دینی مدارس میں تعلیم وتربیت

 

از: مولانامحمد تبریز عالم قاسمی استاذ دارالعلوم حیدرآباد

 

دینی مدارس میں دو شعبوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے: شعبہٴ تعلیم اور شعبہٴ تربیت، تعلیم کی مثال جسم کی سی ہے: جبکہ تربیت روح کی مانند ہے، روح کی اہمیت جسم سے زیادہ ہے، اس کے بغیر جسم مردہ اور بے معنی ہے، اسی طرح تربیت کے بغیر تعلیم ادھوری اور غیرمفید رہتی ہے، تعلیم پھول ہے تو تربیت خوشبو، تعلیم الفاظ ہیں تو تربیت معانی، اور جب یہ دونوں انمول جوہر انسانی رگ وریشہ میں سرایت کرجاتے ہیں تواسی آن انسانیت اورانسان کی نافعیت کی تکمیل ہوتی ہے۔

          دینی مدارس میں تعلیم کا محور دینی علوم کا حصول: یعنی حلال وحرام کی پہچان، جائز وناجائز کی معرفت، معروف ومنکر کی شناخت، خودشناسی وخداشناسی کا ہنر، خیروشر کی تمیز، سنت وبدعت کی تفریق، حق وباطل کی چھان پھٹک، کھرے اور کھوٹے کی پرکھ، دہشت گردی وفرقہ پرستی وانسانیت نوازی میں امتیاز،موت ومابعد الموت کا یقین اور دین اسلام کی حقانیت کے دلائل کا علم، یہ تعلیم کے مختصراً بنیادی مقاصد ہیں، جن کی بازیابی کے لیے ہمارے دینی مدارس وسیع پیمانے پراپنے اپنے انداز میں سرگرم عمل ہیں، اور ان کو روبہ عمل لانے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کرتے ہیں، اور ان کی تکمیل کے لیے ضمنی وذیلی شعبے قائم کیے ہوئے ہیں، جن سے طلبہ مستفید ہونے کی سعی وکوشش کرتے ہیں۔

 

تربیت

          اس عنوان کے تحت عمل، ادب، اخلاق اور تہذیب آتے ہیں، اس کا مقصد ہے سابقہ زندگی میں خاطر خواہ تبدیلی، خوفِ خدا کا استحضار، زندگی میں نظم ونسق سے واقفیت، فرائض وسنن کی کما حقہ پابندی، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی مکمل پاسداری، والدین واساتذہ کی دل کی گہرائیوں سے قدر دانی، بزرگوں کے مقام ومرتبہ کی شناخت، اجتماعی وانفرادی زندگی میں بڑوں وچھوٹوں کی رعایت، خلوت وجلوت میں جینے کا ڈھنگ، اپنوں اور غیروں کی نفع رسانی کی فکر یا کم از کم نقصان نہ پہونچانے کا عزم، خدمتِ دین کا جذبہ اور ملک وملت کی خیرخواہی جیسے اوصاف کا پیدا ہوجانا تربیت کے دائرے میں آتا ہے، اور پھر ان اوصاف کے حاملین کی زندگی، وضع قطع ا ور رہن سہن سے نظم وضبط اور ڈسپلن نہ صرف ظاہر ہوتا ہے؛ بلکہ دوسروں پر بھی اس کا دیرپا اثر پڑتا ہے، الغرض تربیتِ اخلاق تعلیم کا ثمرہ اور نتیجہ ہے۔

 

دینی مدارس کا دور

          ہندوستان میں قائم کردہ دینی مدارس کے عہد کو دو خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے: مدارس کا ایک زریں دور وہ تھا جب مدارس کی بنیاد توکل وللہیت پر قائم ہوا کرتی تھی، تقویٰ وطہارت ان کا شعار تھا، سنتِ نبوی کی پیروی ان کا نصب العین تھا، شریعت وطریقت کا حصول واشاعت ان کا مشن تھا، اہلِ مدارس فکرِ معاش کے نہیں، فکرِ معاد کے پیکر تھے، یہاں جملہٴ معترضہ کے طور یہ وضاحت ضروری ہے کہ قانون فطرت کے مطابق فکر معاد، فکر معاش سے آزادی میں ممدومعاون ہے، فرق ”یقینِ محکم“ سے پڑتا ہے۔ اس دور کے مدارس دنیاوی ماحول، نام نہاد انگریزی تہذیب اور مادیت کے ریل پیل سے کنارہ کش تھے، اس دور کے مدارس میں اساتذہ وطلبہ نہ صرف تعلیم کی؛ بلکہ تربیت کے لیے بھی کوشاں رہا کرتے تھے، اور اگر یوں لکھ دیا جائے کہ تربیت پر توجہ زیادہ ہوتی تھی تو کوئی مبالغہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس دور کے مدارس درودیوار کے محتاج نہیں تھے اور ایک انار کے درخت تلے بھی مدرسہ؛ بلکہ ام المدارس قائم ہوجاتا تھا، یہی سبب تھا کہ اس دور کے مدارس میں نہ کلاس کی حد بندی تھی، نہ حاضری رجسٹر اور گھنٹہ وار پڑھائی کا نظام تھا، اور ایسا بھی نہیں کہ فلاں کلاس میں فلاں کتاب ہی پڑھنی ہے، اور نہ ہی امتحان ہال میں نگرانی کی حاجت تھی اورنہ ہی نماز جیسی اہم عبادت کے لیے دوڑانے اور بھگانے کے لیے اساتذہ کی نگرانی تھی، الغرض تربیت یافتہ اساتذہ کی تربیت ہی طلبہٴ عزیز کی زندگی میں انقلاب پیدا کردیتی تھی، پھر کوئی طالب علم ”شیخ الاسلام“ تو کوئی ”حکیم الاسلام“ کی شکل میں ابھرتا اور کوئی ”مفکرِملت“ ہوتا تو کوئی ”حکیم الأمت“ بنتا۔

          دینی مدارس کا دوسرا عہد وہ ہے، جس میں بیشتر مدارس کے مزاج ومذاق بدل گئے، مغرب سے درآمد جدید طور طریقے چور دروازے سے درآئے، اساتذہ وطلبہ میں دوریاں دراز ہونے لگیں، علمِ دین کا حصول عصری علوم کی طرح ہوگیا، ادب واحترام جو مدارس کا طرئہ امتیاز تھے، وہ کتابوں میں محدود ہونے لگے، اساتذہ وطلبہ میں بدگمانی کی دیوار قائم ہونے لگی، مدارس اور طلبہ کی تعداد ما شاء اللہ خوب بڑھی اور بڑھ رہی ہے؛ مگر اخلاص وتوکل کی عمارت کمزور سے کمزور تر ہونے لگی ہے، معاش کی فکر، فکر معاد پر غالب آنے لگی، دینی مدارس کو سرکاری مدارس میں تبدیلی کی لہر چلی، دنیا اور دنیا کی غیر ضروری چیزیں مدارس میں نہ جانے کب دبے پاؤں گھس گئیں، پتہ بھی نہ چلا، تعلیم برائے تعلیم ہوگئی اور تربیت کی اہمیت وضرورت کا خیال رفتہ رفتہ مٹنے لگا؛ نتیجہ یہ ہوا کہ ادب وعمل زندگی سے رخصت ہونے لگے، تربیتی کتابیں (گلستاں، بوستاں، نفحة العرب، تہذیب الاخلاق اور پندنامہ جیسی دیگر کتب) داخل نصاب اب بھی ہیں؛ لیکن الفاظ کی حد تک، معانی وحقیقت سے صرفِ نظر کامرض بڑھتا جارہا ہے، امتحان کے بعد ذہن وزندگی سے وہ قیمتی مضامین اور اقوالِ زریں محو ہوجاتے ہیں۔ اول الذکر مدارس کے عہد کے اکابر کی تربیتی باتیں اور ان کے واقعات کو پڑھ اور سن کر سراہا تو جانے لگا؛ لیکن ان پر عمل کی فکر ختم ہونے لگی۔ یہاں ٹھہر کر یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس ثانی الذکر حالات سے بعض مدارس اور کچھ اربابِ مدارس مستثنیٰ ہیں، طلبہ اور اساتذہ کی مختصر سی جماعت اپنے اکابر واسلاف کے خطوط ونقوش کی حفاظت میں تن من دھن سے لگی ہوئی ہے اور وہی فکر، وہی انداز اور وہی وضع قطع اپنائے ہوئی ہے، انھیں یقین ہے کہ اکابر کا طرز ہی کامیابی کا ”خطِ مستقیم“ ہے۔

 

اب کرنا کیاہے؟

          ثانی الذکر حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اساتذہ، کیا طلبہ یا دونوں یا پھر کوئی غیرعلمی بیرونی طاقت مثلاً موبائل وانٹرنیٹ کا منفی استعمال وغیرہ؟ اس کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں ہے، بہرحال جواب جو بھی ہو، مدارس کا نظام اساتذہ وطلبہ سے رواں دواں رہتا ہے اور استاذ وشاگرد کے مقدس رشتوں کی روایت بہت پرانی ہے اور دن رات انھیں کو ایک دوسرے سے سابقہ پڑتا ہے؛ اس لیے انھیں دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس پرانی روایت کو پھر سے زندہ کریں، اساتذئہ کرام پھر وہی شمع روشن کریں، جس سے ماضی کی تاریخ روشن ہے، خاکے میں پھر وہی پرانا رنگ بھریں جس کے بغیر عہدِاوّل کی تصویر دھندلی ہوگئی ہے، اور طلبہ، اساتذہ کا بھرپور تعاون کریں اوران کے لیے ہدیہٴ دل پیش کرنے کا جذبہ رکھیں، ان کی ہدایت ورہنمائی کو صمیم قلب سے قبول کریں، انھیں آئیڈیل اور مشعلِ راہ خیال کریں؛ کیوں کہ علم وادب صرف کتابوں سے نہیں حاصل کیا جاسکتا؛ ورنہ کتب خانے کے مالکان حضرات عالم ہی نہیں علامہ ہوتے، مولانا تھانوی کی طرف، غالباً مجالس حکیم الامت میں یہ بات - الفاظ کے فرق کے ساتھ - لکھی ہوئی کہ: کسی نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ نے ڈھیرساری کتابیں لکھی ہیں، اس کے لیے ہزاروں کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا، حضرت نے فرمایا: میں نے کُتُب تو کم”قُطُب“ زیادہ پڑھے ہیں، یعنی مجھے جو کچھ آیا ہے وہ حضرت حاجی امداد اللہ، حضرت یعقوب نانوتوی اور دیگر اساتذہ کرام کی تعلیم اور ادب وتربیت سے آیا ہے۔ طلبہ حضرت تھانوی کی یہ بات حرزِ جان بنالیں تو پھر سے وہ روایت زندہ ہوسکتی ہے، تربیت اور ادب واحترام ہی وہ مرکزی نقطہ ہے، جس سے دینی مدارس اور عصری تعلیم گاہوں میں فرق ہوسکتا ہے، طلبہ یہ یقین کریں کہ اساتذہٴ کرام، والدین کے بعد ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں اور اساتذہ یہ خیال تازہ کریں کہ طلبہ قوم وملت کے ہیرے ہیں، انھیں تراش خراش کر عمدہ بنانا، انھیں کی ذمہ داری ہے، طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ سارے اساتذہ کا یکساں ادب کریں، اپنے اساتذہ کے ساتھ خاص عقیدت ومحبت ہو اور اساتذہ اپنے طلبہ کے ساتھ خاص شفقت کا معاملہ کریں۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اکابر نے کتابوں کے ساتھ، اساتذہ کا ادب واحترام بھی بہت زیادہ کیا، جس کی وجہ سے اساتذہ نے بھی ان کی تربیت کی فکر کی، ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ تربیت اودب کے باب میں کوتاہی ہمارے لیے مہلک ہے، اساتذہ سفیان ثوری کے اس جملے پر غور کریں کہ ”موتُ الأَکَابِرِ کَبَّرَنَا“ بڑوں کی رحلت نے ہمیں بڑا بنایا یعنی آج کا طالب علم ہی مستقبل میں استاذ ہوگا، اگر طالب علم کی صحیح تربیت نہیں ہوئی تو دوسروں کی تربیت وہ ناقص ہی کرے گا، اور طلبہ میں جب تک جذبہ اطاعت اور سلیقہ وادب کا فقدان ہوگا، اساتذہ ان کی تربیت کما حقہ نہیں کرسکتے۔

          علم تو لازم شے ہے یعنی کبھی اس کا فائدہ دوسروں تک نہیں پہونچا کرتا، عالم کی ذات ہی تک محدود رہتا ہے؛ لیکن تربیت وادب متعدی چیز یں ہیں، ان کا اثر اوروں پر ضرور پڑتا ہے۔

صحبتِ صالح ترا صالح کند        صحبتِ طالح ترا طالح کند

          شیخ سعدی بہت پہلے کہہ گئے ہیں۔ حضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت کے ذریعہ ہی صحابہٴ کرام کو عظیم انسان کی صف میں لاکھڑا کردیا، آپ علیہ السلام کو معلم کائنات کے ساتھ ساتھ مربی کائنات بھی بنایاگیا، قرآن نے آپ کا فریضہٴ تعلیم کتاب کے ساتھ تزکیہٴ نفوس بھی بتایا ہے، طلبہ کو یہ ماننا پڑے گا کہ ضابطہ کا علم کتابوں سے آسکتا ہے؛ لیکن حقیقی دین بغیر کسی کی جوتیاں سیدھی کیے نہیں آسکتا ہے، آج مدارس کے طلبہ کی اکثریت، عموماً اس بات سے بے خبر ہوتی ہے کہ مدارس میں ان کی آمد کا مقصد کیا ہے؟ اور فراغت کے بعد ان کا میدانِ کار کیا ہوگا؟ اساتذہ انھیں اس کی طرف تربیت ہی کے ذریعہ متوجہ کرسکتے ہیں۔

          ہم نے اگر ان وجوہات وگزارشات پر سنجیدگی وفہمیدگی کے ساتھ غور کیا اور عملی طور سے برتنے کی کوشش کی تو کافی حد تک تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے، اور ان باتوں کو قصہٴ پارینہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے، اور تربیت وادب کے حوالے سے مثبت انقلاب اساتذہ وطلبہ ہی لاسکتے ہیں کوئی تیسرا نہیں، ورنہ تربیت وعمل کی رخصت پزیری کا سفر جاری رہے گا، جو ہمارے لیے اور قوم وملت کے لیے بہت ہی مضر ثابت ہوگا۔

***

---------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2 ، جلد: 96 ‏، ربیع الاول 1433 ہجری مطابق فروری 2012ء