یہ طرح طرح کے اسلام کون اور کیوں ایجاد کررہا ہے؟

 

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی‏، ۱۵-گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

          انسانیت کی تخلیق کے وقت سے ہی حق وباطل کی جو کشمکش ربّانی اور شیطانی طاقتوں کے درمیان شروع ہوئی ہے، اس کے مظاہر چاہے بدلتے رہے ہوں؛ مگر بنیادی طور پر دونوں طرح کے گروہوں کے دلائل اور کردار ایک ہی رہے ہیں۔ شیطان نے جس طرح اپنی نسلی برتری کے غرور میں حق سے بغاوت کی وہ آج تک اہل باطل کا شیوہ بنا ہوا ہے۔ اہل حق کو شکست دینے کے لیے ان کو لالچ اور خوف کے ساتھ اہل حق کے درمیان گروہی، نسلی، فروعی مسائل کی بنیاد پر جھگڑوں فسادوں اور کُشت وخون کو بڑھاوا دینا اہل باطل یا شیطانی ٹولہ کے ہمنواؤں یا علمبرداروں کا موٴثر ترین ہتھیار رہا ہے۔ اسلامی تاریخ اس کی گواہ بھی ہے اور مسلمان اس کے ہردور میں بری طرح شکار بھی ہوئے ہیں۔ شیطانی طاقتیں مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کے لیے نظریہ یا عقیدہ اور عمل دونوں طرح سے حملہ آور رہے ہیں، اوّل الذکر حملہ کو وہ دل ودماغ کی جنگ (War of hearts and minds) کہتے ہیں، جو کہ کھلے حملہ کی شکل میں بھی ہورہی ہے اور اسلامی اصطلاحوں اور اسلام کے خیرخواہ بن کر بھی ہورہی ہے۔ امریکی سازشی ٹولہ رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) نے امریکی حکومت کے لیے 9/11سے بہت پہلے جو مسلم دشمن ایجنڈہ بناکر دیا تھا، اس میں اہم ترین مسلمانوں کو اندرونی محاذ یعنی مسلکی اختلاف کے فروغ کے ذریعہ کمزور کرنا بھی تھا۔

          گذشتہ ماہ نومبر ۲۰۱۱/ سے پے درپے کچھ اس طرح کی خبریں میڈیا (اسلام دشمن) میں تواتراور تسلسل سے شائع ہورہی ہیں کہ صاف معلوم دیتا ہے کہ سب اچانک اپنے آپ نہیں ہورہا ہے، ”مرادآباد میں آ ل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ“ کے اجلاس میں ”صوفی اسلام“ اور ”وہابی اسلام“ کے حوالہ سے جو زبان استعمال کی گئی ”صوفی اسلام“ کے ماننے والے ہندوستان میں ٪۸۰ ہیں ٪۹۵ بھی بتایاگیا، ان کو نمائندگی نہیں ملتی، ہر جگہ ”وہابی مسلمانوں“ ”دیوبندی“ مسلمانوں کو نمائندگی ملتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ، معاملہ کی ابتداء ۵/۱۲/۲۰۱۱/ کے دی ہندو روزنامہ کی رپورٹنگ سے ہوئی جس میں ”راجستھان حکومت کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کو کنارے کیا“ کے عنوان سے خبر میں بتایا کہ رام گڈھ کے فساد کے بعد سرکار نے ”راجستھان مسلم فورم“ جیسے ملی اداروں کے سنی صوفی عقائد کے لوگوں کو مسلمانوں سے متعلق سرکاری اداروں کا ذمہ دار بنایا ہے۔ (۱) مدرسہ بورڈ، (۲) اردو اکاڈمی، (۳) راجستھان پبلک سروس کمیشن، (۴) وقف بورڈ اور جھنجنوں کے چیئرمین اور (۵) ریاستی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین سبھی اداروں کے ذمہ دار اور نمائندہ اسی طرز فکر کے لوگوں کو بنایاگیا ہے۔ اس خبر میں بتایاگیا ہے کہ اس خبر پر عام مسلمان ذمہ داروں کا خیال ہے کہ یہ گہلوت سرکار نے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے اور مسلم فورم جیسے ملی اداروں کے خلاف سازش اور سزا کے طور پریہ حرکت کی ہے۔ (دی ہندو دہلی ۵/۱۲/۲۰۱۱/)۔

          ۲۰/دسمبر ۲۰۱۱/ کو ممبئی میں ”سنی مسلمان لاوارث“ آبادی کے تناسب سے نمائندگی دے حکومت کے عنوان سے خبر میں بتایاگیا کہ ممبئی میں آل انڈیا علماء ایسوسی ایشن اور متعدد اہلسنّت تنظیموں کی جانب سے ملک میں مسلمانوں خصوصاً اہلسنّت مسلمانوں کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بھی کم وبیش مندرجہ بالا باتیں دہرائی گئیں۔ مولانا توقیر رضا خاں نے کہا کہ ماضی کی نرسمہا راؤ کی کابینہ میں (جب شہادتِ بابری مسجد ہوئی) جعفرشریف، عبدالغنی خاں چودھری اور ڈاکٹر ابرار احمد سنی خیالات کے وزراء تھے؛ لیکن موجودہ مرکزی حکومت میں نظر انداز کرنے کی پالیسی کے گذشتہ تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ (صحافت دہلی UNI ، ۲۰/۱۲/۲۰۱۱/)۔

          آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ نے ایک میمورنڈم کے ذریعہ وزیراعظم، وزیر داخلہ، گورنر دہلی، سلمان خورشید صاحب، شیلادکشت سے کہا ہے کہ: دہلی وقف بورڈ میں ایسے لوگوں کی تقرری کی جائے جو صوفی سنّی مسلمان ہیں اور اولیاء کرام کے سلسلوں میں داخل ہیں۔ دہلی ریاست میں صوفی سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ایک بہت بڑی تعداد مساجد، مدارس، خانقاہیں اوردرگاہیں ہیں۔ اس کے باوجود ایک بار پھر وقف بورڈ کی تقرری میں اہل سنت والجماعت کی تقرری نہ کرنا حکومت کو مہنگا پڑسکتا ہے۔ وہابی مکتبہٴ فکر کے لوگ وقف بورڈ پر قبضہ کرنے کے بعد جائدادوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں اور سنی صوفی مسلمانوں کو ان کی جگہ سے ہٹاکر وہابیوں کو متعین کیا جارہا ہے۔ لگ بھگ سبھی مسجدوں میں وہابی، دیوبندی مکتبہٴ فکر کے اماموں کو رکھ کر وہاں دیوبندیت اور وہابیت کی تعلیم پھیلائی جاتی ہے اور صوفی سنی مسلمانوں کی امامت کے لیے تقرری بالکل نہیں لی جاتی۔ مطلب یہ کہ سرکاری مشنری،سرکاری مشنری کا استعمال وقف بورڈ کے ذریعہ اپنی خاص فکر کو پھیلانے کے لیے کیا جاتا ہے،اور صوفی سنی عقیدہ کو بالکل ختم کرنے کی سازش کی جاتی ہے۔ اس لیے بورڈ مطالبہ کرتا ہے کہ وقف بورڈ کا چیئرمین اور کارکنان صوفی سنی مسلمانوں کو بنایا جائے اورابھی حال میں ہی جتنی نامزدگیاں دیوبندیوں، وہابیوں کی ہوئی ہیں ان کو ردّ کرکے ان کی جگہ صوفی سنی مسلمانوں کی تقرریاں کی جائیں۔ (حالاتِ وطن دہرہ دون، ہمارا سماج نئی دہلی بحوالہ A.U.S. دہلی، دہرہ دون ۱۶/۱۲/۲۰۱۱/)۔

          ۲۱/دسمبر ۲۰۱۱/ کو سنی علماء فیڈریشن کے ذریعہ غالب اکیڈمی دہلی میں ملّی مسائل پر دیگر مسلمانوں سے بالکل الگ ہوکر لڑائی کی روایت زندہ کی گئی، جو مبینہ طور پر مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے والی ہے، سنی علماء فیڈریشن کے جنرل سکریٹری غلام عبدالقادر حبیبی نے منظم کیا تھا، جس میں مولانا توقیر رضا خاں، مفتی مکرم احمد صاحب، مولانا حسین صدیقی رضوی صاحب، مفتی عبدالمنان کلیمی صاحب، مولانا سہیل قادری صاحب وغیرہم موجود تھے۔ تمام علماء نے ملّی مسائل کو مسلک تک خاص رکھا اور سنی طبقہ کے مفاد اور حقوق کی لڑائی کی بات کی۔ اور مانگ کی کہ مرکزی وزارت میں ۶-مسلمانوں کو جگہ ملنی چاہیے، جن میں سے ۳ پر بریلوی طبقہ کا ریزرویشن ہونا چاہیے۔ راجیہ سبھا سرکار کے تحت مسلم اداروں، کمیشنوں، کمیٹیوں، مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن، وقف کونسل اور سرکاری ونیم سرکاری اداروں میں بریلوی طبقہ کی نمائندگی کا مطالبہ کیاگیا۔ (ہمارا سماج ۲۲/۱۲/۲۰۱۱/ نئی دہلی)

          ۲۳/۱۲/۲۰۱۱/ کے دہلی کے تمام اخباروں میں ”پاکستانی طالبان نے صوفیاء کے مزارات کو نفرت کا نشانہ بناکر دوسروں کے ساتھ اپنوں کو بھی دشمن بنالیا“ کے عنوان سے شائع خبر میں بتایاگیا کہ محض مسلکی اور فکری اختلاف کی وجہ سے صوفیوں کے مزارات کو حملوں کا نشانہ بنانا طالبان کا نیا حربہ ہے۔ انتہاپسند طالبان نے اسکولوں، موسیقی کی دوکانوں، مزارات کو تباہ کیا۔ شیخ بہادر بابا کے مزارکو دھماکوں سے اڑانا ایک ناقابلِ برداشت عمل رہا ہے۔ صوبہ خیبرکے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کے مطابق ان کی حکومت نے مزارات کی دوبارہ تعمیر کے لیے آٹھ لاکھ ڈالر مختص کیے ہیں۔ (ہمارا سماج نئی دہلی ۲۳/۱۲/۲۰۱۱/ بحوالہ UNI) اس کے دو تین روز کے بعد ہی ۲۴/۱۲/۲۰۱۱/ کو روزنامہ صحافت نے اے․ یو․ ایس کے حوالہ سے بنگلہ دیش میں انتہاپسندی کا رسوخ بڑھ رہا ہے کے عنوان سے خبرلگائی اور بتایا کہ پچھلے کئی سالوں سے بنگلہ دیش بھی انتہاپسندوں کے اثر میں آرہا ہے اور وہاں کے گنگاجمنی تہذیب پر اس کے اثرات پڑرہے ہیں۔ بنگال کی تقسیم سے پہلے اس خطہ میں صوفی اور سنتوں کا زبردست اثر رہا ہے، اسی وجہ سے ہندو اور بدھسٹ کے پیروکاروں کے علاوہ بہت سارے مذاہب کے لوگ ان کے زیراثر آگئے؛ لیکن اہل حدیث طبقہ اور جماعت اسلامی کا اثر ورسوخ پورے ملک میں بڑھ رہا ہے۔ اس تنظیم نے صوفی سنتوں کے خلاف ایک مہم بھی چلائی ہے اور لوگوں کو درگاہوں پر جانے سے منع بھی کیاہے، اس کی بدولت بنگلہ دیش میں بہت سی تنظیمیں وجود میں آگئی ہیں جنھوں نے مغرب اور اسرائیل کے خلاف اپنی مہم تیز کردی ہے، بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے اس ملک میں سیکولرزم اور اعتدال پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کی، عوامی لیگ کے دوبارہ برسرِاقتدار آنے کے بعد ملک کی کچھ تنظیموں نے عوامی لیگ کو کنارہ کش کرنے کے لیے مذہب کا بھی استعمال کیا اور ہندوستان کو دشمن کے طور پر بھی پیش کیا؛ لیکن یہ طاقتیں انتخابات میں عوامی لیگ کو ہرانے میں ناکام رہیں۔ (صحافت دہلی ۲۴/۱۲/۲۰۱۱/)

          ہمارے ملک کے اسلام دشمن میڈیا نے اس سلسلہ میں لگائی بجھائی کا پورا حق ادا کیاہے۔ T.Vاوراخبارات میں انتہاپسند اسلام، صوفی اسلام، روادار اسلام، اعتدال پسند اسلام اور روحانیت جیسے طرح طرح کی اجنبی اصطلاحیں وضع کرکے فروغ دی جارہی ہیں۔ ملک کے سب سے اہم انگریزی روزنامہ میں سے ایک ٹائمس آف انڈیا کی ۴/دسمبر کی اشاعت میں تقریباً آدھے صفحہ میں نامہ نگار راکھی چکرورتی نے ”صوفیوں کا جوابی حملہ“ اور ”وہ اسلام کو بھارت سے الگ کرنا چاہتے ہیں“ کے عنوانات سے ”وہابی اسلام“ پر مولانا وحیدالدین خاں، پروفیسر امتیاز احمد، مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ تاریخ ارشدعالم وغیرہ کے خیالات شائع کیے ہیں اور بتایا ہے کہ جنوری ۲۰۱۱/ میں نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ خبر کے مطابق حکومت امریکہ نے مزارات کی مرمت کے لیے پاکستان میں ۱۵/لاکھ ڈالر کا تحفہ حکومتِ پاکستان کو دیا ہے۔

          ارشدعالم صاحب جیسے استاذ اگر جامعہ ملیہ میں تاریخ پڑھاتے ہیں تو وہ یقینا طلباء کو تعصب آمیز علم بانٹ رہے ہوں گے۔ فرماتے ہیں دیوبندی مزاروں پر جانے کو منع کرتے ہیں، سعودی عرب وہابی ازم پھیلاتا ہے جس سے مسلمان اپنے مقامی تشخص سے کٹ جاتے ہیں، اسلامی اصلاح پسندی کا مطلب ہندوستانی اسلام میں سے ہندوستانیت کی تطہیر کرنا ہے جس کے خطرناک نتائج معاشرتی تکثیریت کے لیے نکل رہے ہیں، پروفیسر امتیاز احمد صاحب فرماتے ہیں دیوبندی درگاہوں اور مزاروں پر جانے اور برکت حاصل کرنے کو بدعت خیال کرتے ہیں؛ مگر عام ہندوستانی مسلمان اس فکر سے متاثر نہیں ہے وہ آج بھی مذہبی شخصیات والے اسلام میں سکون حاصل کرتے ہیں، دیوبندیت دراصل وہابیت کے باقیات کی مجسم شکل ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں فرماتے ہیں کہ ہندوستان کے ٪۹۵ مسلمانوں کے اجداد ہندوتھے؛ اس لیے ان میں ہندو اثرات غالب ہیں، جس کی بنیاد برداشت اور رواداری ہے۔ انتہاپسندی کے فروغ کے لیے مسلم اکثریتی ملک ہی موزوں ہوسکتا ہے۔ (ٹائمس آف انڈیا، دہلی ۴/۱۲/۲۰۱۱/)

          دنیا میں بدامنی اور تشدد کی اصل وجوہات کی طرف سے انصاف پسند انسانوں کی توجہ ہٹانے کے لیے اور اپنی غلامی اور لوٹ کھسوٹ دنیا پر مسلط رکھنے کے لیے اسلام کو صدیوں سے تختہٴ مشق بنایا جاتا رہا ہے، کہا یہ جاتا ہے کہ اسلامی عقیدہ میں، علیحدگی پسندی، انتشار تشددپسندی کی اصل وجہ ہے، اس کی تعلیمات کی وجہ سے مسلمان غیراقوام کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرپاتے اور یہ سب ”وہابی اسلام“ سیاسی اسلام“ عسکری اسلام“ کی وجہ سے ہورہا ہے، مغربی اورہندوستانی اسلام دشمن مورخین، کالم نگار اور دفاعی ماہرین تسلسل سے اسلام پسندی کی بڑھتی لہر کے لیے شاہ ولی اللہ، سید قطب شہید اور مولانا مودودی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ انھوں نے سیاسی اسلام کی فکر کو ہوادی اوراس کا مقابلہ کرنے کے لیے ”اعتدال پسند“ ”تکثیریت حامی اسلام“ اور ”صوفی اسلام“ کو فروغ دینا ضروری ہے۔ اسی غرض سے دنیا بھر میں اسلامی معاشروں میں ”مقامی کلچر“ اور رسومات کے فروغ کے نام پر مخالف اسلام تعلیمات اور رسوم ورواج کو بڑھاوا دیا جارہا ہے، انڈونیشیا، افریقی ممالک، عرب ممالک، ایشیا ہر جگہ ثقافت وتہذیب کے نام پر شرک، بے حیائی، بدعملی، جنسی اختلاط، ناچ گانے کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ”صوفی اسلام“ کو جس طرح صرف درگاہوں اورمزاروں اور قوالیوں تک محدود کیاجارہاہے، یہ خود ایک بہت بڑا مغالطہ ہے جو اصل ”صوفیت“ طریقہٴ سلوک اور احسان کی جڑ کاٹنے کے لیے دیا جارہا ہے، جو راہِ سلوک واحسان، دراصل اسلام پر غایت درجہ عمل، اللہ رب العالمین پر بے پناہ توکل اوراس سے شدید محبت اور دنیا سے بے رغبتی کی اعلیٰ تعلیمات واخلاق کے لیے جانا جاتا تھا، اسے صرف میلوں، ٹھیلوں اور قوالیوں کے مترادف قرار دینے کے پیچھے منشا صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ کی کامیابی جو کہ صرف اللہ کی مدد کے ساتھ مشروط ہے اور اللہ کی مدد دین پر عمل کرنے اور دین کی نصرت کرنے سے مشروط ہے، اُس بنیاد کو ڈھادیا جائے۔ امت کو اللہ تبارک وتعالیٰ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہٴ کرام اور اولیائے امت کے پسندیدہ عقیدہ اور اعمال سے منحرف کرکے خرافات، استیصال پسند رسومات و توہمات میں غرق کردیاجائے اور سیدھے سادھے عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کے بہانہ ”مقامی تہذیب اور رسومات“ اور ثقافت کے نام پر ایجاد کرکے مشرکانہ مذاہب کی طرح ایک مذہبی پاپائیت یا برہمنیت قائم کردی جائے۔

          اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا، اُس کو کرامت اور بزرگی عطا کی ، اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین آسان ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عملاً کون سا دین آسان ہے؟ اسلام میں زندگی کے کسی بھی مرحلہ؛ پیدائش، ختنہ، عقیقہ، نکاح، موت میں کسی پنڈت کی ضرورت نہیں ہے، کان میں اذان کوئی بھی نیک انسان پڑھ سکتا ہے، عقیقہ ختنہ میں بھی کوئی بچولیا، درکار نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ جو لوگ خواتین کے حقوق ان کی عزت، حفاظت اور ا ٓزادی کی بات کرتے ہیں، انھیں غور کرنا چاہیے کہ منگنی، رخصتی، جہیز، تلک، جوتا چھپائی، چھوچھک جیسی خرافات اگر ”کلچر“ اور ”گنگاجمنی“ تہذیب والا اسلام مان لیا جائے تو ان خرافات کی منحوسیت سے ہی کروڑوں معصوم لڑکیوں اور خواتین کو ہر طرح کے استحصال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، انھیں رسومات کے بوجھ نے امت مسلمہ کے کروڑوں والدین کی زندگی کو زہربنادیا ہے ”سادہ اسلام“ میں نہ جہیز نہ تلک نہ چھوچھک اوپر سے مہر کی نقد ادائیگی اور وراثت میں خواتین کا حصہ ملتا ہے، سب کی زندگی میں اطمینان اور سکون اور معاشرہ کو ہزار طریقہ کے امراض، جرائم اور مسائل سے نجات دیتا ہے۔ حضرت ربعی بن عامر نے رستم کے دربار میں رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا مقصد بتایا کہ ”لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں اور دوسرے ادیان کے جور وظلم سے نکال کر اسلام کے عدل میں لانے کے لیے دعوت دیتے ہیں۔“ سورہ الاعراف میں آ یت نمبر ۱۵۶ میں بتایاگیا ہے کہ : ”حکم کرتا ہے ان کو نیک کام کا، منع کرتا ہے برے کام سے، حلال کرتا ہے پاک چیزیں اورحرام کرتا ہے ناپاک چیزیں اور اتارتا ہے ان پر سے ان کے بوجھ اور وہ قیدیں جو ان پر تھیں“۔ (الاعراف ۱۵۶) نصاریٰ نے دین کے نام پر اپنے آپ اپنے اوپر جو چیزیں حرام کرلی تھیں یا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں، ان کے بارے میں قرآن کا کھلا اعلان ہے کہ ترک دنیا جو انھوں نے اپنی طرف سے ایجاد کرلیا تھا ہم نے نہیں لکھا تھا۔ (الحدید۲۷) حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری فرماتے ہیں ”اخلاق کی تکمیل یہ ہے کہ سالک اپنے ہر کردار میں شریعت کا پابند ہو جب اس سے کوئی بات خلاف شریعت نہ ہوگی تو وہ دوسرے مقام پر پہنچے گا جس کا نام طریقت ہے جب اُس میں ثابت قدم رہے گا تو معرفت کا درجہ حاصل کرے گا۔ جب اس میں بھی پورا ترے گا تو حقیقت کا رتبہ پائے گا۔ حضرت نے فرمایا نماز رکن دین ہے اور رکن وستون مترادف ہیں اگر ستون قائم رہے تو گھر کھڑا رہے گا اور جب ستون ہی گرجائے گا تو گھر بھی گرجائے گا۔ فرماتے ہیں حاجت مندوں کی مدد کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔اگر کوئی شخص اوراد اور وظائف میں مشغول ہو اور کوئی حاجت مند آجائے تو لازم ہے کہ وہ اوراد ووظائف چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو اور اپنے مقدور کے مطابق اس کی حاجت پوری کرے۔ فرمایا افضل ترین زہد موت کو یاد کرنا ہے۔ جھوٹا، خیانت کرنے والا اور کنجوس جنت کی بوتک نہ پائیں گے۔ ”بزم صوفیہ“ از مولانا سید صباح الدین عبدالرحمن، نام نہاد صوفی اسلام جس کو رسول مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ پر کھڑا کیا جارہا ہے اس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ اس میں بندوں سے محبت کا پیغام ہے یہ کسی سے تفریق نہیں کرتا؛ مگر یہ سب تو عام مسلمان بھی جانتا ہے کہ یہ تعلیمات اسلام کا بنیادی حصہ ہیں، اللہ رب العالمین اوراللہ رحمن ورحیم اور رسول رحمة للعالمین اورامت مسلمہ خیرامت برائیوں سے روکنے والی اور بھلائیوں کا حکم دینے والی ہے؛ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ شرک، کفر، ظلم، نافرمانی، سود، زنا پر سزا نہیں دے گا یا امت مسلمہ کو ان برائیوں پر گرفت نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ اور رسول کے احکامات چھوڑ کر بندوں کو خوش کرنے کے لیے دہلی کے مشہور صوفی شاعر مرزا بیدل کا واقعہ یاد آرہا ہے جب ان کے ایک ایرانی معتقد نے دہلی میں ان سے ملاقات کی اور انھیں حجام کی دوکان پر داڑھی منڈاتے دیکھا تو ان کے ذہن میں جو تصور تھا کہ جس شاعر کا کلام عرفانِ خدا سے اتنا معمور ہے، وہ داڑھی منڈارہا ہے تو انھوں نے مرزا سے کہا تو مرزا نے جواب دیا کہ داڑھی منڈا رہا ہوں کسی کے دل پر تو استرا نہیں چلا رہا ہوں اس پر ایرانی معتقد نے کہا: ہاں، مگر انسانیت کی سب سے حساس شخصیت کے دل پر تو استرا چلوارہے ہو، یہ سننا تھا کہ مرزا بیہوش ہوگئے اور جب ہوش میں آئے تو پھر سنتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا اور اس شرک کی بنیاد پر اٹھنے والی تہذیب کے ہر خلافِ شرع رسوم ورواج سے بچنے کی تاکید کی مثلاً ۱۰/محرم الحرام کے روزہ کو اپنایا مگر یہودیوں سے مخالفت کے لیے، ۹ یا۱۱/محرم الحرام کو بھی روزہ رکھنے کے لیے کہا اور خلاف شرع عنصر سے پرہیز کرایا۔

          اس بحث میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا لوگوں کی خوشی یا ناراضگی کا لحاظ کرکے امت مسلمہ کو خیرامت کے تقاضے پورے نہیں کرنے چاہئیں، لوگوں کو برا لگے گا اس لیے شرک، بت پرستی، بے حیائی، سود، زنا، جوا، شراب، قتل اولاد اور نسل، وطن ، زبان وغیرہ کے نام پر پھیلائے گئے جنون کو بُرا نہ کہیں ان کی مشرکانہ رسوم میں شریک ہوں غیر اللہ کے نام پر چڑھائے گئے پرساد وغیرہ کھائیں اور انھیں ان کی گمراہیوں، بداعمالیوں، خرافات، رسوم ورواج میں مست رہنے دیں تو کیا یہ رویّہ ان کروڑوں بندگانِ خدا کے ساتھ ہمدردی اور بھلائی وخیرخواہی کا رویّہ ہوگا؟ جس پڑوسی، دوست، ہم سفر کے ساتھ ہمیں ہمدردی، محبت اوراس کی خوشی ناخوشی کا خیال ہے ہم اس کو ہمیشہ کی ناکامی، قبر کی ناکامی، جہنم کی ہولناکیوں، جنت کی نعمتوں اور اللہ کی رضا اور اُس کے دیدار کے مزہ اور سرور سے واقف نہیں کرائیں گے؛ کیوں کہ اس کو برا لگے گا؟ ہم شوگر کے مریض کو میٹھا کھلائیں گے ہم بلڈ پریشر والے کو قورمہ کھلائیں گے، ہم گڑھے کی طرف جانے والے کو نہیں بتائیں گے کہ آگے گڑھا ہے، ہم زنا کرنے والے کو شراب پینے والے کو جوا کھیلنے والے کو نہیں روکیں گے؛ کیوں کہ ان کو برا لگے گا تو کیا یہ رویّہ ہمارے صوفیائے کرام اور صلحائے عظام کا تھا؟ کیا اس روّیہ کو اسلامی، انسانی، ہمدردانہ، سوفیانہ رویّہ کہا جاسکتا ہے؟ کیا انبیاء کرام علیہم السلام اپنے اعزہ، اقرباء، رشتہ داروں، ہمسایوں سے تمام تر تعلقات کے باوجود ان کو حق کی دعوت بلا ان کی خوشی ناخوشی کا خیال کیے نہیں دیتے تھے؟ آج پروپیگنڈہ کے بل بوتے پر تکثیریت Pluralism ، رواداری Tolerance، اعتدال پسندی اور پرامن بقائے باہم Peactul co-existenceکے نام پر امت مسلمہ کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کی طرف، انسانی بھائی چارہ اور مساوات کی طرف توحید کی طرف نہ بلائے، اور یہ گلی سڑی مغربی، امریکی تہذیب امریکن طرز زندگی American way of life کے نام پر دنیا میں زنا، شراب، بے حیائی، عریانیت، سودخوری، قتل اولاد، ذخیرہ اندوزی، رشوت خوری کی تہذیب کو آزادی، جمہوریت، خوشحالی، مساوات، حقوق نسواں کے خوشنما ناموں کے پردہ میں اپنے نظام تعلیم، اطلاعات، تفریح کے ذریعہ عالم انسانیت پر تھوپتے رہیں اور حق پرستوں کو انتہاپسند، وہابی اور دہشت گرد بتاتے رہیں۔

***

------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ‏، جلد: 96 ‏، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء