ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت کی علمی خدمات (۲)

از:  ڈاکٹر عبدالخالق‏، شعبہٴ دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

 

اہل بیت طبقہ ثانیہ کی علمی خدمات

          اس طبقہ میں حدیث شریف کے مطابق حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین شمار ہوتے ہیں۔ شیعہ حضرات اس طبقہ کے صحابہ کو اہل الکساء یا اہل القباء بھی کہتے ہیں۔ اس طبقہ کی علمی خدمات احاطے سے باہر ہیں، لیکن پر بھی ثواب دارین کی تحصیل کے لیے اور تبلیغ دین کے واسطے سے اس طبقہ کی خدمات حدیث اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

حضرت علی کی علمی خدمات

          آپ کا مبارک نام علی بن ابی طالب ہے۔ لقب اسداللہ اور اسد الرسول ہے۔ آپ جس طرح میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھاتے تھے، اسی طرح تصنیف وتالیف میں بھی اعلیٰ درجہ کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ خلافت فاروقی میں ایسے بہت سے مواقع آئے ہیں کہ جب خود حضرت عمر فاروق نے حضرت علی کی تعلمی تفہیم کو سراہا تھا، آپ کی علمی خدمات کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے کہ آپ لڑکوں میں سب سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے اور بچپن سے ہی دامن نبوت میں تعلیم وتربیت پائی، آپ کا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گوناگوں تعلق تھا، جس کی وجہ سے آپ کو تحصیل علم کے بہت سے مواقع حاصل ہوئے؛ کیوں کہ اگر بچپن میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلیم وتربیت کی سمت میں آگے بڑھے تو آغاز نبوت میں ہی آپ اسلام میں داخل ہوگئے، جس طرح مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق کو اسلام میں داخلے میں اولیت حاصل ہے، اسی طرح لڑکوں میں آپ کو اسلام میں داخلے میں پہلا مقام حاصل ہے اور جب آپ نے شباب کی منزل میں قدم رکھا تو آپ کو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے دامادی (مصاہرت) کا شرف حاصل ہوا اور جب غزوات کا دور شروع ہوا تو پوری دس سالہ مدنی دور نبوت میں آپ ہر غزوہ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔

          اس بناء پر آپ کو اقوال نبوی کے سننے، اعمال نبوی کو دیکھنے اور منشا نبوت کو سمجھنے کے نادر مواقع نصیب ہوئے، جس کی وجہ سے آپ کا علمی درجہ نہایت بلند ہوگیا اور آپ مختلف علوم میں امامت کے درجہ پر فائز ہوگئے۔ بعض علماء کے مطابق (صاحب تہذیب الاسماء) ”کان من العلوم بالمحلل العالی“ اور عبداللہ بن عباس کے مطابق علوم کے دس درجوں میں سے ۹درجہ حضرت علی کے پاس تھے اور دسویں درجہ میں بھی ان کا کچھ حصہ تھا۔ حتی کہ ایک روایت کے مطابق حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انا مدینة العلم وعلی بابھا“ آپ کی علمی صفات میں سب سے پہلی صفت آپ کا قرآن کریم کا حافظ ہونا ہے؛ حتی کہ آپ یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کریم کی کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے، جس کے متعلق مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ اس بارے میں کہاں اور کب نازل ہوئی۔ آپ کو قرآن کریم اور اس کے احکام ومسائل کے استنباط میں مہارت حاصل تھی، تفسیر کے مضمون میں بحرالعلوم یعنی عبداللہ بن عباس کے علاوہ آپ کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ نے قرآن کریم کی آیات اور سورتوں کے نزوال کے اعتبار سے ایک نسخہ تیار کیا جس کا تذکرہ ابن ندیم کی فہرست میں کیاگیا ہے۔

          علم حدیث سے آپ کو اتنا شغف تھا کہ آج بھی تقریباً ۶۸۵ روایات حدیث آپ کی جانب منسوب ہیں، جو مختلف کتب حدیث میں موجود ہیں۔ آپ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کے بعد ایک صحیفہ تیار کیا تھا، جس میں مختلف احکام ومسائل کے ساتھ ساتھ خطبہ حجة الوداع، حرمت حرمین شریفین وغیرہ کے احکام مندرج تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دو چیزوں یعنی قرآن کریم اور صحیفہ علی کے علاوہ کچھ نہیں لکھا۔ آپ کو علم فقہ اور افتاء میں اس درجہ مہارت حاصل تھی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی آپ ان چند لوگوں کی مبارک جماعت میں شامل تھے، جن کو دور نبوت میں ہی فتویٰ دینے کی اجازت حاصل تھی، جب اہل یمن نے اسلام قبول کیا تو آپ ہی کو سب سے پہلے یمن کا قاضی مقرر کیاگیا تھا۔ آپ کو علم قضا میں اتنی مہارت حاصل تھی کہ حضرات صحابہ میں اس میدان میں آپ کا کوئی ہمسر نہ تھا، جس کے نتیجہ میں زمان نبوت میں ہی آپ کو ”اقضٰھم علی“ کا خطاب ملا تھا۔ آپ کو علوم شریعت میں صرف وسعت ہی حاصل نہیں تھی؛ بلکہ اعلیٰ درجہ کی ذہانت ودقیقہ سنجی حاصل تھی۔ اصول وکلیات سے فروعی اور جزوی احکام بڑی آسانی سے اخذ کرلیتے تھے۔ اکثر وبیشتر مشکل مسائل میں صحابہ کرام آپ ہی کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر بذات خود امام ومجتہد ہونے کے باوجود آپ سے اکثر وبیشتر مسائل میں مشورہ کیاکرتے تھے، ایک بار حضرت عمر نے ایک پاگل زانیہ کو حد کی سزا دینی چاہی، تو حضرت علی نے سزا دینے سے روک دیا اور وجہ بتلائی کہ پاگلوں اور مجنونوں پر شریعت کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ موافقین تو آپ کی فقہ وافتاء کے مداح تھے ہی آپ کے مخالفین بھی شریعت کے معاملے میں آپ سے رجوع کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے، مثلاً امیر معاویہ جو چار پانچ سال تک آپ سے میدان جنگ میں اور میدان سیاست میں مدمقابل رہے وہ بھی آپ سے شرعی مسائل میں فتویٰ لیا کرتے تھے۔ فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعود جن کے تفقہ فی الدین کی بنیاد پر فقہ حنفی کا قصرعالیشان پچھلے سیکڑوں سالوں سے مسلمانوں کی شرعی حاجات کی تکمیل کررہا ہے، وہ بھی شرعی مسائل میں آپ سے رجوع فرمایا کرتے تھے۔ علم فرائض میںآ پ مدینہ کے ممتاز علماء میں شمار ہوتے تھے۔

          علم الفقہ ہی میں نہیں؛ بلکہ تزکیہ نفس کے سلسلے میں یعنی تصوف کے میدان میں بھی تمام سلاسل تصوف حضرت حسن بصری کے واسطے سے آپ (حضرت علی) پر ہی منتہی ہوتے ہیں، اس سلسلے میں حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت احمد قشاشی بھی اس دعوے کے اسباب میں شامل ہوتے نظر آتے ہیں۔

          علم ادب کے میدان میں بھی آپ کا کوئی ہمسر نہیں تھا۔ آپ فصحاء عرب میں شمار ہوتے تھے۔ خطابت (کلام وبلاغت) میں آپ حضرات صحابہ کرام میں صفِ اوّل کے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جیساکہ بہت سے خطبات سے ظاہر ہے․․․․․․․․․․

          آپ کو اشعار سے بھی کافی شغف تھا؛ لیکن گوناگوں مشغولیات کی وجہ سے خاص طور سے دور نبوی میں غزوات کی مشغولی اور دور خلافت میں خلافت کی مشغولی اور مخالفین کی مخالفت کی وجہ سے اس میدان میں نمایاں طور سے ظاہر نہ ہوسکے؛ البتہ آپ سے منسوب ایک دیوان ملتا ہے؛ لیکن اشعار اس کے اتنے غیر معیاری ہیں کہ آپ جیسے فصیح اللسان عالی مرتبت لوگوں کی طرف ان کو منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے اشعار کا ایک نمونہ غزوہٴ خیبر کے رجز کی شکل میں بخاری شریف میں موجود ہے۔

          فن لسان اللغات میں آپ صرف ونحو کے امام سمجھے جاتے ہیں۔ آپ نے مدینہ کے ایک بزرگ حضرت ابوالاسود دولی کو چند اصول بتلائے تھے، جن کو اس نے ترقی دے کر علم نحو کو مکمل فن کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ شیعہ حضرات کے مطابق نہج البلاغة آپ کی علمی خدمات، مواعظ حسنہ پر مبنی مشہور ومعروف کتاب ہے جس کے مرتب علامہ شریف رضی ہیں۔

حضرت فاطمہ کی علمی خدمات

          رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ تھیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد آپ کی زندگی میں ہی وفات پاچکی تھیں، صرف حضرت فاطمہ ہی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ۶ مہینے بعد تک زندہ رہیں۔ حضرت فاطمہ نکاح سے پہلے بھی اور نکاح کے بعد بھی آپ ہی کے قرب وجوار میں رہیں۔ علم فقہ کے میدان میں بھی آپ کی خدمات مسلم ہیں؛ لیکن حدیث شریف میں آپ کی زیادہ روایات موجود نہیں ہیں۔ قاضی عبدالصمد صارم کے مطابق حضرت فاطمہ الزہراء کی ۱۸ روایات مختلف کتب حدیث میں مذکور ہیں۔

حضرت حسن کی علمی خدمات

          حضرت حسن بن علی، حضرت فاطمہ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو اس وقت حضرت حسن بن علی کی عمر تقریباً ۸ سال تھی۔ اس قلیل مدت میں بھی آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریباً ۱۳ روایات حدیث یاد کرلی تھی، جو آج تک کتب حدیث میں موجود ہیں۔ مثلاً فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اپنے منہ میں رکھ لی، جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھجور کھاتے دیکھا تو فوراً کخ کخ کرکے میرے منہ سے نکال لی اور یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یعنی آل رسول کو صدقہ کا مال کھانے سے منع کردیا ہے۔

حضرت حسین کی علمی خدمات

          حضرت حسین بن علی حضرت فاطمہ کے دوسرے بیٹے ہیں جن کی عمر شریف رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تقریباً ۷ سال تھی۔ آپ سے اتنی کم عمری میں تقریباً ۸ روایات مختلف کتب حدیث میں مذکور ہیں۔

طبقہ ثالثہ

حضرت عباس بن عبدالمطلب کی علمی خدمات

          آپ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ آپ غزوہ بدر کے بعداسلام میں داخل ہوئے، باطنا آپ مکی دور میں ہی مسلمان ہوگئے تھے، آپ سے حدیث شریف کی ۳۵ روایات مذکور ہیں۔

عبداللہ بن عباس کی خدمات

          آپ حبرالامت کہلاتے ہیں۔ آپ علم تفسیر میں کمال رکھتے تھے۔ حضرت علی کے علاوہ کوئی آپ کا اس میدان میں ہمسر نہیں تھا۔ آپ تفقہ فی الدین کی وجہ سے حضرت عمر کے یہاں آپ کا خاص مقام تھا۔ حالانکہ آپ عمر میں چھوٹے تھے؛ لیکن پھر بھی آپ کی فہم وفراست کی وجہ سے آپ کو حضرت عمر اجلہٴ صحابہ میں جگہ دیتے تھے۔ آپ سے حدیث کے سلسلے میں ۱۶۶۰ احادیث کی روایات کی گئی ہیں۔ آپ کی تفسیر، تفسیر ابن عباس کے نام سے مشہور ہے، جس کے الفاظ تفسیر کی مختلف کتب میں پائے جاتے ہیں۔

حضرت ام ہانی

          آپ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپی تھیں۔ رشتہ دار ہونے کی وجہ سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کے بہت سے مواقع نصیب ہوئے، آپ سے حدیث شریف میں تقریباً ۴۶ روایات منقول ہیں۔ ایک روایت اس طرح سے ہے کہ آپ نے ایک بار رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ یا رسول اللہ! میں بہت بوڑھی ہوگئی ہوں زیادہ عبادت وغیرہ نہیں کرسکتی، آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتادیجیے جس کو آسانی سے انجام دے سکوں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ روزانہ (۱۰۰) سوبار سبحان اللہ کہہ لیاکرو، اس کا ثواب اتنا ہے کہ جیسے کسی نے اللہ کے راستے میں ۱۰۰ اونٹ قربان کیے ہوں اور وہ سب قبول ہوگئے ہوں۔ ۱۰۰ بار الحمدللہ کہہ لیا کرو اس کا ثواب اتنا ہے کہ جیسے کسی نے ۱۰۰ گھوڑے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے دیے ہوں اور وہ قبول ہوگئے ہوں اور ۱۰۰ بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو اس کا ثواب اتنا زیادہ ہے جیساکہ کسی نے ۱۰۰ غلام اللہ کے لیے آزاد کیے ہوں اور ۱۰۰ بار لا الہ الا اللہ کہہ لیا کرو اس کا ثواب تو زمین وآسمان کے درمیان کے خلاء کو پر کردیتا ہے۔

عبداللہ بن جعفر

          آپ حضرت جعفر بن ابی طالب کے بیٹے ہیں۔ آپ کے والد محترم غزوہٴ موتہ میں شہید ہوگئے تھے، اس وقت حضرت جعفر کی عمر ۳۳ سال تھی۔ حضرت عبداللہ بن جعفر اس وقت بچے ہی تھے۔ اس لیے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کا زیادہ موقع نہیں ملا؛ لکن پھر بھی آپ سے ۲۵ روایات حدیث منقول ہیں۔

***

حوالہ وحواشی

 

(۱)            قرآن کریم۔

(۲)            مشکوٰة شریف۔

(۳)           حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا: فضائل اعمال (حکایت صحابہ) باب: ۱۱۔

(۴)           حافظ فروغ حسن: ازواج مطہرات، اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی۔

(۵)           مفتی محمد شفیع: معارف القرآن۔

(۶)            فاروق خاں: حدیث کا تعارف۔

(۷)           مولاناابوالاعلیٰ مودودی: تفہیم القرآن۔

(۸)           دائرة المعارف الاسلامیہ (اردو)

 

رسائل

(۱)            تہذیب الاخلاق                مدیر           پروفیسر ابوالکلام قاسمی

(۲)            فکر ونظر                       مدیر           مولانا احمد حبیب

(۳)           تحقیقات اسلامی، علی گڑھ       مدیر           سید جلال الدین عمری

***

--------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3-4 ‏، جلد: 96 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ‏، اپریل 2012ء