حرفِ آغاز

 

مغرب (یہود ونصاریٰ) كا اپنا عفریتی کردار اور انسانیت کی تحقیر وتذلیل  

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

          مغرب (یہود ونصاریٰ) نے اپنے عفریتی کردار سے انسانیت کی جس قدر تحقیر وتذلیل کی ہے اقوام وملل کی تاریخ میں اس کی مثال دستیاب نہیں، ظلم وفساد کی تخم ریزی ان کی پیدائشی خصلت ہے، نفاق وبدعہدی ان کا طرئہ امتیاز ہے، قہر وجبر اُن کا تہذیبی مزاج ہے، انسانی لاشوں پر کھڑے ہوکر اپنی درازیِ قد کا اظہار ان کا قومی شیوہ ہے، بہیمیت اور خون آشامی ان کی قدیم روایت ہے، خونِ انسانی کے خوگر یہی وہ آدمی نما بھیڑئیے ہیں، جن کی چیرہ دستیوں سے رہوڈیسیا کی سرزمین انسانوں کے خون سے رنگین ہوچکی ہے، یہی وہ ظلم پیشہ طبقہ ہے جن کے جور مسلسل سے بدحال کینیا کا نالہ وشیون تاریخ کی زبان سے آج بھی سنائی دے رہا ہے، یہی وہ انسان نما درندے ہیں، جن کے ذوقِ خون آشامی کا طوفان تیس سال تک ویت نامیوں پر مسلط رہا۔

          ابھی ماضی قریب میں انسانیت کے اس حریف نے تہی دست وناتواں افغانستان کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا اور نہ جانے کتنے معصوم بچوں، نحیف ونزار بوڑھوں، ضعیف الخلقت عورتوں اور ملک وقوم کے آسرا نوجوانوں کو بارود کے آتشیں سمندر میں ہمیشہ کے لیے غرق کردیا، جس کا سلسلہ کسی نہ کسی حد تک ابھی جاری ہے، کسے نہیں معلوم ہے کہ حیات انسانی کے انھیں دشمنوں نے اپنے دجل وفریب اور بے بنیاد خود تراشیدہ الزام کو بہانا بناکر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور ایسے خطرناک اور عام تباہی مچانے والے ہتھیاروں کا استعمال کیا کہ انسانی تاریخ میں اب تک لڑی گئی جنگوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ آگ وخون کے اس سیل رواں میں کس قدر انسان غرقاب ہوئے، اس کی صحیح تعداد خدائے علیم وخبیر کے سوا کسی کو معلوم نہیں، اور آج بھی ہزاروں عراقی عوام اپنے جرم بے گناہی کی سزا میں پس دیوار زنداں انتہائی کرب ناک اور حیاسوز حالات سے دوچار ہیں، جس کا ہلکا سا اندازہ عراق کی ابوغریب جیل میں اسیروں کی ان تصویروں سے ہوسکتا ہے جنھیں کچھ عرصہ پہلے الیکٹرونک میڈیا نے شائع کیا تھا، جنھیں دیکھ کر کچھ دیر کے لیے شیطان بھی شرم سار ہوئے بغیر نہ رہ سکا ہوگا۔

          انسانیت نوحہ کنا ں ہے کہ ربِّ کائنات جس انسان کو تونے بروبحر کی جملہ مخلوقات پر کرامت وشرافت کی خلعت سے ممتاز وسرفراز کیا تھا، آج اسی محترم انسان کو کس طرح سے توہین وتذلیل کا شکار بنایا جارہا ہے، تہذیب و تمدن کی علم برداری کے یہ نام نہاد مدعی، اور حقوق انسانی کے بزعم خویش محافظ بتائیں کہ کیا تاریخ کے کسی دور میں انسانوں کے ہاتھوں انسانیت کی اس قدر تحقیر وتذلیل ہوئی ہے؟

          اسلام چونکہ احترامِ انسانیت کا صحیح معنوں میں سب سے بڑا علم بردار اور بے لوث سچا محافظ ہے، آج دنیا میں خیروصلاح، شرافت وبلندکرداری اور صالح تہذیب وتمدن کی جو شکلیں بھی پائی جارہی ہیں، یہ سب درحقیقت پیغمبرِ اسلام کی صفات حمیدہ کا پرتو، اور آپ ہی کی تعلیمات کا مظہر ہیں۔

          ظاہر ہے یہ انانیت پسند بہیمیت زدہ قوم جو اپنی خونخوار تہذیب کے علاوہ دنیا میں کسی تہذیب وثقافت کو نہیں جانتی ہے، جسے خدا کی اس سرزمین میں اپنے علاوہ کسی اور کا وجود گوارہ نہیں ہے، وہ اسلام، پیغمبر اسلام، مراکز اسلام کو کیوں کر برداشت کرسکتی ہے۔ اس لیے اسلام کے ابتدائی عہد سے انھوں نے اسلام کو اپنا اوّل وآخر حریف باور کررکھا ہے، اور اسلام کی بیخ کَنی کے لیے انھوں نے ہرزمانہ میں اپنی امکانی حد تک کسی کوشش سے دریغ نہیں کیا ہے، عہد رسالت سے صلیبی جنگ کے دور اور وہاں سے اب تک کی اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ان کی معاندانہ مہم جویوں کی سرگذشت کو عقل وہوش رکھتے ہوئے کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؛ چنانچہ خالقِ کائنات نے ان کے اس فطری رویہ سے پیغمبرِ اعظم … کو شروع ہی میں آگاہ کردیا تھا اور صاف لفظوں میں بتادیا تھا کہ ”وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلاَ النَصٰریٰ حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ“ اور ہرگز راضی نہ ہوں گے تجھ سے یہود اور نصاریٰ جب تک تو تابع نہ ہو ان کے دین کا، اس فرمانِ الٰہی کا واضح مفہوم یہی ہے کہ ان سے کسی رواداری اور موافقت کی امید سراب سے آب زلال کی توقع کے مرادف ہے۔

          اس لیے حالیہ دنوں میں امریکی فوجیوں کے تربیتی نصاب کے ان ابواب کے منظرعام پر آجانے سے جس میں کہا گیا ہے کہ ”جس طرح دوسری جنگ عظیم کے موقع پر جاپان کے ”ہیروشیما“ اور ناگاساکی پر ایٹم بم گراکر ان کو تباہ کیاگیا تھا، اسی طرح مسلمانوں اور اسلام سے نجات اور چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے (نعوذ باللہ) مکہ ومدینہ (زادہما اللّٰہ شرفا) میں وہی متبادل اختیار کیے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے“ اگرچہ بعض حلقوں سے حیرت واستعجاب کیا جارہا ہے؛ لیکن جو لوگ یہود ونصاریٰ کے اسلام مخالف رویہ سے واقف ہیں، ان کے لیے یہ کوئی اعجوبہ نہیں ہے؛ بلکہ ان کی اصل فطرت کا انکشاف ہے؛ البتہ اس نصاب کی تشہیر سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ امریکہ موجودہ صدر براک اوباما کی منافقت طشت از بام ہوگئی، انھوں نے اقتدار کی کرسی سنبھالنے کے بعد ”قاہرہ یونیورسٹی“ کے اسٹیج سے امریکہ اور عالم اسلام کے درمیان غلط فہمیوں کے خاتمہ کی ضرورت پر زور دیا تھا اور ۱۱/۹ کے دہشت گردانہ حملہ کے بارے میں یہ وضاحت کی تھی کہ یہ حملہ ان کے ملک اور عوام کے خلاف جارحیت تھی، امریکہ دہشت گردوں کے خلاف جو فوجی مہم چلا رہا ہے وہ کسی مذہب یا فرقہ کے خلاف نہیں ہے، انھوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ کہا تھا کہ ہم اسلام کے خلاف برسرپیکار نہیں ہیں؛ بلکہ ہمارا نشانہ صرف دہشت گرد ہیں، اس موقع پر جوشِ خطاب میں انھوں نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس کا اظہار کیا تھا کہ اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے، اور انسانی اقدار اس کی اساس ہے، امریکی فوجیوں کے اس تربیتی نصاب سے عالم آشکارا ہوگیا کہ امریکی صدر کی مذکورہ باتیں حقیقت سے عاری اور خلافِ واقعہ تھیں، اور دنیا پر ایک بار پھر یہ صداقت منکشف ہوگئی کہ ان لوگوں کے قول وفعل میں ہم آہنگی نہیں ہوتی؛ یہ کرتے کچھ ہیں اور کہتے کچھ ہیں۔

          اس فتنہ پرور اور شرانگیز نصاب کے مشتہر ہوجانے کے بعد امریکی حکمرانوں کی طرف سے جو رد عمل ظاہر کیاگیا ہے۔ اس کی حیثیت ایک مضحکہ خیز ڈرامہ سے زیادہ کی نہیں ہے، جسے ایک برہنہ حقیقت پر کذب وفریب کی چادر ڈالنے کی حرکت ہی کہا جائے گا۔ امریکی حکام اپنے طور پر گویا دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ اس فساد خیز نصاب سے واقف نہیں تھے؛ لیکن اس پر کون صاحب ہوش یقین کرے گا کہ دنیا بھر میں اپنا زبردست نیٹ ورک رکھنے والا امریکہ جسے دوسروں کے بیڈروم اور خواب گاہوں تک رسائی حاصل ہو، خود اپنے ملک اور اپنی فوج میں رائج اس شیطانی نصاب سے لاعلم تھا۔

          عصر جدید کے ان ابرہوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ خالقِ کائنات کو اگر ابھی اس عالم ہستی کا وجود باقی رکھنا ہے تو وہ اپنے ان ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں، قادر مطلق جس طرح آج تک اسلام، اور مراکز اسلام کی حفاظت کرتا رہا ہے اور اسلام کے خلاف ان کی برہنہ تدبیروں کو ناکام بناتا رہا ہے، وہ خدا آج بھی اپنے مقدس گھر کی اور اپنے محبوب کے شہر کی نگہبانی کرے گا، اور ہمیشہ کی طرح ان اسلام دشمنوں کو زلت ونکبت اور خدائی غضب ہی ہاتھ آئے گا۔

***

---------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6 ‏، جلد: 96 ‏، رجب 1433 ہجری مطابق جون 2012ء