استاذ العلماء والقراءحضرت مولانا قاری شریف احمد نوراللہ مرقدہ

حیات وخدمات

از:  حافظ تنویر احمد شریفی، خطیب جامع مسجد سٹی اسٹیشن، کراچی

 

          متحدہ ہندوستان میں بعض علاقے بڑے مردم خیز ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ وہ علاقے ”علم دوست“ تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ جیسے نانوتہ، گنگوہ، سہارن پور، تھانہ بھون، کاندھلہ، لکھنو، دہلی وغیرہ۔ انھیں میں ایک قصبہٴ کیرانہ ضلع مظفر نگر بھی ہے، جو مناظرِ اسلام حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی علیہ الرحمہ کی بابرکت شخصیت کی وجہ سے بہت معروف ہے، اس قصبے کو تاریخ کے ہر دور میں جید علما ومشایخ کے وجود نے شہرت بخشی۔ گذشتہ ساٹھ سالہ تاریخ میں حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحب کی ذات ستودہ صفات نے قرآن کریم سے عشق، درس وتدریس کے شوق اور استقامت عمل سے اس کی عزت وشہرت میں اضافہ کیا ہے۔ افسوس کہ ہم ان بزرگ ہستی کو جنہیں کل تک ”مدظلہ العالی“ کہتے ہوئے مسرت محسوس کرتے تھے آج انہیں ”رحمہ اللہ“ اور ”قدس اللہ سرہ“ لکھ رہے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!

پیدائش:

          حضرت قاری صاحب کیرانہ ضلع مظفر نگر میں ۱۳۳۲ھ / ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حاجی نیاز احمد ابن حضرت پیر غلام محمد ایک دین دار تاجر تھے۔ آپ کے دادا حضرت پیر غلام محمد رحمہ اللہ اپنے وقت کے شیخ اور صاحبِ نسبت بزرگ تھے۔

تعلیم وتربیت:

          حضرت قاری صاحب کے والد محترم نے آپ کو کیرانہ کے مدرسہ تعلیم القرآن میں حضرت حافظ رحمت اللہ کیرانوی کے سپرد کیا، آپ نے ان سے صرف دو سال کے عرصے میں شعبان المعظم ۱۳۴۶ھ / فروری ۱۹۲۸ء میں قرآن کریم حفظ کرلیا۔ سترہ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ تروایح میں قرآن مجید سنایا۔

          حفظ قرآن کے بعد آپ کے والد ماجد آپ کو دہلی لے آئے جو علم کا مرکز تھا۔ علم دین کے حصول کے لیے آپ کے والد نے انہیں مفتیِ اعظم حضرت العلامہ مولانا محمد کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے سپرد کیا اور مدرسہٴ امینیہ دہلی میں حضرت مفتی اعظم قدس اللہ سرہ کی نگرانی وسرپرستی میں تعلیم کا آغاز ہوا۔ اسی زمانے میں تجوید کی مشق کے لیے حضرت قاری سید حامد حسین کے پاس مدرسہٴ عالیہ فتح پوری بھی جاتے رہے۔ ابھی انہوں نے کافیہ کی تکمیل تک درسیات سے فراغت پائی تھی کہ ۱۳۵۱ھ / ۱۹۳۳ء میں دار العلوم دیوبند میں داخل کرادیا گیا۔ دورانِ تعلیم وہ ایسے بیمار ہوئے کہ انھیں واپس دہلی آنا پڑا، صحت کے بعد انھیں مدرسہٴ عالیہ فتح پوری میں داخل کرادیا گیا۔ یہاں حضرت قاری سید حامد حسین سے استفادہ مزید آسان ہوگیا، جس کے لیے پہلے کئی میل کا پیدل سفر کرنا پڑتا تھا۔ مدرسہٴ فتح پوری میں ان کے داخلے کی وجہ بھی شاید یہی تھی۔ فتح پوری کے تاریخی مدرسے میں انہوں نے موقوف علیہ (مشکوٰة شریف) تک تعلیم حاصل کی۔

          دورہٴ حدیث شریف کے لیے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل چلے گئے اور شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی سے بخاری شریف پڑھ کر ۱۳۵۷ھ / ۱۹۳۹ء میں سند الفراغ حاصل کی۔ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں فارغ التحصیل ہونے والوں میں حضرت قاری صاحب کا ۴۷۷ واں نمبر ہے۔ (تاریخ جامعہ اسلامیہ: ص۴۵۰، طبع ہند)

          علم تجوید کی تکمیل کے لیے مدرسہٴ فرقانیہ لکھنو تشریف لے گئے اور ۱۲/ ربیع الاول ۱۳۵۸ھ / ۲/ مئی ۱۹۲۹ء کو علم قرأت کی سند حضرت قاری عبد المالک سے حاصل کی۔

          فن طب میں حضرت حکیم مختار حسن (۱) مرحوم (بارہ کھمبے والے، پہاڑ گنج) کی شاگردی اختیار کی۔

اساتذہٴ کرام:

          حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ نے اپنے دور کے بلند پایہ علمائے دین اور ماہرین علوم وفنون سے استفادہ کیا تھا۔ وہ زندگی بھر اپنے اساتذہ کے شکر گزار اور ان کے لیے دعا گو رہے۔

          تفصیل اس طرح ہے:

۱-     حضرت حافظ رحمت اللہ کیرانوی                       ۲-    حضرت مولانا قاری سید حامد حسین علی گڑھی

۳-    حضرت مولانا قاری عبد الملک علی گڑھی                 ۴-    مفتی اعظم حضرت مولانا محمد کفایت اللہ دہلوی

۵-    حضرت مولانا عبد الجلیل (دیوبند)                      ۶-     حضرت مولانا سیّد فخر الحسن دیوبندی

۷-    حضرت مولانا شریف اللہ خان                          ۸-    حضرت مولانا عبدالرحمن خان پشاوری

۹-     حضرت مولانا ولایت احمد سنبھلی                        ۱۰-   حضرت مولانا مفتی اشفاق الرحمن کاندھلوی

۱۱-    حضرت مولانا قاضی سجاد حسین دہلوی                   ۱۲-   حضرت مولانا سید بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی

۱۳-   حضرت مولانا سراج احمد رشیدی عرف بابا (تلمیذ امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی)    

۱۴-   حضرت مولانا عبدالرحمن امروہوی (تلمیذ سیدنا الامام الکبیر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی)

۱۵-   شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی                  ۱۶-    حضرت حکیم مختار حسن دہلوی

قدس اللہ اسرارہم

بیعت وارادت:

          بیعت وارادت کا تعلق شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس اللہ سرہ سے ۱۹۴۶ء میں قایم کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد اسباق تصوف جاری تھے کہ حضرت شیخ مدنی ۵/ دسمبر ۱۹۵۷ء کو وفات پاگئے۔ حضرت شیخ الاسلام کی وفات کے بعد آپ کے جانشین (فدائے ملت) حضرت مرشدی مولانا سیّد اسعد مدنی (نور اللہ مرقدہ) کے حکم سے شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد حامد میاں دیوبندی رحمة اللہ علیہ سے تعلق قایم کیا۔ حضرت شیخ الحدیث نے ۱۳/ شوال المکرم ۱۳۸۲ھ / ۱۰/ مارچ ۱۹۶۳ء کو خلافت سے نوازا۔

          حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے تصوف کے سلسلے کو اپنے شیخ کی وفات تک آگے نہیں بڑھایا۔ کوئی بیعت ہونے آتا تو حضرت شیخ الحدیث کے پاس بھیج دیتے۔ حضرت شیخ الحدیث کی وفات کے بعد بیعت کرنا شروع کیا تھا، لیکن چند لوگوں کو ہی بیعت فرمایا۔

مدرسہ تعلیم القرآن شریفیہ:

          تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے حفظ کے استاذ حضرت حافظ رحمت اللہ کیرانوی اور حضرت مولانا قاری عبدالملک کی نصیحت اور حضرت مولانا مفتی اشفاق الرحمن کاندھلوی کے حکم سے دہلی میں کوچہٴ قابل عطار کی مسجد میں امامت اور حوض والی مسجد نئی سڑک دہلی میں تعلیم القرآن کی ذمے داری قبول فرمائی تھی۔ یہ سلسلہ ربیع الثانی ۱۳۵۸ھ / جون ۱۹۳۹ء سے شروع ہوکر قیام پاکستان تک جاری رہا۔ اس درمیانی عرصے میں ۲۸ طلبا قرآن مجید مکمل پڑھ کر حافظ ہوئے۔ ناظرہ خوان اس کے علاوہ ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں پورے ملک میں بالخصوص دہلی میں زندگی ایسی تہ وبالا ہوئی کہ سارا نظام بگڑ گیا اور پچاسوں طلبا جو پڑھ رہے تھے ان کا شیرازہ ایسا بکھرا کہ پھر ان کو ایک نظام میں چلانا دشوار ہوگیا۔ اس وقت سے لے کر حضرت قاری صاحب کی وفات تک جنہوں نے مکمل قرآن آپ سے حفظ کیا ان کی تعداد پونے تین سو کے قریب ہے۔

          ان کے علاوہ مفسر قرآن حضرت مولانا سید اخلاق حسین قاسمی (ہم عصر وہم سبق اور اوّلین شاگرد)، حضرت مولانا محمد سعید دہلوی (شیخ الحدیث مدرسہٴ عبد الرب، دہلی)، حضرت مولانا قاضی نصیر الدین میرٹھی، حضرت مولانا محمد احمد قادری مدظلہ (رابطہٴ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ، ابن حضرت حکیم مختار حسن خاں دہلوی)، حضرت مولانا محمد صدیق مدظلہ (فاضل مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور)، مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی مدظلہ، حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی مدظلہ، حضرت مولانا لیاقت علی شاہ نقش بندی، حضرت مولانا مفتی محمد اسرار مدظلہ اور مولانا محمد یوسف شمسی زاد مجدہ نے تجوید وقرأت حضرت قاری صاحب سے پڑھی۔

          تقسیم ملک کے وقت آپ حج کے سفر پر تھے۔ واپسی پر کراچی کی بندرگاہ پر اترے۔ مسلم لیگ کے طرزِ سیاست اور اس کے رد عمل نے پنجاب سے لے کر دہلی، بہار اور بنگال تک قیامت برپا کردی تھی۔ معلوم ہوا کہ پہاڑ گنج کے باسی کراچی آگئے ہیں۔ حالات کے اسی ریلے میں حضرت قاری صاحب کے بھائی اور والدہ محترمہ اور دیگر بھی کراچی پہنچ چکے تھے۔ افراتفری کے اس خلا میں کسی کو قرار نہ تھا، حالات سے کوئی مطمئن نہ تھا، تقریباً ڈھائی سال اسی عالم میں گذرے۔ اس زمانے میں قاری صاحب نے کچھ عرصے تک تجارت بھی کی۔ کراچی سے مال لے جا کر دہلی اور دہلی سے کراچی لا کر بیچا کرتے تھے۔ اس تجارت میں آپ کے ایک شاگرد جناب حافظ محمد دین پراچہ (مرحوم) شامل تھے۔ حضرت قاری صاحب ایک جمعہ کراچی اور دوسرا دہلی میں پڑھتے تھے۔ حافظ صاحب ٹھیا لگا کر مال بیچتے تھے۔

          حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کی خواہش تھی کہ تقسیم ملک کے بعد مدرسہٴ عالیہ فتح پوری دہلی میں تدریس کریں۔ اس کے لیے ضروری ہدایات حضرت شیخ نے مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کو دیں تھیں؛ لیکن حالات ایسے بگڑ چکے تھے کہ حضرت قاری صاحب کو کراچی کی سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا، فتح پوری میں مولانا قاری محمد میاں دہلوی (خطیب اونچی مسجد، بلی ماران دہلی) کا تقرر ہوگیا۔

          جب قدرے سکون واطمینان ہوا تو مدرسہٴ تعلیم القرآن شریفیہ کا دکھنی مسجد، پاکستان چوک کراچی سے آغاز کیا۔ یہ ۱۳۶۸ھ / ۱۹۴۹ء کا واقعہ ہے۔ دکھنی مسجد میں یہ مدرسہ ۱۰/ محرم الحرام ۱۴۱۰ھ / ۱۳/ اگست ۱۹۸۹ء بیالیس سال تک رہا۔ جب دکھنی مسجد کی موجودہ تعمیر شروع ہوئی تو یہ مدرسہ پاکستان چوک ہی کے علاقے میں ایک مکان میں منتقل ہوگیا۔ اس کے بعد مدرسہ کے لیے ایک مستقل جگہ خریدی گئی، جس کا سنگ بنیاد حضرت شیخ الاسلام کے جانشین صادق مرشدی حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی اطال اللہ عمرہ (استاذالحدیث دار العلوم دیوبند) کے دستِ مبارک سے ۸/ شوال المکرم ۱۴۱۸ھ / ۶/ فروری ۱۹۹۸ء بہ روز جمعہ صبح دس بجے رکھا گیا۔ الحمد للہ! مدرسہ میں اس وقت بچوں اور بچیوں کے لیے تعلیم القرآن کے الگ الگ شعبے قایم ہیں۔ دو صد کی قریب طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ اللّٰہمَّ زِدْ فَزِدْ․

          اس مدرسہ کے لیے عام چندہ نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی صاحب از خود حصہ لینا چاہیں تو ان کی امداد سے انکار بھی نہیں کیا جاتا، اس معاملے حضرت قاری صاحب کس درجے احتیاط فرماتے تھے؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت حافظ عبدالرحمن صاحب مدظلہم (تلمیذ حضرت خلیفہ منشی محمد عاقل دیوبندی، سابق استاذ شعبہٴ فارسی دار العلوم دیوبند) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک صاحب کو حضرت قاری صاحب کے مدرسہ کی امداد کے لیے متوجہ کیا، مدرسہ کی عمارت ”قرآن منزل“ زیر تعمیر تھی، وہ صاحب ظہر کی نماز میں جامع مسجد سٹی اسٹیشن (کراچی) میں حضرت قاری صاحب سے ملے اور ایک خطیر رقم پیش کی اور کہا کہ یہ آپ کے مدرسہ کے لیے ہے اور زکوٰة کی مد میں ہے۔ حضرت قاری صاحب نے وہ رقم یہ کہہ کر واپس کردی کہ ہمارے ہاں زکوٰة کی مد نہیں ہے۔ وہ صاحب واپس حافظ صاحب کے پاس گئے اور کہنے لگے: کون سے مولوی صاحب کے پاس بھیج دیا، انہوں نے رقم یہ کہہ کر واپس کردی؟ حضرت حافظ صاحب مدظلہم فرماتے ہیں کہ حضرت قاری صاحب نے پرانی تمام رسیدیں تلف کرائیں اور نئی رسیدیں چھپوائیں، جس پر یہ عبارت درج کرائی گئی:

”ہمارے ہاں صدقات واجبہ اور زکوٰة کی مد نہیں ہے“۔

امامت وخطابت:

          دہلی میں کوچہٴ قابل عطار اور اس کے بعد حوض والی مسجد نئی سڑک میں امامت وخطابت فرمائی تھی۔ کراچی میں سکونت کے بعد بولٹن مارکیٹ کی میمن مسجد سے امامت کے لیے بلوایا گیا؛ لیکن اس کا انتظام بدعتیوں کے ہاتھ میں تھا اور پہلی دعا، دوسری دعا، سلام پڑھنا اور دیگر بدعات کی پابندی لازم تھی، جو فقہٴ حنفی کیا، کسی بھی فقہ میں ثابت نہیں؛ اس لیے انکار کردیا۔ جامع مسجد سٹی اسٹیشن جو اس وقت ۱۹۵۰ء میں چھوٹی سی تھی، امامت وخطابت کی ذمے داری قبول فرمائی اور تاحیات یہ خدمت انجام دیتے رہے، جب اکثر بیمار رہنے لگے تو راقم الحروف کو اپنی جگہ مقرر کیا اور تربیت فرمانے لگے۔

تنظیم القراء والحفاظ:

          ۱۹۷۵ء میں ”تنظیم القراء والحفاظ“ قائم فرمائی، جس کا مقصد قرآن کریم کی نشر واشاعت اور مدرسہ تعلیم القرآن شریفیہ سے پڑھے ہوئے حفاظ کا جوڑ پیدا کرنا تھا۔ اس تنظیم کا باقاعدہ ماہانہ اجلاس ہوتا ہے، جس میں حفاظِ کرام شریک ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن رحمہ اللہ (سابق مہتمم جامعة العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاوٴن) فرمایا کرتے تھے: حضرت قاری صاحب نے حفاظ کی تنظیم کرکے ہمیں سبق دیا ہے کہ ہم بھی جامعہ کے طلبا کا جوڑ پیدا کریں۔

تصانیف:

          تصنیف وتالیف کا شغف اکابر دیوبند اور اساتذہٴ کرام سے ورثے میں ملا تھا، جو زندگی بھرباقی رہا۔ پاکستان بننے کے بعد اوقاتِ نماز کا نقشہ مرتب کرنے کے لیے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن محدث دیوبندی علیہ الرحمہ کے شاگرد رشید حضرت مولانا محمد صادق سندھی رحمہ اللہ جو سندھ اور بلوچستان میں تحریک شیخ الہند کے معتمد رہنما تھے اور بڑے کارنامے انجام دیے تھے۔ ۱۹۰۹ء میں حضرت شیخ الہند نے حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کے ساتھ جمعیت الانصار کے قیام سے تحریک کے نئے دور کے آغاز کے لیے انھیں بھی دیوبند بلایا تھا۔ جمعیت علمائے ہند کے قیام کے بعد سندھ میں وہی پہلے رہنما اور سربر آوردہ شخصیت تھے۔ سب سے پہلے ان ہی کی تحریک پر حضرت قاری صاحب نے اوقاتِ نماز کا نقشہ مرتب کیا تھا، جس کی تکمیل میں پورے دو سال لگے تھے، کیوں کہ یہ نقشہ مشاہدے اور تجربات کی بنیاد پر مرتب ہوا۔ شہر کراچی میں بلاتفریق مسلک یہی نقشہ مساجد میں آویزاں تھا (۱) ۔ دار العلوم امجدیہ (بریلوی مسلک) اور دار العلوم کراچی کا مرتبہ نقشہ دراصل اسی کی نقل ہے، اس نقشے کو حضرت مولانا محمد صادق سندھی، حضرت مولانا فضل اللہ شکارپوری (خلیفہٴ مجاز حضرت حکیم الامت)، مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع عثمانی، محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری، مفسر قرآن خطیب الامت حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی، مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مولانا ولی حسن ٹونکی، حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری مہاجر مدنی رحمہم اللہ جیسے اصحاب فضل وکمال کی تائید وتوثیق حاصل تھی۔

          کراچی کے ایک عالم دین حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی مرحوم نے ایک عرصے کے بعد حضرت قاری صاحب اور حضرت حاجی وجیہ الدین رحمہما اللہ تعالیٰ کے مرتب کردہ نقشوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ ان کی تحقیق یہ سامنے آئی کہ فجر (صبح صادق) مذکورہ بالا نقشے میں مقرر ومتعین وقت سے دس تا پندرہ منٹ بعد ہوتی ہے اور عشا کا وقت دس بارہ منٹ پہلے شروع ہوجاتا ہے۔ اس پر اہل علم میں ایک عرصے تک خوب بحثیں چلیں اور خصوصاً رمضان المبارک میں یہ مسئلہ کھڑا کرایا جاتا۔ اخبارات کے مراسلے اسی مسئلے سے بھرے ہوئے ہوتے؛ لیکن حضرت مفتی اعظم پاکستان اور حضرت محدث العصر نے مفتی رشید احمد لدھیانوی کی تحقیق جدید پر صاد کیا تو حضرت قاری صاحب نے اس بحث کو طول دینا مناسب نہ سمجھا اور نقشے کی اشاعت کو روک دیا۔

          حضرت قاری صاحب نے اس دینی خدمت کے ایک پہلو کو اپنی زندگی میں نمایاں نہیں ہونے دیا تھا؛ لیکن حضرت کی رحلت کے بعد اس کے منکشف کردینے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ اس مرحلے میں حضرت قاری صاحب نے فیصلہ کیا کہ یہ مسئلہ اخبارات میں بحث کے ذریعے طے کرنے کے بجائے مناسب ہوگا کہ عملاً اس کا تجربہ دیدہٴ روشن سے اس کا مشاہدہ کرادیا جائے تاکہ حقیقت سے کسی کے گریز کی کوئی گنجایش باقی نہ رہے۔ اس کے لیے انہوں نے مشہور ماہر فلکیات حضرت پروفیسر عبد اللطیف مدظلہم کو آمادہ کیا کہ اکابر وقت کو صبح صادق کا مشاہدہ کرایا جائے۔ موصوف نے ۱۹۷۳ء میں اس کا اہتمام کیا اور سپر ہائی وے پر گڈاپ کے قریب، میر پور ساکرو، حنبھان سومرو نزد ٹنڈو محمد خان اور مدینہٴ منورہ میں مشاہدے کرائے۔ مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ آج تک پاک وہند اور پوری دنیا میں جو اوقات نماز کے نقشے ہیں ان میں صبح صادق اور عشا کا وقت غلط ہے؛ اس لیے مدینہٴ طیبہ میں بھی مشاہدہ کیا گیا۔ ان مشاہدات میں حافظ عبد الرشید سورتی (تلمیذ حضرت قاری صاحب)، جناب محمد یامین (مکی مسجد)، جناب محمد رفیق، مولانا مفتی محمد شاہد، ماسٹر محمد رفیق، جناب محمد علی، مولانا عبدالقیوم، حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنی مدظلہ، حاجی محمد امین (مکی مسجد)، حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری، حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی، حضرت مولانا مفتی عبدالسلام چاٹگامی مدظلہ، مولانا قاری مفتاح اللہ مدظلہ، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا ولی حسن ٹونکی، جناب عبد الستار پین والے، جناب انوار محمد (گورنمنٹ کالج ناظم آباد)، جناب محمد شمیم، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ، حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ، مولانا بشیر احمد (میسور، انڈیا) وغیرہ شریک رہے۔ پروفیسر صاحب مدظلہم کو ان مشاہدات کو کرانے میں تین سال لگے۔

          ان مشاہدات کے بعد حضرت مفتی اعظم پاکستان اور حضرت محدث العصر نے مفتی (رشید احمد لدھیانوی) صاحب کی تحقیق جدید سے رجوع کرلیا۔ یہ حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کے حسنات میں اہم ترین نیکی ہے، جس کی وجہ سے روزے اور نمازیں درست سمت کی طرف واپس آگئیں۔

          تفصیل کے لیے دیکھئے: حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کی مرتب کردہ ”شرعی دائمی جنتری“ اور پروفیسر عبد اللطیف مدظلہم کی کتاب ”صبح صادق وصبح کاذب“۔

          دونوں بزرگوں کے رجوع کے بعد حضرت قاری صاحب نے نقشہ کی اشاعت دوبارہ شروع کردی۔ بحمد اللہ آج بھی اس کی اشاعت ہورہی ہے اور مساجد کے لیے فی سبیل اللہ وہ نقشہ دیا جاتا ہے۔

          حیدر آباد سندھ کے احباب نے بھی حضرت قاری صاحب سے حیدر آباد کا نقشہ مرتب کرایا تھا، جو وہاں چھپ بھی گیا تھا۔

          حضرت قاری صاحب کی تقریباً تین درجن سے زاید تالیفات دینی موضوعات پر نہایت مفید وموثر شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے:

$ قرآنیات:

۱-       تاریخ قرآن“۔ اس میں تاریخ نزول قرآن، اعجاز قرآن، جمع وتدوین قرآن، حفاظت قرآن اور اس کے مختلف ذرائع، اشاعتِ قرآن، تاثیرِ قرآن، فضائلِ قرآن، آدابِ تلاوتِ قرآن انتہائی اہم موضوعات ہیں۔ اس کی تکمیل حضرت قاری صاحب نے ۲۴/رمضان المبارک ۱۳۹۷ھ / ۹/ ستمبر ۱۹۷۷ء بہ روز جمعہ نزول قرآن کی یادگار شب میں فرمائی۔ ۱۴۲۵ھ / ۲۰۰۴ء میں راقم الحروف نے اس پر نظر ثانی اور اضافہ کیا۔ ان اضافوں میں علمائے دیوبند کی تجوید میں تدریسی خدمات، فن تجوید میں علمائے دیوبند کی تصنیفی خدمات، علمائے دیوبند میں فن تجوید وقرأت کے ماہر، علمائے دیوبند اور ترجمہٴ قرآن کریم، علمائے دیوبند اور تفاسیر قرآن، کتب تفاسیر کے تراجم، اصول تفسیر وعلوم القرآن میں علمائے دیوبند کی خدمات جیسے عنوانات وابواب شامل ہیں۔

۲-       قرآن کی فضیلت وعظمت“۔ اس میں قرآن کریم کے حفظ کی فضیلت، قرآن پڑھنے کے بعد اس کے یاد رکھنے کی فضیلت دل نشین انداز میں تحریر فرمائی ہیں۔یہ رسالہ رمضان المبارک ۱۳۸۴ھ / ۱۹۶۴ء میں تالیف فرمایا۔

۳-       آسان نورانی قاعدہ“۔ اس کی ترتیب ایسی آسان ہے کہ ایک مرتبہ اس کو کسی استاذ سے پڑھ لیا جائے تو قرآن مجید پڑھنا آسان ہوجاتا ہے۔

۴-       یسرنا القرآن“۔ یہ قاعدہ حضرت قاری صاحب نے اس زمانے میں مرتب فرمایا تھا، جب ”مکتبہٴ رشیدیہ“ قائم نہیں ہوا تھا۔ یہ سب سے پہلے حافظ عبدالمنان تھانوی نے شائع کیا تھا۔

$ حدیثیات:

۵-       چہل حدیث اور ان کی تشریح“۔ اس میں چالیس احادیث مبارکہ جو انتہائی اہم امور پر ہیں جمع فرمائی ہیں، بہت سے اسکول ومدارس میں شامل نصاب ہے۔

$ ارکانِ اسلام:

۶-       ترغیب الصلوٰة“۔ اس مختصر مگر اہم رسالے میں نماز کے فوائد، نہ پڑھنے پر وعیدیں جمع کی گئی ہیں۔

۷-       نماز کی کتاب“۔ احکام ومسائل پر مشتمل۔

۸-       نماز مترجم“۔ اسلام کے کلمے، اذان، وضو اور طریقہٴ نماز مع مسنون دعائیں۔ اس رسالے کا گجراتی ترجمہ بھی شائع ہوا ہے۔

۹-       جنت کی کنجی“۔ نماز سے متعلق مسایل۔

۱۰-      شرعی دائمی جنتری“۔ نماز کے اوقات (کراچی کے لیے) اس کے اہم مسائل اور محکمہٴ موسمیات وعلمائے کرام کی تصدیقات۔

۱۱-      اوقاتِ نماز“ (حیدر آباد سندھ کے لیے)

۱۲-      تحفة الصیام“۔ اس میں روزے کی تاریخ، دیگر امتوں کا روزے سے تعلق، روزے کی فضیلت، روزے دار کی فضیلت، روزہ رکھنے کی فضیلت، نہ رکھنے پر وعیدیں، ان سب کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔

۱۳-      فضائل الشہور والایام“۔ اس میں بارہ مہینوں کے فضائل، دِنوں کے فضائل اور ان میں کیے جانے والے اعمال جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں، وہ ذکر فرمائے ہیں۔ تحفة الصیام اور فضائل الشہور والایام ایک ہی جلد میں دستیاب ہیں۔

۱۴-      اسلام کا نظام زکوٰة“ (دو حصے) اس میں نظام زکوٰة وعشر پر انتہائی عام فہم انداز میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

۱۵-      معین الحجاج“ (تین حصے) پہلے حصے میں ضروری ہدایات، دوسرے میں مسائل حج انتہائی آسان انداز میں، تیسرے حصے میں مدینہٴ منورہ اور مسجد نبوی کی فضیلت، روضہٴ اطہر پر حاضری کے آداب ومسائل بیان کیے گئے ہیں۔

۱۶-      معلومات حج“۔ یہ بھی حج کے مسائل پر تھی، جب ”معین الحجاج“ تالیف فرمائی تو اس کی اشاعت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

۱۷-      طریقہٴ حج“۔ یہ کتاب مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ حج کے مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ کم فرصت اور کم پڑھے لکھے زائرین کی سہولت کے لیے لکھی گئی۔ اس کتاب کا گجراتی اور سندھی میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔

۱۸-      طریقہٴ عمرہ“۔ عمرے کے مسائل پر مختصر، مگر جامع کتاب ہے۔ اس کا بھی گجراتی اور سندھی میں ترجمہ ہوا ہے۔

$ سیرت وسوانح:

۱۹-      ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم“۔ اس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک حالات ولادت سے نبوت تک بیان کیے گئے ہیں۔

۲۰-     معراج رسول صلی اللہ علیہ وسلم“۔ حضور علیہ السلام کا سفرِ معراج اور اس میں پیش آنے والے واقعات سبق آموز انداز میں بیان کیے ہیں۔

۲۱-      سفر ہجرت کا حکم اور یارِ غار“۔

$ تاریخ وتذکرہ:

۲۲-     تاریخ حرمین شریفین“ (دو حصے) اس میں حرمین شریفین کے فضائل اور تاریخ بیان کی گئی ہے۔ حجاج کرام کے لیے بہترین تحفہ ہے۔

۲۳-     تذکرة الانبیاء علیہم السلام“ (دو جلد میں) اس میں ۲۸ جلیل القدر انبیائے کرام کا تذکرہ ہے، جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اسرائیلی روایات سے پاک ہے۔

۲۴-     تذکرہٴ سیدنا حضرت عمر“۔ حالات زندگی اور خلافتی دور کے کمالات اور امورِ مملکت کی انجام دہی کاذکر ہے۔

۲۵-     تذکرہٴ سیدنا حضرت عثمان“۔ حالات زندگی اور خلافتی دور کے کمالات اور امور مملکت کی انجام دہی کاذکر ہے۔

۲۶-     مقام شیخ الاسلام“۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے مقام ومرتبے پر ایک کتاب جو مکمل نہیں ہوسکی، مسودے کی صورت میں ہے۔

$ فضائل:

۲۷-     فضیلت شعبان وشب برأت“۔ ۱۵/ شعبان المعظم کی فضیلت وعظمت اور صحابہ کے اقوال ومعمولات ذکر کیے گئے ہیں۔

۲۸-     فضائل ومسائل ماہ رمضان المبارک“۔

۲۹-     رمضان المبارک کا آخری عشرہ“۔

$ حقوق:

۳۰-     اسلام اور حقوق والدین“۔ اولاد کو مخاطب بنا کر انھیں بتلایا ہے کہ ان پر والدین کے کس قدر حقوق ہیں؟ ان کی خدمت پر کیا اجر ملتا ہے؟ ان کی نافرمانی سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کتنے ناراض ہوتے ہیں؟

۳۱-      والدین پر اولاد کے حقوق“۔ والدین کو مخاطب بنا کر انھیں بتلایا ہے کہ آپ صرف یہی نہ سوچیں کہ اولاد پر ہمارے حقوق ہیں؛ کیوں کہ آپ کے ذمے بھی اولاد کے حقوق شریعت نے بتلائے ہیں۔

$ عمومی دینیات:

۳۲-     معلم الدین“۔ یہ حضرت قاری صاحب کی پہلی تالیف ہے۔ ابتدائی دینیات کی تفہیم کے لیے بے نظیر ہے اور انتہائی آسان بھی ہے۔ یہ کتاب سندھی، پنجابی، پشتو، فارسی اور انگریزی میں بھی شایع ہوئی ہے۔

۳۳-     تعلیم النساء“۔ اس میں عورتوں کی اصلاح کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ان کے مسائل نہایت سہل انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کا سندھی، فارسی اور براہوئی زبان میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔

۳۴-     بچوں کے اسلامی اور اچھے نام“۔

۳۵-     مسنون ومقبول دعائیں“۔ یہ صبح وشام پڑھی جانے والی مسنون دعاوٴں کا مجموعہ ہے۔

۳۶-     توشہٴ نجات“۔ نفل نمازوں کے فضائل اور ان کے پڑھنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔

۳۷-     قنوتِ نازلہ، احکام ومسائل“۔

۳۸-     تعلیماتِ اسلام“ (دو حصے)۔ سوال وجواب کی صورت میں طہارت کے مسائل اور نماز کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔

۳۹-     امر بالمعروف ونہی عن المنکر“۔ اچھائی کا پھیلانا اور برائی کا روکنا اور اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔

۴۰-     راہ نجات“ (تین حصے)۔ موت سے پہلے، موت کے وقت اور موت کے بعد کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔

۴۱-      اس کے علاوہ حضرت مولانا محمد ابراہیم دہلوی کی کتاب ”احوالُ الصادقة فی اخبارِ الآخرة معروف بہ قیامت کا سچا فوٹو“ کی نظر ثانی اور اضافہ بھی فرمایا ہے۔

۴۲-     حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ”دین کی باتیں“ کی تخریج بہشتی زیور سے فرمائی جو ”خلاصہٴ بہشتی زیور“ کے نام سے شایع ہوتی ہے۔

۴۳- رسالہٴ ”الابقاء“ جس میں حضرت تھانوی کے مواعظ شائع ہوتے تھے، ان میں جو فارسی اشعار آتے تھے ان کا ترجمہ حضرت قاری صاحب کے قلم سے ہوتا تھا۔

          حضرت قاری صاحب کی نصف درجن کتابیں جو اگر چہ اپنی ضخامت میں مختصر ہیں؛ لیکن افادیت اور تاثیر میں بے مثال اور ایسی مقبول عام ہوئیں کہ ان کے نہ صرف بیسیوں ایڈیشن چھپ چکے ہیں؛ بلکہ اردو کے علاوہ سندھی، پنجابی، پشتو ملکی زبانوں میں اور فارسی وانگریزی غیر ملکی زبانوں کے تین، چار اور پانچ زبانوں میں ترجمے بھی شائع ہوچکے ہیں۔

خدمات کا ایک اہم گوشہ:

          حضرت قاری صاحب کی خدمات کے کئی اور پہلو بھی ہیں، ان میں ایک اہم موضوع ”مجلس یادگارِ شیخ الاسلام -(پاکستان) کراچی“ کا قیام اور اس کے تحت علمی منصوبوں کی تکمیل کی سرپرستی، انھیں کا کارنامہ ہے۔ حضرت قاری صاحب کی سرپرستی، رہنمائی اور ہمت افزائی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کئی ایسے کاموں کی تکمیل کی عزت بخشی جو ابھی تک کوئی دوسرا ادارہ انجام نہ دے سکا تھا۔ اس میں محترم ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری زاد مجدہ نے اپنی خدمات بھی پیش فرمائیں اور کئی منصوبے پایہٴ تکمیل تک بحمد اللہ پہنچے۔ یہ ایک طویل موضوع ہے، جس کے تعارف وتبصرے کا نہ وقت ہے اور نہ مضمون میں گنجائش ہے۔ ”تذکرة الشریف“ کے نئے ایڈیشن میں ان شاء اللہ العزیز یہ سب تفصیل کے ساتھ آئیں گے، سر دست صرف ان چند کاموں کی طرف اشارہ ہی کیا جاسکتا ہے۔

          اس سلسلے کی پہلی کتاب ”شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی - ایک سیاسی مطالعہ“، دوسری کتاب بھی اسی نوعیت کی ”شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن محدث دیوبندی - ایک سیاسی مطالعہ“، ”مناقب شیخ الاسلام“، علمائے ہند کا سیاسی موقف“، ”براعظم ہند پاکستان کی شرعی حیثیت“، ”علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے“، (جلد اول) کی تدوین، ”مکتوبات شیخ الاسلام“ (چار حصے)، ”مکتوبات شیخ الاسلام - سلوک طریقت“، ”معارفِ مدنیہ“ (تین جلدیں) ”تذکرہٴ شیخ الہند“ (از حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن بجنوری) اور اس سلسلے کی دوسری ترتیبات وتدوینات کے علاوہ مجلس یادگار شیخ الاسلام کی مطبوعات اور حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ کی سرپرستی کا حاصل حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کی ”سیاسی ڈائری“ ہے، جو آٹھ جلدوں اور سات ہزار صفحات پر محیط ہے۔

          اس سلسلے کی دیگر شخصیات کے بارے میں بعض اور اہم کام بھی ہیں جو مکتبہٴ رشیدیہ کراچی اور بعض بیرون کراچی کے دوسرے اداروں نے شایع کیے ہیں، جن کے ذکر کا یہ محل نہیں۔

دار العلوم دیوبند سے والہانہ تعلق:

          حضرت قاری صاحب اگرچہ ”قاسمی“ نہیں تھے؛ لیکن دار العلوم دیوبند سے اپنے تعلق کو ہمیشہ سعادت سمجھتے تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس اللہ سرہ کے زمانہٴ صدارت اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی نور اللہ مرقدہ کے زمانہٴ اہتمام سے دار العلوم کے پاکستان میں نمائندے اور خزانچی تھے۔ ۲۶/ مارچ ۱۹۵۴ء کا ایک گرامی نامہ حضرت حکیم الاسلام کا حضرت قاری صاحب کے نام ہے، اس میں تحریر فرماتے ہیں:

”دار العلوم کی خدمت جناب نے منظور فرمائی، ہم خدامِ دار العلوم اس کے ممنون اور شکر گزار ہیں“۔

          ۱۲/ مئی ۱۹۵۴ء کے گرامی نامے میں حضرت حکیم الاسلام تحریر فرماتے ہیں:

”چندہٴ دار العلوم کے سلسلے میں مستقلاً معتمد جناب کی ذات ہے۔ حضرت مولانا محمد شفیع صاحب کا نام محض انتساب کے لیے رکھا گیا؛ تاکہ رجوع زیادہ ہو، ورنہ اصل معتمد علیہ جناب ہیں؛ اس لیے اطراف ملک میں جب کوئی دار العلوم میں رقم دینے کے لیے پتہ دریافت کرتا ہے تو آں جناب کا پتہ لکھا جاتا ہے“۔

          حضرت حکیم الاسلام کے بعد بھی دار العلوم سے والہانہ تعلق رہا، اس کے لیے میں نے ایک مستقل مضمون ”حضرت مولانا قاری شریف احمد نور اللہ مرقدہ اور دار العلوم دیوبند“ کے عنوان سے لکھا ہے، تفصیل اس میں موجود ہے۔

          پاکستان میں دیوبندی مسلک کے تمام مدارس گویا دارالعلوم دیوبند کی شاخیں ہیں۔ جامعہ مدنیہ لاہور، حضرت قاری صاحب کے مرشد ثانی شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حامد میاں رحمة اللہ علیہ کی محنتوں کا ثمرہ ہے۔ اس کے قیام کے اول دن سے قاری صاحب کا بہت قریبی تعلق رہا۔ جامعہ مدنیہ جدید رائے ونڈ کی شوریٰ کے وہ اولِ روز سے رکن رہے۔

          حضرت قاری صاحب کے ایک ہی صاحب زادے محترم حافظ رشید احمد صاحب ہیں، جو حضرت قاری صاحب کی کتابوں کی اشاعت اور جن بزرگوں کی دینی خدمات کی اشاعت کا بیڑا حضرت قاری صاحب نے اٹھایا تھا، اس کے امین ہیں۔

          حضرت قاری صاحب کو جو امانت شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حامد میاں سے ملی تھی، وہ ان کے انتقال کے بعد حضرت نے ان کے داماد کے سپرد کی۔ اس طرح آپ کے خلیفہ ومجاز حضرت مولانا نعیم الدین مدظلہم (مدرس جامعہ مدنیہ، کریم پارک، لاہور) ہیں۔

علالت وانتقال:

          حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ گذشتہ تقریباً پانچ سال سے علیل تھے۔ پہلے فالج کا حملہ ہوا، اس کے بعد کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی، اس کا آپریشن ہوا، گھٹنوں نے کام کرنا چھوڑدیا؛ لیکن اس کے باوجود مدرسہ جانے کے لیے بے چین رہتے، کرسی پر لے جایا جاتا۔ جب طبیعت زیادہ خراب ہوتی تو گھر پر ہی چند بچوں کو بلایا جاتا اور وہیں لیٹے لیٹے ان کا قرآن سنتے۔

          قرآن کریم کو اپنا اول وآخر بنانے والی ہستی اللہ کے قانون اٹل کے مطابق ۲۱/ ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ / ۲۷/ مارچ ۲۰۱۱ء بہ روز اتوار تین بجے سہ پہر کو اپنے خالق حقیقی سے جاملی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!

          اللہ کی شان ہے اور یہ حضرت قاری صاحب کی کرامت بھی ہے کہ انتہائی مختصر وقت میں غسل، تکفین، نماز جنازہ اور تدفین ہوگئی۔ ساڑھے سات گھنٹے میں تدفین ہوگئی۔ بہ قول حضرت مولانا مفتی عبدالروٴف غزنوی مدظلہم: اتنے مختصر وقت میں اتنے لوگوں اور علما کا جمع ہوجانا حضرت قاری صاحب کے مقبول بارگاہِ الٰہی ہونے کی علامت ہے۔

          جہاں آپ خطیب وامام تھے اسی مسجد میں عشا کی نماز کے بعد جنازے کی نماز ادا کی گئی۔ انجمن مسلمانان پنجاب (میوہ شاہ) قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔

          اللہ تعالیٰ آپ کے حسنات کو قبول فرمائے، خدمتِ قرآن کی برکات ہمیشہ جاری رکھے، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے! ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے! (آمین)

اہل علم کی آراء:

          حضرت قاری صاحب کی خدمات پر آپ کے استاذ محترم اور شیخ طریقت کے علاوہ دیگر اہل علم نے بھی خراج تحسین پیش کیا ہے، ذیل میں ان میں سے چند کے اقتباسات نقل کیے جارہے ہیں:

          آپ کے استاذ محترم حضرت مولانا قاضی سجاد حسین دہلوی فرماتے ہیں:

”تذکرة الانبیاء مصنفہ عزیز مکرم جناب مولانا قاری شریف احمد صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ کا سرسری مطالعہ کیا، طبیعت مسرور ہوئی، عبارت شگفتہ اور عام فہم ہے“۔

          آپ کے پیر ومرشد (ثانی) حضرت مولانا سید حامد میاں فرماتے ہیں:

”حضرت قاری صاحب مدظلہم کی تمام ہی تصانیف کو قبول عام حاصل ہوا ہے“۔

ایک جگہ فرماتے ہیں:

”اہم بات یہ ہے کہ مولانا قاری شریف احمد صاحب نے ان مسائل (معین الحجاج) کی تحریر میں بہت احتیاط برتی ہے۔ مزید یہ کہ طباعت سے پہلے یہ کتاب ایک جید عالم دین (مفتی محمد اکمل) کو بھی دکھالی، جو یقینا ان کی بے نفسی، انابت اور خلوص کی قابل تقلید مثال ہے“۔

حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی فرماتے ہیں:

”مولانا قاری شریف احمد (خطیب جامع مسجد ریلوے سٹی اسٹیشن ومعلم قرآن دکھنی مسجد پاکستان چوک کراچی) کو حق تعالیٰ نے قرآن کی تعلیم وتعلّم کا خاص شغف اور جذبہ عطا فرمایا ہے۔ ان کا رات دن کا مشغلہ قرآن حکیم کی خدمت ہے۔ ساتھ ہی انھیں دینی قلم بھی بخشا ہے اور وہ مختلف دینی رسائل کے مصنف بھی ہیں“۔

ایک اور جگہ حضرت حکیم الاسلام فرماتے ہیں:

”رسالہ کے مستند ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ مولانا قاری شریف احمد صاحب کی تالیف ہے۔ مولانا ممدوح فاضل ڈابھیل ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتی طور پر تقویٰ وطہارت اور پارسائی کے جوہروں سے آراستہ ہیں، جو تالیف کی مقبولیت کی حقیقی علامت ہے“۔

          موٴرخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندی حضرت قاری صاحب کی تالیف ”معلم الدین“ کے متعلق فرماتے ہیں:

”دینی اور روحانی ترقی کے لیے یہ کتاب ”مرشد کامل“ اور ”شیخ طریقت“ کا کام دیتی ہے“۔

خطیب الامت حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی فرماتے ہیں:

”میرے عزیز دوست اور واجب الاحترام عالم قاری شریف احمد صاحب خطیب  ایک متقی اور جید عالم اور جید قاری ہیں۔ مسلمانوں کی عام دینی ضرورت کے پیش نظر قاری صاحب موصوف نے ایک رسالہ ”معلم الدین“ مرتب فرمایا ہے، جس میں اسلام کی ابتدائی ضروریات سے لے کر تکمیلِ اسلام تک تمام مسائل نہایت صحیح اور معتبر کتابوں سے جمع کیے ہیں۔

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

”دین اسلام کی ترقی واشاعت کے لیے اپنے دل میں غیرمعمولی جذبہ رکھتے ہیں۔ اسی جذبے کے تحت موصوف نے اسلام کی اساسی تعلیمات اور بنیادی ارکان سے متعلق متعدد کتابیں آسان اور سلیس اردو زبان میں تالیف فرمائی ہیں، جو بے حد مفید اور جامع ہیں“۔

          یہاں صرف چیدہ چیدہ آراء پیش گئیں ہیں۔ تفصیل کے لیے ”تذکرة الشریف“ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

$       $       $

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ، جلد: 95 ‏، رمضان — شوال 1432 ہجری مطابق اگست — ستمبر 2011ء