دارالعلوم دیوبند کی تقدیس اور ترقی وتنزل کا مدار

(اصولِ ہشت گانہ کے آئینہ میں)

                                                                   از:       مولانا محمد عبداللہ قاسمی

                                                                             ناظم مجلس علماء مرہٹواڑہ، مہاراشٹر

 

          دارالعلوم دیوبند بلاشبہ عالمِ اسلام میں منفرد پہچان کا حامل ہے، یہاں کے فارغ التحصیل علماء اقطاعِ عالم میں مختلف نوعیت کی دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، تعلیم کے ساتھ مسلکِ حق کی ذہن سازی، عوام میں دینی بیداری، اسلام کی تبلیغ وتوضیح میں ان کا ہمیشہ سے کلیدی رول رہا ہے، اس کا پس منظر یہ ہے کہ ہندوستان کی سابق عظیم تر ریاست حیدرآباد دکن کے تاجدار میرعثمان علی خاں معروف بہ ’’نظام دکن‘‘ نے حضرت مولانا حافظ احمد صاحبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند سے یہ خواہش کی تھی کہ اگر دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل علماء ہرسال سارے کے سارے ریاست حیدرآباد دکن کو بھیج دیے جائیں تو انھیں اعلیٰ قسم کی ملازمتیں دی جائیں گی، حضرت مہتمم حافظ احمد صاحبؒ نے یہ مسئلہ اُس وقت کے سرپرست دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کے سامنے پیش کیا، حضرت گنگوہیؒ نے فرمایا: ’’بھئی! ہم طلبہ کو اچھی اور اونچی ملازمتوں کے لیے نہیںپڑھارہے ہیں؛ بلکہ ہم اس لیے پڑھاتے ہیں کہ : مسجد اور قرآن کے مکاتب آباد رہیں اور مسلمانوں کو نمازیں اور قرآن پڑھانے والے ائمہ اور اساتذہ ملتے رہیں‘‘ (ماہ نامہ: اتحاد علماء دیوبند ص۵۶)

          یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے گوشے گوشے میں قرآن، حدیث، فقہ، فتویٰ کی خدمت میں اکثر فارغینِ دیوبند مصرف ہیں اور دینی مدارس کے سربراہ بھی ہیں اور مساجد کے ائمہ بھی، جہاں تک دارالعلوم دیوبند کی بقا اور ترقی اور زوال کا تعلق ہے، اس بارے میں واضح طور پر اصول ہشت گانہ ایک آئینہ ہے، جس کو دیکھ کر انتظامی اور تعلیمی خدوخال پر توجہ دینا ضروری ہے، یہ اصول ہشت گانہ (آٹھ اصول) بانیِ دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ جیسی عظیم المرتبت شخصیت کے الہام ومعرفت کے سرچشمے سے نکلے، خود ان کے دستِ مبارک سے صفحۂ قرطاس پر روشن ہیں، جس میں روحانیت کو مادیت پر ترجیح دی گئی ہے اور انوار وبرکات کے حصول کی تلقین کی گئی ہے۔ دارالعلوم اور  دینی مدارس کی دینی ترقی کا مدار اور روحانیت کی بقا کا راز ’’توکل علی اللہ‘‘ ہے۔ اصولِ ہشت گانہ کی دفعہ ۶ میں ہے کہ: ’’اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر، کارخانۂ تجارت یا کسی امیرِ محکمُ القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف ورجا جو سرمایہ ’’رجوع الی اللہ‘‘ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امداد غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا،اس مضمون کو حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دیوبندیؒ نے اپنی نظم ’’ارمُغانِ مدرسہ‘‘ میں اس طرح پیش کیا ہے:

اس کے بانی کی وصیت ہے کہ جب اس کے لیے

کوئی سرمایہ بھروسہ کا ذرا ہوجائے گا

پھر یہ قندیلِ معلق اور توکُّل کا چراغ

یہ سمجھ لینا کہ بے نور و ضیاء ہوجائے گا

ہے توکُّل پر بنا اس کی تو بس اس کا مُعین

اک اگر جائے گا ، پیدا دوسرا ہوجائے گا

          حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ’’رجوع الی اللہ‘‘ کے لیے یہ تلقین کی ہے کہ: آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسامانی ملحوظ رہے، اسی قبیل کی بات اصول نمبر ۷ میں ہے کہ: ’’سرکار کی شرکت اور اُمراء کی شرکت بھی زیادہ مُضر معلوم ہوتی ہے‘‘۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دوسرے موقع پر اس طرح فرمایا ہے کہ: دارالعلوم دیوبند اس وقت تک مستقل رہے گا، جب تک اس کی آمدنی غیرمستقل رہے گی؛ لیکن جس وقت اس کی آمدنی کا ذریعہ مستقل ہوجائے گا، اسی وقت دارالعلوم کی بنیاد غیرمستقل ہوجائے گی (سوانحِ قاسمی ج۲ ص۲۲۱)

          ہندوپاک کے مشہور ومعروف مفتیِ اعظم حضرت مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی دیوبندیؒ سابق مفتیِ اعظم دارالعلوم دیوبند نے، دارالعلوم کراچی کے نام سے پاکستان میں ادارہ قائم کیا، آپ کی یہ کوشش رہی کہ قائم کردہ ادارہ اکابرِ دیوبند کے مزاج ومذاق کی تصویر ہو؛ آپؒ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’حضرت نانوتویؒ کی وصیت کے مطابق جب تک دینی مدارس توکل واستغناء اور للہیت پر کاربند رہیں گے، اُن کا کام انشاء اللہ بابرکت ہوگا اور اہلِ علم سے دنیاکو فائدہ پہنچے گا؛ لیکن اگر اہل علم بھی توکل اور استغناء سے محروم ہوجائیں گے اور اہلِ ثروت کی ثروت پر ان کی نگاہ جانے لگے گی، تو ان کی تعلیم وتبلیغ بھی انوار وبرکات سے خالی ہوجائے گی۔ (میرے والد میرے شیخ ۱۶۶)

          اس مضمون کی مناسبت سے چند منتخب اشعار لائقِ توجہ وتلقین ہیں اوراپنے اندر پیام رکھتے ہیں۔

آزاد کا ہر لحظہ پیامِ ابدیت

محکوم کا ہر لحظہ مرگِ مفاجات

نہیں یہ شان خودّاری چمن سے توڑ کر تجھ کو

کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیبِ گلو کرلے

بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نا امید

مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

دستِ محنت سے بنا تو بھی کوئی نقشِ عظیم

چشمِ حیرت سے کسی محل کی تعمیر نہ دیکھ

نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلی میں

کہ پائی میں نے استغناء میں معراجِ مسلمانی

تعلیم مذہبی کا خلاصہ یہی تو ہے

سب مل گیا اُسے ، جسے اللہ مل گیا

 

٭       ٭       ٭

 

-------------------------------------------------

دارالعلوم ، شماره 5، جلد: 95 جمادی الثانیہ 1432 ہجری مطابق مئی 2011 ء