمونہ چند کوذکر کرتے ہیں:

قوتِ ایمانی

جہاں تک میں نے قرآن کو پڑھا ہے، قرآن نے سب سے زیادہ زور ایمان ویقین پر دیا ہے، کسی فرد یا قوم کی تعمیر میں سب سے بڑا رول اسی قوتِ ایمانی کا ہے، ایمان کا درجہ فرد یا قوم کی زندگی کے لیے روح کا ہے، یہ شخصیت کو زندگی اور زندگی کو توانائی بخشتا ہے، اس کے بغیر دنیا میں نہ کوئی پنپ سکتا ہے اور نہ ابھرسکتا ہے، شخصیت بنتی ہے اسی بنیاد پر، اس کو ہٹاکر کی جانے والی ہر کوشش فقط خسارہ کا سودا ہے، جس کا نظارہ ہردور میں چشمِ فلک نے کیا ہے اور جس پر ماہ وسال کی گردشیں گواہ ہیں، قرآنِ کریم نے صدیوں کے اسی تجربہ پر تصدیق کی مہر لگائی ہے:

والعصرِ انَّ الانسانَ لَفِي خُسْر، الاَّ الذینَ آمنوا وعَمِلوا الصالحاتِ وتَواصَوا بالحق وتَوَاصَوا بالصبر (العصر)

ترجمہ: قسم ہے زمانے کی، بیشک انسان گھاٹے میں ہے سوائے ایمان والوں کے جنھوں نے نیک اعمال کیے، ایک دوسرے کو حق کی اور صبر کی تلقین کی۔

یہ سورت شخصیت سازی کے مسئلے میں سب سے مرکزی حیثیت رکھتی ہے، اس سورة کا موضوع ہی انسانیت کی تعمیر اور نفع ونقصان کے معیار کا تعین ہے، قرآن پورے یقین کے ساتھ (اور قرآن کا ہر بیان یقینی ہوتا ہے) اور ہر قسم کے شک وشبہ کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: جو لوگ ایمان والے نہیں ہیں، وہ گھاٹے میں ہیں،اگرچہ کہ وہ بظاہر نفع میں دکھائی دیں، اوراگر کوئی صاحبِ ایمان گھاٹے میں دکھائی دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اُسے اپنے ایمان پر محنت کرنی چاہیے، قرآنِ کریم نے ایسے ایمان والوں کو ہدایت کی ہے:

یٰأیھا الذین آمنوا آمِنوا (اے ایمان والو! تجدِید ایمان کرو)

قرآن اور صاحبِ قرآن نے نزولِ قرآن کے آغاز سے پوری مکی زندگی صرف ایمان کی محنت پر گذاری اور عمل کی جگہ پر نماز اور تلاوتِ قرآن کے علاوہ کوئی حکمِ شرعی بندوں کو نہیں دیا گیا، بندوں میں یہ یقین بنایاگیا کہ اصل چیز اللہ کی رضا ہے، ساری محنت اسی لیے کی جانی چاہیے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے اس لیے زندگی کے ہر مسئلے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ اللہ کی مرضی کیاہے؟ اللہ کی مرضی اور اس کا حکم جان لینے کے بعد پھر اپنی کوئی مرضی باقی نہیں رہ جاتی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنِ الحکمُ اِلاّ للہِ علیہ توکلّتُ وعلیہ فلیتوکل المتوکلون (یوسف:۸)

ترجمہ: ’’فیصلہ صرف خداکا چلے گا، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔‘‘

وَمن لم یَحْکُمْ بما انزلَ اللہ فاولٰئک ھم الفاسقون (مائدہ:۷)

ترجمہ: ’’اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق جولوگ فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔‘‘

ما کان لموٴمنٍ ولا موٴمنة اذا قضی اللہُ ورسولُہ أَمْرًا أن یکونَ لھم الخِیَرة

ترجمہ: ’’جب اللہ اور اس کے رسول نے کسی قضیہ میں فیصلہ سنادیا تو پھر کسی موٴمن مرد یا عورت کے لیے اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔‘‘

نماز اور تلاوتِ قرآن بھی اگرچہ عمل کے درجہ کی چیز ہے؛ لیکن یہ بھی ایمان ہی کا تکملہ ہیں، ایمان کو غذا انھیں کے وسیلے سے ملتی ہے، خدا سے رابطہ کا یہی ذریعہ ہیں، بندہ انھیں واسطوں سے اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے، یہ دونوں چیزیں عبدومعبود کے رشتے کو مضبوط کرتی ہیں، اس طرح گویا یہ بھی ایمان ویقین ہی کا حصہ ہیں۔

ایمان نام ہے دل سے مان لینے کا اور اسلام نام ہے سرِتسلیم خم کردینے کا، جس کو قرآن اتباع، اطاعت اورانقیاد وغیرہ اصطلاحات سے ذکر کرتا ہے، قرآن اپنے ماننے والوں کا شروع سے یہ ذہن بناتا ہے کہ رب کے سامنے اپنے کو ہر طرح سرینڈر کردینا ہی بندگی ہے، ایسے لوگوں کو قرآن رضوانِ الٰہی کا پروانہ دیتا ہے:

رضی اللہ عنھم ورَضُوا عنہ، ذٰلک لِمنْ خَشِیَ ربَّہُ (سورہٴ بَیِّنہ:۸)

ترجمہ: ’’اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، یہ سعادت رب سے ڈرنے والوں کو ملتی ہے۔‘‘

قرآن نے یہ فکردی ہے کہ قوتوں کا سرچشمہ رب العالمین ہے، موت وحیات کے تمام مسائل کی ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے، مال واسباب صرف ظاہری ذرائع ہیں، نہ یہ کسی کو زندگی دے سکتے ہیں اور نہ کسی مسئلے کو بناسکتے ہیں، فیصلے تمام تر احکم الحاکمین کے دربار سے ہوتے ہیں:

أیحسب أن مالَہُ أخلَدَہُ، کلاّ لَیُنْبَذَنَّ في الحُطَمة (سورہٴ ہمزة:۳،۴)

ترجمہ: ’’کیاوہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ زندہ رکھے گا ہرگز نہیں یہ سارا مال جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔‘‘

اِنْ یَنْصُرْکُمُ اللہَ فلا غالبَ لَکُم واِن یَخْذُلْکُم فمن ذا الذی ینصرُکم من بعدہِ فلیتوکلِ المتوکلون (آل عمران:۱۷)

ترجمہ: ’’اگر اللہ تمہارا مددگار ہوتو تم پر کوئی غالب نہیںآ سکتا، اوراگر اللہ تمہیں رسوا کریں تو پھر اس کے بعد تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا، پس بھروسہ صرف اللہ پر کرنا چاہیے۔‘‘

اس طرح کی بیشمار آیات ہیں، جن میں قرآن نے بندہ کا رشتہ پروردگار سے جوڑنے پر زور دیا ہے اور جب بندہ کا تعلق اپنے رب سے ہوجاتا ہے، تو دنیا کے سارے رشتے اس کے زیرِ سایہ چلے آتے ہیں، انسان میں خدا اعتمادی سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، انسان کے دل میں اپنے پروردگار کی بنائی ہوئی ایک ایک چیز سے پیار جاگ جاتا ہے،اور تمام وہ اچھی باتیں جو اللہ کو پسند ہیں، وہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اورہر ایسے کام سے ڈرتا ہے، جن سے پروردگار ناراض ہوتا ہے، اس طرح انسان فضائل واخلاق کا پیکر، امن ومحبت کا پیامبر اور خداشناشی وخودشناشی کا سنگم بن جاتا ہے، اس کو دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے، اس کی پیشانی میں خدا کا نور جھلکتا ہے، اس کے پاس بیٹھنے کو جی چاہتا ہے، اس کی باتیں دل میں اترتی چلی جاتی ہیں، اس طرح ایک معیاری اور تعمیرپسند سوسائٹی کی بنیاد پڑتی ہے․․․

تو انسان کی شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑا حصہ ایمان ویقین کا ہے، یہ نہ ہوتو ساری چیزیں کھوکھلی ہیں۔

حسنِ عمل

انسان کی شخصیت کی تعمیر میں دوسرا اہم ترین درجہ عملِ صالح کا ہے، قرآنِ کریم نے سورہٴ والعصر میں اس کو دوسرے مقام پر رکھا ہے، جو لوگ آرزوؤں اور خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور کام سے زیادہ منصوبے بنانے پر اپنے اوقات صرف کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا میں ان کی تعریف ہو، قرآن ان کو متوجہ کرتا ہے کہ اچھے کاموں کے بغیر دنیا یا آخرت میں کوئی اچھا انسان نہیں بن سکتا، اچھی شخصیت اچھے کاموں سے بنتی ہے، پھر اچھے اعمال کی ایک طویل فہرست ہے، جو قرآن میں بکھری پڑی ہے، اہلِ علم ان سے بخوبی واقف ہیں، بطورِ نمونہ ایک دو آیات کا حوالہ دیتا ہوں:

سورہٴ موٴمنون کی درج ذیل آیت میں بعض اعمال کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کو کامیابی کا مدار قرار دیاگیا ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الموٴمنون الذین ھُم في صلاتِھم خاشِعون والذین ھُم عَنِ اللَّغْوِ مُعرِضون والذین ھم للزکوٰة فاعلون والذین ھُمْ لفروجِھم حافِظُون والذین ھم لامٰنٰتھم وعَھْدِھم راعون والذین ھم علٰی صلاتھم حافظون (موٴمنون:۱)

ترجمہ: ’’بیشک وہ ایمان والے کامیاب ہیں، جو اپنی نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں، جو بیکار باتوں سے پرہیز کرتے ہیں، جو زکوٰة ادا کرتے ہیں، جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، جو اپنی امانتوں اور وعدوں کا لحاظ کرتے ہیں، اور جو نمازوں کے پابند ہیں۔‘‘

سورہٴ بقرہ میں ہے:

لیس البرُ اَن تُوَلّوا وُجوھکم قِبَلَ المشرقِ والمَغْرِبِ ولکنَّ البِرَّ مَنْ آمن باللہ والیوم الآخر والملٰئکة والکتٰب والنبیین واٰتی المالَ علٰی حُبِّہِ ذوی القربٰی والیتٰمٰی والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب واَقامَ الصلٰوةَ واٰتی الزکوٰةَ والموفونَ بعھدِھم اذا عاھدوا والصٰبرین في الباساءِ والضراءِ وحینَ البأسِ اولٰئک الذین صدقوا وأولٰئک ھم المتقون (بقرہ:۲۲)

ترجمہ: ’’نیکی یہی نہیں ہے کہ اپنا رخ مشرق ومغرب کی جانب کرو؛ بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ اللہ پر، روز آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب اور نبیوں پر ایمان ہو (اور اعمال میں) اور مال سے بے پناہ محبت کے باوجود اس کو اپنے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، مانگنے والوں اور غلاموں کے آزاد کرانے کے لیے خرچ کرے، نماز ادا کرے، زکوٰة دے، وعدہ کرے تواس کو پورا کرے، مصیبت وتکلیف اور جنگ میں صبر وثبات کا مظاہرہ کرے، یہی لوگ راست باز اور تقویٰ والے ہیں۔‘‘

سورہٴ فرقان میں ہے:

وعبادُ الرحمٰن الذین یَمْشُون علی الارضِ ھوناً واذا خاطَبَھم الجاھلونَ قالوا سلٰماً والذین یبیتون لرَبِّھم سُجَّدًا قیامًا والذین یقولون ربَّنا اصرِف عذابَ جھنمَ انَّ عذابھا کان غرامًا، انّھا سَائَتْ مستقرًا ومقاماً والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذٰلک قوامًا والذین لایدعون مع اللہ الٰھاً آخر ولا یقتلون النفس التي حَرَّم اللہُ الاّ بالحقِّ ولایزنون ومن یفعل ذٰلک یَلْقَ اثاماً․․․ والذین لایشھدون الزورَ واذا مرّوا باللغو مرّوا کِراماً والذین اذا ذکروا بآیٰتِ ربِّھم لم یَخِرّوا علیھا صُمًّا وعُمیاناً والذین یقولون ربنا ھب لنا من أزواجّنا وذریٰتِنا قرةَ أعیُنْ واجعلنا للمتقین امامًا (فرقان:۶)

ترجمہ: ’’اور اللہ کے نیک بندے وہ ہیں، جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں اور جب ناسمجھ لوگ ان کو مخاطب کرتے ہیں تو سلام کہہ کر گذرجاتے ہیں، جو راتوں میں اٹھ کر پروردگار کے حضور سجدہ و قیام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ اے پروردگار! ہم سے جہنم کا عذاب دور فرما، اس کا عذاب پوری تباہی ہے،اور وہ برا ٹھکانہ اور مقام ہے، جو خرچ میں نہ بخل کرتے ہیں اور نہ فضول خرچی کرتے ہیں؛ بلکہ اعتدال سے کام لیتے ہیں،جو اللہ کے علاوہ کسی معبود کو نہیں پکارتے،جو کسی جان کا بے گناہ خون نہیں کرتے، جس کو خدا نے منع کیا ہے، اور نہ بدکاری کرتے ہیں، کہ جو ایسا کرے گا وہ گنہگار ہوگا، اور جو جھوٹے کام میں شامل نہیں ہوتے،اور جب کبھی لغویات سے گذرتے ہیں تو سنجیدگی اور وقار سے گذرجاتے ہیں، اور جب خدا کی آیات ان کو سنائی جائیں تو وہ اندھے اوربہرے نہ ہوجائیں، اور یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو ہمارے بیوی بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک بخش اور ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔‘‘

اسی طرح سورئہ شوریٰ،آل عمران، قصص، دہر وغیرہ میں متعدد آیات میں اعمالِ خیر کی تفصیل دی گئی ہے۔

موافق ماحول

تیسرا اہم ترین محرِّک اچھا ماحول ہے، جس کو قرآن نے وتَواصوا بالحق وتواصوا بالصبر (اور ایک دوسرے کو حق کی اور صبر کی تلقین کریں) سے تعبیر کیا ہے اس لیے کہ جس سوسائٹی میں حق بات کہی اور سنی جاتی ہو اور جس کی بنیاد محض جذباتیت اور اشتعال کے بجائے صبر وتحمل اور ایک دوسرے کے لیے برداشت کے جذبہ پر ہو، اس سے بہتر سوسائٹی دنیا میں کیاہوسکتی ہے؟

انسان کی ذہنی تشکیل اور شخصیت کی تعمیر میں ماحول کا بڑا حصہ ہے، انسان کواگر اچھا ماحول اور موافق گردوپیش میسر آجائے تو اس کی شخصیت بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کرتی ہے، بہتر ماحول علم وعمل کی کمی کی بھی مکافات کردیتا ہے، یعنی علم وعمل میں انسان نسبتاً  کمتر ہو؛لیکن اسے موافق ماحول اور اچھی صحبت مل جائے تو علم وعمل کی کمی کے باوجود وہ اپنا مقام بنالیتا ہے، انسان کے آگے بڑھنے کے لیے ماحول سے بڑھ کر کوئی مددگار نہیں ہوتا، علم وعمل کی تمام خوبیوں کے باوجود اگر انسان کو موافق ماحول اور بہتر مواقع میسر نہ ہوں تو اس کی ترقی وتعمیر میں بڑی مشکلات پیش آئیں گی، علم وعمل کو ماحول ہی پروان چڑھاتا ہے،اسی لیے نماز، روزہ اور دیگر عبادات میں اللہ نے ماحول بنانے پر زور دیا ہے، یہ نماز باجماعت، رمضان کا اجتماعی روزہ، حج کااجتماع، عید، جمعہ، کسوف، استسقاء وغیرہ کا اجتماع، یہ سب اسی لیے ہے کہ عمومی ماحول میں کوئی بڑا سے بڑا کام بھی آسان ہوجاتا ہے، اس طرح سوسائٹی کے اکثر افراد کو نیک کاموں کی توفیق ہوجائے تو ایک شاندار معاشرہ وجود میں آسکتا ہے، قرآن کریم نے درج ذیل آیت میں اسی حقیقت کی طرف بلیغ اشارہ کیا ہے:

کنتم خیرَ أمَّةٍ اُخرِجَتْ للناسِ تأمرون بالمعروف وتَنْھَوْن عَنِ المُنکَر

ترجمہ: تم ایک بہتر امت ہو جو اچھائیوں کی تلقین کرتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔

قرآن زندگی کے تمام معاملات میں اسی طرح کی وحدت کو پسند کرتا ہے،اور معاشرہ کی انارکی اور انتشار کوناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے، آیت کریمہ ہے واعتصموا بِحَبْلِ اللہِ جمیعاً ولا تفرَّقوا (آل عمران:۱۱)

ترجمہ: اور خدا کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑلو اور باہم انتشارمت پیداکرو۔

ایک جگہ ارشاد ہے:

وأطیعوا اللہَ ورسولَہُ ولا تنازَعُوا فتفشَلُوا وتذھبَ ریحُکم (انفال:۶)

ترجمہ: اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ ہمت ہار بیٹھوگے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی۔

قرآن چاہتاہے کہ اسلامی معاشرہ باہم محبت واخوت کی بنیاد پرترقی کرے اور سب بھائی بھائی کی طرح ایک دوسرے کے مددگار ہوں:

اِنَّما الموٴمنون اخوَةٌ فأصلِحوا بینَ أخوَیکم (حجرات:۱)

سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں اس لیے اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ۔

قرآن حسب ونسب سے زیادہ دینی اخوت کا وکیل ہے:

فان لم تعلموا آبائَھُم فَاخوانُکم في الدینِ وموالیکم (احزاب:۱)

ترجمہ: اگر تم کو ان کے خاندان کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے بھائی اور اہلِ تعلق ہیں۔

حضور صلے اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’سارے مسلمان مل کر ایک آدمی کے مثل ہیں کہ اگر اس کی آنکھ بھی دکھے تو سارا بدن دکھ محسوس کرتا ہے اوراگر سر میں درد ہوتو پورا جسم تکلیف میں ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم کتاب البر والصلة،ج:۲،ص:۳۸۹ مصر)

آج یہی چیز مسلم سوسائٹی سے ختم ہوگئی اور وہ رنگ ونسل، خاندان، علاقہ اور زبان کی تنگ نظریوں میں مبتلا ہوگئی اورانسان کی ترقی اوراس کی شخصی تعمیر کاراستہ مشکل ہوگیا۔

حسنِ ادب

اسلام میں ادب کی بڑی اہمیت ہے، ادب سے شخصیت میں نکھار، وقار اور زندگی میں جاذیبت اور محبوبیت پیداہوتی ہے، اگر بچہ میں شروع سے ادب کی عادت ڈالی جائے اور اچھے آداب اسے سکھائے جائیں تو وہ بڑا انسان بن سکتا ہے اور قوم وملت کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے، زندگی کے ہر مرحلے کے لیے قرآن نے ادب کا درس دیا ہے، ہم بطور نمونہ دو تین چیزوں کا تذکرہ کرتے ہیں:

# انسان جب ایک ساتھ رہتا ہے توایک دوسرے کے یہاں آنے جانے کی بھی ضرورت پڑتی ہے، ایسے موقع پر اگر انسان حدود کی رعایت نہ کرے تو بہت سے فتنے پیدا ہوں گے؛ اس لیے قرآن نے اس کے لیے کچھ حدود وآداب مقرر کیے ہیں مثلاً اجازت لے کر جاؤ نیز اجازت کا طریقہ یہ ہے کہ: دروازہ سے باہر سلام کرو!ذیل کی آیت کو پڑھیے:

یٰایھا الذین آمنوا لا تدخلوا بیوتاً غیرَ بیوتِکم حتٰی تستأنِسُوا وتُسلِّموا علٰی اھلِھا ذٰلکُم خیر لکم لعلکم تذکرون (نور:۴)

ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں مت جاؤ؛ مگر اجازت لے کر اور گھروالوں کو سلام کرکے، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے؛ تاکہ تم سبق حاصل کرو۔

# اگر دوسرے کے گھر کی عورتوں سے کچھ لینا ہوتو اس کا ادب یہ بتایاگیا:

وَاذا سَألتُموھُنَّ مِنْ وَراءِ حجاب ذلکم أطھر لقلوبِکم وقلوبِھن (احزاب:۷)

ترجمہ: جب ان گھروالیوں سے کچھ مانگو تو پردہ کے پیچھے سے مانگو، اسی میں تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے پاکی ہے۔

# آپس میں سلام کا ادب قرآن نے یہ بتایا کہ سلام کا جواب سلام سے بہتر ہونا چاہئے:

اذا حُییتم بتحیةٍ فَحَیّوا بِأحسنِ منھا أورُدّوھا (نساء:۱۱)

ترجمہ: جب تم کو سلام کیا جائے تو اس کا جواب اور بہتر پیرایے میں دو یا کم از کم اسی کو دہرادو۔

# حضور صلے اللہ علیہ وسلم سے خصوصی ملاقات کے آداب پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن کہتاہے:

یٰایھا الذین آمنوا اذا ناجیتم الرسولَ فقدِّموا بینَ یدی نَجْوٰیکم صدقةً ذٰلک خیرٌ لکم وأطھر فان لم تجدوا فان اللہ غفور رحیم (مجادلة:۱۲)

ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم رسول سے اکیلے میں ملنا چاہوتو پہلے صدقہ کرو،اس میں تمہارے لیے خیر اور پاکیزگی ہے، اگر اس کی طاقت نہ ہوتو اللہ بخشنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔

اس حکم کا ایک مخصوص پس منظر تھا جو کچھ دنوں کے بعد ختم کردیاگیا؛ لیکن فی الجملہ اس سے بڑوں کے دربار میں جانے کے آداب پر روشنی پڑتی ہے اور چھوٹوں کو کیا تیاری کرنی پڑتی ہے، اس کی حیثیت جھلکتی ہے،اور اس سے چھوٹوں میں کچھ کرنے کا جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے۔

# حضور صلے اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کے آداب پر قرآن نے بتایاکہ آپ سے عام لوگوں کی طرح گفتگو نہ کرو؛ بلکہ اس کا دھیان رکھو کہ تمہاری آواز نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے:

یٰایھا الذین آمنوا لاتَرْفَعُو أصواتَکم فوقَ صوتِ النبی (حجرات)

ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آواز نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی نہ کرو۔

آپ کو مخاطب کرنے کا ادب قرآن نے یہ بتایا کہ عام لوگوں کی طرح نام لے کر نہ آواز دو؛ بلکہ آپ کے شایان شان القاب کا استعمال کرو:

لاتجعلو دعاءَ الرسول بینکم کدعاءِ بعضِکم بعضاً

ترجمہ: رسول صلے اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نہ پکارو جس طرح باہم لوگوں کو پکارتے ہو۔

کسی مجلس میں ہوتو آپس میں کانا پھوسی کرنے کو خلاف ادب قرار دیاگیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنّما النجویٰ من الشیطٰن (مجادلة:۲) ترجمہ: کاناپھونسی کرنا شیطان کا کام ہے۔

# عائلی زندگی میں ایک ساتھ رہتے ہوئے بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں اور کبھی ایک کی بات دوسرے کو پسند نہیں آتی ہے، اس تعلق سے قرآن نے ادب کی تلقین کی:

وعاشروھن بالمعروف فَان کرھتموھن فعسیٰ أن تکرھوا شیئاً ویجعل اللّٰہ فیہ خیرًا کثیراً (نساء:۳)

ترجمہ: بیویوں کے ساتھ معروف طریقے پر زندگی گذارو، اگر تم کو وہ پسند نہ آئیں تو بھی ممکن ہے کہ ایک چیز تم کواچھی نہ لگے اوراللہ نے اس میں بہت خیر رکھا ہو۔

اسی بات کو ایک حدیث میں ارشاد فرمایاگیا:

’’اپنی بیویوں میں کوئی برائی دیکھ کر اس سے نفرت نہ کرو کہ غور کروگے تواس میں کوئی دوسری بات اچھی نکل آئے گی۔‘‘ (صحیح بخاری ومسلم کتاب النکاح باب الوصیة بالنساء)

# زمین پر چلنے کا ادب بتایاگیا:

ولاتمشِ في الارضِ مرحاً انک لن تخرِقَ الأرضَ ولن تبلُغَ الجبالَ طولاً (بنی اسرائیل:۴)

ترجمہ: زمین میں اکڑکر نہ چلو کہ نہ تو زمین کو پھاڑسکتا ہے اور نہ پہاڑوں تک اونچائی میں پہنچ سکتا ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

ولا تمشِ في الارضِ مرحاً ان اللہَ لا یحبُّ کلَّ مختالٍ فخور (لقمان:۲)

ترجمہ: زمین میں اکڑ کر نہ چل، بیشک اللہ کسی مغرور اور متکبر کو پسند نہیں کرتا۔

# گفتگو کا سلیقہ بتایاگیا کہ نرمی اور ملائمت کے ساتھ اور سامنے والے کی عزتِ نفس کا خیال کرتے ہوئے بات کی جائے، ارشاد ہے:

فقولا لہُ قولاً لیناً (طہ:۲) ترجمہ: ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو۔

وَاغْضُضْ مِن صوتِک انَّ انکرَ الأصواتِ لصوتُ الحمیر (لقمان:۲)

ترجمہ: پست آواز میں بات کرواس لیے کہ سب سے بُری آواز گدھے کی ہے۔

قولٌ معروف ومغفرة خیر من صدقة یتبعھا اذیً (بقرة:۳۶)

ترجمہ: اچھی بات کہنا اور درگذر کرنا، اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل آزاری ہو۔

اس طرح قرآنی آداب کی بے شمار مثالیں ہیں، یہاں صرف بطورِ نمونہ چند چیزیں پیش کی گئی ہیں۔

تزکیہ

شخصیت کی تعمیر کے لیے تزکیہ کی بھی شدید ضرورت ہے، قرآنِ کریم نے ایسے شخص کی کامیابی کی ضمانت دی ہے جس نے اپنا تزکیہ کیا:

قد أفلح مَنْ زکّٰھا (الشمس) ترجمہ: جس نے اپنا تزکیہ کیا وہ یقینا کامیاب ہوگیا۔

قرآن کریم نے فرائضِ رسالت میں اس کو شمار کیا ہے۔

یتلو علیھم آیاتہِ ویزکیھم (آل عمران:۱۶۴)

ترجمہ: رسول صلے اللہ علیہ وسلم ان کو خدا کی آیات سناتے ہیں اور انکا تزکیہ کرتے ہیں۔

تزکیہ کا مطلب ہے اصلاحِ قلب اور اصلاحِ باطن، جب تک انسان کا باطن درس نہیں ہوتا، ظاہری وضع داری سے کچھ نہیں ہوتا؛ بلکہ باطن کے فساد کے ساتھ دکھاوے کا تقویٰ نفاق کو جنم دیتا ہے، اور اس سے شخصیت بننے کے بجائے اور بگڑجاتی ہے، دورخاپن انسانیت کے لیے بدترین لعنت ہے، قرآن اور صاحبِ قرآن نے اصلاحِ باطن پر بہت زیادہ توجہ دی ہے، اور ایمان کو دل ونگاہ میں راسخ کرنے کی تلقین کی اوراس کے لیے خوف خدا، آخرت کی جواب دہی، جہنم کا ڈر اور دنیا وآخرت کی ذلت ورسوائی کے حوالے دیے ہیں اور دکھاوے کے ہر عمل پر وعید سنائی ہے۔

# نماز بہت بڑی عبادت ہے لیکن غفلت وریا کے ساتھ ادا کی جائے تو ثواب کے بجائے گناہ بن جاتی ہے:

فویلٌ للمصلین الذین ھم عن صلاتِھم سَاھون الذین ھم یُراوٴن (ماعون)

ترجمہ: ’’ان نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے، جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں اور محض دکھانے کے لیے نمازپڑھتے ہیں‘‘:

ان المنافقین یخٰدعون اللہ وہو خادِعُھم واذا قاموا الی الصلٰوةِ قاموا کُسالیٰ یراوٴن الناسَ ولا یذکرون اللہ الا قلیلاً (نساء:۲۱)

ترجمہ: منافقین خدا کو دھوکہ دیتے ہیں؛ حالانکہ وہ خود دھوکہ میں مبتلا ہیں، یہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، محض لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اللہ کو بس برائے نام ہی یاد کرتے ہیں۔

یٰایھا الذین آمنوا لاتُبْطِلوا صدقٰتِکم بالمَنِّ والأذیٰ کالذي یُنفِقُ مالَہُ رئاءَ الناسِ ولایُومِنُ باللہ والیوم الآخر (بقرة:۳۶)

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتاکر، یا ایذا پہنچاکر ضائع مت کرو، اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘

# دورُخا پن کو قرآن نے منافقوں کی خاص عادت قرار دیا ہے:

واذا لقوا الذین قالوا آمنا واذا خَلَوا الٰی شیٰطینھِم قالوا انا معکم انَّما نحن مستھزوٴن (بقرة:۲)

ترجمہ: اور جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور جب اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف مسلمانوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے لیے احادیث میں بھی شدید وعیدیں آئی ہیں:

ایک حدیث میں آ یا ہے کہ قیامت کے دن خدا کے نزدیک سب سے بدتر دورُخے شخص کو پاؤگے جو کچھ لوگوں کے پاس جاتا ہے تو اس کا رخ اور ہوتا ہے اور دوسروں کے پاس جاتا ہے تو اور (بخاری کتاب الأدب باب ما قیل في ذي الوجہین)

ایک اور حدیث میں ہے:

’’دنیا میں جس شخص کے دورخ ہوں گے قیامت کے دن اس کے منہ میں دوزبانیں ہوں گی‘‘ (ابوداؤد کتاب الادب باب ذي الوجہین)

ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله عنهما سے کہا گیا کہ ہم لوگ امراء وحکام کے پاس جاتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں اور وہاں سے نکلتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں، بولے ہم لوگ عہدِ رسالت میں اس کا شمار نفاق میں کرتے تھے۔ (صحیح بخاری باب ما قیل فی ذی الوجہین)

# انسان کے باطنی امراض میں بدگمانی خطرناک مرض ہے، ایسے شخص کو کبھی سکون نہیں ملتا اور نہ دوسروں کو سکون سے رہنے دیتا ہے، قرآن اس کو بڑا گناہ قرار دیتا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کرتا ہے:

یٰایھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیراً مِنَ الظنِّ انَّ بعضَ الظنِ اثم (حجرات:۲)

ترجمہ: اے ایمان والو! زیادہ بدگمانی سے بچا کرو بیشک بعض بدگمانی گناہ ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس طرح بدگمانی سے بچنا ضروری ہے، اسی طرح بدگمانی کے مواقع سے خود کو بچانا بھی ضروری ہے۔

ایک دفعہ حضور صلے اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے، رات کو ازواجِ مطہرات میں سے کوئی آپ سے ملنے آئیں، آپ صلے اللہ علیہ وسلم اُن کو واپس پہنچانے چلے کہ اتفاقاً راستہ میں دو انصاری صحابی آگئے، وہ آپ کو دیکھ کر واپس پھرنے لگے، آپ نے فوراً آواز دی اور فرمایا یہ میری بیوی فلاں ہیں، انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! اگر مجھے بدگمانی ہی کرنی ہوتی تو آپ کے ساتھ کرتا، ارشاد ہوا شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے (صحیح مسلم باب انہ یستحب لمن روی خالیاً بامرأة یقول ہذہِ فلانة)

# باطنی بیماریوں میں ایک بڑی بیماری بخل ہے، قرآن نے اس کی اصلاح کی طرف توجہ دی ہے، ارشاد فرمایا:

ولا یَحسبنَّ الذین یبخلون بما آتٰھم اللہُ مِنْ فضلہِ ھو خیرًا لھم بل ھو شرلھم سیطوقون ما بخلوا بہِ یومَ القیٰمة (آل عمران:۱۸)

ترجمہ: اور جولوگ اس مال کو جو خدانے اپنی مہربانی سے ان کو دیا ہے روکے رکھتے ہیں، وہ اس کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں؛ بلکہ وہ ان کے حق میں بدتر ہیں، جس مال کو بچانے کے لیے وہ بخل کے شکار ہیں، وہ ان کے گلے میں طوق بناکر لٹکادیا جائے گا۔

اس مضمون کی بہت سی آیات قرآن میں موجود ہیں، طوالت کے خوف سے ترک کرتا ہوں۔

اسی طرح حرص وطمع، حسد وبے ایمانی، غیظ وغضب، بغض وکینہ، فخر وغرور، خودبینی و خودنمائی اور خودرائی وغیرہ بہت سے اندرونی امراض ہیں، جن کا تعلق انسان کے دل ودماغ سے ہے، جن کا قرآن نے خصوصیت سے تذکرہ کیا ہے اور ان کی اصلاح پر زور دیا ہے، طوالت کے ڈر سے صرف آیات کے حوالے پر اکتفا کرتا ہوں (دیکھئے نساء:۹، حشر:۱، حجر:۶، نساء:۵، کہف:۱۰، بقرہ:۳۲، نساء:۱، اعراف:۲۴، حشر:۱، حجر:۴، اعراف:۲،۴-۵، ابراہیم:۳، مومنون:۳، ہود:۳، مومن:۴، نحل:۳، بنی اسرائیل:۴، لقمان:۲، نساء:۸، بقرة:۱۳، وغیرہ۔

(جاری )

***

---------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4 ، جلد: 95 ‏، جمادی الاولی 1432 ہجری مطابق اپریل 2011ء