دنیائے مغرب کی اسرائیل نوازی - کیا ہیں راز ہائے دروں؟؟

تحریر:      ڈاکٹر عوض بن محمد القرنی                          

ترجمانی:    نایاب حسن قاسمی شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند  

 

          سولہویں صدی عیسوی میں پروٹسٹینٹ پادری مارٹن لوتھر نے کلیسا اور ان مذہبی رہنماؤں کی اصلاح کی تحریک چھیڑی، جو کتابِ مقدس عہدِ قدیم (توریت) عہد جدید (انجیل) کی تشریح وتبیین کو اپنا موروثی حق سمجھتے تھے، اس کے نتیجے میں ہر پروٹسٹینٹ کوشخصی طورپر کتابِ مقدس کے نصوص کو سمجھنے اور ان کی توضیح کی آزادی حاصل ہوگئی۔

          مارٹن لوتھر کے اس زبردست اقدام کے بعد عہد قدیم (توریت) پروٹسٹینٹ عیسائیوں کے لیے یہودیوں کی تاریخ ہی نہیں؛ بلکہ خود عہد جدید (انجیل) کے مفاہیم تک رسائی کا بھی اہم ذریعہ بن گئی اور عبرانی زبان، جس کا سیکھنا احمقانہ مشغلہ سمجھا جاتا تھا، اب یورپی تہذیب کا ایک اہم جزء سمجھی جانے لگی اور اسے مذہبی تعلیم کے نصاب میں شامل کرلیاگیا، حتیٰ کہ سولہویں صدی کے اخیر میں عبرانی زبان طباعت کی زبان ہوگئی اور عبرانی۔ یہودی روح یورپی علوم وفنون سے گذر کر یورپی تہذیب وثقافت تک میں سرایت کرگئی؛ چنانچہ فن کار (Artist)کتابِ مقدس کی تصویریں بنانے لگے اور عہدِ قدیم کے افسانوں اور کہانیوں نے ان ڈراموں کی جگہ لے لی، جو گذشتہ مسیحی بزرگوں کی زندگیوں کے خاکے پیش کرتے تھے اور اس طرح یہودی افکار وتصورات اور اطوار وآداب مسیحی عقائد ونظریات کی جڑوں تک سرایت کرگئے۔

          لوتھر کی برپا کردہ اس تحریک کے نتیجے میں جو یہودی افکار وخیالات مسیحی مذہب میں درانداز ہوئے ان کے مرکزی محور تین تھے:

          (۱) یہود اللہ کے محبوب ترین بندے ہیں۔

          (۲) ارضِ فلسطین یہودیوں کے لیے عطیہٴ خداوندی ہے اور اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ بہ تمام وکمال انھیں حاصل ہوکر رہے گی۔

          (۳) قُربِ قیامت میں حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا؛ تاکہ وہ ساری دنیاکے یہودیوں کو ارضِ فلسطین میں لابسائیں۔

          پروٹسٹینٹ عیسائیوں کا یہ اعتقاد بن گیا کہ فلسطین میں یہودانِ عالم کی آبادکاری اور صہیونی حکومت کے قیام میں حتی الوسع مساعدت منشائے ایزدی ہے؛ تاکہ یہ کام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول تک پایہٴ تکمیل کو پہنچ جائے، جو ہرقسم کے مصائب سے استخلاص اور امن وسلامتی کے ضامن بن کر آئیں گے، ان عیسائیوں میں یہودیوں کے تعلق سے یہ عقیدہ بھی پھیل گیا کہ وہ فلسطین میں قیامت سے پہلے انتہائی خوش عیشی کے ساتھ ہزار سال گذاریں گے۔

          اسی طرح ان عیسائیوں میں ایک اور جدید نظریہ درآیا، جو یہودی افکار ونظریات سے متأثر ہونے کا نتیجہ تھا، اس نظریے کے ترکیبی عناصر یہ تھے: عیسائیوں پر توریت میں یہودیوں کے حق میں دی گئی پیش گوئیوں کی تکمیل میں عملی حصے داری ضروری ہے، فلسطین میں یہودیوں کے وجود کو تسلیم کرانے کی ہر ممکن تگ ودو کرنا، یہودیوں کی ترقیات میں شرکت کی پوری دنیا کو دعوت دینا، ان کے تعلق سے چہار سو پھیلے ہوئے تحقیر وتذلیل کے رویے کے خاتمے کی کوشش کرنا اور دنیا کے مختلف خطوں میں ان پر ہونے والے ظلم وستم کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرنا اور اسے روکنے کا مطالبہ کرنا۔

          حالانکہ ایک زمانہ وہ تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان محض کُشت وخون کا علاقہ تھا؛ چنانچہ برطانیہ کے شاہ ”جان ملک“ نے اپنے دور اقتدار میں یہ عمومی حکم صادر کررکھا تھا کہ ملک کے گوشے گوشے سے تمام یہودیوں کو گرفتار کرکے پس دیوارِ زنداں ڈھکیل دیا جائے، اسی طرح ”ہنری سوم“ نے اپنے زمانے میں یہودیوں کو پکڑ پکڑ کر سخت سزائیں دیں اورانھیں اس پر مجبور کیا کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک تہائی حصہ ملک کے بیت المال میں جمع کیا کریں،اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اپنی فطرت خِسّت اورہوسِ زر کی آسودگی کی خاطر برطانیہ کے مالی بجٹ کو کافی خسارے سے دوچار کررکھا تھا۔

          فرانس کے حکمراں ”لوئس آگسٹس“ نے اپنے عہدِ حکومت میں تمام یہودیوں کو ملک بدر کردیاتھا اور ان کی تمام مذہبی کتابیں (بالخصوص تلمود) نذر آتش کردی تھیں۔

          اس کے علاوہ یورپ کے بہت سے مسیحی ممالک ایسے تھے، جہاں یہودیوں کو زبردستی عیسائی بنایا جاتا ورنہ ان کی آنکھیں پھوڑ دی جاتیں، اعضائے جسمانی کاٹ ڈالے جاتے، قید خانوں کی تاریک کوٹھریوں میں ڈال دیا جاتا اور ان پر ایذارسانی وتعذیب کے گوناگوں طریقے آزمائے جاتے، تاریخ کے اوراق میں یہ حقائق پوری طرح ثبت ہیں۔

          پھریہودیوں کے تئیں نفرت کی یہ عام فضا صرف سیاسی طبقوں ہی تک محدود نہ تھی؛ بلکہ قرونِ وسطیٰ کے مذہبی وادبی طبقہ میں بھی ایسے لوگوں کی ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی تھی، جن کا کام صبح وشام یہودیوں پر نفرین بھیجنا تھا، اسی جماعت کا ایک شاعر یہودیوں کے تئیں اظہارِ نفرت کرتے ہوئے کہتاہے:

          ”یہ یہود حقیر، بدبودار، بے حیا اور حاسد لوگ ہیں، یہ بیماریوں کو پھیلانے والے، کہتر، بیکار، ناپسندیدہ اور خسیس لوگ ہیں، یہ گندے، بخیل، عداوت پیشہ، تنگ ظرف، احسان فراموش اور دشمنی میں حد سے گذرنے والے لوگ ہیں، شرافت وایمان داری اور ہرقسم کی پاسداری کو انھوں نے پوری ڈھٹائی سے بیچ دیا ہے۔“

          پوپ پولوس چہارم (Paul-iv)کا قول ہے کہ:

          ”یہ لوگ صرف غلامی کی زندگی گذارنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، یہ انتہائی ذلیل لوگ ہیں۔“

          یہودیوں کے ساتھ مسیحی تعلقات کی یہی نوعیت صدیوں تک برقرار رہی؛ تاآں کہ لوتھر کی انقلابی تحریک نے عیسائیوں کے افکار وخیالات اور یہودیوں کے تئیں ان کے عام رجحانات بدل ڈالے، حتیٰ کہ ارضِ فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری افسانوی روایت سے ایک ایسے مسلم عقیدے میں تبدیل ہوگئی، جس کا تعلق ظہورِ مسیح علیہ السلام  سے جوڑ دیاگیا (عیسائیوں کے پیش رو مذہبی رہنما یہودیوں کے فلسطین میں اقامت گزینی کے عقیدے کو افسانے سے زیادہ کاد رجہ دینے کو تیار نہ تھے) اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جب لوتھر نے عہدِ قدیم (توریت) پر مذہبی اشخاص کی اجارہ داری کے خاتمے کا اعلان کردیا، تو یہودیوں نے عام عیسائیوں میں پورے شدومد کے ساتھ اپنی ان من گڑھت روایتوں کی تشہیر شروع کردی، جو انھیں معزز اور محبوبینِ بارگاہِ الٰہ ثابت کرتی تھیں اور سرزمینِ قدس کو ان کے لیے عطیہٴ خداوندی قرار دیتی تھیں۔

          اس طرح ارضِ فلسطین عیسائی و یہودی ہردوفرقوں کا بے دلیل مذہبی ودینی ورثہ ٹھہرا، عام مسیحیوں کا موقف بدلا، یہودونصاریٰ کے راستے ایک ہوگئے، دونوں نے ہاتھ سے ہاتھ اور کندھے سے کندھا ملایا، سرزمینِ قدس پر اسرائیلی حکومت کی تاسیس وتوسیع کو عیسائی دنیا اپنا مذہبی فریضہ سمجھنے لگی اور تب ہی سے ہم مسلسل مشاہدہ کررہے ہیں کہ وہ کس بے حیائی وبددیانتی کے ساتھ عالمی دہشت گرد اسرائیل کی پشت پناہی میں مصروف ہے۔

          ۱۹۵۴/ میں امریکی سفیر برائے اسرائیل کا یہ بیان اس حقیقت سے اچھی طرح پردہ اٹھاتا ہے، جس میں اس نے یہودیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:

          ”آپ کی حکومت کی اساس گذاری میں ہماری حکومت نے جو تعاون اور خدمات پیش کی ہیں، ہمیں اس پر فخر ہے اور ہم سب (یہود ونصاریٰ) پر جو اپنی تہذیب وثقافت اور انبیائے بنی اسرائیل کے الہامات پر یقین رکھتے ہیں، ارضِ قدیم (فلسطین) پر ایک نئی قوم اور ایک جدید حکومت کی تشکیل واجب ہے۔“

          ان دونوں کا یہی مشترکہ دینی ورثہ موجودہ عیسائی- یہودی تعلقات کا اصل سبب ہے، جن میں مرورِایام کے ساتھ مزید استحکام آرہا ہے اور جو آئے دن پیش آنے والے حادثات وواقعات سے اور روشن ہورہے ہیں۔

          اس کے علاوہ موجودہ عیسائی - یہودی تعلقات کو توانائی بخشنے والے اور بھی اسباب ہیں، جن میں ایک اہم؛ بلکہ بہت حدتک مرکزی سبب دونوں کی مشترکہ اسلام دشمنی اور اسلامی بیداری کا مشترکہ خوف ہے۔

          یہود ونصاریٰ کی اسلام دشمنی تو ان کا قدیم آبائی سرمایہ ہے، جس کی طرف قرآنِ کریم نے متعدد جگہوں پر اشارہ کیاہے:

          (۱) مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِنْ أھْلِ الْکِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِکِیْنَ أنْ یُنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِنْ خَیْرٍ مِنْ رَبِّکُمْ، وَاللہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہ مَنْ یَّشَاءُ، وَاللہُ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(البقرہ:۱۰۵)

          (۲) وَدَّ کَثِیْرٌ مِنْ أھْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِنْ بَعْدِ ایْمَانِکُمْ کُفَّارًا، حَسَدًا مِنْ أَنْفُسِکُمْ، مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ، فَاعْفُوْا، وَاصْفَحُوا، حَتّٰی یَأتِیَ اللہُ بِأمْرِہ انَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (البقرہ:۱۰۹)

          (۳) وَلَنْ تَرْض عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلاَ النَّصَارَیٰ حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ (البقرہ:۱۱۹)

          (۴) وَلاَ یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوا (البقرہ:۲۱۷)

          معلوم ہوا کہ مسلمانوں سے ان کی اس سخت اور ازلی دشمنی کی وجہ، اسلام اور اس کے ماننے والوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا بے پایاں فضل اور انھیں پوری دنیا کے اقوام ومذاہب پر برتری اور تفوق بخشنا ہے۔

          ۱۹۶۷/ میں امریکی وزارتِ خارجہ کے پالیسی ساز ادارے کے سربراہ کا وہ بیان یہود ونصاریٰ کی ازلی اسلام دشمنی کا سچا آئینہ دار ہے جس میں اس نے پوری صراحت کے ساتھ کہا تھا کہ:

          ”یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ مذہبی روایات، عقائد اور نظامِ حکومت کے حوالے سے مغربی دنیا کے تکمیلی جزء کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی وہ چیز ہے، جس کی وجہ سے اسے مشرقی اسلامی دنیا؛ بلکہ دین اسلام، اس کے افکار ونظریات اوراس کے عقائد کی مخالفت کرنے اور صہیونی حکومت کی موافقت میں کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا؛ کیوں کہ اگر امریکہ اس کے خلاف کوئی موقف اختیار کرتا ہے، تو یہ اس کے سیاسی ہی نہیں؛ بلکہ لسانی، روایتی، تہذیبی اور مذہبی تشخصات کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔“

          سابق برطانوی وزیراعظم کا یہ بیان بھی چونکادینے والا ہے کہ:

          ”ہم کبھی بھی بوسینیا اور ہرزے گووینا کے مسلمانوں کو مسلح نہیں دیکھ سکتے، ہم اقوامِ متحدہ پر مسلسل دباؤ بنائیں گے کہ وہ بوسینیا کے مسلمانوں کو اسلحہ رکھنے سے روکے اور مسلم حکمرانوں کو فرضی امن مذاکرات میں الجھائے رکھے؛ تاکہ کوئی بھی مسلم ملک ان کی امداد کے حوالے سے کسی نوع کی سرگرمی نہ دکھاسکے۔“

          ایک اور ننگِ انسانیت اور کٹّر اسلام دشمن فرانسیسی مستشرق کا یہ بیان کس قدر تکلیف دہ ہے کہ:

          ”محمد (فداہ ابی وامی) کا دین جذام کی طرح ہے، جو لوگوں میں پھیل رہا ہے اور انھیں بری طرح ہلاک کررہا ہے؛ بلکہ یہ انتہائی خطرناک، ذہنوں کو مفلوج اور عقلوں کو ناکارہ بنادینے والا مرض ہے یا تو یہ مذہب تعطل، کاہلی اور بے کاری پر ابھارتا ہے یا پھر خوں ریزی وشراب خوری پر، میری رائے میں کم از کم مسلمانوں کے پانچویں حصے کو تو سرے سے ختم ہی کردینا چاہیے اور جو بچ رہیں، ان سے سخت بیگار لیا جائے، کعبہ کو منہدم کردیا جائے اور محمد کی قبر کو کھود کر ان کی نعش کسی ادنیٰ درجے کے میوزیم میں ڈال دی جائے۔“ نَعُوذُ باللّٰہ!

          قدآور اسرائیلی رہنما ”ڈیوڈبن گارین“ کے اس بیان سے بھی یہود ونصاریٰ کی مشترکہ اسلام دشمنی اور اسلامی بیداری سے ان کے خوف کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے:

          ”ہمیں سب سے زیادہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں عالم عربی میں پھر کوئی محمد (فداہ ابی وامی) نہ پیدا ہوجائے۔“ (یعنی کوئی ایسا مرد جگر دار، جو آپ کے پیغامات وتعلیمات کو لے کر اٹھے اور عالم پر چھاجائے)

          اسلام کے تئیں پوری دنیائے مغرب کے یہود ونصاریٰ کی یہی نفسیات ہیں، خواہ سیاسی طرح پر ہوں یا مذہبی وعوامی پیمانے پر گوکہ اسلامیانِ عالم کے قائدین یا تو اس حقیقت سے بے خبر ہیں یا اگر باخبر ہیں، تو خواب غفلت سے بیداری ان کے لیے ”کارے دارد!“۔

          ایک اور چیز ہے، جو صدیوں سے باہم دست وگریباں رہنے والے یہود ونصاری کی حیرت انگیز دوستی اور اتحاد کے اہم عامل کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ دنیائے مغرب کے مرکزی اداروں اور مسیحی معاشروں پر یہودیوں کا زبردست اثر ونفوذ ہے۔

          صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ان کی آبادی اسرائیل کی آبادی سے دوگنی ہے اور وہ وہاں کے تمام حساس عہدوں پر بھی فائز ہیں مثلاً: وزارتِ خارجہ، وزارتِ صحت، وزارتِ تعلیم وتربیت، ہائی کورٹ سربراہی، امورِ خارجہ کے مشاورتی بورڈ کی رکنیت، مجلسِ عاملہ کی سربراہی وغیرہ، اسی طرح امریکہ کے صدارتی انتخابات کی تمام تر سرگرمیوں میں حیرت انگیز حد تک وہ لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں؛ تاکہ منتخب ہونے والا صدر اپنی ہر حرکت وعمل میں ان کے اشارئہ ابرو کا پابند رہے۔

          دوسری طرف چونکہ امریکہ میں یہودیوں کی مجموعی تعداد کل امریکی عوام کا بیس فیصد ہے اور وہ امریکی اقتصادیات کے تمام مرکزی اداروں پر قابض بھی ہیں، اس لیے امریکہ میں سب سے زیادہ مضبوط معیشت یہودیوں ہی کی ہے۔

          اسی طرح مغربی ذرائع ابلاغ، جور ائے عامہ ہموار کرنے اور پوری دنیا کے انسانوں کے افکار وخیالات سے کھلواڑ کرنے کا موٴثر ترین ذریعہ ہے، اس پر بھی تسلط جمانے اور اپنی خواہش کے مطابق رائے عامہ کی تشکیل میں یہودی پوری طرح کامیاب ہیں؛ چنانچہ یومیہ شائع ہونے والے کل امریکی اخبارات ۱۷۵۹ کے نصف پر تو انھیں بہ راہِ راست اور عملی طور پر اثر ونفوذ حاصل ہے؛ جب کہ بقیہ نصف پر ان کا کنٹرول جزوی ہے، امریکہ کے مشہور اخبارات نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، ٹائم، نیوز ویک؛ ان سب کا فکری سانچہ ازسر تاپا یہودیت میں ڈھلا ہوا ہے، اس کے علاوہ پچاس فیصد امریکی نشریاتی ادارے بہ تمام وکمال ان کے قبضہ وتصرف میں ہیں۔

          یہ وہ اسرار واسباب ہیں، جن کی وجہ سے مغربی دنیا پوری ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل کے دست وبازو کو تقویت پہنچانے میں مصروف ہے اور وہ ہے کہ․․․․ع

بنا ہے شَہہ کا مصاحب، پھرے ہے اِتراتا

***

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5 ‏، جلد: 96 ‏، جمادی الثانیہ 1433 ہجری مطابق مئی 2012ء