حجاب پر پابندی: مغرب کی اسلام دشمنی کا ایک اور ثبوت

از: یرید احمد نعمانی

 

          یورپ میں فرانس کے بعد ہالینڈ میں بھی برقع پہننے پر پابندی کا اعلان کردیاگیا ہے۔ وزیراعظم میکسین کا کہنا ہے کہ برقع کے علاوہ عوامی جگہوں پر ہیلمٹ پہننے پر بھی بندش ہوگی۔ ہالینڈ کی وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ آئندہ سال سے برقع، نقاب یا حجاب اورایسے ملبوسات جن سے چہرہ نظر نہ آئے، کے پہننے پر مکمل پابندی ہوگی۔ ہالینڈ کے وزیراعظم میکسین نے ایمسٹرڈم میں میڈیا کو بتایا کہ یہ پابندی صرف برقع یا دیگر اسلامی ملبوسات پر نہیں؛ بلکہ یہ پابندی چہرہ چھپانے والی ہر چیز پر ہوگی۔ اس سے پہلے فرانس برقع اور حجاب پر پابندی عائد کرچکا ہے اور اب ہالینڈ دوسرا ملک ہوگا، جو برقع یا نقاب پر پابندی عائد کرے گا۔ واضح رہے کہ ہالینڈ کی سترہ ملین کی آبادی میں سے ایک ملین آبادی مسلمانوں کی ہے۔

          فرانس کے ایوان زیریں نے جولائی ۲۰۱۰ء میں حجاب پر پابندی کے بل کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اپریل ۲۰۱۱ء کے دوران پارلیمان کے منظور کردہ قانون کے تحت مسلم خواتین کے مکمل حجاب اوڑھنے پر پابندی عاید کردی گئی تھی۔ یاد رہے کہ فرانس نقاب پر پابندی لگانے والا یورپی یونین کا پہلا رکن ملک ہے؛ چناں چہ اب فرانس میں عوامی مقامات پر، چہرے پر نقاب اوڑھنے والی کسی بھی مسلم خاتون کو مالی جرمانے اور قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرانس کے پارلیمانی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں تیار کردہ اس قانون کے تحت، ملک کے تمام اسکولوں، ہسپتالوں، سرکاری ٹرانسپورٹ اور سرکاری دفاتر میں مسلم خواتین کے مکمل حجاب اوڑھنے پر پابندی عاید ہے۔ اور ان مقامات پر حجاب اوڑھ کر آنے والی خواتین کو ۱۵۰ یوروتک جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ نیز جو مرد حضرات اپنی بیویوں، بیٹیوں یا بہنوں کو حجاب اوڑھنے پر مجبور کریں یا جو علماء اس کی تبلیغ کریں، انھیں تیس ہزار یوروتک جرمانے اور ایک سال قید کی سزا دی جاتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ فرانس میں یورپ کی سب سے بڑی مسلم کمیونٹی رہ رہی ہے۔ اور وہاں مقامی اور غیرملکی تارکین وطن سمیت مسلمانوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے متجاوز ہے۔

          فرانس کی مسلم کمیونٹی اور حکومت کے درمیان جہاں پہلے ہی کشیدگی پائی جارہی تھی، وہاں اس متنازعہ قانون پر عمل درآمد نے حالات کو مزید کشیدہ بنادیا ہے۔ مسلم کمیونٹی کے نمائندے، صدر نکولاسارکوزی کی حکومت پر مسلمانوں سے امتیازی سلوک روا رکھنے کا الزام عائد کررہے ہیں، جس وقت مذکورہ قانون پاس کیاگیا تھا، تو مخالفین کا کہنا تھا کہ اس پر عمل درآمد مشکل ہوگا اور فرانس کی اعلیٰ انتظامی عدالت اسے غیرآئینی قرار دے سکتی ہے؛ لیکن تاحال اس عدالت نے اس قانون کو غیرآئینی قرار نہیں دیا ہے۔ فرانسیسی مسلمانوں کے مطابق اس قانون کے نفاذ سے فرانس میں دوسرے بڑے مذہب کے پیروکاروں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ملک میں اسلاموفوبیا کے خطرات اور زیادہ بڑھ رہے ہیں۔ مسلمانوں اور ان کی مساجد کو مسلسل نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ سال گذشتہ فرانس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیلجئیم اور آسٹریلیا نے بھی مسلم خواتین کے لیے نقاب اوڑھنے پر پابندی عادی کردی تھی۔

          یورپ میں برقع وحجاب پر اگرچہ پابندی لگادی گئی ہے؛ مگر وہاں کے دانش وروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے، اس قانون کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے، اس حوالے سے یورپ کی انسانی حقوق کونسل کے کمشنرتھامس حماربرگ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”اس طرح کے اقدامات سے خواتین کو آزادی دینے کی بجاے انھیں معاشرتی زندگی سے ہی نکال باہر کیا جارہا ہے۔ درحقیقت برقع پر پابندی، یورپ کے انسانی حقوق کے معیارات اور خاص طور پر کسی کی نجی زندگی اور ذاتی شناخت کے احترام کے منافی ہے۔ جس طریقے سے مسلم خواتین کے لباس کے معاملے کو اچھالا جارہا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے بحث اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔“

          حیران کن امر یہ ہے کہ جس معاشرے میں پردے کو معاشرتی تعلقات میں رکاوٹ قرار دے کر ہدف تنقید بنایا جارہا ہے، وہاں کی خواتین میں اسلام اورحجاب کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔ کئی غیرمسلم خواتین اسلامی طرز لباس اپناکر اپنے تجربات بیان کررہی ہیں اور وہ خود کو اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور پارہی ہیں کہ واقعی حجاب وپردہ دراصل عورت کی عزت کا محافظ ہے۔ ”ناومی والف“ امریکا کی ایک عیسائی خاتون ہیں۔ خواتین کی آزادی اور سوسائٹی میں ان کی عزت واحترام کے قیام کے لیے کام کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں دوکتابیں بھی لکھی ہیں۔ مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں خواتین کی حیثیت کا مطالعہ ومشاہدہ ان کا خاص شغف ہے۔ حجاب کے حوالے سے ایک مسلم ملک میں مسلم لباس کا تجربہ، انھوں نے یہ دیکھنے کے لیے کیا تھا کہ اس لباس میں عورت خود کیا محسوس کرتی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ”میں ، مراکش میں اپنی قیام گاہ سے جب بازار جانے کے لیے نکلی تو شلوار قمیص میں ملبوس تھی اور سراسکارف سے ڈھکا ہوا تھا۔ مراکش کی مسلم خواتین میں اسکارف عام ہے۔ ہر جگہ ان کا احترام کیاجاتاہے؛ لیکن وہ چوں کہ غیرملکی خاتون تھیں؛ لہٰذا تجسس اور حیرت بھری کچھ نظریں ان کی طرف ضرور اٹھ رہی تھیں؛ لیکن تجسس کی چند نگاہوں کو چھوڑ کر مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ میں بالکل آرام سے تھی، کسی بات کی فکر نہیں تھی، میں ہرلحاظ سے خود کو محفوظ؛ بلکہ ایک طرح سے آزاد محسوس کررہی تھی۔“

          ”مسلم خواتین، پردہ اور جنس“ کے موضوع پر اپنے آرٹیکل میں ناومی والف نے اہل مغرب کو مشورہ دیا ہے کہ: مسلم اقدار کو دیانت داری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں، پردے کا مطلب عورت کو دباکر رکھنا ہرگز نہیں ہے؛ بلکہ یہ ”پبلک بمقابلہ پرائیویٹ“ کا معاملہ ہے۔ مغرب نے عورت کو آزاد چھوڑ کر ایک طرح سے جنسِ بازار بناکر رکھ دیا ہے، جب کہ اسلام عورت کے حسن اور اس کی جنس کو صرف اُسی مرد کے لیے مخصوص کردیتا ہے، جس کے ساتھ مذہب کے رسوم ورواج کے مطابق، اس کا زندگی بھر ساتھ رہنا طے پاجائے۔

          کچھ عرصے پہلے امریکا ہی کی ایک ہسپانوی النسل نومسلمہ نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”جب میں مغربی لباس میں ہوتی تھی تو مجھے خود سے زیادہ دوسروں کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا، گھر سے نکلنے سے پہلے اپنی نمائش کی تیاری، ایک کرب انگیز اور مشکل عمل تھا۔ پھر جب میں کسی اسٹور، ریسٹورنٹ یا کسی ایسے مقام پر جہاں بہت سارے لوگ جمع ہوں، جاتی تھی تو خود کو دوسروں کی نظروں میں جکڑی ہوئی محسوس کرتی تھی، میں بظاہر آزاد وخود مختار ہوتی تھی؛ لیکن فی لحقیقت دوسروں کی پسند وناپسند کی قیدی ہوتی تھی، پھر یہ فکر بھی لاحق رہتی تھی کہ جب تک حسن اور عمر ہے، لوگ میری طرف متوجہ ہیں، عمر ڈھل جانے کے بعد خود کو قابل توجہ بنانے کے لیے مجھے اور زیادہ محنت کرنی پڑے گی؛ لیکن اب اسلامی پردے نے ان الجھنوں سے مجھے یکسر بے فکر وآزاد کردیا ہے۔“

          حال ہی میں معروف ہالی ووڈ اداکار لیام نیسن نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انسٹھ سالہ اداکار عیسائیت میں کیتھولک عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں، غیرملکی اخبار کے مطابق لیام نیسن کا کہنا تھا کہ ترکی میں فلم کی عکس بندی کے دوران، وہ اسلامی عبادات سے بہت متاثر ہوئے ہیں، جس سے انھیں روحانی سکون محسوس ہوا، ان کا مزید کہنا تھا کہ مساجد بہت خوبصورت ہیں اور پانچ وقت نماز کی ادائیگی سے انسان مزید اسلام کے قریب ہوجاتاہے۔

          مغرب اس وقت اپنی بے حیا تہذیب اور مادرپدر آزاد ثقافت کی بدولت ہلاکت وبربادی کی کس دلدل میں گرچکا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے اس خبر کا حوالہ دینا ہی کافی ہوگا، جس میں بتایاگیا ہے کہ پانچ کروڑ امریکی مختلف اقسام کے دماغی امراض میں مبتلا ہیں۔ ہر پانچ میں سے ایک امریکی ذہنی مریض بن چکا ہے، مردوں کی نسبت خواتین زیادہ پیچیدہ دماغی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ۲۳ فی صد خواتین کے مقابلے میں16.8فی صد مرد اس عارضے کا شکار پائے گئے؛ جب کہ ۵۰ برس سے زائد عمر کے افراد کی بہ نسبت ۱۸ سے ۲۵ برس کی عمر کے نوجوانوں میں یہ بیماری دُگنی شرح میں موجود ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک کروڑ ۱۴ لاکھ امریکیوں میں دماغی عارضہ شدید نوعیت کا پایاگیا ہے؛ جب کہ ۱۲ سے ۱۷ برس کے ۱۹ لاکھ نوعمر امریکی ڈپریشن کا شکار بھی پائے گئے۔ واضح رہے کہ یہ رپورٹ امریکا بھر میں ۱۲ برس سے زائد عمر کے ۶ لاکھ ۷۵ ہزار افراد پر سروے کے بعد مرتب کی گئی ہے۔

          طاغوتی قوتوں کی طرف سے اٹھائے گئے اسلام مخالف اقدامات، دراصل مغرب میں اسلام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راستہ روکنے کی ناکام کوششیں ہیں؛ کیوں کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران، جس طرح مغرب میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس نے صہیونی آلہٴ کاروں کی نیندیں اڑادی ہیں، صرف امریکا میں سالانہ ۲۰ ہزار افراد دائرہٴ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ اب تک جس تہذیب وتمدن کو مادہ پرستی اور خدا بیزاری کے لباس میں پیش کیا جاتا رہا ہے، آج وہ دیمک زدہ لکڑی کی تصویر پیش کررہی ہے۔ کل تک جس کلچر اور ثقافت کو مثالی کہا جاتا تھا، آج اسی کے دل دادہ اس سے اعلانِ برأت کررہے ہیں، مغرب میں اسلام کی روز بہ روز بڑھتی مقبولیت، اسلام کی حقانیت اور پیغمبرِ اسلام  صلی اللہ علیہ وصلم کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہی کہی جاسکتی ہے۔

***

-------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3-4 ‏، جلد: 96 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ‏، اپریل 2012ء