ہمارى وادى گل پوش

 

از: مفتى محمداسحاق نازكى قاسمى بانڈى پورہ، كشمىر

 

          مشہور شاعر وادىب جناب پروفىسر آل احمد سُرور مرحوم كشمىر كے بارے مىں ىوں نغمہ زن ہىں  ؎

مىرےكشمىر! فلك بوس تىرا گنبدِ نُور                تىرے ہر سلسلۂ كوہ كو زىبا ہے غُرور

          ہمارى وادى كشمىر اپنے قدرتى حسن وجمال اور اپنى فطرى رعنائى وكشش كى وجہ سے سارى دنىا مىں مشہور ہے۔ اس كے سىاحتى مقامات، پُربہار باغات، پُرفضا چمنستان اوركوہ ودمن كے دلفرىب سلسلے دنىا بھر كے سىاحوں، شاعروں، ادىبوں اور فلسفىوں كو دعوتِ نظارہ دىتے آرہے ہىں۔ اور سب اس كے جمالىاتى پہلو كو اپنے اپنے اعتبار سے نكھارتے ہىں، كہاوتوں اورمحاوروں مىں اس كے حسن وخوبى كو بطورِ مثال پىش كرتے ہىں؛ چناں چہ كبھى ترنگ مىں آكر دانائے رازؒ نے اس وادى سے ىوں اظہار محبت فرماىا ہے    ؎

ورثے مىں ہم كو آئى ہے آدم كى جائىداد                 جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظىر ہے

          اس كے صحت افزا اور خوش گوار موسم كا كىا كہنا، گرمى كے موسم مىں ٹھنڈى وپرسكون ہوائىں، روحوں كو تازگى اور دلوں كو فرحت بخشتى ہىں۔ اس كے پُرلطف وپُربہار موسم مىں ہر چہار سو، بےشمار پھولوں اور پھلوں كى كونپلىں اور شگوفے، دلفرىب رنگا رنگ كلىوں كى  پررونق بہارىں نىز باغوں وكھىتوں كى سبزہ زارىاں قادرِ مطلق كى عجىب وغرىب گلكارىوں مىں غور كرنے كى دعوت دىتى ہىں، سردى كے موسم مىں برف پوش پہاڑىاں، اس  پر مستزاد سورج كى حسىن كرنىں جو ان كے حسن وجمال مىں مزىد اضافہ كرتى ہىں۔

          اِدھر موسمِ خزاں كا بھى اپنا اىك خوشنما منظر ہوتا ہے كہ آدمى بس  دىكھتا ہى رہتاہے، لہٰذا  اس جغرافىائى وحقىقى پس منظر مىں ہمارى وادى كے حق مىں مشہور فارسى شاعر عرفى شىرازىؒ نے اگر ىہ گىت گاىا ہے تو غلط نہىں ہے     ؎

ہر سوختہ جانے كہ بہ كشمىر درآىد            گر مرغ كباب است با بال وپر آىد

          عرؔفى كو كشمىرآنا نصىب نہىں ہوا تھا، تاہم خىالات كى دنىا مىں حقىقت كى منظركشى انھوں نے ضرور كى ہے، گوىا نارجہنم مىں جلے بھنے لوگوں كے لىے اگر ىہ اَعراف (بلاتشبىہ) ہے تو اصحاب اعراف كے لىے پھر جنت نظىر ضرور ہے۔ اس كے اسى ظاہرى حسن پر فرىفتہ ہوكر مغلىہ حكومت كا عادل بادشاہ  جہاں گىر اىك مرتبہ ىوں بول پڑا    ؎

گر فردوس بروئے زمىن است             ہمىں است وہمىں است وہمىں است

          جہاں گىر كى اس نقاب كشائى كى داد دىجىے، پھر ىہاں كے حسىن مناظر سے لطف اٹائىے كہ گرتے آبشاروں ، بہتے درىائوں، ابلتے چشموں، سربہ فلك كہساروں، سرسبز وشاداب باغوں، لہلہاتے كھىتوں، بل كھاتى سڑكوں، زعفران زار كىارىوں، وسىع اور دل فرىب مىدانوں، ساىہ دار درختوں، چنار كے گھنے چھائوں اور ان كى شاخوں پر بےشمار حسىن وخوب صورت جانوروں كى سوز دل ودردِ جگر سے ملى بولىاں پھر مہاجر پرندوں كى چہچہاہٹ اور ان كى دل كش نغمہ سرائىاں اور پہاڑىوں كے دامن مىں آباد بستىاں۔ معلوم نہىں ان مناظر كے حسىن تصورات اور مسرت افزا خىالات مىں گم شاعروں، ادىب اور فلسفى، كہاں سے كہاں پہونچ جاتے ہوں گے، اس طرح بن دىكھے كتنے اس كے حسىن وسىاہ زلفوں كے اسىر ہوگئے ہىں حتى كہ مشہور شاعر علامہ انور صابرىؒ سے بھى رہا نہ گىا وہ پكار اٹھے   ؎

اے خوشا ! باغِ خلد كى تصوىر    رشكِ فردوس وجنت نظىر

          اور تو اور شعر وادب كے بے تاج بادشاہ رند صفت مرزا غاؔلب بھى چہك اٹھے   ؎

مىرؔ كے اشعار كى كىا بات كہوں اے غالبؔ    جس كا دىوان كم از گلشنِ كشمىر نہىں

          لىكن ىہاں كا موسم سرما؟! الامان الحفىظ! تاہم وہ اپنے اندر چند خصوصىات ركھتا ہے۔ برف بارى كا منظر كتنا حسىن ودل فرىب ہوتا ہے، بس دىكھنے سے تعلق ركھتا ہے، ہر سو برف كے سفىد خوب صورت گالے گررہے ہىں، جىسے آسمان سے شىرىنى بكھىر رہى ہو۔ سارى دھرتى وتمام بستىاں، پہاڑو بىابان، سڑكىں اور مىدان برف كى سفىد چادر سے ڈھكے ہوئے، لوگ شوق ىا شرارت مىں اىك دوسرے پر برف كے ہتھ گولے بھى پھىنكتے ہىں اور خوب محظوظ ہوتے ہىں، ٹھنڈ اتنى كہ دانت سے دانت بجے اور سردى كى شدّت اىسى كہ ننگى كھال پر جىسے آرہ چلے۔ لوگ گرم گرم ملبوسات سے مقدور بھر سرسے پائوں تك اپنے آپ كو مكمل ڈھانپے ركھتے ہىں۔ ہر اىك كے ہاتھ مىں ’’كانگڑى‘‘ جس كو بڑےاہتمام واحترام كے ساتھ دامن كے اندر چھپاىاجاتاہے كہ حرارت بھى حاصل ہو؛ مگر اس كى سوزش وشعلہ سے جسم اور كپڑے محفوظ رہىں۔ اس طرح ىہ كانگڑى تاپنا بھى اىك فن ہے۔

ىہ وطن عزىز كى پہلى تصوىر ہے۔

          اس ظاہرى حسن وجمال اور رعنائىوں كے ساتھ ساتھ حضرت حق جل مجدہٗ نے ہمارى اس وادىٔ گلپوش كو باطنى حسن وجمال اور كمالات كے ساتھ بھى خوب فىاضى سے نوازا ہے؛ چناںچہ ىہاں كى مہمان نوازى وخدمت گذارى، شرافت پسندى وسخاوت شعارى اور احترامِ آدمىت كى اىك مثال رہى ہے، غالباً اس تارىخى حقىقت كے پس منظر مىں اىك مشہور ہندو شاعر پنڈت برج نرائن چكبستؔ نے اہلِ كشمىر كے اس حسنِ اخلاق كى ىوں داد دى ہے  ؎

ذرہ ذرہ ہے مىرے كشمىر  كا مہماں نواز

راہ مىں پتھر كے ٹكڑوں نے دىا پانى مجھے

          پھر ىہاں كے لوگوں كى ذہانت وفطانت، ان كى دانش وبىنش، ان كى مذہب پسندى وروادارى، ان كى علم پرورى اور صنعت وحرفت سے ان كى بے مثال دلچسپى بھى اىك تارىخى حقىقت ہے؛ چنانچہ امام العصر حضرت علامہ انور شاہ صاحبؒ جىسے ضبط وحفظ كے بے تاج بادشاہ اور بحرالعلوم والفنون، حضرت مولانا سىد عطاء اللہ شاہ صاحب بخارىؒ جىسے بے مثال خطىب وسحرالبىان مقرر، حضرت شورش كشمىرىؒ جىسے دىانتدار و بےباك صحافى، حضرت مىرواعظ كشمىر مولانا محمد ىوسف شاہ صاحب جىسے نڈر دىانت وسىاست كے عَلَم بردار، دانائے راز علامہ اقبالؒ جىسے بے مثال انقلابى شاعر اور دىدہ ور ادىب مؤمنؔ اور نہرو خاندان كے آباء واجداد مثلاً پنڈت موتى لال نہرو جىسے دوراندىش سىاسى مدبر جن كا خمىر اسى خاكِ ارضى سے گوندھا گىا ہے۔

ىہ ہمارے وطنِ عزىز كى دوسرى تصوىر ہے۔

          مگر اب بہت ہى افسوس كے ساتھ ىہ لكھنا پڑتا ہے كہ ہمارى اس وادى گلپوش كے اس ظاہرى حسن وجمال اور باطنى كمالات ورعنائىوں كو كسى كى نظر لگ گئى ہے۔ اب اس كى ظاہرى  وباطنى چمك ماند پڑچكى ہے۔ اس كى خوب صورتى كے سورج كو گہن لگ چكا ہے، اب اس مىں وہ دل ربائى ودل كشى نہىں رہى ہے گوىا اس كى صلاحىتوں كو گھن لگ چكا ہے، اب مادرِ گىتى اىسے فرزندوں كو جنم دىنے مىں بانجھ ہوچكى ہے۔ دانائے راز نے معلوم نہىں كس دروىشانہ مستى وجذب كے عالم مىں آج سے كوئى نوے سال قبل ىہ بات كہى ہے اور اس كا ىوں رونا روىا ہے    ؎

آج وہ كشمىر ہے محكوم ومجبور وفقىر

كل جسے اہلِ نظر كہتے تھے اىرانِ صغىر

          ہمارا جوہرِ ادراك كہاں كھوگىا ہے، اب دىن پسندى وعلم پرورى اور وسعتِ ظرفى وشرافت نفسى كم ىاب ہے، باہمى اخوت وروادارى اور اىك دوسرے كے تئىں اكرام واحترام كے نىك اور پاكىزہ جذبات سرد پڑچكے ہىں۔ اہالىانِ كشمىر كى اپنى مذہبى وتہذىبى شناخت تھى، اب وہ بڑى تىزى كے ساتھ مٹتى جارہى ہے۔ اب ىہاں جہالت و تعصب حكمراں ہے۔ ہرطرف وحشت ودہشت كا سماں ہے۔ نفرت وعداوت كى فضا ہے، اِدھر ہسپتال (سركارى ونىم سركارى) مرىضوں سے بھرے ہوئے ہىں، مىڈىكل اسٹورز كے سامنے لمبى لمبى لائنىں لگى رہتى ہىں۔ پڑھے لكھے بے روزگار نوجوانوں مىں آئے دن خطرناك حد تك اضافہ ہورہا ہے۔ ڈپرىشن وٹىنشن، ہارٹ اٹىك وناگہانى اموات، فرار و خودكشى كے افسوسناك واقعات اور نشىلى ادوىات كا چلن عام ہورہا ہے۔ نقلى دوائوں كى بہتات اور ناتجربہ كار ڈاكٹروں كى بھىڑ اس پر مستزاد۔

          اِدھر گھر گھرٹى وى اور بكثرت چىنلز جن مىں اىمان سوز واخلاق دشمن پروگرام ہى ہوتے ہىں۔ نوجوان برائىوں مىں مبتلا ہىں، عورتىں دھڑا دھڑ بے حىائى كى طرف دوڑ رہى ہىں، بچوں مىں ’’كسى كا نہ ماننا‘‘ كا مزاج بن رہا ہے۔ زرد صحافت اور بے دىن سىاست اور مذہبى وسىاسى استىصال جلتے پر تىل كا كام كررہا ہے۔

ىہ ہمارے وطن عزىز كى موجودہ تصوىر ہے۔

          آج سے كوئى سات سو سال پہلے جب ہمارى وادى شرك وكفر اور بدعات ورسومات كے سىاہ بادلوں سے گھرى ہوئى تھى۔ اسلام سے مكمل ناآشنائى تھى، مگر جب حضرت مولانا سىد عبدالرحمٰن شرف الدىن بلبل شاہ صاحبؒ ىہاں اسلام كى حىات بخش دعوت لے كر اٹھے تو فضا صاف ہوگئى۔ اسلام كا آفتاب چمكا جس سے سارى وادى چمك اٹھى پھر نصف صدى كے بعد حضرت امىر كبىر مىرسىد على ہمدانىؒ واردِ كشمىر ہوئے تو ىہاں كى زمىن سونا اگلنے لگى، پھر ىہ سرزمىن مصلحىن، مخلصىن، علمائے عاملىن اور عارفىن كى آماجگاہ بنى، حضرت سلطان العارفىنؒ كى انفاس قدسىہ سے بدعات وخرافات كى تارىك راتىں چھٹنے  لگىں، اِدھر حضرت شىخ نورالدىن نورانىؒ  نے انسانى صلاحىتوں مىں چار چاند لگادىا،  اس طرح ان تىن اكابرِملت كے علمى وعرفانى كمالات، دعوتى واصلاحى اقدامات اور راہ تزكىہ وسلوك مىں انتھك رىاضات ہى كا اثر تھا كہ بىرونِ رىاست سے اكابرِ علم وعرفان (مثلاً علامۂ كبىر رومىؒ، حضرت شىخ جمال الدىن  بخارىؒ) سىكڑوں كى تعداد مىں واردِ كشمىرہوئے، مشن اولىائے رحمٰن كا احىاء ہوا، اسى طرح امت كو حضرت علامہ مولانا محمد سلىمانؒ جىسے امامِ قراءت وتجوىد، حضرت علامہ محمد فاضل بخارىؒ جىسے وقت كےشىخ الاسلام، حضرت علامہ محمد حسىن كشمىرىؒ جىسے پٹنہ كے قاضى القضاة، حضرت علامہ شىخ ىعقوب صوفىؒ جىسے امام علوم وفنون وقطبِ زمان حضرت علامہ قاضى موسىٰ شہىدؒ جىسے عالمِ ربانى، حضرت علامہ بابا دائودخاكىؒ جىسے امامِ اعظم ثانى اور حضرت علامہ بابا دائود مشكوٰتىؒ جىسے محدثِ دوراں نصىب ہوئے۔ حكمراں اسلام پسند، رعاىا پرور اور خدابرست ملے تو چہار دانگ كشمىر مىں اسلام كا جھنڈا بلند رہا۔ ہر اىك دىنِ فطرت كے رنگ مىں رنگا ہوا تھا، مدارسِ اسلامىہ اور مراكز دعوت و تعلىم وتربىت آباد تھے۔

ىہ ہمارے وطن عزىز كا سب سے روشن پہلو تھا۔

          مگر ہمارى حالت تو ىہ ہے كہ    ؎

گنوادى ہم نے جو اسلاف سے مىراث پائى تھى

ثرىا سے زمىں پہ آسماں نے ہم كو دے مارا

          ان حضرات نے مہاجرت ومناصرت كے كڑوے گھونٹ اور نفس كشى كے تلخ جام انسانىت كى فلاح وصلاح كے لىے پئے تھے، مشاكل ومصائب كے ہلاكت خىز درے اور درىا ہمارے لىے عبور كىے، پُرخطر راہوں، بىابانوں اور چٹانوں كو ہمارى ہمدردى مىں طے كىے تھے۔ اكابرِ ملت كى انھىں قربانىوں كا ثمرہ اسلام واىمان اور كلمہ وقرآن كى صورت مىںہمارے پاس موجود ہے كىوں كہ   ؎

شورشِ عندلىب نے روح چمن مىں پھونك دى

ورنہ ىہاں كلى كلى مست تھى خوابِ ناز مىں

          لہٰذا كشمىر  وكشمىرىت، اسلام واسلامىت، اور نعمت اسلام كا تقاضا ہے كہ ہم صرف انھىں اولىائے رحمٰن كا مشن زندہ كرىں، اسى راہ پر چلىں، اسى مىں وطنِ عزىز كى سلامتى ہے ، پىارے وطن كشمىر كى ىہى پكار ہے، ہمارے روشن مستقبل كا غماز بھى

مردے از غىب بىروں آىد وكارے كند

٭٭٭

-----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 11 ، جلد: 95 ‏، ذی الحجة 1432 ہجری مطابق نومبر 2011ء