تدوینِ قرآن مجید ایک تحقیقی جائزہ

بہ قلم:   مولانا اشتیاق احمد ،  مدرس دارالعلوم دیوبند  

 

          ”قرآن مجید“ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، جو آخری نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہے، قیامت تک کوئی اور کتاب نازل نہ ہوگی، یہ زندگی کا وہی دستورِ کہن ہے جو ہمارے آبائے اولین کو ملا تھا، اس میں اصولاً اسی کا اعادہ اور عہد کی تجدید ہے، یہ خدائی عطیہ، ہمارا مشترکہ روحانی ترکہ ہے، جو منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے، اسے دوسری آسمانی کتابوں کا آخری اور دائمی ایڈیشن بھی کہا جا سکتا ہے۔ ابتدائے نزول سے آج تک بلا کسی ادنیٰ تغیر و تبدل کے باقی ہے، اس میں سرِ مو کوئی فرق نہیں آیا، ایک لمحہ کے لیے نہ تو قرآن مسلمانوں سے جدا ہوا اور نہ مسلمان قرآن سے جدا ہوئے، اس میں باطل کے در آنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے: ”لاَ یَأتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنَ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہ “(حم سجدہ)

          (ترجمہ:) قرآن مجید میں باطل نہ تو سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔

          آسمانی کتابوں میں قرآن مجید ہی کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ قیامت تک اپنی اصل حالت پر رہے گا، خود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، ایک جگہ بڑے ذور دار انداز میں ارشاد فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ (حجر ۹)

          (ترجمہ:) ہم نے ہی ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔

          صرف الفاظ نہیں؛ بلکہ معانی و مطالب کی تشریح و توضیح کی ذمہ داری بھی خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے: ”ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ“ (ترجمہ) پھر ہم پر ہی اس کا بیان (بھی) ہے۔

          قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا، کبھی ایک آیت کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں، نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی، یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری رہا؛ اس لیے آپ ﷺ کے سامنے آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل؛ بلکہ ناممکن تھا، ہاں! یہ بات ضرور ہے کہ ہر آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوا لیتے تھے اور زمانہ کے لحاظ سے نہایت ہی پائدار چیز پر لکھواتے تھے؛ چنانچہ پورا قرآن مجید بلا کسی کم و کاست کے لکھا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہٴ مبارکہ میں موجود تھا، اس میں نہ تو کوئی آیت لکھنے سے رہ گئی تھی اور نہ ہی کسی کی ترتیب میں کوئی کمی تھی؛ البتہ سب سورتیں الگ الگ تھیں، اور متعدد چیزوں پر لکھی ہوئی تھیں، کتابی شکل میں جلد سازی اور شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی:

          قد کان القرآنُ کُلُّہ مکتوباً فی عَھْدِہ صلی اللہ علیہ وسلم لکن غیرَ مجموعٍ في مَوضِعٍ واحدٍ۔ (الکتابي ج ۲ص ۳۸۴ بحوالہ تدوینِ قرآن ص ۴۳)

          (ترجمہ:) پورا قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھا ہوا تھا؛ لیکن ایک جگہ جمع نہیں تھا۔

          حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کتابی شکل میں جمع کرایا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کی محقق نقلیں تیار کرکے ہر طرف پھیلایا؛ بلکہ پوری امت کو اس پر جمع کیا۔ آج تک قرآن مجید اسی کے مطابق موجود ہے۔

حفاظتِ قرآن مجید کے طریقے

          ابتدائے نزول سے قرآن مجید کی حفاظت جس طر ”لکھ کر“ ہوئی ہے، اس سے کہیں زیادہ ”حفظ“ کے ذریعہ ہوئی ہے، سینہ بہ سینہ حفظ کی خصوصیت صرف اسی آخری کتابِ الٰہی کو نصیب ہوئی، تو رات، انجیل اور دوسری آسمانی کتابوں اور صحیفوں کی حفاظت صرف سفینہ میں ہوئی، اس لیے وہ تغیر و تبدل اور دوسرے حوادث کا شکار ہو گئیں، قرآن مجید کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے، ارشاد فرمایا:

          و مُنَزِّلٌ علیکَ کتاباً لا یغسِلْہ الماء۔ (صحیح مسلم)

          (ترجمہ:) میں آپ پر ایسی کتاب نازل کرنے والا ہوں جس کو پانی نہیں دھو سکے گا۔

          غرض یہ کہ قرآن کی حفاظت شروع شروع میں سب سے زیادہ حافظہ کے ذریعہ ہوئی اور حفاظت کا سب سے اہم ذریعہ یہی ہے، اسی وجہ سے آج تک یہ کتاب مقدس اپنی اصل حالت پر باقی ہے، صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے خداداد بے نظیرحافظے کو جاہلیت کے اشعار، انسابِ عرب حتی کے اونٹوں اور گھوڑوں کی نسلوں کے حفظ سے ہٹا کر، آیاتِ الٰہی کے حفظ پر لگادیا، عرب کے ضرب المثل حافظے نے چند ہی دنوں میں ہزاروں حفّاظِ آیاتِ الٰہی کو معرضِ شہود میں لا کھڑا کر دیا، حفّاظ کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ: صرف ”جنگ ِیمامہ“ میں شہید ہونے والے حافظوں کی تعداد سات سو تھی، بخاری شریف کے حاشیہ میں ہے: وکان عِدَّةٌ مِن القُرّاء سَبْعَ مائة (۲/۷۴۵)۔

          سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریل علیہ السلام جب قرآن مجید پڑھ کر سناتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی دہرانے لگے تھے؛ تاکہ خوب پختہ ہو جائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: لا تُحَرِّک بہ لِسانَک لِتَعْجَلَ بہ، انّ علینا جَمْعَہ وقُرآنَہ۔ (قیامہ۱۷)  (ترجمہ:) آپ قرآن مجید کو جلدی جلدی یاد کرلینے کی غرض سے، اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے، (اس لیے کہ) قرآن مجید کو جمع کرنے اور اس کو پڑھوانے کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے۔

کتابت کا اہتمام

          زبانی یاد کرنے اور کرانے کے ساتھ ہی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیات کی حفاظت کے لیے کتابت (لکھانے) کا بھی خوب اہتمام فرمایا، نزول کے ساتھ ہی بلا تاخیر آیات قلم بند کرا دیتے تھے:

          فکان اذا نَزَلَ علیہ الشئیُ دَعَا بَعْضَ مَنْ کان یَکْتُبُ فیقولُ: ضعوا ھٰذا في السُّورة التي یذکر فیھا کذا و کذا۔ (مختصر کنزص ۴۸ بحوالہ تدوین قرآن ص۲۷)۔

          (ترجمہ:) چنانچہ رسول اللہ ﷺ پر جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی، تو (بلاتاخیر) جو لکھنا جانتے تھے، ان میں سے کسی کو بلاتے اور ارشاد فرماتے کہ: اس آیت کو اس سورت میں لکھو جس میں فلاں فلاں آیتیں ہیں۔

          اور مجمع الزوائد میں یہاں تک ہے: کان جبریلُ علیہ السلام یُملي علی النبيّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (۷/۱۵۷) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریل قرآن مجید لکھواتے تھے۔

          مسند احمد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشاد فرمایا: آتاني جبریلُ فأمَرَني۔(کنز العمال ۲/۴۰) یعنی حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر مجھے (فلاں آیت کو فلاں جگہ رکھنے کا) حکم دیا۔

          غرض یہ کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم آیات لکھانے کا بھی خوب اہتمام فرماتے تھے، اور لکھانے کے بعد سن بھی لیتے تھے، اگر کوئی فرو گذاشت ہوتی تو اس کی اصلاح فرما دیتے تھے: فإن کان فیہ سَقَطٌ أقَامہ۔(مجمع الزوائد ۱/۶۰) پھر یہ لکھی ہوئی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس محفوظ فرما لیتے تھے۔

          صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر لکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتے تھے، اس طرح بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھائی ہوئی آیات موجود تھیں، بعض کے پاس پورا پورا قرآن مجید لکھا ہوا تھا۔

سامانِ کتابت

          نزولِ قرآن مجید کے زمانہ میں ایجادات و مصنوعات کی کمی ضرور تھی، جس طرح آج کاغذ، قلم اور دوات کی بے شمار قسمیں دریافت ہیں، اس زمانہ میں اتنی ہرگز نہ تھیں؛ لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس وقت کاغذ اور کتابیں دریافت نہ تھیں، یمن، روم اور فارس میں کتب خانے بھی تھے، یہود و نصاریٰ کے پاس کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا، اس زمانے میں ”کاغذ“ وغیرہ کی صنعتیں بھی تھیں؛ لیکن بڑے پیمانے پر نہ ہونے کی وجہ سے کاغذ وغیرہ ہر جگہ دریافت نہ تھے؛ اس لیے لکھنے کے لیے جو چیز بھی قابل اور پائدار سمجھ میں آتی اس پر لکھ لیا جاتا تھا۔ (التبیان فی علوم القرآن ص۴۹)

          قرآن مجید کی کتابت کے لیے بھی اس وقت کی ایسی پائدار چیزیں استعمال کی گئیں، جن میں حوادث وآفات کے مقابلے کی صلاحیت نسبتاً زیادہ تھی؛ تاکہ مدتِ دراز تک محفوظ رکھا جا سکے۔ (تدوین قرآن ص ۳۱)حافظ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق کتابتِ قرآن میں درج ذیل چیزیں استعمال کی گئیں:

          (الف) زیادہ تر پتھروں کی چوڑی اور پتلی سلوں (لِخاف) کو استعمال کیا گیا، اِسے ہم سلیٹ کہہ سکتے ہیں۔

          (ب) اونٹوں کے مونڈھوں کی چوڑی گول ہڈیوں (کَتِف) پر بھی لکھا گیا، مونڈھوں کی ہڈیوں کو نہایت اچھی طرح گول تراش کر تیار کیا جاتا تھا۔

          (ج) چمڑوں کے کافی باریک پارچوں (رِقاع) پر بھی قرآن مجید لکھا جاتا تھا، یہ ٹکڑے نہایت باریک ہوتے تھے، اور لکھنے کے لیے ہی تیار کیے جاتے تھے، گوشت خور ملک میں اس کی بڑی افراط تھی۔

          (د) بانس کے ٹکڑوں پر بھی آیات لکھی جاتی تھیں۔

          (ھ) درخت کے چوڑے اور صاف پتے بھی کتابت کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

          (و) کھجور کی شاخوں کی چوڑی جڑوں (عسیب) اور کھجور کے جڑے ہوے پتوں کو کھول کر ان کی اندرون جانب بھی آیات کی کتابت ہوتی تھی۔

          (ز) محدثین نے کاغذ پر بھی کتابتِ قرآن کا ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری ۹/۱۷)

سورتوں اور آیتوں کی ترتیب

          پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن مجید میں سورتوں اور آیتوں کی ترتیب توقیفی ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پورا قرآن مجیدمرتب طور پر لکھوایا، آج بھی اسی ترتیب سے قرآن مجید لکھا اور پڑھا جارہا ہے، اور قیامت تک اسی طرح رہے گا۔

          پورا قرآن مجید بائیس سال، پانچ ماہ، چودہ دن میں نازل ہوا (مناہل العرفان ص۴۳)، حسبِ ضرورت کبھی ایک آیت، کبھی چند آیتیں اور کبھی پوری سورہ کی شکل میں آیات نازل ہوتی رہیں، اور ساتھ ہی یہ بھی حکم ہوتا کہ اس کو فلاں سور ہ کے فلاں مقام پر رکھ دیجیے؛ چنانچہ کاتبینِ وحی کو بلا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ضَعواھا في مَوضع کذا (التبیان في علوم القرآن ص۴۹، فتح الباری ۹/۲۷) (ترجمہ:) اس کو فلاں مقام پر لکھو!

عہدِ نبوی میں قرآن مجید کے نسخے

          جیسا کہ اوپر گذرا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ وحی کے ساتھ ہی آیات لکھوا لیا کرتے تھے، اور لکھانے کے ساتھ سن بھی لیتے تھے، پھر اسے اپنے پاس محفوظ فرما لیتے تھے، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پورا قرآن مجید لکھی ہوئی شکل میں بھی موجود تھا؛ لیکن ایک جلد میں مجلد نہ تھا، مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا۔

          صحابہٴ کرام میں جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ،وہ خدمت ِنبوی میں پہنچ کر آیات لکھ لیتے تھے، جب کسی سورت میں آیت کا اضافہ ہوتا تو معلوم کرکے مرتب فرما لیتے تھے، اس طرح بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدقہ نسخہٴ قرآن موجود تھا، بعض کے پاس پورا قرآن بھی تھا اور بعض کے پاس چند سورتیں اور چند آیتیں تھیں، لکھنے لکھانے کا سلسلہ بالکل ابتداء سے کثرت سے جاری تھی، اس کی شہادت درج ذیل روایتوں سے ملتی ہے:

          (۱) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے والی روایت میں ہے کہ: ان کی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہما ان سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے، وہ حضرت خباب بن الارث سے قرآن پڑھ رہے تھے، جب حضرت عمر نہایت غضب ناک حالت میں ان کے پاس پہنچے تو ان کے سامنے ایک صحیفہ تھا جس کو انہوں نے چھپا دیا تھا، اس میں سورہ طہ کی آیات لکھی ہوئی تھیں۔ (سنن دار قطنی ۱/ ۱۲۳ باب نہی المحدث عن مس القرآن، دار نشر لاہور)

          (۲) امام بخاری علیہ الرحمہ نے ”کتاب الجہاد“ میں ا یک روایت نقل کی ہے، جس میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصاحف (لکھا ہوا قرآن مجید) لے کر دشمنوں کی زمین میں جانے سے منع فرما دیا تھا۔ (صحیح بخاری ۱/۴۱۹)

          (۳)حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مشورہ سے جب قرآن مجید کے اجماعی نسخہ کی کتابت کا وقت آیا تو اس وقت حضرت زید بن ثابت کو پابند کیا گیا تھا کہ: جو کوئی بھی لکھی ہوئی آیت لے کر آئے ،اس سے دو گواہوں کی گواہی اس بات پر لیجیے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے ؛چناں چہ اس پر عمل ہوا (الاتقان ۱/۷۷)

          مذکورہ بالا تینوں روایتوں اور ان کے علاوہ بہت سی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس آیات لکھی ہوئی تھیں؛ بلکہ بعض کے پاس پورا قرآن مجید بھی لکھی ہوئی شکل میں موجود تھا۔

عہد صدیقی میں تدوینِ قرآن مجید

          ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: أعظمُ النّاسِ في المصاحب أجراً أبوبکرٍ، رحمہُ اللہ علی أبي بکر، ھو أوّلُ مَنْ جَمَعَ کتابَ اللہ۔ (الاتقان في علوم القرآن ۱/۷۶)

          (ترجمہ:) قرآن مجید کی خدمت کے سلسلے میں سب سے زیادہ اجر و ثواب کے مستحق ابوبکرصدیق ہیں، اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائیں کہ وہ اولین شخصیت ہیں، جنہوں نے، جمعِ قرآن کا (مایہ ناز) کارنامہ انجام دیا۔

          سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا، سارے اجزا الگ الگ تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی تمام سورتوں کوا یک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر ایک ہی جلد میں مجلد کروانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا؛ چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہو گیا جس کو سارے صحابہٴ کرام کی اجماعی تصدیق حاصل ہوئی۔

          حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی خدمت کو حکومت کی طرف سے انجام دینے کا مطالبہ کر رہے تھے، وہ چاہتے تھے کہ خلافت و حکومت اس مہم کو اپنے ہاتھ میں لے اور اپنی نگرانی میں اس کو مکمل کرائے؛ تاکہ قرآن مجید ضائع ہونے سے بچ جائے اور بعد میں کتاب اللہ میں اختلاف پیدا نہ ہو۔

          حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت امام بخاری علیہ الرحمہ نے نقل فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ:

          ”جنگ یمامہ“ کے فوراً بعد صدیق اکبر نے میرے پاس بلاوا بھیجا، میں ان کے پاس پہنچا تو وہاں حضرت عمر فاروق بھی موجود تھے، حضرت ابوبکر مجھ سے مخاطب ہوئے کہ: عمر نے ابھی آکر مجھ سے کہا کہ: جنگ ِیمامہ میں حفاظِ کرام کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی ہے، اگر آئندہ لڑائیوں میں بھی اسی طرح حفاظ شہید ہوتے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قرآن کریم کا بڑا حصہ ناپید نہ ہو جائے!

          لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید جمع کرنے کا حکم دے دیں، میں نے کہا کہ: جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہے، وہ ہم کیسے کریں؟ عمر نے جواب دیا کہ: بہ خدا! یہ کام بہتر ہے، اس کے بعد عمر بار بار مجھ سے یہ کہتے رہے ؛یہاں تک کہ مجھے بھی اس پر شرحِ صدر ہو گیا، اور اب میری رائے بھی وہی ہے جو عمر کی ہے!

          اِنَّکَ رجلٌ شابٌّ عاقلٌ، لا نَتَّھِمُکَ، وقد کُنْتَ کتبتَ الوحيَ لرسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فَتَتَبَّعِ القرآنَ فاجمعْہُ۔(ترجمہ:) واقعہ یہ ہے کہ تم نوجوان، سمجھ دار آدمی ہو، ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں ہے، اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کتابتِ وحی کی خدمت بھی کر چکے ہو؛ اس لیے تم قرآن کریم کو تلاش کرکے جمع کرو!

          حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: خدا کی قسم! اگر یہ حضرات مجھے پہاڑ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو مجھے اتنا مشکل نہ ہوتا، جتنا جمعِ قرآن کا بار ہوا، میں نے کہا بھی کہ: آپ حضرات ایسا کام کیوں کر رہے ہیں ،جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا؟ اس پر حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ: خدا کی قسم یہ کام بہتر ہے، اور حضرت ابوبکر بار بار یہی دہراتے رہے؛ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا، جس کام کے لیے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو شرحِ صدر عطا فرمایا تھا؛چنانچہ میں نے کھجور کی شاخوں، پتھر کی باریک تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن مجید تلاش کرکے جمع کرنا شروع کر دیا؛ یہاں تک کہ توبہ کی آیت ؛لقد جاء کم رسولٌ مِنْ انفسِکم اخیر سورہ تک“ میں نے صرف حضرت ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پائی، ان کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں پایا، ان کی تنہا شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمی کی شہادت کے قائم مقام قرار دیاتھا (صحیح بخاری ۲/ ۷۴۵، ۷۴۶)

جمعِ قرآن میں حضرت زید بن ثابت کا طریقہٴ کار

          حضرت ابوبکر و عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سب حافظِ قرآن تھے ،ان کے علاوہ بھی صحابہٴ کرام میں حفاظ کی کمی نہیں تھی، اگر حضرت زید چاہتے تو اپنے حافظہ سے پورا قرآن مجید لکھ دیتے، یا حافظ صحابہٴ کرام کو اکٹھا کرکے محض ان کے حافظے کی مدد سے بھی قرآن مجید لکھا جا سکتا تھا، اسی طرح محض رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کی لکھی ہوئی آیتوں سے بھی قرآن مجید لکھا جا سکتا تھا؛ لیکن حضرت ابوبکر نے بیک وقت سارے وسائل کو برروئے کار لانے کا حکم فرمایا، خود بھی شریک رہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت زید کے ساتھ لگایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا کہ:

          جن لوگوں نے جو کچھ بھی آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھی ہو، وہ سب لے کر آئیں! (فتح الباری۹/۱۷) چنانچہ جب کوئی لکھی ہوئی آیت آتی تو بلا چوں و چرا قبول نہ کی جاتی تھی؛ بلکہ اس پر دو گواہی طلب کی جاتی تھی:

          وکان لا یَقْبَلُ مِنْ أحدٍ شیئاً حتی یَشْھَدَ شَاھِدَان۔ (الاتقان ۱/۷۷)

          (ترجمہ:) اور کسی سے بھی کوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ اس پر دو گواہ گواہی نہ دے دیتے (کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی، یعنی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کی تصدیق ہو چکی ہے کہ یہ واقعتا آیتِ الٰہی ہے)۔

          جمع قرآن میں درج ذیل باتیں بھی پیشِ نظر رکھی گئیں:

          ۱۔  سب سے پہلے حضرت زید اپنی یاد داشت سے اس کی تصدیق فرماتے تھے۔

          ۲۔  حضرت ابوبکر نے حضرت زید اور حضرت عمر دونوں حضرات کو حکم دیا تھا کہ: ”آپ دونوں حضرات مسجدِ نبوی کے دروازے پر بیٹھ جاےئے، پھر جو کوئی آپ دونوں کے پاس کتاب اللہ کی کوئی آیت دو گواہوں کے ساتھ لے کر آئے ،اس کو آپ دونوں لکھ لیجیے! (فتح الباری ۹/۱۷، الاتقان ۱/۷۷)

          رسول اللہ ﷺ کے سامنے کتابت ہونے پر گواہیاں لی جانے کی کیا وجہ تھی؟ اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں:) کانَ غزضُھم أن لا یُکْتَبَ الاّ منْ عَیْنِ ما کُتِبَ بین یَدَي النبي صلی اللہ علیہ وسلم لا مِنْ مْجَرَّدِ الحِفظ ۔ ( فتح الباری ۹/۱۷، الاتقان ۱/۷۷)

           (ترجمہ:) ان کا مقصد یہ تھا کہ: صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عین سامنے لکھی گئی آیتوں کو ہی لکھا جائے، محض حافظہ سے نہ لکھا جائے۔

          حافظ ابن حجر نے ہی ایک دوسری وجہ بھی لکھی ہے کہ: گواہیاں اس بات پر بھی لی جاتی تھیں کہ: دو گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ لکھی ہوئی آیت ان وجوہ (سبعہ) کے مطابق ہے جن پر قرآن مجید نازل ہوا ہے (فتح الباری ۹/ ۱۷، الاتقان۱/۷۷)

          ۳۔  لکھنے کے بعد صحابہٴ کرام کے پاس موجود لکھے ہوئے مجموعوں سے ملایا جاتا؛ تاکہ یہ مجموعہ متفقہ طور پر قابلِ اعتماد ہو جائے، (البرہان في علوم القرآن للزرکشی ۱/۲۳۸)

          جب اجتماعی تصدیق کے ساتھ ”قرآن مجید“ کی جمع و تدوین کا کام مکمل ہو گیا، تو صحابہٴ کرام نے آپس میں مشورہ کیا کہ: اس کو کیا نام دیا جائے؟ چنانچہ بعض صحابہٴ کرام نے اس کا نام ”سِفْر“ رکھا؛لیکن یہ نام یہودیوں کی مشابہت کی وجہ سے پاس نہیں ہوا، اخیر میں ”مصحف“ نام پر سارے صحابہٴ کرام کا اتفاق ہو گیا۔ (الاتقان ۱/۷۷)

          قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر کے پاس ان کی وفات تک رہا، پھر حضرت عمر کے پاس رہا، جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس محفوظ رکھاگیا، جیسا کہ بخاری شریف کے حوالے سے گذر چکا ہے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس سے ہی منگوا کر نقول تیار کرائے تھے۔

نسخہٴ صدیق کی خصوصیت

          دوسرے صحابہٴ کرام کے پاس بھی قرآن مجید لکھا ہوا تھا؛ لیکن جن خصوصیات کا حامل حضرت ابوبکر صدیق والا اجماعی نسخہ تھا، ان سے دوسرے سارے نسخے خالی تھے، اسی وجہ سے صحابہٴ کرام کے درمیان اُسے ”اُم“ کہا جاتا تھا،اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں:

          ۱ ہر سورت کو الگ الگ لکھا گیا تھا؛ لیکن ترتیب بعینہ وہی تھی، جو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی (فتح الباری ۹/۲۲)

          ۲ اس نسخہ میں ساتوں حروف جمع تھے، جن پر قرآن مجید کا نزول ہوا۔ (مناہل العرفان ۱/۲۴۶، ۲۴۷)

          ۳ یہ نسخہ خط ”حِیَرِی“ میں لکھا گیا تھا۔ (تاریخ القرآن از مولانا عبد الصمد صارم# ص ۴۳)

          ۴ اس میں صرف وہ آیات لکھی گئی تھیں، جن کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی۔

          ۵ اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی ”اجماعی تصدیق“ سے تیار ہو جائے؛ تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے (علوم القرآن از مفتی محمد تقی عثمانی ص۱۸۶)

          ۶ اس نسخہ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر، ایک ہی جلد میں مجلد کرایا گیا تھا، اور یہ کام حکومت کی طر ف سے انجام دیا گیا، جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو پایا تھا، (تدوین قرآن ص۴۰)

          وکان القرآنُ فیھا مُنْتَشِراً فَجَمَعَھا جامعٌ و رَبَطَھَا بخیطٍ ۔ (الاتقان ۱/۸۳)

          (ترجمہ:) اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں قرآن مجید کی مکمل یاد داشتوں کا جو ذخیرہ تھا) اس میں (قرآنی سورتیں) الگ الگ لکھی ہوئی تھیں؛ پس اس کو (حضرت ابوبکر کے حکم سے) جمع کرنے والے (زید بن ثابت) نے ایک جگہ (ساری سورتوں کو) جمع کر دیا، اور ایک دھاگا سے سب کی شیرازہ بندی کر دی۔

          قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، جب ان وفات ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو (وصیت کے مطابق) آپ کی بیٹی ام الموٴمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رکھا رہا (صحیح بخاری ۲/۷۴۶)

عہدِ عثمانی میں امت کی شیرازہ بندی

           جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ جمعِ قرآن ہے، اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ پوری امت کو قرآن مجید کے اس متفق علیہ نسخہ پر جمع کرنا ہے جو ”عہدِ صدیقی“ میں تیار کیا گیا تھا، اس طرح امتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھرنے سے انہوں نے بچا لیا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ:

          بالکل ابتداء میں مضمون و معنی کی حفاظت کرتے ہوئے الفاظ میں ادنی تبدیلی کے ساتھ پڑھنے کی اجازت بھی دی گئی تھی، (مناہل العرفان) جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا، تو جن لوگوں نے مذکوہ بالا رعایتوں کی بنیاد پر اپنے اپنے قبائلی اور انفرادی لہجوں یا مختلف متواتر تلفظ کے لحاظ سے قرآن مجید کے مختلف نسخے لکھے تھے، انکے درمیان شدید اختلاف رونما ہو گیا؛ حتی کہ ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی، تو صحابہٴ کرام کے مشورے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ متفق علیہ نسخہ پر امت کو جمع کیا، اور اس کے علاوہ سارے نسخوں کو طلب کرکے نذرِ آتش کر دیا؛ تاکہ ”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“؛ چنانچہ اختلاف جڑ سے ختم ہو گیا (تفصیل کے لے دیکھئے: تدوینِ قرآن ۴۴، ۵۴، تحفة الالمعی ۷/۹۴،۹۵، مناہل العرفان وغیرہ)

کام کی نوعیت

          حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تیار کردہ نسخہ یہ کہہ کر منگوایا کہ ہم اس سے نقل تیار کرکے اصل آپ کو واپس کر دیں گے، چناں چہ حضرت حفصہ نے وہ نسخہ بھیج دیا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تین قریشی اور چوتھے انصاری صحابی کو پانچ یا سات نسخے لکھنے کا حکم فرمایا، قریشی صحابی میں، حضرت عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام رضی اللہ عنہم تھے اور انصاری صحابی سے مراد حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں۔

          ان سب کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی ہدایت دی تھی کہ آپ حضرات کا اگر کسی جگہ رسم الخط میں حضرت زید سے اختلاف ہو تو اس لفظ کو قریش کے رسم الخط کے مطابق لکھیں؛ اس لیے کہ قرآن مجید قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے (فتح الباری ۹/۲۲)۔

          معتبر روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ: پورے قرآن مجید کے کسی لفظ میں بھی ان لوگوں کااختلاف نہیں ہوا، ہاں! سورہٴ بقرہ میں ایک لفظ ”التابوت“ ہے، اس کے بارے میں حضرت زید کی رائے گول ”ة“ سے لکھنے کی تھی، اور حضرت سعید بن العاص، لمبی ”ت“ سے لکھنا چاہتے تھے، جب یہ بات حضرت عثمان غنی کے پاس پہنچی تو آپ نے لمبی ”ت“ سے لکھنے کا حکم فرمایا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: سیر أعلام النبلاء مع حاشیہ ۲/۴۴۱،۴۴۲)۔

          واضح رہے کہ مذکورہ بالا چار حضرات ”مجلس کتابت“ کے اساسی رکن تھے، ان کے علاوہ دوسرے حضرات کو بھی ان کے ساتھ کیا گیا تھا، فتح الباری میں ہے کہ حضرت عثمان نے قریش اور انصار کے بارہ افراد کو اس کے لیے جمع فرمایا تھا، ان میں مذکورہ چاروں حضرات کے علاوہ اُبی بن کعب، مالک بن ابی عامر، کثیر بن افلح، انس بن مالک اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ (فتح الباری ۹/۲۳)۔

عہد عثمانی میں تیار کردہ نسخوں کی خصوصیات

          ۱۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جو نسخہ تیار ہوا تھا، اس میں ساری سورتیں الگ الگ لکھی گئی تھیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام سورتوں کو اسی ترتیب سے یکے بعد دیگرے ایک ہی مصحف میں لکھوایا۔ (فتح الباری ۹/۲۲)۔

          ۲۔قرآن مجید ایسے رسم الخط میں لکھا گیا کہ ممکن حد تک متواتر قرأتیں سما جائیں۔ (مناہل العرفان ۱/۲۵۳)

          ۳۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جن حضرات کو نسخہٴ قرآن تیار کرنے کے لیے مامور فرمایا تھا، ان حضرات نے اسی نسخہ کو بنیاد بنایا تھا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تیار کیا گیا تھا، اسی کے ساتھ مزید احتیاط کے لیے وہی طریقہ اختیار فرمایا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اختیار کیا گیا تھا؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی متفرق تحریریں جو مختلف صحابہٴ کرام کے پاس محفوظ تھیں، انھیں دوبارہ طلب کیا گیا اور ان کے ساتھ از سرنو مقابلہ کر کے یہ نسخے تیار کیے گئے۔ (علوم القرآن ص۱۹۱)

عہدِ عثمانی میں تیار کردہ نسخوں کی تعداد

          اس سلسلے میں دو اقوال ہیں، ایک قول یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پانچ نسخے تیار کرائے تھے، یہی قول زیادہ مشہور ہے۔ (فتح الباری ۹/۲۴)اور دوسرا اقوال یہ ہے کہ حضرت عثمان نے سات نسخے تیار کرائے تھے، ایک نسخہ مدینہ منورہ میں رکھا گیا، اور بقیہ مکہ، شام، یمن، بحرین، بصرہ ور کوفہ میں ایک ایک کرکے بھیج دیا گیا، یہ قول ابن ابی داؤد سے ابو حاتم سجستانی نے نقل کیا ہے۔ (فتح الباری۹/۲۵)۔

امت میں پائے جانے والے دیگر مصاحف

          حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کے پاس موجود سارے نسخوں کو نذرِ آتش کرنے کا حکم نافذ فرما دیا (فتح الباری ۹/۱۳) تاکہ امتِ مسلمہ ایک رسم الخط پر متفق ہوجائے اور امت کی شیرازہ بندی باقی رہے۔

          اس وقت موجود بلا استثناء سارے صحابہٴ کرام نے حضرت عثمان کے اس کارنامے کی تائید و حمایت کی اور خوب خوب سراہا۔

عہد صدیقی والا نسخہ

           حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ام الموٴمنین حضرت حفصہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والا نسخہ واپسی کے وعدے سے منگوایا تھا (فتح الباری ۹/۱۹) ؛اس لیے اس سے نقلیں تیار کرکے حسبِ وعدہ واپس فرما دیا۔ (فتح الباری۱۳۹)۔

 

--------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 ، جلد: 95 ‏، شعبان  1432 ہجری مطابق جولائى 2011ء