حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی

نمایاں دعوتی خدمات اور امتیازی خصوصیات

 

از: محمد حماد الکریمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ (یوپی)

 

          اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے، اسی کاملیت وجامعیت کی بنا پر اس کو ابدیت حاصل ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن پاک کے ذریعے اس بات کا اعلان کردیا کہ اسلام ہی کامل ومکمل اور انسانیت کی ہدایت کا دین ہے۔(مائدہ:۳) اسی کی اتباع وپیروی میں ہر انسان کی نجات ہے، لہٰذا جب اسلام باقی رہنے والا دین ہے تو لامحالہ اس کا قانون اس کی تعلیمات اور اس کے احکام بھی باقی رہیں گے۔ جس کا بنیادی مأخذ قرآن مجید ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا  {إنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْآنَہ} (قیامہ:۱۷) اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح اسلام کو دوام ہے، اسی طرح اس کے قوانین واحکام اور اس کے بنیادی مآخذ کو بھی بقاء إلی یوم القیامۃ حاصل ہے۔

          لیکن اگر صرف اسلام اوراس کے احکام ہدایت انسانی کے لیے کافی ہوتے تو اللہ اپنے انبیاء کو نہ بھیجتا؛ چونکہ آسمانی دنیا اور زمینی دنیا کے درمیان رابطہ کے لیے ایک ایسی ذات پاک صفات کی ضرورت ہے، جو جسمانی اعتبار سے زمینی دنیا سے متعلق ہو، لیکن اس کی فکریں روحانی اور اس کے تعلقات آسمانی ہوں جو آسمانی پیغام کو حاصل کرکے صحیح طور سے لوگوں تک پہنچائے، اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے اللہ نے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کیا۔

          اب چونکہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا تو اس کی نیابت کا اشارہ خود حضور ﷺ نے اپنے پاک ارشاد میں اس طرح کردیا:  {العلماءُ وَرَثَۃُ الأَنْبِیَاءِ وَ إنَّ الأنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنارًا وَلاَ دِرْھَمًا وَلٰکِنْ وَرَّثُوا العِلْمَ فَمَنْ أَخَذَہٗ أَخَذَ بِحَظٍّ  وافر} (مشکوٰۃ المصابیح) اسی ارشاد پاک کی حقانیت ہے کہ اُس وقت سے اِس وقت تک ہر زمانے میں علماء ربانیین اور مصلحین و مجددین کا وجود رہا اور ان شاء اللہ تا یوم قیامت رہے گا،  وما ذلك علی اللہ بعزیز۔

          اگر کوئی چاہے تو وہ ان کی سیرت وسوانح اور اصلاحی وتجدیدی کارناموں پر تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کے ذریعے مطلع ہوسکتا ہے، لیکن کسی بھی شخصیت کے مطالعہ اس کے بارے میں پڑھنے اور اس کو جاننے سے پہلے چند بنیادی واہم باتوں کی طرف توجہ دینے کی نہایت ہی ضرورت ہے، جس سے عموماً بے اعتنائی برتی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔  (اللّٰهُمَّ احْفَظْنَا مِنْ ذٰلِك)  انہی باتوں کی طرف مولاناابوالحسن علی ندویؒ نے اپنی کتاب ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ کے پیش لفظ میں نہایت ہی تفصیل سے اشارہ کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے:

          ۱- کسی شخصیت کے حالات معلوم کرنے کے لیے خود اس کی تصنیفات واقوال یا اس کے رفقاء وتلامذہ ومعاصرین کی تصنیفات کو ترجیح دی جائے، آخری صورت میں بعد کے مستند مآخذ پر اعتماد کیا جائے۔

          ۲- ہرشخصیت کو اس کے زمانہ کی ضرورتوں اور تقاضوں نیز اس عہد کے میدان عمل کے لحاظ سے پرکھا جائے، ورنہ عظیم سے عظیم شخصیت بھی دوسرے زمانہ اور ماحول کے لحاظ سے ناکام ثابت کی جاسکتی ہے۔

          ۳- صرف علمی کمالات پر اکتفا نہ کیا جائے؛ بلکہ باطنی پہلو پر بھی گہری نظر ہو۔(۱)

 

تیرہویں صدی ہجری اور منصب امامت

 

          تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو تیرہویں صدی ہجری میں دنیائے اسلام میں جو عالمگیر دینی اخلاقی اور سیاسی انحطاط نظر آتا ہے، وہ دفعتاً پیدا نہیں ہوا تھا؛ بلکہ تدریجاً پیدا ہوا تھا، اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

          خلاصہ یہ کہ عالم اسلام اس وقت ہر طرح سے زوال وانحطاط کا شکار تھا، اگرچہ اوّل وقت سے عالم اسلام کے مختلف گوشے میں وقتاً فوقتاً مصلح اور مجدد پیدا ہوتے رہے، جن سے مسلمانوں میں زندگی اور بیداری پیدا ہوئی، عقائد واعمال کی اصلاح ہوئی، کہیں کہیں میدان جہاد بھی آراستہ ہوا، اور کارگزار صحیح الخیال جماعتیں بھی پیدا ہوئیں، لیکن مسلمانوں میں عالمگیر بیداری پیدا نہیں ہوئی۔

 

ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت

 

          ۱- مذہبی حالت: چونکہ ہندوستان کے اکثر علاقے میں اسلام ایک لمباچکر کاٹ کے ایران وافغانستان کے راستے سے آیا تھا، اس لیے اپنی بہت سی تازگی کھوچکا تھا، جس کی بناء پر ایک زمانہ کے بعد تدریجی طور پر مسلمان شرک جلی کے شکار ہوگئے، سنت وشریعت بے معنی الفاظ بن گئے، قرآن مجید کو ایک معمہ سمجھ لیاگیا اور فرائض وعبادات سے غفلت عام ہوگئی۔

          ۲- اخلاقی حالت: بعینہٖ وہی تھی جو ایک زوال پذیرقوم کی ہوتی ہے، فسق وفجور مسلمانوں کے آداب میں داخل ہوکر معاشرت کا جز بن گئی تھی، شراب نوشی اور نشہ آور چیزوں کا استعمال عام تھا حد یہ کہ بعض شرفاء اپنے لڑکوں کو بازاری عورتوں کے پاس زبان وعلم اور مجلس کی تعلیم کے لیے بھیجتے تھے، نکاح کی تعداد متعین نہ رہی؛ بلکہ بعض نکاح کے بھی پابند نہ رہے، عیش پرستی کا یہ عالم تھا کہ ہر روز روزِ عید اور ہر شب شبِ برات تھی، امراء و فقراء سب کا ایک ہی حال تھا۔

          ۳- سیاسی حالت: اس صدی میں سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرچکا تھا، دکن سے لے کر دہلی تک کا ملک کا حصہ مرہٹوں کے رحم وکرم پر تھا، پنجاب سے افغانستان تک سکھوں کا راج تھا، اور ان سب پر انگریزوں کا تسلط تھا، اور جو مسلمان حکمراں تھے وہ انگریزوں کے کٹھ پتلی تھے۔

          یہ تھا تیرہویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی ہندوستان میں حالت کا ایک طائرانہ جائزہ، لیکن اس جائزہ سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہوگا کہ علمی، دینی اورروحانی حیثیت سے تیرہویں صدی کا زمانہ بالکل تاریک اور ویران تھا، دل ودماغ کے سوتے بالکل خشک ہوچکے تھے؛ بلکہ یہ زمانہ ایک لحاظ سے ہندوستان کی اسلامی تاریخ کا قابل ذکر عہد بھی ہے، اس میں بعض ایسی باکمال وممتاز ہستیاں موجود تھیں جن کی نظیر ملنی مشکل ہے۔

          دینی وعلمی کمالات کی جامعیت کے لحاظ سے دیکھيے تو سراج الہند شاہ عبدالعزیز دہلوی اور بیہقی وقت حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی جیسے اکابر اسی عہد کی زینت ورونق ہیں۔

          علوم ریاضیہ میں دیکھیے تو قاضی القضاۃ نجم الدین کاکوری اور نواب تفضل حسین خاں وغیرہ جیسے مجتہدینِ فن وموجد اسی دور کی یادگار ہیں۔

          تصوف وطریقت کو دیکھیے تو ہرسلسلے کے ایسے اکابر شیوخ موجود تھے، جنھوں نے اپنے طریق کو تازگی بخشی اور لاکھوں بندگانِ خدا ان کے انفاس قدسیہ سے فیضیاب تھے۔

          خلاصۂ کلام یہ کہ تمام خامیوں اور خرابیوں کے باوجود زندگی کے آثار باقی تھے، صلاحیتیں موجود تھیں، قوتیں وافر تھیں، لیکن اس وقت ایک ایسے شخص کی اور ایسی جماعت کی ضرورت تھی جو دین وعلم اور صلاحیتوں کے اس بچے کچھےسرمائے سے وقت پر کام لے، جو دلوں کی بجھتی ہوئی انگیٹھیاں دوبارہ دہکادے، افسردہ دلوں کو ایک بار پھر گرمادے، اور ملک میں اس سرے سے اُس سرے تک طلب اور دین کی تڑپ کی آگ لگادے، جو شخص ان اوصاف مذکورہ اور دیگر اوصاف حسنہ سے متصف قائدانہ صلاحیتوں سے آراستہ ہو، اسلام کی بلیغ ومعجز اصطلاح میں اس کو ’’امام‘‘ کہتے ہیں او ریہ جگہ بارہویں صدی ہجری کے اواخر اور تیرہویں صدی ہجری کے اوائل تک تمام اہل کمال اور مشاہیر رجال کی موجودگی میں خالی تھی۔

 

سیّد صاحب کی سیرت پر اجمالی نظر

 

          یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر زمانے میں اپنے ایسے مخلص بندوں کووجودبخشا ہے جنھوں نے لوگوں کو اس کی طرف بلایا، اور دین کی تجدید کی، اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے عین تیرہویں صدی کے آغاز میں اس شخصیت کو وجود بخشا جن کو دنیا  سیّداحمد شہیدؒ کے نام سے جانتی ہے۔

 

زندگی کا اجمالی خاکہ

 

          نام       :         احمد بن عرفان

          ولادت:  ۶/صفر ۱۲۰۱ھ مطابق ۲۹/نومبر۱۷۸۶ء

          جائے ولادت:  سید شاہ علم اللہ صاحب کے اس دائرے میں جو اب تکیے کے نام سے مشہور ہے۔

          والد کا نام اور سلسلہ نسب: سیدمحمدعرفان بن سید محمدنوربن سید محمد ہدیٰ بن سید علم اللہ۔ نسب بواسطۂ حضرت حسنؓ حضرت علیؓ تک پہنچتا ہے۔

          والد کی وفات: ۱۲۱۴ھ

          ۱۲۲۲ھ میں: کسب معاش کے لیے لکھنؤ کا سفر کیا،اور وہاں سے دہلی جاکر شاہ عبدالعزیز دہلوی سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔

          ۱۲۲۴ھ میں: وطن واپسی ہوئی اور سید محمد روشن کی صاحبزادی بی بی زہرہ سے نکاح ہوا۔

          ۱۲۲۶ھ میں: دہلی کا دوسرا سفر کیا۔

          ۱۲۲۷ھ میں: نواب امیر خان کے لشکر میں ملازمت اختیار کی۔

          ۱۲۳۶ھ میں: حج بیت اللہ کا سفر کیا۔

          ۱۲۳۷ھ کو: ایک لمبے دورے کے بعد جدہ پہنچے۔

          ۱۲۳۹ھ کو: سفر حج سے وطن واپسی ہوئی۔

          ۱۲۴۱ھ کو: شمالی مغربی ہندوستان کی طرف ہجرت کی۔

          اسی سال اکوڑہ کی پہلی جنگ ہوئی جس میں فتح حاصل ہوئی۔

          اس کے بعد مسلسل جنگ ہوتی رہی، یہاں تک کہ سید صاحب نے بعض اسباب کی بناء پر وہاں سے کشمیر کا رخ کیا۔

          ۵/ذیقعدہ ۱۲۴۶ھ کوبالاکوٹ پہنچے، ۱۷/ذیقعدہ ۱۲۴۶ھ مطابق ۶/مئی ۱۸۳۰ءکو بالاکوٹ میں آخری جنگ ہوئی جس میں سید صاحب مرتبۂ شہادت سے سرفراز ہوئے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے! (آمین)

          سید صاحب نے دعا کی تھی کہ اے اللہ میری قبر کو صیغۂ راز میں رکھ تاکہ لوگ اس کو بدعات کا گڑھ نہ بنالیں، جیساکہ اس زمانہ کا رواج تھا، اور آج بھی ہے، سید صاحب کی یہ دعا قبول ہوئی، اور ان کی قبر اب بھی نامعلوم ہے، جس کی بناء پر ایک زمانہ تک بہت سے لوگوں کو یہی خیال رہا کہ سید صاحب کی موت واقع نہیں ہوئی؛ بلکہ وہ غائب ہوئے ہیں۔(۲)

 

سید صاحب کی نمایاں دعوتی خدمات

 

          اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق تیرہویں صدی کے منصب امامت اور تجدید دین کے لیے سیدصاحب کا انتخاب کیا، جو امامت کے لیے مطلوبہ صفات سے متصف اور کمالات ظاہری وباطنی کے جامع تھے۔

          درج ذیل سطور میں سیدصاحب کی دعوتی خدمات کی چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں ۔

          ۱- سلام مسنون کا رواج: جب سید صاحب پہلی مرتبہ شاہ عبدالعزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نہایت سادگی سے ’’السلام علیکم‘‘ کہا، یہ وہ زمانہ تھا کہ سلام مسنون کا رواج تھا، حتی کہ حضرت شاہ صاحب کے خاندان میں بھی اس کی رسم نہ تھی، شاہ صاحب نے جب سید صاحب کا سلام سنا تو بہت خوش ہوئے، اور حکم دیا کہ سلام بطریق مسنون کیا جائے۔

          ۲- اصلاح رسوم: سید صاحب جب بھی کسی سے بیعت لیتے تو ان کو تعلیم دیتے کہ بیاہ برات شادی غمی میں خدا ورسول کے خلاف شرک وبدعات کی رسومات کوئی نہ کرے، ہر امر میں رسول مقبول ﷺ کے طریقے پر نگاہ رہے، چاہے اس میں خوشی ہو یا غمی۔ اسی بنا پر جب آپ سفر حج پر تھے اور مدینہ میں قیام تھا تو بعض لوگوں نے محفل میلاد کا انعقاد کیا اور سید صاحب کو بھی دعوت دی تو آپ نے فرمایا، اگر اس مجلس کا انعقاد محض لہوولعب کے لیے ہے تو ہم کو شرکت سے معذور رکھیں اور اگر عبادت کی نیت سے ہے تو اس کو کتاب وسنت سے ثابت کردیں، تو میںحاضر ہوجاؤںگا ورنہ ہم کو اس سے کچھ تعلق نہیں۔

          ۳- نشاناتِ شرک کا ابطال: سید صاحب نے ایک آدمی کے یہاں طاق میں مٹی کے کھلونے رکھے دیکھے، تو فرمایا: یہ بت ہیں، ان کو مشرک رکھتے ہیں، ان کو توڑ ڈالو، گھر سے دور کرو، پھر دیرتک شرک کی برائیاں اور توحید کی خوبیاں بیان فرماتے رہے۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ صاحب خانہ نے اسی وقت وہ کھلونے توڑ کر باہر پھینک دیے۔

          ۴- بیوہ کا نکاح: اس زمانے میں بیوہ کے نکاح کو بڑے ننگ وعار کی بات اور خلافِ ادب سمجھا جاتا تھا،یہاں تک کہ بعض علماء بھی اس رواج کی حمایت کرتے تھے۔ علماء مصلحین نے اس دہنیت اور جاہلی حمیت کے خلاف زبان وقلم سے تبلیغ کی، لیکن مدتوں کی اس متروک سنت کے احیاء وترویج کے اس جاہلی خیال کے استیصال کے ليے تحریرو تقریر کافی نہ تھی؛ بلکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی عظیم شخصیت اپنے عمل سے اس سنت کا احیاء کرے، اور اس کی ایسی پرزور دعوت دے کہ اس کی قباحت دلوں سے بالکل نکل جائے، اللہ نے دوسرے عظیم الشان اصلاحی وتجدیدی کاموں کے ساتھ یہ عظیم الشان اصلاحی خدمت بھی جس کا اثر سیکڑوں خاندانوں، ہزاروں زندہ درگور عورتوں پر پڑا، سید صاحب سے لی، اور غیب سے اس کا سامان پیدا ہوا اور ایک مدت دراز کے بعدہندوستاني شرفاء كے خاندان میں یہ مبارک تقریب منعقد ہوئی، سید صاحب نے اس پر اکتفاء نہیں کیا؛ بلکہ شاہ عبدالعزیزؒ اور اپنے خلفاء کے نام خط لکھوائے جس میں واقعہ کی اطلاع اوراحیاء سنت کی ترغیب دی جس کی وجہ سے یہ سنت دوبارہ زندہ ہوئی۔

          ۵- حج کی عدم فرضیت کا فتنہ: حج علماء کی تاویلوں اوراس فقہی عذر کی وجہ سے کہ راستہ پرامن نہیں ہے اور سمندر بھی مانع شرعی اور  ’’مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً‘‘ کے منافی ہے،اور اس حالت میں حج کرنا فرمان خداوندی  ’’وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیْکُمْ إلَی التَّھْلُکَۃِ‘‘ کی مخالفت ہے، کچھ مدت سے بالکل متروک یا بہت ہی کم ہوگیا تھا، بعض علماء نے جن کو علومِ عقلیہ میں غلو اور انہماک تھا، حج کی عدمِ فرضیت اور ہندوستانی مسلمانوں کے ذمے سے اس کے ساقط ہوجانے کا باضابطہ فتویٰ دے دیا تھا، ان حالات میں سید صاحب نے حج کا ارادہ فرمایا، جو ادائے فرض کے علاوہ حج کی فرضیت کا بہت بڑا اعلان اور اس کی زبردست اشاعت وتبلیغ تھی، جن کی ان حالات میں سخت ضرورت تھی، گویا کہ سید صاحب کے ذریعہ فریضئہ حج کی ہندوستان میں تجدید ہوئی۔

          ۶- ہندوانہ وضع ومعاشرت کی اصلاح: سید صاحب کے زمانے میں مسلمان بہت سے علاقوں میں صرف نام کے رہ گئے تھے، سب کام ہندوؤں کے کرتے، بت بھی پوجنے لگے تھے، ہولی، دیوالی بھی مناتے اور طریقۂ اسلام سے بالکل بے خبر ہوگئے تھے، سید صاحب جس علاقہ میں بھی تشریف لے جاتے تو بیعت لیتے وقت یہ بھی عہد لیتے کہ وہ تمام ہندوانہ وضع ومعاشرت کو چھوڑدیں گے۔

          ۷- دینی تعلیم و تربیت: نیز ان سے یہ بھی فرماتے کہ میں تو ایک جگہ رہ کر تمہاری مکمل دینی تربیت نہیں کرسکتا، پھر کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کرلیتے جو ان کے جانے کے بعد وہاں کے لوگوں کی اصلاح کرتا، اور ان کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ وپیراستہ کرتا۔

          ۸- غیرمسلموں کا قبول اسلام: جس طرح سید صاحب مسلمانوں کی اصلاح کی فکر کرتے اور ان کی ہدایت کی کوشش کرتے اسی طرح غیرمسلموں کو بھی اسلام کی دعوت دیتے، بہت سے غیرمسلم آپ اور آپ کی جماعت کے طریقہ اور اخلاق کو دیکھ کر متاثر ہوتے اور اسلام قبول کرلیتے،اور بعض آپ کی باتیں سن کر اسلام کو تھام لیتے۔

          ۹- نکاح کی ترویج: اس زمانہ میں خاص کر بنگال میں کثرت سے رواج تھا کہ پہلا نکاح تو ماں باپ کرادیتے تھے، اس کے بعد جس کا جی چاہتا کسی عورت کو اپنے گھر ڈال لیتا، اور اس سے بغیرعقد ونکاح کے ازدواجی تعلقات قائم کرلیتا، چند متدین علماء اس خدمت کے ليے متعین كيے کہ بیعت کے بعد سوسوپچاس پچاس آدمیوں کو الگ بٹھاکر ان کے حالات دریافت کرتے جس عورت یا مرد کے تعلقات بغیر نکاح کے ہوتے اور وہ دونوں وہاں موجود ہوتے تو ان کا نکاح پڑھادیا جاتا،اگر دونوں میں سے کوئی ایک غیرحاضر ہوتا تو اس کو طلب کیا جاتا، اور نکاح پڑھا دیا جاتا، اگر اس کی حاضری ممکن نہ ہوتی تو سخت تاکید کی جاتی کہ جلد اس فرض کو ادا کیا جائے۔

          ۱۰- شراب کی کسادبازاری اور برہنہ غسل کی روک تھام: جب سید صاحب سفر حج کے دوران کلکتہ پہنچے تو شراب کی دوکانوں کا یہ حال تھا کہ یکلخت شراب بکنی موقوف ہوگئی، دوکانداروں نے جاکر سرکار انگریزی میں اس کا شکوہ کیا کہ ہم لوگ سرکاری محصول بلا عذر ادا کرتے ہیں، اور دوکانیں ہماری بند ہیں، جب سے ایک بزرگ اپنے قافلے کے ساتھ اس شہر میں آئے ہیں، شہر اور دیہات کے تمام مسلمان ان کے مرید ہوئے اور ہرروز ہوتے جاتے ہیں، انھوں نے تمام نشہ آور چیزوں سے توبہ کی ہے، اب کوئی ہماری دوکانوں کو ہوکر بھی نہیں نکلتا۔ جب سید صاحب نے حج کے سفر کے دوران ايك مقام پر ایک مہینہ قیام فرمایا، تو ديكھا كہ وہاں لوگ بے تکلف حوض، تالاب وغیرہ میں برہنہ غسل کرتے تھے، آپ کو یہ بات بہت ناپسند گذری، اور وہاں کے قاضی سے اس سلسلہ میں بات کی گئی، قاضی صاحب نے حاکمِ وقت سے درخواست کی تو حاکم نے چند سپاہی مقرر کردیے کہ جب تک سید صاحب کے قافلے کا قیام رہے، کوئی برہنہ غسل نہ کرنے پائے۔

          ۱۱- سید صاحب کی زندگی کا سب سے روشن باب ہجرت وجہاد اور اسلامی نظام کے قیام سے متعلق ہے، اس زمانے میں جب کہ مسلمانوں میں جذبۂ جہاد سرد پڑچکا تھا، سید صاحب نے اپنی تحریک کے ذریعے اس جہاد کا احیاء کیا، جن مقاصد کے تحت سید صاحب نے صدائے جہاد بلند کی، ان کا اظہار آپ کے خطوط ومکاتیب سے ہوتا ہے، جو آپ نے اس سلسلہ میں مختلف لوگوں کو ارسال فرمائے، ان اسباب ومقاصد میں سے چند درج ذیل ہیں:

          (۱) تعمیل حکم الٰہی، (۲) حصولِ رضا ومحبتِ الٰہی، (۳) مسلمانوں کی بے بسی اور اہلِ کفر کے غلبہ کا خاتمہ، (۴) ہندوستان پر کفار کا تسلط اور اسلام کا زوال دیکھ کر کڑھنا، (۵) ہندوستان سے انگریزوں کے تسلط کو ختم کرنا، (۶) اعلائے کلمۃ اللہ، (۷) احیائے سنت رسول اللہ ﷺ، (۸) بلاد اسلامیہ کا استخلاص، (۹) دین کا قیام، (۱۰) احکام شرعی کا نفاذ، (۱۱) فریضئہ دعوت وتبلیغ کی ادئیگی۔

          سید صاحب نے اپنی انتھک کوششوں کے ذریعے مذکورہ اسباب ومقاصد میں سے اکثر میں کامیابی حاصل کی،  وَذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاء۔ حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے  لکھا ہے کہ اگر سید صاحب کا احیائے جہاد اور حکومت اسلامی کے قیام کے علاوہ اور کوئی کارنامہ نہ ہوتا تب بھی ان کی عظمت کے لیے کافی تھا۔

 

سید صاحبؒ کے طریقے کی خصوصیات

 

          اب تک جو بیان کیاگیا وہ سید صاحب کی دعوتی خدمات کی کچھ نمایاں جھلکیاں تھیں۔ اب ضروری ہے کہ سید صاحب کے طریقۂ دعوت کی خصوصیات کاذکر کیا جائے، جن میں سے بعض کا ذکر مولانا علی میاںؒ نے اپنی کتاب ’’سیرت سیداحمد شہیدؒ‘‘ کی جلد دوم میں تفصیل سے کیا ہے۔

          ۱- پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس زمانے میں اللہ کے یہاں آپ کا طریقہ سب سے زیادہ مقبول تھا،اور جناب رسول اللہ ﷺ کی خوشی ان دیار مشرقیہ میں اس میں منحصر تھی؛ اس لیے کہ احکامِ الٰہی کی بجاآوری اوراتباع سنت پر سب سے زیادہ زور آپ کے یہاں پایا جاتا تھا۔

          ۲- مشایخ وعلماء میں مقبولیت: چنانچہ ہندوستان کا کوئی خانوادہ اور کوئی سلسلہ ایسا نہیں جس کے اکابر نے سید صاحبؒ کو اپنا بڑا نہ مانا ہو،اور آپ سے استفادہ نہ کیا ہو۔

          ۳- آپ کی عجیب وغریب تاثیر اور انوار و برکات تھے جس کے بڑے بڑے بزرگ بھی قائل تھے۔

          ۴- آپ كا طریقہٴ تزکیہ جناب رسول اللہ ﷺ کے طریقہٴ تزکیہ سے خاص مناسبت رکھتا تھا۔(۳) اور وہ تمام صفات جن کا ذکر حضرت ابراہیمؑ نے حضرت محمد ﷺ کی بعثت کی دعا کرتے ہوئے ذکر کیا تھا جن کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے:  ’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْهُمْ يَتْلُوْ عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيْهِمْ...‘‘ (سورہ بقرہ:۱۲۹) سید صاحب کے اندر ایک حد تک پائی جاتی تھیں۔

          ۵- سید صاحب جہاں بھی جاتے وہاں کے لوگوں کی کایا یکایک پلٹ جاتی، مسلمان شرک وبدعات اور غلط رسم ورواج سے توبہ کرتے، یہاں تک کہ غیرمسلم بھی آپ کے معتقد ہوئے بغیر نہ رہتے، اور بہت سے اسلام بھی قبول کرلیتے۔

          ۶- ہر وقت علماء کی ایک جماعت آپ کے ساتھ ہوتی جن میں مولانا عبدالحئی بڈھانویؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ قابل ذکر ہیں۔

          ۷- جو بھی آپ سے ملنے آتا آپ نہایت ہی خوش اخلاقی وخندہ پیشانی سے ملتے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگ خود بخود آپ کے گرویدہ ہوجاتے اور آپ کی ہر بات پر عمل کرتے۔

          ۸- سید صاحب کی ایک بڑی دعوتی خصوصیت یہ تھی کہ جب کسی غلط رسم کی اصلاح یا کسی متروک سنت کا احیا کرنا ہوتا تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھلاتے جیساکہ نکاحِ بیوگان میں معلوم ہوا۔

 

امتیازی خصوصیات

 

          سید صاحب نے جو دعوتی خدمات انجام دیں، اس میں شک نہیں کہ ان سے پہلے بھی بہت سے علماء نے دعوتی خدمات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، لیکن ہر شخصیت کے اندر کچھ امتیازی خصوصیات ہوتی ہیں، جن کی بناء پر وہ دوسری شخصیات سے ممتاز ہوتی ہے۔

          ۱- فطری خصوصیات: سید صاحب کے اخلاق واصاف کا مرکزی نقطہ اور نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ میں آنحضرت ﷺ سے مناسبت تامہ اور مزاجِ نبوی سے طبعی وذوقی اتحاد نظر آتا ہے، مولانا اسماعیل شہیدؒ فرماتے ہیں کہ: اگرچہ بہت کثرت سے لوگ راہ راست پر آئے، لیکن ان میں سے کسی نے توسط واعتدال کی راہ اختیار نہیں کی سوائے ان حضرات کے جو سید صاحب کے صحبت یافتہ تھے، سید صاحب کے اندر بچپن ہی سے شجاعت کا مادہ بھرا ہوا تھا، ساتھ ہی مزاج میں حیا کا مادہ بھی بہت تھا، بعض مرتبہ غایت حیا سے خود اپنے قصوروار اور مجرم پر نظر نہیں کرتے تھے، اور خود آپ کی نگاہیں جھک جاتی تھیں۔

          ۲- دینی اخلاق واوصاف میں آپ کی خصوصیات: حقیقت یہ ہے کہ خدا کی کسی مخلوق کو ایذا دینا اور اپنے نفس کا انتقام لینا یا کسی پر غصہ اتارنا اور نفس کے تقاضے سے اس کو اذیت پہنچانا آپ کے مسلک میں ناجائز تھا، جب آپ تمام انسانوں؛ بلکہ جانوروں تک کے ساتھ شفقت ورعایت کا یہ معاملہ تھا تو مسلمانوں کے ساتھ مراعات ولحاظ کا جو رویہ ہوگا وہ ظاہر ہے۔

          اسی کا تتمہ وتکملہ تھا کہ آپ کے نزدیک ابتدا ہی سے مسلمانوں کے درمیان مصالحت کی بيحد اہمیت تھی، رفقاء اور دین کے راستے میں ساتھ دینے والوں کے ساتھ شفقت ومساوات کا معاملہ کرتے، باوجود اس کے کہ سب رفقاء ہر وقت آپ کی خدمت کے لیے تیار رہتے آپ کوئی امتیاز پسند نہیں کرتے تھے، ہرکام میں مجاہدین اور رفقاء کے شریک حال رہتے، حد درجہ شفقت ونرمی کے باوجود شریعت کے معاملہ میں انتہائی غیور اور حساس تھے،اسی دینی حمیت وغیرت نے آپ کو اسلام کی حمایت، بیکس مسلمانوں کی امداد اور جہاد فی سبیل اللہ پر آمادہ کیا، اور بالآخر اسی راہ میں آپ نے جان دے دی۔

 

          ۳- روحانی وباطنی کیفیات وخصوصیات:

 

          (الف) دعا: دین کے جن شعبوں کی اللہ نے آپ سے تجدید کرائی اور ان کو نئی زندگی بخشی ان میں سے ایک دعا ہے، ہر جنگ اور ہر اہم واقعہ سے پہلے اور اس کے بعد اہتمام کے ساتھ دعا کرنا آپ کا خاص معمول تھا۔

          (ب) ایمان واحتساب: دین کا دوسرا مہتم بالشان شعبہ جس کے آپ اپنے دور میں مجدد تھے جو دراصل پورے نظام دینی کا روح رواں ہے، وہ ایمان واحتساب ہے،یعنی زندگی کے تمام اعمال واشغال میں صرف رضائے الٰہی کی طلب نیت کے استحضار اور اجر وثواب کی طمع میں انجام دینا۔

          (ج) اتباع سنت: یہ آپ کی زندگی اورآپ کی دعوت کا جز بن گیا تھا، آپ کے نزدیک عبادات کے ساتھ معاملات اور امور معادکے ساتھ امور معاش میں بھی اتباع سنت اور ترک بدعات ضروری ہے۔

          (د) محبت وخشیت: محبت ومحبوبیت ان حضرات کے خواص میں سے ہے، جن کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کا معاملہ اجتباء وانتخاب کا ہوتا ہے اس کے آثار ان کی زندگی میں ظاہر وعیاں ہوتے ہیں، سید صاحب میں محبت کی نسبت اتنی غالب تھی کہ اس کے اثرات پاس بیٹھنے والوں اور نماز میں مقتدیوں پر بھی پڑتے تھے۔

          ۴- تجدید وامامت: علماء و مبصرین کے ایک بڑے گروہ کا خیال ہے کہ سید صاحب تیرہویں صدی کے مجدد تھے، سید صاحب کی تجدید کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اصول ومبادی میں اپنی جامعیت اپنے نظامِ تربیت اور اس كے نتائج وآثار میں اسلام کی اصلی دعوت سے بہت مشابہ اور قریب ہے، آپ کے وجود نے اسلام کے حق میں باران رحمت اور بادِ بہاری کا کام کیا۔

          سید صاحب کا سب سے بڑا امتیازی تجدیدی کارنامہ اور آپ کی سب سے بڑی کرامت اور زندہ یادگار آپ کی پیداکردہ اورتربیت کی ہوئی وہ بے نظیر جماعت ہے، جس کی مثال صحابہ کے بعد مشکل سے ملتی ہے۔ یہ جماعت جس طرح دشمنوں سے جہادکرتی تھی اس سے زیادہ خود اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرتی،اور سید صاحب کی اس تربیت کا اثر آج تک پایا جاتا ہے۔

          خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سید صاحب تیرہویں صدی ہجری کے وہ مرد مجاہد تھے، جو عمل کے شہسوار اور وقت کے قلندر تھے، آپ کے یہاں قرآنی معارف کی بہار بھی تھی اور جہاد حق کی للکار بھی، آپ کے اندر ابوبکر صدیقؓ کا فہم وجمال بھی تھا اور عمر فاروقؓ کا تبحروجلال بھی، آپ وقت کے ابراہیم اور زمانہ کے بت شکن تھے، آپ نے علوم کے صنم کدے میں اذان دی اور میدان عمل کے طاغوتوں سے جنگ کی، آپ کی کوشش یہ تھی کہ قرآن ہی حکومت کا نظام اور وقت کا امام ہو،اور قرآن ہی تمام علوم کا منبع و محور اور سارے فنون کا مآخذ ومرکز ہو، آپ کی آرزو یہ تھی کہ دہنی وفکری گمراہیوں کا سدباب کیاجائے اور میدان عمل سے باطل کو بے دخل کردیا جائے، آپ کے اندر معلّمانہ عظمت بھی تھی اور قیادت کی آن بان اور خلافت کی شان بھی، اس لحاظ سے آپ ملت کے محسن بھی تھے اور وقت کے امام بھی، لہٰذا آپ کا یہ مقام بلکہ بعد والوں پر آپ کا یہ حق بنتا ہے کہ آپ کے افکار ونظریات کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے، اور شخصیتوں کی تعمیر میں آپ کی زندگی سے پورا فائدہ اٹھایا جائے۔ سید صاحب اپنی تحریک کے ذریعے غلط خیالات، باطل نظریات اور برے حالات کو روشن خیالات، دینی وایمانی نظریات، پاکیزہ جذبات اور قابل رشک حالات سے بدل دیا، اللہ ان کو اس کا پورا پورا بدلہ عطا فرمائے اور ہم کو بھی اس میں حصہ نصیب فرمائے۔ آمین!

خاتمہ:   سید صاحب کی سیرت پڑھنے والے پر چند اثرات لازم طور پر پڑتے ہیں:

          (۱)      سید صاحب کی حکمت وبصیرت اور شرح صدر۔

          (۲)      سید صاحب کی اعلیٰ درجہ کی سلامت فہم اور سلامت طبع کا اثر۔

          (۳)     آپ کے مسلک کے اعتدال کا اثر۔

وما توفیقی  إلا باللہ

حواشی:

(۱)      ماخوذ بالتلخیص: تاریخ دعوت و عزیمت جلد اوّل، ص:۱۳-۱۵۔ مصنف: مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ)

(۲)      ماخوذ بالتلخیص: إذا ہفت ریح الإیمان، ص:۴-۳۰۔ تصنیف: مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ۔

(۳)     سیرت سید احمد شہیدؒ جلد دوم، صفحہ ۵۸۳-۵۸۸۔

٭٭٭

--------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 11 ، جلد: 95 ‏، ذی الحجة 1432 ہجری مطابق نومبر 2011ء