رہنمائے تدریس وتحقیق

(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فارسی رسالہ ”فن دانشمندی“ کا اردو ترجمہ)

ترجمہ: مولانا مدثر جمال تونسوی‏، (فاضل جامعہ دارالعلوم، کراچی)

 

          عصر حاضر میں مختلف علمی موضوعات پر تحقیقات اور تعلیمی اداروں میں تدریس وتعلیم کے اصول وضوابط ایک مستقل فن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور ”اصول الدارسة والتحقیق“ کے نام سے اس موضوع پر عربی اور انگلش میں بہت کچھ جب کہ اردو میں بہت کم اس موضوع پر لکھا گیا ہے ۔ تدریس وتحقیق میں ان اصول وضوابط کی رعایت رکھنا نہ صرف مفید ہے؛ بلکہ تعلیمی وتحقیقی معیار کو بہتربنانے اور کوئی بھی عملی کام مستند،قابل اعتماد اور اقوام عالم سے منوانے کے لیے ان کی رعایت رکھنا ناگزیر ہے۔ اس فن نے مستقل حیثیت کب اختیار کی ؟اس بارے میں حتمی طور سے کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ البتہ ہمارے برصغیر میں اس فن کو مستقل حیثیت سے مدون ومرتب کرنے کا اعزاز مسند الہند حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ کو حاصل ہے۔ جس طرح شاہ صاحب کو”فن حکمت شرعیہ“کے ضبط وتدوین کا شرف امتیاز حاصل ہے اور اس فن میں” حجة اللہ البالغہ“ جیسی شاہکار کتاب تصنیف فرمائی ہے۔ اسی طرح فن ”اصول الدراسة والتحقیق“ کو باقاعدہ مرتب کرنے کا اعزازو شرف امتیاز بھی شاہ صاحب کو حاصل ہے ۔

          اس موضوع پر ”فن دانشمندی“ کے نام سے فارسی میں ایک مختصر مگر انتہائی مفید وجامع رسالہ تصنیف کیا ہے۔ یہ رسالہ پانچ صفحات پر مشتمل ہے اور ولی اللہی علوم وافکار کے نامور محقق حضرت صوفی عبدالحمید سواتی نوّر اللہ مرقدہ نے حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کی کتاب”تکمیل الاذہان“کے ساتھ آخر میں طبع کرایا ہے۔اس طرح ہمارے علم کے مطابق اس”فن“ کو سب سے پہلے حضرت شاہ صاحب نے مدون کیا؛ بلکہ خود حضرت شاہ کی ابتدائی عبارت جو آگے آرہی ہے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے یہ فن دیگر فنون کے ساتھ خلط ہو چکا تھا اور خود شاہ صاحب کے دل میں یہ ارادہ ہوا کہ اسے باقاعدہ علیحدہ سے مدون کیا جائے۔ یہ مختصر رسالہ انتہائی مفید اور علم وحکمت کا خزینہ ہے۔

           ذیل میں اپنے طالب علم بھائیوں کے لیے اس کا آسان اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے ۔ اگرچہ بعض مقامات ترجمہ سے کماحقہ حل نہیں ہوئے؛ بلکہ ان کی توضیح وتشریح ضروری ہے مگر اہل علم اور ذی استعداد حضرات پھر بھی اس سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے فی الحال محض ترجمہ ہی پیش کیا جا رہا ہے؛ کیونکہ یہ ضرب المثل توآپ نے سنی ہوگی :

          مالا یدرک کلہ لایترک کلہ

آغازترجمہٴ رسالہ”فنِ دانشمندی“(فارسی)از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

          الحمدُ للہِ مُلھمِ الحِکَمِ، ومُجْزِلِ النِّعَمِ، والصلوٰةُ والسلامُ علی أفْضَلِ مَنْ اُوتِیَ الکتابَ وأفضلَ الخطابِ وعلی آلہ وأصحابِہ الذین بَلَّغُوا شَرَائِعَ الدِّینِ وَبَیَّنُوا لَنَا مَا یَحْصُلُ الیَقِیْنَ.

          امابعد: فقیر ولی اللہ بن عبدالرحیم عرض گذار ہے کہ: بندہ نے ”فن دانشمندی“ اپنے والد سے حاصل کیا ہے اور اُن کا سلسلہ سند اس طرح ہے:

          شاہ عبدالرحیم ازمیر محمد زاہدبن قاضی اسلم ہروی از ملامحمد فاضل از ملا یوسف قراباغی از میرزا جان از ملا محمود شیرازی از ملا جلال الدین دوانی از والد خود ملااسعد بن عبدالرحیم از ملا مظہر الدین گازرونی از ملا سعدالدین تفتازانی ازقاضی عضد ازملا زین الدین از قاضی بیضاوی اورقاضی بیضاوی کی سندشیخ ابوالحسن اشعری تک کتب تاریخ میں مشہور ومعروف ہے۔

           بندہ نے فن دانشمندی ،علم کلام اور علم اصول تینوں فنون باہم ملے جلے اِسی سند سے حاصل کیے ہیں۔ اس سند کے تمام رجال صاحب تصنیف وتحقیق اور درس وتدریس میں مشغول رہے ہیں۔ صرف میرے والد محترم ایسے ہیں جو روحانی اَشغال میں انہماک کی وجہ سے درس وتصنیف کا شُغل اختیار نہ کر سکے۔ میرے دل میں یہ بات آئی کہ”فن دانشمندی“ کو اصول وقواعدکے ساتھ ضبط کیا جائے اور اہل زمانہ کی خدمت میں پیش کردیا جائے۔

           تعریف:اگر آپ پوچھیں کہ”فن دانشمندی “ سے کیا مراد ہے؟

          جواب:میرا جواب یہ ہے کہ اس کا مطلب ”کتاب فہمی“ ہے۔

          اور کتاب فہمی کے تین درجے ہیں:

          اوّل :کتاب کا بغورمطالعہ کرے اور اُس کے مطالب ومقاصدکواچھی طرح دریافت کرلے۔

          دوم:کتاب پڑھائے اور اس کی حقیقت شاگردوں کو سمجھائے۔

          سوم: اُس کتاب کی شرح یا اُس پر حاشیہ تحریر کرے اورتفصیل سے کتاب کے مطالب ومعانی کی تشریح وتوضیح پیش کرے۔

          فائدہ:اگر آپ یہ سوال کریں کہ اس فن کو ضبط کرنے،یاد کرنے اور اِس کی تحقیق میں کیا فائدہ ہے؟

          جواب:میں کہتا ہوں اس میں دو فائدے ہیں:

          اوّل: کتاب کا مطالعہ کرنے کا طریقہ معلوم ہوگا اور (ان رہنمااصولوں کی روشنی میں کیاجانے والا) مطالعہ اکثر اوقات درست ہوگا۔ اِس کی تفصیل یوں ہے کہ جب طالبِ علم فن صرف،نحو اور علم لغت کی طرح اس فن دانشمندی کی رہنمائی میں کسی کتاب کا اولاً مطالعہ کرے گا،اُس کتاب کی شرح اپنے سامنے رکھے گا ،نیزاُس کا مُشفق استاذ اپنے طریق تدریس سے ان قواعدوضوابط کواچھی طرح ذہن نشین کرادے گا، اِس کے بعد ہر مقام میں کلام شارح کے علمی نکتہ پر مطلع ہوگا تو ان اسباب وقرائن سے فہمِ کتاب کا سلیقہ پیدا ہو جائے گا؛کیونکہ کُلیات پر عبور حاصل کرنے کے بعد جزئیات کا احاطہ کرنا اور دیگر جزئیات کا سُراغ لگانا بہت آسان ہو جاتا ہے۔

          مثلاً ”فن عَروض“ اُس شخص کے لیے جو شعراء کے دواوین کی معرفت اوران سے لگاؤ رکھتا ہو اور خود شعر کہتا ہو۔

          دوم:جو بزرگ ”فن دانشمندی“ میں مستندومعتمد شمار ہوتے ہیں، جیسا کہ اسی سند میں بہت سے علماء مذکور ہیں، انہوں نے فن دانشمندی اور علم کلام وعلم اصول کو باہم خلط کر دیا ہے، جس سے ایک طالب علم کوان علوم کے باہمی امتیازمیں مشکل پیش آتی ہے اوروہ ان تینوں علوم کی ہیئت اجتماعیہ ہی کو علم واحدشمار کرتا ہے، جیسا کہ اس زمانے کے اکثر خام طبع لوگوں کا حال ہے (اس عدم امتیازکا نقصان یہ ہوتا ہے کہ)انتشار اطراف کی وجہ سے علم کا اچھی طرح احاطہ نہیں کر سکتا اور اس نکتے(کہ فن داشمندی،علم کلام واصول سے الگ شیٴ ہے) کی طرف ذہن منتقل نہ ہونے کی وجہ سے فن دانشمندی بھی اچھی طرح حاصل نہیں کر سکتا۔

          تتمہ:فنون دانشمندی،علم سے جدا اور ممتاز چیز ہیں۔جب وہ اس قاعدہ کو یاد کرے گا تو اس کے ذہن میں فنون دانشمندی سے ایک جامع،محدود ومتمیز امر پیدا ہوگا اور ہر مقام میں ادنیٰ توجہ سے بھی مسائلِ علم کا جدا جدااِدراک کرلے گا اور ہر جانب سے اُن کا احاطہ کرلے گا۔

          وَمَا أرِیْدُ الاَّ الاصْلاَحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ الاَّ بِاللہ

           جاننا چاہیے کہ جو استاذدرایت وتحقیق سے اپنے شاگردوں کو کوئی کتاب پڑھانا چاہے اُسے پندرہ باتوں کا لحاظ کرنا چاہیے۔اِسی طرح کسی کتاب کی شرح تحریر کرتے ہوئے بھی ان امور کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔

          ۱- : ضبطِ مُشکل،یعنی عبارت میں کوئی اسم و فعل محل اِشتباہ ہو تو اس کی حرکات(مثل زیر،زبر،پیش) اور سکنات بیان کرے۔

          تتمہ:اسی طرح الفاظ کا منقوط وغیرمنقوط ہونا بیان کرے؛ تاکہ غلط کتابت وتلفظ سے محفوظ رہے۔

          ۲-: شرحِ غریب،یعنی اگر کوئی کم استعمال ہونے والا لفظ ہواورشاگرد اُس کا معنی نہ سمجھتے ہوں تو لغت واصطلاح کے اعتبار سے اُس لفظ کی وضاحت کردے۔

          ۳-:کشفِ مغلق،یعنی اگر عبارت میں کوئی مشکل ترکیب یا مشکل صیغہ ہوجو شاگردوں کے ذہن پر بار ہو تو ایسی ترکیب اور صیغے کو علم نحو وصرف کے مطابق حل کردے۔

          ۴-: تصویرِ مسئلہ،یعنی اگرعبارت میں کسی قاعدہ کلیہ کا بیان ہو جو شاگردوں کے ذہن نشین نہ ہورہا ہو تواُس کو واضح عبارت سے بیان کرے اورمثالوں سے سمجھائے؛ تاکہ شاگردوں کے ذہن نشین ہو جائے۔

          ۵-: تقریبِ دلائل،یعنی اگر صاحب کتاب نے کسی مسئلہ پر کوئی دلیل قائم کی ہے تو اُس دلیل کے مقدمات مخفیہ کو اس طرح بیان کرے کہ بعض مقدمات کو بعض سے ملانے پر یا بعض مقدمات کے بعض دیگر مقدمات میں مندرج ہونے سے مدعاثابت ہو جائے۔ اس کے بعد مقدمات بدیہیہ کی طرف رجوع کرے؛ تاکہ کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے۔

          ۶-: تحقیق تعریفات بہ بیان فوائد قیود (یعنی اصطلاحات کی تعریف میں تحقیق سے کام لے اور تعریف میں موجود قیودات کے فوائدبیان کرے)

          تتمہ:حدِّ جامع مانع اور غیر مستدرک کی تفصیلی تقسیم اور طریق انتزاع بھی اسی(تحقیق تعریفات)کے قبیل سے ہے۔

          ۷-:فوائدِ قیود کے ساتھ قواعد کلیہ بیان کرے اور تقسیم ومثال کی تفصیل اور اس میں سے قاعدے کی وجہ انتزاع اس طرح بیان کرے جو غیر مستدرک اور جامع ومانع ہو ۔

          ۸-:تقسیمات میں وجہ حصر کی وضاحت کرے خوہ وہ حصراستقرائی ہو یا عقلی اوریہ وضاحت ایسی طرح ہوکہ حصربالکل واضح ہوجائے۔اسی طرح فصول وقواعد میں تقدیم وتاخیر کی وجہ بیان کرے۔

          ۹-: تفریق ملتبسین یعنی جو دو اَقسام بادیٴ النظر میں ایک دوسرے سے ملتبس ہورہی ہوں، یا جودومذہب بادیٴ النظر میں مشتبہ ہورہے ہوں، اُن کے درمیان فرق کی روشن تقریر کرے (تاکہ دونوں کا باہمی التباس واشتباہ دور ہو جائے)

          ۱۰-: تطبیق مختلفین،یعنی اگر کسی مصنف کی عبارات میں دو جگہ اختلاف ہو جائے، اس اختلاف کو دور کرے؛ خواہ دونوں عبارات کا اختلاف دلالت مطابقی کی صورت ہو یا ایک میں دلالت مطابقی ہو اور دوسری جگہ دلالت تضمنی یا التزامی ہو۔

          ۱۱-:دفع اشتبہات ظاہر الورود یعنی ظاہری طور پر وارد ہونے والے شبہات کو دور کرنا مثلاً تعریفات میں جو چیزیں ممنوع ہیں(ان میں سے کوئی چیز موجود معلوم ہو رہی ہو تو اس شبہ کو دور کرنا کہ یہ ممنوع چیز جو بظاہر موجود نظر آرہی ہے حقیقت میں ایسا نہیں)جیسا کہ استدراک، تعریف الشی بالأ خفی ،عدم جمع ومنع یا جو چیز دلائل میں ممنوع ہے، جیسے جزئیت کبری،یا مخالف مصنف کوئی ایسا کلام پیش کرے جو بادیٴ الرای میں شاگرداں کی نظر میں کھٹکتا ہو یا مناظرے میں قواعد مناظرہ کی رعایت محسوس نہ ہوتی ہو؛ اس قسم کا کوئی اشکال وارد ہو تو دور کرے۔

          ۱۲-:کوئی حوالہ ذکر کیا ہو تو حوالے والی اصل جگہ یا اصل مسئلہ بتانا ،”فیہ نظر“ کہا ہو تو اس ”نظر“کی وضاحت کرنا،کسی مقدر عبارت کی طرف اشارہ ہو تو اس کی وضاحت کرے۔

          ۱۳-:اگر شاگردوں کی زبان،کتاب کی عبارت کے مخالف ہو تو شاگردوں کی زبان میں عبارت کتاب کا ترجمہ کرنا(مثلاً عربی کتاب کا اردو خواں طلبہ کے سامنے اردو میں ترجمہ کرے)

          ۱۴-:مختلف توجیہات کی تنقیح کرے اور ان میں اصوب توجیہ کی نشاندہی کرے۔

          مثلاً اگر کسی امر میں مدرسین وشراح کی آراء میں اختلاف ہو ایک جماعت ”شرح غریب“ کا طرز اپنائے،دوسری جماعت کوئی دوسرا طرز اور توجیہات میں نزاع واختلاف پیدا ہو جائے تو استاذ کا کام یہ ہے کہ وہ پہلے ان توجیہات کی تنقیح کرے پھر ان میں سب سے بہتر کی تعیین کرے یہی معاملہ مشکل الفاظ کے ضبط او رمشکل لغات و تراکیب کے حل وغیرہ میں اختیارکرنا چاہیے۔

          ۱۵-:سہولت تقریر،یعنی ان بارہ باتوں کو ایسی واضح ومختصر عبارت سے بیان کرے جو سہل الحصول اور بآسانی ذہن نشین ہونے والی ہو اور اسی کا حصہ یہ بات بھی ہے کہ استاذ اپنی تقریر کو مصنف کی عبارت کے ساتھ اس طرح جوڑدے جس سے دونوں متصل (اور ایک ہی شیٴ معلوم ہوں) جب (صاحب تدریس وتحقیق) ان پندرہ صفات کا حق ادا کرے گا تب تدریس اور تشریح کتب میں کامل ہوگا۔

          مشفق استاذ کو چاہیے کہ اپنے شاگردوں کو ان امور پر بھی مطلع کرے۔

          اوّل:ان (مذکورہ بالا امور)پر اجمالی طور سے مطلع کردے۔

          دوم:جب شروحات میں ایسے امور سامنے آئیں تو انھیں متنبہ کرتا جائے کہ اس جگہ شارح کی غرض فلاں بات تھی اور یہاں یہ نیانکتہ ہے۔

          سوم: استاذشاگردوں کو تاکید کرے کہ وہ مطالعہٴ کتب میں ان امور کو پیش نظر رکھیں اور انہی میدانوں کو اپنی فکر کی جولان گاہ بنائیں۔

          چہارم:شاگرد کے مطالعے کو خود سنے،اگر کہیں وہ غلطی کرے تو اس پر متنبہ کرے، جس سے اس کو اپنی غلطی سمجھ میں آجائے(تاکہ آئندہ بچ سکے) اور اس غلطی کی مثل دیگر چیزوں پر بھی احتیاطاً متنبہ کردے۔

          پنجم:کسی کتاب کا حاشیہ یا شرح لکھوائے اور اس کی علمیت کا امتحان لے تاکہ حق تربیت کمال کو پہنچے۔

          جاننا چاہیے کہ یہ”دانشمندی“ معقول ومنقول اور علوم برہانیہ وخطابیہ سب میں جاری ہے (اور مفید ہے)کتب منقول میں”تحقیق عبارت“ اور کتب معقول میں ”تحقیق مسئلہ“ کی ضرورت کثرت سے پیش آتی ہے اور علوم برہانیہ میں ایک واسطہ یا وسائط کثیرہ سے مقدمات بدیہیہ یاطریق برہان سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور علوم خطابیہ میں طریق ظن سے کام لیا جاتا ہے۔

          یہ تقریر ہے فن دانشمندی کی، جسے میں نے اپنے اساتذہ سے حاصل کیا ہے۔

***

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3-4 ‏، جلد: 96 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ‏، اپریل 2012ء