دہشت گردانہ بم دھماکے میں مسلمانانِ ہند کی ناحق گرفتاریاں

 

از:  ابواللیث الحسنی کھگڑیاوی، متعلّم دارالعلوم دیوبند

 

          مسلمانانِ ہند ایک طویل عرصہ سے دشمنانِ اسلام کے ظلم وستم کو سہتے آرہے ہیں اور اسلام دشمن طاقتیں بڑھ چڑھ کر مختلف طریقوں سے انھیں اپنے دہشت وتشدد کا نشانہ بناتی رہی ہیں، کبھی تو کھلے عام انھیں قتل کرتی ہیں اور کبھی انھیں بم دھماکوں کے ذریعہ تباہ وبرباد اورجب ان سے بھی ان کا من نہیں بھرتا تو انھیں کسی جرم میں زبردستی پھنساکر یا پھر کسی چیز کا بہانہ بناکر گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں میں ڈال دیتی ہیں۔ دشمنانِ اسلام کے ساتھ ہمارے سیکوریٹی ایجنسیوں کا یہ دوہرا رویہ اہل اسلام کے لیے ایک ناقابل برداشت مصیبت ہے، جو آئے دن نت نئے طریقوں سے ان کے سر آلیتی ہے، ہمارے ملک میں دہشت گردانہ حملے اور بم دھماکے اِن ہی دشمنانِ اسلام کی اسلام دشمنی کا نتیجہ ہیں اور اس کے پیچھے ان ہی عناصر کا ہاتھ ہے، وہ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے مسلمانوں کو تباہ وبرباد کردیں اور مذہب اسلام کی صاف وشفاف تصویر کو مسخ کردیں، اسلام مخالفین کے ان ہی مقاصد کے تحت ہندوستان جیسی متمدن دھرتی پر نہ جانے کتنے دہشت گردانہ حملے ہوئے اور نہ جانے کہاں کہاں بم پھوڑا گیا اور پتہ نہیں کتنے مقامات آتش فشانی کی زد میں تباہ وبرباد کیے گئے اور ان تمام حادثات میں ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت پہلے تو مسلمانوں کو خوب ایذائیں دی گئیں، اس کے بعد کثیر تعداد میں عام مسلمانوں کو ہی نہیں؛ بلکہ اسلام کے ان سپوتوں کو بھی گرفتار کیاگیا، جو دن رات پڑھنے پڑھانے میں مصروف رہتے ہیں، جن کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی رشتہ نہیں؛ بلکہ انھیں دہشت گردی اور قتل وغارت گری کے خلاف امن وسلامتی، صلح و آشتی، اخوت و بھائی چارگی، امن پسندی اور انسانیت شناسی، ہمدردی ورواداری، صداقت وسچائی اور الفت ومحبت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان سب کے باوجود ہمارے حفاظتی افسران کو یہی بھولے بھالے مسلمان اور علمائے کرام دہشت گرد دکھائی دیتے ہیں، انھیں سفید ٹوپی، کرتہ اور داڑھی والے ہی قاتل نظر آتے ہیں اور انھوں نے اسی بنا پر مجرموں کی فہرست میں صرف مسلمانوں کے نام تحریر کرلیے ہیں، جس کی بنا پر جب بھی، کہیں بھی، کسی خطے میں، کسی گوشے میں، کسی شہر میں، کسی گاؤں میں، کسی مقام پر کوئی بھی واقعہ یا حادثہ پیش آجاتا ہے، چاہے وہ دہشت گردانہ بم دھماکہ ہو یا فرقہ وارانہ فساد، اس میں صرف اور صرف مسلمانوں کو بلاثبوت گرفتار کیا جاتا ہے اور زبردستی جرم کا اقرار کرواکر، یا بغیر اقرارِ جرم کے انھیں جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسے ہزاروں مسلمان آج بھی بلا قصور سلاخوں میں بند ہیں۔ ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں، کلمہ ”لاالٰہ الا اللہ“ کے وارث ہیں۔

          اس کے برخلاف جو اصل دہشت گرد ہیں، جیسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، وشوہندو پریشد، بجرنگ دل، شیوسینا، آرایس ایس، اور اس جیسی تنظیموں کے افراد، پولیس ان کو گرفتار تو درکنار ان پر شک تک نہیں کرتی اور شاید انھیں ان دونوں میں سے کسی چیز کی اجازت ہی نہیں ہوتی ہوگی، یا پولیس افسران ان سے ڈر اور خوف محسوس کرتے ہوں گے، جس کی بنا پر وہ اصل دہشت گردوں کو کھلی آزادی دیتے ہیں اور معصوموں کو گرفتار کرتے ہیں اور جعلی ومن گھڑت ثبوت اکٹھا کرکے انھیں جیل میں ایک مدت کے لیے بند کردیتے ہیں؛ حالاں کہ جب بھی اس کی صحیح رخ پر جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور غیرجانب دارانہ تفتیش کا دائرہ پھیلایا جاتا ہے تو کسی نہ کسی ہندو تنظیم سے جڑے ہوئے افراد کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ جیساکہ ”ہیمنت کرکرے“ کی رپورٹ سے اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔

          اگر ”کرکرے“ صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دہشت گردانہ تمام واقعات کا جائزہ لیں اور غیرجانبدارانہ تحقیق کریں تو انشاء اللہ آج جتنے مسلمان سلاخوں میں بند ہیں ان کی بے گناہی کے ثبوت ضرور فراہم ہوں گے اور جو لوگ حقیقی معنوں میں دہشت گرد ہیں، ان کے کالے کرتوت کا پردہ ضرور فاش ہوگا۔ ہماری حکومت اگر اسی رخ پر تفتیش کرے گی تو معلوم ہوگا کہ اصل دہشت گرد کون تھا اور گرفتاریاں کن کی ہوئیں؟

ممبئی بم دھماکے میں مسلمانوں کی گرفتاریاں

          ۱۹۹۳/ میں ”ممبئی“ میں ایک زبردست بم دھماکہ ہوا، اس بم دھماکے کے بعد پولیس افسران نے بلاثبوت تقریباً سینکڑوں مسلمانوں کو گرفتار کیا اور ممبئی کی خصوصی عدالت ٹاڈا نے بھی آنکھ بند کرکے فرضی کہانی بناکر کچھ ملزمین کو پانچ یا دس سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی، جبکہ کچھ ملزمین کے خلاف عمر قید اور پھانسی کا فیصلہ سنایا، سزایافتہ بے قصور مسلمان ضمیر قادری، اعجاز پٹھان، مشتاق احمد، شعیب احمد، ابوسلیم، شاہنواز، اصغر، عیسیٰ، یوسف، یعقوب، پرویز، شیخ علی اور ذوالفقار وغیرہ ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ اس دھماکہ میں کوئی اور بطور مجرم ثابت نہ ہوسکا؛ لیکن اگر اس دھماکے کی بھی غیرجانبدارانہ تفتیش کی جاتی تو ضرور اس میں کسی غیرمسلم تنظیم کا ہاتھ نظر آتا۔

پارلیمنٹ پر حملے میں․․․․

          ۱۳/دسمبر ۲۰۰۱/ میں پارلیمنٹ پر ایک زبردست حملہ ہوا، تحقیق کرنے والی ایجنسیز نے نہ جانے کہاں سے کچھ جعلی ثبوت اکٹھا کرلیے اور ایک معصوم مسلمان ”ایس، آر گیلانی“ کو اس واقعہ میں ملوث قرار دیا اور دیگر ملزمان سمیت سزائے موت کا پروانہ لکھ دیا۔

گودھرا ٹرین سانحہ میں․․․

          ۲۸/فروری ۲۰۰۲/ کو ”سابرمتی ایکسپریس“ میں شرپسند عناصر کے ہاتھوں زبردست آتش فشانی کی گئی، ۵۹ کارسیوک جو اجودھیا سے واپس آرہے تھے، موقع پر ہی ہلاک ہوگئے، اس حاثہ کے بعد گجرات کی سرزمین پر مسلمانوں کا وہ قتل عام ہوا کہ سن کر کلیجہ منھ کو آتا ہے، اس سانحہ میں تقریباً سو سے زائد بے قصور مسلمانوں کا بے دردی سے خون کیاگیا، اس کے بعد پولیس افسران نے جب گودھرا سانحہ کے تحت تفتیشی کارروائی شروع کی تو تقریباً ۱۳۴ مسلمانوں کو جگہ جگہ سے بلاثبوت گرفتار کیا، پوچھ گچھ کے بعد ۱۳/افراد کے خلاف الزامات واپس لیے گئے، جبکہ ۱۶/افراد کی گرفتاری ابھی تک عمل میں نہیں آئی اور پانچ افراد کی معاملہ کی سماعت کے دوران ہی موت واقع ہوگئی، اس کے بعد پھر اس معاملہ کی سماعت کررہی ”سابرمتی جیل“ نے ستمبر ۲۰۱۰/ کو ملاعمر سمیت ۶۳/ملزموں کو باعزت رہا کیا اور ۳۱ کے خلاف سزا کا حکم سنایا۔

          انسانی حقوق کے سرکردہ رکن ”فادر سیڈرک پرکاش“ نے اس موقع پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ ”ایڈیشنل سیشن جج پی، آر پٹیل کے ذریعہ سنائے گئے فیصلے کے بعد بھی متعدد ایسے سوال ہیں، جن کے جواب نہیں ملے، مثلاً یہ کہ سازش کی من گھڑت تھیوری کھوکھلی ہے، انھوں نے کہا کہ جن ۶۳/ افراد کو انھوں نے گرفتار کرکے ۹/سال مسلسل جیل میں رکھا، کیا ان کے وہ ۹/سال واپس کیے جاسکتے ہیں؟ جو انھوں نے بلاوجہ جیل میں گزارے“ ہندوستان میں آج بھی کثیر تعداد میں بیشمار مسلمان بلاقصور جیل کی سلاخوں میں دردناک زندگی گزار رہے ہیں، افسوس! ان کا کوئی پرسان حال نہیں!

اکثردھام مندر حملے میں․․․

          ۲۴/ستمبر ۲۰۰۲/ میں ”اکثردھام مندر“ پر ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا جس میں ۲۹/افراد جاں بحق ہوئے اور متعدد افراد زخمی ہوئے، اس حملے میں پولیس افسران نے بلاثبوت کثیر تعداد میں صرف مسلمانوں کو ہی گرفتار کیا، انھیں سے پوچھ گچھ کی گئی اور انھیں ہی زبردستی مجرم ٹھہراکر سخت سزائیں دی گئیں۔

ممبئی بم دھماکہ میں․․․

           ۲۰۰۲/ ممبئی بم دھماکے میں بیشمار بوڑھے، بچے مارے گئے، مسلمانوں کا بھی اس میں کافی نقصان ہوا، لیکن گرفتاریاں صرف مسلمانوں کی ہوئیں، سزائیں صرف فرزندانِ اسلام کے حق میں لکھی گئیں۔

ممبئی ۲۰۰۳/ بم بلاسٹ میں․․․

          اسی طرح ۲۷/جنوری ۲۰۰۳/ کو سرزمین ممبئی ایک بار پھر دہشت گردانہ بم دھماکے کا شکار ہوئی،اس حادثے کے بعد پولیس افسران نے تفتیشی کارروائی شروع کی اور جب انھیں کوئی سراغ نہیں مل سکا تو مجبور ہوکر انھوں نے چند بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کرلیا اور انھیں ”لشکرطیبہ“ کا ایجنٹ بتاکر جیل کی سلاخوں میں دردناک سزاؤں کے لیے قید کردیا۔

ممبئی سیریل ٹرین بم دھماکہ میں․․․

          ۱۳/مئی ۲۰۰۳/ کو ممبئی ٹرین میں ایک زبردست سیریل بم دھماکہ ہوا، جس میں بہت سے بے گناہوں کی جانیں گئیں اور سو سے زائد افراد زخمی ہوئے، اس دھماکے میں بھی خاص طور سے مسلمانوں کو شک کی کسوٹی پر رکھا گیا اور گرفتاری ”محمد الیاس، تمیم اقبال“ اور دیگر فرزندانِ اسلام کی عمل میں آئی، اس کے برخلاف کسی دوسری تنظیم کی طرف ہمارے افسران کی نگاہیں نہیں اٹھیں، شاید انھیں دوسری تنظیم کے خلاف قدم اٹھانا پسندنہ ہو، یا انھیں اوپر سے یہی ہدایت دی گئی ہو۔

شرم جیوی ایکسپریس بم دھماکہ میں․․․

          ۲۸/جولائی ۲۰۰۵/ پٹنہ، دہلی شرم جیوی ایکسپریس میں ایک زبردست دھماکہ ہوا، ۱۴/افراد موقع پر ہی تڑپ کر رہ گئے اور تقریباً ۹۰/افراد اس دھماکے میں شدید طور پر زخمی ہوئے، اس حادثہ میں پولیس افسران نے محض شک کی بنیاد پر ”عبدالرحمن“ اور ”ہلال الرحمن“ کو گرفتار کیا اور جونپور کی جیل میں انھیں بلاثبوت بند کردیا۔

ممبئی ٹرین بم دھماکہ میں․․․

          ۱۱/جولائی ۲۰۰۶/ کو ممبئی لوکل ٹرین ایک سنگین دھماکہ کا شکار ہوئی، اور جس ڈبہ میں یہ دھماکہ ہوا، اس کے سبھی آدمی، جس میں کثیر تعداد میں مسلمان بھی تھے، مارے گئے، ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس میں تقریباً ۱۳۵/ تھی، اس حادثہ میں پولیس افسران نے جب تحقیق و تفتیش شروع کی تو انھوں نے بلاٹھوس ثبوت کے ہر طرف سے صرف مسلمانوں کو ہی گرفتار کیا اور تقریباً سینکڑوں مسلمانوں کو اقبالِ جرم پر مجبور کیا، دوران تفتیش ہمارے پولیس افسران نے ان بے قصوروں کو خوب مارا، پیٹا اور پوٹا کے تحت ان کو سخت سے سخت سزائیں دیں۔

مالیگاؤں بم دھماکہ میں․․․

          ۸/ستمبر ۲۰۰۶/ کو ”مالیگاؤں“ میں شب برأت کے موقع پر عین نمازِ جمعہ کے بعد ایک زبردست بم دھماکہ ہوا، اس دھماکے میں تقریباً ۳۷/ افراد جاں بحق اور ۱۳۵/افراد شدید طور پر زخمی ہوئے۔

          اس دھماکے میں مسلمانوں کی طرف نگاہیں اٹھنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا؛ کیوں کہ اس طرح سے کوئی بھی مسلمان چاہے وہ کتنا بد دین، کتنا ناسمجھ اور کتنا ہی عقل سے بے بہرہ ہو، شب برأت اور جمعہ کے دن کے تعلق سے ایسی نازیبا اور انسانیت سوز حرکت نہیں کرے گا، لیکن ان سب کے باوجود ہمارے حفاظتی دستوں نے سلمان فارسی، فاروق عبداللہ مخدومی، رئیس احمد، نورالہدی، شمس الہدی، شبیر احمد اور دیگر بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کیا اور انھیں قبولِ جرم پر مجبور کیا؛ جبکہ اس کے کچھ دنوں بعد ۲۰۰۸/ میں اس کی غیرجانبدارانہ تفتیش ہوئی تو اس دھماکے کے اصل مجرمین کا چہرہ سامنے آیا، جو ہندو دہشت گرد کی شکل میں ملک در ملک، شہر در شہر اور قریہ در قریہ فتنہ وفساد برپاکرتے رہتے ہیں، جن میں شہیدِوطن ”ہیمنت کرکرے“ کی تحقیق کے مطابق ”ابھیمنیو بھارت تنظیم کے سربراہ سوامی اسیمانند، جے وندے ماترم تنظیم کی سربراہ سادھوی پرگیہ سنگھ، سنیل جوشی، سندیپ ڈانگے، رام چندر کالسا، شیوم دھاکڑ، لوکیش شرما، سمندر اور دیویندر گپت“ اور دیگر بہت سے ہندوتنظیموں کے سربراہان اور افراد کے نام نمایاں طور پر سامنے آئے۔

سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ میں․․․

          ۱۸/فروری ۲۰۰۷/ کو پاکستان جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس میں ہندوتنظیم کے کچھ شرپسند عناصر نے بم رکھ دیا، جو کہ ”پاکستان“ جاتے ہوئے ”پانی پت“ کے نزدیک ”دوانا“ میں کوہِ آتش فشاں کی شکل میں نمودار ہوا اور ۶۸/ کے قریب بے گناہ لوگ مارے گئے، جس میں اکثر تعداد پاکستانی مسلمانوں کی تھی، اس المناک سانحہ میں بھی پولیس افسران نے بلاثبوت ایک پاکستانی شہری ”عظمت علی“ کو گرفتار کرکے اپنی بہادری کا ثبوت پیش کیا اور اپنی وردی پر لگے ہوئے بے عملی کے داغ کو دھونے میں کامیابی حاصل کی، جبکہ بعد کی تفتیش اور شہیدوطن ”ہیمنت کرکرے“ کی تحقیق نے دودھ کو دودھ اور پانی کو پانی ثابت کرنے میں انصاف سے کام لیا اور انھوں نے اصل مجرمین کی نشاندہی کی، اس میں انھوں نے ان افراد کا نام واضح کیا، جن میں سے اکثر ہندوتنظیم سے تعلق رکھتے تھے، اور اس دھماکے کے کلیدی مجرم کے طور پر انھوں نے آر․ایس․ کے پرچارک سندیپ ڈانگے اور رام چندر کالنگڑ کا نام پیش کیا، یہ دونوں مجرم ایسے پائے کے ہیں کہ اکثردھماکوں میں ان کا اہم رول رہا ہے اور جہاں تک گرفتاری کی بات ہے تو ہمارے پولیس افسران اُن کو گرفتار کرنے میں ناکام ہیں یا بالفاظِ دیگر پولیس انھیں گرفتار کرنے سے ڈرتی ہے یا انھیں گرفتار ہی نہیں کرنا چاہتی ہے۔

اجمیر بم دھماکہ میں․․․

          ۱۱/اکتوبر ۲۰۰۷/ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ اجمیر میں جہاں ہروقت ہزاروں مسلمان عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ہے، ایک زبردست انسانیت سوز سلسلہ وارم بم دھماکہ ہوا، جس میں بہت سے معصوم مسلمان مارے گئے اور بہت سے شدید طور پر زخمی ہوئے۔ ایجنسیز نے جب تفتیش کا دائرہ پھیلایا تو انھوں نے ابتداءً اہوجی، لشکر پر الزام لگایا، اس کے بعد جب گرفتاری کا عمل شروع ہوا تو اس میں بھی مسلمانوں کو ہی چاروں طرف سے دبوچا گیا اور دہشت گردوں کی فہرست میں ”عبدالحفیظ، شمیم، خشی الرحمن، عمران علی“ وغیرہ کے نام لکھے گئے، جبکہ اس کی صحیح تفتیش کے بعد ۸۰۶/ صفحات پر مشتمل چارج شیٹ میں جو راجستھان اے ٹی․ ایس نے ایڈیشنل چیف جوڈیشنل مجسٹریٹ کی عدالت میں داخل ہے، اس میں پانچ ملزمین کے نام ٹھوس ثبوت کے ساتھ سامنے آئے، جن میں سے تقریباً سبھی ہندوتنظیم کے رہنما افراد ہیں۔

مکہ مسجد بم دھماکہ میں․․․․

          ۱۸/مئی ۲۰۰۷/ حیدرآباد کی مشہور مکہ مسجد میں عین جمعہ کے وقت ایک المناک سلسلہ وار بم دھماکہ رونما ہوا، جس میں تقریباً ۱۴/نمازی دیکھتے ہی دیکھتے شہید ہوگئے اور ۵۰ سے زائد فرزندانِ اسلام زخم والم میں تڑپنے لگے، یہ دھماکہ ایک طرف مسلمانوں کے مقدس مقامات سے کھلواڑ تھا تو وہیں دوسری طرف قانون وانصاف کی توہین؛ کیوں کہ دھماکے کے بعد پولیس افسران کا چہرہ ان دہشت گردوں سے بھی کہیں زیادہ بھیانک ثابت ہوا، جنھوں نے اسے انجام دیا تھا۔ ہماری حفاظتی سیکوریٹی نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے جو رول ادا کیا ہے، وہ کسی آتنک وادی کردار سے کم نہ تھا، انھوں نے پہلے تو بچے کھچے مسلمانوں کو اپنی ریوالور کا نشانہ بنایا، اس کے بعد جب ان سب سے بھی ان کی خونی پیاس نہ بجھی تو انھوں نے اس معاملہ میں دوہرا رویہ اپناتے ہوئے محض شک کی بنیاد پر مولانا اشرف علی، انصاف علی، شیخ نعیم،ابراہیم، جنید، شعیب جاگیردار، عمران خاں، عبدالحکیم اور ان کے علاوہ دیگر تقریباً ۸۰/ مسلمانوں کو گرفتار کرکے ان سے پوچھ گچھ شروع کردی اور ان میں سے بہتوں کو سخت سے سخت سزائیں بھی دیں؛ حالاں کہ ۲۰۱۰/ میں جب اس کی غیرجانبدارانہ تحقیق کی گئی اور ”سی․ بی ․ آئی“ کے ذریعہ یہ اعلان کیاگیا کہ اس دھماکے کے دو ملزم کے بارے میں صحیح اطلاع دینے والوں کو حکومت ۱۰/لاکھ روپے کا انعام دے گی تواس وقت سندیپ ڈانگے اور رام چندر کانگرا دونوں مجرمین کا نام اس دھماکے کے کلیدی مجرم کے طور پر سامنے آیا، مکہ مسجد کے علاوہ جامع مسجد دہلی، اجمیر دھماکہ، مالیگاؤں دھماکہ اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں بھی ان دونوں مجرمین کا اہم رول ہے۔

جے پور بم دھماکہ میں․․․

          ۱۳/مئی ۲۰۰۸/ کو ہندوستان کے مایہٴ ناز شہر جے پور میں ایک انسانیت سوز بم بلاسٹ ہوا، جس میں بے شمار لوگ چند ہی لمحوں میں دائمی نیند سوگئے اور بے شمار لوگ موت کی کٹھن گھڑی کا انتظار کرنے لگے، اس دھماکے میں بھی پولیس افسران نے آؤ دیکھا نہ تاؤ چند بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کرکے اپنی بہادری کا ثبوت پیش کیا، جن بے قصوروں کو گرفتار کیا، ان میں عام مسلمانوں کے ساتھ ائمہ مساجد اور علمائے مدارس بھی تھے، جن میں امام جامع مسجد اور قاضی شہر مولانا الیاس صاحب اور معلّم مدرسہ مختار احمد، لیاقت علی اور حکیم الدین وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں، ان کے علاوہ ایک پندرہ سالہ کمسن مسلمان ”کامل“ کو بھی پولیس افسران نے نہیں بخشا اور انھیں بھی بلاجرم گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا۔

مالیگاؤں بم دھماکہ میں․․․

          ۲۹/ستمبر ۲۰۰۸/ کو مالیگاؤں کی سرزمین دوسری مرتبہ دہشت گردانہ بم دھماکے کا شکار ہوئی اور اس میں تقریباً ۷/افراد موت کی نیند سونے پر مجبور ہوگئے۔ ابتداء میں یہ کہا گیا کہ اس دھماکے میں انڈین مجاہدین شامل ہیں؛ لیکن بعد میں ”ابھیمنیو بھارت“ اور ”راشٹریہ جاگرن منچ“ کے ملوث ہونے کی بات سامنے آئی اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت اور سوامی امرتا نند، دیوتیرتھ، دوبانند پانڈے“ وغیرہ کئی ہندو تنظیم کے سربراہان گرفتار ہوئے۔

          قارئین! یہی وہ بم دھماکے ہیں، جن کی تفتیش شہیدِ وطن ”کرکرے“ کررہے تھے اور اس سے دہشت گردی کا وہ چہرہ سامنے آیا، جن کے بارے میں وہم وگمان بھی نہیں کیاجاتا ہے اور جیسے جیسے ”کرکرے“ کی تفتیش بڑھتی گئی، دہشت گردوں کا چہرہ نمایاں ہوتا رہا اور اصل دہشت گردی کی پرتیں کھلتی رہیں۔ اگر ۱۱/۲۶ کے دھماکے میں ”کرکرے“ کی موت نہ ہوتی تو شاید آج دہشت گردی کامکمل نیٹ ورک ہمارے سامنے ہوتا اور دہشت گردانہ حملوں اور بم دھماکوں پر آج ہندوستان مکمل طور پر قابوپاچکا ہوتا اور غالباً ان لوگوں کے نام ہمیں سننے کو ملتے جن کے اوپر کسی کی نگاہیں نہیں ٹھہرتی اور جنھیں لوگ جمہوریت وقانون کے علمبردار سمجھتے ہیں، لیکن پھر بھی اللہ کے فضل وعنایت سے یہ کام کسی پیمانے پر آج بھی جاری وساری ہے، جیساکہ اجمیر دھماکہ کی تفتیشی ایجنسیز کی رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے، اگر تفتیشی ایجنسیاں مسلم دشمنی سے اوپر اٹھ کر صحیح طور پر اپنے مفوضہ فرائض کو انجام دیں گے تو وہ دن بھی آئے گا، جس میں دہشت گردی کی جڑ کٹتی نظر آئے گی اور انشاء اللہ وہ دہشت گردوں کے لیے دہشت گردی کا آخری دن ہوگا اور ہندوستان کی سرزمین پر ایک بار پھر گنگاجمنی تہذیب کا پھول کھلے گا۔

مرنا بھلا ہے اس کا جو اپنے لیے جئے

جیتا ہے وہ جو مرچکا ہو غیر کے لیے

 

*        *        *

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 10 ، جلد: 95 ‏، ذي قعده 1432 ہجری مطابق اكتوبر 2011ء