تعارف وتبصرہ

 

 

 

          نام کتاب :         ”بدیہیاتِ قرآن“ (جلد اوّل)

          موٴلف   :         حضرت مولانا محمد عارف جمیل قاسمی مبارک پوری زیدمجدہ

                             استاذ دارالعلوم دیوبند

          صفحات   :         (۹۹۶)   طباعت اول         :         ۲۰۱۱ء

          قیمت     :         دو سو روپے (۲۰۰)

          ناشر      :         النادی العربی، دارالعلوم زکریا، جنوبی افریقہ

          ملنے کا پتہ  :         مکتبہ دارالمعارف، دیوبند

          تبصرہ نگار  :         مولانا اشتیاق احمدقاسمی

------------------------

          قرآن کریم کتاب الٰہی ہے، اس کی خوبیوں کا دریا ناپیدا کنار ہے، چودہ صدی سے اس پر خامہ فرسائی کی جارہی ہے، مختلف جہات سے اس کا اعجاز رقم کیا جارہا ہے: ہر غوطہ زن کا دامن آب دار موتیوں سے ہم کنار ہوجاتا ہے؛ مگر ان سب کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اب ان میں مزید اضافہ نہیں ہوسکتا؛ سچ فرمایا صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے (لاَ تَنْقَضِيْ عَجَائِبُہ) کہ اس کی خوبیاں ختم نہیں ہوسکتیں ---- ”بدیہیاتِ قرآن“ علوم قرآنی کے سمندر میں غوطہ لگانے والے ایک فاضل دارالعلوم دیوبند کی شبانہ روز محنتوں کا مظہرِ جمیل ہے۔ اس میں قرآن کریم کی اسلوبیاتی خوبیوں کا ایک خاص گوشے سے مطالعہ پیش کیا گیا ہے، ہمارا ایمان ہے کہ قرآنِ کریم میں ایک لفظ بھی زائد نہیں ہے، اس کے بعض الفاظ اور جملوں کا تکرار بھی خوبیوں سے خالی نہیں، اسے عربِ اولین کے طرز پر محاوراتی اسلوب میں نازل کیاگیا ہے، اس میں اگر کسی واقعہ کو ایک جگہ مختصر اور دوسری جگہ مفصل بیان کیاگیا ہے تو وہ بھی حکمت سے خالی نہیں اور اگر کہیں ایک ہی بات کو ایک یا چند حرف یالفظ کے اضافے کے ساتھ بیان کیا ہے تو ان میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہے۔

          سب سے پہلے مفسر محترم نے مقدمہ میں مطالعہ کا نہج متعین فرمایا ہے، اس میں ”بدیہیات“ کی تعریف کی ہے، واضح رہے کہ یہاں بدیہی کا وہ مفہوم مراد نہیں ہے جو منطق کی کتابوں میں ہے؛ بلکہ بدیہی آیتوں سے مراد وہ آیتیں ہیں، جن کو پڑھ کر یک لخت ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ ان کو اس انداز سے کیوں کہا گیا؟ اس میں ایک لفظ یا ایک حرف کیوں بڑھایا گیا؟ اس کے بغیر بھی آیت کا مفہوم مکمل تھا! مثلاً: ”وَلاَ طَائِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ“ میں ”جناحیہ“ کااضافہ کیوں کیاگیا؟ فَخَرَّ علیھم السَّقْفُ مِنْ فَوْقِھِمْ میں ”مِن فوقھم“ زائد معلوم ہوتا ہے، اسی طرح ”یکتبون الکتاب بأیدیدھم“ میں ”ایدیھم“ کا اضافہ اولِ نظر میں زائد معلوم ہوتا ہے۔ ابتدائی ”خُطّةُ البحث“ میں بدیہیات اور مسلمات کے درمیان فرق، بدیہیات کی قسمیں اور اس کے درجے وغیرہ کو موصوف نے اچھی طرح تحریر فرمایا ہے۔

          یہ تصنیف دراصل عربی زبان میں تھی، چند قسطیں دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ کے عربی ترجمان رسالہ ”البعث الاسلامی“ میں طبع ہوکر قارئین اور مدیر رسالہ سے کافی تحسین حاصل کرچکی ہیں، پھر مفسر زیدمجدہ نے اسے اردو زبان میں منتقل کیا اور اس کی چند قسطیں ”ماہ نامہ دارالعلوم“ دیوبند میں شائع ہوئیں، ہر قاری نے موصوف کی کوششوں اور تدبرِ قرآن کی نئی جہت کو سراہا، اب یہ سورئہ رعد تک تقریباً ایک ہزار صفحات پر شائع ہوئی ہے، جن جن بزرگوں نے اس کا مطالعہ کیا، انھوں نے اس خدمتِ جلیل کو کافی سراہا اور موصوف کو تبریک وتحسین کے کلمات سے نوازا، موصوف محقق نے کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہی ہے، بدیہیات سے متعلق ہر حکمت اور نکتہ کو معتمد مفسرین کی کتابوں کے حوالے سے ذکر کیا ہے، اس سے قارئین کا اعتماد بڑھ جاتا ہے۔

          ”بدیہیات قرآن“ میں فہرستِ عناوین میں صرف آیتیں لکھی گئی ہیں، اگر آیتوں کے بجائے آیات میں دریافت اسرار وحکم اور لفظی ومعنوی خوبیوں کو عنوان بنایاجاتا تو اور بھی بہتر ہوتا، اسی طرح ایک ہزار صفحات کو اگر ایک جلد کے بجائے دو یا تین جلدوں میں شائع کیا جاتا تو قارئین کو پڑھتے وقت سنبھالنے میں زحمت نہ ہوتی۔ تبصرہ نگار کو یہ دوباتیں محسوس ہوئیں، ویسے مندرجات کے حوالے سے یہ بات بہت ہی اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ مفسر موصوف نے کوئی بات کچی نہیں کہی ہے؛ جو قابلِ اعتماد تفسیرِ قرآن، یا عقیدہ یا مسلّماتِ شرعیہ سے ٹکراتی ہو؛ بلکہ ہر ہر لفظ کو پڑھتے ہوئے قاری کی دلچسپی بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے، اور اس کا احساس وشعور مفسر کو بار بار دعاؤں سے نوازتا چلا جاتا ہے۔

          غرض یہ کہ ”بدیہیاتِ قرآن“ آیاتِ الٰہی کے اسرار وحکم، اور اعجاز قرآنی کی گوناگوں خوبیوں سے لبریز ہے، اللہ تعالیٰ اپنے شایانِ شان مفسر موصوف کو بدلہ عنایت فرمائیں، اور مزید در مزید علمی تصنیف کی توفیقِ ارزانی بخشیں! آمین یا ربَّ العالمین۔

***

 

          نام کتاب :         ”انوار الایضاح“ شرح اردو نورالایضاح

          شارح    :         مولانا وسیم احمد قاسمی، بلبل پوری مدظلہ

          صفحات   :         (۸۲۹) طباعت    :         ۱۴۳۲ھ

          ناشر      :         مکتبہ اختریہ جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاج پورہ، سہارن پور

          تبصرہ نگار  :         مولانا اشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند

------------------------

          ”نورالایضاح“ علامہ ابوالاخلاص حسن شُرنبلالی حنفی (م ۱۰۶۹ھ) کی مایہ ناز اور مقبولِ عام کتاب ہے، چار صدی سے مسلسل داخلِ نصاب چلی آرہی ہے، فقہ حنفی پڑھنے والے طلبہ کو عربی زبان میں سب سے پہلے یہ کتاب پڑھائی جاتی ہے، اس کتاب کی جملہ خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے چند ایک مسائل کے علاوہ سارے مسائل مفتی بہ ہیں، جگہ جگہ مصنف نے علامتِ فتویٰ کے ذریعہ اس کی نشاندہی بھی کی ہے، اس کی عربی زبان میں متعدد شرحیں ہیں، بعض شرح پر طویل ترین حواشی بھی لکھے گئے ہیں، اردو زبان میں بھی اس کی شرحیں لکھی گئی ہیں، ان شروحات میں ایک عمدہ شرح زیر تبصرہ ”انوارالایضاح“ بھی ہے، اس میں شارح نے کافی دیدہ ریزی سے کام لیا ہے، اور جدت طرازی کی کوشش بھی قابل تحسین ہے، شروع میں ”فقہ“ کا تعارف کرایا ہے، پھر ”علاماتِ فتویٰ“ اور ان کے درمیان وجوہِ ترجیح لکھی ہے، پھر صاحبِ کتاب کا مختصر تعارف کرایا ہے۔

          شرح کا انداز یہ ہے کہ: سب سے پہلے عبارت اعراب کے ساتھ لکھی ہے، پھر ترجمہ کیا ہے، ترجمہ میں ”تحت اللفظ“ تو نہیں؛ لیکن ”لفظی ترجمہ“ کو ترجیح دی ہے، اور بعض جگہوں پر بین القوسین میں جملہ یا مضمون کی تکمیل کی ہے۔پھر عبارت کے مضمون کو کھول کر بیان کیاہے، جہاں مشکل کلمات ہیں، ان کی لغوی وصرفی تحقیق بھی لکھی ہے، پھر مذکورہ متن سے مربوط مفید مسائل کا اضافہ کیا ہے، اکثر جگہوں میں اس کے لیے ”اختیاری مطالعہ“ کا عنوان بھی بنایا ہے۔ مسائل میں حوالوں کا اہتمام ہے، اس سے قارئین کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔

          یہ شرح اپنے ماقبل کی شرحوں کے مقابلہ میں عمدہ ہے، اگر شارح معتبر نسخوں کو سامنے رکھ کر متن کی تحقیق بھی کرتے تو شرح اور بھی بہتر ہوجاتی، مثلاً: ص۵۶۶ پر مسئلہ ۱۰۰۶ کی عبارت نہ تو مراقی الفلاح میں ہے اور نہ ہی طحطاوی میں ہے، اسی طرح بعض مسئلوں کی تعبیر راقم الحروف کو تشنہ نظر آئی۔

          ان ادنیٰ باتوں کے باوجود کتاب کافی عمدہ ہے، اور نورالایضاح کی مطبوعہ شروحات میں سب سے بہتر ہے۔ کتابت، طباعت اور ٹائیٹل سب کچھ دیدہ زیب ہے، اللہ تعالیٰ اس کی قبولیت میں اضافہ فرمائیں!( آمین)۔

***

-----------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6 ‏، جلد: 96 ‏، رجب 1433 ہجری مطابق جون 2012ء