امامِ حرم فضیلةُ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم زیدمجدہ کا

ایمان افروز خطاب

بہ مقام: جامعِ رشید، دارالعلوم دیوبند بہ روز اتوار ۱۰/ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ مطابق ۴/مارچ ۲۰۱۲ء

ترجمانی: مولوی امتیاز عالم بلیاوی‏، متعلّم تخصص فی الادب العربی دارالعلوم دیوبند

 

          الحمد للہ ربّ العالمین، والصلاة والسلام علی خاتَمِ الأنبیاءِ والمرسلین نبیِّنا محمّدٍ، وَّعلی اٰلہ وأصحابِہ، ومَنْ سَارَ علی طَرِیْقِھِمْ واتّبَعَ ھُداھُم الی یومِ الدین، أما بعد:

          حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی صاحب، حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب؛ اور حاضرین کرام!

          السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

          یہ جان کر خوشی کی انتہا نہ رہی کہ میری (ہندوستان) کے اس دورے میں اپنے بھائیوں سے بھی ملاقات ہونی ہے، جن کے متعلق میں بہت کچھ سنا کرتا تھا، کوئی مجلس میں نے ایسی نہیں دیکھی جس میں ہندوستان، یہاں کے مسلمانوں اور علماء کی سرگرمیوں کا تذکرہ ہو، اور وہ مجلس اس عظیم دینی درس گاہ ”دارالعلوم دیوبند“ کے تذکرے سے خالی ہو۔

          حقیقت یہ ہے کہ مجھے کوئی ایسا شخص یاد نہیں جس نے ہندوستان، یا یہاں کی اسلامی خدمات کا تذکرہ کیاہو، اور اس کی گفتگو میں اس دارالعلوم کا ذکر نہ آیا ہو؛ اگر ہندوستان اور مسلمانانِ ہند کی خدمات کے تذکرے کی محفل سجے، اور ”دارالعلوم“ اور اس کی بے لوث خدمات --- جن سے نہ صرف ہندوستان؛ بل کہ بیرونِ ہند بھی بہرور ہے --- کے تذکرے سے وہ محفل خالی ہو، تو یقینا (دارالعلوم) کی حق تلفی ہوگی، اور اسے نظر انداز کرنے کا یہ رویّہ ناقابلِ قبول ہوگا۔

          اس درس گاہ کو ہرزمانے میں خاص مقبولیت وشہرت حاصل رہی ہے، صرف ہندوستان ہی نہیں، پوری دنیا میں اس کا نام زبان زدِ عام وخاص ہے؛ خداوندِ قدوس کا شکر ہے کہ اُس نے اِس درس گاہ میں آپ حضرات سے ملاقات کا موقع مرحمت فرمایا، جس کا تذکرہ بارہا سننے کا اتفاق ہوا۔

          چوں کہ اس مبارک اجلاس میں چنیدہ، مہذّب، تعلیم یافتہ، قرآن وسنت کے حاملین وناقلین موٴقّر شخصیات تشریف فرما ہیں؛ اس لیے میں اس پُرمسرّت موقع پر ایک اہم مسئلے کے حوالے سے کچھ باتیں گوش گزار کرنا چاہتا ہوں، جس میں ہر مسلمان کو اور اسلامی یونیورسٹیوں میں زیرِتعلیم طلبہٴ عزیز کو بدرجہٴ اولیٰ بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، اور وہ ہے اپنی تمام ترکوششوں کے ساتھ ”دعوت الی اللہ“ کا خوب اہتمام۔ ”دعوت الی اللہ“ کی اس عظیم ذمے داری کی ادائیگی کے لیے مسلمان اور طالبِ علم کو جو بھی موقع ملے، اس کو غنیمت جاننا چاہیے؛ لیکن اس میں دو چیزوں کا لحاظ لازمی شرط ہے:

          پہلی چیز اخلاص ہے؛ لہٰذا اگر آپ دعوت کا عمل اس وجہ سے انجام دے رہے ہیں؛ تاکہ آپ کو ”داعی“ کا لقب مل جائے، یا علمِ دین اس وجہ سے حاصل کررہے ہیں؛ تاکہ ”عالِم“ کے نام سے آپ کی شہرت ہو، یا اس عمل سے رضائے الٰہی کے علاوہ دیگر دنیوی اغراض پیش نظر ہوں، تو وہ عمل اخلاص سے خالی ہوگا، اور اس عمل کے حوالے سے ساری محنت رائگاں ہوجائے گی۔

          دوسری چیز یہ ہے کہ یہ عظیم کام پیغمبر علیہ السلام کی سیرتِ مبارکہ اور سنتِ مطہرہ کی روشنی میں انجام پائے۔ نیز داعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم سے سرِ مو انحراف نہ کرے۔ اس کے بغیر اس عمل کا شمار اعمالِ باطلہ میں ہوگا، وہ بے سود بن جائے گا، اس طرح کے بے روح کام سے انسان کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے؛ اور اس کام کے نتیجے میں اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا، دنیا میں اور نہ آخرت میں۔

          طلبہٴ کرام بالخصوص طلبہٴ دارالعلوم کو اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ وہ اپنے رہن سہن میں برادرانِ وطن غیرمسلموں کے ساتھ حسنِ معاملہ، اور شفقت ونرمی کا سلوک کریں، آپ کے چوبیس گھنٹے ان کے ساتھ گزرتے ہیں؛ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے حوالے سے آپ کے دلوں میں کوئی کدورت یاردِّ عمل کا جذبہ نہ ہو؛ جس سے بغض وعداوت کا بیج پڑجائے۔ اگر ردِّعمل کا جذبہ پیدا ہو، تو صرف یہ ہوکہ آپ اس بات کے خواہاں اور خواستگار ہوں کہ یہ بھی میرے دین کو قبول کرلے، جس طرح میں اللہ کی حمد کرتا ہوں اور مجھے اس دینِ سماوی جیسی عظیم دولت سے بہرور ہونے اور صاحبِ ایمان ہونے کا احساس ہے، اسی طرح یہ دولتِ عظمی اس بھائی کو بھی نصیب ہوجائے۔

          اللہ رب العزت نے ”تلوار کی طاقت“ یا ”بے پناہ بہادری“ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص وصف نہیں بتایا؛ بل کہ متعدد جگہ خلقِ عظیم اور نرمی وشفقت کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص صفت بتایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: ”انّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“ (القلم/۴) ”بے شک آپ اخلاق (حسنہ) کے اعلیٰ معیار پر ہیں۔ ”فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ“ (آل عمران/۱۵۹) خدا ہی کی رحمت کے سبب آپ ان کے ساتھ نرم رہے، اور اگر آپ تندخو سخت طبیعت ہوتے، تو یہ سب آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔

          دوسری جگہ ارشادِ فرمایا: ”لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوٴْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَحِیْمٌ“ (التوبہ/۱۲۸) تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں، جو تمہاری جنس سے ہیں، جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گذرتی ہے، جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں، ایمان داروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق مہربان ہیں۔

          عزیز: کا مطلب یہ ہے کہ امت کی زبوں حالی اور دین سے دوری رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پر شاق گزرتی تھی۔

          حَریصٌ عَلَیْکُمْ ورَحِیمٌ بِکُمْ: رحمت ونرمی اور شدید شوق یہ دونوں ایسے اوصاف ہیں، جن کا طالبینِ علومِ نبوّت میں ہونا ضروری ہے۔ آپ کا مطمح نظر یہ ہو کہ میرا پڑوسی مسلمان ہوجائے، وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے لگے، اِس کے لیے آپ اُس کے ساتھ شفقت ونرمی کا برتاؤ کریں؛ تاکہ وہ اللہ کے دین میں داخل ہوجائے۔

          سختی اور تشدد دعوت کی افادیت میں مُخِل ہیں، اُن سے نفرت کا بازار گرم ہوتا ہے، دلیل کے طور پر اُس دیہاتی کے واقعے کو پیش کیا جاسکتا ہے، جس نے مسجد نبوی میں آکر پیشاب کردیا، صحابہ رضی اللہ عنہم اسے ڈانٹنے پھٹکارنے لگے، آپ نے اپنے ساتھیوں کو اس پر سختی کرنے سے منع فرمایا، اور نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا؛ کیوں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے واقف تھے کہ یہ شخص ناواقف ہے، اگر اس کو واقفیت ہوتی، تو مسجد نبوی جیسی مبارک جگہ میں یہ نازیبا حرکت نہ کرتا، توجہ کا مقام ہے کہ اس دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کرکے بہت بڑے مُنْکَر کا ارتکاب کیا، یقینا اس فعل کو ایک گھناؤنی حرکت ہی کہا جاسکتا ہے؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہربانی وشفقت کی قدر وقیمت کو جانتے تھے کہ اس سے جو خیروجود میں آسکتا ہے، سختی وغیرہ سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی؛ یہی وجہ ہے کہ جب پیغمبرِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے (نرمی سے) دیہاتی کو منع فرمایا اور اسے سمجھایا کہ: یہ مسجدیں عبادت اور نماز کے لیے ہوا کرتی ہیں، تو اس دیہاتی نے کیا کہا؟ بات اس کی سمجھ میں آگئی، اور وہ یہ دعا کرنے لگا: اے اللہ! میری اور محمد کی مغفرت فرما، اس کے علاوہ کسی اور کی مغفرت نہ فرما۔

          دیکھئے! دیہاتی کی دعا صرف اس کے حق میں ہوئی جو اس کے ساتھ نرمی، شفقت ومہربانی سے پیش آیا، اور وہ محروم رہے، جنھوں نے اس کو جھڑکا اور سختی سے اس کے فعل پر نکیر کے لیے لپکے۔

          اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاة والسلام اپنے یہودی پڑوسی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے؛ حالانکہ وہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی رو سے مومن بھی نہیں تھا، اس کے باوجود آپ اس سے ملنے گئے، نہ جانے وہ کس حال میں ہوگا! یہ نہ کہا کہ میں یہودی سے ملنے کیوں کر جاؤں؟ بحالتِ مرض اس کی عیادت کیسے کروں؟ وہ تو اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہے؛ اس لیے ہر آدمی کو دعوت کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے کہ: میرے پڑوسی، میرے رشتہ دار اور ملک کے ایک ایک فرد کو اسلام سے سرفرازی نصیب ہوجائے؛ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اسی وجہ سے اس یہودی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ بلاشبہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عظیم خیر خواہانہ طرزِ عمل ایک اہم پس منظر کے تحت تھا۔ آپ اس وجہ سے ملاقات کو گئے؛ تاکہ یہ عیادت یہودی کے لیے ذریعہ اسلام بن جائے، یہ ہے خلقِ عظیم اور حسنِ معاملہ کا نتیجہ۔ ہم اُمّتیوں کو لوگوں کے ساتھ حسنِ معاملہ کے اس فن کو اپنانے کی ضرورت ہے۔

          اللہ کا فضل ہے کہ اس ”دارالعلوم“ میں فقہ، حدیث، تفسیر، عقیدہ؛ الغرض تمام علومِ شرعیہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان سب کے ساتھ اس بات کی ازحد ضرورت ہے کہ ہمارے اخلاق، حسنِ سلوک، مسلم اور غیرمسلم سب کے ساتھ یکساں ہوں؛ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ ان غیرمسلموں کے حوالے سے یہ نہیں چاہتے کہ یہ بھی آپ کے ”اسلام“ میں داخل ہوکر آپ کے ہم مذہب ہوجائیں؟ ظاہر ہے کہ جواب مثبت ہی میں ہوگا؛ لیکن صرف مثبت جواب سے آپ کی خواہش کیوں کر برآسکتی ہے؛ جب کہ تعامل کے حوالے سے ہمارا یہ رویّہ وہ نہیں ہے، جو پیغمبر علیہ السلام کا تھا؟!

          اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے دلوں کو متأثر، اور اپنی طرف راغب کرکے انھیں بتائیں کہ یہ مذہب خالص دینِ رحمت ہے۔ اس میں بدعنوانی، بے اعتدالی؛ سختی اور حقارت (جیسے غیرشریفانہ امور) کی کوئی جگہ نہیں، یہ مذہب تو سراپا عزت ورفعت، رحمت، نرمی، باہمی تعاون، اخوت، ہم آہنگی، آپسی میل ملاپ وغیرہ کا حامل مذہب ہے۔ دوستو! ہمیں انہی صفات سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ہے۔

          اس مختصر وقت میں یہی چند باتیں آپ حضرات کی خدمت میں عرض کرنی تھیں۔ اللہ رب العزت سے دعاء ہے کہ وہ اپنے پیارے نام اور اعلیٰ صفات کی برکت سے ہمیں اور آپ کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

          دعا:

          اے اللہ! ہمیں اچھے اعمال کرنے،اوراچھی باتیں کہنے کی توفیق عطا فرما، صرف تو ہی اس کی توفیق دے سکتا ہے۔ برے اعمال اور بری باتوں سے ہماری حفاظت فرما؛ کیوں کہ تیرے سوا کوئی اورہماری حفاظت نہیں کرسکتا۔ اے اللہ! ہمارے دلوں اور زبانوں کو ہدایت سے سرفراز فرما، ہمارے اعمال واقوال کو درست فرما۔ اے اللہ! جن کو تو نے ہدایت دی ہے، ان کے ساتھ ہماری ہدایت کے بھی فیصلے فرما، جنھیں تونے عافیت سے نوازا ہے، ان کے ساتھ ہمیں بھی عافیت نصیب فرما؛ اور جن کی تونے سرپرستی کی ہے، ان کے ساتھ ہماری بھی سرپرستی فرما۔ اپنی عطا کردہ نعمتوں میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! خاتمہ بالخیر نصیب فرما۔ اے اللہ! تمام امور میں ہمارے انجام کو بہتر سے بہتر بنا،اور دنیا کی رسوائی اور عذابِ آخرت سے حفاظت فرما!

          اے اللہ! ہماری موت اس حالت میں آئے کہ تو ہم سے راضی ہو، ناراض نہ ہو۔ دنیا سے رخصت ہوتے وقت ہمارا آخری جملہ کلمہٴ طیّبہ کی شہادت ہو، اے أرحم الراحمین اس کے فیصلے فرما۔ اے اللہ! اپنے دین پراستقامت نصیب فرما، اے دلوں کو پلٹنے والے، اے ارحم الراحمین! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر جمادے۔ اے اللہ! ہدایت کے بعد پھر ہمارے دلوں کو بے راہ نہ فرما، اور اپنی خاص رحمت سے ہمیں مالامال فرما۔ بے شک تو بہت بڑا داتا ہے۔ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے نواز کر جہنّم کے عذاب سے حفاظت فرما۔

          سبحٰنَ رَبِّنَا رَبِّ العِزَّةِ عَمّا یَصِفُوْنَ، وَسَلاَمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ، وَآخِرُ دَعْوَانَا أنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ العَالَمِیْنَ وَأُصَلِّي وَأُسَلِّمُ عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ، وَّعَلٰی اٰلِہ وَصَحْبِہ أَجْمَعِیْنَ

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

***

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3-4 ‏، جلد: 96 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ‏، اپریل 2012ء