تحفظ ختم نبوت کی خاطر قربانیاں (۲)

 

از:  مولانا حذیفہ وستانوی،  ناظم تعلیمات ومعتمد جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

 

عقیدهٴ ختم نبوت پر امت کا سب سے پہلا اجماع

          اسلام میں سب سے پہلا اجماع اس پر منعقد ہوا تھا کہ دعوی نبوت بغیر اس تحقیق کے کہ اس کی تاویل کیا ہے اورکیسی نبوت کا دعوی ہے؟کفر اور ارتداد ہے، اور مدعیِ نبوت کی سزا قتل ہے۔ صحابہ کرام کے اجماع سے صدیق اکبر کے زمانے میں مسیلمہ کذاب مدعی نبوت سے جہاد کیاگیا اور اس کو قتل کیاگیا۔

          شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی فرماتے ہیں:

          ”ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار ہوتے ہیں اور عہد نبوی سے لے کر آج تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا کہ آں حضرت ﷺ بلاکسی تاویل و تخصیص کے خاتم النّبیین ہیں اور یہ مسئلہ قرآن کریم میں صریح آیات اور احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے، جس کا منکر قطعاً کافر ہے اور کوئی تاویل و تخصیص اس بارے میں قبول نہیں کی گئی۔ (احتساب قادیانیت: ج۲/ص۱۰)

          یہاں ایک امر قابل غور ہے وہ یہ کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس نازک وقت میں مدعی نبوت اور اس کی امت سے جہاد وقتال کو یہود اور نصاری اور مشرکین سے جہاد وقتال پر مقدم سمجھا۔ جس سے معلوم ہوا کہ مدعیِ نبوت اور اس کی امت کا کفر یہود اور نصاری اور مشرکین کے کفر سے بڑھا ہواہے ۔عام کفار سے صلح ہو سکتی ہے ان سے جزیہ قبول کیا جاسکتا ہے؛ مگر مدعی نبوت سے نہ تو کوئی صلح ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی جزیہ قبول کیا جاسکتا ہے ۔اس وقت اگر آج کل جیسے سیاسی لوگ ہوتے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیتے کہ باہمی تفرقہ منا سب نہیں۔ مسیلمہ کذاب اور اس کی امت کو ساتھ لے کر یہود اور نصاریٰ کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ حضرت علامہ محمدانور کشمیری قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ: مسیلمہٴ کذاب اور مسیلمہٴ پنجاب کا کفر فرعون کے کفر سے بڑھ کر ہے ؛اس لیے کہ فرعون مدعئ الوہیت تھا اور الوہیت میں کوئی التباس اور اشتباہ نہیں،ادنیٰ عقل والا سمجھ سکتاہے کہ جو شخص کھاتا اور پیتا اور سوتا اور جاگتا اور ضروریات انسانی میں مبتلا ہوتا ہے وہ خدا کہاں ہوسکتا ہے ؟مسیلمہ مدعی نبوت تھا ظاہری بشریت کے اعتبار سے سچے نبی اور جھوٹے نبی میں التباس ہوسکتا ہے؛ اس لیے مدعیِ نبوت کا فتنہ مدعی الوہیت کے فتنہ سے کہیں اہم اور عظیم ہے اور ہر زما نے میں خلفاء اور سلاطین اسلام کا یہی معمول رہا کہ جس نے نبوت کا دعوی کیا اسی وقت اس کا سر قلم کیا۔ 

          اہل حق نے اس فتنہ کے استیصال کے لیے جو سعی اور جد وجہد ممکن تھی اس میں دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح مدعی نبوت سے جہاد بالسیف والسنان تو ارباب حکومت کا کام ہے اور جہاد قلمی اور لسانی یہ علماء حق کاکا م ہے ۔سو الحمد للہ علماء نے اس جہاد میں کوئی کوتاہی نہیں کی، تقریر اور تحریر سے ہر طرح سے مدعی نبوت کا مقابلہ کیا۔ (احتسابِ قادیانیت: ج۲/ص۱۱ تا ۱۲)

          حضرت مفتی شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ ”ختم النبوة فی الآثار“ کے آغاز میں ختم نبوت پر اجماع کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

صحابہٴ کرام کا سب سے پہلا اجماع مسئلہ ختم نبوت پر اور اُس کے منکر کے مرتد اور واجب القتل ہونے پر ہوا ہے

 

مسیلمہٴ کذاب کا دعوئ نبوت اور صحابہٴ کرام کا اس پر جہاد

          اسلام میں یہ بات درجہٴ تواتر کو پہنچ چکی ہے کہ مسیلمہ کذاب نے آں حضرت ﷺ کی موجودگی میں دعوائے نبوت کیا، اور بڑی جماعت اس کی پیرو ہوگئی، اور آں حضرت ﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلا مہم جہاد جو صدیق اکبر نے اپنی خلافت میں کیا ہے، وہ اسی جماعت پر تھا، جمہور صحابہٴ کرام مہاجرین و انصار نے اس کو محض دعوائے نبوت کی وجہ سے اور اس کی جماعت کو اس کی تصدیق کی بنا پر کافر سمجھا، اور باجماع صحابہ و تابعین اُن کے ساتھ وہی معاملہ کیا گیا جو کفار کے ساتھ کیا جاتا ہے، اور یہی اسلام میں سب سے پہلا اجماع تھا، حالاں کہ مسیلمہ کذاب بھی مرزا صاحب کی طرح آپ ﷺ کی نبوت اور قرآن کا منکر نہ تھا بلکہ بعینہ مرزا صاحب طرح آپ ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی مدعی تھا، یہاں تک کہ اُس کی اذان میں برابر اشہد ان محمدا رسول اللہ پکارا جاتا تھا، اور وہ خود بھی بوقتِ اذان اس کی شہادت دیتا تھا۔(تاریخ طبری:۳/۲۴۴)

          الغرض! نبوت و قرآن پر ایمان اور نماز روزہ سب ہی کچھ تھا، مگر ختم نبوت کے بدیہی مسئلہ کے انکار اور دعوائے نبوت کی وجہ سے باجماع صحابہ کافر سمجھا گیا اور حضرت صدیق نے صحابہ کرام، مہاجرین و انصار اور تابعین کا ایک عظیم الشان لشکر حضرت خالد بن ولید کی امارت میں مسیلمہ کے خلاف جہاد کے لیے یمامہ کی طرف روانہ کیا۔

          جمہور صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی اس پر انکار نہ کیا اور کسی نے نہ کہا کہ یہ لوگ اہل قبلہ ہیں، کلمہ گو ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوٰة ادا کرتے ہیں، اُن کو کیسے کافر سمجھ لیا جائے۔

          بعض لوگوں نے آں حضرت ﷺ کے بعد زکوٰة ادا کرنے سے انکار کیا تھا، صدیق اکبر نے اُن پر جہاد کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت فاروق نے وقت کی نزاکت اور مسلمانوں کی قلت و ضعف کا عذر پیش کرکے ابتدأً اُن کی رائے سے خلاف رائے ظاہر فرمائی، لیکن حضرت صدیق کے ساتھ تھوڑے سے مکالمہ کے بعد ان کی رائے بھی موافق ہوگئی۔

          الغرض حضرت فاروق کا ابتدأً خلاف کرنا بھی مسیلمہ کے واقعہ میں ثابت نہیں جیساکہ بعض غیرمحقق لوگوں نے سمجھا ہے۔

          الحاصل بلاخوف و بلانکیر یہ آسمانِ نبوت کے ستارے اور حزب اللہ کا ایک جم غفیر یمامہ$ کی طرف بڑھا، اس کی پوری تعداد تو اس وقت نظر سے نہیں گذری مگر تاریخ طبری$ میں حضرت صدیق اکبر کا ایک فرمان خالید بن ولیدکے نام درج ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو صحابہ و تابعین اس جہاد میں شہید ہوئے ان کی تعداد بارہ سو ہے۔ نیز اسی تاریخ میں ہے کہ مسیلمہ کی جماعت جو اس وقت مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکلی تھی اس کی تعداد چالیس ہزار مسلح جوان تھی، جن میں سے اٹھائیس ہزار کے قریب ہلاک ہوئے اور خود مسیلمہ بھی اسی فہرست میں داخل ہوا، باقی ماندہ لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے، حضرت خالید کو بہت مال غنیمت اور قیدی ہاتھ آئے، اور پھر صلح ہوگئی۔

          ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کی کتنی بڑی جماعت اس میدان میں آئی تھی جنہوں نے ایک مسئلہٴ ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے نہ وقت کی نزاکت کا خیال کیا اور نہ مسلمانوں کی بے سروسامانی کا، اور نہ اس جماعت کے اذان و نماز اور تلاوت و اقرار نبوت، بلکہ اتنی بڑی عظیم الشان جماعت پر جہاد کرنے کے لیے باجماع و اتفاق اٹھ کھڑے ہوئے۔ (ختم نبوت : ص۳۰۲ تا ۳۰۴)

          اس کے بعد ان صحابہ کے نام تحریر فرماتے ہیں جو ختم نبوت پر شاہد ہیں۔

ان صحابہٴ کرام کے اسماء گرامی جو ختم نبوت کے شاہد ہیں

          حضرت صدیق اکبر، حضرت فاروق اعظم، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عائشہ، حضرت اُبی بن کعب، حضرت انس، حضرت حسن، حضرت عباس، حضرت زبیر، حضرت سلمان، حضرت مغیرہ، حضرت سعد بن ابی وقاس، حضرت ابوذر،حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر عبداللہ، حضرت جابر بن سمرہ، حضرت معاذ بن جبل،حضرت ابوالدرداء، حضرت حذیفہ،حضرت ابن عباس، حضرت خالد بن ولید، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عقیل بن ابی طالب، حضرت معاویہ بن جندہ، حضرت بہزبن حکیم، حضرت جبیر بن مطعم، حضرت بریدہ، حضرت زید بن اوفیٰ، حضرت عوف بن مالک، حضرت نافع، حضرت مالک بن حویرث، سفینہ مولیٰ حضرت ام سلمہ، حضرت ابوالطفیل، حضرت نعیم ابن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت ابوحازم، حضرت ابومالک اشعری، حضرت امّ کرز، حضرت زید بن حارثہ، حضرت عبداللہ بن ثابت، حضرت ابوقتادہ، حضرت نعمان بن بشیر، حضرت ابن غنم، حضرت یونس بن میسرہ، حضرت ابوبکرہ، حضرت سعید بن جثیم، حضرت سعد، حضرت زید بن ثابت، حضرت عرباض ابن ساریہ، حضرت زید ابن ارقم، حضرت مسعود بن مخرمہ، حضرت عروہ بن رویم، حضرت ابوامامہ باہلی، حضرت تمیم داری، حضرت محمد بن حزم، حضرت سہل بن سعد الساعدی، حضرت ابوزمل جہنی، حضرت خالد بن معدان، حضرت عمرو بن شعیب، حضرت مسیلمہ بن نفیل، حضرت قرة بن ایاس، حضرت عمران بن حسین،حضرت عقبہ بن عامر، جضرت ثوبان،حضرت ضحاک بن نوفل،حضرت مجاہد،حضرت مالک،حضرت اسماء بنت عمیس،حضرت حبشی بن جنادہ، حضرت عبداللہ بن حارث،حضرت سلمہ اکوع،حضرت عکرمہ بن اکوع،حضرت عمرو بن قیس،حضرت عبدالرحمن بن سمرہ،حضرت عصمہ بن مالک،حضرت ابوقبیلہ،حضرت ابوموسیٰ اشعری،حضرت عبداللہ بن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین!

          یہ اسّی حضرات میرے مقدمہ کے گواہوں کی پہلی قسط ہیں، جو مرزاجی کی نبوت کے گواہ کنہیّا لال وغیرہ نہیں؛ بلکہ آفتابِ نبوت کی شعاعیں، ہدایت کے ستارے، علوم نبوت کے وارث، ثقاہت و دیانت کے مجسمے، علم و عمل کے سارے عالَم کے مسلّم اُستاذ، صحابہٴ کرایم رضوانہ اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت کے افراد ہیں $

اولٰئک اٰبائی فجئني بمثلھم          اذا جمعتنا یا غلامُ المجامع

          ”یہ میرے مقتدا ہیں پس (اگر دعوی ہے) اے غلام احمد مجلس میں اُن کی مثال پیش کر اس فرشتہ صفت جماعت پر اگر میں فخر کروں تو بجا ہے“

ولے درام جواہر خانہٴ عشق است تحویلش              کہ دار و زیر گردوں میر سامانے کہ من دارم

          یہ صحابہ کی جماعت ہے، ہم تو بحمدللہ تعالیٰ اُن کی اقتدا کو ذریعہٴ نجات اور فرمانِ نبوی ما انا علیہ و اصحابی کی تعمیل سمجھتے ہیں، اگر یہ حق پر ہیں تو ہم بھی اس کے متبع ہیں، اور اگر حق رسولِ کریم ﷺ اور صحابہ کے اُسوہٴ حسنہ کے سوا کسی اور چیز کا نام ہے تو ہم شرحِ صدر سے کہتے ہیں کہ ہمیں ایسے مرزائی حق کی ضرورت نہیں۔ $

و رشادی ان یکنْ فی سلوَتی                 فدعونی لستُ ارضٰی بالرشادِ

”اور اگر میری ہدایت اسی میں منحصر سمجھی جائے کہ میں آپ کی محبت سے علیحدہ ہوجاوٴں تو مجھے اپنے حال پر چھوڑو میں ایسی ہدایت نہیں چاہتا“

(ختم نبوت : ص۳۱۳ تا ۳۱۵)

          اس کے بعد محدثین، مفسرین، فقہاء، متکلمین، صوفیاء کرام کے نام تحریر فرماتے ہیں:

طبقات المحدثین

          اس باب میں ہم سب سے پہلے اُن حضرات محدثین کے اسمائے گرامی پیش کرتے ہیں، جنہوں نے ختمِ نبوت کے متعلق آں حضرت ﷺ سے احادیث روایت کی ہیں اور اختلافِ رائے یا تاویل و تخصیص کو اس میں ظاہر نہیں فرمایا؛ بلکہ اس کو بعینہ اپنی ظاہری مراد میں تسلیم کیا ہے۔ اور چوں کہ وہ تمام احادیث مع حوالہٴ صفحات کتاب اور تصریح اسمائے محدثین اسی رسالہ کے حصہ دوم میں گذر چکے ہیں، اس لیے اب مکرر حوالہٴ صفحات یا نقل عبارات بالکل زائد سمجھ کی صرف اُن حضرات محدثین کے اسمائے گرامی شمار کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے جن سے ہم نے روایاتِ حدیث لی ہیں:

          امیر الموٴمنین فی الحدیث امام بخاری، امام المحدثین امام مسلم، نسائی، ابوداوٴد سجستانی، ترمذی، ابن ماجہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، طحاوی، ابن ابی شیبہ، ابوداوٴد طیالسی، طبرانی، ابن شاہین، ابونعیم، ابن حبان، ابن عساکر، حکیم ترمذی، حاکم، ابن سعد، بیہقی، ابن خزیمہ، ضیاء، ابویعلیٰ، محی السنہ بغوی، دارمی، خطیب، سعید بن منصور، ابن مردویہ، ابن ابی الدنیا، دیلمی، ابن ابی حاتم، ابن النجار، بزار، ابوسعید باوردی، ابن عدی، رافعی، ابن عرفہ، ابن راہویہ، ابن جوزی، قاضی عیاض، عبد بن حمید، ابونصر سنجری، ہروی، ابن منذر، دارقطنی، ابن السنی تلمیذ نسائی، روٴیانی، طبری فی الریاض النضرة، خطابی، خفاجی، حافظ ابن حجر در شرح بخاری، قسطلانی در شرح بخاری، نووی در شرح مسلم، صاحب سراج الوہاج در شرح مسلم، سندی در حاشیہ نسائی، شارح ترمذی، شعبی رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔ (ختم نبوت : ص۳۱۶، طبقات المحدثین )

طبقات فقہاء

          ابن نجیم، ابن حجر مکی، ملا علی قاری، علامہ سید محمود مفتی بغداد، شیخ سلیمان بحیری، عبدالرشید بخاری، فتاوی عالمگیری کے مرتبین، صاحب فصول عماری، صاحب شرح منہاج وغیرہم۔ ان تمام فقہاء نے منکرِ ختم نبوت اور مدعیِ نبوت کو کافر، کاذب، دجال قرار دیا ہے۔ (ختم نبوت:ص۳۲۵)

حضرات متکلمین

          ابن حزم اندلسی، امام نسفی، علامہ تفتازانی، حضرت شاہ عبدالعزیز، صاحب جواہر توحید، امام عبدالسلام، عبدالغنی نابلسی، ابوشکوہ سالمی، امام سفارینی، امام غزالی۔

صوفیائے کرام

          عبد الرحمن جامی، نظامی گنجوی، صاحب شرح تعرف، عبد القادر جیلانی، عماد الدین اموی، تقی الدین عبدالملک، محی الدین ابن عربی، مجدد الف ثانی وغیرہم۔

          علمائے امت کے ہر طبقہ اور ہر جماعت میں سے چند ارکان و عمائد کی شہادتیں آپ کے سامنے آچکی ہیں، جن میں بغیر کسی تاویل و تخصیص اور بلا تقسیم و تفصیل کے جس چیز کا نام عرفِ شریعت میں نبوت ہے اس کو آں حضرت ﷺ پر مختتم ما نا گیا ہے۔(ختم نبوت:ص۳۳۵)

          حضرت مفتی محمدشفیع صاحب نے تو قانون فطرت سے بھی مسئلہ ختم نبوت کو ثابت کرکے بتلایا ہے۔ فرماتے ہیں:

قانون فطرت بھی ختم نبوت کا مقتضی ہے

          کائنات عالم پر سرسری نظر ڈالنے والا دنیا میں دو چیزیں دیکھتا ہے ،ایک وحدت دوسری کثرت؛ لیکن جب ذرا تأمل کیا جائے اور نظر کو عمیق کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں بھی وحدت ہی اصل الاصول ہے، جتنی کثرتیں سطحی نظر میں سامنے آتی ہیں وہ بھی کسی وحدت میں منسلک ہیں اس کا شیرازئہ وجو د منتشر ہو کر قریب ہے کہ عدم میں شامل ہو جائے، اس لیے ایسی کثرت کو موجود کہنا بھی فضول ہوگا ۔

          مثال کے لیے دیکھیے کہ جب ہم آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو اس کے محیر العقول طول وعرض میں بے شمار کثرتیں کھپی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ؛لیکن جب ان کثرتوں کے سلسلہ میں نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کثرتیں ایک ہی مرکز کے ساتھ وابستہ ہیں ، اور ایک ہی محور پر حرکت کررہی ہیں ،اور اگر ان کا سلسلہ اس وحدت پر منتہی نہ ہوتا تو یہ نظام سماوی کسی طرح باقی نہ رہ سکتا تھا ۔

          آسمان سے نیچے ابر کے موالید ثلاثہ میں بھی یہی فطر ی قانون نافذ ہے ۔جمادات کے ذرا ذرا پر نظر ڈالو تو کس قدر بے شمار کثرتیں سامنے آتی ہیں ،لیکن وہ سب بھی اسی طرح ایک وحدت میں منسلک ہیں ،اور جب رشتہٴ انسلاک ٹوٹتا ہے تواس کے لیے موت کا پیام ہوتا ہے ۔

          نباتات میں بے شمار شاخیں ،پتے اور پھل پھول نئے نئے رنگ اور نئی نئی وضع میں کثرت کی شان لئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ؛لیکن اگر ان کی انتہا ایک جڑ کے ساتھ وابستہ نہ ہو تو فرمائیے کہ اس باغ و بہار کی عمر کتنی رہ سکتی ہے ۔

          حیوانا ت میں ہاتھ ،پاوٴ ں ،آنکھ ،ناک اور تین سو ساٹھ جوڑوں کی کثرت موجود ہے؛ لیکن اگر یہ سب ایک رشتہٴ وحدت میں منسلک نہ ہوں تو یہی اس کی موت ہے ۔

          اس کے بعد دنیا میں تمام مشینوں ، انجنوں، گاڑیوں، برقی تاروں اور واٹر ورکس کے نلوں، وغیرہ وغیرہ پر نظر ڈالیے تو سب کو اسی قانونِ فطرت کی جکڑ بند سے آباد پائیں گے ، اور جب کسی انجن کے کل پر زے اس کے روح (اسٹم )سے علیحدہ ہوں ،یا گاڑیوں کا باہمی ربط ٹوتے یا برقی تاروں کا اتصال بجلی کے خزانہ کے ساتھ نہ رہے، یا پانی کے نل واٹر ورکس سے منقطع ہو جائیں تو ان کا وجود بھی بے کار ہے ۔

          کائنات عالم کی ان مثالوں پر نظر کرکے جو قانون قدرت ذہن نشین ہوتا ہے ، نبوت اور رسالت بھی اس سے علیحدہ نہ ہونی چاہئے ؛بلکہ عالم کی تمام نبوتوں کا سلسلہ بھی کسی ایسی نبوت پر ختم ہونا چاہیے جو سب سے زیادہ اقوی واکمل ہو اور جس کے ذریعہ سے نبوتوں کی کثرت ایک وحدت پر منتہی ہو کر اپنے وجود کو قائم اور مفید بناسکے ،اور مسلم ہے کہ اس سیادت وفضیلت کی حقدار صرف حضرت خاتم الانبیا ء ہی ہو سکتے ہیں ،جن کی سیاست پر انبیا ء سابقین اور ان کی کتب سماوی اور پھر ان کی امتیں خود گواہ ہیں ،جن کی تصریحات ابھی آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں ۔

          اور یہی رمز ہے اس میثاق میں جو تمام انبیاء ورسل سے لیا گیا ہے کہ اگر وہ آپ ﷺ کا زمانہ پائیں تو آپ ﷺ پر ایمان لائیں ، اور آپ کی مدد کریں ،ارشاد ہے :

          ”لَتُوٴمِنُنَّ بِہ وَلَتَنْصُرُ نَّہ“ ”ضرور آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی مدد کریں “

          اور اس میثاق کی تصدیق اور سیادت کو ثابت کرنے کے لیے خداوند عالم نے دومرتبہ دنیوی حیات میں آپ ﷺ کو تمام انبیاء علیہم السلام کے ساتھ جمع فرمایا ،اور یہ سیادت اس طرح ظاہرفرمائی کہ آپ ﷺ تمام انبیاء علیہم السلام کے امام ہوئے ،جس کا مفصل واقعہٴ اسراء و معراج کے تحت میں تمام کتبِ حدیث میں صحیح ومعتبر روایات سے منقول ہے ، پھر آخر ِزمانہ میں انبیائے سابقین میں سے آخری نبی حضرت عیسی علیہم السلام کو آپ کی شریعت کا صریح طور پر متبع بنا کر بھیج دیا ؛تاکہ اس میثاق پر صاف طور سے عمل ہوجائیں ۔

قانون فطرت کی دوسری نظیر

          دنیا کی اکثر چیزوں پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو یہ دیکھا جاتاہے کہ ایک مقصد کے پورا کرنے کے لیے سینکڑوں اسباب وآلات کام میں آتے ہیں ،اور ایک زمانہٴ دراز ابتدائی مقدمات طے کرنے میں صرف ہوتا ہے ،سب سے آخر میں مقصود کی صورت نظر آتی ہے ،مثال کے لیے درختوں کو دیکھئے اور بیج بونے کے وقت تک تمام درمیانی مراحل پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ ان تمام کا دشوں کا اصلی مقصود یہ تھا جو آج سامنے آیا ہے؛ اسی طرح تمام کائنات کی پیدائش کا اصلی مقصد اور تمام نبوتوں کا خلاصہ آں حضرت ﷺ ہیں ،اور قانونِ فطر ت کے موافق آخر میں تشریف لائے ہیں ۔اسی مضمون کو سندی شیخی واستاذی حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند نے اس بلیغ شعر میں ادا فرمایا ہے :

اے ختم رسل امتِ تو خیر الامم بود

چوں ثمرہ کہ آبد آید ہمہ در فصل نضیری

تیسری نظیر

          اسی طرح شاہی درباروں پرنظر ڈالوں کہ ایک مدت پہلے سے اس کا انتظام کرنے کے لیے سیکڑوں بڑے چھوٹے حکام بر سرِ کار آتے ہیں، لیکن ان سب کا اصلی مقصد سلطانی دربار کے لیے راستہ ہموار کرنا ہوتا ہے ، اور اسی لیے جب دربار کا وقت آتا ہے اور بادشاہ تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوکر مقاصد دربار کی تکمیل کرتا ہے تواس کے بعد اور کسی کا انتظار باقی نہیں رہتا ، اور اسی پر دربار ختم ہوجاتا ہے ۔

          مسئلہ زیر بحث میں بھی اسی طرح سلطان الانبیاء ﷺ پر سلسلہ نبوت کا ختم ہوجانا بالکل قانون ِ فطرت اور مقتضائے عقل کے موفق ہے ۔

          اس قسم کی سیکڑوں نظریں ذرا تأمل سے ہر شخص نکال سکتا ہے ۔

          قرآن وحدیث اور اجماع امت اقوالِ صحابہ و تابعین اور پھر عقلی وجوہ کا جس قدر ذخیر ہ اب تک اس رسالہ میں جمع ہو چکا ہے ایک بصیر ت والی آنکھ اور سماعت والے کان کے لیے کفایت سے بہت زائد ہے ،او ر ازلی بدبخت کا کوئی علاج نہیں ۔

          اَرْجُو أن یَنْفَعنِی والمسلمینَ بہ وَھُو وَلِیُّ التوفیقِ وخیرُ الرفیق فی کل مضیق (ختم نبوت: ص۳۵۷ تا ۲۶۰)

شرائط نبوت

         (۱)    عقل کامل             (۲)  حفظ کامل

          (۳) علم کامل                (۴)   عصمت کاملہ و مستمرہ

         (۵)   صداقت و امانت کاملہ    (۶)   عدیم توریث

          (۷)  زہد کامل               (۸)   حسب و نسب اعلیٰ ہو

          (۹)  مرد ہو                 (۱۰)  اخلاق کاملہ

          تلک عشرة کاملہ۔ان شرائط کا کا نبی میں ہونا ضروری ہیں۔ اب آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، کو ن ان شرائط پر اترتا ہے، اور کون نہیں اترتا ۔ اور پھر خود ہی انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں کہ کون نبی تھا اور کون نبی نہیں ۔

          اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے، ہرقسم ضلالت گمراہی، شہوات و شبہات کے فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور کل قیامت کے دن خاتم الانبیاء و المرسلین احمد مصطفی محمد مجتبیٰ ﷺ کی شفاعت اور آپ کے مبارک ہاتھ سے جام کوثر نصیب فرمائے۔ اور اللہ ہمیشہ کے لیے ہم سے راضی ہو جائے۔ آمین یا رب العالمین!

 

$       $       $

----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ، جلد: 95 ‏، رمضان — شوال 1432 ہجری مطابق اگست — ستمبر 2011ء