علمائے ہند کے عربوں سے ازدواجی رشتے

 

از: پروفیسر بدرالدین الحافظ جامعہ نگر، نئی دہلی-۲۵

 

اس موضوع پر لکھنے کے لیے ہمارے سامنے پہلا سوال تویہ ہے کہ ہند عرب تعلقات میں آخر ازدواجی رشتہ کا عنوان ہی کیوں اختیار کیاجائے؟ اور کرنا ہے تو پھر علما ہند تک کیوں محدود رہیں؟ عوام میں تو اس کی مثالیں بہت زیادہ مل جائیں گی۔

          اس سلسلہ میں میرا خیال یہ ہے کہ تجارتی، سیاحتی، صحافتی تعلقات کے مقابلہ ازدواجی رشتہ اگر صحیح مل جائے تو وہ انتہائی پائیدار اور مستحکم ہوتاہے کہ پھر نسلوں تک اس کے پھل پھول اپنی افادیت دیتے رہتے ہیں۔ اسی رشتہ سے ذہنوں میں وسعت آتی ہے، ثقافتی تعلقات بڑھتے ہیں، فاصلاتی دوریاں کم ہوتی ہیں اور بہت سے بندھن خود بہ خود مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔

          اور پھر علماء کے رشتہ کو میں نے اس لیے اختیار کیا کہ علماء عوام سے جڑے ہوتے ہیں، عوام کے درمیان ہی ان کے تبلیغی، تدریسی، تعلیمی اور معاشی روابط قائم ہوتے ہیں، عوام کی نفسیات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور حسبِ ضرورت جب رشتہ قائم کرتے ہیں تو اس کے تقدس اور واجبات کو سامنے رکھتے ہیں۔ عوام کی طرح نہیں جہاں رشتہ قائم کرتے وقت اس کے تقدس کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا جیساکہ ۶/مارچ ۲۰۱۰ء کی شب میں ”ای ٹی وی“ پر خبروں میں حیدرآباد کا ایک منظر دکھایا گیا ہے، جس میں کئی برقعہ پوش عورتیں اور بچے سعودی سفارت خانہ کے کلچرل اتاشی شیخ ابراہیم بطشان کو گھیرے ہوئے میمورنڈم پیش کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ۸-۱۰ سال قبل دبئی کے کئی عرب یہاں سے شادی کرکے سال دوسال رہے اور ایک دو بچے اپنی نشانی چھوڑ کر چلے گئے، اب ہم دانہ دانہ کو محتاج ہیں، بچے اپنے باپ کا پتہ پوچھ رہے ہیں، یہ ہے خمارِ گندم کا عوامی رشتہ اور علماء کے رشتوں میں آپ کو صرف ازدواجی رشتے ہی نہیں؛ بلکہ انیسویں اور بیسویں صدی کے ہندوستان کی سیاسی، سماجی اور معاشی جھلکیاں بھی نظر آئیں گی، علمائے ہند کی جنگ آزادی میں شمولیت بھی، پھر یہ بھی اندازہ ہوگا کہ جن خاندانوں نے ذاتی یا سماجی مجبوریوں کی بنا پر عرب ہجرت کرجانے کا فیصلہ کیا، وہ خود ان کے لیے اور ہندوستان کے لیے مفید ثابت ہوا؛ جب کہ ان میں حبِ وطن اور خاندانی روایات کو باقی رکھنے کا جذبہ آج بھی موجزن ہے۔ نہ وہ اپنے جدی وطن کو بھولے ہیں، نہ تہذیب وروایات کو، اگرچہ ظاہری چولا بدل گیا ہے، طوب اور عِقال زیب تن ہے؛ مگر دل ہے پھر بھی ہندوستانی۔

          اب اس موضوع پر ہمارے سامنے سب سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد کے والد مولانا خیرالدین کا نام آتا ہے، جو اپنے زمانہ کے جید عالم اور صوفی تھے، انھوں نے ۱۸۵۷ء میں برطانوی اقتدار کے جبر وتشد سے مجبور ہوکر مکہ معظمہ کے دامنِ امن میں پناہ لینے کے لیے ہجرت فرمائی تھی، وہاں جب ترکی حاکم وقت سلطان عبدالحمید کو مولانا کی ہجرت کا علم ہوا تو اس نے آپ کو قسطنطنیہ بلابھیجا، آپ وہاں تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد پھر حجاز واپس آگئے۔ یہاں رفتہ رفتہ آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور اسی دوران مدینہ منورہ کے مفتی اکبر الشیخ محمد طاہر کی بھانجی سے آپ کا عقد ہوگیا، جن کے بطن سے ۱۸۸۸ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کی ولادت ہوئی۔ اسے مولانا کی اولین خوش قسمتی کہیے کہ آپ کو دس سال کی عمر تک مکہ معظمہ کی مبارک سرزمین پر قیام کا موقع نصیب ہوا۔

          اس کے بعد مولانا خیرالدین کے عقیدت مندوں نے اس قدر اصرار کیا کہ آپ ۱۸۹۸ء میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہندوستان تشریف لے آئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔(۱)

          دوسرا نام ہمارے سامنے مولانا عبدالحق مدنی کا آتا ہے، جن کا آبائی وطن دیوبند ضلع سہارنپور تھا، مگر آپ کے والد ڈاکٹر رفاقت علی مرحوم دیوبند سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے اور اسی ارض مقدس کو اپنا وطن بنالیا تھا۔

          وہاں آپ اپنی صلاحیت کی وجہ سے کافی مقبول ہوئے اورسلطنتِ عثمانیہ کی طرف سے مدینہ منورہ میں فوجی سرجن کے منصب پر فائز کیے گئے اور آخر تک اسی عہدہ پر مامور رہے۔ آپ نے وہیں کلکتہ کے ایک مہاجر خاندان کی لڑکی سے عقد کیا، جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو چند صاحبزادیاں اور ایک بیٹا عطا فرمایا جس کا نام عبدالحق رکھا گیا۔

          اس زمانہ میں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی بھی اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مدینہ منورہ میں مقیم تھے اور مسجد نبوی میں درس دیا کرتے تھے۔

          ڈاکٹر رفاقت علی مرحوم کے اس خاندان سے اچھے مراسم تھے؛ اس لیے ڈاکٹر صاحب نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ ان کے بیٹے عبدالحق کو بھی اپنے تلامذہ میں قبول فرمالیں۔ اس طرح آپ نے از اوّل تا آخر شیخ الاسلام سے تعلیم حاصل کی اور جید عالموں میں شمار کیے گئے۔

          اس سے آگے کے حالات بیان کرتے ہوئے آپ کے صاحبزادے مولانا محمد اسماعیل عثمانی لکھتے ہیں کہ جب آپ ہندوستان تشریف لائے تو آپ کی اہلیہ کا مدینہ منورہ میں وصال ہوچکا تھا اور دوسری آپ کے ساتھ آئی تھیں، ان کی وفات کراچی میں قیام کے دوران ہوئی اوریہ دونوں عرب تھیں۔ اس کے بعد آپ نے مجرد زندگی گزارنے کا ارادہ فرمایا؛ مگر جب دیوبند تشریف لائے تواپنے استاذ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے اصرار پر آپ عقد ثالث کے لیے تیار ہوگئے۔

          اب مولانا قاری محمد طیب صاحب مرحوم کی والدہ نے اپنا حق بزرگی ادا کرتے ہوئے حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن کے برادر خورد مولانا حامد حسن صاحب کی صاحبزادی سے آپ کا رشتہ مناسب سمجھا، جسے آپ نے قبول فرمالیا اور ۱۳۴۶ھ میں یہ تقریب عمل میں آئی۔

          اس کے بعد ۱۳۵۱ھ میں آپ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے مہتمم بنائے گئے اور تاحیات اس منصب پر فائز رہتے ہوئے مدرسہ کی شاندار خدمات انجام دیں۔

          ۱۹۴۴ء میں جب خاکسار کا مدرسہ شاہی کے درجہ حفظ میں داخلہ ہوا تو آپ ہی منصب اہتمام پر رونق افروز تھے اور بعد نماز فجر شاہی مسجد میں ترجمہٴ کلام پاک بیان فرماتے تھے۔(۲)

          اس کے بعد حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے خاندانی حالات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں جو اس موضوع سے متعلق اہم ہے۔

          آپ کے والد سید حبیب اللہ ۱۸۵۷ء میں جب پانچ سال کے ہوئے تو اس خاندان کی فارغ البالی کا دور کئی اسباب کی بنا پر گردش میں آگیا تھا۔ ان اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا سید فرید الوحیدی صاحب نے لکھا ہے کہ ایک تو مولانا حبیب اللہ صاحب کے والد ۱۸۵۷ء میں وفات پاگئے۔

          دوسرے اسی زمانہ میں مولانا حسین احمد صاحب کے حقیقی نانا سیداکبر علی صاحب کا اچانک دریائی حادثہ میں انتقال ہوگیا، یہ خاندان کی بارعب شخصیات تھیں، جن کی وجہ سے خاندان کا وقار اور دبدبہ بنا ہوا تھا۔

          جب یہ شخصیات دنیا سے اٹھ گئیں تو گرد وپیش کے راجہ ورؤسا کو موقع مل گیا، جو عرصہ سے منتظر تھے، انھوں نے اپنے آدمیوں سے یلغار کراکے حویلی کا سارامال ودولت لوٹ لیا؛ بلکہ دروازے، کھڑکیاں بھی نکلواکر لے گئے، گھر کے لوگوں کو راتوں رات دوسرے قصبہ میں جاکر پناہ لینی پڑی۔

          اسی لیے مولانا حبیب اللہ صاحب کی پرورش اور تعلیم بڑی تنگی، ترشی میں ہوئی، پھر مرحوم سید اکبرعلی صاحب کی صاحبزادی نورالنساء سے آپ کا عقد ہوا اور ان سے پانچ صاحبزادے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ ابتدا میں ان بچوں کی اسکولی تعلیم ہونے لگی؛ مگر چونکہ مولانا حبیب اللہ صاحب خالص دینی اور صوفیانہ ذہن کے آدمی تھے؛اس لیے تین بیٹوں کو آپ نے حضرت شیخ الہند کی سرپرستی میں دیوبند بھیج دیا، وہاں بچوں کے قیام وطعام کے اخراجات تو مدرسہٴ دیوبند برداشت کرتا تھا؛ مگر والد صاحب ہرلڑکے کے جیب خرچ کے لیے ایک روپیہ ماہانہ بھیجا کرتے تھے۔

          اسی دوران ایک حادثہ یہ پیش آیا کہ سید حبیب اللہ صاحب کے پیرومرشد حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادآبادی کا ایک سو پانچ سال کی عمر میں ۱۸۹۵ء میں وصال ہوگیا اوراس سانحہ سے ان کے دل کی دنیا اجڑگئی، ہر وقت پریشان رہنے لگے اور چاہتے تھے کہ کہیں نکل جائیں۔

          ادھر دیوبند میں جب بیٹوں کو والد کی پریشانی کا علم ہوا تو بڑے صاحبزادے نے خط لکھا کہ یہاں اب باغ وغیرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے، اس کی فکر نہ کریں، اب ہندوستان رہنے کی جگہ نہیں رہی، اب تو مدینہ چل بسیں۔

          یہ آخری جملہ اس بات کی عکاسی کررہاہے کہ ایک تو بیٹا والد کے دینی مزاج سے واقف تھا دوسرے حضرت شیخ الہند کے پاس رہنے کی وجہ سے وہ جہادِ آزادی سے بھی بے خبر نہ تھے اور ہندوستان میں برطانوی نظام یا بدنظمی نے جو عوام میں بے کلی اور بے چینی پیدا کردی تھی، وہ بھی سب کے لیے پریشان کن تھی۔

          اس کے ساتھ مولانا حبیب اللہ صاحب بھی انگریزی سامراج سے بددل تھے؛ کیونکہ ذریعہٴ معاش کے لیے جب انھوں نے تدریس کا پیشہ اختیار کیا تو اسکول میں تنخواہ؛ اس لیے کم ملتی تھی کہ یہ صرف اردو فارسی حساب تو اچھی طرح جانتے تھے، انگریزی سے ناواقف تھے، بعض لوگوں کے مشورہ پر انھوں نے انگریزی پڑھنی شروع کی؛ مگر پھر انگریزوں سے نفرت کی وجہ سے چھوڑ دی اور کم تنخواہ پر کام کرتے رہے۔

          بہرحال ان تمام وجوہات کی بنا پر انھوں نے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا پختہ عزم کرلیا؛ مگر پھر ایک الجھن پیش آئی کہ تین بہوؤں کے والدین آڑے آگئے کہ ہم اپنی بیٹیوں کو سمندرپار نہیں جانے دیں گے، اس پر مولانا حبیب اللہ صاحب نے کہہ دیا کہ میں تو ہجرت کا پختہ ارادہ کرچکا ہوں، تم اگر اپنی بیٹیوں کو نہیں بھیجنا چاہتے تو طلاق لے لو۔ اس پر سب خاموش ہوگئے، بھلا کون اپنی بیٹی کا گھر برباد کرتا!

          اس کے بعد بارہ افراد پر مشتمل یہ قافلہ ۱۸۹۹ء میں مدینہ منورہ پہونچ گیا، اگرچہ راستہ کی پریشانیاں ناقابل بیان ہیں؛ مگر مقصد پورا ہوگیا۔

          وہاں جاکر رہائش اور ذریعہٴ معاش کے لیے دشواریاں پیش آئیں، جن کا ہمت ، حوصلہ اور تدبیر سے مقابلہ کیا اور مسائل حل ہوئے۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں؛ مگر صاحبزادوں کی مشغولیات کا مختصر تذکرہ ضروری ہے، جس سے موضوع کی وضاحت ہوگی۔

          مولانا حبیب اللہ صاحب کے سب سے بڑے صاحبزادے مولانا صدیق احمد مرحوم (پ:۱۸۷۱ء) آپ کی تین شادیاں ہندوستانی خواتین سے ہوئیں، ان کی وفات کے بعد چوتھا عقد مولانا عبدالحق مدنی مرحوم کے والد ڈاکٹر رفاقت علی کی صاحبزادی سے ہوا، جن کو حجازی قومیت مل چکی تھی، ان کی وفات ۱۹۱۱ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔

          دوسرے صاحبزادے مولانا سیداحمد (پ:۱۸۷۶ء) ان کی پہلی شادی ٹانڈہ ضلع فیض آباد میں ہوئی، ان کی وفات کے بعد دوسرا عقد مدینہ منورہ میں ڈاکٹر رفاقت علی کی دوسری صاحبزادی سے ہوا، ان کی وفات کے بعد تیسرا عقد بھی مدینہ منورہ کی کسی خاتون سے ہوا، مولانا کی وفات ۱۹۴۰ء میں ہوئی اور آپ کی صاحبزادی عائشہ مرحومہ کا مولانا اسعدمدنی مرحوم سے پہلا عقد ہوا تھا، جن کا بیٹا احمد بقید حیات بینک الجزیرہ میں منیجر کے عہدہ پر فائز ہے اور اس کی شادی مکہ معظمہ میں ایک مہاجر خاندان کی لڑکی سے ہوئی ہے۔

          تیسرے صاحبزادے سید جمیل احمد (پ:۱۸۸۴ء وفات ۱۹۰۴ء) ۲۰/سال کی عمر میں وفات ہوئی، شادی اور اولاد کے حالات موجود نہیں ہیں۔

          چوتھے بیٹے مولانا سیدحسین احمد مدنی (پ:۱۸۷۹ء) والد صاحب کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لے گئے، عرصہ تک مسجد نبوی میں درس وتدریس کا سلسلہ جاری رہا، ہندوستان آتے جاتے رہے؛ مگر کبھی عرب میں مستقل سکونت کا ارادہ نہیں کیا۔ آپ کی یکے بعد دیگرے چار شادیاں ہندوستانی خواتین سے ہوئیں اور چوتھی اہلیہ تادم تحریر بقید حیات ہیں۔

          پانچویں صاحبزادے مولانا سیدمحمود احمد (پ۱۸۹۱ء-۱۹۷۳ء) ۸/سال کی عمر میں والد صاحب کے ساتھ مدینہ منورہ آئے تھے، ابتدا میں قرآن کریم اردو حساب عربی کی تعلیم گھر میں حاصل کرنے کے بعد پھر مدینہ طیبہ کے سرکاری اسکول اور کالج میں عربی، ترکی ریاضی اور دوسرے مروجہ علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ شریف حسین ترکی کی حکومت میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوئے اور سعودی حکومت آئی تو جدہ کے رجسٹرار مقررکیے گئے۔ اس کے بعد ملازمت سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعدمدینہ منورہ میں تجارت شروع کی، بڑی صلاحیت اور فہم وفراست کے آدمی تھے، جدوجہد کرتے رہے، سعودی حکومت میں جن صنعتوں کا وجود نہیں تھا، وہ ان کے ہاتھوں وجود میں آئیں۔ فرنیچر کا بڑا کارخانہ لگایا، برف کی فیکٹری قائم کی، جس سے پورے ضلع کو برف کی سپلائی کی جاتی تھی۔ باغات لگوائے، کوٹھیاں بنوائیں، سوئمنگ پول بنوایا، ان کے باغات میں دوسرے ممالک کے امراء اور رؤساء آکر لطف اندوز ہوتے تھے، اس طرح سعودی حکومت کی نگاہ میں انھیں بڑا مرتبہ حاصل ہوا۔ انھوں نے اپنی خدمات سے ثابت کردیا کہ ہم ہندوستانی ہیں جو جس زمین پر رہے، آسمان بن کے رہے۔

          آپ کی پہلی شادی بریلی کے ایک مہاجر خاندان کی لڑکی سے ہوئی، دوسری ایک مراکشی لڑکی سے ہوئی۔ آپ کی اولاد میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ تینوں صاحبزادیوں کی شادیاں ہندوستانی نژاد مہاجر خاندانوں کے قابل لڑکوں سے ہوئی ہیں۔

          آپ کے پوتے سیدمحمد حبیب نے جرمنی سے جیالوجی میں ایم ایس سی کیا اور عرصہ تک پٹرولیم منسٹری میں اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔ الحمدللہ مولانا سیدمحمود صاحب بیاسی برس تک نہایت کامیاب زندگی گزار کر ۱۹۷۳ء میں مالک حقیقی سے جاملے۔

          مولانا حبیب اللہ صاحب کے بڑے صاحبزادے مولانا صدیق احمد صاحب نے کئی شادیاں کیں اور اولادیں بھی ہوئیں؛ مگر حیات نہ رہیں اور مولانا کی وفات کے وقت ان کا صرف ایک بیٹا وحیداحمد (پ:۱۸۹۴ء) موجود تھا، جس کو وہ چار سال کی عمر کا ہندوستان سے لائے تھے، والد کی وفات کے بعد دادا نے اور پھر مولانا حسین احمد مدنی نے اس بچہ کی تعلیم وتربیت کے فرائض انجام دیے، ابتدائی تعلیم عرب میں ہوئی، پھر دیوبند لاکر عالم تک کی تعلیم مکمل کرائی گئی۔

          ۱۳۱۳ھ میں جب حضرت شیخ الاسلام حج کے لیے تشریف لے گئے تو مولانا وحیداحمد بھی ہمراہ تھے، وہاں جب حضرت شیخ الہند کی گرفتاری عمل میں آئی اور مالٹا بھیجے گئے تو ان کے ساتھ حضرت شیخ الاسلام اور مولانا وحید احمد بھی مالٹا میں مقید رہے۔ اس زمانہ میں اسے حسنِ اتفاق کہیے کہ مولانا وحید احمد نے مالٹا جیل میں مختلف ملکوں کے قیدیوں سے راہ ورسم پیدا کرلی اور کئی زبانیں سیکھ لیں؛ چنانچہ ۱۹۲۰ء میں رہائی کے بعد جب دیوبند آئے تو معلوم ہوا کہ تقریباً دس زبانیں عربی، ترکی، فرانسیسی، انگریزی، جرمن، پشتو، بنگالی، فارسی وغیرہ بخوبی بول اور لکھ سکتے تھے، ہندوستان میں مختلف تدریسی ملازمتوں سے وابستہ رہے اور ہر جگہ ماہر لسانیات ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، مگر عمر نے وفا نہ کی اور ۱۹۳۷ء میں اہلیہ اور ۵ بچوں کو تنہا چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہوئے۔(۳)

          آپ کے تین صاحبزادوں میں مولانا ڈاکٹررشیدالوحیدی اور مولانا ڈاکٹر سعیدالوحیدی نے تو ہندوستان ہی میں سکونت اختیارکی؛ مگر بڑے صاحبزادے مولانا سیدفرید الوحیدی مرحوم (۱۹۲۶-۲۰۰۴ء) نے اہل وعیال کے ساتھ جدہ سعودی عرب میں سکونت اختیار کرلی۔ ذریعہ معاش کے لیے تجارتی مشغلہ اپنایا۔

          مولانا فریدالوحیدی صاحب بہترین عربی انگریزی اور اردو جانتے تھے، حسب ضرورت تینوں کا استعمال کرتے؛ مگر ہندوستانی تہذیب وتمدن کے ہمیشہ دلدادہ رہے، خاندانی روایات کو دل سے چاہتے تھے، لباس میں طوب پہننے لگے، ضرورتاً، عقال باندھنا شروع کیا۔ بچوں کے لیے آپ نے رسولِ عربی اور خلافتِ راشدہ اوّل دوم تالیف فرمائی۔ آخری عمر میں آپ کی اہم تصنیف شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی۸۵۲ صفحات پر مشتمل اہم دستاویزی کتاب ہے۔

          عربی اخبار کے مقابلہ اردو اخبار پسند کرتے تھے، عربی اخبار کے بارے میں کہتے اس میں خبریں بہت کم، شاہی خاندانوں کے شب وروز اور مشغولیات کا حال زیادہ ہوتا ہے۔

          اس خاندان کا تجارتی حلقہ بڑھا، ایشیائی ممالک کے علاوہ یورپ اورامریکہ تک تجارتی تعلق پیدا ہوا، خیالات اور خارجی معلومات میں وسعت پیدا ہوئی، آپ کی اولاد میں چار صاحبزادوں کی شادیاں ہندوستانی لڑکیوں سے ہوئیں اور بیٹی کی شادی بھی وطنی عزیز سے ہوئی اور نواسے محمد کی شادی عتیبیہ لڑکی سے ہوئی۔ نواسی منیٰ کی شادی شریفِ مکہ کے خاندان میں احمد شاہین سے ہوئی۔ الحمدللہ آج بھی ان سب کے تعلقات ہندوستانی عزیزوں سے قائم ہیں اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک پوتا عمرالوحیدی دہلی میں زیرتعلیم ہے۔(۴)

          مندرجہ بالا حالات مذکورہ حوالہ جات اور مشاہدہ کی مدد سے میں نے قلم بند کرلیے تھے، اس کے بعد مورخہ ۲۲/مارچ ۲۰۱۰ء کومکیہ بکس اوکھلا نئی دہلی میں مولانا شہاب الدین مالک الہدیٰ پبلیکیشرز ، دہلی سے ملاقات ہوئی، ان کے سامنے اس مضمون کا تذکرہ آیا، انھوں نے فرمایا کہ میرے ایک ہم وطن پرانے دوست مولانا عبدالمعید ولد عبدالمجید بلگرامی کا تذکرہ بھی اس میں کیا جاسکتا ہے؛ کیونکہ انھوں نے ابھی ۲۰۰۹ء میں ایک مراکشی لڑکی سے عقد کیا ہے اور وہ آج کل ممبئی میں مقیم ہیں۔

          میں نے اسی وقت شہاب الدین صاحب کی مدد سے خود ان کے فون پر رابطہ کیا، انھوں نے نہایت خوش دلی سے عربی میں گفتگو کرتے ہوئے، بتایا کہ الحمدللہ میری پہلی اہلیہ لکھنوٴ کی ہیں، ان کے کئی بچے ہیں، اب میں نے اکتوبر ۲۰۰۹ء میں مراکش کے شہر قنفرہ کی رہنے والی عافیہ بنت ہطارالمخزمیہ سے عقد کیا ہے، جو بحمداللہ میرے ساتھ مقیم ہیں۔

          اس کے علاوہ بمبئی کے ایک مشہور تاجر کتب شیخ شرف الدین الکتبی گزرے ہیں، جن کا خاندان کسی زمانہ میں قطر سے ہندوستان آیا تھا، ان کی دکان پورے برصغیر میں علماء اور طلبہ کے لیے مرجع تھی؛ کیونکہ یہ تنہا ایسے تاجر تھے، جو مصر وشام سے کتابیں منگایا کرتے تھے، ان کے انتقال کے بعد صاحبزادوں نے یہ تجارت بڑے پیمانہ پر جاری رکھی اور پریس بھی لگایا۔

          اسی دوران شرف الدین صاحب کے ایک صاحبزادے خلیل شرف الدین صاحب جدہ تشریف لے گئے اور وہاں ان کی ایک ہمشیرہ کی شادی جدہ کے رئیس اعظم اور عالم دین شیخ محمد آفندی نصیف کے صاحبزادے شیخ عمر نصیف سے ہوئی، جو سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کے ممبر تھے، اس تعلق کی بنا پر ان کے خاندان کے بہت سے افراد جدہ میں جاکر بس گئے اور آج بھی اس خاندان کے ہندوستان سے روابط ہیں۔(۵)

***

مراجع:

(۱)      الجمعیة دہلی کا مولانا ابوالکلام آزاد نمبر دسمبر ۱۹۵۸ء۔

(۲)      ماہنامہ ندائے شاہی کا تاریخ شاہی نمبر۔ دسمبر ۱۹۹۲ء جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد۔

(۳)     مولانا سیدمحمد میاں اسیران مالٹا۔ ناشر الجمعیة بک ڈپوگلی قاسم جان، دہلی ۱۹۷۶ء۔

(۴)     مولانا سیدفریدالوحیدی۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی۔ ناشر قومی کتاب گھر ۱/۶۱، ذاکر نگر نئی دہلی-۲۵ طبع اوّل ۱۹۹۲ء

(۵)      خلیل شرف الدین، مذہب کی حقیقت، مکتبہ جامعہ، جامعہ نگر نئی دہلی۲۵، طبع دوم ۲۰۰۱ء

 

-------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1 ، جلد: 96 ‏، صفر المظفر 1433 ہجری مطابق جنوری 2012ء