حضرت مولانا محمد عثمان معروفی اور فنِ تاریخ گوئی

بہ قلم: مولانا اشتیاق احمدقاسمی‏، مدرس دارالعلوم دیوبند

 

        ابتدائی زمانہٴ طالب علمی میں جس شخصیت سے غائبانہ قلبی تعلق پیدا ہوا، اور جس کی نابغیت  کا سکہ دل ودماغ پر بیٹھ گیا، وہ شخصیت حضرت مولانا محمد عثمان صاحب معروفی رحمة اللہ علیہ کی ہے، مدرسہ معروفیہ پورہ معروف میں پڑھے ہوئے ساتھیوں سے برابر موصوف کے اوصاف وکمالات سنتا رہا، خطاطی اور تاریخ گوئی میں آپ فنّی شخصیت کے حامل تھے، خصوصاً تاریخ گوئی میں آپ کی عبقریت مسلّم تھی، میرے محدود علم میں، اس فن میں علماء کے درمیان آپ کا کوئی ثانی نہ تھا؛ اس لیے اول عربی سے آپ کی شاگردی اختیار کرنے کا شوق تھا؛ لیکن کم سنی اور وسائل کے فقدان کی وجہ سے شرفِ تلمذ سے محروم رہا۔ یہاں تک کہ دارالعلوم آیا اور یہاں دورئہ حدیث کا سال بھی پورا ہوگیا، اور شعبہٴ افتاء میں داخل ہوا، اتفاقاً ایک دن دارالعلوم دیوبند کے احاطہٴ مولسری میں تھا کہ میرے ایک کرم فرما دوست نے بتایا کہ حضرت قاری ابوالحسن اعظمی مدظلہ العالی کے یہاں حضرت مولانا محمد عثمان صاحب معروفی تشریف فرما ہیں، یہ سنتے ہی قاری صاحب کی درس گاہ میں حاضر ہوا، ملاقات ہوئی، سلام کیا، مصافحہ کیا اور خاموش بیٹھ گیا، وہاں دیوبند کے مشہور خطاط مولانا طارق بن ثاقب صاحب بھی تھے، مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں، عشاء کا وقت ہوگیا، پھر عشاء بعد خدمت میں حاضر ہوا، حضرت قاری صاحب زیدمجدہ نے درس گاہ سے متصل اپنے حجرے میں قیام کا نظم فرمایا تھا، میں نے اپنی دیرینہ تمنا کا اظہار کیا، حضرت مولانانے بہ خوشی قبول فرمایا اور حوصلہ افزائی کے لیے فرمایا کہ: بہت اچھی بات ہے، یہ کوئی مشکل فن نہیں ہے، اور ساتھ ہی مثال کے لیے چند تاریخ نکال کر دکھابھی دیے، اور دیر تک اس موضوع پر بات کرتے رہے، بہت خوشی ہوئی، اتنی عظمت کے باوجود تکلف نام کی کوئی چیز حضرت میں نہ تھی، خورد نوازی میں بے مثال تھے، اس وقت میں زبانِ حال سے مولانا الطاف حسین حالی کا یہ شعر پڑھ رہا تھا:

بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

        اگلے دن پھر حاضر ہوا، حضرت نے تاریخ گوئی کے کچھ طریقے بتائے، اور تازہ مثالیں بھی بناکر دکھائیں، اور فرمایا کہ میری کتاب ”محاسن التواریخ“ عظیم بک ڈپو دیوبند میں ہوگی، آپ وہاں سے حاصل کرلیں اور مشق و تمرین کرتے رہیں، اِن شاء اللہ ترقی ہوگی، میں گیا اور کتاب لے آیا، اور ۱۴۱۸ھ مطابق ۱۹۹۸ء کے تاریخی نام کی تخریج شروع کردی، غالباً جمعہ کا دن تھا یا کوئی چھٹی تھی، اللہ تعالیٰ نے برکت عطا فرمائی اور تقریباً ڈیڑھ سو ناموں کی تخریج عمل میں آگئی، حضرت کے پاس پہنچا، اور دکھایا، حضرت بہت خوش ہوئے، دعائیں دیں اور حوصلہ افزا کلمات سے نوازا، وہ کلمات آج بھی کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔

        حضرت مولانا معروفی میں تاریخ کی تخریج کا عجیب وغریب ملکہ قدرت نے ودیعت فرمایا تھا، موصوف اعداد کی جمع وتفریق میں بالکل غرق ہوجاتے تھے، مشق وتمرین اور ریاضت ومجاہدہ کی وجہ سے ابجدی حروف کے اعداد بالکل ازبر تھے، پوری پوری سطر لکھ لیتے اور لمحوں میں ان کا حساب نیچے رقم فرمادیتے تھے، حساب کے دوران ذہنی پرواز تو بہت اونچی ہوتی تھی؛ لیکن نگاہ، قلم اور جسم بالکل ساکت وصامت رہتے تھے اور سانسوں کے ساتھ گھن گھن کی دھیمی آواز نکلتی رہتی تھی، جو قریب بیٹھنے والے کو سنائی دیتی تھی، کبھی کبھی تو پوری پوری آیت یا حدیث کی تاریخی تخریج عمل میں آجاتی، اور الفاظ وتراکیب نہایت موزون ومناسب ہوتے تھے، عام طور سے اہلِ علم تاریخ کی تحریج تو کرلیتے ہیں؛ مگر موزونیت وتناسب سے وہ اکثر خالی ہوتے ہیں، حضرت مولانا معروفی کو اتنی ریاضت ہوگئی تھی کہ اس طرح کے عیب سے ان کی تحریر پاک تھی، اس میں بہت زیادہ وقت بھی نہیں لگتا تھا، تعجب وحیرت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی تھی، جب اشعار میں مادئہ تاریخ نکالتے تھے، تاریخ گوئی کی جتنی صنعتیں اور نوعیں ہیں، مولانا مرحوم ہر ایک میں مادئہ تاریخ نکالنے پر قادر تھے، تفصیل کے لیے ”محاسن التواریخ“ کا مطالعہ کافی ہوگا۔

        جب بھی کسی عظیم شخصیت کا انتقال ہوتا، حضرت مولانا اپنا اشہبِ قلم دوڑاتے اور متعدد صنعتوں میں مادہائے تاریخ نکال دیتے تھے اور ملک بھر کے اہم رسائل ومجلات میں وہ طبع ہوکر ضیافتِ قارئین کا سامان بنتے تھے، اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو اس فن کا عظیم سرمایہ ذخیرہ اندوز ہوجائے گا۔

        حضرت مولانا کو شاعری کا بھی اچھا ذوق تھا، آپ نے خود اپنے کلام کا مجموعہ ”گلدستہٴ فاخرہ“ کے نام سے ترتیب دیا تھا اور اس میں مدارس، مساجد اور اکابر و بزرگان کے مادہائے تاریخ کو بھی شامل کیا تھا، حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری زیدمجدہ شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند نے جب ملاحظہ فرمایا تو حضرت مولانا کو اصرار کے ساتھ تاریخ گوئی کے اصول وقواعد اور استخراج کے طریقے مرتب کرنے کی طرف خط لکھ کر متوجہ کیا؛ چنانچہ حضرت مولانا نے ”محاسن التواریخ“ کے نام سے اس فن پر نہایت ہی جامع کتاب تصنیف فرمائی، اس کتاب کے مطالعہ سے حضرت مولانا کے فنی کمالات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے سلسلے میں حضرت مولانا قاضی اطہرمبارک پوری نے اپنے تأثر کااظہار ان الفاظ میں فرمایا ہے:

        ”اس میں فن کے دریا کو کوزے میں بھردیا ہے، ان کو تاریخ گوئی کا وہبی ملکہ ہے، انھوں نے یہ کتاب لکھ کر اس فن کی آبرو رکھ لی ہے اور نہایت اچھے انداز میں اس سے متعلق باتوں کو بیان کیا ہے، اس سے اہلِ ذوق فنِ تاریخ گوئی بڑی آسانی سے سیکھ سکتے ہیں۔“ (محاسن التواریخ ص۴)

        اس کتاب کے سرِ ورق پر پوری آیت لکھی ہوئی ہے: وَقَدَّرَہ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَاب، اس آیت میں ایک طرف تو تلمیح یا براعتِ استہلال ہے کہ یہ کتاب تاریخ گوئی کے فن میں ہے، دوسری طرف عجیب اتفاق یہ ہے کہ اس سے کتاب کی اشاعت کا سن ۱۴۰۷ھ نکلتا ہے، نیز کتاب کا نام بھی تاریخی ہے؛ بلکہ پیش لفظ میں مزید گیارہ نام درج ہیں، جن سے ہجری ۱۴۰۷ھ یا عیسوی ۱۹۸۷/ کی نشاندہی ہوتی ہے۔

        کتاب میں سب سے پہلے تاریخ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف لکھی ہے، حروفِ تہجی کی تعداد بیان کرنے کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ ان حروف کے اعداد حضرت آدم یا حضرت شیث پر نازل ہوئے اور ”ابجدی ترتیب“ خلیفہ ہارون رشید کے عہد میں مرتب ہوئی۔ پھر تاریخ گوئی کے اصول بیان کرتے ہوئے اس کی صوری اور معنوی اقسام بیان کیے ہیں۔ پھر اس کی صنعتوں میں سے تجنیس، مرصع، منقوط، رعنا، موصل، غیرموصل، مقلوب، تقسیم، اوائل خالی، ریاضی، نادر، ایجاد، بلیغ، غریب، اشکال، کمال، توشیح کامل، مسلسل اور مربع سب کو ان کی تعریفات اور مثالوں کے ساتھ سمجھایا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی شفیق استاذ اپنے شاگرد رشید کو نہایت ہی جچے تلے الفاظ میں اس فن کی باریکیوں سے بہرہ ور کررہاہے، اور یہ فن پیچیدہ ہونے کے باوجود کوئی مشکل نہیں ہے۔

        اس میں بہت سی مساجد، مدارس اور جامعات کے مادہائے تاریخ بھی ہیں؛ تاکہ طالبِ علم ان مثالوں کو سامنے رکھ کر اس میں آسانی کے ساتھ کامیابی حاصل کرلے، اس پر مستزاد یہ کہ بہت سی کتابوں اور علمی شہ پاروں سے متعلق تاریخ گوئی کے مواد کو بھی شامل کردیا ہے، پھر اپنے بزرگوں میں حضرت مولانا محمد الیاس، حضرت مولانا اعزاز علی، حضرت مولانا حسین احمد مدنی، مولانا آزاد، مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی، حضرت شاہ وصی اللہ، علامہ محمدابراہیم بلیاوی، حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمہم اللہ قابلِ ذکر ہیں۔ جن کی وفات کے مواد اس میں شامل ہیں۔

        ان سب کے بعد ان سے پہلے کے اسلاف میں نمایاں شخصیات کے مادے ذکر کیے ہیں، پھر شاہانِ مغلیہ اور فرماں روائے اودھ اور مشہور شعرائے ہند کے مادہائے تاریخ لکھے ہیں۔ ان میں امیر خسرو سے لے کر علامہ انور صابری تک کے اکثر شعراء شامل ہیں، پھر اسمائے حسنیٰ کے اعداد بیان کیے ہیں۔

        تاریخ گوئی کی تخریج کے وقت طالب علم کو چوں کہ سب سے زیادہ مناسب اعداد والے الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے، سب کے ذہن میں اتنا بڑا ذخیرہ عموماً نہیں ہوتا؛ اس لیے صاحبِ کتاب نے نہایت ہی جاں فشانی اور دیدہ ریزی سے آٹھ ہزار الفاظ جمع فرمادیے ہیں، ان میں ”تین سے، ایک ہزار ایک“ تک کے الفاظ ہیں، اس میں ہر عدد کے آٹھ دس الفاظ ہیں، اس سے تخریج میں بڑی مدد ملتی ہے۔

        الفاظِ اعداد کے بعد دنیا کی اہم تقاویم کا ایک جامع تعارف کرایا ہے، ان میں بہت سی تقاویم ایسی ہیں جو متروک ہوچکیں، مثلاً مصری تقویم، یہودی تقویم، عیسوی جولیائی تقویم وغیرہ پھر عیسوی گریگوروی تقویم کو ذکر کرنے کے ساتھ کبیسہ کو سمجھایا ہے، پھر ہندی تقویم کو سمجھایاہے جس کو ”شک“ بھی کہتے ہیں، راقم الحروف نے ایک بار ” بھارت کاآئین “ میں دیکھا کہ عیسوی کے ساتھ، سنِ اشاعت میں ایک سن بھی درج ہے، مگر اردو ترجمہ میں اس جگہ ”شک“ لکھا ہوا ہے، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ شک کون سی تقویم ہے، پھر جب مذکورہ کتاب میں تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ ہندی تقویم کا دوسرا نام شک بھی ہے، اس تقویم کا آغاز ۷۸/ سے ہوا؛ اس لیے عیسوی تقویم سے مطابق کرنے کے لیے اٹھتر سال گھٹادیا جاتا ہے۔ مصنف نے نہایت ہی سلجھے ہوئے انداز میں اس کو سمجھادیا ہے۔

        اسلامی یا ہجری تقویم کا ذکر کرتے ہوئے، لکھا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت علی کی تجویز پر ۱۷ھ میں یہ تقویم جاری فرمایا، اور حضرت عثمان غنی کی رائے کے مطابق سال کا پہلا مہینہ ”محرم“ مقرر ہوا، اتفاق سے وہ جمعہ کا دن تھا- اسی طرح یہ بھی وضاحت ہے کہ چاند کے مہینوں میں انتیس دن کے لگاتار تین مہینے اور تیس دن کے لگاتار چار مہینے ہوسکتے ہیں۔

        مختلف تقاویم کے تعارف کے بعد ایک اہم پیچیدگی کو حضرت مولانا معروفی نے حل فرمادیا ہے، وہ عیسوی اور ہجری سنین کا تطبیقی نقشہ ہے۔ ہمیشہ تاریخی تحریروں میں یا توہجری لکھی رہتی ہے یا عیسوی تاریخ ہوتی ہے، قارئین کو بسا اوقات تطبیق دینے کی ضرورت پیش آتی ہے، خصوصاً تاریخ ودلات ووفات کی تعیین میں یہ مشکل پیش آتی رہتی ہے۔ اس کتاب میں پہلی ہجری سے ۱۵۰۳ھ تک کی تطبیق عیسوی تقویم کے مطابق اس طرح کردی گئی ہے کہ سن، دن اور تاریخ سب کی مشکل حل ہوگئی ہے، اس پر کتاب اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔

        حضرت مولانا اور ان کی کتاب ”محاسن التواریخ“ سے راقم الحروف کو بہت فائدہ ہوا، متعدد شخصیات کی وفات پر استخراجِ تاریخ کی توفیق ملی۔

        حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلامقاسمی کی وفات کے بعد ان کے اوصافِ جمیلہ، عہدے، مناصب اور کارناموں کے مادے کافی تعداد میں نکلے اور جب ایک مکمل آیت تاریخ وفات کی شکل میں سامنے آئی تو خوشی کی انتہا نہ رہی، وہ آیت یہ تھی: ”انما یخشی اللہ مِن عبادہ العلماء“ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہ نے میری حوصلہ افزائی فرمائی اور ”بحث ونظر“ کے خصوصی نمبر میں اس کو شائع فرمادیا۔

        اس فن سے ادنیٰ مناسبت کی برکت سے مطالعہ میں بھی متعدد مرتبہ مغالطہ سے بچ گیا، ایک بار حضرت مولانا سید محمد میاں کی کتاب ”علمائے ہند کا شاندار ماضی“ پڑھ رہا تھا، اس میں حضرت مفتی عنایت احمد صاحب کاکوری کا ذکر آیا، ان کی ایک تصنیف ”علم الفرائض“ کے تعارف میں لکھا ہے کہ یہ تاریخی نام ہے، لیکن اس پر حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب نے حاشیہ لکھا ہے کہ یہ نام تاریخی نہیں ہوسکتا؛ اس لیے بعض قوی قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب مذکورہ سن میں نہیں لکھی گئی ہے، میں نے سارے حروف کے اعداد ”محاسن التواریخ“ کے اصول کے مطابق جوڑے تو ”علم الفرائض“ کے تاریخی نام ہونے میں شبہ نہیں رہا، اور سمجھ میں آیا کہ حضرت مولانا سید محمدمیاں صاحب کو مغالطہ یہ ہوگیا کہ انھوں نے فرائض کے ہمزہ کا عدد ایک جوڑا تھا؛ حالاں کہ ہمزہ کو یہاں ”ي“ تسلیم کرکے ”دس“ جوڑنا چاہیے۔ حضرت مفتی عنایت احمد صاحب نے اس کا عدد ”دس“ مان کر نام رکھا ہے؛ اس لیے کوئی غلطی نہیں، یقینا وہ تاریخی نام ہے۔

         حضرت مولانا محمد عثمان صاحب معروفی جب مظاہر علوم سہارن پور سے دیوبند آئے تو میں نے یہ کہانی سنائی، تو بہت خوش ہوئے، اور دعائیں دی۔

        راقم الحروف پر جس طرح رسمی طور پر کتاب پڑھانے والے اساتذہ کے احسانات ہیں، اسی طرح حضرت مولانا معروفی کے بھی احسانات ہیں، انھوں نے مختلف موقعوں پر صحیح رہنمائی فرمائی اور بہترین مشورے دیے، جب ماہ نامہ ”مظاہر علوم“ کے ایڈیٹر تھے، میں ان کی خدمت میں مضامین بھیجاکرتا تھا، تصحیح کے بعد شائع فرماتے اور ملاقات کے وقت تحریری نقائص کی نشان دہی فرماتے تھے۔

        غرض یہ کہ تاریخ گوئی سے موصوف کو خاص مناسبت تھی، اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ میرے علم واطلاع کے مطابق کسی شخصیت کی وفات کے بعد ان کے مادہائے تاریخ کی تخریج کے تھوڑی ہی دیر بعد دماغ کی نس پھٹی اور دنیا ایک عظیم ترین صحافی، شاعر، خطاّط، مدرس اور تاریخ گو سے محروم ہوگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

***

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3-4 ‏، جلد: 96 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ‏، اپریل 2012ء