مشہورفقہی قاعدہ: الأَیْمَانُ مَبْنِیَّةٌ عَلَی الْألْفاظ لَاعَلَی الْأَغْرَاض کی وضاحت

 

 

جمع وترتیب: مولوی محمداسداللہ آسامی، متعلّم:تدریبِ افتاء دارالعلوم دیوبند

 

          فقہ حنفی کا مشہور قاعدہ ہے: ”الأیْمَانُ مَبْنِیَّةٌ عَلَی الْأَلْفاظِ لاَ عَلَی الأغْرَاضِ“ اس سے قسم، منّت اور تعلیقات (شرط وغیرہ پر متعلق باتوں) کے بے شمار مسائل مستنبط ہوتے ہیں؛ لیکن اس قاعدے میں مذکور دونوں قید (الألفاظ اور الأغراض) کے ظاہر سے، یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ اَیمان کی بنیاد صرف الفاظ پر ہے، نیت کا اس میں کوئی دخل نہیں؛ حالاں کہ ایسا نہیں۔

          چوں کہ لفظ کے لغوی، اصطلاحی اور عرفی معنی ہوتے ہیں؛ اس لیے ائمہ اربعہ کے درمیان اس باب میں اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی گفتگو میں ”یمین“ (قسم، تعلیق) استعمال کرتا ہے تو اس سے کونسا معنی مراد ہوگا؛ چناں چہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ لفظ کا لغوی معنی مراد ہوگا، امام مالک کا کہنا ہے کہ قرآنِ کریم نے جو معنی مراد لیا وہ معنی مراد ہوگا، امام احمد بن حنبل کے نزدیک ”ایمان“ کا مدار نیت پر ہے۔ (فتح القدیر ۵/۱۶۰ باب الیمین فی الدخول والسکنی) حنفیہ کے مسلک میں تفصیل ہے: نہ محض الفاظ پر مدار ہے اور نہ ہی محض نیت پر؛ بل کہ ان کے نزدیک ”ایمان“ کی بنیاد (اگر کوئی نیت نہیں ہے) حَالِف کے عرف پر ہے، اگر کوئی نیت ہوتو اس کی نیت کا اعتبار ہے بہ شرطے کہ لفظ کے اندر اس کی گنجائش ہو، شارِح اَشباہ علامہ حموی فرماتے ہیں: وَفِي الْفَتْح: الأَیْمَانُ مَبْنِیَّةٌ عَلَی الْعُرْفِ اذَا لَمْ تَکُنْ نِیَّةٌ فانْ کَانَتْ نِیَّةٌ وَاللَّفْظُ یَحْتَمِلُہ، اِنْعَقَدَتِ الْیَمِیْنُ بِاِعْتِبَارِھَا (۷۳ ط: نول کشور) اس سے معلوم ہوا کہ ”ایمان“ کے باب کا مشہور قاعدہ ”الأَیْمَانُ مَبْنِیَّةٌ عَلَی الأَلْفَاظِ لاَ عَلَی الأغْرَاضِ“ اپنے عموم پر نہیں ہے۔ اس قاعدے کی تفصیلی وضاحت درج ذیل ہے:

          اس میں ”الألْفاظ“ سے مراد الفاظِ عرفیہ ہیں؛ چناں چہ علامہ شامی نے اس قاعدے کی شرح کرتے ہوئے لکھا قولہ ”الأَیْمَانُ مَبْنِیَّةٌ عَلَی الأَلْفَاظِ أَيِ الْاَلْفَاظِ الْعُرْفِیَّةِ“ اس قید (علی الالفاظ) کا مقصد امام شافعی اور امام مالک کے مسلک سے احتراز ہے؛ اس لیے کہ یہ حضرات لغوی معنی مراد لیتے ہیں یا جو معنی قرآن نے مراد لیا، وہ معنی مراد لیتے ہیں اور دوسری قید یعنی ”لَا عَلی الأغراضِ“ سے امام احمد بن حنبل کے مسلک سے احتراز ہے؛ اس لیے کہ وہ محض نیت کو مدار مانتے ہیں، ان قیدوں کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ایمان کا مدار صرف الفاظ پر ہے، نیت اور مقصد کا اس میں کوئی دخل نہیں؛ علامہ ابن نجیم نے تو البحرالرائق میں اس قاعدے پر بحث کرتے ہوئے یہ تصریح کی ہے کہ قیاس کا تقاضا اگرچہ مبنی برالفاظ ہونا ہی ہے؛ لیکن استحسان یہ ہے کہ ”ایمان“ کا مدار اغراض اور نیتوں پر ہے فَالْحَاصِلُ أنَّ بِنَاءَ الْحُکْمِ عَلَی الألْفَاظِ ھُوَ الْقِیَاسُ وَالْاِسْتِحْسَانُ بِنَاوٴُہ عَلَی الأغْرَاضِ (البحرالرائق ۴/۵۰۳ باب الیمین في الدخول والخروج، ط: زکریا)

          الغرض مذکورہ قاعدہ سے متعلق فقہی عبارات نیز ایمان، نذور اور تعلیق کے مباحث پر نظر ڈالنے سے درج ذیل باتیں مستفاد ہوتی ہیں:

          (۱) اگر حالف کی نیت نہیں ہے تو الفاظِ یمین سے اس کا عرفی معنی مراد ہوگا اور عرفی معنی کی تعیین قرائن سے کی جائے گی، قرائن درج ذیل امور ہوسکتے ہیں:

          (الف) متکلم کی حالت مثلاً اصولِ بزدوی میں ہے وَمِثَالُہ مَنْ دُعِي الٰی غَدَاءٍ فَحَلَفَ لاَ یَتَغَدّیٰ، انَّہ یَتَعَلَّقُ بِہ لِمَا فِيْ غَرْضِ الْمُتَکَلِّمِ مِنْ بِنَاءِ الْجَوَابِ عَلَیْہِ (أصول البزدوی، ۲/۱۰۳ ط: بیروت) یعنی اگر کسی شخص کو دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے بلایا جائے اور وہ قسم کھالے کہ واللہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا، تو اس سے مراد دوپہر کا کھانا ہی ہے؛ لہٰذا اگر اس کے علاوہ دوسرا کھانا کھاتا ہے تو اس سے حانث نہ ہوگا، یہاں دلالت من قِبَل المتکلم کی وجہ سے لفظ کے عام معنی کے بجائے متکلم کی غرض کا اعتبار کیا گیا۔

          (ب)متکلم جس ماحول میں کلام کررہا ہے وہ ماحول اور عرف بھی تعیین معنی کے لیے قرینہ بنے گا، جیسے لفظ ”آزاد کردیا“ یہ بعض علاقوں میں کثرت سے طلاق کے لیے استعمال ہوتا ہے؛ اس لیے جب ان علاقوں میں کوئی شخص یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے اپنی بیوی سے کہے کہ میں نے تجھے آزاد کردیا تو اس سے طلاق ہی مراد ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ ”اگر تو اس بات کا تذکرہ کسی سے کرے گی تو تجھ پر تین طلاق، پھرچند دنوں کے بعد شوہر نے تذکرہ کرنے کی اجازت دے دی اور عورت نے تذکرہ کربھی دیا تو عورت پر طلاق نہیں پڑے گی؛ اس لیے کہ عرفاً اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ جب تک اخفا کی ضرورت ہے اس وقت تک اگر کسی سے تذکرہ کیا تو یہ حکم ہے، اس کے بعد اگر وہ عورت کسی سے تذکرہ کردے تو اس پر طلاق واقع نہ ہوگی (امدادالاحکام۴/۷۲، ط: زکریا) اس کی تائید فتاویٰ عالمگیری کی درج ذیل عبارت سے ہوتی ہے: رَجُلٌ خَرَجَ مَعَ الْوَالِی وَحَلَفَ بِالطَّلاَقِ أنْ لاَ یَرْجِعَ الاَّ باذْنِہ وَسَقَطَ مِنْہُ شَیْءٌ وَرَجَعَ لِذٰلِکَ لاَ تُطَلَّقُ (الفتاویٰ الھندیّة، ۱/۴۴۰، الفصل الثالث في تعلیق الطلاق) یعنی ایک شخص نے جہاد کے لیے نکلتے وقت یہ کہا کہ اگر وہ بلا اجازتِ امیر لوٹے تو اس کی بیوی پر طلاق، پھر اس کی کوئی چیز گرگئی جسے لینے کے لیے لوٹا تو اس کی بیوی پر طلاق نہ پڑے گی۔

          (۲) دوسری بات یہ مستفاد ہوتی ہے کہ اگر متکلم اپنے کلام میں کوئی خاص لفظ استعمال کرتا ہے تو ضرور ی نہیں ہے ”عین“ کا مدار بھی اسی خاص لفظ پر ہو؛ بل کہ قرائن سے عام معنی بھی مراد لیا جاسکتا ہے مثلاً شامی میں ہے وَلَوْ قَالَ لَأَضْرِبَنَّکَ بِالسِّیَاطِ حَتّٰی أَقْتُلَکَ فَھٰذَا عَلَی الضَّرْبِ الوَجِیْعِ (شامی ۳/۷۶۱ بیروت) یعنی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں تجھے کوڑے سے پٹائی کروں گا تاآں کہ تجھے مار ڈالوں، تو اس سے مراد تکلیف دہ مارپیٹ ہے، خصوصیت کے ساتھ قتل (جان سے مارڈالنا) مراد نہیں ہے، یہاں خاص لفظ استعمال کیے جانے کے باوجود علامہ شامی کی تصریح کے مطابق خاص معنی مراد نہیں؛ بل کہ معنی عام مراد ہے۔

          (۳) اگر حالف الفاظِ یمین سے کسی ایسے معنی کا ارادہ کرے جو ظاہر لفظ کے خلاف ہے؛ لیکن لفظ کے اندر اس کی گنجائش ہے تو وہی مَنْوِی معنی مراد ہوگا۔

          نوٹ: عالم گیری کی ایک عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظِ یمین کی مراد کی تعیین کے بارے میں طرفین اور امام ابویوسف کے درمیان اختلاف ہے، امام ابویوسف غرض (مقصد) کا اعتبار کرتے ہیں؛ جب کہ طرفین عمومِ لفظ کا؛ چنانچہ عالم گیری میں ہے وَلَوْ قَالَ لَھَا ”اگر تو باکسے حرام کنی“ فَأَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثًا، فَأَبَانَھا فجامَعَھا فِيْ الْعِدَّةِ طُلِّقَتْ عِنْدَھُمَا؛ لِأَنَّھَا یَعْتَبِرَانِ عُمُوْمَ اللَّفْظِ وَأبُوْیُوْسُفَ - رَحِمَہُ اللہُ - یَعْتَبِرُ الْغَرَضَ فَعَلٰی قِیَاسِ قَوْلِہ لاَ تُطَلَّقُ وَعَلَیْہِ الْفَتْویٰ (۱/۴۲۵، ط: بیروت، الفصل الثالث في تعلیق الطلاق) یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ علامہ ظفراحمد عثمانی نے متعدد فتاویٰ میں امام ابویوسف کے قول کو ہی اپنایا، ملاحظہ ہو امداد الاحکام ۴/۷۲، ط: زکریا۔

***

-------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5 ‏، جلد: 96 ‏، جمادی الثانیہ 1433 ہجری مطابق مئی 2012ء