کاتبینِ پیغمبرِ اعظم ﷺ— ایک تعارف (۱/۲)

 

از:  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

 

اسلام آخری مذہب ہے، قیامت تک دوسرا کوئی مذہب نازل ہونے والا نہیں ہے، اس دین کی حفاظت و صیانت کا سہرا صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سر ہے، صحابہ کی برگزیدہ جماعت نے اسلام کی بقا اور اس کے تحفظ کے لیے جان و مال کو قربان کیا، انھیں کے خونِ جگر سے سینچے ہوئے درخت کا پھل آج ہم سب کھا رہے ہیں، انہوں نے دین کو اس کی صحیح صورت میں محفوظ رکھنے کا جتن کیا، ان کی زندگی کا ہر گوشہ اسلام کی صحت و سلامتی کی کسوٹی ہے، جو لوگ صحابہٴ کرام سے جتنا قریب ہیں، وہ دین سے اتنا ہی قریب ہیں، اور جو لوگ جتنا اس جماعت سے دورہوں گے؛ ان کی باتیں اُن کا نظریہ، اُن کا عقیدہ اور اُن کا عمل اتنا ہی دین سے منحرف ہوگا۔

قرآن و سنت کی حفاظت میں صحابہٴ کرام نے جس طرح اپنے حیرت انگیز خداداد حافظے کو کام میں لایا، اسی طرح دوسرے وسائل اختیار کرنے سے بھی انہوں نے دریغ نہیں کیا، انہوں نے آیات و احادیث کی حفاظت لکھ کر بھی کی ہے، بہت سے صحابہٴ کرامﷺ نے قرآن مجید لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھا تھا، اسی میں تلاوت کیاکرتے تھے، بہت سے صحابہٴ کرام نے چند سورتیں یا چند آیتیں لکھ رکھی تھیں، احادیث کا لکھا ہوا ذخیرہ بھی بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس محفوظ تھا، کثرت سے آیات و احادیث یادکرنے اور لکھنے کی روایات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے اندر وحی اور دین کی حفاظت کا جذبہ کتنا زیادہ تھا، اُس دور میں جب کہ لکھنے پڑھنے کے وسائل آج کی طرح بہت وافر نہ تھے، پھر بھی انہوں نے بڑی دلچسپی سے کتابت سیکھی اور سکھائی، بعض صحابہٴ کرام کو دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کتابت سکھانے کا حکم تھا، وہ اپنے فن کا مظاہر کرتے تھے، بعض اہلِ فن کو خدمتِ نبوی میں رہ کر ”وحی الٰہی“ کی کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اُن میں بھی درجہ بندی تھی، بعض کی غیر موجودگی میں بعض کی نیابت متعین تھی، بعض کو احادیث لکھنے کی خصوصی اجازت بھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، احکامِ زکوٰة و صدقات، فرامین ومعاہدات لکھنے کے لیے بھی صحابہٴ کرام کی اچھی خاصی تعداد دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود رہتی تھی، حیدرآباد کے مشہور و معروف محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمة اللہ علیہ نے دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھے گئے دستاویزات جمع فرمائے ہیں، ہر دستاویز پر لکھنے والے صحابہٴ کرام کے نام بہ حیثیت کاتب درج ہیں، اس سے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہٴ کرامکے درمیان لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔

خلاصہ یہ کہ صحابہٴ کرام نے جس طرح اپنے حافظہ کے ذریعہ دین کی حفاظت کی ہے، اسی طرح لکھ کر بھی پورے دین کو مکمل شکل میں انہوں نے محفوظ فرمایا ہے۔

راقم الحروف کوتاہ ہمت اب تک کی جد و جہد اور کاوش سے تاریخ و سیر کی کتابوں سے پچھتّر(۷۵) صحابہٴ کرام کے نام دریافت کرسکا ہے، جنہوں نے دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل کیا ہے، بعض نے وحی کی کتابت فرمائی، بعض نے احادیث لکھیں، بعض نے دستاویزات لکھے، بعض نے احکام زکوٰة اور فرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابت کی، بعض نے قرآن مجید کی جمع وتدوین میں نمایاں طور پر حصہ لیا۔

کتاب التراتیب ا لإداریہ (۱/۱۶ط مراکش) میں ایسے صحابہٴ کرام کی تعداد بیالیس ہے، ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی کتاب ”کاتبانِ وحی“ میں اڑتالیس صحابہٴ کرام کا ذکر ہے، اور المقری محمد طاہر رحیمی ملتانی کی کتاب ”کاتبانِ وحی“ میں چھپن صحابہٴ کرام کا ذکر ہے، اسی کتاب سے حضرت قاری ابوالحسن صاحب اعظمی دامت برکاتہم نے ”کاتبینِ وحی“ میں مواد فراہم فرمایا ہے، ان سب میں سے تکرار کو حذف کرنے کے بعد ”کاتبین “ صحابہٴ کرام کی تعداد پچہتر(۷۵) ہو جاتی ہے، ان میں سے انچاس (۴۹) صحابہٴ کرام ایسے ہیں، جن کے بارے میں راقم الحروف کو کاتب ہونے کی صراحت کتابوں میں مل گئی ، اور ایک نام عبداللہ بن خطل یا عبدالعزی بن خطل ہے، اس کے بارے میں ارتداد کی روایت ملتی ہے، کاتب ہونے کی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اسی طرح ایک نامعلوم ”نصرانی انصاری“ کے کاتب ہونے کی روایت ملتی ہے؛ تا ہم یہ بھی لکھا ہے کہ ایمان سے پھر گیا تھا، جب دفن کیا گیا تو قبر نے اوپر پھینک دیا، اور ایک نام ”السجل“ ذکر کیا جاتا ہے، سورہ انبیاء (آیت ۱۰۴) میں مذکور ہے، راجح قول کے مطابق یہ کوئی کاتبِ وحی صحابی نہیں ہیں، اسی طرح مزید تئیس (۲۳) صحابہٴ کرام کے بارے میں صریح روایت تلاشنے سے راقم الحروف قاصر رہا؛ اس لیے اخیر میں ان کے ناموں کی ”الف بائی“ فہرست لکھ دی گئی ہے؛ تاکہ ان کے بارے میں صریح روایتوں کی تحقیق کی جا سکے، متعدد اہلِ علم نے کاتبینِ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ان کے اسمائے گرامی درج فرمائے ہیں، جن صحابہٴ کرام کے بارے میں تاریخی روایات موجود ہیں اُن کی ترتیب بھی ”الف بائی“ رکھی گئی ہے؛ تاکہ متعین نام تلاش کرنے میں سہولت ہو، ان کی ابتداء صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم: حضرت ابان بن سعید سے ہے اور یزید بن معاویہ پر یہ ترتیب مکمل ہوتی ہے۔

۱—حضرت ابان بن سعید: حضرت ابان بن سعید اُن صحابہٴ کرام میں سے ہیں، جن کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بارہا کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت حضرت عمر بن شبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن عبدالبر، ابن الاثیر، ابن کثیر د مشقی، ابن سید الناس، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے، (حوالہ کے لیے ملاحظہ فرماےئے: (المصباح المضئی ۱۸/أ، الہدایہ والنہایہ۵/ ۳۴۰، الاستیعاب۱/۵۱، التاریخ الکامل ۲/۳۱۳، عیون الاثر ۲/۳۱۵ العجالة السنیہ ۲۴۶، التنبیہ وا لإشراف ۳۴۶ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ص۱۳۵)

آپ کا سلسلہٴ نسب یہ ہے:

ابان بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قرشی، اموی رضی اللہ عنہ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلحِ حدیبیہ کے موقع سے حضرت عثمان بن عفان کو مکہ مکرمہ بھیجا تھا، تو ان کو حضرت ابان نے ہی پناہ دی تھی اور اپنے گھوڑے پر سوار کرکے نہایت ہی جرأت و بے باکی سے ارشاد فرمایا تھا:

اَقْبِلْ و أدْبِرْ وَلاَ تَخَفْ أَحَداً۔ (ترجمہ:) آپ آگے پیچھے جہاں تشریف لے جانا چاہیں، لے جائیں، اور کسی سے خوف زدہ نہ ہوں! (الاستیعاب ۱/۷۵)، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے پہلے تین ماہ کی درمیانی مدت میں ایمان لائے، (تاریخ خلیفہ بن خیاط ۵۰) سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علاء بن حضرمی کے بعد ان کو ”بحرین“ کا عامل مقرر فرما دیا تھا (الاستیعاب ۱/۷۵)، پورے عہدِ نبوی میں اس عہدہ پر فائز رہے اور صدیق اکبر کے زمانہٴ خلافت میں شام کے محاذِ جنگ پر گئے اور جامِ شہادت نوش کیا، بعض روایات میں ”جنادین“ ۱۳ئھ میں آپ کی شہادت کا ذکر ہے اور بعض موٴرخین نے جنگِ یرموک ۱۵ئھ میں آپ کی شہادت کا ذکر کیا ہے۔ (نقوش، رسول نمبر ج ۷ ص۱۳۵)

۲—حضرت ابو ایوب انصاری: میزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کون واقف نہیں؟ آپ سابقین اولین میں سے ہیں، بیعت عقبہٴ ثانیہ میں موجود تھے، بدر و حنین اور خندق سمیت سارے غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، آپ کو بھی دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہے، عراقی، انصاری اور ابن سید الناس وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح الفیہ ص۲۴۶ عیون الاثر ۲/۳۱۶، المصباح المضیئی ۲۱/أ بحوالہ نقوش رسول نمبر ج۷ ص۱۳۶)

حضرت علی رضی اللہ عنہ جب عراق جانے لگے تھے تو اس موقع سے حضرت ابو ایوب انصاری کو حُدیبیہ میں اپنا قائم مقام بنایا تھا، خوارج کی جنگ میں بھی حضرت علی کی طرف سے حصہ لیا، بالآخر قسطنطنیہ کی جنگ میں شہید ہوئے، وفات سے پہلے سپہ سالار نے آپ سے آخری خواہش پوچھی، تو آپ نے فرمایا کہ: جب میں مر جاؤں، تو میری لاش کو دشمن کی زمین میں آگے لے جا کر دفن کر دینا؛ چناں چہ جب انتقال ہوا، تو یزید بن معاویہ نے ایک دستہ تیار کیا، جس کی نگرانی میں آپ کو قسطنطنیہ کے قریب لے جاکر دفن کیا گیا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سیرت ابن ہشام ۱/۴۹۸الاستیعاب ۱/۴۰۴، الاصابہ ۱/۴۰۵، اُسد الغابہ ۲/۸۱ وغیرہ)

۳ —حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ: خلفیہٴ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ صحابہٴ کرام میں سب سے افضل ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ”ثانیٴ اثنین اذ ھما في الغار“ (توبہ ۴۰) فرمایا ہے، آپ کی صحابیت قرآنِ پاک سے ثابت ہے؛ اس لیے جو شخص بھی آپ کے صحابی ہونے کا انکار کرے گا وہ کافر ہو جائے گا، عام الفیل کے ڈھائی سال بعد، ہجرت سے پچاس سال پہلے پیدا ہوئے (الاصابہ ۲/۳۳۴، تذکرة الحفاظ ۱/۵) آپ کا نام عبداللہ ہے، یہ نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا تھا، پہلے نام ”عتیق“ تھا، کنیت ابوبکر اور لقب ”صدیق“ ہے، آپ کو بھی دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہوا ہے، اس کی صراحت، ابن حجر، ابن کثیر، عمرو بن شبہ، ابن سید الناس، مزی، عراقی اور انصاری نے کی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: فتح الباری ۹/۲۷، البدایہ والنہایہ ۳۵۱، تہذیب الکمال ۴/ب، الروض الأنف ۲/۲۳۰، عیون الاثر ۲/۳۱۵، شرح ألفیہ عراقی ۳۲۵ وغیرہ)

 یہ بات تو صحیح ہے کہ آپ نے کم لکھا ہے؛ لیکن یہ کہنا کہ آپ لکھنا جانتے ہی نہ تھے، جیسا کہ بعض عیسائی موٴرخین نے محض بغض و عناد میں لکھ دیا ہے، یہ بات بالکل درست نہیں ہے۔ امام بخاری کی روایت میں کئی مرتبہ حضرت انس کا یہ قول موجود ہے کہ: سیدنا صدیقِ اکبر نے آپ کو احکامِ زکوٰة جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمائے، لکھ کر دیے، اس طرح کی روایات کو بلا دلیل کیوں کرحقیقت سے پھیرا جا سکتا ہے؟ خود سُراقہ بن مالک والی روایت بھی حضرت صدیق اکبر کے لکھنے کی تصدیق کرتی ہے، ابن کثیر نے اس پر بڑی اچھی بحث کی ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۱، الوثائق السیاسیة ص ۳۶، مسند احمد بن حنبل وغیرہ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۸ ۱۳)

۴—حضرت ابو خزیمہ بن أوس رضی اللہ عنہ: ان کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے: ابو خزیمہ بن أوس بن زید بن اصرم بن ثعلبہ بن غنم بن مالک بن نجار، یہ انصاری خزرجی ہیں، غزوہٴ بدر اور دیگر معرکوں میں شریک ہوئے۔

ان کے بارے میں ابن شہاب نے عبید بن السباق سے اور انہوں نے زید بن ثابت سے نقل کیا ہے کہ: میں نے ”سورہٴ توبہ کی آخری دو آیتیں“ ابو خزیمہ انصاری کے پاس پائی (اسد الغابہ ۵/ ۱۸۰ بحوالہ کاتبین وحی ص۷۰)

۵—حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ: آپ کا پورا نام صخر بن حرب تھا، عمر میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس سال بڑے تھے، فتحِ مکہ کے بعد اسلام لائے، اس سے پہلے اسلام کے سخت ترین دشمن تھے، فتحِ مکہ کے دن سرکارِ دوعالم ﷺ نے اعلان فرمایا تھا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے بھی امان ہے، حنین، طائف اور یرموک وغیرہ میں شریک ہوئے، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ”نجران“ کا عامل مقرر فرمایا تھا، زمانہٴ جاہلیت سے ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے، مشہور موٴرخ واقدی نے آپ کو زمانہٴ جاہلیت میں لکھنے والوں میں شمار کیا ہے۔

اسلام لانے کے بعد آپ کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی لکھنے کا شرف حاصل ہوا، عراقی، ابن سید الناس، ابن مِسکویہ اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح ألفیہ عراقی ۳۴۶، عیون الأثر ۲/۳۱۶، تجارب الأمم ۱/۲۹۱، المصباح المضئی ۲۵،۲۸/أ بحوالہ نقوش ۷/۱۳۹) حضرت ابو سفیان کی وفات تقریباً ۹۰ سال کی عمر میں ہوئی، یہ حضرت عثمان بن عفان کی خلافت کا زمانہ تھا، بعض نے ۳۰ھء، بعض نے ۳۱ھء اور بعض موٴرخین نے ۳۴ھء میں آپ کی وفات لکھی ہے۔

۶—حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدا لأسد رضی اللہ عنہ: آپ کا اسم گرامی عبداللہ بن عبدالأسد بن ہلال بن مخزوم ہے، (الاصابہ ۲/ ۳۳۵) آپ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے (اسد الغابہ ۳/۱۹۵) حضرت ابوبکر صدیق کی طرح عموماً آپ بھی کنیت ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔ سابقین اولین میں شمار کے جاتے ہیں، ایک روایت کے مطابق آپ گیارہویں مسلمان ہیں۔ آپ کی شادی ام سلمہ سے ہوئی آپ کی وفات کے بعد حضرت ام سلمہ کو ام الموٴمنین ہونے کا شرف حاصل ہوا، ایک روایت کے مطابق قیامت کے دن دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ وصول کرنے والوں میں آپ پہلے شخص ہوں گے۔ غزوہٴ احد میں ایسا کاری زخم لگا کہ وہی موت کا سبب بن گیا۔ (سیرہ ابن ہشام ۱/۲۵۲،الاصابہ ۲/۳۳۵،)

دربارِ رسالت مآب ﷺ میں کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، اس کی صراحت ابن سید الناس، ابن مِسکویہ، ابو محمد دمیاطی، عراقی یعمری اور انصاری نے کی ہے، (حوالہ کے لیے ملاحظہ فرماےئے: عیون الاثر ۲/۳۱۶ تجارب الامم ۱/۲۹۱، المصباح المضئی ۳۴/ب، العجالة السنیہ شرح الفیہ عراقی ص ۳۴۶ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۰)

۷— حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ: حضرت ابی ابن کعب کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے: اُبی بن کعب بن قیس بن زید بن معاویہ بن عمر و انصاری نجاری، کنیت ابوالمنذر اور ابوالطفل تھی، سارے غزوات میں شریک ہوئے، آپ فقہائے صحابہ میں بھی شمار ہوتے ہیں، اور بلا اختلاف سید القراء ہیں، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ تم کو قرآن سناؤں، حضرت ابی بن کعب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! یہ سن کر حضرت ابی بن کعب فرطِ مسرت سے رونے لگے، (صحیح بخاری تفسیر سورہ لم یکن)

آپ مشہور و معروف کاتبینِ وحی میں سے ہیں، دربارِ رسالت مآب ﷺ میں کتابت کا شرف حاصل کرنے کی صراحت بہت سی کتابوں میں موجود ہے، (حوالے کے لیے دیکھیے: تاریخ طبری ۶/۱۷۹، المصباح المضئی ۸/ ب، تجارب الامم ۱/۲۹۱، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، الورزاء والکُتَّاب ۱۲، اسد الغابہ ۱/۵۰ شرح الفیہ عراقی ۲۴۵، تہذیب الکمال ۵/۲۴۰، البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۰ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۱)

ایک روایت میں ہے کہ: سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھ کر (مدینہ منورہ) وحی لکھنے والوں میں آپ سب سے اول ہیں (البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۰) عیون الاثر اور تاریخ ابن الاثیر میں بھی آپ کے سب سے پہلے کاتب ہونے کی صراحت موجود ہے (التارالکامل ۲/۱۳) تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان وحی کی کتابت فرماتے تھے، اور اگر وہ موجود نہ ہوتے، تو حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت وحی کی کتابت فرماتے تھے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں کئی ایسے مکاتیب ذکر کیے ہیں، جن میں کاتب کا نام ابی بن کعب درج ہے، مثال کے طور پر دیکھیے: وثیقہ نمبر ۶۳، ۶۴، ۷۶، ۱۲۰، ۱۲۱، ۱۲۴، ۱۶۳، ۱۷۴، ۲۰۶، ۲۴۴وغیرہ (الوثائق السیاسیہ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۲) آپ کی وفات علی اختلاف الاقوال ۱۹ھء یا ۲۰ھء یا ۲۲ھء یا ۳۰ھء میں ہوئی۔ (نقوش ۷/ ۱۴۲)

۸— حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ: انھیں کے گھر میں حضرت عمر نے اسلام قبول کیا تھا، اس کے بعد ہی کھلم کھلا اسلام کی دعوت دی جانے لگی، یہ گھر کوہِ صفا کے دامن میں تھا، اسے دعوتِ اسلام کا پہلا خفیہ مرکز کہا جا سکتا ہے، حضرت ارقم ساتویں مسلمان تھے اور حضرت عمر چالیسویں مسلمان تھے۔

آپ نے تمام غزوات میں حصہ لیا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو صدقات جمع کرنے پر مامور فرمایا تھا، اور مدینہ طبیہ میں ایک حویلی بھی عنایت فرمائی تھی (الاصابہ ۱/ ۲۸۰، اسدالغابہ ۱/ ۶۰)

متعدد موٴرخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربارِ رسالت میں لکھا ہے، مثلاً ابن کثیر، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری وغیرہ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۱/ ۶۰، عیون الاثر ۲/ ۳۱۶، شرح الفیہ ص ۲۴۷، المصباح المضئی ۱۸/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۲)

علامہ ابن کثیر نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ: حضرت ارقم رضی اللہ عنہ نے سرکارِ دوعالم ﷺ کے حکم سے عظیم بن الحارث المحاربی کو ایک بہت بڑی جاگیر لکھ دی تھی (البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۱)

ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی مشہور و معروف کتاب الوثائق السیاسیہ میں وثیقہ نمبر ۸۴، ۸۸، ۱۷۶، ۲۱ ۲ پر بحیثیت کاتب حضرت ارقم کے دستخط موجود ہیں۔

آپ کی عمر اسی سال سے زائد ہوئی، بعض نے حضرت صدیق اکبر کی وفات کے دن آپ کی وفات لکھی ہے اور بعض نے ۵۵ھ بتائی ہے، وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی (اسد الغابہ ۱/ ۲۲۹ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)

۹—حضرت بریدہ بن الحصیب رضی اللہ عنہ: حضرت بریدہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت ایمان قبول کیا، اور غزوہٴ احد کے بعد مدینہ تشریف لائے، اور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ غزوات میں شریک ہوئے (اسد الغابہ ۱/ ۱۷۵، الاصابہ ۱/ ۱۴۶) متعدد موٴرخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربار رسالت میں شمار کیا ہے، مثلا: ابن سیدا لناس، عراقی اور انصاری وغیرہ (حوالے کے لیے دیکھیے: عیون الاثر ۲/ ۳۱۶ العجالة السنیہ شرح الفیہ ۲۴۶، المصباح المضئی ۷/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)

حضرت بلال بن سراج بن مجاعہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کو یمن میں ایک جاگیر عطا فرمائی تھی، جس کی تحریر حضرت بریدہ نے لکھی تھی، وہ درج ذیل ہیں:

”محمد رسول کی طرف سے مجاعہ بن مرارہ کے لیے جو بنی سلم سے ہے کہ: میں تم کو ایک سرحدی زمین دیتا ہوں جو کوئی تم سے اس معاملہ میں جھگڑا کرے اُسے چاہیے کہ میرے پاس آئے“۔ اس کو بریدہ نے لکھا۔ (المصباح المضئی ۱۸/ أبحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)

۱۰— حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب تھے جس طرح حضرتِ حسان بن ثابت کو آپ کے شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے (اسد الغابہ ۱/۲۲۹) جب سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو حضرت ثابت نے تقریر کی اور فرمایا کہ ہم دشمنوں سے آپ کی اس طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنی جان اور اولاد کی حفاظت کرتے ہیں؛ لیکن اس کے بدلے ہمیں کیا ملے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت! اس پر پورے مجمع نے خوشی کا اظہار کیا اور بیک زبان ہو کر سب بول پڑے کہ: ہم اس پر خوش ہیں (الاصابہ ۱/۱۹۵)

آپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے ہیں ابن کثیر، ابن سعد، ابن سیدا لناس، مزّی، عراقی اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/۳۴۱، طبقات بن سعد ۱/۸۲، عیون الاثر /۳۱۵، تہذیب الکمال ۴/ ب العجالة السنیہ شرح الفیہ ۲۴۵، المصباح المضئی ۱۹أ)

ڈاکٹر محمدمصطفی اعظمی لکھتے ہیں:

”ڈاکٹر حمیداللہ نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں وثیقہ نمبر ۱۵۷ میں تحریر کنندہ کا نام قیس بن شماس الرویانی لکھا ہے؛ لیکن صحابہٴ کرام میں اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا، شاید یہ ثابت بن قیس بن شماس ہوگا“۔ (نقوش ۷/۱۴۴)

آپ کی شہادت جنگ یمامہ میں ۱۱ھء کو ہوئی (اسد الغابہ۱/۲۲۹، ۲۳۰، الاصابہ ۱/۱۹۵، الاستیعاب ۱/ ۱۹۵ بحوالہ نقوش)

۱۱— حضرت جعفر رضی اللہ عنہ: ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی رقم طراز ہیں: ”بیہقی کی ابن اسحاق والی روایت کے سوا میں نے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جعفر رضی اللہ عنہ کا نام کسی کو ذکر کرتے نہیں پایا (الاصابہ ۲/ ۲۳۹، ۲۹۹) مزید بر آں یہ کہ میرے نزدیک یہ شخصیت بھی غیر واضح ہے؛ کیوں کہ اس نام کے متعدد صحابہٴ کرام تھے، شاید یہ جعفر بن ابی طالب ہیں یا جعفر بن ابی سفیان۔

بیہقی میں ہے ﷺ جب کبھی حضرت زید اور عبداللہ بن أرقم وقت پر موجود نہ ہوتے اور کسی کماندار کو، کسی بادشاہ کو یا کسی دوسرے انسان کو کوئی چیز لکھ کر دینا ہوتی، تو حضرت جعفر سے لکھوا لیتے تھے الخ“ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۰/ ۱۲۶ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۵)

۱۲— حضرت جہم بن سعد رضی اللہ عنہ: ابن حجر کی روایت ہے کہ حضرت جہم کو القفاعی نے کاتبینِ رسول اللہ ﷺ میں شمار کیا ہے، اور لکھا ہے کہ حضرت زبیر اور جہم اموالِ صدقہ لکھا کرتے تھے، اسی طرح مفسر قرطبی نے بھی اپنی تالیف ”مولد النبی ﷺ“ میں کاتبین میں آپ کا ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ عراقی اور انصاری نے بھی آپ کا شمار کاتبین کے ضمن میں کیا ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۱/ ۲۵۵، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶، المصباح المضئی ۱۹/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۵)

۱۳— حضرت جُہیم بن الصلت رضی اللہ عنہ: آپ کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے: جُہیم بن الصلت بن مخرمہ بن المطلب بن عبد مناف قرشی رضی اللہ عنہ۔

ابن الاثیر اور بن عبدالبر نے لکھا ہے کہ آپ فتح خیبر کے سال مسلمان ہوئے، اور ابن سعد کی روایت ہے کہ آپ فتحِ مکہ کے بعد مسلمان ہوئے (الاستیعاب ۱/۲۴۷ ، اسد الغابہ ۱/ ۲۵۵) بلاذری نے لکھا ہے کہ جُہیم بن الصلت زمانہٴ جاہلیت سے لکھنا جانتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی آپ نے لکھا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر بھی لکھا ہے (الاصابہ ۱/۲۵۵)اموالِ صدقہ کی تفصیلات لکھنے کی روایت بھی ملتی ہے (التنبیہ والاِشراف ۲۴۵)

حضرت جُہیم کے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب ہونے کی صراحت ابن شبہ، یعقوبی، ابن مسکویہ، ابن سید الناس، ابن حجر، عراقی، انصاری نے بھی کی ہے (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب، تاریح یعقوبی ۲/ ۸۰، تجارب الامم ۱/ ۳۹۱، عیون الاثر، أنساب الاشراف ۱/ ۵۳۲ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۶)

۱۴— حضرت حاطب بن عمر رضی اللہ عنہ:

سلسلہٴ نسب اس طرح ہے:

حضرت حاطب بن عمرو بن عبدالشمس بن عبد وَدّ قرشی عامری رضی اللہ عنہ ابتدائی دور میں ہی مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کیا، حبشہ کی طرف ہجرت کی، جنگِ بدر میں شریک ہوئے۔

دربارِ رسالت میں کتابت کا شرف حاصل کیا، ابن مسکویہ، ابن سیدالناس عراقی اور انصاری وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: تجارب الامم ۱/۲۹۱، عیون الاثر ۲/ ۳۱۶، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶ بحوالہ نقوش رسول نمبر ۷/۱۴۶)

۱۵— حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے معتمد تھے، یمن کے رہنے والے تھے، حضرت عمر کے عہدِ خلافت میں جب کوئی وفات پا جاتا تو حضرت عمر فرماتے: اگر حذیفہ اس کے جنازہ میں شریک ہوں گے، تو ہی عمر شامل ہوگا، اگر وہ شامل نہ ہوں گے، تو میں بھی نہ ہوں گا (الاصابہ ۱/۳۳۱،۳۳۲)

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے کہا: کوئی تمنا کرو! انہوں نے تمنا کی کہ اے کاش! ان کے وہ گھر جن میں وہ رہتے ہیں جواہرات اور دینار و درہم سے بھرا ہو اور وہ ان سب کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں! لیکن حضرت عمر نے فرمایا کہ: میری تمنا ہے کہ: میرے پاس ابو عبیدہ بن الجراح، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن الیمان جیسے لوگ ہوں، جن کو میں اللہ کی اطاعت کے لیے عامل مقرر کروں۔ (اسد الغابہ ۱/۳۹، ۴۹۲)

آپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے ہیں، اس کی صراحت قرطبی، ثعلبی، عراقی اور انصاری نے کی ہے، ان سب نے لکھا ہے کہ: ”حضرت حذیفہ کھجور کی چھال پر لکھاکرتے تھے، اور مسعودی نے لکھا ہے کہ: حضرت حذیفہ حجاز کی متوقع آمدنی کے گوشوارے مرتب فرمایا کرتے تھے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۲۱/ أ، العجالہٴ السنیہ شرح الفیہ ۲۴۶، التنبیہ والإشراف ۲۴۵، بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۸)

آپ کی وفات حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد۳۶ھ میں ہوئی۔ (الاستیعاب ۱/۲۴۸)

۱۶— حضرت حصین بن نمیر رضی اللہ عنہ: الوزراء والکُتّاب میں ہے کہ: حضرت حصین بن نمیر اور حضرت مغیرہ بن شعبہ لوگوں کے معاملات لکھا کرتے تھے (الوزراء والکُتّاب ۱۲) اور انصاری نے لکھا ہے کہ آپ دونوں حضرات قرض اور معاملات تحریر فرماتے تھے، ابنِ مسکویہ نے بھی آپ کو کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار کیاہے اور لکھا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں شخصیات عوام الناس کے معاملات بھی لکھا کرتے تھے اور حضرت خالد اور حضرت معاویہ کی عدم موجودگی میں ان کی نیابت میں کتابت فرماتے تھے (تجارب الامم۱/۲۹۰) آپ کے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کی صراحت عراقی اور یعقوبی نے بھی کی ہے، (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح الفیہ عراقی۲۴۷، تاریخ یعقوبی۲/۸۰ بحوالہ نقوش۷/۱۴۸)

۱۷— حضرت حنظلہ بن الربیع رضی اللہ عنہ: حضرت حنظلہ بن الربیع بن صیفی بن ریاح تمیمی رضی اللہ عنہ بڑے مشہور ومعروف جلیل القدر صحابی ہیں، ایک موقع سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: تم لوگ ان کی اوران جیسوں کی اقتداء کیا کرو! (اسد الغابہ۲/۵۸)

آپ مشہور کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے، الوزراء والکتاب نامی کتاب میں ہے کہ آپ تمام کاتبین کے نائب تھے، اور ہر ایک کے غیر حاضر ہونے کی صورت میں لکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ ”الکاتب“ سے جانے جاتے تھے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے آپ کو کاتب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعبیر کیا ہے (التاریخ الکبیر۲/۳۶)۔ اور امام مسلم نے بھی ایسا ہی لکھا ہے (الطبقات لمسلم بن حجاج۲۸۰/ب) اور طبقات ابن سعد میں بھی اس کی صراحت موجود ہے (طبقات بن سعد۶/۳۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مہر حضرت حنظلہ کے پاس رکھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ: ہر تیسرے دن مجھے تمام لکھایاہوا یاد دلا دیا کرو! چنانچہ حضرت حنظلہ ہر تیسرے دن سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اموال اور طعام وغیرہ جو آپ کی تحریری تحویل میں ہوتایاددلادیاکرتے تھے اور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال کو سونے سے پہلے تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ (الوزراء والکتاب۱۳/۱۳)

آپ کے کاتبِ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صراحت ابن حجر، ابن کثیر، ابن سید الناس، ابن الاثیر، ابن شبہ، یعقوبی، مزی، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: الاصابہ۱/۳۵۹، ۳۶۰، البدایہ والنہایہ۵/۲۴۲، عیون الاثیر۲/۳۱۵، اسد الغابہ۲/۵۸، المصباح المضئی۸/ب، تاریخ یعقوبی۲/۸۰، تہذیب الکمال۴/ب، شرح الفیہ عراقی۲۴۵، المصباح المضئی۲۰/أ، التنبیہ والإشراف۲۸۲ بحوالہ نقوش۷/۱۵۰)

آپ نے حضرت امیر معاویہ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ (الاصابہ۱/۳۶۰)

۱۸— حضرت حویطب بن عبد العزّیٰ رضی اللہ عنہ: آپ نے فتحِ مکہ کے سال آٹھ سال کی عمر میں ایمان قبول فرمایا، آپ کے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کی صراحت ابن مسکویہ، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری نے کی ہے، (حوالہ کے لیے دیکھیے: الاستیعاب۱/۸۴، تجارب الامم۱/۲۹۱، عیون الاثر۲/۳۱۶، شرح الفیہ عراقی۲۴۶، المصباح المضئی۲۰/ب بحوالہ نقوش۷/۱۵۰)

۱۹— حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ: سابقین اولین میں سے ہیں، حضرت صدیق اکبر کے بعد ہی اسلام قبول فرمایا تھا، بعض روایات کے مطابق تیسرے چوتھے یا پانچویں مسلمان ہیں۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مذحج اور صفاء الیمین کے صدقات کا عامل مقرر فرمایاتھا، رحلتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک آپ اس عہدہ پر فائز تھے۔ (الاستیعاب۱/۳۹۹، ۴۰۰)

حضرت خالد بن سعید سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تمام امور کی کتابت فرماتے تھے (التنبیہ والإشراف۲۴۵) اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں درج ذیل وثائق میں کاتب کی حیثیت سے آپ کا اسم گرامی رقم فرمایا ہے: (وثیقہ:۱۹،۲۰،۱۱۴، ۲۰۲، ۲۱۳، ۲۱۴، اور۲۲۳)

سب سے پہلے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ کی کتابت حضرت خالد بن سعید نے کی تھی (الاصابہ۱/۴۰۶) مکہ مکرمہ میں وحی کی کتابت سے بہرہ ور ہوئے، اور جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو بنیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں خطوط نویسی کا شرف حاصل ہوا، طبری کی صراحت کے مطابق حضرت خالد بن سعید کو خدمتِ نبوی میں بیٹھ کر ضروریات ومعاملات لکھنے کا شرف بھی حاصل ہے، بہت سے موٴرخین نے آپ کا ذکر کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا ہے، ان میں سرفہرست: ابن اسحاق، ابن سعد، ابن شبہ، طبری، جہشیاری، ابن الاثیر، ابن کثیر، مزی، عراقی، ابن سید الناس، ابن مسکویہ اورانصاری وغیرہ ہیں۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ۵/۳۵، طبقات ابن سعد۴/۶۹، المصباح المضئی۲۱/ب، تاریخ طبری۶/۱۷۹، الوزراء والکتاب۱۲، التاریخ الکامل۲/۳۱۳، تہذیب الکمال۴/ب، شرح الفیہ عراقی۲۴۵، عیون الاثر۲/۳۱۵، تجارب الامم۱/۲۹۱ وغیرہ بحوالہ نقوش۷/۱۵۲)

ایک قول کے مطابق حضرت خالد بن سعید کی شہادت ۱۴ھء میں ہوئی۔ (الاصابہ۱/۴۰۷)

۲۰— حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ: ہر مسلمان حضرت خالید بن ولید سے واقف ہے، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”سیف اللہ“ کا لقب دیا تھا، آپ کی کنیت ابو سلیمان تھی، ام الموٴمنین حضرت میمونہ بنت الحارث کے بھانجے تھے، ہجرت سے چالیس سال قبل پیدا ہوئے، زمانہٴ جاہلیت میں بھی جنگی مہارت و سیادت کے امتیازات آپ کے پاس رہتے تھے، آپ اکثر جنگلوں میں قائد ہوا کرتے تھے۔

جب آپ نے اسلام قبول کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اسلامی لشکروں کی قیادت مرحمت فرمائی، فتحِ مکہ میں بھی شریک رہے، اور عُزّی کا بت آپ نے ہی گرایا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء ۱/ ۲۶۴، الاستیعاب ۱/۴۰۷)

آپ کاتبینِ رسول اللہ ﷺ میں سے تھے، عمر بن شبہ، ابن کثیر، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ ب، البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۴، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۵۴)

علامہ ابن کثیر نے ”البدایہ والنہایہ“ میں حضرت خالد بن ولید کا رقم کردہ ایک خط نقل کیا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:

”بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام مومنین کی طرف کہ: یہاں کوئی شکار نہ کرے، اور شکار کو نہ پکڑے، اور نہ ہی قتل کرے، اگر کوئی ایسا کرتا ہوا پایا گیا، تو اسے کوڑے مارے جائیں گے، اور اس کے کپڑے اتار دیے جائیں گے، اور اگر کوئی ان حدود کو توڑے گا تو وہ ماخوذ ہوگااور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو پیش کر دیا جائے گا“ اور یہ تحریر محمد رسول اللہ کی طرف سے ہے، اور اِسے خالد نے رسول اللہ کے حکم سے لکھا ہے“۔ اور کوئی انھیں پامال نہ کرے ورنہ وہ اپنے اوپرظلم کرنے والا ہوگا جیسا کہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۴)   (جاری)

$        $        $

----------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ، جلد: 95 ‏، رمضان — شوال 1432 ہجری مطابق اگست — ستمبر 2011ء