صحیحین اور جامع ترمذی کے نام

اور صحیح بخاری کے نسخوں کا ذکر (۲/۲)

از: مولانا محمد شوکت علی بھاگلپوری‏،  شیخ الحدیث دارالعلوم سعادت دارین، بھروچ

 

صحیح مسلم کا نام

          امام مسلم کی جامع صحیح مصر، شام، ہندوستان، ترکی، اور عرب کے بہت سے مغربی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں چھپ چکی ہے؛ لیکن تعجب ہے کہ آج تک کسی مطبوعہ نسخہ کے سرورق پر امام مسلم بن الحجاج القشیری النیسابوری کا رکھا ہوا نام طبع نہ ہوسکا ”صحیح بخاری“ اور ”جامع ترمذی“ کی طرح ”صحیح مسلم“ کا اصل نام بھی آج تک علماء اور طلبہ کی نگاہوں سے اوجھل ہے؛ جو کتاب کے تعارف اور مضمون کتاب سے واقفیت کے سلسلے میں بہت بڑا نقص وعیب ہے، اس لیے کتب خانوں اور مطابع کے ذمہ داروں سے گذارش ہے کہ آئندہ چھپنے والے نسخوں میں اس کا تدارک کریں اور کتاب کے شروع میں صحیح مسلم کا اصل اور پورا نام چھاپ کر طالبین کی معرفت، ان کے اعتماد، کتاب کی عظمت اور اس کی قدر وقیمت کو بڑھائیں؛ تاکہ قارئین کے ذہنوں میں نام پر نگاہ پڑتے ہی کتاب کے وہ مضامین راسخ ہوجائیں جو تالیف کتاب کے وقت موٴلف کے پیش نظر رہے ہیں، اور انھیں خاکوں کو سامنے رکھ کر کتاب کے طویل نام رکھے ہیں۔

          اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج تک مسلم شریف کی جو شروحات علماء کے یہاں رائج وعام ہیں؛ جیسے امام مازری، قاضی عیاض، علامہ ابن الصلاح، ابوالعباس قرطبی، علامہ اُبِیّ، شیخ سنوسی اور شیخ عابد سندھی وغیرہ کبار علماء کی شروحات صحیح مسلم، اُن میں بھی کہیں اس کتاب کا اصل نام درج نہیں ہے، جس کی وجہ بظاہر اس کے سوا کچھ نہیں معلوم ہوتی کہ ان حضرات نے لفظ صحیح کو اصل نام کے قائم مقام سمجھ لیا ہے؛ اس لیے پورا نام بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتے، تاہم بعض تذکرہ نویسوں، سوانح نگاروں اور ماہرین رجال نے اپنے اَثْبات وفہارس میں صحیح مسلم کا پورا نام بھی بیان کیاہے، (فجزاھم اللہ عَنَّا وَعَنْ جمیعِ الأمةِ فی الدارین خیر صلى الله عليه وسلم)

          (۱) چنانچہ محدث کامل صاحب ضبط واتقان حافظ ابوبکر محمد بن خیرالاشبیلی المتوفی ۵۷۵ھ نے اپنی کتاب ”فِہْرِسْتُ ما رواہُ عن شیوخہ“ میں صحیح مسلم کا پورا نام ”المُسنَدُ الصحیح المختصر من السنن بنقل العدل عن العدل عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ تحریر کیا ہے۔

          (۲) اور قاضی عیاض نے اپنی کتاب ”مَشَارِقُ الْاَنْوَارِ عَلٰی صِحاحِ الآثار“ اور ”الغُنیة“ میں صحیح مسلم کا یہی نام معمولی اختصار کے ساتھ ”المسندُ الصحیحُ المختصرُ بِنَقْلِ العَدْلِ عن العدل عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ ذکر فرمایا ہے۔ اس میں ”من السنن“ کا لفظ نہیں ہے۔

          (۳) اور ا مام عبدالحق بن غالب بن عطیہ الاندلسی (المولود: ۴۷۱ھ، المتوفی: ۵۴۱ھ) نے ”فہرستُ ابنِ عطیہ“ میں صحیح مسلم کا نام ”المسند الصحیح بنقل العدل عن العدل عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ تحریر فرمایا ہے، اس میں امام ابن عطیہ اندلسی نے اپنے شاگرد رشید حافظ ابن خیر اشبیلی کے بیان کردہ نام کے مقابلے میں اختصار سے کام لیتے ہوئے ”المختصر من السنن“ کالفظ ذکر نہیں کیاہے، جس سے اصل نام میں نقص پیدا ہوگیاہے۔

          (۴) حافظ علائی نے بھی اپنے اساتذہ اور مرویات کی یادداشت کے سلسلے میں مرتب کردہ کتاب ”اِثارَةُ الفَوائدِ المجموعة فی الاشارةِ الی الفرَائدِ المَسْمُوعة“ میں صحیح مسلم کا بعینہ یہی نام ”المسندُ الصحیحُ بنقلِ العدلِ عن العدل عن رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ لکھا ہے، موصوف نے بھی اختصار سے کام لیتے ہوئے امام ابن عطیہ ہی کی طرح ”المختصر من السنن“ کو نام میں شامل نہیں کیاہے۔

          تلاش وجستجو سے کتابوں میں صحیح مسلم کے یہی تین نام مل پائے ہیں جو خاصے طویل ہیں، ورنہ تو عام طور پر سوانح نگار اکابر مصنّفین اس کتاب کا نام صرف ”المسند الصحیح“ لکھتے ہیں، جیساکہ حافظ ذہبی نے ”سِیَرُ الاعلامِ النّبلاء“ اور ”تذکرة الحفاظ“ میں، حاکم نے اپنی کتاب ”تَسمِیَةُ مَن اخرجھم البخاری والمسلم“ میں، حافظ ابن مَنْجُوْیَہ الاصفہانی (المولود: ۳۴۷ھ المتوفی: ۴۲۲ھ) نے ”رجال صحیح مسلم“ میں، ابن الصلاح نے ”صیانة صحیح مسلم“ میں، امام نووی نے ”مُقَدَّمَہ شرح صحیح مسلم“ میں، محمد بن جابر الاندلسی (المولود: ۶۷۳ھ المتوفی ۷۵۹ھ) نے ”برنَامَجُ الوادی آشی“ میں،اور احمد بن علی البَلَوِی الوَادِیْ آشِی المتوفی: ۹۳۸ھ نے اپنی کتاب ”ثَبَتُ البَلَوِیْ“ میں تحریر کیا ہے۔ حتی کہ حافظ خطیب بغدادی المولود: ۳۹۲ھ المتوفی ۴۶۳ھ) نے اپنی کتاب ”تاریخ بغداد“ میں امام مسلم کے حالات کے ضمن میں یہاں تک تحریر فرمایا ہے کہ خود مصنف کتاب نے بھی اس کا نام ”المُسندُ الصحیح“ رکھا ہے،خطیب نے امام مسلم کا قول ان الفاظ میں نقل کیاہے ”صنَّفتُ ھذا ”المسندَ الصحیح“ من ثلاثِ مائة الفِ حدیثٍ مَسْمُوْعَةٍ“ کہ میں نے اپنی اس کتاب ”المسند الصحیح“ کو تین لاکھ سنی ہوئی حدیثوں میں سے منتخب کرکے لکھا ہے، بظاہر اس اختصار کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ پورا نام ذکر کرنے کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے ان اکابر محدثین اور خود مصنف نے بھی نام کا صرف شروع حصہ ذکر کرنے پر اکتفا کیاہے؛ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بات یہ ہے کہ مصنف بعض جگہ تو نام کا صرف پہلا لفظ ”المسند“ ہی ذکر کرتے ہیں، حافظ ابن الصلاح نے ”صیانة صحیح مسلم“ میں اور امام نووی نے ”مقدمہ شرح صحیح مسلم“ میں اس کی مثال میں امام مسلم کے تین قول پیش کیے ہیں جو درج ذیل ہیں:

          (۱)     فَقَالَ مَا وَضَعْتُ سَیئاً فِی ھٰذَا ”الْمُسْنَدِ“ اِلا بِحُجَّةٍ

          (۲)     وَقَالَ اَیْضاً عَرَضْتُ کِتَابِی ھٰذَا ”الْمُسْنَدَ“ عَلٰی اَبِی زُرْعَةَ الرَّازِیِّ

          (۳)     وَقَالَ ایضاً لو اَنَّ اھل الحدیثِ یکتبونَ مئتَیْ سنةٍ الحدیثَ فَمدارھم علی ھذا ”المسند“ یعنی المسند الصحیح

          ان تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ صحیح مسلم کے نام میں ”الجامع“ کا لفظ نہیں ملتا؛ البتہ حافظ ابن حجر نے ”تہذیب التہذیب“ میں اور علامہ محمد کتّانی نے ”الرسالة المستَطْرَفَہ“ میں اس کتاب کا ذکرصرف ”الجامع“ کے نام سے، اور ملا علی قاری نے ”مرقاة شرح مشکاة“ میں، اور حاجی خلیفہ چلپی نے ”کشف الظنون“ میں اور ”ھدیة العارفین“ میں ”الجامع الصحیح“ کے نام سے ذکر کیاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان حضرات نے محض شہرت کی بنیاد پر کتاب کے مضامین اور مندرجات واوصاف کو دیکھتے ہوئے اصطلاح محدثین کے پیش نظر صحیح مسلم کو جامع کہہ دیا ہے، اسم علم کے طور پر نہیں؛ کیوں کہ علماءِ حدیث کی تصریح کے مطابق صحیح مسلم بہرحال جامع ہے، جامع حدیث کی اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں آٹھ طرح کے مضامین ہوں، درج ذیل شعر میں ان سب کا اجمالی ذکر ہے۔

سِیَرٌ، آدابٌ تَفسیرٌ وعقائدُ

فتنٌ ، احکامٌ ، اشراطٌ ومناقبُ

          صحیح مسلم میں یہ آٹھوں مضامین موجود ہیں؛ اس لیے اس کے جامع ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی (المولود: ۱۱۵۹ھ المتوفی: ۱۲۳۹ھ) اپنی کتاب ”العُجَالَةُ النَّافِعَة“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم میں بہت سے مضامین وعلوم وافر مقدار میں موجود ہیں، مگر اس میں تفسیر و قرأت کی احادیث نہیں ہیں؛ اس لیے یہ جامع نہیں ہے، اکابر محدّثین وعلماء شاہ صاحب رحمہ اللہ کی بات کو خلافِ حقیقت قرار دیتے ہیں، ایک تو اِس لیے کہ حافظ ابن حجر، علامہ مجدالدین صاحب القاموس، ملا علی قاری اور حاجی خلیفہ چلپی وغیرہ محققین علماء کی جماعت نے اس کو جامع کہا ہے، دوسرے اس لیے کہ تفسیر و قرأت کی احادیث گو قلیل ہی سہی مگر صحیح مسلم میں موجود ہیں؛ اِس لیے اس کے جامع ہونے میں شبہ نہیں۔

صحیح مسلم میں احادیث تفسیر کم کیوں ہیں؟

          رہی یہ بات کہ صحیح مسلم میں تفسیر کی روایات کم کیوں ہیں؟ تو اس کی کئی وجوہات ہیں:

          (۱) امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں مسند و مرفوع احادیث کا التزام کیا ہے اور تفسیر کے باب میں ایسی احادیث کم ہیں۔

          (۲) جو حدیثیں ان کی شرائط کے مطابق نہیں ہوتیں مصنف ان کو اس کتاب میں درج نہیں کرتے۔

          (۳) جس مضمون کی حدیث کسی جگہ ذکر کرتے ہیں، اس کے متعلق تمام احادیث کو ایک ہی جگہ جمع کردیتے ہیں، پھر دوسری جگہ اس کو نہیں لاتے، تکرار سے بے انتہاء پرہیز کرتے ہیں (الا ماشاء اللہ) تفسیر سے متعلق احادیث مرفوعہ مسندہ کا بھی یہی حال ہے کہ امام نے ان روایات کو شدّتِ مناسبت کی بناء پر مختلف تراجم کے تحت پوری کتاب میں پھیلادیا ہے، اگر اُن سب کو جمع کیا جائے تو تفسیر کا اچھا خاصا ذخیرہ ہوجائے گا۔

          (۴) احادیثِ مرفوعہ مقطوعہ، آثارِ صحابہ وتابعین اورائمہ لغت کے اقوال جن کو امام بخاری اور امام ترمذی رحمہما اللہ اپنی جوامع میں نقل کرتے ہیں امام ان سے حددرجہ اجتناب کرتے ہیں، یہ ہیں وہ وجوہات جن کی بناء پر مسلم شریف میں تفسیر وقرأت کی روایات کم معلوم ہوتی ہیں۔

          اب رہ جاتا ہے یہ سوال کہ کیا صحیح مسلم کے نام کے ساتھ جامع کا لفظ شامل کیا جائے گا یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ محدثین کرام کے یہاں صحیح مسلم جامع سے معروف ومشہور ہے، اگر نام کے ساتھ یہ لفظ نہ لکھا جائے تو کسی کو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ شاید یہ کوئی اور کتاب ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ نام کے شروع میں جامع کا لفظ لکھا جائے؛ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی کہ خود مصنف نے نام کے ساتھ جامع کا لفظ شامل نہیں کیا ہے، اس لیے اصل نام کی حفاظت وبقاء کا تقاضہ یہ ہے کہ جامع کا لفظ نام کے ساتھ نہ لکھا جائے؛ ہاں اس تشخص کے لیے کہ یہ کوئی اورکتاب نہیں ہے، سرورق کے ماتھے پر ”جامع مسلم“ کا لفظ لکھ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ (ھذاما عندی والعلم عند اللہ)

صحیح مسلم کے رواة

          صحیح مسلم کی روایت کا سلسلہ تین اکابر سے چلا ہے، جن میں سے دو امام مسلم کے شاگرد ہیں اور ایک امام مسلم کے شاگرد ابراہیم کے شاگرد ہیں:

          (۱) امام مسلم رحمہ اللہ کے خاص الخاص شاگردِ رشید اپنے زمانے کے بڑے فقیہ اور عابد وزاہد جن کے ہونہار ہونے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ حضرة الامام نے انھیں کے لیے صحیح مسلم کی قرأت شروع کی تھی، جس سے رمضان ۲۵۷ھ میں فراغت ہوئی تھی اور انھیں کی روایت سے صحیح مسلم کو شہرت ومقبولیت نصیب ہوئی، یہ ہیں شیخ ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن سفیان النیسابوری المتوفی: ۳۰۸ھ۔

          (۲) بلاد مغرب میں ایک اور شاگرد جن سے صحیح مسلم کی روایت کی گئی ہے، شیخ ابومحمد احمد بن علی القَلاَنِسِی ہیں، موصوف کی روایت کا سلسلہ صرف بلادِ مغرب تک محدود رہا، ان کی روایت کو وہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکی، جو شیخ ابراہیم کی روایت کو حاصل ہوئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ قَلاَنِسِی کو صحیح مسلم کے آخری تین اجزاء کا سماع براہِ راست امام مسلم سے حاصل نہیں؛ بلکہ ان اجزاء کا سماع ابراہیم کے شاگرد ابواحمد جَلُوْدی سے ہے۔

          (۳) تیسرے بزرگ جن سے مسلم شریف کی روایت چلی ہے، وہ شیخ ابراہیم کے شاگرد ابواحمد محمد بن عیسیٰ بن محمد بن عبدالرحمن بن عَمْرُوَیْہ بن منصور الزاہد النیسابوری الجَلُوْدی (بضم الجیم وفتحہ) المتوفی: ۲۴/ذی الحجہ ۳۶۸ھ الثلاثاء ہیں، ۸۰ سال کی عمر میں وفات ہوئی موصوف کی وفات سے صحیح مسلم کے سماع کا سلسلہ ختم ہوگیا، ان کے بعد جن لوگوں نے بھی شیخ ابراہیم سے سماع کی بات کہی ہے وہ غیر ثقہ ہیں۔ (دیکھئے مقدمہ شرح صحیح مسلم للنووی)

جامع ترمذی کا نام

          امام ترمذی رحمہ اللہ کی جامع بھی حدیث پاک کی مشہور ومقبول ترین کتابوں میں سے ایک ہے، جس کے بلاد مصر وشام اور ہند وسندھ وغیرہ سے لاکھوں لاکھ نسخے چھپ کر علماء اور طلباء کے ہاتھوں میں پہنچ چکے ہیں، مگر صحیحین ہی کی طرح ؛ بلکہ اس سے کئی گنا بڑھ کر اس کتاب کے نام کے بارے میں بھی لاپروائی کا معاملہ کیاگیا، آج تک کسی بھی مطبوعہ نسخے کے شروع میں امام ترمذی رحمہ اللہ کا رکھا ہوا اصل اور پورا نام نہیں چھپ سکا، دنیاجانتی ہے کہ شیخین نے صحیحین میں صرف احادیث صحیحہ کو جمع کرنے کا اہتمام فرمایا ہے؛ اس لیے اگر صحیحین کا اصل نام کسی کو نہ معلوم ہو تواس میں کوئی حرج نہیں، مقصد حاصل ہوجائے گا، جامع ترمذی کا معاملہ الگ ہے، اس میں صحیح وضعیف، مرفوع ومقطوع ہر طرح کی حدیثیں حسب مقصد جمع کی گئی ہیں، اور اسی اعتبار سے موٴلف رحمہ اللہ نے اس کا نام بھی رکھا ہے، ایسی صورت میں جامع ترمذی کا اصل نام معلوم نہ ہونا طلبہ کے ذہنوں پر بڑا خراب اثر ڈالے گا؛ کیوں کہ نام کے بغیر بنیادی مضامین کی طرف ذہن کی رسائی مشکل ہے، غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جب نام معلوم نہ ہونے کا اثر اتنا خراب ہے، تو پھر کتاب کے سرورق پر مضامین کتاب کے خلاف نام یا غلط نام لکھنے کا کتنا خراب اثر پڑے گا، غضب کی بات ہے کہ جامع ترمذی کے مطبوعہ قاہرہ پھر مطبوعہ بیروت کے سرورق پر کتاب کا نام ”صحیح الترمذی بشرح الامام ابن العربی“ چھپا ہوا ہے؛ جبکہ یہ نام غلط ہے، بھلا جب اس کتاب میں ضعیف ومعلول ہر طرح کی احادیث ہیں، تو پھر اس کا نام صحیح کیسے ہوسکتا ہے،اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ جیسے محقق ونقَّاد عالم اور محدث کامل جنھوں نے جامع ترمذی کے متن کی تحقیق اور اس کی شرح میں وقیع و گراں قدر خدمت انجام دی ہے، انھوں نے بھی اپنی شرح ترمذی کے شروع میں اس کتاب کا نام ”الجامع الصحیح وہو السنن الترمذی“ لکھاہے، جہاں تک اس نام کے جزء ثانی ”سنن الترمذی“ کی بات ہے، تو مضامین و مندرجات کتاب کی طرف نظر کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے، جیساکہ بہت سے اَثبات وفہارس وغیرہ میں اس کتاب کو سنن کہا گیاہے۔

          حیرت ناک بات یہ ہے کہ جس طرح قدیم محدثین اور تذکرہ نگاروں نے اپنی اپنی کتابوں میں امام ترمذی رحمہ اللہ کی سوانح تحریر کی، اور امام موصوف کی علمی خدمات کا وقیع انداز میں تذکرہ کرکے انھیں خراج تحسین پیش کیاہے، جیسے حافظ مِزّی، نے ”تھذیب الکمال“ میں، حافظ ذہبی نے ”میزان الاعتدال“ اور ”سِیَرُاعلام النُّبَلاء“ میں، حافظ ابن حجر نے ”تھذیب التھذیب“ میں، حاجی خلیفہ چلپی نے ”کشف الظنون عن أسامی الکتب والفنون“ میں، اور شیخ محمد بن جعفر الکتّانی نے اپنی کتاب ”الرسالةُ المُستَطْرَفَةُ لبیان کُتُبِ السُّنَّةِ الْمُشَرَّفَةِ“ میں؛ مگر ان میں سے کسی نے بھی جامع ترمذی کا اصل نام بیان نہیں کیا، ان حضرات کے طرزِ عمل نے کتاب کے نام کو مزید پردئہ خفا میں ڈال دیاہے۔

          ٹھیک اسی طرح ماضی قریب کے محققین، شراح،اور مختلف جہات سے جامع ترمذی کی خدمت کرنے والے اکابر علماء ومحدثین: جیسے شارح ترمذی حضرت مولانا یحییٰ کاندھلوی، انکے فرزندِ ارجمند حضرت شیخ زکریا کاندھلوی، علامہ عبدالرحمن مبارک پوری، علامہ محمد یوسف بَنُورِی، شیخ احمد شاکر، شیخ احمد مَعْفَد، دکتور نورالدین عِتْر، دکتور اکرم الغمَرِی، شیخ ناصرالدین البانی وغیرہ مشائخ کرام نے بھی اپنی اپنی شروحات، تحقیقات، مقالات اور کتابوں میں کہیں ایک بار بھی جامع ترمذی کا پورا اور صحیح نام درج نہیں فرمایا، جس کی بنا پر کتاب کا اصل نام پوشیدہ سے پوشیدہ تر ہوگیا ہے،اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ نام طویل ہونے کی وجہ سے ان حضرات نے ایسے مختصر نام کو کافی سمجھا، جس سے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ فلاں کتاب ہے اور بس، لیکن یہ عذر اس وقت قابلِ قبول گردانا جاتاہے جب کسی کتاب کا حوالہ یا اس کتاب کا اقتباس بارہا نقل کرنا ہو؛ کیوں کہ بار بار پورا نام ذکر کرنا حرج کا باعث ہوتا ہے؛ مگر جب کسی کتاب اور اس کے مصنف کا تعارف کرانا مقصود ہوتو اس وقت مصنف کا وضع کردہ پورا نام بیان کرنا ضروری ہوتا ہے؛ تاکہ کتاب کے مضامین اوراس کے نہج وانداز کا اچھی طرح تعارف ہوجائے، ایسے وقت میں اختصار کا عذر مسموع نہیں ہوتا۔ (واللہ اعلم بالصواب)

          تاہم مقام مسرت ہے کہ حافظ ابن خیرالاشبیلی رحمہ اللہ المتوفی: ۵۷۵ھ نے اپنی کتاب ”فِھْرِسْتُ مَا رَواہُ عن شُیُوخِہِ“ میں صحیحین کی طرح جامع ترمذی کا بھی اصل اورپورا نام تحریر فرماکر طلبہ پر احسان عظیم فرمایا ہے، موصوف تحریر فرماتے ہیں کہ جامع ترمذی کا اصل اور پورا نام ”الجَامِعُ الْمُخْتَصَرُ مِنَ السُّنَنِ عَن رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومَعْرِفَةُ الصَحِیْحِ وَالْمَعْلُوْلِ وَمَا عَلَیْہِ العَمَلُ“ ہے۔

          شیخ عبدالفتاح ابوغُدّہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ”تحقیق اسمی الصحیحین واسم جامع الترمذی“ (ص:۵۵-۵۷) میں تحریر فرماتے ہیں کہ البنک الاسلامی کی دعوت پر موٴرخہ ۲۴/۴/۱۴۱۱ھ کی کانفرنس میں شرکت کے لیے میرا جدہ جانا ہوا، تو وہاں میری ملاقات عصر حاضر کے ایک بالغ نظر فاضل دکتور محمد مصطفی الاعظمی سے ہوئی، ان کے ساتھ دیر تک علمی مذاکرہ رہا، دوران گفتگو موصوف سے میں نے عرض کیا کہ کتب ستہ پر نئے سرے سے کام کرنے اور ان کو تحقیقات کے ساتھ دور حاضر کے تقاضہ کے مطابق نئے لباس میں صحیح ناموں کے ساتھ چھپوانے کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ آج کل ہمارے فضلاء وطلبہ صحیح بخاری، صحیح مسلم،اور جامع ترمذی جیسی عظیم ومعروف کتابوں کے نام تک سے ناواقف ہیں، حد یہ ہے کہ جامع ترمذی کے بعض مطبوعہ نسخوں کے شروع میں ایسے نام چھپے ہوئے ہیں، جو مضامین کتاب سے قطعاً میل نہیں کھاتے ہیں، ناچیز نے فاضل موصوف سے یہ بھی عرض کیا کہ ”الاسناد من الدین“ کے نام سے میں نے ایک رسالہ لکھ کر ایک سال قبل ایک مطبع والے کو دیا ہے، اس میں تحقیق کرکے جامع ترمذی کا اصل نام ”الجامِعُ المُختصَرُ من السننِ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومعرفةُ الصّحِیْحِ والمَعْلُوْلِ وَمَا عَلَیْہِ العَمَلُ“ لکھاہے، اور اپنے ساتھ موجود تصحیح کے لیے آیا ہوا پروف ان کو دکھایا، موصوف نے کہاکہ میرے پاس جامع ترمذی کا ایک قدیم مخطوطہ ہے،اس کے شروع میں اس کتاب کا یہی نام درج ہے جوآپ نے تحریر کیا ہے، مجھے بڑی مسرت ہوئی، میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ مجھے اس مخطوطہ کے نام والے صفحہ کا زیراکس ارسال فرمادیں تو آپ کا بڑا کرم ہوگا، میں اس کو اپنے اس رسالے کے اخیر میں اپنی تحقیق کی تائید وتقویت اور ناظرین کے ملاحظہ کے لیے چھپوادوں گا؛ چنانچہ موصوف نے اپنے مقام پر پہنچ کر جامع ترمذی کے دو قدیم مخطوطہ نسخوں کے سرورق کا عکس ارسال فرمایا، دونوں کے شروع میں جامع ترمذی کا یہی نام لکھا ہوا ہے، اس لیے مطابع اور کتب خانے کے مالکان سے ہماری دردمندانہ گزارش ہے کہ وہ حضرات آئندہ چھپنے والے ترمذی شریف کے شروع میں کتاب کا پورا اور اصل نام چھاپیں؛ تاکہ فضلاء کرام کو کتاب کی عظمت واہمیت اور اس کے مشمولات ومندرجات کا صحیح اندازہ ہوسکے۔

جامع ترمذی کے رُواة

          جامع ترمذی کے مشہور شارح علامہ سید سُلَیْمان الدِّمْنَتِیْ اَلْجَمْعَوِی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”نَفْعُ قُوْتِ الْمُغْتَذِی علی جامعِ التِّرمذی“ کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ حافظ ابوجعفر ابن الزبیر اپنے ”برنامج“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ جامع ترمذی کو صاحبِ کتاب سے چھ حضرات روایت کرتے ہیں، جن کے نام حسب ذیل ہیں:

          (۱)      ابوالعباس محمد بن احمد بن محبوب بن فضیل المحبوبی المروزی المتوفی: ۳۴۶ھ

          (۲)      ابوسعید الہثیم بن کُلَیب بن شُرَیْح بن مَعْقِل الشاسی محدث ماوراء النہر المتوفی ۳۳۵ھ

          (۳)     ابوذر محمد بن ابراہیم

          (۴)     ابومحمد الحسن بن ابراہیم القطان

          (۵)      ابوحامد احمد بن عبداللہ التاجر

          (۶)      ابوالحسن الفزاری

(دیکھئے مقدمہ نفع قوت المعتذی اور مقدمہ الکوکب الدری،ص:۳۱)

***

---------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3-4 ‏، جلد: 96 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ‏، اپریل 2012ء