قرآن مجید کے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں

 

از:    فضل الرحمن اصلاحی فاضل دیوبند

اسکالر، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ

 

عظمت قرآن بہ زبان قرآن :- قرآن کریم کا تعارف جتنا عمدہ خود قرآن سے ہوسکتا ہے اور اس کی عظمت شناسی خود اس کے ذریعے جتنے بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے ، کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوسکتی کیوں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے ،آئیے ذرا قدرے تفصیل سے اس بات کا جائزہ لیں کہ قرآن کریم بذاتِ خود اپنا تعارف کس انداز سے پیش کرتا ہے ۔ چنانچہ سورہٴ ھود میں خود باری تعالی فرماتے ہیں : ”المرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ آیٰتُہ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْر“(المرٰ) (یہ) وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم ہیں ، پھر تفصیل سے بیان کی گئی ہیں ، بڑے حکمت والے ،بہت خبر رکھنے والے (اللہ) کی طرف سے ۔(۱)

سورة الشعراء میں قرآن کا تعارف یوں رقم ہے ”وَاِنَّہ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ العالمین o نَزَلَ بِہ الرُّوْحُ الأمِیْنُ o عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ o بِلِسَانٍ عربیٍ مبین o ( اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ (قرآن ) پروردگار عالم کا نازل فرمایا ہوا ہے، اسے امانت دار فرشتے نے (اے محمد ) تمہارے دل پر اتارا ہے تاکہ (تم لوگوں کو عذابِ آخرت) سے خبردار کرنے والے بنو، صاف ستھری عربی زبان میں) ۔(۲)

مندرجہ بالا آیت کے ضمن میں الشیخ محمود بن احمد الدوسری رقم طراز ہیں : ” اللہ جل جلالہ نے قرآن کریم نازل فرمانے کی نسبت اپنی طرف صرف اسی آیت میں نہیں کی؛ بلکہ پچاس یا اس سے بھی زیادہ آیتوں میں کی ہے․․․․․اور یہ اللہ کا کلام ہے، کلام کرنے والے کا حسنِ کمال، کلام کی سچائی کی دلیل ہوتا ہے ، اس طرح اس کی عظمت و رفعت کی شان بھی واضح ہوتی ہے؛ کیوں کہ اسے نازل فرمانے والا بڑی عظمتوں والا ہے، مزید برآں قرآن کے شرف اس کی قدر ومنزلت اور عظمت ہی کی وجہ سے امت مسلمہ کی شان بلند ہوتی ہے “ (۳)۔

سورہٴ یوسف میں قرآن اپنا تعارف یوں پیش کرتا ہے : ”مَا کَانَ حَدِیْثاً یُفْتَریٰ وَلکن تَصْدِیْقَ الذیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ کلِّ شَیْءٍ وَھُدَیً وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُوٴمِنُون‘‘o (۴)

ایسے ہی سورہٴ یوسف میں ایک جگہ اور ہے ، ”نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ أَحْسَنَ القَصَصِ بِمَا أوْحَیْنَا الَیْکَ ھَذا القُرْآنَ وَانْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہ لَمِنَ الغٰفلین“ (اور ہم بیان کرتے ہیں تیرے پاس بہت اچھا بیان اس واسطے کہ بھیجاہم نے تیری طرف یہ قرآن اور تو تھا اس سے پہلے البتہ بے خبروں میں )(۵) اور سورہٴ مائدہ میں ہے قَدْ جَآئَکُمْ مِنَ اللہِ نُورٌ وَّ کِتَابٌ مبین o(۶)

سورہٴ فرقان میں ذکر ہے ”تَبَارَکَ الذی نَزَّلَ الفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہ لِیَکُوْنَ للعالَمِیْن نَذِیْراً“o (۷)

سورہ بنی اسرائیل میں اس کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے ”انَّ ھٰذا القرآنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ أقْوَمُ“( بلا شبہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے )(۸)

اسی طرح سورہٴ یونس میں قرآن مجید کو رحمتِ خدا وندی سے موسوم کیا گیا ہے ، جیسا کہ مذکور ہے ، ”قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُواط ھُوَخَیْرٌ مِمّا یَجْمَعُونo یہ صرف اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ یہ نعمت تمہیں نصیب ہوئی ، پس یہ وہ چیز ہے، جس پر لوگوں کو چاہیے کہ خوشیاں منائیں ، جتنی بھی چیزیں دنیا میں لوگ سمیٹتے ہیں، قرآن کی نعمت ، ان سب سے زیادہ بہتر اور قیمتی ہے (۹)

 رمضان کا مکمل مہینہ قرآن مجید کی نعمت سے منسوب کردیا گیا ، چنانچہ ارشاد ربّانی ہے ”شَھْرُ رَمَضَانَ الذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ القُرْآنَ“۔ محترم خرم مراد صاحب مرحوم اس کی دل نشیں تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”قرآن مجید سے زیادہ بڑی کوئی نعمت ایسی نہیں ہے ، جو خوشی و مسرت اور جشن کی مستحق ہو ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہماری خوشی کے سب سے بڑے دن کو قرآن مجید کے ساتھ وابستہ کردیا ہے “۔ (۱۰)

قرآن کریم کی عظمت و جامعیت کو سورئہ مائدةمیں بڑے ہی بلیغ پیرایے میں بیان کیا گیا ہے، جس کو سن کر ایک یہودی نے امیرالمومنین حضرت عمر سے کہا تھا کہ تمہاری کتاب میں ایک آیت ایسی نازل ہوئی ہے ، اگر یہ آیت ہمارے یہاں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن یوم عید اور جشن کا دن بنالیتے ، اس پر حضرت عمر نے اس سے اس آیت کے متعلق دریافت فرمایا، وہ کون سی آیت ہے؟ اس یہودی نے جواب دیا سورئہ مائدة کی درج ذیل آیت:- ” اَلْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاسْلاَمَ دِیْناً“ (آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کیا)۔

مولانا امین احسن اصلاحی قرآن کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ”قرآن مجید کو ایک اعلیٰ اور بر تر کلام مان کر اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، اگر دل میں قرآن مجید کی عظمت و اہمیت نہ ہو تو آدمی اس کے حقائق و معارف کے دریافت کرنے پر محنت صرف نہیں کر سکتا“۔ (۱۱)

اے کاش! آج امت مسلمہ کو اس کا احساس ہوجاتا کہ قرآن مجید کی شکل میں روئے زمین پر سب سے بڑی نعمت جو اس کو ودیعت کی گئی ہے، یہی کتاب عظیم ہے ۔

 ع       اے کاش کہ ہوجاتی قرآن سے شناسائی

عظمتِ قرآن بہ زبان صاحب قرآن :- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں تو قرآن کے فضائل اور اس کی اہمیت کو مختلف پیرایے میں بیان کیا ہے ، یہاں پر اس سلسلے میں چند احادیث مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔

”کِتَابُ اللہِ ھُوَ حَبْلُ اللہِ المَمْدُوْدِ مِنَ السَّمَاءِ الٰی الأرْضِ“(۱۲)

اسی طرح سے ایک دوسرے موقع پر آپ … کا ارشاد ہے، قرآن کی تلاوت اور اس کا مذاکرہ نزول سکینت ، رحمت کا باعث بنتا ہے ۔

”مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللہِ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللہِ یَتَدَارَسُوْنَ بَیْنَھُمْ الاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَةُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْھُمْ المَلائکةُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہ“۔(۱۳)

حضرت علی کے حوالے سے ایک حدیث نقل کی جاتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس امت کے لیے سب سے عمدہ دو ا قرآن مجید ہے ۔ ”عَنْ عَلِیٍ قال: قالَ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خَیْرُالدَّواءِ القُرْآنُ ۔“

آج ا س امت کی مثال اس پیاسے کی سی ہوگئی ہے، جس کے پڑوس میں میٹھا چشمہ بہہ رہا ہو؛ مگر وہ اس چشمے سے سیراب ہونے کے بجائے گندے پانی سے اپنا پیٹ بھرنا چاہتا ہے ۔

اس موقع پر پیارے نبی کی اس وصیت کو ہمہ وقت یا درکھنے کی ضرورت ہے ”اِسْمَعُوا منّی تَعَیَّشُوا“ (میری باتیں غور سے سنو ، یہ باتیں غور و خوض سے سنوگے تو پھلتے پھولتے رہوگے )اور اسی موقع پر آپ نے بڑی دل سوزی سے فرمایا تھا ”تَرَکْتُ فِیْکُمْ أمْرَیْنِ مَا انْ تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا لَنْ تَضلّوا کتابَ اللہِ وَسُنَّتِی“ (۱۴) وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جو ان ارشادات پر کان دھرتے ہیں اور قرآن مجیدکی خدمت میں اپنی زندگیاں قربان کر رہے ہیں، وہ اس بشارت میں شامل ہیں۔ ”خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَہ“ (تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے )۔

نعمت ِ قرآن اورتعمیرِ سیرت:- قرآن مجید میں کلام الٰہی کو نعمت کے طور پرکئی جگہ بیان کیا گیاہے ۔

مثلاً -”فَذَکِّرْ فَمَا أنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَلاَ مَجْنُون“

اور سورة القلم میں یوں ذکر کیا گیا ۔ ”مَا أنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْن“ o۔

قرآن مجید جیسی بیش بہا کتاب ہدایت اس امت کو عطا کی گئی تو اس کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے۔ شکر کے معنی یہاں پر یہ ہے کہ قرآن مجید کے حقوق ادا کئے جائیں ۔

 قرآن کریم کے بنیادی حقوق درج ذیل ہیں :

۱۔ قرآن پر ایمان لانا ۲۔ قرآن کا پڑھنا ۳۔ قرآن کا سمجھنا ۴۔ قرآن پر عمل کرنا ۵۔ قرآن کی تبلیغ کرنا ۔

زوال امت کا اصل سبب و اصلاح معاشرہ :- اگر تاریخ سے سوال پوچھا جائے کہ قرآن مجید جیسی عظیم نعمت کے ہوتے ہوئے یہ امت کیوں رو بہ زوال ہے ؟ تو تاریخ ہمیں اس کا جواب دے گی کہ”انَّ اللہَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنْفُسِھِمْ“۔ ”اللہ تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب کہ وہ خود( اپنے ارادے و اختیار سے )اپنے حالات و نفسیات نہ بدل لیں “۔

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے مالٹا کی تنہائیوں میں جو غور و خوض کرکے اس بیمار ملت کے لیے دوا تجویز کی تھی اے کاش اس ملت نے اگر اس نصیحت پر عمل کیا ہوتا تو شاید آج حالات اتنے ناگفتہ بہ نہ ہوتے ، مفتی محمدشفیع عثمانی صاحب اس سلسلے میں شیخ الہند کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیو ں میں اس پر غور کیا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ، ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا اور دوسرا ان کے آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی ، اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کردوں گا کہ قرآن کریم کو لفظاً و معناعام کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے “(۱۵) آگے مفتی محمد شفیع صاحب تحریر فرماتے ہیں ” ․․․․ حضرت نے جو باتیں فرمائیں ہیں، اصل میں وہ دو نہیں ایک ہی ہے ․․․․اس لیے ہمارے اختلاف میں شدت اس وجہ سے ہوئی کہ ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا اس لیے کہ قرآن مرکز تھا اور جب وہ اس مرکز سے دور ہوتے چلے گئے تو ایک دوسرے سے بھی دور ہوتے چلے گئے“ ۔ (۱۶)

یہ بالکل سادہ سی بات ہے واقعی اگر قرآن پر کسی درجہ میں عمل کیا جاتا تو یہ خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی ۔آج سے چند سال پہلے مسلم محلوں سے گزرنے والا یہ لازماً محسوس کرلیتاتھا کہ یہ مسلم محلہ ہے اور اس علاقے اور محلے میں قرآن کی برکت سے الگ ہی قسم کی رونق ہوا کرتی تھی ۔ ” آج سے تیس چالیس سال پہلے مسلمانوں کے محلوں میں گذرتے ہوئے ہر گھر سے قرآن پڑھنے کی آواز تو آتی تھی یہ الگ بات ہے کہ لوگ اسے ٹھیک سے سمجھتے نہیں تھے، لیکن تلاوت تو بہرحال ہوتی تھی ، اب تو تلاوت بھی نہیں ہوتی ، غور و فکر اور تدبر کا تو سوال ہی نہیں ، کون سیکھے اور کون پڑھے ؟ عربی سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ ہو تو ہم سیکھیں ، ہم انگریزی پڑھیں گے اور ایسی پڑھیں گے کہ انگریزوں کو پڑھادیں؛ لیکن عربی سیکھنے کے لیے کوئی بھی وقت نکالنے کے لیے تیار نہیں ۔

خلاصہ بحث

یوں تو آج پوری دنیا کے مسلمان ظلم و جور کی چکی میں پس رہے ہیں اور زبان حال سے یہ فریاد الٰہی کر رہے ہیں :

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

اس فریاد سے پہلے ہمیں خود بحیثیت ملت یہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس طرح کے ناگفتہ بہ حالات ہماراساتھ کیوں نہیں چھوڑ رہے ہیں؛ حالاں کہ اللہ رب العزت کی سنت تو یہ رہی ہے۔ ”وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ القُریٰ بِظُلْمٍ وَأھْلُھَا مُصْلِحُون“o (القرآن)

اس آیت کی روشنی میں ہمارا محاسبہ ہمارے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کر ے گا کہ قرآن کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اس طرح کے حالات ہمارا مقدر بن چکے ہیں ،لہٰذا سچے دل سے ہمیں پھر قرآن کے دامن میں پناہ ڈھونڈنی چاہیے ۔ اس کے بغیر اور کوئی علاج کارگر نہیں ہوسکتا ، امام مالک جیسے بیدار مغز محدث و فقیہ نے اس بیمار ملت کا علاج یہی قرار دیا تھا ۔

”لَنْ یَصْلَہَ ھَذِہ الأمَّةُ الاَّ بِمَا صَلُحَ بِہ أوَّلُھا“

”ان حالات میں اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن حکیم کی طرف رجوع کیا جائے، ہماری تقدیر اس وقت تک نہیں بدلے گی، اور ہم عزت وسربلندی حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ اس قرآن کا حق ادا نہیں کریں گے،ہمارے عروج و بلندی کے لیے اگر کوئی زینہ ہے تو قرآن ہے، ہماری قسمت اسی کتاب کے ساتھ وابستہ ہے ، اگر کوئی راستہ کھلے گا تو اسی کے ذریعے کھلے گا۔“(۱۷)

مراجع:

۱۔       سورہ ھود آیت نمبر۱

۲۔       سورة الشعراء آیت نمبر ۱۹۲ تا ۱۹۵

۳۔      ماہنامہ شمس الاسلام ، بھیرہ (پاکستان)قرآن نمبر ص ۱۱ جلد ۸۶ ش ۸۔۷(جولائی اگست ۲۰۱۱ء)

۴۔      سورہٴ یوسف آیت نمبر ۱۱۱

۵۔       سورہ یوسف آیت نمبر ۳

۶۔       سورة المائدة آیت نمبر ۱۵

۷۔      سورة الفرقان آیت نمبر ۱

۸۔      سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ۹

۹۔       سورہ یونس آیت نمبر ۵۸

۱۰۔      قرآن کا پیغام از خرم مراد مرحوم صاحب ص۳۰،اسلامک بک فاوٴنڈیشن دہلی

۱۱۔      مبادی تدبر قرآن ، از مولانا امین احسن اصلاحی ص ۱۷، فاران فاوٴنڈیشن لاہور

۱۲۔      سنن الترمذی حدیث نمبر ۳۷۸۸

۱۳۔     سنن ابی داوٴد حدیث نمبر ۱۴۵۵

۱۴۔     خطبہٴ حجة الوداع ، مشکوٰة ص ۱۹ ، دیوبند سہارن پور

۱۵۔       وحدتِ امت از مفتی شفیع صاحب مرحوم ص ۴۰۔ ۳۹

۱۶۔      ایضاً ص ۴۱

۱۷۔     عظمت قرآن ص ۲۵

***

-----------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2 ، جلد: 96 ‏، ربیع الاول 1433 ہجری مطابق فروری 2012ء