امامِ حرم فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس/ حفظہ اللہ

کی دارالعلوم دیوبند تشریف آوری

از:       مولانا محمد ساجد قاسمی 

استاذ دارالعلوم دیوبند 

وہ آئے گھر میں ہمارے، خدا کی قدرت ہے!

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

                                                                                                (غالب)                                                                                                 

          اخبارات میں کئی مہینے پہلے یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ۲۶؍مارچ ۲۰۱۱ء مطابق ۱۹؍ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ کو جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام دہلی میں منعقد ہونے والی عظمتِ صحابہ کانفرنس میں امامِ حرم شیخ عبدالرحمن السّدیس/ حفظہ اللہ شرکت کریں گے۔ کانفرنس میں شرکت سے پہلے ۲۵؍مارچ کو دارالعلوم دیوبند تشریف لائیں گے اور مسجد رشید میں جمعہ کی نماز پڑھائیں گے۔ اس خبر سے جہاں دارالعلوم کے اربابِ انتظام، اساتذہ اور طلبہ کو بے پناہ خوشی ہوئی وہیں وابستگانِ دارالعلوم میں بھی خوشی ومسرت کی لہر دوڑگئی۔

          چنانچہ امام حرم کی آمد کے کئی دن پہلے ہی سے دور دراز علاقوں سے عام لوگوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا، جوں جو ں یہ تاریخ قریب آرہی تھی، لوگوں کا ازدحام بڑھ رہا تھا، آنے والے قافلوں کے قیام کے لیے مسجد رشید کا تہ خانہ اور مدرسہ ثانویہ کی درسگاہیں کھول دی گئیں، ادھر مسجد رشید میں لوگوں نے جمعرات کی شام ہی کو جگہ لینی شروع کردی اور پوری مسجد بھرگئی۔ جمعہ کے دن صبح ہی سے لوگوں کے آنے کا زبردست تانتا بندھا رہا، مسجد رشید اور اس کے آس پاس میدانوں، راستوں اور گلی کوچوں میں لوگوں کا مجمع اکٹھا تھا، ہر طرف لوگ امامِ حرم کے دیدار کے لیے اور ان کے پیچھے دوگانہ ادا کرنے کے لیے بے تاب نظر آرہے تھے۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا لوگوں میں بے تابی بڑھ رہی تھی جس طرح لوگ زمین پر کھڑے امامِ حرم کے منتظر تھے، وہیں دارالعلوم کی تمام عمارتوں کی چھتوں پر نیز شہر میں جدھر نظر جاتی لوگ چھتوں پر کھڑے منتظر نظر آرہے تھے، مجمع شہر کے اندر ہنومان چوک اور جنوب میں پٹھان پورہ اور شمال میں تلہیڑی چنگی اور سہارنپور اور مظفرنگر روڈ تک پہنچ گیا اور پولس انتظامیہ نے اِس روڈ کا ٹریفک روک دیا۔

٭       ٭       ٭

 

          جمعہ کے دن صبح ہی کو حضرت مولانا ارشد صاحب کے ذرائع سے دارالعلوم میں یہ اطلاع آئی کہ امامِ حرم دہلی سے تقریباً ۱۱؍بجے چلیں گے اور دیوبند ۱۲؍بجے پہنچیں گے، اس اطلاع کے بعد اربابِ حل وعقد دارالعلوم نے وقت کی قلت کے پیش نظر پروگرام میں ترمیم کی اور امامِ محترم کو پہلے مہمان خانہ لے جانے کے بجائے سیدھے مسجد رشید لے جانے کا پروگرام بنایا۔

          ساڑھے دس بجے دارالعلوم کی طرف سے ایک وفد امام موصوف کے استقبال کے لیے جامعہ طبیہ دیوبند کے پاس ہیلی پیڈ پر پہنچا، ہیلی پیڈ پر شہر کی بھی متعدد شخصیات موجود تھیں اور بڑی تعداد میں وہاں صحافی بھی تھے۔ ہیلی پیڈ پر جانے کے لیے بھی پاس جاری کیاگیا تھا۔ نیز ایک خلقِ کثیر ہیلی پیڈ سے دور سڑک کے کنارے اور درختوں کے سایہ میں امامِ محترم کی آمد اور دید کی منتظر تھی۔ تقریباً بارہ بج کر دس منٹ پر لوگوں کو مشرقی افق پر ایک ہیلی کوپٹر نظر آیا سارے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے، وہ ہیلی پیڈ پر آکر اترگیا، اس میں جناب اظہرالدین ممبرپارلیمنٹ اور وزیر مملکت سلطان احمد سوار تھے، جو امامِ حرم سے ملاقات اور ان کے پیچھے نمازِ جمعہ ادا کرنے کے لیے دیوبند آئے تھے۔ ابھی کوئی دس منٹ گزرے تھے کہ افق پر ایک دوسرا ہیلی کوپٹر نمودار ہوا سارے لوگ ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہوگئے، یہ بھی ہیلی پیڈ پر آکر اتر گیا، وہاں موجود دارالعلوم دیوبند کے وفد اور دیگر حضرات ہیلی کوپٹر کی کھڑکی کی طرف لپکے اِمام محترم نے اترتے ہی سب کو بآواز بلند سلام کیا، سارے لوگوں نے امامِ محترم کے ارد گرد مصافحہ کرنے اور عقیدت ومحبت کے اظہار کے لیے انھیں پھول پیش کرنے کے لیے ایک ہالہ بنالیا، آپ کے ہمراہ وفد میں سعودی سفیر برائے دہلی، ڈاکٹر فیصل حسن طراد، شیخ احمد رومی اور شیخ یوسف شامل تھے جو آپ کے ہمراہ ہیلی کوپٹر سے آئے تھے۔ پولس انتظامیہ نے آپ کے لیے (BuletProof) گاڑی پیش کی، جس پر آپ سوار ہوئے۔ آپ کو طے شدہ پروگرام کے مطابق قاسم پورہ روڈ سے جدید لائبریری کے پاس والے گیٹ سے سیدھے مسجد رشید لایا گیا، جہاں تمام اساتذہ، طلبہ اور عقیدت مندانِ دارالعلوم کے ایک بڑے مجمع نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا، آپ مسجد رشید میں تقریباً پونے ایک بجے پہنچے۔

٭       ٭       ٭

 

          جلسۂ استقبالیہ ہوا، جلسے کی نظامت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری استاذ دارالعلوم نے کی، قاری آفتاب عالم صاحب کی تلاوت سے جلسے کا آغاز ہوا، اس کے بعد اقرار احمد بجنوری متعلّم دارالعلوم دیوبند نے حضرت مولانا ریاست علی ظفربجنوری دامت برکاتہم کی امامِ حرم کی شان میں کہی ہوئی نظم پڑھی، جس کا احقر نے عربی میں ترجمہ کیا، جو اردو نظم پڑھے جانے کے وقت امام حرم کی خدمت میں پیش کیاگیا، پھر حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم کارگزارمہتمم دارالعلوم دیوبند نے عربی میں سپاس نامہ پڑھا، جس میں آپ نے امامِ حرم کی دارالعلوم دیوبند تشریف آوری کو ایک قیمتی اور یادگار موقع قرار دیا، نیز آپ نے فرمایا کہ ’’ہم لوگوں کو آپ کی پرتاثیر قرأت سننے کا بارہا اتفاق ہوا، اور بارہا آپ کے دیدار کے شوق نے ہمارے اندر انگڑائی لی۔ آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ قیمتی موقع نصیب فرمایا کہ آپ ہمارے درمیان موجود  ہیں اور ہم اپنی آنکھوں سے آپ کا دیدار کررہے ہیں‘‘ساتھ ہی آپ نے سپاس نامے میں دارالعلوم دیوبند کی تاریخ اور اس کی خدمات، نیز اس کے مسلک ومشرب پر بھی روشنی ڈالی۔

          اس کے بعد امامِ حرم نے کھڑے ہوکر عربی زبان میں ایک انتہائی موثر اور بلیغ خطاب فرمایا۔ امامِ حرم نے فرمایا: ’’میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے اس قدیم اسلامی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں حاضری کی سعادت نصیب فرمائی، میرے لیے یہ ایک تاریخی دن ہے، دارالعلوم دیوبند عرصہ دراز سے گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے، میں آپ لوگوں کی خدمت میں سعودی حکومت، اس کے فرماں روا خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز / وفقہ اللہ، مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ کے علما،ائمہ حرمین اور سعودی عوام کی طرف سے سلام اور خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں، سعودی عوام، دارالعلوم دیوبند کی خدمت اور برصغیر کے مسلمانوں کی دین ومذاہب سے وابستگی اور سرزمین حجاز سے ان کی عقیدت ومحبت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس زبردست مجمع کا یہاں مشقت برداشت کرکے آنا اس عقیدت ومحبت کا نمایاں مظہر ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس پر آپ کو اجر عطا فرمائے۔

          میں سعودی حکومت کے ترجمان کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند کے اربابِ انتظام، اساتذہ اور طلبہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنھیں علم اور اہل علم سے بے انتہا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ ان کی جدوجہد میں برکت دے اور جزائے خیر عطا فرمائے۔

          اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ایک مسلمان کو یہ پاکیزہ چہرے اور یہ مبارک اجتماع دیکھ کر کتنی خوشی ہوتی ہے۔ یہ مجمع اسلام، حرمین شریفین اور سعودی حکومت کی محبت میں جمع ہوا ہے۔ حقیقت میں یہ ایک نمایاں تاریخی اجتماع ہے۔

          بھائیو! آپ نے تعظیم وتکریم، پرتپاک استقبال اور عقیدت ومحبت کا مظاہرہ کیا، اس پر اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، میرے پاس آپ کی اس خدمت کے شکریہ کے لیے الفاظ نہیں ہیں، میں آپ کے لیے اللہ تعالیٰ سے خیر اور توفیق کی دعا کرتا ہوں۔

          الحمدللہ دارالعلوم دیوبند اس خطے میں علم وایمان کے ہتھیار سے لیس نسل پیدا کرنے کے حوالے سے ایک روشن مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو یہاں کے ذمے داروں، اساتذہ اور طلبہ کو برکات سے نوازے۔ آج میں یہاں پہنچ کر بے انتہا خوشی محسوس کررہا ہوں، نیز سفیر محترم اور ہمراہ وفد کے چہروں پر بھی خوشی ومسرت کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ تمام حضرات کو بہت بہت جزائے خیر دے، اور دارالعلوم کو برکات سے نوازے‘‘

          امام محترم کی اس تقریر کا اردو میں خلاصہ حضرت مولانا محمد ارشد صاحب نے پیش کیا، اس کے بعد سعودی سفیر ڈاکٹر فیصل حسن طراد نے مختصر تقریر کی، جس میں انھوں نے دارالعلوم دیوبند کے ذمے داروں اور مولانا محمد ارشد مدنی صاحب کا شکریہ ادا کیا، نیز حاضرین نے جس گرم جوشی اور عقیدت ومحبت کا مظاہرہ کیا، اس پر انھوں نے دعا دی اور تشکر کے کلمات کہے۔

٭       ٭       ٭

 

          پھر اذانِ جمعہ ہوئی، اس کے پانچ منٹ کے بعد امامِ محترم منبر پر تشریف لائے اور دوسری اذان ہوئی پھر آپ نے پہلا خطبہ دیا، اس میں آپ نے مسلک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

          ’’صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ کرام مثلاً امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امامِ احمد سب ہمارے مقتدا اور پیشوا ہیں، ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کے چشمۂ علم وعرفان سے سیرابی حاصل کی ہے، یہی علمائے اسلام مقتدا اور پیشوا ہیں، ضروری ہے کہ مسلکی اختلافات کے باوجود ان کا ذکرِ خیر کیا جائے، اور مختلف مسالک کے ماننے والے ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں اور پاس، ادب رکھیں‘‘

          پھر دوسرا خطبہ دیا جس میں آپ نے ہندوستانی حکومت، ہندوستانی عوام اور دارالعلوم دیوبند کے ذمے داروں کو دعائیں دیں اور ان کا شکریہ ادا کیا۔

          اس کے بعد آپ نے جمعہ کی نماز پڑھائی۔ مسجد رشید، دارالعلوم اور دیوبند کے گلی کوچوں میں امامِ حرم کی وہی آواز گونج رہی تھی جو حرم میں گونجتی ہے۔ آپ کے پیچھے تقریباً پانچ لاکھ لوگوں نے نمازِ جمعہ ادا کی۔

          نماز کے بعد آپ کو مسجد رشید سے دارالعلوم کے اندر بھیڑ کے درمیان سے مہمان خانہ لایا گیا، پورے راستے بھیڑ بے انتہا تھی، مہمان خانے کے گیٹ پر گاڑی پہنچی، حضرت مولانا محمد ارشد صاحب نے مہمان خانے کے اندر جانے کے لیے کہا، امامِ محترم نے اتر کر اندر جانے کا ارادہ کیا، لیکن سفیر صاحب نے امڈتی ہوئی بھیڑ کے پیش نظر گاڑی سے اترنے سے روک دیا کہ گاڑی سے اترنے کے بعد اژدحام کے سبب دوبارہ سوار ہونے میں زحمت ہوگی؛ چناںچہ آپ سیدھے ہیلی پیڈ پہنچے۔

          ۲۰؍ربیع الثانی کو دارالعلوم کی طرف سے چند اساتذہ امامِ حرم کی خدمت میں دہلی دارالعلوم کی اہم علمی مطبوعات وغیرہ کچھ تحائف پہنچانے اور رجسٹر  معائنہ میں دارالعلوم کے بارے میں کچھ تاثرات لکھوانے کے لیے بھیجے گئے، آپ نے وہ تحائف قبول کیے اور تاثرات لکھنے کے لیے رجسٹر اپنے پاس رکھ لیا۔

          پھر ۲۵؍ربیع الثانی مطابق ۳۰؍مارچ کو دارالعلوم کی طرف سے امامِ حرم، سعودی سفیر اور سعودی وزیر خارجہ کے نام شکریہ کے خطوط پہنچانے کے لیے ایک وفد سعودی سفارت خانہ بھیجا گیا، جس کے سربراہ حضرت مولانا محمد ارشد صاحب تھے، راقم الحروف، مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری اور مولانا منیرالدین صاحب بھی اس وفد میں شامل تھے، سفیر صاحب نے بتلایا کہ امام صاحب مہمان خانے میں جانا چاہتے تھے؛ لیکن اژدحام کے پیش نظر میں نے انھیں اترنے سے روکا، نیز انھوں نے بتلایا کہ وہ دیوبند اور دہلی کے پروگراموں میں شرکت سے بے حد خوش تھے۔ سفیر صاحب نے وہ معائنہ رجسٹر بھی ہم لوگوں کے حوالے کیا جس میں امامِ محترم نے دارالعلوم کے بارے میں اپنے گراں قدر تاثرات ثبت فرمائے تھے۔ آپ نے اس میں تحریر فرمایا:

          ’’اللہ تعالیٰ نے مولانا محمد ارشد مدنی صاحب کی دعوت پر مجھے دارالعلوم دیوبند میں حاضری کا موقع عطا فرمایا، وہاں کثیر مجمع کی طرف سے جو میرا استقبال ہوا اور پذیرائی ہوئی، اس سے مجھے بے حد خوشی ہوئی،اس بلند قامت علمی درسگاہ اور قدیم تربیتی قلعہ میں جو مبارک خدمات انجام دی جارہی ہیں، اس پر اللہ انھیں جزائے خیر عطا فرمائے اور جو خدمات انھوں نے پیش کی ہیں، ان پر وہ شکریہ کے مستحق ہیں۔ میں انھیں اور خود اپنے آپ کو تقویٰ، عقیدہٴ صحیحہ کی، مزید خدمت، اور سلف صالح کے نہج سے وابستگی کی وصیت کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں میں برکت عطا فرمائے اور ثابت قدمی سے نوازے۔‘‘

          امامِ محترم کے دورہ کے بعد یہاں دارالعلوم اور شہر کے ماحول میں آپ کی یادوں کی خوشبو ہفتوں محسوس کی جاتی رہی، ان شاء اللہ آپ کا یہ دورہ دارالعلوم کی تاریخ کا ایک اہم حصہ بنے گا۔

 

٭       ٭       ٭

 

-----------------------------------------

دارالعلوم ، شماره 6، جلد: 95 رجب 1432ہجری مطابق جون 2011 ء