قرآن کریم کی روشنی میں افراد سازی (۲)

 

از:       اخترامام عادل قاسمی

مہتمم جامعہ ربانی منورواشریف، سمستی پور، بہار

 

تعلیم

شخصیت سازی کے لیے جس طرح عملی زندگی میں ادب و اخلاق‏،  صلاح وتقویٰ، کردار کی بلندی، دل ونگاہ کی پاکیزگی اور لب ولہجہ کی شائستگی ضروری ہے، وہیں تعلیم وتربیت اور فکری بالیدگی کی بھی شدید ضرورت ہے کہ اس سے زندگی میں دوام اور شخصیت میں آفاقیت پیدا ہوتی ہے اور انسان دوررس نتائج کے حامل کارناموں کو انجام دینے کے قابل ہوجاتا ہے، اسی لیے قرآن پاک نے جہاں نبی کریم ﷺ کے فرائضِ منصبی پر روشنی ڈالی ہے، وہاں ایمان واخلاق کے بعد تعلیم کا تذکرہ بھی کیاہے:

لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْ عَلَیْھِمْ اٰیَاتِہِ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ(آل عمران:۱۶۴)

ترجمہ: خدا نے اہل ایمان پر بڑا احسان کیاکہ ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا، جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں، کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں؛ جب کہ پہلے یہ لوگ گمراہی میں مبتلا تھے۔

یہ آیتِ کریمہ فرائضِ رسالت اورکارہائے نبوت کے سلسلے میں سنگِ میل کادرجہ رکھتی ہے، اس میںقرآنِ کریم نے کارِ نبوت کی تمام تفصیلات کو صرف تین عنوانات کے تحت سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔

۱- تلاوتِ آیات     ۲- تزکیۂ اخلاق وعمل          ۳- تعلیمِ کتاب وحکمت

٭ تلاوت آیات میں بنیادی تعلیم (جس کو قرأت بھی کہہ سکتے ہیں) اور ایمان ویقین کی آبیاری اور محنت کی ساری تفصیلات داخل ہیں، اس لیے کہ شخصیت کی ابجد قرأت سے شروع ہوتی ہے اور اسی راستے سے قلب وروح میں ایمان اور عقیدہ کا تخم پڑتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس میں رسوخ حاصل ہوتا ہے؛ اسی لیے وحی کا پہلا سبق اس طرح شروع کیاگیا:

اِقْرأ باسمِ ربِّکَ الذِي خَلَقَ، خَلَقَ الإنسَانَ مِنْ عَلَق (علق:۱-۲)

ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا۔

عبد اور معبود کے درمیان رابطہ اور تعلق کی جتنی تفصیلات ہیں، وہ بھی تلاوت آیات کی ضمن میں آتی ہیں؛ اس لیے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور خدا کا کلام پڑھنا گویا اس سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرنا ہے، رابطہ کی ابتدا بھی یہی ہے اور انتہا بھی یہی؛ اسی لیے پوری مکی زندگی میں جس کو ہم مختصر لفظوں میں ایمانی دور کہہ سکتے ہیں، اس میں کلمۂ ایمان اور نماز اور تلاوت کے ماسوا کوئی حکمِ شرعی (اعمال کی قبیل سے) ہم کو نہیں ملتا اور یہ سب رابطۂ الٰہی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔

خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا آیت بتاتی ہے کہ ایمان یعنی اللہ اور بندے کے تعلق پر محنت فرائض نبوت کی پہلی منزل ہے اور انسان کی شخصیت کی تعمیر میں بھی اس کا درجہ اولین ہے جیساکہ گذشتہ سطور میں ہم عرض کرچکے ہیں۔

دوسرا مرحلہ تزکیہ ہے اس کی اہمیت پر ہم پچھلے صفحات میں گفتگو کرچکے ہیں۔

تیسرا اور آخری مرحلہ تعلیم وتفکیر ہے، یہی چیز نبی آخر الزماں ﷺ کو تمام نبیوں اور رسولوں میں امتیاز بخشتی ہے، یہی آپ کا نسخۂ انقلاب ہے، یہی بات اس آخری امت کو امتِ وسط بناتی ہے، یہی دعائے خلیلؑ اور نوید مسیحؑا کا حاصل ہے، یہ ختمِ نبوت کی علامت ہے، اسی سے حضور خاتم النّبیین ﷺ کے بعد اس امت کی بقاوابستہ ہے اور یہی چیز افراد واقوام کو زندگی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔

کتاب سے مراد قرآنِ کریم ہے اور اس میں خدا کی وہ کتاب بھی شامل ہے، جو وسیع کائنات میں چہار طرف پھیلی ہوئی ہے، خود قرآنِ کریم بھی بار بار انسانوں کو خدا کی اس کھلی کتاب کی طرف متوجہ کرتا ہے اور عہدِ گذشتہ کے واقعات سے عبرت آموز تأثر پیدا کرتا ہے۔

أَفَلاَ یَنظُرون إلی الإبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ وَإلی السَّمائِ کَیْفَ رُفِعَتْ وَاِلی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ وإلی الأرضِ کَیْفَ سُطِحَتْ فَذَکِّرْ إنَّمَا أنتَ مُذَکِّر، لَسْتَ عَلَیْھِم بِمُصَیْطِر (الغاشیہ)

ترجمہ: کیا یہ نہیں دیکھتے کہ اونٹ کیسے پیداکیے گئے، آسمان کس طرح اٹھائے گئے، پہاڑ کس طرح نصب کیے گئے اور روئے زمین کیسے پھیلائی گئی، آپ ان کو سمجھائیں، آپ ناصح اور سمجھانے والے ہیں، ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہیں۔

اس طرح کی بیشمار آیات قرآن کریم میں موجود ہیں بطورِ نمونہ یہی ایک کافی ہے۔

قرآن اس نئے دور میں علم وعرفان اور فکر وفلسفہ کا بانی ہے، پہلے کبھی علم کو وہ درجہ نہیں دیاگیا، جو اسلام میں دیاگیا؛ اسی لیے پہلے کی تاریخوں میں وہ آفاقی شخصیتیں بھی نہیں ملتیں جو عہدِ اسلامی کے آغاز کے بعد ملتی ہیں، قرآن نے دنیا کو نیا ذہن اور نئی فکردی،اشیا کے حقائق اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کی طرف ذہنوں کو متوجہ کیا اور ان کو علم وعرفان اور ظلم وجہل کا فرق بتایا، علم کے نور سے شخصیتوں میں چارچاند لگائے اور انسانوں کو ایک نئے علمی دور کے لیے تیار کیا، یہ قرآن کا وہ معجزانہ کارنامہ ہے، جو اسلام سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیاتھا۔

ہم اس موقع پر قرآن کے اندازِ تربیت، ذہنی ارتقا کے مراحل اور کچھ علمی نکات کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتے ہیں، جس سے اندازہ ہوگا کہ قرآن علم کی بنیاد پر افراد واقوام کو کس طرح تیار کرتا ہے اور قرآنی تعلیمات کی بدولت ایک عام انسان کس طرح بڑے کارناموں کے لائق ہوجاتا ہے۔

ذہن سازی

قرآن نے ایمان وعمل کے بعد انسان کو علم وجہل، نور وظلمت اور تمدن ووحشت کا فرق سمجھایا؛ اس لیے کہ ذہنی تیاری کے بغیرکوئی نصب العین پورا نہیں ہوسکتا، جب تک انسان کو خیرو شر میں امتیاز نہ ہوگا؛ وہ شعوری طور پر خیرکو نہیں اپناسکے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَیَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوْ الْأَلْبَابِ (زمر:۹)

ترجمہ: اے نبی! آپ کہہ دیجیے کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو نہیں رکھتے ہیں، برابر ہوجائیں گے؟ عقل والے ہی بات سمجھ سکتے ہیں۔

قرآن نے اس قوم کی ترقی کی ضمانت دی جو علم ومعرفت کے راستے پر گامزن ہو:

یَرْفَعُ اللہُ الَّذِیْنَ اُوتُوْا العِلْمَ دَرَجَات (مجادلہ:۱۱)  اللہ اہل علم کے درجات بلند کرتے ہیں۔

قرآن نے عقل وفکر سے جاہلانہ جمود ختم کرنے کے لیے آفاق وانفس میں غور کرنے کی دعوت دی:

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ لآیَاتٍ لِاُوْلِیْ الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللہَ قِیَامًا وَقُعُوْدًا وَعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(آل عمران:۱۹۰-۱۹۱)

ترجمہ: بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور شب وروز کی گردش میں نشانیاں ہیں، عقل والوں کے لیے جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں، کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے ہوئے اور غور کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی خلقت میں (پھر بول اٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تونے یہ سب بلاوجہ پیدا نہیںکیا، تو ہر عیب سے پاک ہے، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

دعوت انقلاب

جب قرآن نے محسوس کیا کہ اب اس قوم کی حسیت جاگ اٹھی ہے اور اس کی قوت فکریہ اپنی پرواز کے لیے کسی وسیع خلا کو ڈھونڈھ رہی ہے، تو فوراً اس نے انقلاب اور حرکت وعمل کی دعوت دی اور اس کو سمجھایاگیا کہ دنیا میں انقلابات عدم کے پیٹ سے وجود میں نہیں آجاتے؛ بل کہ اس کے لیے زبردست محنت کرنی پڑتی ہے، زندہ قوم اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے عزم کے ہاتھوں لکھتی ہے، وہ امکانات اور وسائل کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا گوارا نہیں کرتی؛ بل کہ ناممکنات سے امکانات اور مشکلات سے آسانیوں کو فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہ حالات کے بدلنے کا انتظار نہیں کرتی؛ بل کہ دستِ ہمت سے وہ حالات کا رخ پلٹ دیتی ہے اور اندھیروں سے ڈرکر، وہ اپنا سفر موقوف نہیں کرتی؛ بل کہ احکامِ الٰہی کے چراغ اندھیرے راستوں پر جلاتی ہوئی چلی جاتی ہے:

تقدیر کے پابند نباتات وجمادات

مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

اِنَّ اللّٰہَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنفُسِھِمْ وإذَا أرَادَ اللہُ بَقَوْمٍ سوئًا فَلاَ مردَّ لَہٗ ومَالَھُمْ مِنْ دُوْنہٖ مِن وَال (رعد:۱۱)

ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیںسکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

قرآن نے قوموں کے خیروشر کا مدار خود اس کے اپنے اعمال پر رکھ دیا ہے، جو قوم یہ کہتی ہو کہ کیا کریں حالات اور قسمت نے ہمیںپیچھے کردیا؟ وہ درحقیقت اپنی بزدلانہ کم ظرفی کا اظہار کرتی ہے، قرآن کہتا ہے کہ جو قوم جیسا عمل کرتی ہے اس کے ساتھ قدرت کا فیصلہ اسی کے مطابق ہوتا ہے:

فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ حَیْرًا یَّرَہٗ ومَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شرًا یَّرَہٗ (زلزال:۷-۸)

ترجمہ: جو ذرہ برابر بھی نیک عمل کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر برا عمل کرے گا وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔

قرآن نے صاف طور پر اس قوم کو خسارہ کا سودا کرنے والی قرار دیا ہے، جس میں نورِ باطنی کے ساتھ ساتھ اخلاق وعمل کی اسپرٹ موجود نہ ہو اور قرآن اس کے لیے تاریخِ عالم اور حوادثِ روزگار کو بطورِ شہادت پیش کرتا ہے، جیساکہ سورئہ والعصر کے حوالہ سے پچھلے سطور میںعرض کیاگیا۔

انقلابی ہدایات

یہ کسی قوم کو تدریجی انقلاب کی طرف لانے کے لیے قرآن کے طرزِ تعلیم کا دوسرا مرحلہ تھا، فکر وعمل کی پیہم تاکیدات کے بعد جب یہ قوم کسی عمل کے لائق ہوگئی اور علم وفن، تہذیب وتمدن اور تجارت و سیاست کے میدان میں اترنے کے قابل ہوگئی، تو اس کو کچھ اشارات دیے گئے، ہدایات واحکام سے نوازا گیا، اسرارِ عالم سے پردہ اٹھایاگیا، عقل وخرد اور فکروفن کے وہ راز بتائے گئے جو آج تک کسی مصلحِ قوم نے اپنی قوم کو نہ بتائے تھے اور خود خالقِ کائنات نے اپنی دنیا کے بعض حقائق وعلل کی نشاندہی کی، جس کی روشنی میں چل کر آج دنیا فلسفۂ جدید اور سائنٹفک دور تک پہنچی۔

حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے جس کتابِ الٰہی نے فکر وفلسفہ کی بنیاد ڈالی اور لوگوں کو آسمان وزمین اور مخلوقاتِ عالم میں غور کرنے کی دعوت دی وہ قرآن تھا، قرآن سے قبل کسی بڑے سے بڑے آشنائے راز نے بھی ان حقائق کا پردہ چاک نہ کیا، جو خدا کے خزانۂ غیب میں مستور تھے، اس طرح گویا قرآن ہی کتابِ ہدایت ہونے کے ساتھ فکروفن کی بھی پہلی کتاب ہے؛ مگر افسوس کہ خود ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں کی اور غیروں کے کاسہ لیس ہوکر رہ گئے:

دیکھ آکر کوچۂ چاکِ گریباں میں کبھی

قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمِل بھی تو

وائے نادانی کہ تو محتاجِ ساقی ہوگیا

مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفِل بھی تو

زبان وقلم کی ضرورت

قرآن نے عہدِ جدید کی تخلیق کے لیے زبان وقلم پر زور دیا؛ اس لیے کہ عالم الغیب والشہادۃ خوب جانتا تھا کہ اب جو دور آنے والا ہے، وہ سائنٹفک دور ہوگا، خود اس نئے دور کی بنیاد رکھ رہا تھا اور سائنٹفک دور زبان وقلم پر تعمیر ہوگا؛ چنانچہ سب سے پہلی وحی جو نبیِ کریم ﷺ پر نازل ہوئی، اس کے الفاظ یہ تھے:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ، خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(علق)

ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو بستہ خون سے، پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے، جس نے علم سکھایا۔

قرآن میں ایک پوری سورت ہی قلم کے نام سے ہے، اس سورہ کی ابتدا ہی میں اللہ نے قلم اور لکھنے کی قسم کھائی ہے، جو قرآنی اسلوب میںقلم کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے:

ن والقلمِ وما یَسْطُرُوْن (القلم) ترجمہ: قلم کی قسم اور اس کی جولوگ لکھتے ہیں۔

ایک طرف قرآن نے مسلمانوں کو زبان وقلم کی جانب متوجہ کرکے، ان کو ذرائع ابلاغ وترسیل سے نوازا تو دوسری طرف رموزِ کائنات کے تعلق سے بعض ایسے اشارات دیے، جن سے قوتِ فکر کو مہمیز ملتی ہے۔

ظواہر طبیعی

قرآن نے بعض آیات میں ان اسباب طبعی کی کرشمہ سازیوں کا ذکر کیا ہے، جو اکثر لوگوں کی نگاہوں کے سامنے رہتے ہیں؛ مگر جمود یا غفلت کی بنا پر وہ ان میں غور نہیں کرتے اور نہ ان سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہتے ہیں:

اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً  فَسَالَتْ اَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِھَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیْاً وَمِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْہِ فِیْ النَّارِ ابْتِغَآئَ حِلْیَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآئً  وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الْاَرْضِ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَال (رعد:۱۷)

ترجمہ: آسمان سے پانی اسی نے برسایا، پھر ندی نالے اپنی اپنی گنجائش کے مطابق بہہ نکلے اور پانی کے ریلے نے ابھرتے ہوئے جھاگ کو اوپر اٹھالیا اور آگ میں تپاکر زیور بناتے وقت یا کام کی دوسری کوئی دھات کو بھٹی میں پگھلایا جاتا ہے، اس میں بھی ایسا ہی جھاگ اٹھ کر اوپر آجاتا ہے، اسی طرح اللہ حق وباطل کی مثال بیان کرتے ہیں، تو جوکوڑا کرکٹ ہوتا ہے، وہ سوکھ کر ضائع ہوجاتا ہے اور لوگوں کے نفع کی چیز زمین میں رہ جاتی ہے، اسی طرح اللہ سچی مثالیں بیان کرتا ہے۔

اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ  حَیٍّ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ(انبیائ:۳۰)

ترجمہ: کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے ان کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا، کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے؟

اس آیت میں زمین وآسمان کی ابتدائی حالت کا نقشہ کھینچاگیا ہے، جس کو موجودہ زمانے میں ’’بگ بینگ‘‘ نظریہ کہا جاتا ہے، جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق زمین وآسمان کا تمام مادہ ایک بہت بڑے گولے (سپرایٹم) کی شکل میں تھا، معلوم طبیعاتی قوانین کے تحت اس وقت اس کے تمام اجزاء اپنے اندرونی مرکزکی طرف کھنچ رہے تھے اور انتہائی شدت کے ساتھ باہم جڑے ہوئے تھے پھرنامعلوم اسباب کی بنا پر اس گولے کے اندر ایک دھماکہ ہوا، اور اس کے تمام اجزاء بیرونی سمتوں میں پھیلنے لگے، اس طرح بالآخر یہ وسیع کائنات وجود میں آئی، جو آج ہمارے سامنے ہے:

وَجَعَلْنَا فِیْ الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِھِمْ وَجَعَلْنَا فِیْھَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّھُمْ یَھْتَدُوْنَ، وَجَعَلْنَا السَّمَآئَ سَقْفًا مَحْفُوْظًا وَھُمْ عَنْ اٰیَاتِھَا مُعْرِضُوْن(انبیائ:۳۱-۳۲)

ترجمہ: اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے کہ وہ ان کو لے کر جھک نہ جائے اور اس میں ہم نے کشادہ راستے بنائے؛ تاکہ لوگ راہ پائیں اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ اس کی نشانیوں سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔

اس آیت میں زمین کی چند نشانیوں کا ذکر کیاگیا ہے، جن میں ایک پہاڑوں کے سلسلے ہیں جو سمندروں کے نیچے کے کثیف مادہ کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمین پر ابھرآئے ہیں، اس سے مراد غالباً وہی چیز ہے، جس کو جدید سائنس میں ارضی توازن (Isostasy)کہاگیاہے، اسی طرح زمین کا اس قابل ہونا بھی ایک بڑی نشانی ہے کہ اس میںانسان اپنے لیے راستے بناسکتا ہے، زمین کہیں ہموار ہے تو کہیںپہاڑی دُرّے اور کہیں دریائی شگاف ہیں۔

اسی طرح آسمان کا محفوظ چھت ہونا بھی بہت بڑی نشانی ہے کہ آسمان اور اس کے ساتھ پھیلی ہوئی پوری فضا کی ترکیب اس طور پر ہے کہ وہ ہم کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بچاتی ہے اور شہابِ ثاقب کی یورشوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

وَسَخَّرَ لَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِیْ الْبَحْرِ بِاَمْرِہِ وَسَخَّرَ لَکُمُ الْاَنْھَار، وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَیْنِ وَسَخَّرَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ، وَآَتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْھَا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّار(ابراہیم:۳۲-۳۴)

ترجمہ: اور سمندر میں کشتیاں تمہارے تابع کردیں، جو اس کے حکم سے چلتی ہیں اور بہتی ہوئی ندیوں اور نہروں کو تمہارے لیے کام میں لگادیا اور سورج اور چاند کو تمہاری ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مقرر کیا، جو ایک ضابطہ پر مسلسل چل رہے ہیں اور رات اور دن کو بھی تمہارے کام میں لگادیا اورتمہاری ضرورتوں کے ہر ایک سوال کو اس نے پورا کیا اور اللہ کی نعمتوں کو اگر تم گننا چاہوتو گنتی کاشمار پورا نہ کرسکوگے، بیشک انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔

اس آیت میں قرآن نے تسخیر کائنات کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی ہے اور پہلی بار اس راز سے پردہ اٹھایاکہ دنیا کی یہ تمام چیزیں انسان کی خدمت گذار ہیں، ان کا درجہ انسانوں سے بالاتر نہیں؛ بل کہ فروتر ہے، اسلام سے قبل انسان نادانی کی بنا پر وسیع کائنات کی عظیم الشان مخلوقات سے اتنا مرعوب تھا کہ ان کی پرستش میںاپنی خیر محسوس کرتا تھا، سب سے پہلے قرآن نے اس مرعوبیت کا خاتمہ کیا اور انسان کو اس کا مقام یاد دلایا:

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق

وَاَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً  فَاَسْقَیْنَاکُمُوْہُ وَمَا اَنْتُمْ لَہُ بِخَازِنِیْن(حجر:۲۲)

ترجمہ: بوجھل اور رس بھری ہوا کے جھونکے بھیج کر ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر تم کو خوب سیراب کیا؛ جب کہ تم اپنی ضرورت کے مطابق پانی کا خزانہ جمع نہیں رکھ سکتے تھے۔

اس آیت کی کسی دقیق علمی تفسیر سے گریز کرتے ہوئے، اگر ظاہری معنی ہی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ظواہرِ طبیعی کے چند مہمات پر روشنی پڑتی ہے، آیت میں تو بظاہر ہوا کا فائدہ بیان کیاگیا ہے کہ ہوائوں کے چلنے سے ابرباراں کا نزول ہوتا ہے؛ مگر قدرتی طورپر یہاں ابروباد کے رشتہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہوا چلنے سے بادلوں کا سفر شروع ہوتا ہے اس سفر کے دوران بادلوں کے درمیان تصادم ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کڑک اور اس کے ساتھ ہی بجلی پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد بارش کی فیاضی شروع ہوتی ہے۔۔۔ اس طرح صرف اس ایک آیت سے کڑک، بجلی کی چمک اور بارش کے نزول کے بارے میں کتنے سائنسی نکتے معلوم ہوجاتے ہیں؛ بل کہ یہیں سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ بجلی کی تخلیق مثبت اور منفی اثرات کے آبی تصادم سے ہوتی ہے، اس انکشاف سے انسانی عقل اس حقیقت تک پہنچی، جو آج ہمارے پاس الیکٹرک نظام کی شکل میں موجود ہے۔

چند علمی حقائق

قرآن میں جہاں ظاہر بینوں اور عام عقل والوں کی ہدایت وروشنی کے لیے ظواہر طبیعی سے استدلال کیاگیا ہے؛ وہیں اہل نظر اور اربابِ علم وعقل کے لیے دقیق علمی وتکوینی نکات سے بھی بحث کی گئی ہے، صحیح ہے کہ قرآن کوئی فلسفہ وسائنس اور فنونِ لطیفہ کی کتاب نہیں؛ بل کہ یہ اصل میں کتابِ ہدایت ہے، جس کا مقصد ساری انسانیت کو محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر جمع کرنا ہے؛ مگر چونکہ یہ ایک کامل ومکمل کتاب ہے اور ہر دور کے لیے کافی رہنمائی کی صلاحیت رکھتی ہے،اس بنا پر اس میں عام عقلی وبدیہی استدلالات سے لے کر دقیق سائنسی حقائق سے بھی تعرض کیاگیا ہے؛ تاکہ ہر قسم کا مذاق رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب بہتر غذا مہیا کرسکے، ہمارے محققین نے اس موضوع پر بہت کام کیا ہے؛ اس لیے تفصیل کے لیے انھیں کی طرف مراجعت کی جائے۔

میرا مقصد صرف کرگسوں میں پلے ہوئے شکست خوردہ شاہینوں کو یہ بتانا ہے کہ جس علم وفن کی تلاش اورجس آبِ حیات کی جستجو میں وہ مغرب کے بت کدوں کی خاک چھان رہے ہیں، وہ خود ان کے گھر میںموجود ہے، مغرب انھیں علم وفن کی بعض جزئیات سے آگاہ کرسکتا ہے اور آبِ حیات کے چند قطرات فراہم کرسکتا ہے؛ جب کہ خود ان کے گھر میں علم وفن کی کلیات پر مشتمل کتاب (قرآن) موجود ہے، وہ ایک قطرئہ آب کے لیے پریشان ہیں؛ حالانکہ خود ان کے مذہب کی سلسبیل سے چشمۂ حیات بہہ رہا ہے، وہ یورپ کے آشیانوں میں شاہبازی کے آداب سیکھنے جارہے ہیں؛ جب کہ قرآن ان کو اس سے بدرجہا بہتر طور پر سکھانے کو تیار ہے؛ بشرطیکہ وہ اس پر توجہ دیں۔

وہ شکست خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں

اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ ورسمِ شاہبازی

اس ضمن میں چند نمونے پیش کرتا ہوں:

سورج کے بارے میں قرآنی تصور

سورج کے بارے میں قرآن کا تصور یہ ہے کہ وہ اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے اپنی مقررہ منزل کی جانب رواں دواں ہے:

وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَھَا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ، وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ، لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَا اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللّٰیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُوْنَ(یٰس:۳۸-۴۰)

ترجمہ: اور سورج اپنے ٹھکانہ کی طرف چل رہا ہے یہ عزیز وعلیم پروردگار کا مقرر کردہ نظام ہے اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں؛ یہاں تک کہ وہ لوٹ کر کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہوجاتا ہے، نہ سورج کے بس میںہے کہ وہ چاند کو پکڑلے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے، سب آسمانی سمندر میں تیررہے ہیں۔

اس آیت میں قرآن نے سورج کی حرکت کے بارے میںکتنا دوٹوک نظریہ دیا ہے؛ مگر سائنس کی حیرانی وپریشانی دیکھیے کہ ایک زمانہ میں سائنس نے یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ سورج اپنی جگہ ٹھہرا ہوا ہے اور زمین اپنے محور پر گردش کررہی ہے اور اسی سے لیل ونہار وجود میں آرہے ہیں؛ مگر کچھ ہی دنوں کے بعد حقائق نے یہ ثابت کردیا کہ یہ نظریہ غلط تھا اور صحیح نظریہ یہ ہے کہ: سورج بھی اپنے مدار پر گردش کررہا ہے۔

مغربی سائنس دانوں نے اس انکشاف کو جو اہمیت دی،اس کا اندازہ ایک مشہور ماہرِ فلکیات محقق ’’سیمون‘‘ کی کتاب کے اس اقتباس سے لگایاجاسکتا ہے، جو انھوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ لکھا ہے:

’’اگر مجھ سے پوچھاجائے کہ سب سے اہم ترین حقیقت کیا ہے، جس کاانکشاف انسانی عقل نے کیاہے تو میں اس کے جواب میں سورج، چاند اور ستاروں کے نام لوں گا، جن کے بارے میں یہ انکشاف کیاگیا کہ یہ سب بسیط فضامیں گول گنبد کی طرح بڑی تیزی کے ساتھ گردش کررہے ہیں، جو ہمارے احساس سے بالاتر ہے۔‘‘ (مضمون جریانُ الشمس: عبدالرحمن فرتاس، مجلہ العلم والایمان ۱۹۷۶ء)

کواکب کے بارے میں قرآنی نظریہ

کواکب وسیارات کے بارے میں قرآنی نظریہ یہ ہے کہ وہ آسمان کی نچلی سطح کو خوبصورت بھی بناتے ہیں اور مضر اثرات اور طاغوتی یورشوں سے حفاظت کاکام بھی کرتے ہیں:

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃٍ الْکَوَاکِبِ، وَحِفْظًا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ مَارِدٍ، لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلَاِ الْاَعْلَی وَیُقْذَفُوْنَ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ، دُحُوْرًا وَلَھُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ، اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَاَتْبَعَہُ شِھَابٌ ثَاقِبٌ(صافات:۶-۱۰)

ترجمہ: ہم نے آسمان کو زرق برق ستاروں سے سجایا اور ہرشیطان سرکش سے اس کو محفوظ کیا، وہ ملأ اعلیٰ کی طرف کان نہیں لگاسکتے اور ہر طرف سے مارے جاتے ہیں؛ تاکہ ان کو بھگایا جائے اور ان کے لیے ایک دائمی عذاب ہے؛ مگر جو شیطان کوئی بات اچک لے تو ایک دہکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔

زمین کے متعلق قرآنی تصور

قرآن نے آج سے چودہ صدی پیشترہی زمین کی خلقت، اس کی تشکیل اوراس کی حرکت کے متعلق مباحث دنیا کے سامنے رکھ دیے تھے جس پر جدید سائنس ایک حرف کا بھی اضافہ نہ کرسکی۔

٭ زمین کی خلقت کے متعلق قرآن کا نظریہ یہ ہے کہ: زمین انسانی آبادی کے قابل چھ مرحلوں کے بعد ہوسکی۔

ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلٰی الْعَرْشِ(حدید:۴)

ترجمہ: اللہ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیداکیا، چھ دنوں میں، پھر وہ عرش پر متمکن ہوا۔

قُلْ اَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہُ اَنْدَادًا ذٰلِکَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ، وَجَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَبَارَکَ فِیْھَا وَقَدَّرَ فِیْھَا اَقْوَاتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَآئً  لِلسَّآئِلِیْنَ(حم سجدہ:۹-۱۰)

ترجمہ: اے نبی! کہہ دیجیے کیا تم لوگ اس ہستی کاانکار کرتے ہو، جس نے زمین کو دو دن میںبنایا اور تم اس کے لیے ہم سر ٹھہراتے ہو، وہ رب ہے تمام جہان والوں کا اوراس نے زمین کے اوپر پہاڑ بنائے اوراس میں فائدے کی چیزیں رکھ دیں اور اس کی غذائوں کانظام چاردنوں میں بنایا ضرورت مندوں کی تکمیل کے لیے۔

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین وآسمان اور کائنات کو اللہ نے چھ(۶) یوم میں پیدا کیا، اس کے بعد ہی زمین انسانی آبادی کی متحمل ہوسکی؛ مگر یوم سے مراد یہاں لیل ونہار کے دومدار نہیں ہیں، جو سورج کی چوبیس (۲۴) گھنٹے کی گردش سے مکمل ہوتا ہے اور نہ قطبِ ارضی مراد ہے جو عموماً چھ (۶) ماہ کی گردش کے بعد دن یا رات کی صورت میں پیدا ہوتا ہے؛ بل کہ یوم سے مراد وہ قرآنی مدت ہے، جس کو قرآن کی دوسری آیات میں بیان کیاگیا ہے:

اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْن(حج:۴۷)

ترجمہ: بیشک ایک دن تیرے رب کے نزدیک تمہارے شمار کے ہزار (۱۰۰۰) سال کے برابر ہے۔

تَعْرُجُ الْمَلَآئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃ(المعارج:۴)

ترجمہ:فرشتے اور روح الامین وہاں تک ایک دن میں چڑھ کر پہنچتے ہیں، جس کی مقدار پچاس ہزار(۵۰۰۰۰) سال کے برابر ہے۔

اس طرح ان آیات سے وضاحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ زمین انسانوں کے رہنے کے قابل اصطلاحی طور پر چھ یوم یا چھ مرحلوں کے بعد ہوئی، جو ایک طویل ترین مدت ہے، آغاز کے وقت سے تکمیل تک کے درمیانی مراحل کیا تھے؟ قرآن اس کے بارے میں خاموش ہے اور سائنس کی بھی مجال نہیں کہ وہ اپنی طرف سے ایک حرف بھی بتاسکے۔

زمین کا ابتدائی مادہ

قرآن زمین کے ابتدائی مادہ کے بارے میں کہتا ہے کہ: یہ پہلے پانی میں پوشیدہ تھا اور پانی ہی اس کی اصل علت ہے، زمین اس کے اندر سے نمودار ہوئی۔

وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَکَانَ عَرْشُہُ عَلٰی الْمَآئِ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(ہود:۷)

ترجمہ: اور وہی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا؛ جب کہ اس کا عرش پانی پر تھا؛ تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرتا ہے۔

علم زولوجی کی رسائی بھی اس سے آگے تک نہیںہوسکی ہے، اس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ:

’’زمین کو اس کی ابتدائی حالت میں بخارات نے ڈھانپ رکھا تھا، جو بعد میں پانی سے تبدیل ہوگیا، پھر وہ پانی نشیب میں اترنے لگا اوراس سے نہریں اور سمندر بنتے چلے گئے۔‘‘ (احمد محمود سلیمان، مضمون القرآن والعلم: مجلہ العلم والایمان، شمارہ ۷۱ نومبر ۱۹۸۱ء)

درمیانی مراحل

عملِ تخلیق کے آغاز کے بعد زمین جن مختلف مراحل سے گذری، قرآن ان کو اشاراتی طور پر زمانی ترتیب کے ساتھ بیان کرتا ہے:

وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰھَا، اَخْرَجَ مِنْھَا مَآئَھَا وَمَرْعٰھَا، وَالْجِبَالَ اَرْسٰھَا(النازعات:۳۰-۳۲)

ترجمہ: اور زمین کو اس کے بعد پھیلایا، اس سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو قائم کردیا۔

اس آیت سے زمین کے عملِ تخلیق کے درمیانی مراحل پرروشنی پڑتی ہے کہ زمین کا مادہ جو عالمِ آب میں مستور تھا، وہ ظاہر ہونے کے بعد پھیلنا شروع ہوا، اور پھرسطحِ ارض کے نشیبی حصوں میں پانی اترنے لگا، جس سے نہریں اور سمندر بنتے چلے گئے، اس کے بعد اس کے اندر سے پہاڑی چٹانیں برآمد ہوئیں، جو بتدریج اونچے پہاڑوں کی شکل میں تبدیل ہوگئیں۔

زمین کا قالب

قرآن نے زمین کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا کہ زمین کی شکل وصورت کیسی ہے؟ آج کے جدید سائنسی دور میں یہ مشہور سی بات ہے کہ زمین کرہ (گیند) کی طرح گول ہے یعنی خطِ استواء سے دیکھا جائے تو وسیع ترین نظر آتی ہے اور اس کے قطبین سے دیکھا جائے تو وہ چھوٹی اور معمولی نظر آتی ہے؛ مگر سائنس کا بیان قرآن کے بیان پر اضافہ نہیں ہے، قرآن نے بھی زمین کے قالب کا یہی نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچا ہے:

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَأْتِیْ الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا وَاللہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہِ وَھُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(رعد:۴۱)

ترجمہ: کیا انھوں نے غور نہیں کیا؟ کہ زمین کو ان پر ہم اس کے کناروں سے کم کرتے ہیں، حکم صرف اللہ کا رہے گا، کوئی اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتا اور حساب لینے میں اسے کچھ بھی دیر نہیں لگے گی۔

بَلْ مَتَّعْنَا ھٰؤُلَآئِ وَآَبَآئَھُمْ حَتَّی طَالَ عَلَیْھِمُ الْعُمُرُ اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَأْتِیْ الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا اَفَھُمُ الْغَالِبُوْن(انبیائ:۴۴)

ترجمہ: بلکہ ہم نے ان کو اور  ان کے باپ دادائوں کو ایک مدت تک برتنے کو سامانِ زندگی دیا اور طویل عمر گذرنے پر بھی حق بات ان کی سمجھ میں نہ آسکی، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ زمین کو ہم چاروں طرف سے ان پر کم کرتے ہیں تو کیا اب بھی کچھ امکان رہ گیا ہے کہ یہ غالب آجائیں گے۔

ننقص من أطرافھا  کا مطلب اگر یہ لیا جائے کہ زمین اپنے کناروں سے چھوٹی معلوم ہوتی ہے، تو زمین کا کروی قالب ہونا صاف ثابت ہوتا ہے؛ اس لیے کہ ہر گول جسم خطِ استواء سے وسیع اور طرفین سے چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔

خلقت انسانی کے بارے میں قرآنی نظریہ

اسی طرح قرآن نے انسانی تخلیق اور اس کے درمیانی مراحل پر بھی بھرپور روشنی ڈالی ہے، قرآن کے بیان کے مطابق جب مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں جاتا ہے، تو کچھ مدت کے بعد وہ بستہ خون بن جاتا ہے، اس کے بعد یہ خونِ بستہ، گوشت کے لوتھڑے میں تبدیل ہوجاتا ہے، اس کے بعد اس میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر اس پر گوشت کی موٹی تہیں جم جاتی ہیں اور کچھ دنوں رحمِ مادر میں تربیت اور نشوونماپاکر ایک نئی صورت میں دنیا کی کھلی فضا کے اندر وہ آجاتا ہے، جس کو ہم ولادت کہتے ہیں:

ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَکِیْنٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَأْنَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ(مومنون:۱۳-۱۴)

ترجمہ: پھر ہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اس کو ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی بوند کو بستہ خون کی شکل دی، پھر بستہ خون کو گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا، اس کے بعد لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھادیا، پھر ہم نے اس کو ایک نئی صورت میں بناکر کھڑا کیا؛ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ جو بہترین پیدا کرنے والا ہے۔

یہ چند نمونے ہیں جو قرآن کے جدید علمی حقائق کے تعلق سے پیش کیے گئے۔

علم کی طلب

قرآنِ کریم کی اُن تعلیمات نے مسلمانوں میں حصولِ علم کا اسپرٹ پیدا کیا اور وہ اس راہ میں بڑھتے چلے گئے، ان کے جذبۂ صادق پر حضور ﷺ کے الفاظ نے مہمیز کاکام کیا، آپ ﷺ نے علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا:

إن العلمائُ ورثۃُ الأنبیائِ وإن الأنبیائَ لم یُوَرِّثوا دیناراً ولا درھماً وإنما ورَّثُوا العلمَ فَمَنْ أخَذَہٗ أخَذَ بِحَظٍ وَافِر (مشکوٰۃ)

ترجمہ: بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کی وراثت درہم ودینار نہیں ہے؛ بل کہ ان کی وراثت علم ہے، پس جس نے علم حاصل کیا، اس نے بڑا وافر حصہ پایا۔

پھر یہ کارواں بڑھتا گیا اور علمی طور پر ساری دنیا پر چھاگیا اور پوری روئے زمین ان کے زیرنگیں آگئی، اس لیے کہ علم تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے، علم کے ساتھ صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہوسکتا ہے اور علم کے بغیر دس قدم بھی پہاڑ ہوجاتا ہے۔

عہد ماضی کی ایک جھلک

ہم اگر اپنے ماضی کا جائزہ لیں تو ہم کو نظر آئے گا کہ مسلمان علم وفن کے میدان کے کیسے شہسوار تھے اور ساری دنیا میں امامت کا مقام ان کو کس طرح حاصل ہوا؟ یہ تاریخ کی ایسی حقیقت ہے، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اس موقعہ پر میں کسی مسلم مؤرخ کا حوالہ دینے کے بجائے ایک غیرمسلم مؤرخ کا حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہوں، ایک انگریز مؤرخ جارج سارٹن نے اپنی کتاب ’’قدمۃ في تاریخ العلم‘‘ (جو پانچ ضخیم جلدوں میں ہے) میں علوم وفنون کی تاریخ، ان سے متعلق تجدید ی کارناموں کی تفصیل اور تجدیدی کام کرنے والی اقوام وشخصیات کا جائزہ پیش کیا ہے،اس نے تاریخی حوالوں کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر نصف صدی کے بعد حالات اور تقاضے بدل جاتے ہیں اور نئے حالات کے مطابق علوم وفنون کی تجدید واصلاح کا کام کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی مرکزی شخصیت ضرور پیدا ہوتی ہے،اس طرح اس نے ہر نصف صدی پر ایک مجدد کی تلاش کی ہے۔

وہ ۴۵۰ قبل مسیح سے لے کر ۴۰۰ قبل مسیح کے وقفہ کو ’’عہدِ افلاطون‘‘ (ولادت ۴۲۷ وفات ۳۴۷ قبل مسیح) کہتا ہے، اس کے بعد کی صدیوں میں یکے بعد دیگرے ارسطو (ولادت ۳۸۴ وفات ۳۲۲ قبل مسیح) پھر اقلیدس (۳۰۰ قبل مسیح)، پھر ارخمیدس (ولادت ۲۸۷ وفات ۲۱۲ قبل مسیح) نے علوم کی تجدید واصلاح کاکام کیا، اس کے بعد چھٹی صدی عیسوی کے آغاز سے ساتویں صدی کے آغاز تک کا زمانہ اس کے نزدیک چین کے علمی ارتقاء وتجدید کا زمانہ ہے، اس کے بعد ۷۵۰ء سے لے کر ۱۱۰۰ء تک کا ساڑھے تین سو (۳۵۰) سالہ طویل عہد خالص مسلمانوں کا عہد ہے،اس پوری مدت میں علوم وفنون کی تمام ترخدمات مسلمانوں نے انجام دیں، یکے بعد دیگرے ان میں مجددین علوم آتے رہے اور علوم کی خدمت انجام دیتے رہے، جابر بن حیان (۸۱۵ء) سے لے کر خوارزمی (۸۴۹ء) ، رازی (۸۶۴-۹۳۲ء) تاریخ داں سیاح مسعودی (۹۵۶ء) البیرونی (۹۷۳ء-۱۰۴۸ء) اور عمر خَیّام (۱۱۳۲ء) تک مجددین وخُدّام علوم کی لمبی فہرست ہے؛ جنھوں نے علمِ کیمیا، الجبرائ، طب، جغرافیا، ریاضیات، الفیزیا اور فلکیات کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں، جن میں کوئی عربی ہے، تو کوئی ایرانی، کوئی ترکی ہے تو کوئی افغانی، خطہ اور رنگ ونسل سے گذرکر محض اسلامیت نے ان سب کو خدمت وتجدیدِ علوم سے جوڑ رکھا تھا، جارج سارٹن کی نگاہ میں اتنے طویل عرصے تک یورپ میں کوئی قابل ذکر آدمی نظر نہیں آتا، گیارہویں صدی کے بعد ہی جرارڈ کرمونی اور روچربیکن جیسے کچھ مفکرین پیدا ہوئے اور علم وعقل میں مقام حاصل کیا، درمیان کی صدیاں بھی اسلامی مفکرین سے خالی نہیں رہیں؛ بل کہ علامہ ابن رشد (۱۱۲۶ء-۱۱۹۸-) نصیرالدین محمد موسیٰ (۱۲۰۰ء-۱۲۷۳ء) ابن النفیس مصری (۱۲۸۸ء) اور ابن خلدون (۱۳۳۲ء ۱۴۰۴ء) جیسے عبقری علماء نے علم وفن کی وہ خدمات انجام دیں، جن کے سامنے یورپی علماء کے کارنامے پھیکے نظر آتے ہیں۔ (مضمون: أمۃ العلم من أجل نھضۃ علمیۃ في العالم الاسلامي: الأستاذ عبدالسلام رسالہ: الیونسک آب- ایلول ۱۹۸۱ء ص۵۱)

یہ تو وہ علوم ہیں، جن کو علومِ جدیدہ کہا جاتاہے اور جن پرنئی دنیا فخر کرتی ہوئی نہیں تھکتی، رہ گئے علومِ اسلامی،ادب وبلاغت، فنونِ لطیفہ، آرٹ، تعمیر وغیرہ، علومِ اخلاق، فلسفۂ اخلاق، فلسفۂ تاریخ، سیروتراجم، سلوک وروحانیت، فقہ وقانون، زراعت وتجارت اور سیاست وقیادت وغیرہ تو ان کے خادموں اور مجددوں کی بہت لمبی فہرست ہے، جن میں کوئی قوم وملت مسلمانوں کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔

یہ ہے اس کتابِ مقدس کا اعجاز جوہرزمانے میںاور ہر محاذ پر شخصیات اور افراد کی کھیپ کی کھیپ تیار کرتی رہی ہے اور اس کی یہ صلاحیت آج بھی اسی طرح قائم ہے، فقط ہمیںاس سے کام لینے اور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

 

٭       ٭       ٭

 

-------------------------------------------------

دارالعلوم ، شماره 5، جلد: 95 جمادی الثانیہ 1432 ہجری مطابق مئی 2011 ء